میرے دادا زمیندار تھے۔ انہوں نے اس زمانے میں بھی اپنے لڑکوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی، جب زمینداروں کے بیٹے میٹرک کرنے کو ہی بڑا معرکہ سمجھتے تھے۔ میرے والد کو پڑھائی کا شوق تھا، لہذا دادا جان نے ان کو میٹرک کے بعد پڑھنے کے واسطے لندن بھجوادیا۔ گائوں میں پرورش پانے والے اس بچے نے بھی اپنے والد کو مایوس نہیں کیا اور سات برس بعد وہ بیر سٹر بن کر لوٹے۔ میں اس اعلیٰ تعلیم یافتہ باپ کی بیٹی تھی۔ تعلیم کا شوق تو مجھے اپنے والد سے وراثت میں ملا تھا مگر بد قسمتی سے ہمارے گائوں میں لڑکیوں کے لیے کیا، لڑکوں کا بھی اسکول نہیں تھا۔ میں چھوٹی تھی، اس لئے والد مجھے فی الحال شہر نہ بھیجنا چاہتے تھے۔ انہوں نے میری خاطر اپنی زمین دے کر لڑکیوں کا اسکول منظور کروالیا اور اسکول کی عمارت بھی خود تعمیر کروا دی۔ یہ 1968ء کا زمانہ تھا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ استانیاں شہر سے آتی تھیں اور آمد ورفت کی سہولت نہ ہونے کے سبب تعیناتی کے باوجود وہ حاضر نہیں ہو پاتی تھیں۔ اس مسئلے کا حل بھی نکال لیا گیا۔ والد صاحب سڑک پر تانگہ بھجوا دیتے، استانیاں ویگن سے اتر تیں تو تانگہ ان کو تیار ملتا۔ بہر حال، میں اسکول جانے لگی تو نزدیکی بستیوں کی بچیاں بھی داخل ہونے لگیں۔ دیکھتے دیکھتے اسکول میں بچیوں کی تعداد دو سو سے اوپر ہو گئی۔ یہ میرے والد صاحب کا اس پسماندہ علاقے کی بچیوں پر ایک بہت بڑا احسان تھا کہ وہ زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہی تھیں۔ رفتہ رفتہ اسکول پرائمری، پھر مڈل اور پھر ہائی اسکول ہو گیا۔ والد صاحب نے میری تعلیم کی خاطر بہت پاپڑ بیلے۔ جب میں نویں میں پہنچی تو ایک مسئلہ پھر اٹھا۔ والد صاحب زمینداری میں مصروف تھے۔ خاندان میں سوائے ذیشان کے اور کوئی پڑھا لکھا نہیں تھا۔ ذیشان میری پھوپھی کا بیٹا تھا۔ دقت یہ تھی کہ پڑھائی میں ان دنوں ذیشان کے سوا کوئی میری مدد نہیں کر سکتا تھا۔ امتحان سر پر آچکے تھے اور میں کافی پریشان تھی کہ ریاضی میں کس سے مددلوں۔ بچپن سے خاندان کے لوگوں سے سنتی آرہی تھی کہ میری شادی ذیشان سے ہو گی، گرچہ گھر والوں نے میرے سامنے کبھی ایسا ذکر نہیں کیا تھا مگر میں فرسٹ کزن ہونے کے باوجود اس کے ساتھ بالکل بھی فری نہیں تھی کہ اس زمانے میں یہی رکھ رکھائو تھا۔ ذیشان بھی ایک انتہائی سنجیدہ لڑکا تھا۔ مجھے اس سے حجاب آتا تھا۔ ان کا اور ہمارا گھر ساتھ ساتھ تھا، پھر بھی وہ کم ہی آتا۔ ذیشان غالباً اس لیے بھی اس قدر سنجیدہ تھا کہ اس پر گھریلو ذمہ داریاں تھیں۔ اپنے والد کی وفات کے بعد وہی گھر کو سنبھال رہا تھا اور کنبے کی کفالت اسی کے ذمے تھی۔میں نے کئی بار بابا جان کو کہا کہ میں ریاضی میں کمزور ہوں اور انگریزی تو ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن ان کو شہر میں کورٹ جانا ہو تا تھا اور زمین داری کے امور بھی دیکھنے ہوتے۔ ایک روز بابا جان نے ذیشان سے بات کی اور کہا کہ تم زیب النساء کو پڑھادیا کرو، استانیاں صحیح نہیں پڑھاتیں۔ بابا جان کا کہا وہ کیسے ٹال سکتا تھا۔ عشاء کے بعد آکر مجھے دو گھنٹے پڑھانے لگا۔ جب امتحان شروع ہوئے ذیشان نے مجھے کافی کورس کور کر دیا تھا لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ امتحانی سینٹر اکیلی کیسے جائوں؟ بابا جان تو فارغ نہیں تھے ، لہذا یہ مسئلہ بھی ذیشان کے ذریعے حل کرانا پڑا۔ وہ روز مجھے بائیک پر بٹھا کر امتحانی سینٹر لے جاتا۔ جب تک میں پیپر دیتی وہ باہر بیٹھارہتا اور پر چہ ختم ہونے کے بعد واپس لے آتا۔ پرچے ختم ہو گئے ، اب میں فارغ تھی اور بے حد بور ہوتی تھی ، تب دل چاہتا کوئی اور نہیں تو ذیشان ہی آجائے۔ اس نے امتحان اور رزلٹ کے بارے میں دو چار باتیں کر لوں۔ کہتے ہیں دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ جب بھی میں اسے بہت یاد کرتی وہ آجاتا۔ گھڑی دو گھڑی مجھ سے اور امی سے باتیں کرتا اور چلا جاتا۔ سچ کہوں ہمارے ویران گھر میں اس کے آجانے سے زندگی آجاتی تھی، ہر طرف رونق سی ہو جاتی، پہلے وہ اماں بابا کی موجودگی میں آتا تھا۔ اب ان کی غیر موجودگی میں بھی آنے لگا۔ مجھے تنہائی میں اس کا آنا برا نہیں لگتا تھا کیونکہ میں سمجھتی تھی میرا اسی سے بیاہ ہو گا۔ رزلٹ آیا، میں اچھے نمبروں سے پاس ہو گئی تھی۔ اب کالج کا مسئلہ تھا۔ ہمارے ماموں شہر میں رہتے تھے۔والد صاحب مجھے وہاں پہنچا آئے۔ کالج میں داخلہ ماموں نے کروا دیا اور میں تعلیم کی خاطر ان کے گھر رہنے لگی۔ یہ بات ذیشان کے ذہن نے قبول نہ کی ، اسے میر اننھیال میں گھر سے دور رہنا گراں گزرا کیونکہ یہ ہماری خاندانی روایات کے بھی خلاف تھا۔ اس نے امی سے شکوہ کیا کہ لڑکی کو آپ نے اتنی دور کیسے بھیج دیا۔ آپ کے ضمیر نے یہ کیونکر گوارہ کر لیا۔ امی نے سمجھایا کہ تعلیم کی خاطر جہاں کا بھی سفر درپیش ہو ، اختیار کر لینا چاہیے کیونکہ تعلیم ایک زیور ہے، یہ لڑکیوں کے لیے تو اور بھی ضروری ہے۔ کوئی اگر ان کا پرسان حال نہ رہے تو تعلیم ہی کام آتی ہے۔ ان باتوں سے میرے کزن کو تسلی نہ ہوئی۔ اس نے اپنی ماں سے اصرار شروع کر دیا کہ اپنی بھابھی سے کہو وہ زیب کو واپس بلوالیں، لڑکیوں کا گھر سے دور رہنا مناسب نہیں۔ وہاں اس کے ماموں کے لڑکے بھی ہیں، مجھے زیب کا ان کے گھر رہنا اچھا نہیں لگتا۔ پھوپھو کی بات بھلا امی کب مانتی تھیں، انہوں نے کہا۔ اپنے بھائی سے کہو ، وہی مختیار اور کرتا دھر تا ہیں۔ میری کیا مجال جو ان کو کچھ کہوں۔ غرض ذیشان کی کسی نے نہ سنی ، وہ کافی دن پریشان رہا۔ جب اذیت سہی نہ گئی تو اس شہر آپہنچا جہاں میرے ماموں کا گھر تھا۔ ماموں ممانی اور ان کے بچوں نے اسے خوش آمدید کہا کیونکہ وہ ان کا مہمان تھا۔ وہ میری وجہ سے آیا تھا۔ اسے موقع ملا تو مجھ سے کہا کہ تم واپس چلو۔ میں وہاں تم کو پڑھا دیا کروں گا۔ تم پرائیویٹ امتحان دے دینا۔ ماموں ممانی سے بھی کہا کہ زیب کو واپس بھیج دیں، وہاں پرائیویٹ طالبہ کے طور پر پڑھ لے گی۔ وہ بولے۔ بیٹا، اس کے والدین نے اپنی خوشی سے بھیجا ہے ، یہ ان کی اولاد ہے۔ ہم اسے بھجوا دیں، یہ بات نامناسب ہے۔ والدین کی رضا اسی میں ہے کہ یہ کالج میں پڑھے تو ہم کیوں کر منع کریں۔ جب اس نے دیکھا کہ اس کی باتوں کا کسی نے نوٹس نہیں لیا تو اس نے مجھ سے کہا کہ اگر تم مجھ سے شادی کا ارادہ رکھتی ہو تو پڑھائی چھوڑو اور گھر واپس چلو، ورنہ سوچ لو۔ میں پڑھائی میں مگن تھی، واپس کیسے آتی ، قدرت نے مجھے موقع دیا تھا۔ ذیشان نے جا کر ماں سے کہا کہ مجھے زیب سے بیاہ کے لیے کبھی مت کہنا اور جہاں کہو گی میں شادی کرلوں گا۔ دوسری پھپو کی دو بیٹیاں تھیں۔ ایک بیاہی جاچکی تھی ، دوسری کارشتہ تلاش کیا جارہا تھا۔ پھپھونے اپنی بہن سے تذکرہ کر دیا۔ بس پھر کیا تھا، وہ تو پہلے ہی چاہتی تھیں کہ ذیشان سے اپنی بیٹی کو بیاہ دیں۔ میں ادھر پڑھائی میں مصروف تھی، اُدھر چٹ پٹ منگنی والا معاملہ ہو گیا۔ اس خبر نے میری جان نکال دی۔ اتنادکھ ہوا کہ بتا نہیں سکتی۔ اب پتا چلا کہ میرے دل میں ذیشان کے لیے کتنا پیارا تھا، جس کا اندازہ خود مجھے بھی نہیں تھا۔ کئی دن میں نے کھانا نہ کھایا۔ان ہی دنوں میں گھر پہنچی تو ذیشان آگیا۔ اس وقت امی اپنے کمرے میں تھیں۔ بات کرنے کا موقع مل گیا۔ میں نے اس سے کہا کہ تم نے میرا بھی نہ سوچا کہ میں کہاں جائوں گی۔ اب بھی وقت نہیں گزرا۔ تم واپس آجائو، میں منگنی ختم کر دوں گا اور تم سے بیاہ کر لوں گا۔ اس نے جواب دیا۔ اس کے جواب سے میں خوش ہو گئی۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اس نے یہ قدم غصے میں اٹھایا ہے۔ یقیناً یہ محبت مجھ ہی سے کرتا ہے۔ جب چھٹیاں ختم ہو گئیں، میں نے ماموں کے گھر جانے سے انکار کر دیا۔ بابا نے پوچھا، کیوں نہیں جارہی ہو؟ پہلے تو تمہیں کالج میں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ تب میں نے امی کے ذریعے یہ مسئلہ بابا جان کے کانوں تک پہنچایا وہ مجھے سمجھانے لگے۔ بیٹی تعلیم زیادہ ضروری ہے۔ تم اس معاملے کو چھوڑو اور پڑھائی میں مگن ہو جائو۔ اگر ذیشان کو پڑھائی کی قدر نہیں ہے تو اسے جاہل ہی جانو۔ تم پہلے کالج کی تعلیم مکمل کر لو، پھر اس معاملے کو دیکھ لیں گے۔ مجبور ہو کر میں ماموں کے گھر لوٹ آئی اور یہ تین، چار سال جیسے گزارے ، بس میرادل ہی جانتا ہے۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ ذیشان نے منگنی کرانے میں تو بڑی تیزی دکھائی تھی مگر بیاہ ابھی تک نہیں کیا تھا حالانکہ چار سال کافی مدت ہوتی ہے۔ میں نے محسوس کر لیا کہ وہ اپنی جلد بازی اور جذباتی فیصلہ پر اب کافی پچھتارہا ہے۔ وہ بہانے بہانے سے ہمارے گھر آجاتا تھا۔ ایک دن بڑی پھپھو آئیں اور امی سے میرے رشتے کے لیے بات کی۔ والد صاحب خفا تھے۔ کہنے لگے کہ پہلے ہماری طرف دھیان تھا، پھر تم نے ذیشان کی کہیں اور منگنی کر دی، اب پھر ہمارے پاس آگئی ہو ، یہ کیا طریقہ ہے؟ دراصل والد صاحب ذیشان کو چاہتے تھے لیکن وہ اسے سبق بھی سکھانا چاہتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے ایسی باتیں کہیں، ان کا خیال تھا اس طرح وہ آکر ان سے معذرت کر لے گا۔ ذیشان ایک بار پھر جذباتی ہو گیا اور بابا جان سے معذرت کرنے کی بجائے خفا ہو گیا۔ ماں سے کہا کہ ماموں جان جانے خود کو کیا سمجھتے ہیں۔ اگر انہوں نے مجھے اپنی بیٹی کارشتہ نہیں دیا تو نہ سہی، مگر آپ کو ان کی منتیں نہیں کرنے دوں گا۔ تب یہ بعد میں افسوس کریں گے۔ یہ بات بھی میرے باباجان تک پہنچی ، انہوں نے کہا کہ جہاں مرضی چاہے شادی کرلے۔ میں بھی اب اپنی بیٹی اسے نہیں دوں گا۔ ذیشان نے تب ہی ماہ میر سے نکاح کر لیا اور رخصتی کرا کے گھر لے آئے۔ ذیشان کی جلد بازی پر میرا دل بیٹھ گیا۔ بہت دکھ ہوا۔ سوچتی تھی منگنی ٹوٹ سکتی ہے مگر نکاح تو نہیں ٹوٹ سکتا، تو اب میں عمر بھر اس کی یاد میں گھلتی رہوں گی اور کبھی خوشی کا منہ نہ دیکھ سکوں گی۔ میں نہ کھاتی تھی اور نہ پیتی تھی، بس روتی رہتی تھی۔ یہاں تک کہ بیمار ہو کر بستر پر پڑ گئی۔ جب ذیشان کو علم ہو امیری ایسی حالت ہے تو وہ دکھی ہو گیا اور پچھتانے لگا کہ ناحق میں نے ماموں سے ٹکر لے کر اپنا اور زیب کا نقصان کر دیا۔ کاش تحمل سے کام لیتا۔ اب تو ایک ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس کے بعد ہمارے گھر یلو ناتے ختم ہو گئے۔ میں گریجویشن کر کے برباد ہو بیٹھی تھی۔ اب سوچتی کاش اس کی خاطر واپس آجاتی تو اچھا تھا، پرائیویٹ بی اے بھی تو کر سکتی تھی۔ جو ہونا تھا ہو چکا تھا۔ اب گھر میں قید رہ کر سسکنا تھا۔ رشتہ دار جو قر یبی تھے بتاتے کہ ذیشان شادی کر کے پچھتا رہا ہے۔ وہ قطعی خوش نہیں ہے۔ اس کی بیوی بے چاری بجھی بجھی رہتی ہے۔ ہار سنگھار بھی نہیں کرتی ہے۔ بابا جان اور امی میری حالت پر کڑھتے ۔ اب جو رشتہ آتا، میں اتنا روتی کہ وہ بے بس ہو کر ان کو لوٹا دیتے۔ والدین جان چکے تھے کہ میں ذیشان ہی کو دل کی گہرائیوں سے چاہتی ہوں۔ اب بابا بھی پچھتاتے کہ ذیشان کم عمر تھا، مگر وہ تو سمجھ دار تھے۔ کیوں اس وقت اس سے ٹکر لینے کی بجائے اس کا دل اپنی مٹھی میں کیا۔ ذیشان کی اب جو بیوی تھی وہ بھی غیر نہ تھی، ان کی بھانجی تھی ، سب سے زیادہ پریشان ذیشان تھا۔ اب کیسے مجھے حاصل کر سکتا تھا۔ اپنی والدہ سے بار بار کہتا کہ مجھ سے بڑا ظلم ہوا ہے۔ اگر ماموں مان جائیں تو میں اب بھی زیب سے شادی کرنے کو تیار ہوں۔ یہ باتیں بابا تک پہنچتیں اور وہ آہ بھر کر چپ ہو جاتے۔ ایسے ہی کافی سال گزر گئے۔ بد قسمتی یہ کہ ماہ میر کے اولاد نہ ہو سکی۔ کافی علاج کرایا، بڑے شہروں لے کر گئیں بڑے ڈاکٹروں کو دکھایا۔ سب ہی نے کہا کہ لڑکی میں پیدائشی نقص ہے، یہ ماں نہیں بن سکتی۔ بہر حال یہ بات پھپھو نے راز میں رکھی اور کسی کو خبر نہ ہونے دی کہ ماہ میر بانجھ ہے۔ ایک دن میں دھوپ میں بال کھولے کنگھی کر رہی تھی تو بابا جان آگئے۔ انہوں نے میرے سر میں چند سفید بال چمکتے ہوئے دیکھ لیے تو ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اسی وقت بڑی پھپھو آ گئیں۔ بھائی کو اداس دیکھ کر سوال کیا کہ کیوں اس قدر افسردہ ہو ؟ وہ بولے۔ میری بیٹی رانی کے سر میں سفید بال آنے لگے ہیں، حالانکہ ابھی اس کی عمر اتنی تو نہیں ہے۔ حیران ہوں، کیوں اتنی جلد اس کے سر میں چاندی اتر آئی ہے ؟ انہوں نے بھائی کو غم زدہ دیکھ کر گلے لگا لیا، بولیں۔ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ دلی دکھ انسان کا جلد رنگ روپ لے لیتے ہیں مگر ہماری زیب ابھی بوڑھی نہیں ہوئی۔ اس کی اب بھی شادی کی عمر ہے۔ میری زیب اب بھی ہماری آنکھوں کا تارا بن سکتی ہے۔ انکار مت کرو، ایک مرد کی دو بیویاں بھی تو ہوتی ہیں۔ ہمارے دادا نے دو شادیاں کیں، چچا جان نے بھی دو شادیاں کیں۔ سب حسن سلوک سے رہیں۔ ہم خاندانی لوگ ہیں، ہماری عورتیں عظمت والی اور صبر والی ہوتی ہیں۔ میرے پاس تو اپنے بیٹے کی دوسری شادی کرانے کا ایک جواز بھی ہے۔ ڈاکٹری رپورٹ میں لکھا ہوا ہے کہ میری بہو ماں نہیں بن سکتی۔ میری قسمت میں ذیشان کی بیوی بنا لکھا تھا، تب ہی یہ سب ہو گیا۔ ماہ میر میرے دادا کی دوسری بیوی سے تھی، میرے والد کی سوتیلی بہن کی بیٹی تھی مگر ہمارے خاندان میں سنگی سوتیلی کا فرق روا نہیں رکھا جاتا تھا۔ والد صاحب اس کی والدہ کو بھی سگی بہن ہی جانتے تھے۔ انہوں نے پہلے اپنی اس بہن سے اجازت لی۔ چھوٹی پھپھو نے اجازت دے دی، کہا کہ میری بیٹی بچہ جنم نہیں دے سکتی تو ذیشان کو اختیار ہے، بے شک وہ اولاد کی خوشی کے لیے شادی کرلے۔ یوں ہماری مراد بر آئی۔ ذیشان کے پیار کی پہلی حق دار اس کی پہلی بیوی ماہ میر بھی گھر میں موجود رہی۔اس نے اف نہ کی اور ایسے ہی بڑے پن کا ثبوت دیا، جیسا کہ سب خاندان والوں کو توقع تھی۔ وہ کہتی تھی کہ سب کو اپنا اپنا نصیب ملتا ہے۔ اس نے جھگڑے کو ایک گھٹیا بات تصور کیا اور میں نے خود یہ اصول لاگو کیا کہ وہ ایک رات اپنی پہلی بیوی کے پاس اور ایک رات میرے پاس رہیں گے ، اس طرح ہمارے گھر میں نہ تو کوئی انتشار ہوا اور نہ بے سکونی نے جنم لیا۔ میرے یہاں تین بچے ہوئے ، دو بیٹے اور ایک بیٹی ، ان بچوں کو جنم میں نے دیا اور وہ ماہ میر کی گود میں کھیل کر بڑے ہو گئے۔ وہ جس طرح مجھ سے پیار کرتے اس سے بڑھ کر اپنی بڑی ماں سے محبت کرتے۔ ان کو بڑی ماں کی عزت کرنا میں نے ہی سکھایا۔ آج میں تو اپنی بچوں کی دوری سہ لیتی ہوں مگر وہ میرے بچوں کی جدائی کو نہیں سہ پاتی۔ وہ کسی اور شہر یا ملک چلے جائیں تو اداس ہو جاتی ہے۔ انسانوں کے کئی روپ ہیں، اچھے بھی، برے بھی لیکن جو اچھے روپ ہیں وہی اس دنیا کی شان اور انسانیت کا سنگھار ہیں۔