شاہدہ نے خودکشی کر لی۔ یہ خبر ملی تو سوچنے لگی کہ وہ اس کے سوا کر بھی کیا سکتی تھی، یہی ایک رستہ بچا تھا اُس کے پاس، زندگی کے دُکھوں سے فرار کا… جاں سے گزر جانا آسان نہیں ہوتا لیکن جس رستے پر وہ عرصے سے چل رہی تھی، وہ بھی کچھ کم کٹھن نہ تھا اور اب تو اس راہ پر چلتے چلتے اس کی رُوح تک تھک چکی تھی۔ ٹانگیں شل اور بدن چُور جو پھوڑے کی طرح دُکھتا تھا، تبھی اس نے خواہش کی، کسی سایے میں بیٹھ کر کچھ دیر آرام کر لے۔ اپنی رُوح کی تھکن اُتار کر کچھ دن وہ زندگی گزار لے جو اس نے خود پر حرام کر لی تھی۔
ایک عرصے سے وہ اپنا سایہ بنی ہوئی تھی۔ اس نے چاہا تھا کہ کوئی اُس کا سایہ بنے پر ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ اس نے اپنے طور پر پوری کوشش کر کے دیکھ لی۔ جب اُمید کی آخری کرن بھی نہ رہی تو اس راستے کا انتخاب کرنا پڑا جو اَجل کے گھور اندھیروں میں جا کر گم ہو جاتا ہے۔ اس نے اپنے ہاتھوں خود موت کو گلے لگا لیا۔ تبھی ہر طرف شور مچ گیا کہ شاہدہ نے خودکشی کرلی ہے۔
جنازے میں شریک افراد سرگوشیوں میں گفتگو کر رہے تھے کہ شاہدہ نے حرام موت کا انتخاب کیا ہے۔ یہ بات کسی کی زبان سے نہیں نکلی کہ اس پر تو زندگی حرام کر دی گئی تھی۔ وہ جب تک سانس لیتی رہی کولہو کے بیل کی طرح آنکھوں پر پٹیاں باندھے ایک دائرے میں گردش کرتی رہی۔ سردی ہو یا گرمی، آندھی ہو یا برسات۔ وہ صبح سویرے گھر سے نکل پڑتی تھی۔ اس کے گھر اور دفتر کے درمیان پورا شہر پڑتا تھا۔ ملیر سے سویرے سات بجے نکلتی تو دفتر نو بجے تک پہنچتی۔ یہی کچھ پھر شام میں ہوتا۔ گھر پہنچتے پہنچتے، اتنی تھک چکی ہوتی کہ بستر ہی اس کی پناہ گاہ ہوتا اور وہ کسی گرتی دیوار کی طرح اس پر ڈھے جاتی تھی۔
اُس کا یہ معمول اُسی دن سے شروع ہوگیا تھا، جس روز اُس نے بی اے کا آخری پرچہ دیا تھا۔ کاش وہ اُس دن امتحانی مرکز جاتےہوئے برابر بیٹھی خاتون کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے اخبار سے وہ اشتہار نہ پڑھتی جسے پڑھ کر، پرچہ دینے کے فوراً بعد، اُس دفتر میں جا پہنچی تھی جو اُس کے امتحانی مرکز کے عین سامنے، سڑک کے دُوسری جانب واقع تھا۔
وہ عام لڑکی ہوتی تو شاید ایسا نہ کرتی، سڑک پار کر کے وہاں نہ جاتی جہاں انٹرویو لیے جا رہے تھے مگر وہ عام لڑکی نہ تھی۔ اُسے اپنے گھر پر منڈلاتے غربت کے اندھیروں کا احساس تھا۔ وہ انہیں دُور کرنے کے لیے کچھ کرنا چاہتی تھی جس طرح اس نے اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کا گلا گھونٹا تھا، جس طرح وقت پر فیس نہ دے سکنے کی وجہ سے اُسے پوری کلاس کے سامنے ہزیمت اُٹھانی پڑتی تھی۔ چاہتی تھی کہ ایسی بے عزتی کا سامنا، اس کے چھوٹے بہن بھائیوں کو نہ کرنا پڑے۔ وہ یہ سوچ کر اس انٹرویو میں شامل ہوگئی تھی کہ شاید اُسے ملازمت پر رکھ لیا جائے۔ چاہتی تھی کہ مہینے کے آخری دنوں میں اُس کی ماں کو پڑوسیوں کے آگے ہاتھ پھیلانے کی شرمندگی نہ اُٹھانا پڑے اور اُس کا باپ بھی چڑچڑے پن کی اُس مستقل کیفیت سے نکل آئے جو گھر کی افسردہ فضا میں مزید بدمزگی کا باعث بنتی تھی۔ جب اس کی ماں اپنے شوہر سے کوئی مطالبہ کرتی تو یہ بدمزگی اور بڑھ جاتی تھی۔
شاہدہ نے مسلسل پیوند لگے یونی فارم اور پھٹے ہوئے جوتوں کی وجہ سے اسکول میں بہت شرمندگی اُٹھائی تھی، اب اُسے گوارا نہ تھا کہ اس کے بہن بھائی اُسی کیفیت سے گزریں اور احساس کمتری میں مبتلا رہیں۔ اُس وقت جب وہ سڑک پار کر رہی تھی، جب وہ دفتر کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی اور جب اس راستے کا انتخاب کر رہی تھی، اُس دم نہیں جانتی تھی کہ سفر کا اختتام اُس کی خودکشی پر ہوگا۔
اُسے اُمید کم تھی کہ سڑک پار کرتے ہی اُس کو ملازمت مل جائے گی، لیکن کبھی کبھی کوئی لمحہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان آرزو کرتا ہے اور وہ پوری ہو جاتی ہے۔ وہ انٹرویو میں کام یاب ہوگئی اور اُسے نوکری مل گئی۔ یہ ناقابل یقین بات تھی مگر شاہدہ نے دن کے اُس لمحے کو اپنے لئے خوش قسمتی ہی سمجھا تھا۔ جب اس نے پرچہ دینے کے فوراً بعد سڑک پار کر کے مذکورہ دفتر میں انٹرویو دیا تھا۔ یہ اچانک کامیابی ایک معجزہ ہی تھی۔ شاہدہ نے جیسا سوچا ویسا ہو گیا تھا۔
اس کی پہلی تنخواہ کے ساتھ ہی گھر کے حالات بدلنا شروع ہوگئے، والد نے گھر واپس آنے کے بعد سگریٹوں کے کش پر کش لگانے کم کر دیئے۔ پڑوسیوں کو بھی قدرے سکون ملا کہ اب ان کے گھر سے اُس طرح کی آوازیں آنا بند ہوگئی تھیں جو سُننے والوں کے کانوں پر گراں گزرتی تھیں۔ وہ بے ہنگم سا شور شرابہ جو بہن بھائیوں کے درمیان مالی پریشانیوں کی وجہ سے برپا رہتا تھا اَب کم ہوگیا تھا۔
گھرمیں تھوڑی سی خوش حالی آئی تو پڑوس کی عورتوں کے مزاج بھی بدل گئے، وہ جو ماں کا چہرہ دیکھتے ہی بڑھتی ہوئی مہنگائی اور کم آمدنی کا قصّہ شروع کر دیتی تھیں، اب شگفتہ لہجے میں باتیں کرنے لگی تھیں، کیونکہ ماں نے مہینے کے آخری دنوں میں ان سے اُدھار مانگنا بند کر دیا تھا۔
کہتے ہیں کہ اچھی صورت بھی کیا بُری شے ہے جس نے ڈالی بُری نظر ڈالی۔ یہ مثال شاہدہ پر بھی صادق آگئی وہ خوش شکل تھی۔ لہٰذا پہلی نوکری چار ماہ چل سکی، جس شخص نے اُسے نوکری دی اس نے یہی سمجھا کہ یہ لڑکی مجبور ہے، اس کے جال میں آسانی سے پھنس جائے گی لیکن ایسا نہ ہوسکا، شاہدہ نے جی ایم صاحب کی نظروں کے انداز کو پہچان لیا اور نئی نوکری کی تلاش شروع کر دی۔ اُس کی خوش قسمتی کہ اسی بلڈنگ کے ایک دفتر میں اسے استقبالیہ پر نوکری مل گئی۔
استقبالیہ پر اُس کا تقرر کرنے والے نئے مالکان بہت مختلف تھے۔ ان کا بزنس بھی کافی وسیع تھا، ان کی نظریں اپنے ہر ملازم کے کام پر رہتی تھیں۔ انٹرویو میں جب انہوں نے سوال کیا کہ وہ اتنی جلدی نوکری کیوں تبدیل کرنا چاہتی ہے تو شاہدہ نے حقیقت من و عن بیان کر دی۔ اپنے گھر کی معاشی مجبوریوں کے ساتھ سابقہ جی ایم کی میلی نظروں کے بارے میں بھی کھل کر بتا دیا۔ تبھی کسی توقف کے بغیر اُسے نوکری مل گئی۔ اس بار تنخواہ پہلے سے زیادہ تھی۔
گھروالوں کو نئی نوکری کا علم اس وقت ہوا جب وہ تنخواہ ملنے کے بعد، رنگین ٹی وی کے ساتھ گھر پہنچی۔ اگرچہ ٹی وی نیا نہیں تھا، بلکہ دفتر کی ایک ساتھی خاتون سے اس نے دو قسطوں میں ادائیگی کے وعدے پر خریدا تھا۔ یہ قسطیں وہ نئی تنخواہ سے ادا کرسکتی تھی۔
ٹی وی پر پہلا اور آخری اعتراض اُس کی ماں نے کیا۔ اس نے اسے فضول خرچی کہا۔ لیکن شاہدہ کی اس دلیل کے بعد کہ میں گڈو اور ببلی کو پڑوس میں ٹی وی دیکھنے کے شوق میں ذلیل ہوتا نہیں دیکھ سکتی۔ وہ بھی خاموش ہوگئیں۔
شاہدہ کو اندازہ نہ تھا کہ ایک چھوٹا سا ڈبہ اس قدر تبدیلی لا سکتا ہے کہ گھر کا ماحول ہی بدل جائے۔ ماں کو دن کی مصروفیت مل گئی تھی تو ابّا بھی گھر آنے کے بعد ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے۔ یوں پہلے جو وقت اختلافی باتوں میں صرف ہوتا تھا، وہ اب ٹی وی کے سامنے رسان سے گزر جاتا، البتہ، شاہدہ کی بے آرامی میں اضافہ ضرور ہو گیا تھا۔ دفتر وقت پر پہنچنے کی خاطر، صبح جلدی اُٹھنے کے لئے رات جلد سونا ہوتا تھا لیکن ٹی وی کی تیز آواز اور گھر والوں کا شور اُسے سونے نہ دیتا، تاہم اس نے کسی سے شکایت کرنے کی بجائے خود کو شور میں سونے کا عادی بنانا شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ وہ شور میں سونے کی عادی ہوگئی۔
شاہدہ نے جب نئی نوکری جوائن کی تو اس کی واحد خوشی یہ تھی کہ اُسے اُس ناپسندیدہ ماحول سے نجات مل گئی جہاں باس کی نظروں میں ہوس ناکی دکھائی دیتی تھی، جبکہ نئی کمپنی کے مالکان شریف لوگ تھے، ان کے لہجوں میں اپنے تمام کارکنان کے لئے تکریم ہوتی تھی چونکہ شاہدہ نے پہلے دن ہی نوکری چھوڑنے سے لے کر اپنے معاشی حالات کے بارے میں سب کچھ سچ بتا دیا تھا، اس کی صاف گوئی اور سچائی نے بھی مالکان کی نظروں میں توقیر پائی تھی۔ وہ اس بات سے ناواقف تھی کہ تین ماہ بعد مستقل کئے جانے پر اُصول کے مطابق اس کی تنخواہ میں کچھ اضافہ ہوگا۔
تین ماہ کا عرصہ مکمل ہوا تو ایم ڈی صاحب نے اُسے مستقل کر دیا اور ساتھ تنخواہ میں اضافے کا لیٹر بھی دے دیا جو اصل تنخواہ کا پچاس فیصد تھا۔ لیٹر دیتے وقت یہ نصیحت کی کہ اب تک تم جو تنخواہ گھر پر دیتی رہی ہو، وہ ضرور دیتی رہو لیکن آج جو اضافہ ہوا ہے اس کے لئے اپنا ایک الگ اکائونٹ کھلوا لو اور اسے جمع کرتی رہو تاکہ کبھی انتہائی ضرورت پڑ جائے تو تمہیں کسی اور جانب دیکھنے کی حاجت نہ ہو۔
شاہدہ کو یہ نصیحت اچھی لگی۔ اس نے اگلے دن اکائونٹ کھلوا لیا۔ رقم کچھ زیادہ نہیں تھی، لیکن ہر ماہ اس میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ اُس کے اعتماد میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ چھ ماہ بعد اُس کا ٹرانسفر ایم ڈی آفس میں کر دیا گیا جہاں کام پہلے کی نسبت کم تھا مگر تنخواہ دُگنی ہوگئی۔ ایم ڈی صاحب اکثر دوروں پر رہتے، اس دوران اُسے برائے نام کام کرنا ہوتا۔ اکائونٹ میں بڑھتی رقم نے اُسے کچھ اور ہی خواب دکھانے شروع کر دیئے۔
ملازمت پکی ہونے کے ساتھ گھر کا ماحول تو بدلا ایک اور فرق بھی واضح ہوگیا کہ وہ رشتے دار جو صاحب حیثیت تھے اور شاذ و نادر ہی ملتے تھے اب زیادہ آنے لگے۔ وہ خوش تھی کہ گھر میں خوشیاں لا رہی ہے، تاہم بڑھتی ہوئی اس مہمان داری نے اس کے والدین کے لئے ایک نئی پریشانی پیدا کر دی تھی۔ ایک روز جب وہ دفتر سے گھر آئی تو ماں کو کہتے سُنا کہ جسے دیکھو میری شاہدہ کے لئے اپنے ناکارہ بیٹے کا رشتہ لے کر آجاتا ہے۔ تب شاہدہ نے یہ کہہ کر والدہ کی پریشانی دُور کر دی کہ امی جان… جب تک کمال اور جمال کسی قابل نہیں ہو جاتے اور ببلی کی بھی شادی نہیں ہو جاتی میں اپنی شادی کے بارے سوچ بھی نہیں سکتی۔
دفتر کے دو چار ساتھیوں اور چند رشتے دار لڑکوں نے جیون ساتھی بن جانے کی غرض سے اس کی طرف بڑھنے کی کوشش کی لیکن اس کے ذہن میں اپنا مقصد واضح تھا، اس نے کسی کو آگے نہیں بڑھنے دیا۔ امتیاز ایک ایسا شخص تھا جس کے بارے میں وہ سوچنے پر مجبور ہوئی چونکہ عرصےتک وہ اپنی اس بات پر قائم رہا کہ اگر تم چاہو تو شادی کے بعد بھی ملازمت جاری رکھنا اور تنخواہ گھر والوں کو دیتی رہنا۔
آج تم یہ کہہ رہے ہو لیکن نئی زندگی کی اپنی ضروریات ہوتی ہیں، کل تم بدل بھی سکتے ہو۔ میں یہ رسک نہیں لے سکتی، اس نے اپنا فیصلہ سُنا دیا۔ امتیاز نے بہت تفصیل سے اپنے بارے میں بتایا تھا، اُس کا تعلق ناردرن ایریا سے تھا۔ باپ کی وفات کے بعد ماں کی دُوسری شادی کر دی گئی، سوتیلے باپ کا سلوک روایتی انداز کا تھا، جسے وہ کچھ عرصے ہی برداشت کر سکا اور جب موقع ملا تو چپکے سے کراچی چلا آیا۔ جہاں اس کے گائوں کے لوگ موجود تھے، تاہم اُسے صرف چند دن سر چھپانے سے زیادہ مدد نہ ملی۔
امتیاز نے ہمت نہیں ہاری۔ اس نے تعلیمی سلسلہ جاری رکھا اور ساتھ محنت مزدوری بھی کرتا رہا۔ پرائیویٹ بی کام کیا اور ایک کمپنی میں بطور اکائونٹ کلرک بھرتی ہوگیا۔ شاہدہ سے ملاقات ہوئی تو ہوٹل کی بیراگیری سے ابتدا کرنے والا، اس کمپنی کا منیجر اکائونٹس تھا۔ اس کا اپنا فلیٹ اور گاڑی تھی۔ تعلیمی سلسلہ بھی جاری تھا۔ امتیاز نے اپنے علاقے سے تعلق توڑ لیا تھا صرف ایک بار اپنی والدہ کی وفات پر گیا تھا۔ سوتیلے باپ نے ٹوٹے رشتے کو جوڑنے کی کوشش کی لیکن امتیاز کے ذہن میں آج بھی وہ واقعات تازہ تھے جن کی وجہ سے وہ اپنا گائوں اپنی ماں اور گھر بار سبھی کچھ چھوڑ کر آ گیا تھا۔
امتیاز نے ایک بار اور کوشش کی کہ شاہدہ مان جائے، جب اس کے کاغذات امریکن امیگریشن کے لئے منظور ہوگئے تو اس بار شاہدہ کے پاس یہ جواز تھا کہ وہ اپنے خاندان سے اتنی دُور نہیں رہ سکتی۔ امتیاز نے سمجھانا چاہا کہ اگر وہ امریکن شہری ہوگئی تو اس کے بھائی بھی آسانی سے وہاں آ سکیں گے لیکن وہ نہ مانی۔
امتیاز جب تک پاکستان میں رہا اپنی بات دُہراتا رہا لیکن امریکہ جانے کے بعد اس نے شاہدہ سے پھر کوئی رابطہ نہ رکھا۔ امتیاز کے بارے میں شاہدہ کا فیصلہ صرف اس کا فیصلہ نہیں تھا، اُس کی ماں کے مشورے بھی اس فیصلے میں پوری طرح شامل ہوتے تھے۔
ماں کو خدشہ تھا کہ ایک بار شادی ہوگئی تو حالات بدل جائیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو اس کی بیٹی کا ’’عظیم مشن‘‘ جس کے لئے وہ اتنی محنت کر رہی ہے نامکمل رہ جائے گا بلکہ جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ بھی تباہ ہو جائے گا۔ امریکہ جانے کے بعد جب عرصے تک امتیاز نے رابطہ نہ کیا تو شاہدہ کو یقین آ گیا کہ ماں سچ کہتی تھی، وہ ویسا نہیں تھا جیسا خود کو پوز کیا کرتا تھا۔
گیارہ برس بعد ایک دن وہ واپس آ گیا۔ شاہدہ نے اُسے دیکھا تو حیران رہ گئی۔ گیارہ برسوں میں سوائے وزن میں کچھ اضافے کے اور کوئی تبدیلی اس میں نہیں آئی تھی۔ تاہم دفتر میں شاہدہ کی پوزیشن بدل چکی تھی اور اب وہ وہاں اسسٹنٹ جنرل منیجر تھی اور بھی بہت کچھ بدل چکا تھا۔ اب اس کا خاندان ملیر کی نواحی بستی سے نکل کر ایک پوش قسم کے علاقے میں سکونت پذیر ہو چکا تھا اور یہ مکان کرائے کا نہیں بلکہ ان کا ذاتی تھا جو شاہدہ نے اپنی بچت سے والدہ کے نام پر خریدا تھا۔ بہت کچھ بدل گیا تھا مگر شاہدہ کا معمول نہیں بدلا تھا جونوکری کے پہلے دن سے شروع ہوا تھا۔ وہ کولہو کے بیل کی طرح آج بھی گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر تک محدود تھی۔
امتیاز کی زندگی میں جو دُوسری قابل ذکر تبدیلی آئی تھی وہ اس کی آٹھ سالہ بیٹی تھی، جسے وہ امریکہ سے اپنے ساتھ لایا تھا۔ اس کے بارے میں اس نے بتایا تھا کہ ٹریسا نامی ایک خاتون سے شادی کی تھی۔ یہ شادی دو برس بھی نہ چل سکی۔ تب اُس نے سات برس تک اپنی بیٹی مریم کو ماں اور باپ دونوں کا پیار دیا تھا۔ وطن واپسی آنے کا فیصلہ اس لئے کیا کہ دل کا دورہ پڑا تو سوچا کہ اگر یہاں مر گیا تو اس بچی کا کیا بنے گا۔
دُوسری ملاقات میں امتیاز نے اپنی گفتگو کا سلسلہ وہیں سے جوڑا جہاں سے چھوڑ کر گیا تھا۔ واپسی کی پہلی سوچ کے ساتھ میرے ذہن میں تمہارا تصور اُبھرا تھا۔ امتیاز نے کہا تو شاہدہ ایک بار پھر سوچنے پر مجبور ہوگئی۔ اس کی کچھ ملاقاتیں مریم سے بھی ہوئیں اور اس نے محسوس کیا کہ مریم نے اُسے مسترد نہیں کیا، تبھی شاہدہ نے وہ خواب پھر سے دیکھنے شروع کر دیئے جنہیں اس کی آنکھیں فراموش کر چکی تھیں۔
ان گیارہ برسوں میں یوں بھی بہت کچھ بدل چکا تھا۔ کمال شادی کے بعد دبئی چلا گیا اور جمال تین ماہ میں اُس گھر میں شفٹ ہوگیا جواس کی بیوی جہیز میں لائی تھی۔ بہن کی شادی بھی ہوچکی تھی، صرف ببلی اور گڈو رہ گئے تھے۔ ببلی کے رشتے کی بات چل رہی تھی اور گڈو کا فائنل ایئر تھا اور اس نے ابھی سے اپنی ایک کلاس فیلو کے بارے میں اشارہ دے دیا تھا۔
اب منزل قریب تھی، شاہدہ کا خیال تھا کہ اس کی والدہ کو امتیاز کے لوٹ آنے پر خوشی ہوگی۔ اُس کی حیرت کی انتہا نہ رہی، جب بہن بھائیوں کے ساتھ ماں کی طرف سے بھی، امتیاز سے شادی پر اعتراضات ہونے لگے۔ بھائیوں نے کہا کہ وہ ایک بیوی کو طلاق دے چکا ہے اور ایک بچی کا باپ بھی ہے۔ بہن نے کہا، دل کا مریض ہے ایک دورہ پڑ چکا ہے، ایسے آدمی سے شادی کرنا رسک کے مترادف ہے۔
یہ اعتراضات آپ کو پہلے تو نہیں تھے۔ اس نے پہلی بار سخت لہجہ اختیار کیا۔ آج اسے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ وہ تنہا ہے اور سب گھر والے اُس کے مخالف ہیں۔ اس نے ماں سے کہا کہ وہ ملازمت کرتے کرتے تھک گئی ہے اور اب شادی کر کے باقی زندگی آرام سے گزارنا چاہتی ہے۔ دبے لفظوں میں یہ بھی جتلا دیا کہ جس حد تک ذمے داریاں نبھا سکتی تھی نباہ چکی اور اب کچھ فرض ان پر بھی ہے جو اپنے پیروں پر کھڑے ہو چکے ہیں۔ اُسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اس کی بات کا کسی پر کوئی اثر نہیں ہوا۔
شاہدہ نے اگلے روز یہ تمام صورت حال امتیاز کے سامنے رکھ دی۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ پہلے مرحلے میں امتیاز اس کے والد اور بھائیوں سے ملاقات کرے، اگر ان کے رویئے یہی رہے تو پھر دونوں کو کورٹ میرج کر لینی چاہئے۔
امتیاز، بیٹی کے ہمراہ شاہدہ کے والد سے ملنے آیا تو اُس کے بھائیوں نے نہ صرف انکار کیا بلکہ اُسے دھمکی دی کہ اگر کوئی دُوسرا رستہ اختیار کرنے کے بارے میں سوچا تو وہ اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ شاہدہ کو یہ توقع نہ تھی کہ اس کے گھر والے اس کی تمام قربانیاں فراموش کرکے اس کی خوشیوں کے سامنے دیوار بن جائیں گے۔
اپنے والد اور بھائیوں کے رویئے کا اُسے بہت دُکھ ہوا۔ امتیاز کے بے عزت ہو کر گھر سے جانے کے بعد اس نے ماں کے ذریعے گھر والوں کو اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا۔ تاہم گھر والوں پر اس بات کا کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ جواب ملا کہ کسی صورت وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
شاہدہ گھر والوں کے رویئے سے مایوس تو بہت ہوئی لیکن اس مایوسی نے اس میں ایک نیا حوصلہ پیدا کیا۔ اگلی شام جب وہ امتیاز سے ملی تو اُسے بدلا بدلا پایا۔ بالآخر اس نے بتایا کہ صبح تمہارے بھائی اور بہنوئی آئے تھے،ان کے ساتھ کوئی ڈی ایس پی صاحب تھے شاید تمہارے بہنوئی کے بھائی تھے۔ انہوں نے تمہارا نکاح نامہ میرے سامنے رکھا جس کے مطابق تم کسی محمد طفیل کی منکوحہ ہو۔
یہ سُن کر وہ چیخ پڑی۔ یہ جھوٹ ہے۔ اس کا انداز یقین دلانے والا تھا، تبھی امتیاز کے چہرے پر تلخ مسکراہٹ آ گئی۔ انہوں نے بھی یہی کہا تھا کہ یہ نکاح نامہ جھوٹا ہے۔ وہ حیرت سے اُسے دیکھنے لگی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس جھوٹے نکاح نامے کو عدالت میں جھوٹا ثابت کرنے میں تین سے چار برس لگ جائیں گے۔ یہ کہہ کر امتیاز کچھ دیر کے لئے رُکا اورشاہدہ کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں اُسے دیکھتی رہی۔
اُن کا کہنا تھا جب تک کیس چلے گا، ہم دونوں جیل میں ہوں گے، اگر ہم نے کورٹ میرج کرلی تو… کیونکہ وہ ہماری ضمانتیں نہیں ہونے دیں گے۔
امتیاز خاموش ہوا تو شاہدہ کا دِل چاہا کہ کہہ دے وہ جیل جانے کے لئے تیار ہے، تاہم ایسا کہہ نہ سکی، لگتا تھا کہ بغیر کہے ہی وہ سمجھ گیا ہے اُس کے دل کی بات۔ تبھی گویا ہوا۔ تمہاری خاطر مجھے جیل جانے میں بھی عار نہیں لیکن اس صورت میں مریم کا کیا ہوگا۔ وہ کس کے پاس رہے گی۔ اس کا، اس دُنیا میں میرے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ اتنا کہہ کر وہ پھر خاموش ہوگیا۔ تب شاہدہ نے سمجھ لیا کہ وہ ہار چکی ہے، اس کے اپنوں نے اُسے ڈس لیا تھا۔
کچھ کہے بغیر وہاں سےاُٹھی اور ریسٹورنٹ سے باہر نکل گئی، جبکہ امتیاز وہیں بیٹھا رہا۔ وہ بہت دُور تک پیدل چلتی رہی، اس نے جان لیا کہ اُس کا ہر خواب کرچی کرچی ہوگیا ہے اور جس شاخ پر آشیانہ بنانے کا سوچ رہی تھی، اب وہ شاخ ہی نہ رہی تھی۔
شکست تسلیم کر کے دوبارہ وہی زندگی گزارنے کے لئے اب وہ بالکل تیار نہیں تھی۔ گھر پہنچی تو اس کے بہنوئی اور بھائیوں کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی، جبکہ ماں نظریں چُرا رہی تھی۔ وہ کچھ دیر تک خاموشی سے ان سب کو دیکھتی رہی۔ اس کے چہرے پر بھی ایک عجیب انداز کی مسکراہٹ آ گئی۔
مان لیتی ہوں کہ ہار گئی ہوں مگر جیتنے تمہیں بھی نہیں دوں گی۔ خود سے اتنا کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔ رات کے کھانے پر بھی اُسے بلانے کوئی نہیں آیا۔
اگلے روز صبح دم ببلی اُسے جگانے آئی کہ اُٹھیے باجی دفتر کے لیے دیر ہو جائے گی مگر وہ وہاں کہاں موجود تھی۔ بس اس کا مردہ جسم بستر پر دھرا تھا۔ گھروالوں نے اُس کی نبض اور سانسوں کو چیک کیا اور پھر رونا پیٹنا شروع کر دیا۔ شاہدہ کے جنازے پر ہر شخص تبصرہ کر رہا تھا مگر اس سے ہمدردی رکھنے والوں کے تاثرات بھی اس کے گھر والوں کے ماتم پرمختلف تھے۔ مجھے کچھ یوں محسوس ہوا جیسے اس کے گھر والوں کا ماتم عجب انداز کا ہے، وہ اپنی بہن یا بیٹی کی لاش پر نہیں بلکہ آمدنی کے مستقل ذریعے کے بند ہو جانے پر ماتم کناں تھے۔
ببلی اپنی شادی کے خواب بکھرنے اور گڈو موٹرسائیکل کا وعدہ مکمل نہ ہونے پر آنسو بہا رہے تھے۔ باقی دوسرے بھی اپنی اَدھوری خواہشوں کا سوچ کر ماتم کر رہے تھے۔ وہ آرزوئیں جن کا شاہدہ کے بعد اب پورا ہونا ممکن نہ تھا۔ پولیس کی فائلوں میں یہ خودکشی تھی لیکن اصل میں قتل تھا اور قاتل کوئی اور نہیں مفادات اور خواہشات کے غلام اس کے اپنے گھر والے تھے، جنہوں نے اسے ایک جیتا جاگتا انسان نہیں بلکہ نوٹ چھاپنے کی مشین سمجھ لیا تھا۔
اس جرم میں کسی حد تک امتیاز بھی شامل تھا جس نے اپنے مفاد کو مجبوری کا نام دے کر ہر وہ اُمید توڑ دی تھی جسے ایک معصوم لڑکی نے اس کے ساتھ باندھ لیا تھا۔ اگر وہ کم ہمتی نہ دکھاتا اور کسی وکیل سے مشورہ کر لیتا تو جان جاتا کہ قانون اتنا بے بس نہیں جتنا اسے سمجھایا گیا تھا۔
عورت پر تشدد اور ہراساں کرنے کی بہت سی صورتیں ہوتی ہیں، کہیں شوہر اور اس کے گھر والوں کا ذکر ہوتا ہے تو کہیں دفتر یا اسکول اور کالج کی بات سامنے آتی ہے لیکن ان مظالم کا ذکر نہیں ہوتا جو کسی پیار کرنے والے سے اس کے اپنے اپنی اَنا اور مفادات کی خاطر کرتے ہیں۔ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ آج بھی جانے کتنی لڑکیاں شاہدہ کی طرح اپنی خواہشوں کی صلیب اُٹھائے ہمارے اردگرد اور ہمارے ساتھ ساتھ چل رہی ہیں، کیونکہ ہم میں سے اکثر بہت مصروف رہتے ہیں اور کچھ نے آنکھیں بند کر لی ہیں۔
(تحریر : سیّدہ شہلا رضا… کراچی)