معصومہ کی نگاہیں گھڑی کی سوئیوں پر ٹکی ہوئی تھیں- جیسے ہی 11 بجے- اس نے منتظر نگاہوں سے صحن سے ملحق بالائی منزل سے آتی ہوئی سیڑھیوں پر نگاہ ڈالی – زینا عبور کرتی حرا ایک ادا سے نیچے آ رہی تھی- ہشاش بشاش چہرہ پرسکون مسکان سجائے وہ نیچے آئی- کیسی ہیں بھابھی جاگ گئی آپ؟ معصومہ کو اس کا یہ سوال ایک انکھ نہ بھایا تھا کیونکہ وہ تو صبح اذانوں کے وقت سے جاگی، گھر گھرستی کے کاموں میں الجھی ہوئی تھی- جبکہ حرا کی صبح اب ہوئی تھی اور پوری نیند لینے بعد وہ بہت خوبصورت دکھائی دے رہی تھی-معصومہ اتنی تھکی ہوئی تھی کہ اس کا لب کھولنے کو بھی دل نہ چاہا اس لیے ہلکی سی آواز سے بولا ہاں میں تو کب کی جاگ گئی – حرا نے فریج کھولا – آٹا نکالا پیڑا بنایا – اور حیدر کے لیے ناشتہ تیار کیا – حیدر اتنی دیر میں نیچے آیا، اس کی گود میں عیشا تھی – ان کی اکلوتی اولاد- ایک سالہ عیشا مطمئن سی باپ کی گود میں تھی – تبھی حرا نے بے نیازی سے ناشتہ ٹیبل پر دھرا اور عیشا کو معصومہ کو پکڑاتے ہوئے بولی بھابھی عیشا کو پکڑ لیں ذرا ہم دونوں ناشتہ کر لیں – معصومہ حیرت سے اسے بس دیکھتی رہ گئی – کہنا چاہتی تھی کہ شدید تھکاوٹ کے بعد وہ بچوں کو سکول لینے جانے سے پہلے لیٹنا چاہتی ہے اور تازہ دم ہونا چاہتی ہے- مگر ہمیشہ کی طرح اس کے خیالات دل میں رہ گئے- اور عیشا کو تھامتی ہوئی وہ کمرے میں آ گئی – عیشا کو کھلونے پکڑائے اورعیشا کھلونوں میں مگن ہو گئی ساتھ ہی بی بی کاٹ میں زینب سو رہی تھی- زینب پر نظر پڑتے ہی معصومہ کی انکھوں میں ممتا بھر آئی -معصومہ تین بچوں کی ماں تھی موسی سونیا اور چھوٹی زینب جو ابھی چند ماہ کی تھی – موسی اور سونیا دونوں سکول جاتے تھے- اس لیے معصومہ کو صبح سویرے ان کو سکول روانہ کرنے کی غرض سے جاگنا پڑتا تھا – معصومہ اور اسد دونوں میاں بیوی اس پانچ مرلے کے مکان میں تنہا رہتے تھے مگر ایک ماہ قبل اس چھوٹے کے بھائی حیدر کو بھی کراچی میں نوکری مل گئی تھی- اس لیے اب حیدر کو بھی یہاں مستقل رہائش کے لیے آنا تھا – یوں بھی اوپر کی منزل خالی تھی، اس لیے اسد نے مناسب سمجھا کہ اوپر کا پورشن بھائی کو رہنے کے لیے دے دیا جائے – وہاں ایک کمرہ اور اٹیچ باتھ اور کچن تھا مگر اس میں سامان نہ تھا- اس لیے اسد اور حیدر کی بیوی یعنی معصومہ اور حرا دونوں اکٹھے ہی نیچے والے پورشن میں موجود باورچی خانے کو کھانا پکانے کے لیے استعمال کر لیتی تھی- معصومہ کی اسد اور تین بچوں کے ساتھ پہلے ہی بہت ذمہ داری تھی- اس کا خیال تھا کہ حرا کے آنے سے کچھ سکون میسر ہوگا ،مگر حرا کے آنے سے نہ صرف ذہنی سکون جاتا رہا بلکہ جسمانی سکون بھی غارت ہو گیا – کام کے بعد جو تھوڑا وقت بچتا تھا کہ وہ اپنی کمر سیدھی کر لے- اب وہ حرا اور اس کی بیٹی عیشا کی خدمت گزاری میں گزر رہا تھا – معصومہ کا دل اس وقت خوب کرتا تھا جب ہفتے بھر کے گندے برتنوں کا ڈھیر معصومہ کو خود حرا کے کمرے سے جا کر لانا پڑتا تھا- پلیٹ میں بغیر ڈھکے چاول نہ جانے کب سے پڑے تھے روٹیوں کے ٹکڑے دوسری پلیٹ میں منہ چڑھا رہے تھے- کئی کپ جو چائے پینے کے بعد گندے پڑے تھے، معصومہ سارا دن برتن دھوتی رہتی اوپر سے نیچے کے چکر لگاتی- لیکن اسے بہت کوفت ہوتی جبکہ حرا اس معاملے میں بالکل لاپروا تھی- اسے اپنی اس بے حسی کی انتہا پر کوئی افسوس تک نہ تھا – سب سے زیادہ بری بات یہ تھی کہ حیدر بھی انکھ بند کیے بیوی کا غلام تھا- جبکہ اسد ہر معاملے میں معصومہ کو ڈانٹ دیا کرتا تھا -چاہے اس میں معصومہ کا قصور ہو یا نہ ہو- اسد کو معصومہ کی تذلیل کر کے دلی خوشی محسوس ہوتی تھی- جبکہ حیدر حرا کے سامنے بول نہ سکتا تھا – جیسا وہ کہتی ویسا ہی کرتا تھا – یوں لگتا تھا جیسے بےدام غلام ہو شوہر نہیں – روزانہ حرا کو نیچے آ کر صاف کچن ملتا تھا – برتن جو اس کے رات کے گندے پڑے ہوتے تھے، وہ معصومہ صاف کر چکی ہوتی تھی- ہر چیز ٹھکانے پر رکھی ہوتی تھی- تو پھر بھلا دو پراٹھے بنانے میں کیا دیر لگتی؟ ناشتہ کرا کے میاں کو رخصت کرتی اور دوبارہ اپنی بیٹی کو لے کر اوپر کے پورشن میں گم ہو جاتی – اس کی امد دوبارہ تب ہوتی جب دوپہر کا کھانا بن چکا ہوتا- اور معصومہ روٹیاں پکا رہی ہوتی تھی – وہ اس وقت حرا کچھ ایسا کرتی کہ بچی رونے لگ جاتی-پھر حرا آرام سے پکارتی, روٹی تو آپ بنا رہی ہیں – میرے لیے بھی بنا دیں- اب بھلا اس میں انکار کی تو کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی- حرا آرام سے گرم روٹی لیتی اور عشاء کو سامنے بٹھا کر کھانے لگتی- کھاتے ہی وہ دودھ پتی کی فرمائش کر دیتی- معصومہ کو خود بھی چائے کی طلب محسوس ہو رہی ہوتی تھی- اسی لیے دودھ برتن میں ڈال کر چولہے پر چڑھا دیتی- معصومہ کی سوچ میں شفافیت تھی- وہ سوچتی تھی کہ اپنے بچوں کے لیے پکا رہی ہوں تو دو روٹی اور چائے بنا دینے سے حرا اور حیدر کی کوئی فرق نہیں پڑتا – کھانے کے برتن عیشا کے دلیے کے برتن وہ بے نیازی سے یوں ہی چھوڑ جایا کرتی تھی- جس پر افسوس معصومہ کو بہت ہوتا تھا کہ حرا اتنی لاپرواہ کیوں ہے اور اسے احساس کیوں نہیں ہوتا – معصومہ نے اپنے بچوں کا جو سکول سے ابھی ابھی ائے تھے یونیفارم تبدیل کرایا منہ ہاتھ دھلایا اور کھانا لا کر کھلانے لگی- بچے تھے ان کا تقاضا ہوتا تھا کہ وہ ارام سے بیٹھ کر کارٹون دیکھتے جائیں اور ماں ان کو نوالے بنا کر منہ میں ڈالتی رہے – معصومہ بھی مان جاتی تھی اتنے میں زینب چیخ مار کر جاگ جاتی تھی- معصومہ کا کھانا وہیں رہ جاتا اور وہ زینب کے کانوں میں مصروف ہو جاتی تھی- وہاں سے فراغت ملتی تو بچوں کو ہوم ورک اور پھر ٹیسٹ ملے ہوتے جن کی تیاری کرانے میں خاصہ وقت گزر جاتا – اس تمام وقت میں حرا اپنے کمرے میں روپوش رہتی- جب مرد حضرات کے آنے کا وقت ہوتا تو بن سنور کر نیچے اتر اتی- بھابھی پنک لپ ا سٹک دیں میرون پینسل دے دیں- حرا کا انداز دو ٹوک ہوتا تھا- معصومہ صرف ٹھنڈی آہ بھرتی اور کہتی کہ وہاں پڑی ہے ٹیبل پر جا کر لے لو- معصومہ جانتی تھی کہ یہ پوچھنا محض دکھاوا ہے- اور اس کو سارے راستے معلوم ہیں- اور جب کہ معصومہ اتنی معصوم اور سادے سے حلیے میں پھر رہی ہوتی یہاں تک کہ اسد آ جاتا – حرا کا چھمک چھلو والا گٹ اپ اسد کی نگاہوں کی زد میں ضرور اتا – اور اسے ایسا لگتا کہ جیسے معصومہ کو اس کے آنے کی خوشی ہی نہیں ہوتی- زندگی کی گاڑی شاید یوں ہی چلتی رہتی لیکن باجی خالدہ ان کے گھر گئیں – باجی خالدہ ان دونوں کی اکلوتی نند تھی- جو لاہور میں رہتی تھی اب چند دنوں کے لیے بھابھیوں سے ملنے آ گئی – باجی خالدہ نے ایک دن معصومہ کی سرگرمیاں ملاحظہ کی- اور حرا کی بے نیازی بھی دیکھی اور سوچنے میں مصروف ہو گئی کہ آخر یہ کیسے چلے گا – باجی خالدہ کو معصومہ کا گدھوں کی طرح کام کرنا اچھا نہ لگا – ان کا دل مغموم ہو گیا – باجی خالدہ کو اپنا ماضی یاد آگیا- باجی خالدہ نے اپنے سسرال والوں کی جی جان سے خدمت کی لیکن اس کا انہیں کبھی صلہ نا ملا ، بلکہ ہمیشہ یہ تصور کیا جاتا کہ یہ ان کا فرض ہے- لیکن انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ حرا کی یہ چالاکیاں چلنے نہ دیں گی اور یوں معصومہ پر اتنا کاموں کا بوجھ، انہیں اپنے پچھلے وقت کی یاد دلاتے ہوئے مزید مغموم کر گیا- حرا نے یوں کیا کہ جیسے ہی باجی خالدہ کی آمد کا پتہ چلا اس نے ایسا اپنی بیماری کا رونا ڈالا کہ تمام کام خود بخود معصومہ کی ذمہ داری بن گئے- ویسے تو حرا نے لا تعلقی کی زندگی بسر کرنی ہی تھی مگر اس وقت تو انتہا ہو گئی کہ جب اس نے معصومہ کے سامنے اپنے اور بچی کے گندے کپڑوں کا ڈھیر لگا دیا کہ بھابھی اپ یہ کپڑے دھو دیں- میری تو حالت خراب ہے کمزوری اور نقاہت سے چکر آ رہے ہیں- خالدہ باجی چپ رہیں، وہ اس تماشے کو انتہا تک دیکھنا چاہتی تھی – معصومہ جو تھکن سے چور تھی – اور ابھی کچن کے کاموں سے فارغ ہوئی تھی- اب اطمینان سے آرام کرنے کا سوچ رہی تھی – بالکل ہونق چہرہ لیے دیورانی کو دیکھنے لگی – چاہتی تو صاف صاف بات کرتی میں تھکی ہوئی ہوں، مگر تھکن کا لفظ ہمیشہ کی طرح اس کے لفظ سے ادا نہ ہوا – اور وہ اپنے وجود کو گھسیٹتے ہوئے گٹھری کھولنے لگی – اور کپڑے نکالنے لگی- بچی کے کپڑے الگ کیے بڑوں کے کپڑے الگ- اور واشنگ مشین لگا کر کپڑے دھونے لگی- دو گھنٹے تک وہ مصروف رہی- پھر فارغ ہوئی تو اس کا حلیہ خراب ہو رہا تھا – سارے کپڑے بھیگ چکے تھے- اور زینب دودھ مانگ رہی تھی – خالدہ آپا نے یہ ساری کاروائی ملاحظہ کی پھر حرا جو پانی میں ہاتھ نہیں ڈال رہی تھی کہ اس کو ٹھنڈ لگ گئی ہے- اس وقت ٹہلتی ہوئی آئی- زینب کو معصومہ تھپکا تھپکا کر چپ کروانے میں لگی تھی – جب حرا نے اپنی بچی کو بھی معصومہ کو تھما دیا- بھابھی میں ذرا نہانے جا رہی ہوں – حیدر انے والے ہوں گے مجھے اس طرح دیکھیں گے تو انہیں اچھا نہیں لگے گا – اس سے پہلے کہ معصومہ کوئی جواب دیتی – وہ نہانے کے لیے باتھ روم میں گھس گئی – اب دو بچے منہ پھاڑ کر رو رہے تھے – اور معصومہ کا دل کر رہا تھا کہ وہ خود بھی بین کرے- خالدہ باجی نے سارا منظر دیکھا – پھر انہوں نے عیشا کو تھاما اور معصومہ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی- کب تک خود کو یوں تکلیف دیتی رہو گی- دنیا بہت ظالم ہے- اگر ابھی تم نے اس کا کوئی حل نہ نکالا- تو پھر تم ساری زندگی اآرام سے بیٹھ نہ سکو گی- آنسو خالدہ آپا کی ہمدردی سن کر معصومہ کے گالوں پر بہنے لگے- آپ بتائیں میں کیا کروں، اگر میرے مطابق چلو گی تو یقین مانو تمہاری تمام مشکلات حل ہو جائیں گی –
پھر اگلا دن شروع ہوا جیسے تمام دن ہوا کرتے تھے – مگر اس دن ایسا کچھ نیا ہونا تھا جو باقی دنوں سے منفرد تھا- اگرچہ اج بھی معصومہ گھڑی کی سوئیوں پر نگاہ ٹکائے بیٹھی تھی- جیسے ہی گھڑی نے 11 بجے کا ہندسہ عبور کیا – حرا مسکراتی ہوئی زینا اتر کر ائی تھی- اس نے ایک مسکراہٹ معصومہ کی جانب بھی اچھالی تھی- ٹی وی کے سامنے بیٹھی ٹاک شو دیکھتی معصومہ نے بھی جوابا مسکراہٹ پیش کر دی- خالدہ باجی فاصلے پر صوفے پر بیٹھی تھیں – اور رسالہ پڑھ رہی تھی- حرا نے کچن میں قدم رکھا ،پہلا جھٹکا اسے اس وقت لگا جب کچن میں برتنوں کا انبار تھا- اس نے مشکل سے کپ تلاش کیا اور اسے دھویا – کچن گندا ہو تو کام کرنا کتنا مشکل ہو جاتا ہے – پھر فرج کھول کر آٹا لینے کے لیے نگاہ دوڑائی- مگر آٹا نہیں تھا سو بے ساختہ پلٹی، بھابھی آٹا نہیں ہے کیا؟ لہجے میں بے یقینی پھیلی تھی- معصومہ نے اس کی حیرت سے کافی لطف اٹھایا – بالکل ہے بہت آٹا ہے، کنستر میں سے نکال کر گوند لو- حرا کو جواب دیتی معصومہ اس معصومہ سے مختلف تھی، جو روز الو بن جاتی تھی- حرا برا سا منہ بنا کر اوپر چلی گئی – تھوڑی دیر بعد حیدر نیچے ایا – بھابھی حرا کی طبیعت خراب ہے کمزوری ہے اس سے ناشتہ نہیں بن سکتا- اس لیے اپ پلیز دو پراٹھے اور املیٹ بنا دیں- معصومہ سے پہلے خالدہ اپا نے جواب دیا ،ایسی کون سی کمزوری ہو گئی ہے کہ شام کو نہاتی ہے- اس وقت تو اسے کوئی کمزوری نہیں ہوتی- ایسا کرو معصومہ کہ تم مجھے وہ فیروزی سوٹ لا کر دو جس کے بٹن ٹانکنے ہیں، خالدہ باجی نے ایسی بات کی کہ حیدر لاجواب ہو گیا- اور قصہ ہی ختم ہو گیا- حیدر کو ناکام واپس لوٹنا پڑا – حیدر تیار ہو کر بھوکا ہی دفتر چلا گیا اور شرٹ بھی پریس نہ کروائی – کیونکہ ملازم معصومہ تو مصروف تھی- دوپہر کو جب حرا کے پیٹ میں چوہے دوڑے تو اسے نیچے انے کا خیال ایا – اس کا اترا ہوا چہرہ اس بات کی دلیل تھا کہ اسے بھوک لگ رہی ہے کچن میں پتیلے سے ڈھکنا اٹھایا تو حیران رہ گئی کہ صاف ستھری پتیلی منہ چڑھا رہی تھی اور سالن کا ایک ذرہ تک اس میں نہ تھا – اج اپ نے کھانا نہیں بنایا؟ جس پر معصومہ نے جواب دیا نہیں میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی- کیا صرف تمہاری طبیعت خراب ہو سکتی ہے ؟ حرا کوئی سخت جواب دینے والی تھی مگر نند پر نظر پڑی تو خالدہ اپا نے سخت نظروں سے دیکھا- تو وہ واپس زینہ چڑھ گئی- معصومہ اور خالدہ اپا ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے پھر بچے سکول سے ائے تو معصومہ نے ان کے لیے جو چکن سینڈوچ بنا کر ہاٹ پاٹ میں رکھے تھے وہ نکالے اور انہیں کھلا دیا – جاؤ بچوں اج انجوائے کرو کیونکہ پھوپھو کا مشورہ تھا کہ بچوں کو اج فل ڈے فن کرانا ہے اتنا سارا دن کام کر کے معصومہ کو بھی اخر آرام مل ہی گیا تھا- پھر شام کو حرا نیا سوٹ پہن کر نمودار ہوئی معصومہ سامنے لیٹی ہوئی تھی- یقینا حرا نے آج بچے سے دوپہر کو نان کباب منگوا کر گزارا کیا تھا اسی لیے اسے یقین تھا کہ اسد کے انے پر تو بھابھی نے کھانا تیار کیا ہوگا- مگر بھابھی کو یوں لیٹا دیکھ کر حرا حیران رہ گئی- جاؤ کھانا بناؤ کچن میں خالدہ باجی کی بات پر وہ مجبورا کچن میں ائی تھی- کھانا بنانا تو اسے اتا ہی نہ تھا سوچا قورمہ بنا لیتی ہوں قورمہ بنانے میں اس کی حالت خراب ہو گئی- انکھیں پانی سے بھر گئیں- ہلدی اس کے چہرے پر لگی تھی خدا خدا اس نے سالن تیار کیا تو سامنے کھڑی معصومہ پر نگاہ پڑی- بے حد نفیس کام والا سوٹ پہن کر وہ بے حد حسین لگ رہی تھی- بچے بھی خوش تھے- خالدہ اپا بھی بالکل تیار تھی – جب اسد آیا مسکرا کر اس نے اپنی بیگم پر نگاہ ڈالی – جو کہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی- ہر وقت گندے حلیے میں رہنے والی معصومہ آج اسے بہت حسین لگی، معصومہ کی اتنی پیاری صورت دیکھ کر اسد کا دل بے اختیار چاہا کہ چلو بھئی اج ہم کھانا کھانے باہر جا رہے ہیں- اچھا پھر ٹھیک ہے کھانا کھا لو تو آپ واپسی پر مجھے آمنہ کی طرف بھی چھوڑ دینا معصومہ کے دل میں خیال آیا کہ عرصہ ہوا بہن سے ملاقات نہیں ہوئی-خالدہ آپا کی آواز نے مکمل طور پر حرا کو حیرت میں ڈال دیا جب انہوں نے غصّیلے انداز میں کہا کہ حیدر آ گیا ہے اب اپنے میاں کے ساتھ جلا ہوا قورمہ کھا لینا ادھر عیشا کے رونے کی آواز نے اسے یہ احساس دلایا کہ ابھی اسے اسے بھی دیکھنا تھا- اسے واقعی سچ مچ چکر انے لگے اور کمزوری محسوس ہونے لگی – جب حیدر گھر میں داخل ہو رہا تھا تو اپنی بیوی کو اتنے گندے حلیے میں دیکھ کر حیران رہ گیا کیونکہ اسے تو ہمیشہ سے بنی سنوری حرا ہی نظر ائی تھی لیکن وہ کیا جانے کہ ہیرا کے بننے سنورنے کے پیچھے ساری محنت تو معصومہ کی لگتی تھی-