Thursday, October 10, 2024

Intaqam Ki Aag

دل نواز ہمارے علاقے کا بہت بااثر اور جلال والا سردار مانا جاتا تھا۔ اس کو سب بابا خان کہتے تھے ، اس کی ایک ملازمہ خندہ جبیں تھی۔ یہ نام خود بابا خان نے اس کو عنایت کیا تھا کیونکہ وہ ہر وقت ہنستی رہتی تھی۔ خندہ کی ماں بھی خان کے گھر کی ملازمہ رہی تھی بلکہ ان کا تمام خاندان موروثی طور پر خان کے گھریلو ملازموں کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا۔ خان کا فرض تھا کہ جب خندہ اس کے گھر بچی ہے جوان ہو گئی تو وہ اس کی شادی اپنے کسی ملازم سے کر دیتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ نجانے اس طرف توجہ کیوں نہیں دی۔ خان کی صرف ایک ہی بیٹی تھی، جس کا نام ناز پرور تھا۔ خندہ ، ناز کی خدمت پر مامور تھی۔ وہ ناز کو بہت پسند تھی۔ دونوں ہم عمر تھیں۔ ان میں مالکہ اور نوکرانی سے زیادہ دوستی اور محبت کا رشتہ تھا۔ ناز کو کہیں آنے جانے کی اجازت نہیں تھی اور نہ ہی علاقے کی عام عور تیں اس سے مل سکتی تھیں کیونکہ خانوادے کے لحاظ سے وہ خان کے مرتبے کی برابری نہ کر سکتی تھیں۔ پس ایک خندہ ہی تھی جو ناز کی تنہائی بانٹ سکتی تھی۔ ناز پرور کی منگنی اپنے چچازاد سے ہو چکی تھی۔ وہ جب اپنے منگیتر کا ذکر کرتی تو خندہ کے دل میں بھی شادی کی خواہش چٹکیاں لینے لگتی۔ اس کا دل چاہتا کہ کاش اس کا بھی کوئی ساتھی ہوتا، جس کے ساتھ وہ اپنے خوابوں کی دنیا آباد کر سکتی۔ خان صاحب کے اسلحہ خانے کا رکھوالا جانباز ایک نہایت خوبر ونوجوان تھا۔ وہ کبھی کبھی کام کی غرض سے حویلی میں آتا تھا، تبھی اس کا آمنا سامنا خندہ سے ہو جاتا تھا۔ وہ جانباز کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔ وہ بھی خندہ جبیں میں کشش محسوس کرنے لگا۔ جب مالک شکار پر یا دیگر امور کے سلسلے میں علاقے سے باہر جاتا تو ایسے میں خندہ اور جانباز کا آپس میں بات چیت کرنا ممکن ہو جاتا تھا۔ دونوں جوان تھے ، ان کی شادی کی عمر تھی، ایک دوسرے کے لئے کشش ایک قدرتی بات تھی۔ خندہ جانباز سے باغ میں ملتی تھی۔ یہ باغ خان کی حویلی سے قریب تھے۔ اس بات کا علم مالی کے علاوہ ایک دو خدمت گاروں کو بھی ہو چکا تھا تا ہم کسی میں جرات نہ تھی کہ وہ دوسرے سے ذکر کرتا۔ مالک سخت مزاج تھا، اس کے غصے سے سبھی واقف تھے۔  اگر بے خبر تھے تو بس یہی دو جن کی آنکھوں پر محبت کی پٹی بندھ گئی تھی – خان صاحب کا مالی بہت دانا اور پرانا خدمت گار تھا۔ اس نے ان دونوں کو سمجھایا کہ وہ اس خطرناک کھیل سے باز رہیں۔ اگر خان کو علم ہو گا، تو ان کو تہہ خانے کے اندھیروں میں پھینک دیا جائے گا۔ مالی بابا کے سمجھانے پر ان دونوں نے باغ میں ملنا چھوڑ دیا مگر وہ خود کو ملنے سے نہ روک سکے اور اسلحہ خانے میں ملنے لگے۔ چونکہ جانباز خود اسلحہ خانے کا محافظ تھا، اس لئے یہاں ملنے میں دشواری نہ تھی کیونکہ کسی اور کو ادھر آنے کی اجازت نہ تھی۔ ایک دن اچانک خان اسلحہ خانے چلا گیا، جس کی اطلاع جانباز کو نہ ہو سکی۔ اسلحہ خانے کی ایک چابی جانباز اور دوسری خان صاحب کے پاس تھی۔ جب وہ وہاں پہنچا تو اس نے سرگوشیوں کی آہٹ سُن لی، مگر وہ دونوں مالک کے قدموں کی آہٹ نہ سُن سکے۔ خان نے اوٹ میں رک کر ان کو باتیں کرتے پایا تو اس نے سزا کے طور پر خندہ کے سر کے بال کاٹ دیئے اور اسے اپنے بھائی کے علاقے میں بھجوا دیا جبکہ جانباز کو اس لئے سخت سزا دی کہ وہ شادی شدہ تھا۔ لہذا اسے اسلحہ خانے میں ہی گولی مار کر اس کی نعش پہاڑوں میں واقع کسی کھائی میں پھنکوا دی گئی۔ جب خندہ کو جانباز کے حشر کا علم ہوا تو اس کو اپنے محبوب کے مرنے کا بہت دکھ ہوا اور وہ کئی دن تک اس کی یاد میں چھپ چھپ کر روتی رہی۔ اس کو اپنا سر منڈوائے جانے کا بھی بہت ملال تھا، کیونکہ یہاں کے رواج میں چوٹی اسی عورت کی کاٹی جاتی تھی، جس کا چال چلن درست نہ ہو تا تھا۔ اس ذلت آمیز سزا کی وجہ سے اس کے دل میں انتقام کی آگ بھڑک گئی تھی مگر وہ ایک بے حیثیت لاچار باندی تھی ، مالک کے خلاف کچھ نہ کر سکتی تھی۔

یونہی پانچ برس گزر گئے۔ ناز پرور کے منگیتر کی تعلیم و تربیت مکمل ہوئی تو اس کے والد محراب خان نے دل نواز خان سے بیٹی کی شادی کا تقاضہ کیا اور شادی کی تاریخ رکھنے کے لئے دولہا والے لڑکی والوں کے گھر آئے۔ اس موقع پر بڑے خان کی بیگم دیگر خادمائوں کے ساتھ خندہ کو بھی لائی کہ وہ ناز پرور سے بہت انس رکھتی تھی۔ دل نواز خان کے اصول بہت ہی سخت تھے۔ وہ ایک بار سزا دینے کے بعد اپنی کسی باندی کو دو بار گھر میں داخل نہ ہونے دیتا مگر خندہ کی سفارش اس کے بڑے بھائی نے کی کی تھی، تبھی اس نے خندہ کی معافی قبول کر لی اور اسے اپنی حویلی میں قدم رکھنے کی اجازت دے دی مگر اس باندی کے دل میں پانچ برس پہلے وال زخم ابھی ہرا تھا۔ اس گھائو سے درد کی ٹیسیں بھی اٹھتی تھیں۔ جانباز کی یاد اور اس کی درد ناک موت کا صدمہ ہر وقت اسے بے چین رکھتا تھا۔ خندہ کو دیکھ کر ناز خوش ہو گئی اور اس سے ہنس ہنس کر باتیں کرنے لگی۔ وہ اس کے سُسرال سے آئی تھی۔ ناز نے اپنے منگیتر کے بارے سوال کیا کہ وہ کیسا ہے ؟ خندہ نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور تنہائی میں ناز کے سامنے اس کے منگیتر کا ذکر کچھ اس انداز سے کیا کہ اس کے دل میں آتش شوق کو جگا دیا۔ ناز اور اس کا منگیتر شاد خان آپس میں غائبانہ محبت کرتے تھے۔ وہ بچپن میں ساتھ کھیلے تھے ، جب باشعور ہوئے تو ایک دوسرے سے دور رہنے پر مجبور ہو گئے۔ اس دوری نے ان کی محبت کو دو چند کر دیا تھا لیکن وہ آپس میں کبھی نہ ملتے اور نہ تنہائی میں بات کرتے تھے۔ ۔ اسی طرح دوریاں سہتے سہتے یہ دن بھی آگیا کہ جب وہ ایک ہونے والے تھے۔ رواج کے مطابق نہ تو شاد خان، شادی سے پہلے ناز پرور سے ملنے زنان خانے جا سکتا تھا اور نہ وہ اس سے ملنے جا سکتی تھی۔ ان کی محبت کو تازہ اور شاداب رکھنے کا کام خندہ نے ہی کیا۔ ان کے درمیان پیام رسانی کا وہی کام کیا کرتی تھی کیونکہ وہ دونوں کی راز داں بن چکی تھی۔ جب شاد خان اپنے چچا کے گھر آتا اور وہ اس کے سامنے کھانا رکھنے جاتی تو چپکے سے ناز کا پیغام بھی اسے پہنچادیا کرتی تھی اور وہ جو جواب دیتا، وہ ناز کو خندہ کی زبانی مل جاتا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب خندہ، ناز کی خدمت پر مامور تھی اور اس کے باپ کے گھر رہا کرتی تھی۔ ناز کی شادی میں اب صرف ایک ماہ باقی تھا۔ ایک دن خندہ پیغام لے کر آئی کہ تمہارا منگیتر تم سے اسلحہ خانے کے پچھواڑے باغ میں ملنا چاہتا تھا۔ اسے تم سے کوئی ضروری بات کرنا ہے۔ جب تمہارے بابا خریداری کے لئے شہر گئے ہوں گے میں تم کو شاد خان سے ملوا دوں گی۔ وہ آج شام اسلحہ خانے میں اپنی پسند کا اسلحہ منتخب کرنے آئیں گے۔ یہ ان کے ہاں رسم تھی کہ شادی سے کچھ دن پہلے داماد اپنے سسر کے اسلحہ خانے سے چند بندوقیں اور ہتھیار پسند کر کے لے جاتا تھا۔ گویا یہ لڑکی کے والد کی طرف سے بہترین تحفہ ہوتا تھا جو شادی سے کچھ دن قبل لڑکے کو پیش کیا جاتا تھا۔ اس علاقے میں جہاں بندوق ہی مرد کا زیور سمجھی جاتی ہو وہاں اپنے معزز مہمان کو اس سے بڑھ کر کیا تحفہ دیا جا سکتا تھا۔ شاد خان پہلی بار اپنے تایا کا بطور ہونے والے داماد کے مہمان ہوا تھا۔ اس کو اسلحہ منتخب کر کے یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ واقعی ایک بہادر انسان ہے اور اسلحہ کے انتخاب اور اس کی پہچان کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسلحہ خانے کی چابیاں خان صاحب نے اپنے داماد کو پیش کر دیں۔ ایک گھوڑا بھی عنایت کیا، جس پر بیٹھ کر خاص خدمت گار کے ساتھ اسلحہ خانہ جا کر اسے بہترین ہتھیار منتخب کرنے تھے ۔ اس انتخاب کے لئے دو دن اس کو دیئے گئے تھے ، تیسرے روز ضیافت ہونا تھی۔ شاد خان شام کو اسلحہ خانے گیا اور محافظ سے کہا کہ میں آج رات اسلحہ خانے میں ٹھہروں گا اور اچھی طرح ہتھیاروں کا جائزہ لوں گا تا کہ انتخاب کے وقت دقت نہ ہو۔ اگر غلط ہتھیار کا انتخاب ہوا تو خان صاحب مجھے اپنی بیٹی کے رشتے کے لائق نہ سمجھیں گے۔ محافظ ، شاد خان کو اسلحہ خانے میں چھوڑ کر واپس آگیا۔ رات کے پہلے پہر خندہ نے آکر شاد خان کو خوشخبری دی کہ اس نے ناز پرور کو راضی کر لیا ہے اور وہ اسے تھوڑی دیر میں اس جگہ لے آئے گی۔

خندہ چونکہ اسلحہ خانہ کے خفیہ اور مختصر ترین رستوں سے بھی واقف تھی۔ تقریباً سات منٹ میں وہ خفیہ رستے سے ناز کو حویلی سے اسلحہ خانے لے آئی اور بولی۔ تم بے فکر ہو کر اپنے محبوب ے باتیں کر لو ، میں آدھ گھنٹے میں آکر تم کو لے جائوں گی۔ حویلی واپس آکر اس نے فورا دوسری باندیوں اور خدمت گار عورتوں کو ڈھونڈا اور شور مچانے لگی۔ کملیوں ! ناز پرور کو دیکھو، وہ کدھر ہے ؟ اسے جلدی تلاش کرو۔ خان کو خبر ہو گئی تو ہم سب ماری جائیں گی۔ اس نے یہ کام اتنی چالا کی سے کیا کہ بات چھپنے کی بجائے ظاہر ہوگئی یعنی آواز خان کی خواب گاہ تک پہنچ گئی اور اس کو خبر ہو گئی کہ ناز اپنے کمرے میں بلکہ گھر میں بھی موجود نہیں ہے۔ اس نے اسی وقت سب کو بلا کر پوچھا کہ بتائو ناز کہاں ہے ؟ سب خاموش رہیں لیکن خندہ  چپ نہ رہ سکی۔ اس نے کہا۔ بی بی صاحب کو میں نے اسلحہ خان کی طرف جاتے دیکھا تھا۔ تمام باندیاں اس کا منہ تکنے لگیں کہ یہ بدبخت کیا کہہ رہی ہے۔ خان نے سوال کیا کہ تم نے اس کو کیسے دیکھا؟ وہ بولی۔ میں نے بی بی صاحب کو کوٹھے کی چھت پر سے دیکھا تھا، جب میں مہمانوں کے لئے کھیس لینے اوپر گئی تھی۔ خندہ جبیں اکثر مہمانوں کے بستر لینے اور رکھنے اوپر کی منزل کو جایا کرتی تھی تبھی خان نے اس کا یقین کر لیا۔ اس نے اسی وقت اپنی بندوق کندھے پر ڈالی اور اسلحہ خانے کی طرف نکل گیا۔ محافظ وہاں موجود نہ تھا مگر اسلحہ خانہ کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ جب وہ اندر گیا تو وہی منظر تھا یعنی اس کا ہونے والا داماد ، اس کی بیٹی کے پاس بیٹھا تھا اور دونوں باتیں کر رہے تھے۔ یہ منظر اس کی برداشت سے باہر تھا، اس نے ان پر بندوق تان لی۔ وہ دونوں اپنے سامنے خان کو دیکھ کر ششدر رہ گئے اور اپنے گھٹنوں پر جھک گئے۔ انہوں نے اپنی جان بچانے کے لئے بھاگنے کی بھی کوشش نہیں کی کیونکہ وہ بھاگ کر کہیں جا بھی نہیں سکتے تھے۔ خان کی بندوق سے یکے بعد دیگرے گولیاں نکلیں اور دونوں لہو سے رنگین ہو کر گر گئے۔ ان کو گھسیٹ کر خان نے وہیں لڑھکا دیا اور تہہ خانے کو بند کر کے تالا لگا کر وہاں سے چلا آیا۔ اس کے بعد کبھی کسی نے دوبارہ شاد خان اور ناز پرور کو نہیں دیکھا۔ شاید تہ خانے میں موت کے بازوئوں میں ان دونوں نے سہاگ رات منائی ہو یا پھر سسک سسک کر جان دے دی ہو۔ اس طرح ایک معمولی باندی نے اپنی بے عزتی کا بدلہ اور اپنے محبوب کی موت کا انتقام لے کر کلیجہ ٹھنڈا کیا لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ اس کے بعد خود خندہ کا کیا بنا؟

Latest Posts

Related POSTS