Sunday, April 27, 2025

Ilm Doulat Hai | Teen Auratien Teen Kahaniyan

ہم لوگ صادق آباد کے قریب ایک گائوں میں رہا کرتے تھے۔ میرا اور آمنہ کا گھر پاس پاس تھا۔ ہمارے گائوں میں لوگ لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف تھے لیکن وہاں لڑکوں کو بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا نصیب نہ تھی۔ لہٰذا مجھے اور آمنہ کو پانچویں کے بعد گھر بٹھا دیا گیا۔
ہم لوگ سارا دن ایک دوسرے کے گھر آتی جاتیں اور باتیں کرتیں۔ کبھی ان ڈور گیم کھیلتیں تاہم آگے پڑھنے کا ارمان ہم دونوں کو تھا۔ یہ اس وقت کا ذکر ہے جب میں گیارہ برس کی تھی۔
ایک دن امی نے مجھے بتایا کہ تمہارے چچا لاہور سے اپنے بیٹے زین کے ساتھ آرہے ہیں۔ بہت خوشی ہوئی کیونکہ اپنے ان چچا کے بارے میں بچپن سے سنتی آئی تھی مگر جب سے ہوش سنبھالا، ان سے نہ مل سکی تھی۔ معاملہ یہ تھا کہ میری پیدائش سے بھی قبل وہ اپنے خاندان والوں سے لڑ جھگڑ کر تعلیم حاصل کرنے کے لیے لاہور چلے گئے تھے اور وہاں ہی اپنی پسند کی شادی کرلی تھی لیکن زین کی پیدائش کے چند برس بعد چچی اس دنیا میں نہ رہی تھیں۔
آج چچا بہت عرصے بعد گائوں آرہے تھے۔ ابا جی نے بھی سب کچھ بھلا کر کھلے دل سے ان کا استقبال کیا۔ چچا، ابو کے بھائی لگتے ہی نہ تھے۔ وہ پینٹ کوٹ میں بہت بھلے لگ رہے تھے۔ بہت پڑھے لکھے اور ڈیسنٹ تھے اور زین جو مجھ سے تین چار برس بڑا تھا، بہت خوبرو تھا۔
چچا نے دیکھا تو بہت پیار کیا اور میری پڑھائی کے بارے میں پوچھا۔ امی نے بتایا کہ اس نے پانچویں جماعت تک پڑھا ہے، اب مزید نہیں پڑھائیں گے۔ چچا نے حیرت سے ابو کو دیکھا اور بولے۔ کیا آپ لوگ ابھی تک ان ہی فرسودہ خیالات میں گھرے زندگی گزار رہے ہیں جس وجہ سے میں نے گھر چھوڑا تھا؟
ابا جان، چچا سے زیادہ اُلجھنا نہیں چاہتے تھے اسی وجہ سے بات کو بدل دیا، تاہم چچا کو یہ بات کھٹکے جارہی تھی کہ اتنی خوش شکل اور سمجھدار لڑکی بیکار گھر کے کام کاج کرکے برباد ہورہی ہے اور ان پڑھ رہ جانے سے اس کا مستقبل تاریک لگ رہا ہے۔ انہوں نے ارادہ کرلیا کہ میری تعلیم کے لیے ابا جی کو راضی کرکے رہیں گے۔ چچا نے ابو کو منانے کی کوشش شروع کردی۔ امی بھی کسی حد تک ان کی حمایت کررہی تھیں کیونکہ وہ میرا مستقبل روشن دیکھنا چاہتی تھیں اور میں ان کی اکلوتی بیٹی تھی۔
واپس جانے سے پہلے ایک دن چچا نے ابا جی سے بہت بحث کی اور صاف صاف کہہ دیا کہ اگر آپ لوگ اُسے تعلیم نہیں دلوا سکتے تو میں اُسے اپنے ساتھ لاہور لے جائوں گا اور وہاں اس کا داخلہ کسی اچھے ادارے میں کرا دوں گا پھر اس وقت واپس بھیجوں گا جب یہ کچھ بن جائے گی۔ اس وقت آپ لوگ اپنی سوچ پر شرمندہ ہوں گے۔
ابا جی اپنے بھائی کی ضد کے آگے ہار مان گئے۔ انہوں نے مجھے لاہور جانے کی اجازت دے دی۔ جانتی تھی کہ انہوں نے اجازت دل سے نہیں دی ہے۔ پھر بھی میں جارہی تھی کیونکہ اپنے والدین کے لیے کچھ کرنا چاہتی تھی۔ چچا نے والد سے میرا خیال رکھنے کا وعدہ کیا۔ جانے سے پہلے آخری بار آمنہ سے ملنے اس کے گھر گئی۔ اُسے بتایا کہ پڑھنے کو لاہور جارہی ہوں۔ وہ افسردہ ہوگئی لیکن پھر بولی۔
نازیہ، تم ضرور جائو کیونکہ یہاں رہتے ہوئے ہم لڑکیوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ تعلیم انسان کو شعور دیتی ہے، انسان بناتی ہے۔ تمہیں ضرور جانا چاہئے۔ اللہ نے تم کو موقع دیا ہے تعلیم حاصل کرنے کا… یقین ہے کہ تمہارے لیے وہاں جاکر پڑھنا یہاں کی زندگی سے بہتر ہوگا۔ اس نے دعا دی کہ خدا کرے تم کچھ بن کر ہی لوٹو۔ اس قدر کہہ کر وہ رونے لگی اور آواز رِندھ گئی۔ میری آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔
میں چچا کے ساتھ لاہور آگئی۔ امی نے کہا۔ بیٹی! ہم سے جدائی مول لے رہی ہو تو پھر ہماری لاج نباہنا، کچھ بن کر ہی لوٹنا۔ تب میں نے کہا تھا۔ امی جان وعدہ کرتی ہوں کہ جب تک کچھ بن نہ جائوں، گھر نہ لوٹوں گی۔ امی نے تو مجھے محنت کے لیے کہا اور میرے منہ سے نجانے کیوں ایسے الفاظ ادا ہوگئے۔
چچا کا گھر بہت عالیشان تھا۔ انہوں نے میرا کمرہ دکھایا، وہ بھی خوبصورت تھا۔ ان لوگوں کا رہن سہن دیکھ کر سوچا۔ کاش! میرے والد بھی پڑھے لکھے ہوتے تو آج وہ ایک معمولی کسان نہ ہوتے اور ہم بھی انہی لوگوں کی طرح رہ سکتے۔ زین کے گھر مجھے ہر طرح کا سکھ اور آسائشیں میسر تھیں پھر بھی گائوں کی یاد آتی خاص طور پر آمنہ…!
میرے لیے لاہور شہر کا ماحول بہت الگ تھا۔ یہاں کے لوگ اور یہاں کی باتیں سب کچھ مختلف تھا۔ میں نے قبل ازیں کبھی گائوں سے باہر قدم نہیں رکھا تھا، شاید اسی لیے یہ سب میرے لیے بہت الگ تھا لیکن پھر آہستہ آہستہ خود کو یہاں کے ماحول میں ڈھالنا شروع کردیا۔
چچا نے بہت پیار دیا۔ وہ مجھ میں اور زین میں کوئی فرق نہ رکھتے تھے۔ زین کی بھی مجھ سے دوستی ہوگئی۔ پڑھائی کے بعد ٹی وی اور کبھی گپ شپ میں اچھا وقت گزرتا تھا۔ اکثر چچا ہم دونوں کو چھٹی کے دن سیر و تفریح کے لیے لے جاتے۔ دن اسی طرح گزرتے گئے۔ میں نے میٹرک کرلیا، رزلٹ آیا تو میرے بہت اچھے نمبر آئے تھے۔ بہت خوش تھی۔ مجھ سے زیادہ میرے چچا خوش تھے۔ انہوں نے میرا داخلہ بہت اچھے کالج میں کروا دیا۔ ایف ایس سی بھی اعلیٰ نمبروں سے پاس ہوگئی۔ زین نے پڑھائی میں بہت مدد کی تھی۔ وہ خود بھی ذہین تھا اور اس نے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا تھا۔ میں نے بھی اسی شعبے کا انتخاب کیا چونکہ نمبر بہت اچھے تھے، میرا داخلہ بھی اسی کالج میں ہوگیا جہاں زین پڑھتا تھا۔
چچا کی خوشی قابلِ دید تھی۔ انہوں نے گائوں فون کرکے سب کو یہ خوشخبری دی۔ امی مسرور تھیں اور ابا جی مجھ پر فخر کرنے لگے تھے۔ غرض میں نے تعلیم حاصل کرنے کا جو چیلنج قبول کیا تو ڈٹ کر محنت بھی کی اور زین نے بھی بھرپور مدد کی۔ اس کا تو ان دنوں فائنل ایئر چل رہا تھا اور میں اس سے کافی پیچھے تھی۔
اللہ کے کرم سے وہ دن آیا جب میرا ایم بی بی ایس مکمل ہوگیا۔ اس روز مجھ سے زیادہ زین خوش تھا لیکن اس خوشی کے موقع پر آنسو نہ روک سکی، کیونکہ میرے والدین میری خوشی میں شریک ہونے کو وہاں موجود نہ تھے۔ اتنے طویل عرصے کے بعد احساس ہوا کہ ان سے کئی برسوں سے جدا ہوں۔ یقیناً انہوں نے بھی جدائی کا کشٹ کاٹا تھا۔
اپنے والد کے گھر سے آتے ہوئے منہ سے جو الفاظ نکلے تھے، وہ پورے ہوئے کہ کچھ بن کر ہی لوٹوں گی۔ اب اپنا وعدہ پورے کرنے جارہی تھی۔ اس کے بعد میں نے جاب شروع کردی اور دوسری طرف زین اپنا اسپتال بنانے کی کوششوں میں لگا ہوا تھا۔ دن یونہی گزرتے جارہے تھے۔ ایک روز چچا میرے پاس آئے اور کہنے لگے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم ہمیشہ اسی گھر میں رہو۔ ان کا مطلب سمجھ گئی، وہ مجھے اپنی بہو بنانا چاہ رہے تھے۔ تبھی کہا۔ چچا جان جیسے آپ مجھے پیار کرتے ہیں اور بیٹی سمجھتے ہیں، میں بھی آپ سے اتنا ہی پیار کرتی ہوں۔ آپ میرے ابو، امی سے بات کریں، اگر زین کو اور میرے والدین کو اعتراض نہ ہوگا تو مجھے کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔
میری بات سن کر ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو بھر آئے۔ بیٹی! جیسے کہ پڑھ لکھ کر بھی تم نے مشرقی لڑکی ہونے کا ثبوت دیا ہے، مجھے تم سے زیادہ اچھی اور سمجھدار بہو نہیں ملے گی۔ ہماری گورنس بھی یہ سن کر خوش ہوگئی کیونکہ وہ مجھ سے اور زین سے بہت پیار کرتی تھی اور اب میری جدائی کا خیال کرکے افسردہ تھی۔ چچا نے امی، ابو سے بات کی۔ بھلا ان کو کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ انہوں نے مجھے چچا کو ہی سونپ دیا تھا۔ زین مجھے دل سے چاہتا تھا۔ گرچہ چچازاد نہیں بلکہ بہن کہتا تھا، مگر مشرقی ریت کے مطابق یہ ہمارے نکاح سے پہلے کی بات تھی۔ ظاہر ہے نکاح کے معاملے میں تو ہم کزن ہی تھے۔
کچھ دنوں بعد زین کا اسپتال مکمل ہوگیا۔ اس نے اسپتال کا نام میرے نام پر رکھا۔ ہم پھر گائوں آگئے۔ پہلی بار ہمارے ساتھ ہماری گورنس مریم اماں بھی آئی تھیں۔ یہ بیوہ خاتون اچھے خاندان سے تھی اور ابو کی منہ بولی بہن بنی ہوئی تھی۔ ان کو اور ان کے دونوں بچوں کو بھی چچا جان نے ہی سہارا دیا تھا۔ جب گھر آئی امی خوشی سے رونے لگیں، میں بھی ان کے گلے لگ کر رو پڑی۔ کتنے عرصے بعد آج اپنے گھر اور ماں، باپ کو دیکھ رہی تھی۔ انہوں نے گلے لگا کر پیار کیا۔ پھر امی سے میں نے آمنہ کے بارے میں پوچھا۔ وہ افسردہ ہوگئیں اور یوں گویا ہوئیں۔
بیٹا…! جب تم یہاں سے گئیں تو آمنہ کافی چپ چاپ سی رہنے لگی تھی۔ کچھ ہی دنوں بعد اس کا رشتہ آگیا۔ اس لڑکے کا نام جنید تھا۔ شراب اور جوئے جیسی چیزوں کا وہ رسیا تھا۔ جب ہم کو معلوم ہوا، ہم نے آمنہ کے گھر والوں کو آگاہ کیا کہ یہ رشتہ مناسب نہیں ہے لیکن انہوں نے کسی کی نہ سنی اور آمنہ جیسی معصوم بچی کو اس نشئی کے ہاتھ میں دے دیا۔
وہ خوشحالی کے بل بوتے پر خود تو سارا دن باہر رہتا اور عیاشی کرتا لیکن آمنہ بیچاری ساس، سسر کی لعنت، پھٹکار کے وار سہتی رہتی۔ دو سال بعد اس کے یہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس پر اس کا شوہر اور زیادہ لاپروا ہوگیا۔ اس کا میکے آنا جانا بند تھا۔ اس طرح وہ بیچاری ان کے ظلم و ستم برداشت کرتی رہی۔ ایک رات آمنہ کی بیٹی کی طبیعت ٹھیک نہ تھی، بچی کو کسی کل چین نہ تھا اور وہ مسلسل رو رہی تھی۔ جنید اسی کمرے میں سو رہا تھا، اس کی نیند ٹوٹ گئی تو اچانک ہی اٹھ کے بچی کو مارنے دوڑا تب آمنہ سے برداشت نہ ہوا اور وہ مقابلے پر اُتر آئی۔ اس نے کہا میں خود پر ظلم برداشت کرسکتی ہوں مگر اپنی بیٹی کو تمہارے ظالم ہاتھوں سے پٹتا نہیں دیکھ سکتی۔ شوہر نے حکم دیا، تو پھر بیٹی کو لے کر دفع ہوجائو اور مجھے سونے دو، یہ مسلسل روتی ہے اور مجھے سونے نہیںدیتی۔ آمنہ نے کہا۔ یہ تمہاری بھی بیٹی ہے، اگر یہ بیمار ہے تو اس کا ذمہ ہم دونوں نے اٹھانا ہے، میں اکیلی ہی کرب بھگتوں اور تم سوئے رہو، میں رات کو کہیں نہیں جاسکتی۔
صبح ہوتے ہی جنید اور اس کے گھر والوں نے آمنہ کو اس کے میکے پہنچا دیا اور پھر طلاق دے دی۔ وہ بیچاری میکے آئی تو اس کے بھائی اور بھابی کو اس کا آنا ناگوار گزرا کہ گھر کے اخراجات بمشکل پورے ہورہے تھے اوپر سے یہ مصیبت آگئی۔ انہوں نے کچھ دن ہی اُسے اور اس کی بچی کو برداشت کیا اور پھر اس کو دوسری شادی پر مجبور کرنے لگے۔ آمنہ اپنی معصوم بچی کی خاطر دوسری شادی نہ کرنا چاہتی تھی لیکن بھابی نے یہ کہہ کر اُسے رضامند کرلیا کہ میرا بھائی تمہاری بچی کا بہت خیال رکھے گا۔ اس کا نام انور تھا اور زیادہ عمر ہوجانے کے سبب کوئی اُسے رشتہ نہیں دیتا تھا۔
آمنہ نے عمر رسیدہ شخص کے ساتھ زندگی گزارنے پر صبر کرلیا، کیونکہ اب اس کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ کچھ عرصے بعد انور کو نوکری سے نکال دیا گیا تو بے حد چڑچڑا اور بدمزاج ہوگیا۔ اب وہ بات بات پر اس کو مارتا اور کہتا کہ جب سے تم زندگی میں آئی ہو، بربادی میرا مقدر بن گئی ہے۔ اگر تم اور تمہاری بیٹی میری زندگی میں نہ ہوتیں تو میں آرام سے اپنا گزارا کرلیتا۔ لیکن اب تمہارے ہوتے یہ بھی ممکن نہ رہا۔ ایک دن جبکہ اس کی بیٹی نے گھی گرا دیا، اس نے بچی کو مارنا شروع کردیا۔ بچی کو بچانے کی خاطر آمنہ آڑے آئی تو اُسے بھی اس قدر زد وکوب کیا وہ بیچاری گردے پر چوٹ لگنے سے چل بسی۔ تب اس نے اس کی بیٹی کو بھی اٹھا کر پٹخ دیا اور وہ اس دھچکے کی تاب نہ لاتے ہوئے ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔ اس کے بعد وہ خود فرار ہوگیا۔ آج تک اس کا کچھ پتا نہیں، کہاں ہے اور نہ کسی نے پیچھا کیا۔
امی نے جب آمنہ کے بارے میں یہ سب کچھ بتایا تو میری آنکھیں چھلک گئیں۔ مجھ سے اس کی دوستی معصوم عمر میں ہوئی تھی۔ اور بچپن کا پیار انسان کبھی نہیں بھلا سکتا۔ آج بھی جب اس کا خیال آتا ہے تو میرے آنسو نکل آتے ہیں۔
آج میں اپنے گھر میں زین اور اپنے بیٹے کے ساتھ آئیڈیل زندگی گزار رہی ہوں۔ یقیناً کبھی نہ کبھی آمنہ نے بھی اس زندگی کی خواہش کی ہوگی۔ لیکن اس معصوم کا انجام افسوناک ہوا۔
میری کہانی سے والدین کو ضرور یہ سبق ملے گا کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم پر زور دیں تاکہ وہ معاشرے کی سختیوں کا مقابلہ کرنے اور اپنے بل بوتے پر زندگی گزارنے کے قابل بنیں۔ بے شک آمنہ اگر تعلیم یافتہ ہوتی تو اتنے ظلم و ستم برداشت نہ کرتی، مگر اس کے پاس تعلیم کی دولت نہ تھی، تبھی اس کا ایسا بھیانک انجام ہوا۔
(نافعہ نازی … صادق آباد)

Latest Posts

Related POSTS