اگست کا تھکا ماندہ سورج مغرب کی سمت بادلوں میں منہ چھپا رہا تھا۔ مسز امر کی گاڑی پورچ میں آکر رکی تھی۔ مسسز احمر نے گاڑی کا انجن بند کیا، اپنا ہینڈ بیگ اور موبائل ہاتھ میں پکڑا اور گاڑی سے اتر کر اندر کی جانب بڑھ گئیں۔ اندر داخل ہوئیں تو سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا۔ بچے ٹیوٹر کے پاس پڑھ رہے تھے کوثر کھانا پکا رہی تھی۔ وہ سیدھی اپنے کمرے میں گئیں۔ بیگ رکھا، شاور لیا اور فریش ہو کر تھوڑی دیر کے لیے لیٹ گئیں ۔ ابھی انھیں لیٹے ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ احمر صاحب بھی آگئے۔ انھیں کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر وہ سوئی بن گئیں۔ ان کا رویہ اپنے شوہر کے ساتھ بڑا عجیب سا تھا حالانکہ دونوں کی پسند کی شادی تھی۔ علینہ کا تعلق اچھے کھاتے پیتے گھرانے سے تھا۔ جہاں کسی چیز کی کبھی کوئی کمی نہیں تھی جبکہ احمر کا تعلق ایک مڈل کلاس گھرانے سے تھا جہاں دس مرلے کا ایک گھر تین بھائیوں کی ملکیت تھا۔ علینہ، احمر کی ظاہری خوب صورتی اور آواز پر مرمٹیں۔ ان دنوں احمر ایک سیلولر کمپنی کے کال سینٹر میں ملازمت کرتے تھے۔ علینہ چار بھائیوں کی اکلوتی بہن تھیں۔ باپ کی سر چڑھی تھیں۔ گھر جا کر وہ رونا پیٹنا شروع ہوئیں کہ سب کو ان کی بات مانتے ہی بنی۔ احمر سے شادی کے بعد تو وہ گویا ہواؤں میں اڑنے لگیں۔ پاؤں زمین پر تب لگے جب وہ احمر کے آبائی گھر میں آئی۔ جہاں کا ماحول ان کے گھر کے ماحول سے بالکل الٹ تھا جیسا وہ پیچھے چھوڑ آئی تھیں۔ دونوں جیٹھ شادی شدہ، ایک کے تین بچے دوسرے کے چار وسائل کی کمی ہر وقت کی پیچ اور شور شرابے نے ان کا دماغ الٹ دیا تھا۔ تم ملک سے باہر چلے جاؤ احمر۔ یہاں ہمارا گزارا نہیں ہے۔ جب ان کا پہلا بیٹا پیدا ہوا تو انہوں نے شوہر کو مجبور کرنا شروع کر دیا۔ احمر کا ایم سی ایس مکمل ہو گیا تھا۔ تھوڑی جدو جہد کے بعد انہیں میں اچھی جاب مل گئی۔ مز علینہ احمر نے سکون کا سانس لیا۔ احمر کے جانے کے بعد وہ بیٹے سمیت اپنے والدین کے گھر آگئیں کہ ان کے دو بھائی ملک سے باہر تھے اور دو اپنی نوکریوں کے سلسلے میں شہروں میں مقیم تھے۔ احمر کے جانے کے بعد وہ خود بھی نوکری کرنے لگیں۔ پانچ سال کی مسلسل محنت کے بعد وہ اس قابل ہوئیں کہ شہر کے پوش علاقے میں پانچ مرلے کا ایک گھر بنا سکیں۔ اس دوران ان کا دوسرا بیٹا بھی دنیا میں آگیا تھا۔ گھر بنتے ہی احمد ہمیشہ کے لیے واپس آگیا۔ امر کا یہ فیصلہ مسز علینہ احمر کو ایک آنکھ نہ بھایا۔ دوستم کنوئیں کے مینڈک ہی رہنا تم اس قابل ہی نہیں ہو کہ اپنا لائف اسٹائل بہتر کر سکو۔ ابھی گھر ہی بنا ہے، گاڑی رہتی ہے، گھر کو فرنش کرنا ہے مگر نہیں تمہیں تو واپس آنے کی جلدی تھی ۔” وہ احمر پر چڑھ دوڑ میں مگر احمر اپنے فیصلے پرڈٹ گئے۔ مسر علینہ احمر انہیں تو واپس نہ بھیج سکیں لیکن خود اپنی جاب کے حوالے سے اتنی حساس ہو گئیں کہ ہر جائز نا جائز حربہ استعمال کر کے وہ آج مینجر کے عہدے پر فائز ہوگئی تھیں ۔ مسسز علینہ احمر ان خواتین میں سے تھیں جو برینڈز اور اپر کلاس لائف اسٹائل کو اپنانے کے چکر میں بعض اوقات اپنے آپ سے بھی اتنے دور نکل جاتے ہیں کہ ان کا کردار اور اخلاق پستیوں کی طرف سفر کرنا شروع کر دیتا ہے۔ وہ یہ بات بھول کر کہ قیمتی سے قیمتی لباس بھی گھٹیا اخلاق اور کردار کو چھپانے میں ناکام رہتا ہے، پر کپڑے اور بیگ خریدنے کے لیے کمیٹیاں ڈالتیں۔ گرمیوں کی چھٹیاں ملک سے باہر گزارنے کے لیے قرض لیتیں لیکن جاتیں ضرور اور پھر فیس بک پر اپنے ایک ایک پل کی تصویر میں اپ لوڈ کر کے دوسروں کو متاثر کرنے میں لگی رہتی تھیں۔ احمد بھی اب منیجر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ بجے اچھے پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھ رہے تھے۔ وہ چاہیں تو قناعت کے ساتھ اچھی زندگی گزار سکتی تھیں پھر بھی مسز علینہ احمر مطمئین نہ تھیں۔ خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں رہتی تھیں ۔ اپنے جھوٹے رکھ رکھاؤ اور دکھاوے کو برقرار رکھنے کے چکر میں اکثر مالی تنگی کا شکار رہتیں۔ ان کے نزدیک احمر کی حیثیت بھی دو کوڑی کی ہو کر رہ گئی تھی، جسے وہ تین میں شمار کرتیں نا تیرہ میں۔ انہوں نے اپنے سسرالی رشتہ داروں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا تھا۔ بھلے ذہنی سکون سے محروم تھیں، تاہم کسی نہ کسی طرح انھوں نے اپنا شاندار لائف اسٹائل برقرار رکھا ہوا تھا۔ کوثرمسز علینہ احمر کے ہاں پچھلے دس سال سے کام کر رہی تھی۔ وہ ایک بیوہ عورت تھی۔ اس کی ایک بیٹی اور دو بیٹے تھے۔ جب وہ مسز علینہ احمر کے ہاں آئی تھی تو اس کی بیٹی بارہ سال کی تھی۔ کوثر ایک خود دار اور قناعت پسند عورت تھی۔ جو اپنے کام کو عبادت سمجھ کر کرتی تھی۔ صبح وقت پر آتی اور شام کو اپنا کام پورا کر کے وقت پر ہی چلی جاتی۔ چھٹی کرنا ہوتی تو پہلے بتا کر جاتی۔ مسز علینہ احمر کو بھی اس سے کوئی شکایت نہیں ہوئی تھی اور سب سے بڑھ کر وہ بلا ضرورت چھٹی بھی نہیں کرتی تھی اور نہ ہی اسے مانگنے تانگنے کی عادت تھی۔ مسز علینہ احمر موڈ میں ہو تیں تو اپنے کچھ پرانے کپڑے اور سامان نکال کر خود ہی اس کے حوالے کر دیتیں جسے وہ شکریے کے ساتھ لے لیتی مگر خود کبھی کسی چیز کا سوال نہیں کیا تھا۔ اتوار کو اس کی چھٹی ہوتی تھی۔اجی اگلے مہینے میری بیٹی کی شادی ہے۔ میں نے اپنی اماں کے ساتھ کمیٹی ڈالی ہوئی تھی۔ اس مہینے میری کمیٹی نکل آئی ہے اماں بیمار ہیں اس لیے وہ مجھ سے کہہ رہی ہے کہ میں کمیٹی لے جاؤں۔ اس لیے میں ہفتے کو نہیں آؤں گی کوثر نے چھٹی کے وقت میسر علینہ امر کو مخاطب کیا۔ کوثر کی اماں کسی گاؤں میں رہتی تھی۔ ۔ مسز علینہ احمر نے اسے ایک نظر دیکھا اور دوبارہ سے لیپ ٹاپ پر مصروف ہوئیں۔ وہ اس سال دبئی کیا فیملی ٹرپ پلان کر رہی تھیں۔ ان کی تین لاکھ کی کمیٹی نکلی تھی۔ پوری فیملی کے ساتھ جانے میں کل خرچ تقریباً پانچ لاکھ روپے آرہا تھا۔ دو لاکھ روپے بینک سے ادھار کرنے کا پکا ارادہ کر چکی تھیں۔ اب بھی وہ لیپ ٹاپ پر دبئی کے مشہور مقامات کے بارے میں معلومات حاصل کر رہی تھیں۔ ٹھیک ہے کوثر تم جاؤ ۔ جب مسز علینہ احمر کے اچھا کے بعد خاموشی چھا گئی تو اجازت کی منتظر کوثر کو کھڑے دیکھ کر احمر نے کہا۔ آپ سے کتنی دفعہ کہا ہے کہ نوکروں کے معاملے میں مت بولا کریں۔ تم بھی تو حد کرتی ہو وہ تمہارے جواب کی منتظر تھی اور تم لیپ ٹاپ میں گم ہو ۔ احمر نے بھی جواب دیا۔ ” تو آپ کو کیا ہمدردی ہو رہی ہے ؟” تم سے تو بات کرنا ہی فضول ہے۔ احمر اٹھ کر چلے گئے۔ مام ام جارہے ہیں ناں ؟ ناشتے کی میز پر ان کے بڑے بیٹے نے ماں سے سوال کیا۔جی میری جان ضرور جائیں گے۔ آپ جاؤ اب جا کر ٹی وی دیکھو۔ گرمیوں کی چھٹیاں تھیں سو بچے بھی آرام سے اٹھتے تھے۔ آج تو اتوار تھا اس لیے سب ہی تاخیر سے اٹھے تھے۔ احمر کل تم ذرا جلدی آجانا۔ ویزے کے لیے اپلائی کرنے جاتا ہے۔ انہوں نے اخبار پڑھتے احمر کو متوجہ کیا۔ انہوں نے اخبار طے کر کے ایک طرف رکھ دیا۔ کچھ دیر مسز علینہ احمر کو اسے دیکھتے رہے جو جوس لے رہی تھی۔ “میرا خیال ہے کہ اس سال ہم ٹرپ کینسل کر دیتے ہیں۔ کیوں ؟ وہ تڑپ اٹھیں۔۔ کوثر کی بیٹی کی شادی ہے۔ یتیم بچی ہے۔ ان پیسوں سے ہم اس کی مدد کر دیتے ہیں ۔۔ کیا مطلب ! کوثر کو تین لاکھ روپے دے دوں ؟ انہیں احمر کی دماغی حالت پر شبہ ہوا۔ نہیں، کمیٹی میں سے ایک لاکھ روپے دے دیں۔” کوثر پچھلے دس سال سے ہمارے ہاں ملازم ہے۔ ضرورت مند اور خود دار بھی ہے۔ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتی۔ اس کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے۔ ملازموں کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔ اس کی بچی یتیم ہے۔ ویسے بھی ثواب کا کام ہے۔ احمر نے کہا۔ تم تو رہنے ہی دو۔ پورے سال کی تھکن اتارنے کا ایک موقع ملتا ہے وہ بھی تم خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا۔ مسسز علینہ احمر کی پوری فیملی پندرہ روز کے لیے دبئی چلی گئی۔ وہاں خوب ہلا گلا، سیر و تفریح اور شاپنگ کی۔ مسز علینہ احمر نے ایک ایک لمحے کی تصاویر فیس بک پر اپ لوڈ کیں۔ ہر لمحے سے لطف اندوز ہو کر سب پندرہ روز بعد وہ واپس آ گئے -ارے ہاں ہاں صرف پانچ لاکھ میں تھا۔ بس ایسا ہی ہے۔ اتنے تھوڑے پیسوں میں ایسی موج مستی ہوگئی کہ بس پورے سال کی تھکاوٹ اتر گئی۔ ہاں پیر سے میں آفس آؤں گی ۔ وہ اپنی کو لیگ کو بتارہی تھیں۔ آج کل وہ بہت ہی فریش اور خوش دکھائی دے رہی تھیں۔شام کا وقت تھا۔ کوثر اپنا سارا کام مکمل کر چکی تھی۔ مسر علینہ احمر اپنے کمرے میں آرام کر رہی تھیں۔ احمر لاؤنج میں بیٹھے چائے پی رہے تھے اور ساتھ ساتھ ٹی وی بھی دیکھ رہے تھے۔ کوثر کچن میں بیٹھ کر علینہ احمر کے باہر آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ اگلے ہفتے اس کی بیٹی کی شادی تھی۔ شادی گاؤں میں ہونا تھی۔ اس لیے اسے ایک ہفتے کی چھٹی چاہیے تھی۔ جونہی علینہ احمر باہر آئیں کوثر فوراً ان کے پاس آئی اور اپنا مدعا بیان کیا۔ مبارک ہو کوثر تم خوشی خوشی جاؤ۔ اچھا پہلے کمرے سے میرا پرس اٹھا لاؤ۔” وہ احمر کے ساتھ بیٹھیں۔ اتنے میں کوثر ان کا پرس لے آئی۔ یہ میری طرف سے رکھ لو… پورے دس ہزار روپے ہیں۔ بیٹی کے لیے کچھ خرید لینا ۔ علینہ احمر نے ایک لفافہ کوثر کی طرف بڑھایا۔ کوثر نے لفافہ پکڑا اور سلام کر کے رخصت ہوگئی۔ احمر ان کو حیرت بھری نظروں سے تک رہے تھے۔ یہ روپے کہاں سے آئے؟ سیر اور شاپنگ کے چکر میں تم نے تو میرا اکاؤنٹ بھی خالی کر دیا تھا۔ امر جو کوثر کی مدد نہ کر سکنے پر دل ہی دل میں شرمندہ تھے، کہے بنا نہ رہ سکے۔ میں نے کہا تھا ناں کہ کچھ نہ کچھ کرلیں گے تو بس کر لیا۔ وہ اترائیں۔پھر بھی۔ بھئی میں نے اپنے کولیگز اور ماتحتوں تک یہ پیغام پہنچایا کہ ایک یتیم بچی کی شادی ہے تو جتنا کسی سے ہو سکے مدد کر دے۔ یتیم بچی کی شادی کا سن کر سب نے ثواب کے لالچ میں کچھ نہ کچھ دے دیا اور یوں میرے پاس دس ہزار روپے جمع ہو گئے جو میں نے کوثر کو دے دیے۔ دیکھ لو اتنی بڑی رقم اکٹھی دیکھ کر کوثر کیسے خوشی خوشی گئی ہے۔ مسز علینہ احمر نے اتنی بڑی رقم پر زور دیا۔ وہ اپنے کارنامے پر پھولے نہیں سما رہی تھیں۔ دس ہزار اور اتنی بڑی رقم واہ کیا معیار ہیں ہم مادی چیزوں کے پیچھے بھاگنے والے انسانوں کے اپنے نفس کو خوش کرنے کے لیے جب ہم خود پر خرچ کرنے لگیں تو لاکھوں روپے بھی معمولی رقم دکھتی ہے اور اللہ کی راہ میں دینا ہو تو وہ دس ہزار جن میں ہماری اپنی جیب سے ایک روپیہ بھی شامل نہیں ہو، بہت بڑی رقم لگتی ہے۔” احمر ان کی اس حرکت پر دکھ سے سوچ کر رہ گئے تھے۔