اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو کسی نہ کسی مقصد کی خاطر پیدا کیا ہے۔ کچھ لوگ اس بات کا ادراک کرلیتے ہیں کہ انہیں دنیا میں کوئی مفید کام کرنا ہے۔ کچھ اتنے باشعور نہیں ہوتے اور وہ بے مقصد زندگی گزار کر اس جہان سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ کھانا پینا، سونا اور بیکار زندگی گزارنا تو مقصدحیات نہیں۔ سوچتی تھی ایسا جیون تو جانور بھی گزارتے ہیں جبکہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ اسے ایسی زندگی گزارنے کا اہتمام کرنا چاہیے جس پر انسانیت فخر کرے۔ مجھے یہ شعور والدہ نے دیا۔ والد صاحب اتنی گہری سوچ نہ رکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ صرف اپنے لئے سوچو اور اپنی خاطر جیو۔ وہ ایک نارمل آدمی کی طرح کماتے اور کمانے کے بارے میں رات، دن سوچتے تاکہ اپنے بچوں کو عیش و آرام مہیا کرسکیں۔ شاید یہی ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ میں امی کی شخصیت سے متاثر تھی۔ بچپن میں جو باتیں، وہ کہانی کے روپ میں گوش گزار کرتی تھیں، انہی سے میری تعمیر ہوئی۔ جوں جوں عقل آتی گئی، یہ سوچ پختہ ہوتی گئی۔ ضرورت مند انسانوں کے لیے کچھ کرنا ہے، دوسروں کے کام آنا ہے، اپنی زندگی دوسروں کی راحت کے لیے وقف کردینا، بے شک یہ ایک اعلیٰ ترین کام تھا لیکن آسان کام نہ تھا کیونکہ انسان اپنی پرستش میں خوشی محسوس کرتا ہے۔ سچ ہے کہ اپنے نفس کو مارنا بپھرے ہوئے شیر کو زیر کرنے سے زیادہ دشوار امر ہے۔ پکا ارادہ تھا کہ اس راہ میں جتنے کانٹے آئیں گے، پلکوں سے چن لوں گی اور امی کے بتائے ہوئے راستے پر چلوں گی۔ خوب پڑھوں گی۔ کوئی ایسا کام کروں گی کہ رہتی دنیا تک یاد رہے اور والدین کا فخر سے سر بلند ہو۔ ہمیشہ ہر جماعت میں اوّل آئی۔ ایف ایس سی تک پہنچی۔ لگن سے پڑھ رہی تھی کہ اچھے نمبر لوں گی، کمیشن لے کر وطن کا سر بلند کروں گی۔ ایئرفورس جوائن کرنے کا موقع ملا تو پائلٹ بنوں گی۔ غرض ایسے دلنشیں خواب تھے کہ ان کی دلکشی کو الفاظ میں بیان کرنا محال ہے۔ کیا جانتی تھی کہ بدلتا وقت ایک حقیقت ہے، یہ ایسے موڑ لے آتا ہے کہ انسان اپنے مقصد سے دور ہوجاتا ہے۔ سارے خواب اورارادے تندوتیز وقت کے دھاروں میں بہہ جاتے ہیں۔ ہمارے گھر کے سامنے ایک بڑی، شاندار اور وسیع و عریض کوٹھی تھی جو کچھ عرصے سے برائے فروخت تھی۔ ایک روز والد صاحب سے پتا چلا کہ یہ کوٹھی بک گئی ہے۔ جس نے خریدا ہے، وہ ایک امیر آدمی ہے۔ اس کا نام خالد تھا۔ رفتہ رفتہ ابو کی اس سے اچھی دعا سلام ہوگئی۔ گرچہ عمر میں کم تھا مگر شادی شدہ تھا اور حیرت کی بات یہ تھی کہ بیوی ساتھ نہیں رہتی تھی۔ وہ میکے میں تھی اور خالد اپنے نوکروں کے ہمراہ کوٹھی میں رہائش پذیر تھے۔ خالد نے ابو سے دوستی پکی کرلی۔ وہ روز ہمارے ڈرائنگ روم میں براجمان ہوتا۔ ابو اس کی خاطر مدارات خصوصی طور پر کرتے۔ کہتے تھے۔ کام کا آدمی ہے اور اس کے تعلقات بڑے بڑے لوگوں سے ہیں جن سے کئی کام نکل سکتے ہیں۔ اسی لالچ پر والد نے اس سے روز ملنا شروع کردیا۔ کھانے پر، کبھی چائے پر بلا لیتے۔ وہ بھی اکیلا رہتا تھا، بوریت دور کرنے فارغ وقت میں ابو کے پاس آجاتا۔ جب دونوں میں قربت بڑھی، خالد نے ابو سے اپنے ذاتی معاملات اور مسائل بتانے شروع کئے۔ والد صاحب ہمدردی کرتے اور کہتے کہ میری ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں، مجھے اپنا جانو۔ اکثر کالج آتے جاتے خالد سے میرا سامنا ہوتا۔ بطور پڑوسی اسے احترام سے سلام کرکے آگے بڑھ جاتی تھی۔ نہیں جانتی تھی کہ وہ مجھے نظرخاص سے کس مقصد کے تحت دیکھتا ہے۔ شادی شدہ تھا اور عمر میں مجھ سے پندرہ برس بڑا تھا۔ سوچا بھی نہ تھا کہ اس کے دل میں مجھے شریک حیات بنانے کی آرزو راسخ ہوجائے گی۔
ایک دن اس نے والد صاحب کو اپنے دکھڑے سنا کر میرا رشتہ مانگ لیا۔ وہ خالد کو پسند کرتے تھے کہ انہیں بھی اسی کی طرح دولت کمانے اور اسے دن رات دگنی کرنے کا شوق تھا۔ اسی قدر مشترک نے شاید دونوں کو یکجا کیا تھا۔ بہرحال والد صاحب نے دور کی سوچی کہ اگر خالد ان کا داماد بن گیا تو اس کے ذریعے ان کے بھی بڑے لوگوں سے تعلقات بنیں گے اور والد کے وارے نیارے ہوجائیں گے۔ پس انہوں نے والدہ سے کہا کہ خالد کو میں نے اچھی طرح دیکھ، پرکھ لیا ہے۔ شادی شدہ ہے تو کیا ہوا، بیوی گھر بسانے پر راضی نہیں، بارہا منانے کو جا چکا ہے۔ سسرال والے انتہائی عاقبت نااندیش اور بدتمیز قسم کے لوگ ہیں۔ اس نے ہماری بیٹی سے شادی کی درخواست کی ہے۔ اتنے امیر آدمی کا داماد ہونا بڑی بات ہے۔ پندرہ سال عمر کا فرق کوئی ایسا فرق نہیں ہے کہ اچھا رشتہ رد کریں۔ خالد ابھی بمشکل اکتیس یا بتیس برس کا ہے۔ اس کی شادی بزرگوں نے لڑکپن میں کردی تھی۔ بہتر ہوگا کہ ہم اس رشتے کو قبول کرلیں۔ والدہ حیران رہ گئیں۔ ان کو میرے مزاج اور لگن کا پتا تھا جبکہ والد تعلیم کو لڑکیوں کے لیے بس واجبی سی شے سمجھتے تھے۔ کہتے تھے، جتنا پڑھ لیا، کافی ہے، اوّلین فرض گھر بسانا ہے۔ جتنی جلد شادی ہوجائے، اچھا ہے۔ جب مجھے علم ہوا کہ ابو میرا رشتہ خالد سے طے کرنے جارہے ہیں، جان ہی تو نکل گئی۔ اتنی جلدی اور وہ بھی ایک شادی شدہ آدمی سے… یقین نہ آیا وہ ایسا کرسکتے ہیں۔ جانتی تھی امی یا میری مرضی نہ چلے گی کیونکہ خالد شاطر آدمی تھا۔ اس نے ابو کو ان کی خواہشات کے مطابق سبز باغ دکھا دیئے تھے۔ والد پوری طرح اس کے بچھائے جال میں جکڑے گئے تھے۔ ہم خوشحال کہلاتے تھے لیکن روپے کی ریل پیل کبھی نہ دیکھی تھی۔ ابو انتھک محنت کرتے تھے، تبھی تھوڑی سی خوشحالی لا سکے تھے اور اب وہ دولت مند ہونے کے لیے کوئی آسان راستہ تلاش کررہے تھے۔ ہم چار بہنیں تھیں، کوئی بھائی نہ تھا۔ تینوں بہنیں مجھ سے کمسن تھیں، اسکول میں پڑھتی تھیں۔ خالد نے ایک نظر دیکھ کر مجھے پسند کیا تھا اور مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ کوئی ایک نظر دیکھ کر بھی کسی سے شادی کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ امی گومگو کی کیفیت میں تھیں اور دادی رات دن کہتی تھیں۔ ایک نہیں چار بیٹیاں ہیں۔ وقت پر ان کی شادیاں کردو، اس سے پہلے کہ میرے بیٹے کی کمر دُہری ہوجائے، لڑکیوں کو عزت و آبرو سے ان کے گھر کا کردو۔ میرا بس چلتا تو تعلیم حاصل کرنے چین چلی جاتی مگر خالد نے ایسی افتاد ڈالی تھی کہ آناً فاناً والد میری شادی کی تیاریاں کررہے تھے۔ خالد نے جانے کیسا اسم پھونک کر انہیں شیشے میں اتار لیا تھا۔ جب کوئی حل نہ ملا، سوچا خود خالد سے بات کرتی ہوں۔ اس کو سمجھا کر منع کرتی ہوں کہ اپنی اور میری زندگی کو غارت نہ کرے۔ ہرگز میں اس کے ساتھ گزارہ نہ کروں گی۔ امید تھی کہ میرے ارادے کو بھانپ کر وہ یہ غلطی کرنے سے باز رہے گا کیونکہ پہلے ہی ایک بیوی کو گنوائے بیٹھا تھا۔
کئی روز تک منصوبہ بناتی رہی کہ کس طرح اور کہاں خالد سے بات کروں کہ والد کو پتا نہ چلے۔ جی چاہتا خوب کھری کھری سنائوں کہ ہمیشہ کے لیے میرے بارے میں سوچنے سے باز آجائے۔ جانے اسے کیا سوجھی تھی کہ ایک بیوی کے ہوتے میرے گرد چکر لگا رہا تھا۔ ایک روز کالج سے گھر آرہی تھی کہ ایک گاڑی کو اپنا تعاقب کرتے پایا، یہ خالد تھا۔ میں ایک طرف ہوکر ٹھہر گئی۔ اتفاق سے سامنے ایک ریسٹورنٹ تھا۔ اس نے میرے نزدیک گاڑی کی رفتار کو دھیما کردیا جیسے مجھے لفٹ کی پیشکش کرنا چاہتا ہو، تبھی میں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا اور کہا۔ ذرا ٹھہریئے اور میری بات سنئے۔ اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا تو میں نے کہا کہ گاڑی سے اتر کر بات سنئے۔ وہ باہر آگیا۔ اب میں مشکل میں پڑ گئی کہ فٹ پاتھ پر جہاں لوگ آجا رہے تھے، کیسے اس سے بات کروں۔ میں تو اسے اس طرح دھمکانا چاہتی تھی کہ کانوں کو ہاتھ لگائے اورسب سے بڑا عذر یہی پیش کرنا چاہتی تھی کہ شادی شدہ ہو کر میرا رشتہ مانگنے کیوں ہمارے گھر پہنچ گئے۔ پبلک پلیس کی وجہ سے ایسا ممکن نہ لگا۔ میں نے ریسٹورنٹ کی جانب اشارہ کیا۔ اندر چلو۔ اس کی باچھیں کھل گئیں۔ ہم ہال میں ایک طرف پڑی کرسیوں پر میز کے گرد بیٹھ گئے۔ بڑی خوش نصیبی ہے جو آپ نے خود مجھے عزت دی، میں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ تعاقب کرو گے تو لفٹ ملے گی ہی لیکن ایسی لفٹ دوں گی کہ عمر بھر یاد کرو گے۔ کبھی تم کو یہاں بٹھا کر بات نہ کرتی لیکن جس افتاد میں تم نے مجھے ڈالا ہے، اس کا واحد حل یہی تھا کہ تم سے دوٹوک بات کرلوں۔ تم نے مجھے اس قابل سمجھا، میں کتنا خوش قسمت ہوں۔ اس نے بات شروع کی۔ یہ تو آپ کو بعد میں پتا چلے گا کہ آپ خوش قسمت ہیں یا نہیں! مگر میری عرض سن لیجئے کہ یہ لفٹ میں نے آپ سے باتیں کرنے کے شوق میں نہیں لی بلکہ آپ سے یہ پوچھنا مطلوب ہے آپ شادی شدہ ہیں، پھر دوسری شادی کی کیا ضرورت پیش آگئی، وہ بھی مجھ غریب کمسن اسٹوڈنٹ کو آپ نے تاکا جس کی زندگی کا مقصد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ہے۔ اس نے میرے سنجیدہ لہجے کو انتہائی غیر سنجیدہ موڈ میں لیا۔ وہ ہنس پڑا۔ پھر گویا ہوا۔ آپ واقعی شادی نہیں کرنا چاہتیں یا مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتیں کہ میں شادی شدہ ہوں؟ دونوں باتیں سمجھ لیں۔ پڑھائی کا جہاں تک معاملہ ہے، یہ شادی کے بعد بھی جاری رکھی جاسکتی ہے اور دوسری بیوی کا معاملہ ہے تو آپ میری بیوی سے خود ملیں۔ اس کا ذہنی توازن درست نہیں ہے۔ میرے چچا کی بیٹی ہے اور چچا کی بڑی جائداد کی تنہا وارث ہے، اسی لیے مجھے بزرگوں نے کمسنی میں قربانی کا بکرا بنا دیا۔ آپ میری والدہ، بہن، گھر والوں… سب سے مل کر اس معاملے کی تصدیق کرسکتی ہیں۔ مجھے تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی۔ اگر آپ کی بیوی کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تو اسے طلاق کیوں نہیں دے دیتے؟ کیا محض اس کی جائداد و دولت کی وجہ سے۔ نہیں! اسے عمر بھر کے لیے ایک محرم بھی چاہیے جو اس کی دیکھ بھال کرتا رہے۔ ابو اور چچا نے سوچا کہ ان کے بعد فریحہ کو بیماری یا اچھے برے وقت میں محرم کی ضرورت ہوگی، پھر کون اس کی خبرگیری کرسکے گا۔ نازیہ! تم کیا کہتی ہو؟ کیا انسان کو خود غرض بن کر جینا چاہیے، انسانی زندگی کو بے مقصد جان کر گزار دینا چاہیے؟ اگر نیک اور اچھا مقصد بھی نظر میں رہے تو کیا برا ہے؟ میں آپ کی اس بات سے اتفاق کرتی ہوں لیکن ابھی شادی نہیں کرسکتی۔ درخواست ہے براہ کرم کوئی اور رشتہ دیکھ لیں ورنہ آپ کی یہ دوسری شادی بھی ناکام رہے گی۔ یہ کہہ میں ریسٹورنٹ سے جونہی باہر نکلی، والد صاحب کو سامنے پایا۔ خالد میرے پیچھے تھا اور والد صاحب کے ہمراہ ان کے دوست تھے۔ وہ یہاں کھانا کھانے آئے تھے۔ والد ان کی موجودگی میں نظریں جھکا کر خاموشی سے پاس سے گزر کر ریسٹورنٹ کے اندر چلے گئے۔ اُف! یہ اتفاق بھی ہونا تھا۔ میں آزاد ہونے سے پہلے گرفتار کرلی گئی تھی۔ ابو نے مجھ سے صفائی طلب کرنے کی ضرورت نہ سمجھی اور گھر آکر والدہ سے کہا۔ تاریخ فوراً طے کردی جائے گی۔ نازیہ کی شادی کی تیاری کرو۔ گویا میں ایک بہت بڑا خطرہ بن چکی تھی اور اب ابو کے خیال میں خالد سے نکاح کرکے ہی اپنی عزت و ناموس کو بچایا جاسکتا تھا۔ میں گھٹ گھٹ کر روئی مگر نکاح ہوگیا۔ شادیانے بجنے لگے۔ میں دلہن بن کر سامنے والی وسیع و شاندار محل نما کوٹھی کی ملکہ بن گئی۔ شادی کے بعد خالد نے مجھ پر اپنی گفتگو سے ایسا جادو کیا کہ میں اپنے سابقہ افکار اور منصوبوں کو غیر حقیقی اور احمقانہ سوچوں کا شاخسانہ سمجھنے لگی۔ انہوں نے مجھ کو خوش رکھنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ ہر طرح میرا خیال رکھا۔ اب سوچتی تھی اگر خالد سے میری شادی نہ ہوتی تو میں بدقسمت ہوتی۔ اس نے یہاں تک تو سچ کہا تھا کہ اس کی بیوی عرصے سے میکے میں تھی لیکن یہ صحیح نہ تھا کہ اس کا ذہنی توازن خراب تھا۔ وہ اَن پڑھ اور دیہات کی ایک بھولی بھالی عورت تھی اور بے اولاد بھی نہ تھی۔ خالد سے اس کے تین بچے تھے جو اپنی ماں کے پاس تھے۔ اصل معاملہ یہ تھا کہ وہ عورت خالد کے ساتھ شہر میں رہنا نہیں چاہتی تھی کہ اس کی والدہ فالج کی مریضہ تھی جسے اس کے سوا دیکھنے والی کوئی اور نہ تھی اور یہ ایک طرح سے سمجھوتہ تھا کہ وہ اپنی ماں کی خاطر میکے میں رہے گی اور خالد بزنس کی خاطر شہر میں سکونت پذیر ہوگا البتہ گائوں اپنے بچوں سے ملنے آتا جاتا رہے گا۔ میں نے خود کو سمجھایا کہ ایک اچھے مقصد کے لیے اس شخص نے بیوی کو بیمار ماں کے پاس رہنے کی اجازت دی ہے اور ایسے وقت میں بیٹی سے زیادہ کوئی اس کا خیال نہیں رکھ سکتا تھا۔ یہ تو خالد کی اچھائی تھی لیکن کیا اس نے بیوی کو آگاہ کیا کہ وہ شہر میں رہتے ہوئے اپنی ضروریات کی خاطر دوسری شادی کررہا ہے؟ اس کا شہر میں رہنا ناگزیر تھا اور دوسری شادی بھی ناگزیر تھی۔
اب یہ خوف ستاتا تھا کہ کبھی خالد کی دوسری بیوی شہر والے گھر آگئی تو یقینا ہمارا سکون درہم برہم ہوجائے گا۔ شادی کو دو سال گزر گئے اور میں اولاد کی نعمت سے محروم تھی۔ خالد کے بچے موجود تھے۔ اسے مزید بچوں کی خواہش بھی نہ تھی۔ میرا رشتہ اس کے ساتھ ہوا میں معلق تھا۔ بچے میاں، بیوی کے رشتے کو زیادہ مضبوط کرتے ہیں، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ انہی دنوں خالد کچھ پریشان رہنے لگے۔ پوچھا کیا پریشانی ہے؟ کہا کچھ نہیں، کاروباری پریشانی ہے جس کے لیے افسران کی خوشنودی حاصل کرنا ضروری ہے۔ سوچتا ہوں کہ ان کی گھر پر دعوت کردوں تو بات بن جائے گی، اگر تم ساتھ دو۔
کیوں نہیں آپ بتایئے، مجھے کیا کرنا ہے؟ دعوت کا بہت عمدہ انتظام کرنا ہے۔ ہوجائے گا، آپ بالکل پریشان نہ ہوں۔ دعوت کے دن میں نے محنت سے کھانے وغیرہ کی تیاری کا اہتمام کیا۔ صبح سے شام تک کچن میں گزارہ۔ رات کی دعوت تھی، افسر صاحب آئے مگر اکیلے تھے۔ خالد نے کہا۔ یہ میرے بھائیوں کی طرح ہیں، تمہیں ان سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں، کھانا تم ہی نے سرو کرنا ہے۔ برقع وغیرہ میں نہ پہنتی تھی لیکن مرد مہمان آتے تو سامنے بھی نہ جاتی تھی۔ شوہر کے حکم پر میں نے میز پر برتن اور کھانا لگوایا اور جب کھانا شروع ہوا تو میں بھی ساتھ بیٹھ گئی۔ یہی شوہر کا حکم تھا۔ گرچہ غیر شخص کے سامنے حجاب مانع تھا۔ دو لقمے زہر مار کئے۔ وہ صاحب کن انکھیوں سے مجھے دیکھتے تھے اور میں پسینہ پسینہ ہوجاتی تھی۔ بس پھر کیا تھا، اس دعوت کے بعد دعوتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ایک کے بعد ایک افسر کی دعوت ہوتی۔ ایک حد جو مقرر تھی، ختم ہوگئی۔ اب ہر دعوت پر مجھے مہمانوں کے سامنے بٹھا لیتے اور کھانا کھانے پر اصرار کرتے۔ کہتے۔ یہ آج کل کا طریقہ ہے، مہمان کی عزت افزائی کے لیے فیملی کے ساتھ ڈنر یا لنچ کرنا پڑتا ہے۔ ایسی دعوتوں سے میرے کاروباری امور میں مدد ملے گی اور تمہارے تعاون سے مجھے بڑے بڑے ٹھیکے ملیں گے۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ ایسی دعوتوں کے معنی کتنے وسیع ہوسکتے ہیں۔ شروع میں کچھ نہ سمجھی۔ بالآخر سمجھ میں آگیا کہ یہ دولت کمانے کی خاطر مجھے استعمال کررہے ہیں۔ میں خوبصورت اور کمسن تھی اور یہ شوپیس کی طرح میرا ہر کسی کو دیدار کراتے تھے۔ دعوتوں سے جی اوب گیا، ہمہ وقت پریشان رہنے لگی۔ سوچتی تھی ابو کو بتا دوں کہ میں اتنی ماڈرن نہیں بننا چاہتی کہ ان کے دوستوں کی یوں تواضع کروں؟ بدقسمتی سے انہی دنوں ابو کا انتقال ہوگیا۔ میں خالد کی بیوی تھی، ان کو میرے باپ کا ڈر نہ رہا۔ وہ اب جبراً مجھ سے تعاون لے سکتے تھے کیونکہ میری پشت پر کوئی محافظ نہ رہا تھا۔ میں نے ان محفلوں کو گھر پر منانے پر اعتراض کیا تو خالد نے برا منایا۔ کہا کہ اس معاشرے میں اگر مرد، بیوی سے چھٹکارا پانا چاہے تو وہ اس پر بدچلنی کا الزام لگا کر اپنی زندگی سے علیحدہ کرسکتا ہے مگر بیوی اپنی مرضی سے مرد سے نجات حاصل نہیں کرسکتی۔ لوگ بدچلنی کے الزام پر تو بغیر تصدیق جلد یقین کرلیتے ہیں مگر مرد اپنی بیوی کو اگر بدی کے اندھیروں میں دھکیل دے تب وہ کچھ نہیں کرسکتی۔ خالد شاید مجھے ایک کمزور عورت سمجھ رہا تھا لیکن میں اندر سے اتنی کمزور نہ تھی۔ اس سے قبل کہ وہ مجھے ہوس زہر کی خاطر کھلونا بنا کر بدی کی راہوں پر دھکیل دیتا، میں نے دعوت میں آنے والے اس کے ایک دوست افسر کو اعتماد میں لیا۔ اس شخص کا ضمیر زندہ تھا۔ اس سے فریاد کی۔ آپ ایک بہت بڑے افسر ہیں مگر مجھے نیک طینت لگتے ہیں۔ خالد کا افسروں کو دعوت پر بلانا اور ان سے گھلنے ملنے پر زور دینا، مجھے بالکل پسند نہیں ہے۔ میرا ایسا مزاج نہیں ہے۔ میں اس آدمی کے ان اطوار سے سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتی۔ آپ میری مدد کریں۔ کیا تم خلع لینا چاہتی ہو؟ جی ہاں! خالد کی نیت جان چکی ہوں۔ اب تو دعوت میں شراب بھی رکھی جاتی ہے۔ مجھے یہ منظور نہیں کہ کسی غیر مرد کی اس طرح مہمان نوازی کروں۔ اس سے آگے کی منزل کیا ہوگی، آپ خود سوچ سکتے ہیں۔ اس افسر کا نام اشرف تھا، اس کی غیرت جاگ گئی۔ یوں اشرف کی مدد سے میں نے مے نوشی کی محفلوں میں ساقی بننے کے ساتھ ساتھ خالد جیسے طمع پرست شخص سے بھی نجات پالی۔ عدالت سے خلع لینے کے بعد میں نے شادی نہیں کی کیونکہ اب میرے لیے شادی میں کوئی کشش باقی نہ رہی تھی۔ خود کو معذور لوگوں کی بحالی کے ایک ادارے کے لیے وقف کردیا جہاں ان بے کسوں کی مدد کرکے سچی خوشی ملتی تھی۔ ایسی خوشی کہ جس کی مجھے تلاش تھی۔ اب میں ایک مطمئن زندگی گزار رہی ہوں۔ سچ کہتی ہوں صدق دل سے انسانیت کی خدمت کرنے سے بڑھ کر اور کوئی راہ سکون نہیں ہے۔