شبانہ کے ساتھ گزرے بچپن کے دن بہت خوبصورت تھے۔ جب ہم دونوں آموں کے باغ میں کیریاں توڑنے جایا کرتے، درختوں کے نیچے ڈھیروں جامن بکھرے ہوتے ، جن کو گلہریاں اور طوطے بارش کی طرح گرا جاتے ، بھری دو پہر میں گھنے درختوں کی چھائوں ، دھوپ کو وہاں آنے نہ دیتی تھی۔ یہ باغ میرے والد صاحب کی زمینوں میں تھے۔ فیاض منشی ہمارے والد کے ملازم تھے اور شبانہ ان کی بیٹی، لیکن ہمارے بڑوں کے دلوں میں امیری غریبی کا فرق نہیں تھا، تب گائوں کا ماحول بھی سادہ اور صاف ستھر اتھا۔ گھر کے عقبی حصے میں واقع سرونٹ کوارٹر ، بابا جان نے چاچا فیاض کو رہائش کے لئے مستقل طور پر دیا ہوا تھا کیونکہ ان کی بچیاں اکیلی تھیں، ان کی ماں فوت ہو گئی تھی، تبھی امی جان نے پچھلی دیوار میں ایک دروازہ لگوادیا۔ اب سرونٹ کوارٹر کے صحن کا دروازہ ہمارے مکان کے پچھلے صحن میں کھلتا تھا اور ہر وقت کھلا ہی رہتا تھا۔ شبانہ کی بہن کا نام شمع تھا۔ وہ شبانہ سے محض دو برس بڑی تھی، مگر کہیں زیادہ باشعور اور سمجھ دار تھی۔ ہوش سنبھالتے ہی، اس نے ہمارے گھر کا انتظام بھی سنبھال لیا تھا۔ وہ اپنی ماں کی طرح سلیقہ مند تھی۔ میں ان کو شمو باجی کہتی تھی۔ صبح اٹھتے ہی وہ ہمارے کچن کا رخ کرتی لیکن اس کی حیثیت ملازمہ جیسی نہ تھی۔ امی اس کو گھر کی بچیوں کی طرح رکھتی تھیں کیونکہ ہمارے بڑوں میں منشی چاچا کی بڑی عزت تھی۔ وقت کی سوئی اپنی رفتار سے گھومتی رہی یہاں تک کہ میں اور شبانہ سولہ برس کی ہو گئیں۔ انہی دنوں منشی چاچا کا انتقال ہو گیا تو شبانہ اور شمع بالکل اکیلی رہ گئیں البتہ بابا جان اور امی جان نے ان کو بے سہارا نہیں ہونے دیا۔ شبانہ پہلے گھر کی حد تک میرے ساتھ ہوتی تھی، مگر اب ہر جگہ ساتھ رہنے لگی۔ اس بات پر لڑکیاں حیران ہو تیں۔ جتلا تیں کہ میں امیر باپ کی بیٹی ہوں اور شبانہ ہمارے منشی کی لڑکی ہے ، اس لئے مجھے اس کے ساتھ نظر نہیں آنا چاہئے۔ مجھے ان کی باتوں پر حیرت ہوتی، جو انسانی رشتوں کو دولت کے ترازو میں تولتی تھیں جبکہ گھر میں امی جان نے ہمیں کبھی یہ احساس نہ ہونے دیا تھا۔ شمو باجی کو اپنی چھوٹی بہن سے بے حد محبت تھی اسی وجہ سے وہ کبھی اس کو کام نہیں کرنے دیتی تھی، یوں شبانہ ہر فکر سے آزاد تھی۔ منشی چاچا کے بعد شبانہ نے پڑھائی کا ارادہ ترک کر دیا تھا لیکن شمو باجی نے اسے ایسا نہ کرنے دیا اور اسکول جانے پر مجبور کیا، خود وہ ہمارے گھر نوکرانی بنی رہی تاکہ شبانہ کی پڑھائی ہم پر بوجھ نہ ہو-
ان دنوں ہم میٹرک میں تھے ، جب بڑے بھائی شہر سے فارغ التحصیل ہو کر آگئے۔ باجی شمو خاص طور پر ان کے آنے سے خوش نظر آتی کیونکہ وہ بچپن میں نسیم بھائی کے ساتھ کھیلی تھی۔ بھائی اس کی عزت کرتے تھے ، جیسے بہنوں کی کی جاتی ہے۔ ہر وقت اس کی ہاں میں ہاں ملاتے۔ بھائی کی خوش اخلاقی کو شمو نے غلط رنگ میں لیا اور یہ سمجھ بیٹھی کہ وہ اس سے پیار کرتے ہیں، پس وہ دل ہی دل میں میرے بھائی کی پوجا کرنے لگی۔ وہ صبح سویرے اپنے کوارٹر سے آکر کچن میں گھس جاتی۔ اس کے ساتھ مجھے زیادہ بات چیت کا موقع ہی نہ ملتا۔ امی کی عادت تھی کہ وہ فجر کی نماز پڑھ کر سو جاتی تھیں اور دس بجے اٹھتی تھیں۔ چائے پینے کے بعد باجی شمو کو کھانا بنانے کی ہدایات دیتیں کہ آج کیا کیا بنانا ہے، اکثر خود بھی اس کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹائیں۔ امی ناشتے کے وقت کچن میں نہ ہوتی تھیں۔ باجی شمو اکیلے ہی ناشتہ تیار کرتی اور سب کو اس کے کمرے میں ناشتہ پہنچاتی تھی۔ ہر کسی کے ناشتے کا اپنا الگ ٹائم تھا یوں وہ بیچاری گیارہ بجے تک ناشتے کی تیاری میں لگی رہتی، یہاں تک کہ دو پہر کا کھانا بنانے کا وقت شروع ہو جاتا۔ نسیم بھائی ناشتہ بہت اہتمام سے کرتے تھے۔ صرف وہی کچن میں جا کر ناشتہ کرتے تھے۔ اس دوران وہ شمو سے باتیں بھی کرتے جاتے ، جوس نکالنے یا کافی بنانے میں اس کی مدد بھی کرتے۔ وہ یہ سب اس ۔ لئے کرتے تاکہ ناشتہ ان کے ٹیسٹ اور مرضی کا ہو ۔ شمو کا ہاتھ بٹانے میں ، ان کا دلی خلوص شامل ہوتا تھا جبکہ شمو باجی سمجھتی کہ نسیم بھائی کو اس کے ساتھ لگائو ہے تبھی وہ گھنٹہ بھر تک کچن میں وقت گزارتے ہیں۔ یہ باتیں مجھے ایک روز گوہر نے بتائیں جو ہمارے پڑوس میں رہتی تھی۔ یہ ہمارے مزارع کی لڑکی تھی اور باجی شمو کی سہیلی بھی۔ کچھ دنوں سے میں نوٹ کر رہی تھی کہ نسیم بھائی، شبانہ میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ وہ بہانے بہانے سے اس کا ذکر کرتے اس کو بلا لائو – میں ٹال جاتی کہ کوئی کام تو ہے نہیں ، تو کیوں اس کو بلا لائوں۔ شبانہ کی عادت تھی کہ وہ شام کو ضرور میرے پاس آتی۔ ویسے بھی دن میں دو تین چکر وہ باجی شمو کے پاس لگاتی جبکہ شمو کی کوشش ہوتی کہ وہ اپنے گھر میں ہی رہے تا کہ پڑھائی کر سکے۔ ایک دن شبانہ ہمارے گھر آئی۔ اتفاق سے اس روز میں ، امی اور شمو باجی کچن کا سامان لینے قریبی شہر گئے ہوئے تھے۔ نسیم بھائی نے شبانہ کو دیکھا تو خوش ہو گئے۔ اس کو بیٹھنے کو کہا۔ شبانہ نے میرے باے میں پوچھا۔ بھائی نے کہا۔ تھوڑی دیر بیٹھ جائو بھی آنے ہی والی ہے۔ بادل نخواستہ وہ بیٹھ گئی اور رسالہ اٹھا کر دیکھنے لگی۔ نسیم نے سوچا، اچھا موقع ہے، انہوں نے دل کا بوجھ اتار دیا اور شبانہ سے صاف صاف پوچھا۔ کیا تم مجھ سے شادی کرو گی ؟ اس کے لئے یہ سوال غیر متوقع تھا۔ وہ بوکھلا سی گئی اور تیزی سے صحن کر اس کرتی اپنے کو راٹر میں چلی گئی۔ کچھ دن وہ ہمارے گھر نہ آئی ۔ میں حیران تھی کہ اس کو کیا ہو گیا ہے ؟ آخر میں خود اس کے پاس گئی۔ پوچھا تو جواب دیا۔ طبیعت ٹھیک نہ تھی، شام کو آئوں گی ۔
شام کو وہ آ گئی تو قدرے خوش تھی۔ ہم دونوں باتیں کرنے لگے۔ باتوں باتوں میں نسیم بھائی کا ذکر آ گیا تو وہ یکدم خاموش ہو گئی جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ میں شک میں پڑگئی۔ ابھی ہم باتیں کر رہے تھے کہ نسیم بھائی آ گئے۔ شبانہ کی رنگت گلابی پڑ گئی اور جب بھائی نے مجھے مذاق میں کہا۔ سہیلا ! میرے لئے کوئی دلہن تو ڈھونڈو تو شبانہ نے چونک کر ان کو دیکھا۔ اس وقت اس کا چہرہ ایک کھلی کتاب جیسا تھا، جس پر لکھی تحریر ہر کوئی پڑھ سکتا تھا۔ میں اسی دن سمجھ گئی تھی کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ اب جب بھی وہ میرے کمرے میں آتی، بھائی بہت خوش ہوتے۔ شبانہ میرے بھائی کی باتیں کرتی اور نسیم بہانے بہانے سے اس کا ذکر کرتے۔ شمو باجی ان باتوں سے بے خبر اپنے خیالات میں گم تھی۔ ایک دن جب وہ بھائی کے لئے کافی بنارہی تھی، انہوں نے کہا۔ شمع تمہاری بہن بالکل پڑھائی نہیں کرتی۔ اس کو کسی کے پاس پڑھنے کے لئے بھیجا کرو ورنہ یہ فیل ہو جائے گی۔ آپ بھی تو شہر سے پڑھ کر کر آئے ہیں ، آپ ہی اس کو پڑھا دیا کریں۔ اچھا تو تم اس کو میرے پاس رات کے کھانے سے ایک گھنٹہ پہلے بھیج دیا کرو۔ باجی شمو بڑی خوش ہوئی۔ سیدھی گھر بھاگی اور بہن سے بولی۔ سنا ہے کہ تو بالکل نہیں پڑھتیں ، فیل ہو جائو گی۔ میں نے نسیم میاں سے کہا ہے کہ وہ روز تم کو کچھ دیر پڑھا دیا کریں۔ وہ میری بات نہیں ٹالتے ، بہت اچھے ہیں۔ جوش جذبات میں اسے یہ بھی سدھ نہ رہی تھی کہ وہ چھوٹی بہن کے سامنے کس کی تعریف کر رہی ہے اور کیوں ؟ نسیم بھائی نے شبانہ سے تنہائی میں بیٹھ کر باتیں کرنے کی سبیل نکال لی تھی۔ اب شمو زبردستی ڈانٹ ڈپٹ کر شبانہ کو روز بھائی کے پاس پڑھنے بھیجتی۔ وہ بیچاری کیا بجھتی کہ شبو بی جو او پر دل سے جانے سے انکار کرتی ہے ، دل میں کتنی خوش ہوتی ہے۔ یوں پڑھائی کے بہانے وہ اور نسیم بھائی من چاہی باتیں کرتے تھے۔ انہی دنوں مجھے یقین ہو گیا کہ یہ دونوں آپس میں محبت کرتے ہیں۔ میں نے سوچا، اچھا ہے۔ میرے بچپن کی ساتھی ہے۔ اس کا ہم لوگوں کے سوا کوئی نہیں۔ کیا ہی اچھا ہو ، اگر نسیم بھائی کی شادی شبانہ سے ہو جائے۔ میرے والدین دینی امور کے پابند ، خدا ترس، نیک دل اور سیدھے سادے تھے۔ وہ لالچی لوگوں میں میں سے نہ تھے جن کو دنیا کی نمود و نمائش کا خیال ہوتا۔ وہ یقینا اس رشتے پر ناخوش نہیں ہوں گے۔ ہمارے گائوں میں ان دنوں گیس نہ تھی، ہم کھانا لکڑیوں یا مٹی کے تیل کے چولہے پر بناتے تھے۔ اتفاق سے ایک دن باجی شمو کھانا بنارہی تھی کہ مٹی کے تیل کا چولہا پھٹ گیا۔ شکر کہ جمع باجی بچ لیں۔ اس وقت وہ چولہے سے ذرا سی دور تھیں اور نسیم بھائی کچن کی طرف آرہے تھے۔ جو نہی شمو کے کپڑوں میں آگ لگی بھائی نے کوشش کر کے آگ بجھادی۔ شمو تھوڑی بہت جلی ضرور تھی ، بھائی نے اسے فورا گاڑی میں بٹھایا اور شہر کے اسپتال لے گئے۔
دن رات بھائی نے اسپتال میں شمو کی دیکھ بھال کی۔ ہم تھوڑی دیر کو جاتے تھے ، کیونکہ میٹرک کے سالانہ امتحان ہونے والے تھے میں اور شبانہ اکٹھے تیاری کر رہے تھے۔ باجی شمو، بے شک تکلیف میں تھی، مگر پھر بھی خوش تھی جیسے اس کو قارون کا خزانہ مل گیا ہو۔ نسیم بھائی کو بھی کچھ ہوش نہ تھا۔ وہ ہمہ وقت اور پوری توجہ سے اس بے سہارا لڑکی کی خدمت اور دیکھ بھال میں لگ گئے تھے۔ وہ ہم سے کہتے تھے اگر یہ ہماری خدمت اور دیکھ بھال کرتے نہیں کھکتی ، تو اس کا بھی حق ہے کہ وقت پڑنے پر ہم اس کی دیکھ بھال کریں۔ کاش شمو نہ جلتی تو اس کا دل جلنے سے بچ جاتا، جو بعد میں نسیم بھائی کی وجہ سے داغ داغ ہو گیا اور شبانہ بھی گھر سے بے گھر ہو گئی۔ جب شمو کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ نسیم اس پر دل و جان سے قربان ہے تو اچانک اس کو پتا چلا کہ نسیم محض انسانی جذبے کے تحت اس کی دیکھ بھال اور خدمت کر رہا تھا، محبت کی وجہ سے نہیں۔ گھر لا کر بھی بھائی نے اس کی دیکھ بھال اسی طرح کی جیسے کوئی ماں بیمار بچے کی کرتی ہے۔ اسے جوس بنا کر دیتے ، دودھ گرم کر کے لاتے اور اصرار سے پلاتے۔ جب سے باجی شمو جلی تھی، شبانہ میرے کمرے میں آکر سونے لگی تھی کیونکہ وہ کوارٹر میں اکیلی نہیں ہوتی تھی۔ امی نے شمو کو علیحدہ کمرہ دے دیا کہ اسے رات میں تکلیف ہو تو امی کو جگادے۔ شمو کو جو کمرہ دیا تھا، وہ امی اور نسیم بھائی کے درمیان والا تھا۔ لگتا تھا تمام رات نسیم بھائی ، شمو کی خاطر جاگتے تھے۔ شمو آواز دیتی امی نہ اٹھ پاتیں لیکن نسیم بھائی اٹھ کر اس کے کمرے میں جاتے اور پوچھتے کہ کوئی تکلیف تو نہیں ہے ؟ وہ کہتی، نہیں۔ دراصل وہ بھی رات کو بھائی کو تکلیف نہ دینا چاہتی تھی۔ صبح ہمار پیپر ہوتا تھا تو ہم بھی جاگ رہے ہوتے تب شبانہ کہتی۔ میں سگی بہن ہوں پھر بھی بہن کے کراہنے پر اس کے پاس نہیں جاتی جبکہ نسیم نے اتنا میری بہن کا خیال کیا ہے کہ مجھے بھی اس سے دور کر دیا ہے۔ خدا خدا کر کے ہمارے امتحان ختم ہوئے تو ہم بھی ہوش و حواس میں لوٹ آئے ، تب تک شمو بالکل صحت یاب ہو چکی تھی اور اس نے کچن سنبھالنا شروع کر دیا تھا۔ اس کے ہاتھوں کے پکے کھانوں میں جو مزہ تھا، وہ کسی اور کے پکے بعام میں نہ تھا۔ جب سے وہ بیمار ہوئی تھی ہم تو اچھا کھانے کو ترس گئے تھے۔ ایک دن امی جان نے نسیم بھائی سے شادی کا تذکرہ کیا۔ اس دن وہ شہر شمو باجی کی دوائیاں لینے جارہے تھے۔ کہنے لگے ، شہر سے لوٹ آئوں تو بات کروں گا۔ واپس آئے تو ہاتھوں میں کئی شاپر تھے اور یہ شمو باجی کے لئے تھے۔ کسی میں چوڑیاں، بندے، کلپ اور کسی میں کریم اور دوسری چیزیں۔ یہ سب دیکھ کر آج تو امی بھی دنگ رہ گئیں کہ اس لڑکے کو شمو کا کتنا خیال ہے۔ بے شک وہ منشی جی کی ان دونوں یتیم بچیوں کو بہت چاہتی تھیں مگر اپنے بیٹے کی فیاضی دیکھ کر سوچ میں پڑ گئیں کہ یہ سب کچھ بلا وجہ تو نہیں ہے۔ شبانہ بھی حسد محسوس کرنے لگی۔ میں نے نظر بھر کر اس کی طرف دیکھا۔ جب بھیا شمع کی جلی ہوئی کلائی میں چوڑیاں ڈال رہے تھے ، شبانہ کا منہ ذرا سا ہو رہا تھا۔ اس سے چپ نہ رہا گیا اور اس نے کہہ دیا یہ اتنا کچھ تو باجی کے لئے ہے، کاش کچھ ہمارے لئے بھی ہوتا۔ تمہارے لئے بھی ہے ، ذرا صبر کرو۔ شبانہ سمجھی کہ ابھی شاپر سے کچھ نکال کر دیں گے۔ وہ تھوڑی دیر بعد کمرے میں آئے اور اس کے کان میں کچھ کہا۔ وہ گلابی ہو گئی اور اس کے چہرے پر خوشی کے رنگ پھوٹنے لگے ، جیسے چاندنی پھوٹتی ہے۔ ایک دن پھر سے امی نے بھائی سے شادی کا تذکرہ کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ شمع بہت اچھی لڑکی ہے۔ سارا گھر سنبھالا ہوا ہے مجھے بہت آرام دیتی ہے۔ لگتا ہے ، تم دونوں ایک دوسرے کو چاہتے بھی ہو۔ اس پر بھائی چونک گئے۔ بولے۔ امی جان ! میں تو اسے بہن کی طرح سمجھتا ہوں۔ یہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟ تم تو اس کی ہر بات مانتے ہو، اس قدر اس کا خیال رکھتے ہو ۔ جب سے وہ جلی ہے تم اس پر جان نثار کر رہے ہو۔ آخر میں اس کا کیا مطلب سمجھوں۔ امی کیا دنیا میں انسانیت مر گئی ہے ؟ کیا کوئی کسی کی بلا غرض خدمت نہیں کر سکتا ؟ آخر وہ بھی تو دن رات کچن میں رہتی ہے۔ سارے گھر کی خدمت میں جتی رہتی ہے۔ آخر وہ یہ سب کیوں کرتی تھی ؟ اس وجہ سے کہ اور کوئی سہارا نہیں ہے ان کا ، اس کو یہ سب کرنا ہی تھا ہماری خوشنودی کے لئے۔ تو میں بھی اس کا خیال رکھتا ہوں، اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے۔ میں دل و جان سے شمو باجی کی عزت کرتا ہوں۔ سب اس کو شمو بلاتے ہیں مگر میں اسے شمع باجی بلاتا ہوں۔ عزت سے اس لئے نام لیتا ہوں کہ اور سب بھی اس کی عزت کریں، حالانکہ وہ مجھ سے دو سال چھوٹی ہے لیکن میں اس سے ایسی محبت نہیں کرتا کہ شادی کا سوچوں۔ ایسی محبت تو ہیں کسی اور سے کرتا ہوں۔ کون ہے وہ ؟ اسی کا نام بتادو ؟ ہم اس سے تیری شادی کر دیں گے۔ اس کا نام شبانہ ہے۔ اتفاق سے ساری باتیں شمو نے سن لیں اور اپنے کواٹر کی طرف بھاگی۔ میں نے اس کو دوڑ کر صحن عبور کرتے دیکھ لیا تھا، میں بھی اس کے پیچھے بھاگی۔ وہ اپنے کمرے میں جا کر بستر پر گر ی اور رونے لگی۔
جب میں اور شبانہ گھر میں داخل ہوئیں تو اس نے کمرے کا دروازہ اندر سے بند کر لیا تھا۔ بہن کو روتے دیکھ کر شبانہ کا دل خون ہو گیا۔ وہ مجھ سے لپٹ کر سسکنے لگی۔ میں اسے اپنے گھر لائی اور پاس بٹھا کر کافی دیر سمجھایا، مگر وہ کچھ بھی نہ سمجھی۔ بس یہی کہتی رہی کہ میری بہن نے میرے لئے اپنی زندگی گنوادی اور تمام خوشیاں مجھ پر قربان کر دیں۔ ایک میں ہوں کہ اس کی خوشیوں کی قاتل بن رہی ہوں۔ سہیلا ! تم دیکھ لینا، میں ایسا کبھی نہیں ہونے دوں گی۔ واقعی اس نے ایسا ہی کیا۔ ایک دن وہ خاموشی سے ہمارے گھر سے چلی گئی۔ اس کی ایک خالہ لاہور میں کسی اسپتال میں نرس تھیں۔ یہ ان کے پاس پہنچی اور ان کی وساطت سے نرسنگ ٹریننگ میں داخلہ لے لیا۔ اس دوران اس نے صرف بابا جان سے رابطہ کیا اور ٹریننگ کے لئے اجازت مانگی جو انہوں نے دے دی۔ نسیم بھائی کی حالت قابل دید تھی۔ آخر وہ کسی طرح اس کا سراغ لگانے میں کامیاب ہو گئے۔ بھائی نے بہت کوشش کی کہ وہ ٹریننگ چھوڑ کر واپس چلے مگر وہ نہ مانی۔ اس نے صاف کہہ دیا کہ اپنی شادی رچا کر اپنی بہن کی خوشیوں کا خون نہیں کر سکتی۔ اب نرسنگ ہی اس کی زندگی کا اصل مقصد ہے۔ اس نے بھائی سے کہا۔ اگر مجھ سے محبت ہے تو اس کا ثبوت دو اور میری بہن سے شادی کر لو۔ اسے تو تمہاری امی بھی اپنی بہو بنانے کو رضامند ہیں۔ وہ معمولی صورت ہے اور ہاتھ پائوں بھی جلے ہوئے ہیں تو انسانیت کا محض دعویٰ نہیں نباہ کر دکھائو۔ محبت قربانی مانگتی ہے اور میں تم سے یہ قربانی چاہتی ہوں۔ محبت کرنے والوں کے فیصلے بہت عجیب ہوتے ہیں۔ میں نہ سمجھ سکی کہ میرے بھائی کو واقعی شبانہ سے اتنی محبت تھی کہ اس کی خاطر انہوں نے اس کی جلی ہوئی بہن کو سہارا دینا منظور کر لیا یا انسانیت کی خاطر یا پھر اپنی ماں کے سکھ کا خیال تھا۔ بہر حال محبت طاقت ور ہوتی ہے۔ ممکن ہے میرے بھائی کے دل میں اتنی روشنی موجود ہو جو انہوں نے اس معاملے پر ہمدردی سے غور کیا اور پھر شمع کا ہاتھ تھام لیا۔ شمع خود کو کم نصیب سمجھتی تھی مگر وہ کم نصیب نہیں تھی کم نصیب تو شبانہ تھی جس کو محبت ملی بھی تو اس نے بڑی بہن کی جھولی میں ڈال دی۔ یوں میری شمو میری بھابھی بن گئی۔ بھائی کے دل کی خوشی پوری نہ ہو سکی پھر بھی انہوں نے کبھی شمع بھابھی کو یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ اس کو اپنا کر خوش نہیں ہیں۔ ہمدردی میں یا اس کی بہن کی خوشی کی خاطر اسے قبول کیا ہے اگر چہ ان کو اپنے دل پر پتھر رکھنا پڑا۔ میں اپنے بھائی کو عظیم انسان سمجھتی ہوں اور ان کی عظمت کو سلام کرتی ہوں۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ جو لوگ نیک دل ہوں ، ہم ان سے برائی کی توقع نہیں کر سکتے۔ میری شادی لاہور میں ہوئی تب میں شبانہ سے ملنے گئی۔ شکوہ کیا کہ تم نے ایسے ہمیں چھوڑا کہ جیسے کبھی جانتی نہ تھیں۔ اس نے کہا میری مجبوری تھی۔ اگر میں یہ قربانی نہ دیتی تو میری سوختہ حال بہن کو اس کی خوشی کیسے ملتی ؟ میں تمہارے گھر اب نہیں جا سکتی ، ورنہ میری بہن کی خوشیاں برباد ہو جائیں گی۔ ایک روز امی کو اس کا خط ملا کہ اس کی ملازمت سعودی عرب کے ایک اسپتال میں ہو گئی ہے۔ امی لاہور آکر اس سے ملیں۔ بابا جان وفات پا چکے تھے۔ شبانہ سعودی عرب چلی گئی۔ وہ وہاں سے مجھے خط لکھتی تھی کہ سہیلا میں یہاں آکر بہت خوش ہوں۔ حرمین شریف میں آپ سب کے لئے بہت سی دعائیں کرتی ہوں ۔ اللہ تعالی اسے بھی اس کی خوشیاں نصیب کرے۔