Friday, September 20, 2024

Inkaar Kion Kiya ? | Teen Auratien Teen Kahaniyan

 

دادا زمیندار تھے۔ انہوں نے میرے والد کو بہت اعلیٰ تعلیم دلوائی اور وہ مقابلے کے امتحان میں پوزیشن لے کر ایک اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز ہوئے۔ بہت ان کا اثر و رسوخ تھا مگر یہ اثر و رسوخ مصیبت پڑنے پر ان کے کام نہ آیا۔ جس روز میرے بھائی کی شادی تھی ، اُسی دن سے اس قصے نے جنم لیا۔ والد کے ایک دور کے کزن بھی اس شادی پر مدعو تھے۔ وہ اپنی فیملی کے ساتھ آئے تھے۔ ان کا ایک بیٹا جو بائیس برس کا تھا، نہایت خوبصورت تھا۔ اس کا نام آفتاب تھا۔ اس کی شہرت اچھی نہ تھی۔ جب اس کا رشتہ میرے لئے آیا تو والد صاحب نے انکار کر دیا۔ برادری کے کچھ لوگ ابو سے درخواست کرنے آئے کہ یہ رشتہ منظور کر لیں۔ والد نے امی سے کہا۔ زارا سے پوچھ لو ، اگر وہ ہاں کہہ دے تو غور کر لیں گے۔ لیکن میں نے بھی انکار کر دیا۔ کانوں میں اس کی او باش مزاجی کے قصے پہنچ چکے تھے۔ میرے لئے اس میں کوئی کشش نہ تھی۔ ایک روز اس نے مجھے فون کیا اور شادی کی درخواست براہ راست کی، تو میں نے جواب دیا۔ مجھے تمہارے ساتھ عمر بھر کا سفر منظور نہیں ہے ، اب اور زیادہ مجبور مت کرنا، مر جائوں گی مگر تم سے شادی نہیں کروں گی۔ ایک روز جب ابو اور بھائی گھر پر نہ تھے ، وہ ہمارے گھر آ گیا۔ امی کچن میں مصروف تھیں۔ وہ سیدھا میرے کمرے میں آیا اور شادی کے لئے منتیں کرنے لگا۔ میں پتھر کی طرح ساکت اس کی باتیں سنتی رہی۔ میرے لئے اس کی کوئی بات قابل غور نہ تھی لیکن جاتے جاتے اس نے جو دھمکی دی وہ خوفزدہ کر دینے والی تھی۔ اس نے کہا۔ دنیا کی کوئی طاقت مجھے میرے مقصد کے حصول سے نہیں ہٹا سکتی۔ میں تمہیں ہر صورت حاصل کر کے رہوں گا۔ امی کو کچن میں پتا نہ چلا کہ وہ کب آیا اور کب چلا گیا۔

اس کے جانے کے بعد میرے ذہن میں اس کے دھمکی آمیز الفاظ گردش کرنے لگے مگر جوں جوں وقت گزر رہا تھا، میری گھٹن بڑھتی جارہی تھی جیسے کچھ ہونے والا ہو ، شاید آفتاب کی دھمکی کا نفسیاتی اثر تھا کہ میں اس کے دھمکی آمیز الفاظ ابو کو بتائے بغیر نہ رہ سکی۔ انہوں نے تحمل سے بات سنی اور پھر آفتاب کے والد کو فون کیا۔ جانے ان سے کیا بات کی کہ آفتاب کے فون آنے ہی بند ہو گئے تھے۔ اس کے فون حد درجہ ڈسٹرب کر رہے تھے اور پڑھائی نہ ہو پاتی تھی۔ میں نے سکھ کا سانس لیا۔ انہی دنوں جبکہ امتحان سر پر تھے ، چچا کے بیٹے کی شادی کا بلاوا آ گیا۔ سب شادی پر جا رہے تھے اور میں تذبذب میں تھی کہ کیا کروں۔ امتحان کی تیاری کروں یا شادی اٹینڈ کروں۔ آخر کار یہ فیصلہ کیا کہ گھر پر رہ کر امتحان کی تیاری کر نا زیادہ ضروری ہے۔ سبھی گھر والے چلے گئے اور میں اکیلی رہ گئی۔ ایک دن بعد ہی چچا مجھے لینے آ گئے۔ تب عافیت اسی میں جانی کہ چلی جائوں کیونکہ گھر میں تنہا رہنا بھی دشوار لگا۔ چچا زاد بھائی کی شادی کے تیسرے روز میں نے والد سے کہا کہ مجھے واپس گھر لے چلیں، پڑھائی کا ہرج ہو رہا ہے۔ ابو نے گاڑی امی اور بہنوں کو واپس لانے کے لئے بھائی کے پاس چھوڑ دی اور مجھے لے کر بس اڈے پر آگئے۔ ابھی وہ اور بھائی آپس میں بات کر رہے تھے کہ ایک جیپ اور گاڑی ہمارے سامنے آکر رکیں، اس میں سے اسلحہ بردار لوگ اترے اور انہوں نے مجھے زبردستی گھسیٹ کر گاڑی میں ڈال دیا۔ انہوں نے وہاں موجود لوگوں پر بھی اسلحہ تان لیا۔ یہ سب کچھ آنا فانا کچھ اس طرح ہوا جیسے کہ کسی فلم کا سین ہو۔ ابو پر کیا گزری ؟ بھائی کو میں نے گاڑی کے پیچھے بھاگتے دیکھا لیکن ان کے پاس اسلحہ نہ تھا، وہ خالی ہاتھ تھے۔ زیادہ دیر حواس بحال نہ رکھ سکی اور بے ہوش ہو گئی۔ نجانے کب تک اور کن رستوں پر گاڑی چلتی رہی۔ بالآخر ایک جھٹکے سے رُکی تو میرے حواس جاگے۔ ابھی تک سمجھ نہ پائی تھی کہ کس نے اور کس وجہ سے یہ دشمنی کی ہے۔ اچانک آفتاب سامنے آ گیا۔ اس کو دیکھتے ہی میں ہسٹریائی انداز میں چیخنے لگی۔ اس پر میرے آنسوئوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اُس نے کہا۔ رونا بند کر دو اور بے خوف ہو جائو۔ تم یہاں محفوظ ہو ، تمہاری عزت میری عزت ہے، میں تمہاری مرضی کے بغیر اس کمرے کی دہلیز بھی پار نہیں کروں گا مگر تمہیں مجھ سے نکاح کرنا ہو گا۔ مجھے تو اس سے اور زیادہ نفرت ہو گئی۔ زمین پر ڈھتے باپ اور بے بس بھائی کے چہرے میری آنکھوں کے  سامنے تھے۔ میں نے کہا۔ آفتاب، مر جائوں گی تم جیسے شخص سے شادی نہیں کروں گی۔ جس کمرے میں مجھے رکھا گیا وہاں ہر طرح کی سہولت موجود تھی۔ مگر میرے لئے یہ مقام دوزخ جیسا تھا۔ اندازہ نہیں ہوا کہ کتنے روز و شب گزر گئے۔ ہر وقت اللہ سے دعا کرتی کہ مجھے اس زنداں سے نکال دے۔ آفتاب روزانہ کمرے کی دہلیز پر کھڑا ہو کر مجھ سے نکاح کا تقاضا کرتا مگر کمرے کے اندر قدم نہ رکھتا تھا۔ ہر بار انکار کرتی، جب وہ چلا جاتا شکر کرتی کہ محفوظ ہوں تاہم گھر والوں کی پریشانی کا خیال مجھے سخت پریشان کر دیتا تھا۔ ایک روز بوڑھی ملازمہ نے مجھے بتایا کہ میں نے سنا ہے کہ تمہارے والد کی طبیعت ناساز ہے۔ تمام دن مصلے پر بیٹھ کر اپنے باپ کی زندگی کی دعا کی۔ شام کو آفتاب آیا تو کچھ بجھا بجھا سا تھا۔ ایک خواہ مخواہ کی ضد نے اُسے بھی یہاں لا پھنسایا تھا۔ کہنے لگا۔ جس شخص کے پاس ہم رہ رہے ہیں، وہ ٹھیک آدمی نہیں ہے، تم ضد چھوڑو اور ہم کورٹ جا کے نکاح کر لیتے ہیں۔ اس طرح ہم گھر جا سکیں گے، میں اپنے کئے پر نادم ہوں۔ مجھ سے بڑی غلطی ہوئی تمہیں اس طرح اٹھا کر نہیں لانا چاہیے تھا۔ اسی دوست نے مجھے اکسایا اور میں اس کے اکسائے میں آ گیا۔ اب اس کے تیور صحیح نہیں لگتے۔ یہ تمہارا دوست ہے، تو تم جیسا ہی ہو گا۔ مجھے بہت ندامت ہے، اب مسئلے کی نزاکت کو سمجھو۔ تمہارے والد کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اگر تم سے نکاح کئے بغیر واپس لے گیا تو میری جان کو خطرہ ہے۔

کورٹ میں نکاح کر کے اور مجسٹریٹ کے سامنے میرے حق میں بیان دے کر تم میری جان بچا سکتی ہو۔ میں نے کہا کہ اگر تمہیں ایسی ہی میرے والد سے ہمدردی ہے تو ایسی غلط حرکت کی ہی کیوں۔ میں نے اس کی بات رد کر دی۔ ابو کے پاس بھی وسائل کی کمی نہ تھی۔ وہ بازیاب کرا لیتے لیکن پتا نہیں یہ ظالم مجھے کہاں لے آیا تھا کہ وہ مجھ تک نہیں پہنچ سکے تھے۔ رات دن ان کا انتظار رہتا تھا۔ اسی رات عورت نے جو میرے ساتھ کمرے میں ہوتی تھی، سمجھایا کہ تم آفتاب کی بات مان لو، وہ برا نہیں ہے، تم سے محبت کرتا ہے اور ہر صورت شادی کرنا چاہتا ہے ، نکاح کر لو گی تو کم از کم اس قید سے تو رہائی پالو گی ورنہ تمہاری فکر کی وجہ سے تمہارے باپ کی جان چلی جائے گی، وہ بہت بیمار ہیں ۔ اسی رات خواب میں مجھے ابو بیمار نظر آئے تو میں نے فیصلہ کیا کہ آفتاب کی بات مان لیتی ہوں، کم از کم ابو کو زندہ تو دیکھ سکوں گی۔ آفتاب آیا تو میں نے سخت بیزاری کے ساتھ اس کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔ اس نے اپنے کچھ دوست بلوائے اور نکاح ہوا، پھر وہ مجھے لے کر اس اجنبی علاقے سے نکلا اور شام کو ہم شہر آ گئے۔ اس نے کہا۔ ہم اس شہر میں رکتے ہیں اور صبح میں وکیل سے بات کرتا ہوں تاکہ کورٹ میں نکاح کر کے نکاح کا ثبوت حاصل کر لیں۔ اس نے مجھے اس رات ایک دوست کے گھر میں رکھا جہاں اس کے بیوی بچے بھی تھے اور خود دوسرے کسی دوست کے گھر چلا گیا۔ اس نے کہا کہ ابھی مجھے تمہاری اور اپنی حفاظت مطلوب ہے۔ آفتاب کا یہ دوست میرے بھائی کا ہم شکل تھا، بے اختیار میں نے اُسے بھائی جان پکارا، تو اس نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا۔ آج سے تم میری بہن ہو، کیا چاہتی ہو ؟ اپنے والد سے بات کرنا چاہتی ہوں۔ میں ان کو تسلی دینا چاہتی ہوں کہ میں خیریت سے ہوں۔ وہ بیمار ہیں اور مجھے اعتبار نہیں آرہا کہ آفتاب مجھے ان سے ملائے گا یا نہیں۔ اس کی بیوی نے تسلی دی کہ خاطر جمع رکھو اور جب وہ باہر چلا گیا دوست کی بیوی نے مجھ سے نمبر پوچھ کر فون ملادیا۔ میری امی سے بات ہو گئی۔ آفتاب کچھ انتظامات کے لئے گیا ہوا تھا۔ وہ رات میں نے جاگ کر گزاری تھی۔ صبح جب ہم کورٹ پہنچے وہاں بھائی پہلے سے موجود تھے ، آفتاب حیران اور پریشان ہو گیا۔ بے شک ہمار ا نکاح مولوی صاحب نے زبانی پڑھادیا تھا مگر قانونی طور پر رجسٹر ڈ نہیں ہوا تھا، تبھی کوئی نہیں مان رہا تھا کہ ہمارا نکاح ہوا ہے۔ جب ہم مجسٹریٹ کے روبرو ہوئے، میں نے بیان بھائیوں کے حق میں دیا۔ آفتاب دھر لیا گیا۔ اس نے برادری کے بڑوں کو فون کرایا تو وہ وہاں آ گئے اور معاملے کو مصالحت سے حل کرانے کی کوشش کی۔

آفتاب کے والد نے میرے بھائیوں کی بہت زیادہ منت سماجت کی۔ برادری کے دبائو سے بھائیوں نے صلح تو کر لی مگر آفتاب کو رہائی دلوا کر بھائی مجھے اپنے ساتھ گھر لے آئے۔ میں خوش تھی کہ جیسی گئی تھی اسی طرح محفوظ واپس آگئی تھی۔ اگلے ہی لمحے یہ خوشی خاک میں مل گئی جب پتا چلا کہ ابو فوت ہو گئے ہیں۔ اس خبر نے نڈھال کر دیا۔ میں بستر پر ڈھے گئی۔ اس حالت میں بھی رشتے داروں کی باتیں میرے کانوں تک پہنچنے لگیں کہ یہ لڑکی اپنے والد اور بھائیوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر  گھر سے بھاگ گئی تھی ، اب نجانے کس حال میں واپس آ گئی ہے۔ میں کسی کو یقین نہ دلا سکی کہ میں با عصمت واپس آئی ہوں اور میرے دشمن نے مجھ سے وہ دشمنی نہ کی جو اکثر کر جاتے ہیں۔ اس معاشرے کے لوگ کسی دوسرے کی بہن بیٹی کے معاملے میں پتھر کے ہو جاتے ہیں۔ میں کئی روز گھر سے غائب رہی تھی اور یہ بات میری زندگی کے براق دامن پر ایسا دھبہ ثابت ہوئی کہ جسے میرے آنسو نہ دھو سکے۔ میرے بھائی بھی میرے غم میں بہت بدل گئے تھے۔ رفتہ رفتہ سب بہنوں کی شادیاں ہو گئیں مگر میرا رشتہ کہیں نہ ہو سکا۔ مجھے ناکردہ گناہ کی ایسی سزا ملی کہ میں آج تک تنہا ہوں جبکہ بھائی بہن سب اپنے گھروں میں آباد اور خوش ہیں۔ ایک ماں تھی وہ بھی نہ رہیں۔ بعد میں رشتے داروں نے کوشش کی کہ آفتاب سے با قاعدہ میری شادی ہو جائے مگر اس نے انکار کر دیا۔ نہیں جانتی کہ میری زندگی اجاڑنے والے نے کیوں انکار کیا ؟

Latest Posts

Do Humsafar

Related POSTS