Monday, October 7, 2024

Ilaow | Complete Urdu Story

نائل کی بیوی ماریہ ابھی تک سورہی تھی اور وہ خود بیڈ پر لیٹا، اسے بڑی سنجیدگی سے دیکھ رہا تھا۔اس کے لئے اپنی بیوی کو نیند سے بیدار کرنا بالکل ایسا ہی تھا جیسے ریاضی کا کوئی پیچیدہ سوال حل کرنا لیکن یہ تو اب اس کے لئے ایک معمول بن چکا تھا، خود بستر سے اٹھنے اور کوئی اور کام کرنے سے پہلے یہ معمہ اسے ہر صبح حل کرنا ہوتا تھا۔ ہر صبح ماریہ کو نیند سے بیدار کرتے ہوئے وہ غصے کی وجہ سے اندر ہی اندر کھول رہا ہوتا تھا، البتہ اس کے غصے کی یہ آگ شاید ہی اس کی بیوی تک کبھی گئی ہو۔ نائل نے ماریہ کے چہرے سے نظریں ہٹا کے دیوار کی طرف پہلو بدلا اور بولا۔ ماریہ ! سات بج گئے ہیں۔  ہر صبح یہ جملہ ایک طرح سے اس کی طرف سے اپنی بیوی کے لئے صبح کا پیغام ہوتا تھا۔ ماریہ سے اس نے پہلی بیوی کی وفات کے بعد دوسری شادی کی تھی۔ ماریہ اور وہ ایک ہی دفتر میں ملازمت کرتے تھے۔ ماریہ سے اس نے پسند کی شادی کی تھی، اس کے باوجود وہ اپنی بیوی سے سرد مہری روار رکھتا تھا اور اسے اس پر کبھی ندامت نہیں ہوئی تھی بلکہ وہ اس سرد مہری کے اظہار کو اپنا حق سمجھے ہوئے تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ایسا رویہ اختیار کرنے سے اس کی شخصیت میں نکھار اور اس کے روز مرہ کے معمولات میں دانشمندی کی جھلک دکھائی دے گی۔ اس کو کسی طور پسند نہیں تھا کہ وہ اپنے دوستوں کی طرح اپنی بیوی کو خاندان سے باہر کی تقریبات میں لے کر جائے۔ اس کے دوستوں کے گھر میں جو دعوتیں ہوتی تھیں، ان میں لازمی اس کی بیوی کو بھی مدعو کیا جاتا، مگر نائل ہمیشہ اکیلا ہی جاتا۔ وہ جب پہلی بار ماریہ سے ملا تھا اس وقت اس کی پہلی بیوی رومیصہ زندہ تھی۔ ماریہ نے اس وقت آفس جوائن کیا تھا۔ اسے ماریہ پہلی نظر میں اچھی لگی تھی۔ اسے دیکھ کر نائل نے سوچا تھا کہ کاش اس نے شادی نہ کی ہوتی۔ نائل کو رومیصہ کوئی خاص پسند نہ تھی۔ رومیصہ سے اس نے شادی محض دولت کی خاطر کی تھی، اگر دولت نہ ملتی تو وہ اس کے آوارہ اور جواری بھائی کی بری شہرت کی وجہ سے اس سے کبھی شادی نہ کرتا۔ نائل کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ اس کی ماریہ سے اتنی جلدی انڈراسٹینڈنگ ہو جائے گی۔ رومیصہ کی ناگہانی موت نے اسے ماریہ سے شادی کا موقع فراہم کر دیا۔ ماریہ کو پانا نائل کا خواب تھا، اپنے خواب کو پورا کرنے کے لئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتا تھا۔

نائل تکیے سے ٹیک لگائے بستر پر بیٹھا نہایت خاموشی سے ماریہ کو دیکھ رہا تھا۔ وہ بستر سے اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کرسی پر بیٹھی اپنے بالوں میں برش پھیر رہی تھی۔ تم کب تک ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی رہو گی جا کر محب کو دیکھو ، وہ اپنے کمرے میں ناشتے کا منتظر ہو گا۔ نائل کا جملہ سنتے ہی ماریہ کوئی جواب دیے بغیر جلدی سے اٹھی اور بیٹے کے کمرے میں چلی گئی۔ نائل نے وال کلاک پر ایک نظر ڈالی اور اچھل کر بستر سے نیچے اتر آیا۔ بستر کے پاس کھڑے ہو کر اس نے لمبے لمبے سانس لئے ، بازو پھیلا کر ایک بھر پور جماہی لی۔ اسے اپنا سر وزنی لگنے لگا تھا۔  یہ سب اعصابی تنائو اور ذہنی کھنچائو کا نتیجہ ہے۔ اس کے ذہن میں ڈاکٹر کا جملہ گونجا۔ نائل نے سلیپر پہنے اور وہ بھی الٹے ، پھر انہیں درست پہننے کے بعد وہ واش روم میں چلا گیا۔ آفس کے لئے تیار ہونے کے بعد نائل ڈائننگ ٹیبل پر پہنچا تو ماریہ ناشتہ لگا چکی تھی۔ میں آپ کے لئے کافی بناتی ہوں۔ ماریہ نے نائل کی طرف قدرے شوخ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ہیلو محب ! تمہارا رزلٹ آگیا۔ نائل نے محب کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا۔ محب نے بے چینی سے پہلو بدلا۔ ماریہ نائل کی خالی پیالی میں کافی انڈیل رہی تھی۔ اس کا ہاتھ کاپنے لگا۔ اس نے کہا۔ محب کی پروگریس رپورٹ اچھی نہیں تھی، میں نے رپورٹ پر خود سائن کر دیئے، آئندہ محنت کرے گا تو اچھے نمبروں سے پاس ہو گا۔ نائل نے غضب ناک نظروں سے ماریہ کو دیکھا۔  یہ تمہاری ڈھیل کا نتیجہ ہے جو یہ دن بہ دن پڑھائی میں کمزور ہوتا جارہا ہے۔ ہر وقت کمپیوٹر کے آگے بیٹھارہتا ہے یا کھیل میں مصروف رہتا ہے۔ میرے یہاں سے جانے کے بعد تو یہ بالکل آزاد ہو جائے گا۔ آپ فکر نہ کریں، ایک مہینے کی تو بات ہے۔ آپ نے کہا تھا کہ آپ کراچی پہنچتے ہی ہمیں وہاں بلوالیں گے۔ ماریہ دھیمے لہجے میں بولی۔ گھر ڈھونڈنا اتنا آسان نہیں، بڑی مشکل سے میں نے اپنا ٹرانسفر کروایا ہے۔ اب میرا اس شہر میں رہنے کو بالکل دل نہیں چاہتا، عجیب وحشت کا شکار رہنے لگا ہوں۔ دن بہ دن آپ کو کیا ہوتا جا رہا ہے۔ ہم لوگ یہاں ملتان میں اچھے خاصے سیٹ ہیں، آپ کو کراچی جانے کی آخر کیوں سوجھ رہی ہے۔ میری مرضی میرا جہاں دل چاہے گا وہاں رہوں گا۔ محب ، آئندہ پڑھائی کے حوالے سے میں تمہاری کوئی شکایت نہ سنوں۔ نائل نے محب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ جی پاپا! ایسا ہی ہو گا ۔ محب یہ کہہ کر کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ماریہ ! تم نے میرے سامان کی پیکنگ کرنا شروع کی یا ابھی تک گھر کے فضول کاموں میں خود کو مصروف کیا ہوا ہے۔ نائل دوبارہ ماریہ سے مخاطب ہوا۔ آپ کی پیکنگ میں نے کافی حد تک کر لی ہے ، ابھی تو آپ کے روانہ ہونے میں پانچ روز باقی ہیں۔ ہاں مگر تمہیں اپنا کام مکمل کر لینا چاہئے۔ یہ کہتے ہوئے نائل ناشتہ کرنے لگا۔ ناشتے سے فارغ ہو کر وہ ماریہ کو خدا حافظ کہہ کر آفس روانہ ہو گیا۔ کچن میں مصروف ماریہ سوچ رہی تھی کہ نائل کو کیا ہو گیا ہے، خواہ مخواہ اپنا ٹرانسفر کراچی کرالیا۔
☆☆☆

نائل پچھلے دو دن سے کراچی میں اپنے دوست روحان کے گھر ٹھہرا ہوا تھا۔ روحان کا ایک سو بیس گز کا مکان تھا، جس کی اوپری منزل میں ایک کمرہ بنا ہوا تھا۔ روحان نے اس کمرے میں نائل کو ٹھہرادیا تھا۔ صبح کے چار بج رہے تھے۔ نائل بستر پر بیٹھا سگریٹ پینے میں مصروف تھا۔ اس نے نصف سے بھی کم جلا ہوا سگریٹ ایش ٹرے میں مسل دیا۔ سرہانے رکھے موبائل پر اس نے نگاہ دوڑائی۔ نیند کی گولیاں کھانے کے باوجود نیند اس کی آنکھوں سے دور تھی۔ نائل نے بستر پر دوبارہ لیٹ کر کتاب اٹھا کر پڑھنا شروع کی لیکن جلتی ہوئی آنکھیں الفاظ کو پہچاننے سے قاصر تھیں، کوشش کے باوجود جب عبارت کا مفہوم اس کی سمجھ میں نہیں آیا تو تنگ آکر اس نے کتاب بند کر کے سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ پانچ بجے اس کی آنکھ لگ گئی۔ پندرہ منٹ بعد ہی وہ ایک جھٹکے سے بیدار ہو گیا۔ ایک بھیانک خواب اس کا مسلسل پیچھا کر رہا تھا۔ دل میں فیصلہ کر چکا تھا کہ وہ آج آفس نہیں جائے گا بلکہ ماہر نفسیات سے مل کر اپنے مسئلے کوڈسکس کرے گا۔ ساڑھے سات بجے روحان اس کے کمرے میں آیا تو وہ بستر پر بیٹھا ہوا تھا۔ کیا بات ہے ؟ تم ابھی تک تیار نہیں ہوئے۔ میں ناشتے کے لئے بلانے آیا تھا۔ تمہیں دیکھ کر تو یوں لگ رہا ہے جیسے تم ساری رات سوئے نہیں ہو۔ روحان نے نائل کو بغور دیکھتے ہوئے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا۔ کیا کروں مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔ سونے کی بہت کوشش کی، ٹیبلیٹ بھی کھائی۔ ہاں جگہ کی تبدیلی سے ایسا ہو جاتا ہے۔ ایک دو دن میں تم یہاں سیٹ ہو جائو گے۔ میری کوشش یہی ہے کہ میں جلد سے جلد یہاں کرائے کا مکان ڈھونڈ کر اپنی فیملی کو بلوالوں، آج میرا آفس جانے کا موڈ نہیں۔ کیوں کیا کہیں اور جانے کا پرو گرام ہے؟ ہاں مجھے کسی سے ملنے جانا ہے۔ فی الحال میں ناشتے کے بعد سونا چاہوں گا۔ نائل نے دانستہ روحان سے، ڈاکٹر سے ملاقات کا ذکر کرنا ضروری نہ سمجھا کہ کہیں وہ اسے نفسیاتی نہ سمجھ بیٹھے۔ چلو نیچے چل کر ناشتہ کرتے ہیں۔ روحان نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا۔ نائل بیڈ سے اتر کر اس کے ساتھ ہو لیا۔
☆☆☆

دروازے پر لگی ہوئی نیم پلیٹ ڈاکٹر عمار حسن کے موجود ہونے کا اعلان کر رہی تھی۔ کیا آپ نے ملاقات کے لئے وقت لے رکھا ہے؟ کائونٹر پر موجود لڑکی نے پوچھا۔ وہ بڑے غور سے نائل کو دیکھ رہی تھی۔ نائل کو اس کی یہ بات ناگوار لگ رہی تھی۔ جی، میں نے اپائنٹمنٹ لے لیا تھا۔ نائل نے جیب سے ایک پرچی نکال کر اسے دکھائی۔ ٹھیک ہے آپ بیٹھیں، میں نمبر آنے پر آپ کو اندر بھجواتی ہوں۔ نائل نے کائونٹر کے سامنے موجود کرسیوں پر نگاہ دوڑائی اور ایک کرسی پر بیٹھ کر سامنے رکھی میز سے اپنے لئے میگزین منتخب کرنے لگا۔ ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد وہ ڈاکٹر عمار کے کمرے میں موجود تھا۔ ڈاکٹر عمار حسن، فربہ جسم اور پھولے ہوئے چہرے کے مالک تھے۔ جی فرمائیں آپ کو کیا شکایت ہے ۔ ڈاکٹر عمار حسن نے نائل کو دیکھتے ہی سوال کیا۔ کم خوابی کا شکار ہوں۔ مجھے نیند نہیں آتی۔ مہینوں ہو گئے ہیں۔ میں اچھی اور پر سکون نیند کو ترس گیا ہوں۔ ڈاکٹر عمار حسن کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ ابھری۔ بہت سے لوگ یہی شکایت کرتے ہیں، قسم کھاتے ہیں کہ ہفتوں سے نیند نہیں آرہی، جبکہ حقیقتاً یہ درست نہیں ہوتا۔ کم یا زیادہ انہیں نیند تو ضرور آتی ہے ، البتہ محسوس یہی کرتے ہیں کہ وہ بالکل نہیں سوئے۔ اس طرح تو کبھی کبھی میری آنکھ بھی لگ جاتی ہے، صرف پندرہ منٹ کے لئے۔ مجھے یاد نہیں کہ میں ایک گھنٹے سے زیادہ بھی سویا ہوں، جب بھی سوتا ہوں کوئی بھیانک خواب میری نیند اڑا دیتا ہے۔ زیادہ تر میں دو ہی خواب دیکھتا ہوں، ایک خواب میں خود کو ہر طرف سے آگ کے شعلوں میں گھرا ہوا۔ دوسرے خواب میں کوئی شخص میرے تعاقب میں ہوتا ہے جو مجھ پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور میں اس سے بچنے کے لئے بھاگ رہا ہوتا ہوں۔ آپ اس شخص کو جانتے ہیں جو خواب میں آپ پر حملہ کرنے کے لئے تعاقب کر رہا ہوتا ہے۔ جی ہاں۔ وہ شخص میری پہلی بیوی کا بھائی ہے۔ آپ اپنے بارے میں کچھ بتائیں علاج کے لئے آپ کے بارے میں جانا ضروری ہے۔

میں نائل فاروقی، عمر چھتیس سال ہے۔ ایک پرائیویٹ کمپنی میں جاب کرتا ہوں۔ میں نے دو شادیاں کیں، میری پہلی بیوی رومیصہ کی وفات کو آٹھ سال ہو چکے ہیں، اس کی موت کے فوراً بعد میں نے دوسری شادی کر لی تھی۔ دوسری بیوی سے میرا ایک بیٹا ہے جس کی عمر تقریباً سات سال ہے۔ آپ کی پہلی بیوی جوانی میں مر گئیں، ان کی موت کی وجہ ؟ ڈاکٹر عمار نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔ ایک حادثہ۔ نائل نے قدرے آہستگی سے کہا۔ کیسا حادثہ ؟ کیا یہ بتانا ضروری ہے؟ نائل کے لہجے میں ڈاکٹر کا سوال سن کر ناگواری آگئی۔ ہاں، ہو سکتا ہے اس سے مجھے آپ کا کیس حل کرنے میں مدد ملے۔ نائل نے ایک گہری سانس لی پھر بولا۔ وہ آگ میں جل کر مر گئی تھی۔ نائل نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگالی اور خوابیدہ لہجے میں کہنے لگا۔ ڈاکٹر آپ کے سوال نے مجھے ماضی میں دھکیل دیا ہے۔ دسمبر کا مہینہ تھا۔ آدھی رات کے وقت وہ حادثہ پیش آیا، جس کی وجہ سے رومیصہ کی موت واقع ہوئی۔ سردی کے باعث کمرے میں ہیٹر جل رہا تھا۔ پتا نہیں کس طرح بستر کی چادر میں آگ لگ گئی، کم از کم اس کیس کی تفتیش کرنے والے پولیس آفیسر کا یہی خیال ہے۔ اس وقت نائل دل میں سوچ رہا تھا کہ ڈاکٹر کو یہ بتانے کی کیا ضرورت ہے کہ اس کی بستر پر لیٹ کر سگریٹ پینے کی عادت نے یہ آگ بھڑکائی تھی۔ بد قسمتی سے میری آنکھ رومیصہ کے چیخنے پر کھلی۔ اس وقت پورا کمرہ آگ کی زد میں آچکا تھا۔ تمام کمرے میں دھواں بھرا ہوا تھا، رومیصہ کیا کہہ رہی تھی میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا، مجھے اپنی جان بچانے کی فکر تھی۔ کمرے کے دروازے میں آگ لگ چکی تھی، میں اسے کھول نہیں سکتا تھا، یہ دیکھ کر میں باتھ روم کی طرف بھاگا۔ میرے اوسان خطا ہو چکے تھے۔ باتھ روم کے روشندان سے میں نیچے کود گیا۔ میں نے رومیصہ کو بھی کہا کہ وہ اس راستے سے نکلے، مگر وہ اونچائی کے خوف سے کودنے کو تیار نہیں تھی، مجبوراً مجھے اسے چھوڑ کر اپنی جان بچانی پڑی۔ فرسٹ فلور سے کودنے پر مجھے زیادہ چوٹ نہیں آئی۔ گرائونڈ پر پہنچتے ہی میں نے اوپر کی طرف دیکھا، سارا گھر شعلوں میں گھرا ہوا تھا۔ اتنا کہہ کر نائل نے آنکھیں بند کر لیں۔ جیسے وہ باتیں کرتے کرتے تھک گیا ہو۔ چند لمحوں کے توقف کے بعد اس نے پھر بولنا شروع کیا۔ جب تک فائر بریگیڈ پہنچا سب کچھ ختم ہو گیا تھا۔ رومیصہ آگ میں جل کر مر گئی تھی۔ کیا آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ اسے بچا سکتے تھے مگر آپ نے اسے بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ نائل ڈاکٹر کے سوال کا جواب دیئے بغیر خالی خالی نظروں سے سامنے والی الماری میں رکھی موٹی موٹی کتابوں کو گھورتا رہا۔ کیا آپ اپنے آپ کو اپنی بیوی کی موت کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں۔ ڈاکٹر عمار نے قدرے توقف کے بعد کہا۔ کیا اسی خیال نے آپ کی نیندیں چرالی ہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں ڈاکٹر ۔ نائل قدرے سخت لہجے میں بولا۔ اگر ہو تب بھی کوئی غیر فطری بات نہ ہو گی۔ آپ اپنی بیوی کو بچانے کے لئے اپنی ہر ممکن کوشش کیوں نہ کر لیتے، پھر بھی یہ ممکن تھا کہ ضمیر آپ کو اس کی موت کا مجرم گردانتا۔ کیونکہ آپ بچ نکلے اور وہ جل گئی ۔ میں نے کہا ناڈاکٹر ! یہ بات نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میرا اس معاملے میں کوئی قصور نہیں تھا، اس لئے میں اپنے آپ کو مجرم کیوں سمجھوں۔

مسئلہ یہ ہے کہ رومیصہ کا بھائی جو میرا جانی دشمن بنا ہے، اس نے میری راتوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ وہ مجھے اپنی بہن کی موت کا ذمے دار سمجھتا ہے۔ مگر کیوں ؟ وہ ایسا کیوں سوچتا ہے۔ ڈاکٹر کے اس سوال پر نائل نے کندھے اچکائے۔ مجھے کیا معلوم، مجھے رومیصہ کا بھائی علمیر شروع سے پسند نہیں تھا، جس وقت حادثہ ہوا علمیر دوسرے شہر میں تھا۔ اس کے ذہن میں میرے خلاف شکوک و شبہات پیدا ہو گئے۔ اخبارات نے کچھ ایسی خبریں شائع کیں جن میں مجھے مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی گئی تھی۔ کیسے شکوک و شبہات ؟ یہی کہ میں نے اپنی جان تو بچالی اور رومیصہ کو جل جانے دیا، اس نے رومیصہ کی تدفین کے موقع پر لوگوں کے سامنے کھل کر کہا کہ میں رومیصہ کی موت کا ذمے دار ہوں اور یہ کہ وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑے گا، وہ تو شکر ہے کہ رومیصہ کی موت کے تیسرے روز پولیس نے اسے ڈکیتی کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ اس نے مجھے ایک خط بھی لکھا تھا۔ بڑا عجیب و غریب خط تھا۔ آپ دیکھتے تو آپ کو اس کے ذہنی توازن کے بارے میں شبہ ہو جاتا، مگر میں نے اس خط کو ضائع کر دیا۔ علمیر ابھی تک جیل میں ہے؟ ڈاکٹر عمار نے پوچھا۔ نہیں دو مہینے پہلے وہ رہا ہو چکا ہے، اس نے مجھے فون کیا تھا۔ فون پر اس نے مجھے ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی تھی۔ آپ نے پولیس کو مطلع کیا؟ نہیں۔ دیکھئے ڈاکٹر صاحب ! علمیر کو اپنی بہن سے بہت محبت تھی۔ میں جانتا ہوں کہ وہ جذبات میں آکر مجھے دھمکیاں دے رہا ہے۔ اس جیسے شخص سے یہی توقع کی جاسکتی ہے۔ کم عمری میں وہ برے لڑکوں کی صحبت کا شکار ہو کر چوری کرنے لگا تھا۔ محلے میں اس کی غنڈہ گردی مشہور تھی۔ اسے تو میرا احسان ماننا چاہئے کہ میں نے اس جیسے شخص کی بہن سے شادی کی۔ علمیر کے جیل سے آنے کے بعد میری راتوں کی نیند اڑ گئی ہے۔ میرا مشورہ مانیں پولیس کو اس سلسلے میں مطلع کریں، وہ شخص آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ دوائیں میں لکھ رہا ہوں۔ ایک ہفتے بعد آکر دکھائیں۔ ڈاکٹر عمار نے دوائیں لکھ کر پر چہ نائل کی طرف بڑھایا۔ نائل پرچے پر نظر ڈالتا ہوا ان کے کمرے سے باہر نکل آیا۔ کلینک سے وہ سیدھا شاپنگ مال پہنچا۔ وہاں اس نے اپنی پسند کے ملبوسات خریدے، رات کا کھانا اس نے ایک ریسٹورنٹ میں کھایا۔ رات گیارہ بجے وہ روحان کے گھر پہنچا۔ دس منٹ روحان کے پاس بیٹھ کر وہ اوپر اپنے کمرے میں چلا آیا۔ پھر جانے اسے کب نیند آگئی۔ ایک گھنٹے بعد اچانک نائل کی آنکھ کھل گئی۔ بستر پر لیٹے لیٹے اس نے سگریٹ سلگایا اور ایک کے بعد ایک سگریٹ پیتا گیا۔ تین بجے اس نے جھلا کر سگریٹ کا خالی پیکٹ اٹھا کر ڈسٹ بن میں ڈالا اور الماری سے نیا پیکٹ نکالنے کے لئے اٹھا، مگر معلوم ہوا کہ الماری میں کوئی پیکٹ موجود نہیں ہے۔ بے خوابی کی مصیبت کیا کم تھی کہ اب سگریٹ بھی ختم ہو گئے تھے۔ وہ بستر پر دوبارہ لیٹ گیا اور ڈاکٹر عمار سے اپنی ملاقات کے بارے میں سوچنے لگا۔ اسے ماہر نفسیات کے پاس جانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا۔ ڈاکٹر عمار نے اسے ایک ہفتے بعد بلایا تھا، مگر وہ اس سے دوبارہ ملنے کا خواہشمند نہیں تھا۔ ڈاکٹر عمار کے سامنے گزشتہ زندگی کا ذکر کرنے سے اس کے ذہن میں رومیصہ کا بار بار خیال آرہا تھا۔ وہ رومیصہ کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتا تھا، مگر ذہن بار بار اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اگر اس کا بھائی آوارہ اور جواری ہے تو اس میں اس بے چاری کا کیا قصور ہے ؟ نائل کے ذہن میں برسوں پہلے ابو کے کہے ہوئے الفاظ کی باز گشت ہوئی جو انہوں نے اسے رومیصہ سے شادی کے لئے رضامند کرتے ہوئے کہے تھے۔

رومیصہ نائل کے ابو کے سیکنڈ کزن کی بیٹی تھی۔ ابو کے یہ کزن جوانی میں انتقال کر گئے تھے، جب رومیصہ محض تین سال کی تھی۔ رومیصہ کی ماں فاخرہ بیگم اپنے اکلوتے بیٹے علمیر کی آوارگی اور مجرمانہ فطرت سے سخت پریشان رہتی تھیں۔ معقول شکل و صورت کی حامل ہونے کے باوجود رومیصہ کے لئے کوئی رشتہ نہیں آتا تھا۔ ایسے میں ایک دن نائل کے والد سلیم احمد نے اس کے سامنے رومیصہ کا ذکر چھیڑ دیا۔ وہ نائل کی شادی رومیصہ سے کرنا چاہ رہے تھے۔ نائل نے فوراً انکار کر دیا کہ وہ رومیصہ سے شادی نہیں کرے گا۔ ایک تو رومیصہ اسے پسند نہیں تھی۔ اس نے اپنی شریک زندگی کے حوالے سے جو خواب دیکھے تھے، رومیصہ اس پر پورا نہیں اترتی تھی، دوسرے وہ علمیر کی مجرمانہ سر گرمیوں کی وجہ سے اس گھر میں رشتے پر رضامند نہیں تھا۔ سلیم احمد نے جب دیکھا کہ نائل اس رشتے پر کسی طرح راضی نہیں ہو رہا تو وہ فورا اصل وجہ پر آگئے، جس کی وجہ سے وہ نائل کی شادی رومیصہ سے کرنا چاہ رہے تھے۔ بیٹا ! رومیصہ کے باپ کی اچھی خاصی زمینیں ہیں۔ فاخرہ کا کہنا ہے کہ آدھی زمینیں تمہارے نام کر دے گی، جو تمہیں رومیصہ سے شادی کے موقع پر ملیں گی۔ میرے خیال میں تمہیں فوراً ہامی بھر لینی چاہئے ۔ مگر ابو میں نے ایسا کبھی سوچا نہیں۔ سوچا نہیں تو اب سوچ لو۔ تمہیں زندگی بنانے کا موقع مل رہا ہے، رومیصہ کا باپ زندہ ہوتا تو کبھی اس کی شادی ہمارے گھر میں نہیں کرتا، وہ دولت کی وجہ سے اپنے آپ کو مجھ سے بہت برتر سمجھتا تھا۔ آج اس کے بیٹے کی آوارگی کی وجہ سے حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ فاخرہ نے خود بیٹی کا رشتہ دیا ہے۔ سلیم احمد نے کہا۔ ان کے سمجھانے پر نائل کو ہامی بھرنا پڑی۔ رومیصہ سے شادی کر کے وہ ایسا ناخوش بھی نہیں تھا کہ اچانک ماریہ اس کی زندگی میں آگئی۔ اسے افسوس ہونے لگا کہ اس نے رومیصہ سے کیوں شادی کی۔ پھر ایک دن قسمت نے اسے رومیصہ سے چھٹکارے کا موقع فراہم کر دیا۔ آدھی رات کو سگریٹ پیتے ہوئے وہ ماریہ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ سوچتے سوچتے جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔ اس نے ادھ جلی سگریٹ ایش ٹرے میں رکھ دی تھی، نیند میں اسے پتا ہی نہیں چلا کہ ایش ٹرے بیڈ پر رکھنے کے باعث کب بستر پر گری اور چادر نے آگ پکڑلی۔ اس کی آنکھ رومیصہ کے چیخنے کے باعث کھلی، وہ رومیصہ کے ساتھ باتھ روم میں باہر نکلنے کے ارادے سے داخل ہوا تھا تو جان بوجھ کر وہ روشندان کے راستے پہلے کود گیا تھا۔ اسے اس وقت صرف اپنی جان بچانے کی پڑی تھی۔ علمیر اسے رومیصہ کی موت کا ذمے داری سمجھ رہا تھا۔ حقیقت بھی یہی تھی۔ آگ لگنے کے واقعے پر غور کرتے ہوئے وہ ماضی سے حال میں آگیا۔ اپنے کمرے پر بستر پر کروٹیں بدلتے ہوئے اس کی آنکھ بڑی مشکل سے لگی۔ سات بجے گھڑی کا الارم بجا۔ نائل فوراً بستر سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ناشتے سے فارغ ہو کر وہ آفس روانہ ہو گیا۔ وہاں پہنچ کر اسے معلوم ہوا کہ کمپنی کا جنرل منیجر اس سے ملنا چاہتا ہے۔ وہ فورا جنرل منیجر کے کمرے میں پہنچا۔ دیکھیں بھئی ۔ جنرل منیجر نے نائل کو دیکھتے ہی پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ آپ دھیان سے اپنا کام کریں۔ ابھی آپ کو آفس جوائن کئے ہوئے دن کتنے ہوئے ہیں، ایک دن آکر آپ کل غائب ہو گئے۔ پرسوں آپ نے جو فائل مکمل کر کے مجھے بھجوائی تھی، اس میں کئی غلطیاں تھیں، جو آپ کو نظر نہیں آئیں۔ میں شرمندہ ہوں سر ، آج کل میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں، اسی وجہ سے کل چھٹی کرنا پڑی، میں کوشش کروں گا کہ آئندہ آپ کو مجھ سے شکایت نہ ہو۔ نائل نے آہستگی سے کہا۔ وہ تو آپ کی حالت سے لگ رہا ہے۔ لگتا ہے تھکاوٹ کا شکار ہیں، کسی اچھے ڈاکٹر سے چیک اپ کروا کر اس کی ہدایات پر عمل کریں۔ یہاں آدمی کی قدر اس کے کام سے ہوتی ہے۔ کوشش کریں کہ آئندہ مجھے آپ کسی شکایت کا موقع نہ دیں۔ جی سر، ایسا ہی ہو گا۔ نائل نے کہا۔ دل میں وہ سوچ رہا تھا کہ اس کی تمام پریشانیوں کی وجہ علمیر ہے۔ اس سے پہلے وہ کمپنی کا کام اچھی طرح کرتا رہا ہے، کبھی گڑبڑ نہیں ہوئی۔ سارے دن دفتر میں مصروف رہنے کے بعد شام میں نائل گھر روانہ ہو رہا تھا تو وہ فیصلہ کر چکا تھا کہ وہ علمیر سے خوفزدہ ہونے کے بجائے اس سے ملاقات کر کے یہ معلوم کرے گا کہ اس کی جان بخشی کے عوض اسے کیا دینا ہو گا۔

رات میں اس نے ہمت کر کے علمیر کو فون کیا۔ علمیر ! میں نائل بات کر رہا ہوں ۔ دیکھو، مجھے اپنے اور تمہارے باہمی تعلقات کا یہ انداز بالکل پسند نہیں، کیوں نہ ہم مل کر اس معاملے کو طے کر لیں۔ بہت جلدی خیال آگیا تمہیں۔ علمیر کی طنز بھری آواز ابھری۔ مجھے پتا ہے تم کراچی روانہ ہو گئے ہو، تم کیا سمجھ رہے ہو کہ میں تمہیں وہاں نہیں ڈھونڈ سکتا۔ میں کل شام تمہیں کراچی میں ملوں گا۔ کہاں؟ نائل نے بے چینی سے پوچھا۔ یہ میں تمہیں کراچی پہنچ کر بتائوں گا۔ یہ کہہ کر علمیر نے فون بند کر دیا۔ نائل موبائل ہاتھ میں لئے سوچ رہا تھا کہ اس نے علمیر سے ملاقات کرنے کا فیصلہ صحیح کیا ہے یا غلط۔ رات کو لیٹتے ہی اس کی آنکھ لگ گئی۔ اس نے خواب میں خود کو آگ کے شعلوں میں گھرا ہوا دیکھا۔ ہیجانی کیفیت میں چلانے لگا، وہ پوری شدت سے چیخ رہا تھا اور علمیر کو برا بھلا کہ رہا تھا، جس کے خوف نے اس کی نیندیں حرام کر دی تھیں، کچھ دیر بعد جب وہ نارمل ہوا تو اپنے طرز عمل پر حیران تھا۔ صبح وہ روحان کے ساتھ ناشتہ کر رہا تھا تو اس نے دبے لفظوں میں رات کے طرز عمل کے بارے میں شکایت کی۔ میں حیران تھا کہ تمہیں کیا ہوا ہے۔ کس سے لڑ رہے ہو۔ میں اسی وقت اوپر آتا۔ ایک تو تمہارے چیخنے کی آواز بند ہو گئی تھی، دوسرے غزالہ نے مجھے منع کر دیا تھا، میں آدھی رات کو اوپر نہ جائوں۔ یہ کہتے ہوئے کن انکھیوں سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا جو اس کی باتوں سے بے نیاز ناشتہ کرنے میں مصروف تھی۔ بھابی ! سوری میری وجہ سے آپ کی نیند میں خلل پڑا، آئندہ آپ کو میری طرف سے کوئی شکایت نہیں ہو گی۔ آپ نے اپنے گھر کے لئے کسی اسٹیٹ ایجنٹ سے بات کی۔ غزالہ نے پوچھا۔ روحان نے اسے گھورا وہ جانتا تھا کہ غزالہ چاہتی ہے نائل جلد از جلد اس گھر سے چلا جائے۔ کہا تو ہے۔ دعا کریں جلد از جلد گھر کا بندوبست ہو جائے اور میں آپ کی جان چھوڑ دوں۔ نائل ! کیسی بات کر رہے ہو۔ یہ تمہارا اپنا گھر ہے، جب تک دل چاہے یہاں رہو۔ روحان بولا۔ نائل نے جلدی سے ناشتہ ختم کیا اور آفس روانہ ہو گیا۔ آج کا دن اس کے لئے بہت اہم تھا۔ آج اسے علمیر سے ملاقات کرنی تھی۔ وہ بے چینی سے شام کے ہونے کا منتظر رہا۔ شام سے رات ہو گئی، مگر علمیر کا فون نہیں آیا۔ اس نے اپنے موبائل سے اس کا نمبر ملایا، مگر علمیر کا فون بند تھا۔ ساری رات وہ بے چین رہا۔ اگلے دن وہ آفس سے گھر روانہ ہو رہا تھا کہ علمیر کا فون آگیا۔ علمیر اس سے ملاقات کا خواہشمند تھا۔ نائل آفس سے سیدھا اس کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچ گیا۔ اس نے اسے ہائی وے پر واقع جس کالونی کا پتا بتایا تھا وہ ابھی پوری طرح آباد نہیں تھی۔ ڈور بیل بجاتے ہوئے انجانے خوف نے نائل کو گھیرا ہوا تھا۔ بیل بجاتے ہی نائل کی نظر علمیر پر پڑی۔ آٹھ سال کی قید بامشقت نے اس کے چہرے کے خدو خال تبدیل کر دیے تھے ، وہ ایک وہیل چیئر پر بیٹھا ہوا تھا۔ تمہاری ٹانگوں کو کیا ہوا؟ نائل نے اس پر نظر پڑتے ہی پوچھا۔جیل سے رہا ہونے کے بعد ایک ٹریفک حادثے میں میری ٹانگیں. مفلوج ہو گئی ہیں۔ نائل کو اپنے خوف پر بے اختیار ہے ہنسنے کا دل چاہ رہا تھا۔ اس نے بڑے مطمئن انداز میں علمیر کی طرف دیکھا۔ علمیر نے وہیل چیئر ایک طرف کھسکاتے ہوئے اسے اندر آنے کا راستہ دیا۔ نائل کو اپنی حماقت پر افسوس ہو رہا تھا کہ اسے پہلے پتا چل جاتا کہ علمیر معذور ہو گیا ہے تو وہ اس سے ملنے کی حماقت نہ کرتا۔ علمیر کے پیچھے چلتا ہوا وہ کمرے میں داخل ہوا۔ صوفے پر بیٹھتے ہی اس نے علمیر سے کہا۔ مجھے تم سے ہمدردی ہے۔ اس حال میں دیکھ کر بہت دکھ ہو رہا ہے۔ اپنی ہمدردی اپنے پاس رکھو، مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ علمیر نے پیشانی پر بل ڈالتے ہوئے جواب دیا۔ بہت نفرت کرتے ہو مجھ سے ؟ ہاں، میرے لئے تمہارے وجود کو برداشت کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ علمیر کے چہرے پر نفرت کے آثار پھیل گئے تھے۔  علمیر ! میں جانتا ہوں کہ اخباروں میں الٹی سیدھی خبریں پڑھ کر تم مجھے قاتل سمجھ رہے ہو مگر حقیقت وہ نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ہو۔ تم نے آج تک کبھی مجھے صفائی پیش کرنے… کون سی صفائی پیش کرنا چاہتے ہو۔ اپنے دل سے پوچھو تم بے گناہ ہو۔ علمیر نے نائل کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ علمیر! پرسکون ہو کر میری بات سنو، میں چاہتا ہوں کہ آج اس معاملے کو نمٹا لیا جائے، جذبات میں آکر تم اپنے مجرم دوستوں کے ذریعے میرے خلاف کوئی قدم اٹھائو میں اس سے تمہیں باز رکھنے آیا ہوں۔ تمہاری بہن میری وجہ سے نہیں مری۔ قدرت نے اس کے نصیب میں جل کر مرنا لکھا تھا۔ تم جو چاہے سوچتے رہو۔ یہ بات پولیس بھی ثابت نہیں کر سکی ہے۔ تمہاری دھمکیاں میری سمجھ سے باہر ہیں۔ تم آخر چاہتے کیا ہو ؟ تمہاری موت۔ میں مانتا ہوں کہ میں ایک برا انسان ہوں۔ معاشرے کی نظر میں میں ایک مجرم ہوں اس کے باوجود میں نے آج تک کسی کی جان نہیں لی۔ مجھے اپنی بہن سے بہت محبت تھی۔ اس محبت کی شدت کا اندازہ مجھے اس کی موت کے بعد ہوا ہے۔ تم نے میری بہن سے کبھی محبت نہیں کی، محض جائداد ہتھیانے کے لئے اس سے شادی کی۔ وہ تو تمہیں اس بات کا دکھ ہے کہ میں تمہارے باپ کی جائداد پر عیش کر رہا ہوں۔ میں تمہیں کچھ رقم دینے کے لئے تیار ہوں۔ بشرطیکہ تم ہمیشہ کے لئے کہیں دفع ہو جائو، تم نے میرا ذہنی سکون تباہ کر دیا ہے۔ میں چاہتا تو اس معاملے میں پولیس کی مدد لے سکتا تھا مگر میری خواہش ہے کہ یہ معاملہ بات چیت کے ذریعے طے ہو جائے۔ علمیر اسے چند لمحوں تک گھورتا رہا، پھر بولا۔ مجھے بے حد افسوس ہو رہا ہے رومیصہ تمہارے پیچھے اتنی پاگل کیوں تھی۔ اس نے تم سے شادی کرنے کے لئے خود کشی کی کوشش کی، بدلے میں تم نے اسے کیا دیا اس سے بے وفائی کی۔

رومیصہ نے خود کشی کرنے کی کوشش کی تھی کب ؟ نائل حیرانی سے بولا۔  تم تو ہمارے گھر اکثر آیا کرتے تھے اس وقت میری مجرمانہ سرگرمیوں کی شہرت نہیں ہوئی تھی۔ رومیصہ سمجھتی تھی کہ تم اسے پسند کرتے ہو ، بعد میں تم نے ہمارے گھر آنا بند کر دیا تھا۔ رومیصہ نے وجہ پوچھی تھی، تو تم نے کہا تھا کہ تم میری بدنامی کی وجہ سے ہمارے گھر نہیں آنا چاہتے۔ اس نے تم سے شادی کی خواہش ظاہر کی تو تم نے صاف انکار کر دیا تھا۔ رومیصہ تمہارے عشق میں اس حد تک گرفتار ہو چکی تھی، تمہاری باتوں سے دلبرداشتہ ہو کر اس نے نیند کی گولیاں کھا کر خود کشی کی کوشش کی ۔ امی کو جب ساری صورتحال پتا چلی تو وہ بیٹی کی محبت سے مجبور ہو کر تمہارے گھر خود رشتہ لے کر پہنچ گئیں۔ تمہارے لالچی باپ کی فطرت کو وہ اچھی طرح جانتی تھیں۔ چچا سلیم احمد خود تو زندگی بھر کچھ نہ کر سکے ، ہمیشہ دوسروں کی دولت پر ان کی نظر رہی، امی نے جب چچا کے سامنے رومیصہ اور تمہاری شادی کی تجویز رکھی اور ساتھ ہی آبائی زمینوں میں سے آدھی زمینیں تمہارے نام کرنے کا وعدہ کیا، تا کہ تم لوگوں کی طرف سے انکار کی گنجائش نہ رہے اور ہوا بھی یہی امی کی توقع کے مطابق رومیصہ کی شادی تم سے ہو گئی۔ شادی کے بعد رومیصہ بہت خوش تھی، اپنی موت سے دوماہ پہلے اس نے امی سے تمہارے بدلتے ہوئے رویے کی شکایت کی تھی۔ رومیصہ نے امی کو بتایا تھا کہ اسے یوں لگ رہا ہے کہ تمہاری زندگی میں کوئی دوسری عورت داخل ہو گئی ہے۔ رومیصہ کی اس طرح ناگہانی موت کی خبر میرے اور امی کے لئے کسی شاک سے کم نہیں تھی۔ امی نے اس کی موت کا بہت اثر لیا۔ ایک ہفتے بعد وہ اس دنیا سے چل بسیں۔ ماں اور بہن کو کھونے کے بعد مجھے رشتوں کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوا۔ یہ رشتے ایسے ہیں جو دنیا کی کسی دولت سے نہیں خریدے جاسکتے۔ تم مجھے اتنا گرا ہوا انسان سمجھ رہے ہو کہ میں چند نوٹوں کے عوض تمہیں معاف کردوں گا، تمہیں مارنے کے لئے مجھے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں، میں اکیلا تمہیں موت کے گھاٹ اتار سکتا ہوں۔ تم اب کچھ نہیں کر سکتے۔ ایک سسکتی ہوئی زندگی گزار سکتے ہو۔ مجھے دیکھو میں نے زندگی میں جو چاہا تھا پالیا اور ایک تم ہو اپنے باپ کی جائداد کو بے رحمی سے لٹادیا۔ بہت افسوس ہو رہا ہے مجھے تمہاری حالت پر ، اچھا تم مجھے قتل خود کرو گے مگر کیسے ؟ نائل نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ علمیر کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ تم سمجھتے ہو کہ میں اپاہج ہو گیا ہوں اس لئے تمہیں ٹھکانے نہیں لگا سکتا۔ یہ تمہاری بھول ہے تمہاری موت تمہیں مجھ تک لے آئی ہے۔ علمیر یہ بولتے ہوئے وہیل چیئر پر تیزی سے گھوما اور حیرت انگیز رفتار سے کمرے کے ایک گوشے میں رکھی میز کے پاس پہنچ کر اس کی دراز کھولنے لگا۔ نائل بڑی دلچسپی سے اس کی ایک ایک حرکت کو دیکھ رہا تھا، اس نے علمیر کو روکنے کے لئے ذراسی بھی کوشش نہیں کی وہ بڑے مطمئن انداز میں کھڑا تھا یہاں تک کہ جب علمیر نے دراز سے ریوالور نکال لیا، تب بھی نائل کے چہرے پر گھبراہٹ کا کوئی تاثر نہیں تھا۔ اس کو پر سکون حالت میں کھڑا دیکھ کر علمیر نے ریوالور پر گرفت اور مضبوط کر لی۔ اس ریوالور کی گولی کو تمہارے سینے تک پہنچنے کے لئے ٹانگوں کی ضرورت نہیں ہے۔ علمیر نے ریوالور کا رخ نائل کی طرف کرتے ہوئے کہا۔ تم نے دیکھ لیا کہ میں اپاہج ہونے کے باوجود کسی طرح تمہیں ختم کر سکتا ہوں۔ میں اسے تمہاری حماقت کہہ سکتا ہوں، جذبات میں آکر بے وقوفی مت کرو۔ زندگی کا سفر خاصا طویل ہے۔ میری آفر قبول کرلو۔ تمہاری باقی زندگی سکون سے بسر ہو جائے گی۔ نائل اس کی طرف بڑھا۔ اس خطرناک کھلونے کو ایک طرف رکھ دو۔ نائل نے ریوالور لینے کے لئے ہاتھ بڑھایا اور بڑی مضبوطی سے اس کی کلائی پکڑ لی۔ مجھے مارنا چاہتے ہو، میں اتنی آسانی سے مرنے والوں میں سے نہیں۔ میں تمہیں اسی جگہ پہنچائوں گا جہاں میں نے تمہاری بہن کو پہنچایا تھا۔ نائل نے اس کے ہاتھ سے ریوالور چھیننے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ علمیر کے سوکھے ہاتھوں میں نائل کے اندازے سے زیادہ طاقت تھی، لیکن پھر بھی نائل اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقتور تھا۔ اس کشمکش کے درمیان وہیل چیئر کے پہیے اپنی جگہ سے پھسلے ، علمیر نے اپنا توازن سنبھالنے کے لئے دوسرا ہاتھ آگے بڑھایا۔ نائل نے پلٹا کھایا اور ریوالور کی نال علمیر کے سر کی جانب اٹھ گئی۔ اس کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔ اس نے انگلی ٹائیگر سے ہٹانے کی کوشش کی۔ نائل نے محسوس کیا، اب تک وہ جتنا علمیر سے ڈرتا رہا تھا وہ تمام دہشت اب اس کے دشمن میں منتقل ہو چکی ہے۔ علمیر منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑایا۔ نائل نے پوری طاقت سے اس کی انگلی دبا دی اور اس وقت تک دباتا رہا جب تک فائر نہیں ہو گیا۔ ایک دھماکا ہوا اور علمیر کا چہرہ خون سے نہا گیا۔ نائل پیچھے ہٹ گیا۔ ریوالور علمیر کی بے جان انگلیوں سے چھوٹ کر فرش پر گر گیا۔ وہ مر چکا تھا۔ نائل کو اس کا کوئی افسوس نہیں تھا۔ علمیر اپنے ریوالور سے ہلاک ہوا تھا، اس کی موت خود کشی کا تاثر دے رہی تھی۔ نائل نے کچھ سننے کی کوشش کی۔ اس مکان میں اس کے علاوہ کوئی اور تو نہیں، مگر اندر بدستور خاموشی تھی۔ گولی چلنے کی آواز کا کوئی ردعمل ظاہر نہیں ہوا تھا۔ اسی وقت میز پر رکھا موبائل بجنے لگا۔ نائل تیزی سے وہاں سے باہر نکل گیا۔ وہ رات نائل نے پولیس کے خوف سے ڈرتے ہوئے گزاری۔ وہ خود کو تسلی دے رہا تھا کہ بھلا پولیس کو اس پر کیسے شک ہو سکتا ہے۔ پولیس کو سمجھنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ایک اپانچ آدمی نے اپنی بے سہارا اور محتاج زندگی سے تنگ آکر خود کشی کرلی۔

اگلے دن نائل آفس سے نکلتے ہوئے پر سکون تھا۔ اس کا خوف ختم ہو گیا تھا۔ وہ شام اس نے سنیما ہال میں فلم دیکھ کر گزاری، فلم ختم ہوتے ہی وہ بال سے باہر نکلا تو اسے بھوک کا احساس ہوا۔ وہ ایک ریسٹورنٹ میں پہنچا وہاں پہنچ کر اس نے کھانے کا آرڈر دیا۔ کافی دنوں کے بعد وہ کھانے میں ایک نیا ذائقہ اور نئی لذت محسوس کر رہا تھا۔ کھانا کھا کر اس پر غنودگی طاری ہونے لگی۔ رات ساڑھے گیارہ بجے وہ گھر پہنچا تو روحان اس کا منتظر تھا۔ کہاں چلے گئے تھے تم ؟ روحان نے اسے دیکھتے ہی کہا۔ بس یار پکچر دیکھنے کا موڈ بن گیا تھا۔ کھانا میں نے باہر کھا لیا ہے۔ میں تمہارا انتظار کر رہا تھا اور تم کھانا باہر کھا کر آگئے۔ میں غزالہ اور بچوں کو لینے سسرال جارہا ہوں، رات دیر سے واپس آئوں گا۔ ٹھیک ہے تم بے فکر ہو کر جائو، مجھے سخت نیند آرہی ہے۔ میں سونا چاہتا ہوں۔ نائل بولا۔ ایک تو تمہیں نیند بہت آتی ہے گھر آتے ہی کمرے میں بند ہو جاتے ہو ، جائو تم آرام کرو، کل سنڈے ہے ۔ آرام سے بیٹھ کر باتیں ہوں گی۔ جب سے تم آئے ہو تمہارے ساتھ اطمینان سے بیٹھ کر باتیں کرنے کا موقع نہیں ملا۔ او کے خدا حافظ ۔ نائل نے کہا۔اسے بیزاری سی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ بڑ بڑایا۔ ہو نہہ ، مجھے بڑی نیند آتی ہے۔ اسے کیا پتا پر سکون نیند لئے مجھے کتنا عرصہ ہو گیا ہے ۔ پھر وہ سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔ اوپر اپنے کمرے میں پہنچ کر اس نے سگریٹ سلگایا اور کپڑے تبدیل کئے بغیر بستر پر دراز ہو گیا۔ سگریٹ کے کش لیتے ہوئے اسے ایک فرحت بخش احساس ہوا۔ اس پر نیند طاری ہونے لگی۔ اسے یوں لگا جیسے کوئی تھپک تھپک کر سلارہا ہو۔ پلکوں کا بھاری پن بڑھتا جارہا تھا۔
☆☆☆

روحان انسپکٹر نواز کے سامنے پریشان کھڑا تھا۔ انسپکٹر صاحب ! آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس حادثے میں ہمارا کوئی ہاتھ نہیں، نائل میرا دوست تھا۔ میری بھلا اس سے کیا دشمنی ہو سکتی تھی … آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں۔ آگ گھر والوں کی غفلت سے نہیں لگی۔ آپ پر کوئی الزام نہیں آسکتا۔ انسپکٹر نواز ، روحان کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔ آپ کا تو بڑا نقصان ہوا ہے، گھر کا خاصا حصہ تباہ ہو گیا ہے۔ انسپکٹر صاحب ! کیا کہوں دوستی بڑی مہنگی مہنگی پڑ گئی۔  ایسے لوگوں کو کبھی عقل نہیں آئے گی۔ حالانکہ آپ نے انہیں ہزار بار منع کیا ہو گا کہ بستر پر لیٹ کر سگریٹ نہ پئیں لیکن کون سنتا ہے۔ انسپکٹر نے گھوم کر اسٹریچر پر پڑی نائل کی جھلسی ہوئی لاش پر نظر ڈالی جو ایک سفید چادر سے ڈھکی ہوئی تھی۔ انسپکٹر نواز کے چہرے پر ہمدردی اور تاسف کا تاثر ابھرا۔ بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔ یہ شخص ضرور گھوڑے بیچ کر سونے والوں میں سے تھا، بھلا اتنی گہری نیند کہ بستر الائو بن گیا مگر اس کی آنکھ نہیں کھلی۔

Latest Posts

Related POSTS