ہم دو بہن بھائی تھے۔ عمران بھائی مجھ سے چار سال بڑے تھے۔ والدین نے ہماری پرورش دھیان سے کی تاکہ تعلیم میں کوئی کمی نہ رہے۔ ہماری عادات اچھی تھیں لیکن والد صاحب کی تنخواہ قلیل ہونے کے سبب میٹرک سے آگے نہ پڑھ سکے۔ ان دنوں امی بیمار تھیں اور والد کی تقریباً ساری تنخواہ ان کے علاج معالجہ پر خرچ ہو جاتی تھی۔ بھائی عمران کام ڈھونڈ رہے تھے لیکن ان کو کہیں مناسب نوکری نہ ملی۔ ہمارے گھر کے برابر ایک وسیع کوٹھی کافی عرصہ سے خالی پڑی تھی۔ کوٹھی کے مالک بمعہ فیملی کینیڈا شفٹ ہو چکے تھے۔ وہ کبھی کبھی آتے ، اسی وجہ سے ان کا گھر نہیں بکتا تھا۔ جب مالک غیر موجود ہو تو مکان کیسے بکے گا۔ اس کوٹھی کی چار دیواری بہت نیچی تھی۔ خاص طور پر وہ دیوار جو ہمارے اور ان کے گھر کے بیچ تھی۔ ان کے گھر میں آم اور جامن کے درخت تھے ، ہم دیوار پھلانگ جاتے کیریاں اور جامن توڑ کر دامن بھر لاتے۔ کلیم صاحب جن کی یہ کوٹھی تھی، عرصہ دراز تک پڑوسی رہے تھے ۔ پہلے ان کا مکان معمولی سا تھا، جب انہیں بخت لگا، پرانا گھر مسمار کر کے نئی کوٹھی تعمیر کرالی۔ کچھ عرصہ اس میں قیام پذیر رہے اور پھر کینیڈا چلے گئے۔ ان کو وہاں شفٹ ہوئے نو برس بیت چکے تھے اور تب سے یہ کوٹھی کبھی کبھار آباد ہوئی۔ والد صاحب ایک پڑوسی کے ناطے کلیم صاحب کی اس جائداد کی دیکھ بھال کر لیا کرتے تھے۔ اللہ تعالی نے پڑوسیوں کو ترقی دی۔ وہ مالی لحاظ سے خوشحال ہوتے گئے۔ ہمارا گھر معمولی درجے کا بنا ہوا تھا، ارد گرد بنگلے اور کوٹھیاں تعمیر ہوتی گئیں، دیکھتے ہی دیکھتے یہ پوش علاقہ بن گیا۔ بالآخر کلیم صاحب اپنی ملکیت فروخت کرنے میں کامیاب ہو گئے اور یہ ویران گھر آباد ہو گیا۔ اس میں جو لوگ آئے بے حد امن پسند اور شریف تھے۔ اللہ کے کرم سے بہت امیر تھے مگر غرور نام کو نہ تھا۔ انہوں نے کافی روپیہ خرچ کر کے اس رہائش گاہ کو نیا اور خوبصورت بنوایا اور قیمتی فرنیچر سے سجالیا۔ نئے پڑوسیوں نے ملاقات میں پہل کی اور ایک روز ماں بیٹی ملنے آئیں جبکہ ہمارے گھر میں غربت کا راج تھا لیکن وہ دیندار لوگ پڑوسی کی حرمت کو مقدم جانتے تھے۔ امی کے ساتھ انہوں نے گھل مل کر باتیں کیں۔ نئی پڑوسن نے اپنے شوہر کا نام عبد السلام اور بیٹی کا نمرا بتایا۔ نمرا ان کے ساتھ تھی اور مجھ سے چار پانچ برس بڑی لگ رہی تھی۔ وہ مجھ سے اپنائیت سے باتیں کرنے لگی۔ ہمارا ان سے یہ پہلا تعارف تھا جو بہت خوشگوار تھا۔ انہوں نے گھر آنے کو بھی کہا۔ یوں ان کی حیثیت کے باعث جو جھجک محسوس ہورہی تھی وہ نہ رہی۔ ہمارے گھر کا ٹی وی پرانا تھا، خراب ہوا تو دوبارہ نہ لے سکے۔ اب میں ٹی وی دیکھنے ان کے گھر چلی جاتی تھی۔ ایک دن باتوں باتوں میں آنٹی ندا نے ذکر کیا کہ انہیں اپنے لان کی دیکھ بھال کرنے کے لئے کسی کی ضرورت ہے لیکن چاہتی ہیں کہ با اعتبار آدمی ہو ، ان کے شوہر کام کے سلسلے میں بیرون ملک چلے جاتے ہیں تو وہ ماں بیٹی اکیلی ہو جاتی ہیں تبھی وہ کسی کو ملازم رکھنے پر احتیاط سے کام لینا چاہتی تھیں جو گھر کے اندر بھی آئے تو کسی قسم کا خطرہ نہ ہو۔ یہ علاقہ اور محلہ ان کے لئے بالکل ہی نیا اور اجنبی تھا اور وہ کسی کو نہ جانتے تھے ۔ کام والی ماسی کے لئے بھی امی سے کہا کہ اگر آپ کی بھروسہ والی کوئی عورت ہو تو ہی بھیجیں۔ بار بار جب مالی اور گھریلو ملازم کے لئے والد صاحب سے کہا تو بہو نے کہہ دیا۔ جب تک کوئی بھروسے کا ملازم آپ کو نہیں مل جاتا عمران کو بلوالیا کریں۔ میرے بیٹے کو اپنا بیٹا سمجھیں، میں نے اس کی اچھی تربیت کی ہے آپ کو اس سے شکایت نہ ہو گی یہ ویسے ہی کام کر دیا کرے گا۔ یہ تو کہنے کی بات تھی۔ دراصل ان دنوں ہم کو روپے پیسے کی اشد ضرورت تھی۔ عمران کی کہیں نوکری نہ لگتی تھی کہ وہ محض میٹرک پاس تھا اور یہ اپنے نجی ملازم کی تنخواہ دس ہزار دینے پر راضی تھے ، اس وقت ہمارے لئے دس ہزار بہت تھے- والد نے عمران کو سمجھا دیا کہ تنخواہ کا ہر گز مطالبہ نہ کرنا وہ خود اصرار کر کے دیں تب تولے لینا اور اس گھر کو اپنا گھر اور ان کی عزت کو اپنی عزت سمجھنا۔ خود کو معیار سے نیچے مت گرانا کیونکہ میں نے ان کو یہ باور کرایا ہے کہ آپ کی تکلیف دور کرنے کو میرابیٹا حاضر ہے۔ اتنے دن آپ کی مدد کرے گا جب تک آپ کو ملازم یا مالی وغیرہ نہیں مل جاتا۔ یہ روز آپ کے گھر آگر مسائل میں معاونت کر دیا کرے گا۔
ابو کی بات عمران کو اچھی طرح سمجھ آ گئی۔ یوں بھی وہ بے حد شریف لڑکا تھا، سگریٹ پیتا اورنہ فلمیں دیکھنے کی اسے لت تھی۔ وہ کوئی نشہ بھی نہ کرتا تھا سیدھا سادا تھا، کبھی اس نے کسی لڑکی کو غلط نظر سے نہیں دیکھا تھانہ ہی کسی لڑکی سے مخاطب ہوتا تھا۔ امی جو کام کہتیں گھر کے سارے کام کر دیتا۔ والدین کو عمران سے اچھی امیدیں تھیں۔ عمران، آنٹی کے کام کرنے لگا۔ باغ کی دیکھ بھال اور سودا سلف کے علاوہ دیگر اس نوعیت کے کام جو عموماً خواتین کے بس کے نہیں ہوتے مثلاً کیبل لگوانا، الیکٹریشن کو بلا کر کوئی کام کرانا و غیرہ۔ وہ عمران کو اپنے بیٹے جیسا سمجھتی تھیں اس سے پردہ نہ تھا، گھر کے اندر باہر آ جا سکتا تھا۔ میں تو روز ٹی وی دیکھنے جاتی میری بھی خاطر تواضع کرتیں۔ غرض ایسے عمدہ اخلاق کے لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔ ایک روز رات کو میری آنکھ کھلی پیاس لگی تھی۔ پانی پینے کو اٹھی تو دیکھا، بھائی کی چار پائی خالی تھی۔ دیوار سے ادھر سرگوشیوں کی آواز سنائی دی۔ تبھی شک ہوا اور میں نے اپنے گھر کے زینے پر چڑھ کر نمرا کے گھر میں جھانکا۔ ہمارے زینے سے ان کا لان نظر آتا تھا۔ چاندنی رات تھی چاند کی روشنی میں میں نے اپنے بھائی کو نمرا سے بہت قریب پایا۔ دونوں ایک دوسرے کے کانوں میں سر گوشیاں کر رہے تھے۔ دل دھک سے رہ گیا۔ خوفزدہ ہو کر زینے سے اتری اور چارپائی پر لیٹ گئی۔ سوچنے لگی اگر ابو کی آنکھ کھل جائے اور وہ ان کو یوں رات گئے باتیں کرتے دیکھ لیں یا پھر آنئی ندا ہی دیکھ لیں تو ہمارا کیا بھرم رہ جائے گا۔ مجھے نیند نہ آئی، تقریباً ایک گھنٹہ بعد میرا بھائی دیوار پھلانگ کر زینے پر آیا اور دبے قدموں آ کر اپنی چار پائی پر لیٹ گیا۔ میری سانس رکی تھی جیسے سانپ سونگھ گیا ہو، شدت کی پیاس تھی تھی مگر پانی پینا بھول گئی تھی۔ صبح اپنے معصوم صورت بھائی کو حسب معمول نارمل انداز سے بات چیت کرتے پایا تورات کے واقعے کو ایک خواب سمجھ کر بھلا دیا۔ اس بارے میں کسی سے بات نہ کر سکتی تھی، امی ابو حتی کہ عمران بھائی سے بھی نہیں ، لب سی لئے ۔ اللہ میرے بھائی پر کرم کرے ایسے کیسے منع کروں کہ حجاب مانع تھا، سوچا جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ کچھ دن بعد ایک رات جبکہ ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی اور سب گھر والے اندر تھے ۔ میں نے دیکھا کہ عمران اور نمرا دیوار کے پاس کھڑے ایک دوسرے سے باتیں کر رہے ہیں۔ مجھے دیکھ کر بھائی ادھر آگئے اور وہ ادھر چلی گئی ۔ بھائی نے کہا۔ گل بانو اس بات کا کسی سے ذکر نہ کرنا۔ چونکہ نمرا مجھ سے پیار سے پیش آتی کھلاتی پلاتی عزت دیتی، اس لئے میں نے کسی سے نہ کہا۔ اس کے بعد وہ کہاں ملتے یا چھپ کر باتیں کرتے مجھے نہیں معلوم ۔ پھر بات اس منزل پر پہنچ گئی کہ جب بات چھپ نہیں سکتی تھی۔ تب نمرا نے ساری بات اپنی والدہ کے گوش گزار کر دی اور کہا کہ عمران سے میری جلد سے جلد شادی کر دیں ورنہ عزت دائو پر لگی ہے۔ انہی دنوں نمرا کے والد سعودی عربیہ سے آگئے۔ آنٹی نے اس مسئلے کو ان پر عیاں کیا یا نہیں یہ نہیں معلوم کیونکہ نمرا کی منگنی بچپن میں اس کے ماموں زاد سے ہو چکی تھی۔ انہوں نے آنا فانا گھر فروخت کیا اور اپنی لڑکی کولے کر لاہور چلے گئے ۔ کسی بات کے کھلنے سے پہلے ہی انہوں نے نمرا کی شادی اس کے منگیتر سے کردی۔ ہمارے والدین تک سے اس معاملے کا تذکرہ نہیں کیا اور نہ ہم کو بیٹی کی شادی میں مدعو کیا۔ یوں ہم سے ہمیشہ کے لئے رابطہ ختم ہو گیا۔ ان کے جانے کے بعد عمران کافی عرصہ گم صم اور غمزدہ رہا۔ اس نے کئی دن کچھ کھایا نہ پیا۔ مردہ سا پڑا رہتا تھا۔ وقت گزرتا گیا اور وقت گزرتے دیر نہیں لگتی۔ کچھ عرصہ بعد امی کی وفات ہو گئی ابوریٹائر ہوئے تو ان کی جگہ پر عمران کو ملازمت مل گئی۔ ابو ہم کو لے کر لاہور آگئے اور میری خالہ زاد سے ان کی شادی ہو گئی۔
ایک روز میں خالہ کے ساتھ بازار گئی۔ بتاتی چلوں کہ ہماری خالہ پہلے سے لاہور میں رہتی تھیں۔ وہ ایک دکان پر شاپنگ کر رہی تھیں کہ اچانک وہاں نمرا آ گئی۔ اس کے ساتھ دو بچے تھے۔ مجھے دیکھ کر اس کی آنکھیں چمک اٹھیں، گلے ملی اور پھر ایک طرف لے گئی بولی۔ تمہارے ابوامی کیسے ہیں اور عمران کا کیا حال ہے ؟ میں نے بتایا۔ امی کا انتقال ہو گیا ہے عمران بھائی کو لاہور میں سرکاری ملازمت ملی ہے اور ہم دھرم پورہ میں ریلوے کوارٹر میں رہتے ہیں۔ اس نے کہا۔ اچھا ایک بات کہنی ہے جلدی سے سن لو۔ میراشوہر سامنے کی دکان میں اپنے لئے کچھ شاپنگ کر رہا ہے اور میں ادھر بچوں کے کپڑے لینے آئی تھی۔ دیکھو یہ میرا بیٹا انجم تم لوگوں کی امانت ہے، تم اسے لے جائو اور عمران کو کہنا اسے قدرت کا تحفہ سمجھ کر رکھ لے۔ میں شوہر سے کہہ دوں گی کہ انجم بازار میں کہیں کھو گیا ہے ۔ میں نے انکار کیا اور اسے بتایا کہ عمران بھائی کی ابو نے شادی کر دی ہے، پانچ سال ہو چکے ہیں لیکن ان کی اولاد نہیں ہے۔ کہنے لگی پھر تو اور اچھا ہے انجم کے روپ میں اسے اولاد مل جائے گی۔ اتنے میں خالہ نے خریداری کر لی اور وہ اب میری جانب آرہی تھیں۔ میں نے انجم کا ہاتھ تھامنے سے انکار کر دیا تو نمرا نے قسم دی کہ کسی طرح اکیلی دوبارہ یہاں ملو میں نے کچھ باتیں کرنی ہیں۔ اس نے جلدی سے اپنا فون نمبر بھی لکھ دیا۔ اتنے میں خالہ میرے قریب آگئیں اور ہم دکان سے نکل گئے۔ گھر آکر میں نے بھائی سے نمرا کا ذکر نہ کیا۔ البتہ ایک سہیلی کے ہمراہ کچھ دن بعد دوبارہ اسی جگہ گئی کیونکہ نمرا نے قسم دی تھی اور میں بھی اس راز سے واقف ہونا چاہتی تھی جو آدھا ادھورا سا میرے پلے پڑ چکا تھا۔ فون پر رابطہ کرنے کے بعد جب وہاں پہنچی وہ پہلے سے موجود تھی۔ آج اس کی بیٹی ساتھ نہ تھی لیکن بیٹے کو ہمراہ لائی تھی، کہنے لگی۔ تم کو خدا کا واسطہ انجم کو عمران کے پاس لے جائو۔ میں شوہر سے کہوں گی کہ گم ہو گیا ہے۔ آخر ایسا کیوں۔ آپ اپنے پاس سے اتنے معصوم بچے کو کیوں جدا کرنا چاہتی ہیں ؟ بس اس کی کوئی وجہ ہے۔ دیکھو نہ بچے تو اپنے خاندان کی ملکیت ہوتے ہیں، جس گلشن کا پھول ہو اسی گلشن میں اچھا لگتا ہے۔ تم خود سمجھدار ہو اور کیا کہوں۔ بے شک عمران بھائی کے اولاد نہیں ہے لیکن بھائی کسی اور کے بچے کو کیونکر اپنائیں گی۔ یہ تو سوچئے پھر ایسا ظلم کیوں کرنا چاہتی ہیں آپ کا بچہ کیا آپ کو یاد نہ کرے گا؟ ضرور کرے گا لیکن چند ماہ بعد بھول جائے گا۔ تم اسے سگی پھوپھی جیسا پیار دوگی۔ عمران کا پیار بھی اسے مل جائے گا- اور میری محبت جو ابھی تک عمران کے لئے میرے دل میں زندہ ہے اسے تسکین ملے گی۔ انجم کے واسطے سے سہی میرا تعلق عمران سے جڑا رہے گا۔ اف میرے خدا۔ میں لرز گئی میں نے سوچا کہ کیا کوئی عورت محبت میں اس قدر دیوانی ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے بچے کو اس محبت کے لئے دان کر دے محض اپنے محبوب سے تعلق کو جڑا رکھنے کے لئے ! ہرگز نہیں یہ ممکن نہ ہو گا۔ تبھی میں نے نمر اسے کہا۔ باجی نمرا، ابھی میں انجم کو نہیں لے جاسکتی۔ جس روز بھابی میکے گئی ہوں گی تو آپ کو فون کر دوں گی اور پھر اسے گھر لے جائوں گی۔ تب ہم بھائی سے بہانہ بھی کر سکتے ہیں کہ ہم اس بچے کو گود لینے کے لئے کسی سے لائے ہیں، مثلا عمران بھائی کے دوست سے جس کی بیوی اس دنیا میں نہیں رہی ہے۔ شاید ایسی صورت میں بھابی انجم کو رکھنے پر آمادہ ہو جائیں۔ وہ کچھ غیر یقینی کیفیت میں تھی ، مایوس سی ہو گئی لیکن میں اس کے جذباتی فیصلے کی خاطر کوئی بڑا خطرہ مول نہیں لینا چاہتی تھی۔ ڈبڈبائی آنکھوں سے انجم کو خدا حافظ کہا جس کی شکل اس وقت عمران بھائی سے مشابہ محسوس ہونے لگی تھی۔ تاہم سوچ رہی تھی کہ کہیں تعلقات کی تجدید کے لئے یہ نمرا کی کوئی چال تو نہیں ہے۔ میں نے گھر آکر عمران بھائی کو کوئی بات نہ بتائی یہ بھی نہیں کہ میں نمرا سے ملی ہوں یا وہ مجھ سے ملی تھی، انجم کے بارے میں کچھ بھی بتاتے ہوئے میرے لب نہیں کھل سکتے تھے۔ ایک بہن اپنے بھائی سے یہ بات کیسے کہہ سکتی تھی کہ تمہاری سابقہ محبت کی کوئی ایسی نشانی بھی اسی دنیا میں موجود ہے کہ جس کا تم کو علم نہیں ہے یا کہ تم نے کبھی جس کا دیدار نہیں کیا ہے۔ اس کے بعد نمرا کے کئی فون آئے لیکن میں نے اس سے بات نہیں کی اور نہ اس سے ملنا گوارا کیا۔ بھلا کیسے میں اپنی بھابی کی زندگی میں کوئی بھونچال لا سکتی تھی جو کہ میری خالہ زاد بھی تھی اور عمران بھائی کے دل کی اللہ جانے کہ وہ نمرا کو بھلا چکے تھے کہ وہ پرانا زخم ابھی تک تازہ تھا۔ زخم موجود بھی ہو تو وقت اس پر کھرنڈ لے آتا ہے، اس کھرنڈ کو چھیل دینے سے تو زخم پھر سے تازہ اور کبھی کبھی ناسور بھی بن جاتا ہے۔ بس خدا بچائے ایسی ملاقاتوں سے، جو ماضی میں لغزش کہلاتی ہیں ۔ دعا کرنی چاہئے کہ اول تو انسان ایسی لغزشوں سے دور رہے اور اگر خطا کے پتلوں سے خطا سر زد ہو بھی جائے تو کسی کی زندگی کو بربادی سے بچانے کی خاطر ۔ اس خطا کی پردہ پوشی کی جائے کہ جس کی پردہ پوشی خود اللہ تعالی نے کی ہو۔ نمرا نے جو مجھ سے کہا جو بھی انکشاف کیا اس کی پردہ پوشی بھی میرے اللہ کو منظور ہو گی تبھی تو بدنامی کے گڑھے میں گرنے سے قبل اس کی شادی کی سبیل نکل آئی تھی اور عمران سے شادی تو نمرا کا ایک خواب ہی تھا کہ کہاں ہم غریب لوگ اور کہاں وہ رئیس گھرانہ۔ نمرا آج بھی یاد آتی ہے تو میرا دل غمزدہ ہو جاتا ہے۔