میرے بڑے بھائی کا نام نور نظر رکھا گیا تھا مگر گھر میں سب ان کو نظر کہہ کر بلاتے تھے۔ نظر بھائی، کبھی اس جگہ نہ گئے تھے کہ جس کے بارے میں کہا جاتا تھا وہاں انسانیت بکتی ہے۔ نہ ہی میرے بھائی کو اس بازار کے بارے میں معلومات تھیں کہ جہاں حسن کے دلدادہ تماش بینی کو جاتے تھے، وہ تو وہاں مجبوراً گئے تھے کہ ہمارے بوڑھے مالی ایوب بابا کی جواں سال لڑکی شیریں گل اغوا ہوگئی تھی اور کسی نے ان کو اطلاع دی تھی کہ وہ لاہور کے بازار حسن میں ہے۔
بیٹی کے اغوا ہوجانے کا غم ہی کم نہ تھا۔ اس پر یہ اطلاع قیامت ہوگئی۔ اس خبر نے بابا کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ میرے والد کے آگے رو رو کر سماجت کر رہے تھے۔ میری مدد کریں، کسی طور شیریں گل کا پتا کرا دیں، اگر میری بچی وہاں ہے تو اس کو بازار حسن سے نکالنے کی سبیل کریں۔ بتاتی چلوں کہ ایوب بابا پندرہ برس سے ہمارے مالی تھے تب شیریں گل دو برس کی تھی۔ وہ میری ہم عمر تھی۔ بچپن میں ساتھ کھیلا کرتی تھی۔ ہم اکٹھے گڑیاں کھیلتے اور تتلیاں پکڑتے۔ وہ بہت نیچر کی لڑکی تھی اور اس کے حسن کا تو کیا کہوں؟ ایسی خوبصورتی کہ چودہویں کا چاند بھی شرما جائے کہتے ہیں خوبصورتی الله کی دین ہے تاہم کبهی کبهی غیر معمولی خوبصورت ہونا انسان کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ گیاره برس ایوب بابا ہمارے گھر کے عقب میں بنے سرونٹ کوارٹر میں رہتے رہے۔ میرے بھائی کی شادی ہوگئی تو والد صاحب نے پہلے والا گھر فروخت کرکے ایک پوش علاقے میں نیا بنگلہ خرید لیا۔ اس میں سرونٹ کوارٹر صرف ایک کمرے پر مشتمل تھا تبهى ايوب بابا کو کرائے کا مکان لینا پڑا کیونکہ ان کی فیملی ایک کمرے میں نہیں سما سکتی تھی۔ وہ کرائے کے مکان میں چلے گئے، جو کچھ دوری پر ایک ایسے محلے میں تھا جہاں کی آبادی مزدور پیشہ افراد پر مشتمل تھی۔ ہر قماش کے لوگ وہاں آباد تھے۔ یہ ایک غیر محفوظ علاقہ تھا اور رہائشی سہولیات عنقا تھیں… کہنا چاہیے کہ یہ شرفا کے رہنے کے لائق جگہ نہ تھی مگر ایوب بابا کی مجبوری یہ تھی کہ ان کو سستا مکان چاہیے تھا۔ کرائے کے مکان میں رہائش پذیر ہونے کے بعد شیریں گل کا ہمارے گھر روزانہ آنا جانا ممکن نہ رہا۔ وہ اب ایک ماہ بعد اپنی والدہ کے ہمراہ ملنے آجاتی۔ رفتہ رفتہ یہ سلسلہ بھی نہ رہا۔ اس کے بعد ان کے گھریلو حالات کا مجھے علم نہ رہا کہ وہ کیسے اور کیوں اغوا ہوئی۔ اس میں اس کی اپنی نادانی یا غلطی کارفرما تھی یا اس کے ساتھ کوئی حادثہ ہوا تھا۔
بابا ايوب تو صبح سے ہمارے ہاں آجاتے اور شام کو گھر جاتے تھے۔ ان کے چار لڑکیاں اور دو لڑکے تھے۔ شیریں گل بابا کی سب سے بڑی بیٹی تھی جبکہ بیٹے چاروں بیٹیوں سے چھوٹے تھے۔ اتنے بڑے کنبے کے لئے کمانے والے صرف ایوب بابا ہی تھے۔ پرانا ملازم ہونے کی وجہ سے ہم سب ان کا خیال رکھتے۔ ہمارے گھر میں ان کی عزت و قدر گھر کے ایک بزرگ جیسی تهى والدين بهى وقتاً فوقتاً مالی کی مدد کرتے رہتے تھے۔ کہنے کو ایوب بابا مالی تھے، درحقیقت وہ گھر کے اور بہت سارے کام بھی سرانجام دیتے تھے۔ اگر ایک دن نہ آپاتے تو ہمارے گھر کا انتظام ہی درہم برہم ہوجاتا۔ والد صاحب شیریں گل کے بارے میں اتنے ہی پریشان تھے کہ جس قدر ایوب بابا تھے۔ وہ ہر حال اپنے اس وفادار خدمت گار کی مدد کرنا چاہتے تھے تبھی انہوں نے نظر بھائی سے کہا کہ تم اپنے انسپکٹر دوست کے ذریعے بازار حسن تک رسائی حاصل کرو اور شیریں گل کی وہاں تلاش کرائو، شاید اس کا کوئی سراغ مل جائے … ظاہر سی بات ہے کوئی باپ اپنے بیٹے سے بازار حسن جانے کو نہیں کہتا لیکن سوا اس کے چارہ بھی نہ تھا۔ میرے والد نے ہر طرح سے ان کی گم شدہ بیٹی کی تلاش میں پورا ساتھ دیا تھا۔ جب کوئی سراغ نہ مل سکا تو آخری کوشش کے طور پر اس کو اس علاقے میں تلاش کرنے کی ٹھانی کہ جہاں عام حالات میں قدم ركهنا معیوب بات تھی۔ انسان کا ہر عمل اس کی نیت کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے۔ کبھی کبھی کسی نیک ارادے کی تکمیل کے لئے بری جگہ بھی جانا پڑ جاتا ہے۔ انسپکٹر کا نام راحیل تھا اور یہ نظر بھائی کا بچپن کا دوست تھا۔ اس نے شیریں گل کی تلاش کا بیڑہ اٹھالیا، تاہم بغیر بھائی کے وہاں مغویہ کی پہچان نہ کی جاسکتی تھی کیونکہ اس کی کوئی تصویر بھی نہیں تھی۔ میرا بھائی ہی اسے شناخت کرسکتا تھا۔ اگرچہ نظر بھائی کو یہ بات ان کے بس سے باہر لگتی تھی۔ مگر بابا ایوب کی حالت زار پر بھی ترس آتا تھا۔ جب نظر بھائی نے اپنے دوست انسپکٹر راحیل کے ساتھ اس بازار میں قدم رکھا تو ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ انہوں نے اپنی بیوی کو بتایا۔ صوفیہ مجھے بے حد افسوس ہوا، وہاں کتنے چاند چہرے چمک رہے تھے۔ بلاشبہ یہ ہیرے آنکھوں کو خیرہ اور عقل کو ماند کرتے تھے مگر میرا دل ان کی بدنصیبی پر رو رہا تھا۔ کاش یہ شریف گھرانوں کی عورتیں عزت سے دلہنیں بن کر بابل کے گھروں سے رخصت ہوپاتیں اور سہاگنیں کہلاتیں تو ان کی زندگی بکائو مال نہ بنتی اور تباہی و بربادی سے ہمکنار نہ ہوتیں۔ وہاں نہ جانے کتنی ایسی تھیں جن کو بچپن میں ان کے گھروں کے سامنے سے گلیوں میں کھیلتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔ آج یہ شریف گھروں کی بچیاں انسانی درندوں کا دل بہلانے پہ مجبور ہیں۔ ہم ایک دلال کے ہمراہ، گاہک بن اس بازار پہنچے تھے۔ ہمیں شیریں گل کا سراغ نہیں ملا۔ ہم نے پہلے روز ہی جان لیا کہ کافی روپیہ خرچ ہوگا اور وقت برباد ہوگا، تبھی شاید کوئی سراغ مل سکے گا۔ اس مہم پر واقعی کافی روپیہ خرچ ہوا۔ راحیل اور نظر بھائی کئی دن تک جاتے رہے۔ بس اسی قدر معلوم ہوسکا کہ غنڈے شیریں گل کو لائے ضرور تھے لیکن کچھ روز بعد یہاں سے لے گئے اور اب اس کو سندھ پہنچا دیا ہے۔ ایوب بابا کی بیوی زرینہ ہمارے گھر آتی، بیٹی کے بارے میں معلوم کرنے۔ اس بے چاری کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی رو رو کر برا حال تھا۔ امی چپ کراتیں، سمجھاتیں، تسلیاں دیتیں، لیکن اس کے آنسو نہ تھمتے۔ تب وہ کہتیں۔ اچها رولو… رونے سے دکھ نہیں جاتے۔ ہاں جی ہلکا ہوجاتا ہے۔ زرینہ خالہ میرے بھائی کے آگے ہاتھ جوڑ کر کہتیں۔ بیٹا تم اس کو کہیں سے تلاش کر لائو ورنہ میں مرجائوں گی۔
خالہ میں پوری کوشش کر رہا ہوں، پولیس سے بھی مدد لی ہے۔ لیکن وہ وہاں نہیں ملی ہے۔ میرے بس میں ہوتا تو ضرور شیریں گل کو لاکر آپ کے حوالے كرديتا غرض جتنی بساط تھی میرے بھائی نے اپنی سی پوری کوشش کرلی۔ شیریں گل نہ ملی۔ وہاں اپنے مشن کے دوران نظر بھائی نے ایک گھر میں چند مجبور لڑکیاں دیکھیں، ان میں ایک تو بہت خوبصورت تھی، وہ بہت خاموش طبع تھی چہرے پر حزن کا سنگھار اور دل پر افسردگی کا پہرہ تھا۔ اس کی غیر معمولی اداسی نے بھائی کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ انہوں نے چند گھنٹوں کے لئے اس لڑکی کو حاصل کیا کیونکہ تنہائی میں ہی وہ اپنا احوال بتاسکتی تھی۔ اس سے افسردگی کا سبب پوچھا۔ ہمدردی پاکر وہ سسک پڑی۔ بتایا کہ میرے خالہ زاد نے دھوکے سے مجھے میرے گھر سے ساتھ لیا اور یہاں پچاس ہزار میں فروخت کرکے چلا گیا۔ ان لوگوں کی ہم پر نگرانی سخت ہے۔ میں باہر کی دنیا میں کسی کے ساتھ رابطہ نہیں کرسکتی۔ ہاتھ جوڑنے لگی کہ مجھے یہاں سے نکال لو۔ میں عمر بھر آپ کا احسان نہ بھولوں گی۔ اس کی آہ و زاری نظر بهائی کے دل پر اثر کرگئی۔ سوچا شاید اللہ نے مجھے اس بری جگہ کسی نیک کام کے لئے بھیجا ہے۔ ایوب بابا کی لڑکی تو نہ ملی مگر یہ لڑکی بھی تو یہاں زبردستی سانس لینے پر مجبور ہے، یہ بھی کسی کی بیٹی، کسی کی بہن ہے۔ کوئی باپ اس کے لئے بھی تڑپتا ہوگا۔ اس کی ماں بھی رو رو کر اپنی جان کھو رہی ہوگی۔ اس لڑکی کا نام پروین تھا۔ اس نے میرے بھائی کو مجبور کردیا کہ وہ اسے وہاں سے نکال کر اس کے ورثا کے پاس پہنچا دے۔ نور نظر کو مجبور ہوکر وعدہ کرنا پڑا کہ وہ اس کی نجات کے لئے پوری کوشش کرے گا۔ پروین کی وجہ سے نظر بھائی اب وہاں جانے لگے۔ انہوں نے انسپکٹر راحیل سے کہا کہ ایوب بابا کی لڑکی تو نہ ملی لیکن ایک اور لڑکی ایسی ہے کہ جس کی مدد کرنا نیکی کا کام ہے۔ وہ بے چاری میرے پائوں پکڑتی ہے، اسی کو برآمد کرادو لیکن یہ خیال رہے کہ میری بدنامی ہو اور نہ میرا نام آئے۔ جھگڑے فساد سے بھی گریز کرنا … کہیں اخبار والوں تک بات نکل جائے۔ پولیس انسپکٹر تو میرے بھائی کا نکتہ نظر سمجھ گیا لیکن اس کا صاحب نہ سمجھا۔ اس نے ایک سیاسی شخصیت کے سامنے معاملہ کھول دیا اور اس سیاسی بندے نے خود کو اس معاملے میں ملوث کرکے اس کارنامے کا سہرا اپنے سر باندھنے کے چکر میں اخبار والوں کی پریس کانفرنس کر ڈالی۔ لڑکی تو برآمد کرلی گئی مگر اخبار میں خبر بھی لگوادی گئی کہ فلاں صاحب کی کوششوں سے ایک شریف گھرانے کی اغوا شدہ لڑکی کو برآمد کرلیا گیا ہے اور اس کو اب اس کے ورثاء کے حوالے کرنا ہے۔ اب ورثاء کے بارے میں بھی سن لیں۔ جب راحیل انسپکٹر اور نظر بھائی نے لڑکی کو اس کے والد کے حوالے کرنا چاہا تو پروین کا والد بجائے پُرسکون ہونے کے تلخ ہوگیا۔ وہ بہت غصے میں تھا۔ اس نے کہا۔ جو ٹھوکر میری بیٹی کو لگی ہے، وہ اس کی اپنی غلطی کی وجہ سے لگی ہے اور ہماری عزت اس نے ہی خاک میں ملائی ہے۔ یہ اتنی معصوم نہیں ہے، یہ جس لڑکے کے ساتھ گھر سے گئی، وہ اس کا خالہ زاد نہیں ہے۔ ہاں دور کا ایک رشتہ دار ضرور ہے مگر وہ ٹھیک لڑکا نہ تھا تبھی میں نے اس کے والدین کو انکار کیا تھا جو اپنے بیٹے کے لئے رشتہ مانگنے آئے تھے۔
پروین اسکول جاتی تھی، تبھی سے منور اس کے پیچھے تھا۔ مجھے علم ہوا تو میں نے بیٹی کو اسکول سے ہٹا لیا۔ اس کی ماں نے بھی اس کو سمجھایا تھا کہ منور لوفر لڑکا ہے، اس سے شادی نہیں ہوسکتی مگر اس کے دماغ میں ہماری بات نہیں آئی۔ اس نے اس کے ساتھ رابطے رکھا اور جب میں نے منور کے ماں باپ کو سختی سے منع کردیا کہ دوبارہ میرے در پر پروین کے رشتے کے لئے مت آنا تو میری بیٹی نے ہم کو دھوکا دیا۔ خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی۔ ایک دن اسی لڑکے کے ساتھ بھاگ نکلی۔ ہم مرد ہیں باہر کی دنیا سے واقف ہیں۔ کون کیا کر رہا ہے، کون اچھا ہے، کون برا ہے؟ ہم جانتے ہیں۔ گھر میں بیٹھی عورتیں اور ہماری بچیاں تو نہیں جانتیں کہ باہر کون کیا کر رہا ہے، معاشرے میں ان کی کیا حیثیت ہے۔ منور ہی نہیں، اس کے والدین بھی ٹھیک لوگ نہیں۔ میں ان کے بارے میں خوب جانتا تھا۔ معاشرے میں ان کا کوئی مقام نہ تھا۔ لوگ ان کو اچھا نہیں جانتے تھے۔ مگر پروین نہ سمجھی اور ہماری عزت و آبرو پر بٹہ لگا دیا۔ دیکھو کس جگہ اس بدقماش نے اس کو پہنچا دیا جبکہ اب سارے جہان میں ہماری بدنامی ہوچکی ہے۔ اخبار میں نہ صرف اس کی قحبہ خانے سے برآمدگی کی خبر چھپ گئی ہے بلکہ اس کے نام کے ساتھ اس کے باپ کا بھی نام چھپ گیا ہے تو میں کیونکر اب اس ذلت کو مزید برداشت کروں گا۔ میں ہرگز اس کو قبول نہیں کروں گا جنہوں نے ہمدردی کرکے اس کو برآمد کرایا ہے۔ اب بے شک وہی اس کو رکھ لیں۔ نور نظر بهائی راحیل بھائی حتیٰ کہ میرے والد بھی اس شخص کو سمجھانے گئے مگر وہ نہیں مانا۔ لڑکی نے میرے ابو کے پائوں پکڑ لئے اور بولی آپ مجھے مت دھتکارئیے گا۔ اپنے گھر کی نوکرانی بنالیں، مجھے مار ڈالیں مگر کسی اور کے حوالے نہ کرنا۔ کہیں کوئی پھر سے مجھ کو نہ بیچ دے۔ وہ بہت غلیظ اور خوفناک جگہ ہے۔ شریف لڑکیوں کے لئے دوزخ ہے، غرض اس نے اتنی آہ و زاری کی کہ ابو نے پروین کو اپنے گھر پناہ دے دی لیکن اب وہ اسی سوچ بچار میں تھے، اس کا کیا کریں؟ پروین نے شاید دل میں فیصلہ کرلیا تھا کہ اسی گھر میں ہی رہنا ہے۔ وہ نہ تو کسی اور پر اعتبار کرنے پر تیار تھی اور نہ دار الامان جانے پر تیار تھی اور نہ کسی رشتہ دار کے گھر جانا چاہتی تھی۔ ظاہر ہے کہ اس کے سگے ماموں، چچا، خالو وغیره تک اس کو قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ شاید ان میں سے کوئی اس کو رکھ بھی لیتا، لیکن اخبار میں خبر لگنے اور اس کی تصویر شائع ہوجانے کی وجہ سے وہ سب کے لئے ناقابل قبول ہوگئی تھی۔ والد صاحب راحیل پر برہم تھے کہ اگر نیکی کا کام کیا ہی تھا تو اخبار میں اس کا اشتہار لگوانا کی کیا ضرورت تھی۔ بے چارا راحیل کیا جواب دیتا۔ وہ تو ایک معمولی پولیس انسپکٹر تھا۔ جنہوں نے پریس کانفرنس بلوائی، انہوں نے نیک نامی اپنے سر لینا چاہی۔ ان کو اپنے ووٹوں کی فکر تھی۔ اس طرح لڑکی کی کہانی منظر عام پر آگئی والد اور بھائیوں نے نہ ہی اس کے کسی رشتہ دار نے اس کے ساتھ ناتا رکھنا قبول کیا کیونکہ خبر سے یہ حقیقت ظاہر ہوگئی کہ اس کو بازار حسن سے بازیاب کروالیا گیا تھا۔
کچھ دنوں بعد پروین نے میری والدہ کو یہ عندیہ دیا کہ وہ اس کو اپنی بہو بنالیں۔ یہ کیسے ممکن ہے لڑکی نور نظر شادی شدہ ہے۔ جبکہ میرا چھوٹا بیٹا ابهى طالب علم ہے ، اتنی جلد اس کی شادی نہیں ہوسکتی۔ اس کو شادی کے لئے کہوں تو بھی وہ رضامند نہیں ہوگا۔ کیا کروں گی … صبر کرو، میری بیٹی بن کر رہنا ہے تو رہو۔ کسی نیک اطوار انسان کا رشتہ تلاش کرکے تمہاری شادی کرا دوں گی۔ وہ بولی۔ مجھے شادی کا شوق نہیں۔ مجھے آپ لوگوں سے غرض ہے، آپ سے محبت ہوگئی ہے، اس گھر کو اپنا گھر سمجھ لیا ہے۔ یہی خوف ستاتا ہے کہیں آپ لوگوں کی شفقت اور اس گھر سے دربدر نہ ہوجائوں۔ یہ واقعہ 1973ء کا ہے اور 19 مارچ کو سارے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ پروین فرضی نام کو قحبہ خانے سے برآمد کرالیا گیا ہے۔ چونکہ خبر میں انسپکٹر کے ساتھ نور نظر بھائی کا نام بھی چھپ گیا تھا تو ان کو بھی کافی دن پریشانی اٹھانا پڑی تھی۔ والد صاحب اس سیاسی شخص سے بھی جاکر ملے تھے کہ آپ نے یہ کیا کیا ہے، کتنے ہی لوگوں کا نقصان کردیا ہے۔ مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا، واپس کیسے آسکتا تھا۔ اس تمام قصے میں کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ جس سے میرے والد اور بھائی کو پشیمانی یا پچھتاوا ہوتا کیونکہ جو کام نیک نیتی یا کسی کی بھلائی کی خاطر کیا جائے، اس میں پھر دنیا کی پروا نہیں رہتی اور نہ پچھتاوے کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ پروین کو گناہوں کی آماجگاہ سے نکالنا احسن بات تھی لیکن اس امر کی اخبارات میں تشہیر سے سارا معاملہ چوپٹ کرکے رکھ دیا تھا۔ لڑکی کی تصویر کا شائع ہوجانا والدین کے لئے بھی اور خود لڑکی کے لئے بھی عذاب کا باعث بن گیا۔ نظر بھائی کو اس کے سسر نے بلاکر کافی برا بھلا کہا تھا کہ صاحب زادے آپ کو قحبہ خانوں میں اغوا شدہ لڑکیوں کی برآمدگی سے بڑی دلچسپی ہے، آپ وہاں جاتے ہی کیوں ہیں؟ وہاں نیک ارادے سے جائیں۔ دنیا تب بھی آپ کو بدچلن ہی سمجھے گی۔ کیونکہ کیچڑ میں پائوں دھرنے سے کپڑوں پر چھینٹے تو پڑتے ہی ہیں۔ بھائی نے لاکھ بزرگوار کو سمجھانا چاہا کہ چچا جان میں نے کوئی جرم کیا ہے اور نہ برائی کی نیت سے وہاں گیا تھا۔ ایک مصیبت زدہ لڑکی کی التجا پر اس کو برے ماحول سے نجات دلوا دی ہے مگر وہ تو ایسے آگ بگولہ تھے کہ الامان… کچھ رشتہ داروں نے تو یہ تک مشہور کردیا کہ نور نظر میاں کا چال چلن ٹھیک نہیں رہا ہے، ایک مال داری کے عشق میں گرفتار ہیں۔ حالانکہ یہ ایک اتفاق تھا کہ شیریں گل نہ ملی مگر پروین مل گئی جس کے آنسوئوں کے آگے وہ بے بس ہوگئے۔ بلاغرض اس مجبور کا ساتھ دیا جبکہ اس بے چاری کو اس دلدل سے نکل آنے کے بعد بھی سکون نصیب نہ ہوا۔ وہ دو سال ہمارے گھر رہی۔ میرے والدین نے اس کو کسی کے حوالے کیا اور نہ گھر سے نکالا۔ زمانے کی باتیں سہہ لیں۔ اس میں میری بهابهی یعنی نور نظر بھائی کی بیوی کا رویہ کمال کا رہا۔ ان ہی نے اپنے شوہر کے پاس داری کی اور بھابھی کی وجہ سے پروین کو دربدر نہ ہونا پڑا۔ وہ بولیں۔ جب اس لڑکی کو جو برائی سے بچنا چاہتی ہے، ہم نے پناہ دی ہے تو اسے گھر سے بے گھر کرنے سے اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض نہ ہوجائے۔ جیسے بھی حالات ہوں گے، ہم مقابلہ کریں گے مگر پروین کو نہیں نکالیں گے۔
بالآخر الله تعالیٰ کو پروین پر رحم آگیا۔ ایک روز ہمارا گھر تلاش کرکے اس کی ماں اپنے چھوٹے لڑکے کے ساتھ آگئی اور کہا کہ میں نے پروین کے والد کو راضی کرلیا ہے۔ میرے بھائی نے بھی ان کو کافی سمجھایا ہے بلکہ سمجھاتے رہتے ہیں، وہ راضی ہوگئے ہیں پروین کو اپنے گھر رکھنے کے لئے، جو بھی حالات گزرے آخر کو یہ ہماری بیٹی ہے۔ میں اس کو لینے آئی ہوں۔ والد نے فون پر پروین کے والد سے بات کی اور پھر ہم نے بخوشی اس کو اس کی والدہ اور بھائی کے حوالے کردیا۔ وہ بھی ماں کے آنے پر خوش تھی۔ جاتے ہوئے افسردہ ضرور تھی کہ ہم لوگوں سے دور ہورہی تھی مگر اس کا بهلا اسی میں تھا کہ اپنے والدین کے گھر چلی جائے۔ لہٰذا وہ چلی گئی اور ہمیں بھی سكون نصيب ہوا۔