میرا تعلق ایسے گھرانے سے تھا جو خوشی کی تقریبات پر خوشیاں بانٹتے مگر خود خوشیوں کو ترستے تھے۔ ہماری زندگی ساز و سوز سے عبارت تھی۔ گرچہ آج بھی میں اُسی دنیا کا حصہ ہوں مگر خود کو یہاں کی باسی کہلوانا پسند نہیں کرتی۔ میری والدہ خوبصورت تھیں اور آواز اچھی تھی، ان کو ایک قابل استاد کی نگرانی میں موسیقی سیکھنے کا موقع ملا۔ میری ماں کو کلاسیکی موسیقی سے لگائو تھا۔ کچھ عرصے ریاض اور استاد کی محنت کی وجہ سے وہ ایک اچھی گائیکہ بن گئیں۔ اس دور میں ریڈیو اور ٹی وی وغیرہ نہیں تھے کہ جہاں والدہ کو اپنی آواز کا جادو جگانے کاموقع ملتا۔ لہٰذا ان کا فن نجی محفلوں کی نذر ہوکر رہ گیا، تاہم ان کی شہرت اعلیٰ گھرانے کے باذوق رئیس زادوں تک پہنچی جو ان کا گانا سننے آنے لگے۔ امراء اپنے یہاں شادی بیاہ کی تقریبات کے موقع پر ماں کو بلواتے اور فن کی قدر دانی کے طور پر بھاری رقوم ادا کرتے۔ وہ صرف شادی بیاہ کی محفلوں میں گایا کرتی تھیں۔ گھر پہ کسی قسم کا گانا بجانا نہیں ہوتا تھا۔
ایک رئیس کے بیٹے کی شادی پر وہ بلائی گئیں، وہاں ایک نواب زادے نے جب ان کا گانا سنا توفریفتہ ہوگئے۔ وہ کسی طور ہماری نانی کے گھر کا پتا معلوم کرکے ان کے گھر پہنچ گئے اور تنہائی میں ثمر بیگم کا گانا سننے کی فرمائش کی۔ والدہ کا اصل نام ثمر خانم تھا۔ بعد میں اپنا نام بدل کر انہوں نے گل بہشت رکھ لیا تھا۔ نانی نے نواب زادے سے کہا۔ اگر اس قدر میری بیٹی کا گانا پسند ہے تو اس سے شادی کر کے اپنے گھر کی زینت بنالو۔ پھر جی بھر کر گانے سنتے رہنا۔ لیکن… تنہائی میں ہم گانا نہیں سنواتے۔ آپ کے گھر شادی، بیاہ یا خوشی کی کوئی تقریب ہو تو بلوا لینا، بہ سر و چشم حاضر ہوجائیں گے۔
نانی نے ان صاحب سے شادی کی بات یونہی کہہ دی تھی۔ انہیں یقین تھا کہ یہ اعلیٰ طبقے کے لوگ ہیں۔ کبھی ایک گانے والی کی بیٹی سے شادی نہیں کریں گے۔ انہیں کیا خبر تھی کہ منہ سے نکلی بات ان کے گلے پڑ جائے گی۔ نواب زادہ ہاتھ دھو کر نانی کے پیچھے پڑ گیا کہ مجھے آپ کی بیٹی کا ہاتھ چاہیے۔ نانی کے گلے کا نور تو بیٹی کے گلے میں منتقل ہوگیا تھا، انہوں نے بڑی محنت کرکے گل کو گائیکی کے فن میں طاق کیا تھا۔ نانی نے یہ محنت یونہی نہیں کی تھی، انہیں اپنے کنبے کی پرورش کرنی تھی۔ نانا ضعیفی کی جانب محوِ سفر تھے۔ وہ ڈھول بجانے کے سوا کوئی اور کام جانتے نہ تھے۔ ان حالات میں گل ہی اس خاندان کی کفالت کا واحد ذریعہ بن سکتی تھیں۔ وہ سونے کی چڑیا تھی۔ نانی نے نواب زادے سے حیلے بہانے کیے کہ آپ کے والدین میری بیٹی کو بہو بنانا قبول نہیں کریں گے۔ ہم آپ کے ہم پلّہ نہیں، آپ کسی ہم پلّہ خاندان میں رشتہ کیجیے، یہی آپ کو زیب دیتا ہے۔
نانی کی اس آنا کانی کو اس عاشقِ صادق نے نہیں گردانا۔ بضد ہوئے کہ گل بہشت کو اپنے گھر کا نور بناکر رہوں گا۔ چاہے دنیا اِدھر کی اُدھر ہوجائے۔ آپ کے در سے خالی ہاتھ نہیں جائوں گا۔ ایسے عاشقِ صادق تو ہزاروں کیا لاکھوں میں ایک ہوتے ہیں۔ ثمر خانم یعنی گل نے جب ان کی بِنتی سنی وہ بھی بہ ضد ہوگئیں کہ اس شخص سے شادی کرنی ہے۔ سکون کی زندگی گزارنے کی ہر لڑکی کو آرزو ہوتی ہے۔ جہاں محبت کے ساتھ عزت اور دولت بھی ہو کون بے وقوف لڑکی ہوگی جو ایسا رشتہ ٹھکرائے گی۔
بلاشبہ نواب زادے اعلیٰ خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ بارسوخ تو تھے ہی۔ ضد کے بھی پکے تھے۔ جو شے چاہتے حاصل کرلیتے تھے۔ جب بیٹی بھی ضد پر اتر آئی تو ماں بے بس ہوگئی۔ سوچا ثمر بیگم کے بعد دوسری بیٹی قمر بیگم سنِ شعور میں قدم رکھ چکی ہے، اسی کو وراثت میں فن گائیکی منتقل کردوں گی۔ نواب زادہ معمولی آدمی نہیں ہیں، ان کی بات ماننا پڑے گی۔ انہوں نے کچھ شرائط منواکر ثمر بیگم کو ان کے نکاح میں دے کر رخصت کردیا۔ جب وہ بیاہ کر سسرال پہنچی خوشی سے گھر کو سجایا گیا اور نہ شادیانے بجائے گئے بلکہ گھر میں داخل ہوتے ہی ساس نے تیوری چڑھا کر استقبال کیا۔ اس سادہ دل کو اس وجہ سے وہاں عزت نہ ملی کہ وہ ایک ڈھول بجانے والے کی بیٹی تھی۔ خدا جانے کیوں میرا پوت اس ڈھول بجانے والے کی بیٹی کو گھرلے آیا ہے۔ ساس نے پابندی لگا دی کہ بہو اب اپنے گھر والوں سے رابطہ رکھے گی اور نہ وہ لوگ ہمارے گھر آئیں گے۔ وہ ہمارے رشتے دار کہلانے کے لائق نہیں ہیں۔
یہ بڑی کڑی پابندی تھی۔ بھلا کون بیٹی اپنے ماں باپ سے جیتے جی دوری برداشت کرسکتی تھی جبکہ سسرالی خواتین ان کے ساتھ بات کرنا پسند نہ کرتیں، میری ماں بھرے کنبے میں تنہائی کا شکار ہوگئیں۔ اسی دوران اچانک نانی شدید بیمار پڑیں۔ انہوں نے بیٹی کو سندیسہ بھجوایا۔آکر منہ دیکھ جائو…جانے کتنے دن زندگی کے رہ گئے ہیں۔ اس پر وہ جذباتی ہوگئیں۔ خود پر قابو نہ رکھ سکیں، نواب زادہ گھر پر نہ تھے، یہ بغیر اجازت ماں کو دیکھنے ان کے گھر چلی گئیں۔
جب شوہر کو اس بات کا علم ہوا تو اپنی ماں کے بھڑکانے پر انہوں نے بیوی کو طلاق دے دی۔ انہیں نہیں معلوم تھا کہ وہ ماں بننے والی ہے۔ ماں نے آڑے ہاتھوں لیا کہ اسی دن کو منع کرتی تھی اس نواب کے بچے سے ناتا نہ جوڑو۔ ہماری ان سے نہیں نبھے گی اب چکھ لیا اپنے عاشقِ صادق کی وفاداری کا مزہ… جب گل بہشت کو علم ہوا کہ امید سے ہے تو یہ خبر کسی طرح نواب زادہ کو بھجوائی وہ مضطرب ہوگئے، ہاتھ ملنے لگے کہ طلاق دینے میں کیوں جلدی کی۔ اب ہونے والی اولاد کا کیا بنے گا۔ وہ نانی کے گھر آئے مگر پذیرائی نہ ملی، کیونکر ملتی جبکہ انہوں نے پورے تین برس تک ماں کو نانی سے نہیں ملنے دیا تھا۔ نتیجے میں نانی نے انہیں ثمر بیگم سے ملنے نہ دیا۔ دھمکی دی اگر تنگ کیا تو یہ شہر چھوڑ کر کہیں اور جابسیں گے تب آپ اپنی اولاد کی صورت تک نہ دیکھ پائیں گے۔
وقت پورا ہوا اور میں نے اپنی ماں ثمر بیگم کی کوکھ سے جنم لیا۔ میرا نام ماں نے نور کلی رکھا۔ اطلاع نواب زادہ صاحب کو بھیج دی گئی وہ اور زیادہ مضطرب ہوئے، حالت غیر ہوگئی کہ اولاد نے بیٹی کی صورت میں ایک گلوکار گھرانے میں جنم لیا تھا۔ وہ مجھے حاصل کرنے کے درپے ہوگئے۔ انہوں نے کئی بار مجھے لے جانے کی کوشش کی مگر میں اتنی چھوٹی تھی کہ مجھ کو ماں کی گود سے جدا کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ رنج تھا کہ وہ اگر میری ماں کو طلاق نہ دیتے تو آج میں ان کے شریف گھرانے کی آبرو ان کے پاس ہوتی۔ وہ میری پیدائش کے بعد چند بار آئے تو نانی نے مکان فروخت کرکے شہر بدل لیا۔
نانی نے دراصل مجھے میرے حقیقی باپ سے دور کیا تھا جبکہ میری ماں کو احساس تھا میری رگوں میں نواب گھرانے کا خون ہے۔ وہ مجھے میرے والد کے حوالے کرنے کا مستقبل میں ارادہ رکھتی تھیں۔ پڑھا لکھا کر اچھی زندگی دینا چاہتی تھیں۔ جب میں نے میٹرک کرلیا، ماں نے مجھے نانی کی مخالفت کے باوجود کالج میں داخل کروا دیا۔ میری خالہ اب ایک مشہور گلوکارہ بن چکی تھیں، ہمارے پاس کسی شے کی کمی نہ تھی۔ پھر بھی باپ کی کمی محسوس ہوتی تھی۔ انہی محرومیوں نے مجھے بہروز کے قریب کردیا۔
بہروز سے میری واقفیت ان دنوں ہوئی جب ان کے گھر شادی کے تقریب میں خالہ کو گانے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ کم سنی کا حجاب تھا، میں پہلی دفعہ لوگوں کے سامنے جانے سے گھبرا رہی تھی۔ اس وقت میری جو کیفیت تھی بیان نہیں کرسکتی جب خالہ نے محفل میں گانے کے لیے مجھ سے اصرار کیا۔ گائیکی کی تھوڑی بہت تعلیم بچپن سے ملی تھی۔ لے کا جادو ایک تحفے کے طور پر میرے گلے میں موجود تھا۔ نانی چاہتی تھیں میں ریاض کو زیادہ وقت دوں مگر والدہ آڑے آجاتی تھیں۔ امی جان کا کہنا تھا پہلے تعلیم مکمل کرلو۔ یہ زیادہ اہم ہے۔ تعلیم یافتہ ہوکر فنکارہ بنوگی تو زمانے میں کچھ اور قدر ہوگی۔
بے شک ریاض کو کم وقت دیتی تھی لیکن گانا پھر بھی اتنا اچھا گاتی تھی کہ لوگ سن کر کسی اور دنیا میں کھو جاتے تھے۔ جب بہروز نے پہلی بار میرا گانا سنا تو کہا کہ اس کے گلے میں سحر ہے۔ دوسرے دن وہ ہمارے گھر آگیا۔ امی سے کہا۔ میں نور کلی کا گانا سننے آیا ہوں۔ اس نے بھاری رقم کی پیش کش کی تو نانی لالچ میں آگئیں، ان دنوں نیا مکان بنوانے کے لیے رقم کی ضرورت تھی۔ ماں کو راضی کیا اور بہروز کوگھر آنے کی اجازت دے دی۔
جب میں اس کے سامنے غزل گانے بیٹھی تو میری عجب کیفیت تھی، دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ میں اس سے نظریں نہ ملا پارہی تھی۔ وہ تھا کہ یک ٹک مجھے ہی تکے جاتا تھا۔ اس کا تعلق ایک ٹی وی کے موسیقی کے پروگرام سے تھا، تبھی ماں نے اجازت بھی دے دی تھی اس امید پر کہ کبھی وہ مجھے ٹی وی پر غزل گانے کے لیے مدعو کرے گا تو میں مشہور ہوجائوں گی۔ عزت اور شہرت ملے گی، شاید کہ یہ ان کا ارمان تھا جو پورا نہ ہوسکا تھا۔
بہروز ایک وجیہ شخص تھا۔ گورا چٹا اور بھوری آنکھیں… سفید لباس میں اس کی شخصیت مسحور کرتی تھی۔ مجھے وہ بہت اچھا لگا تھا۔ وہ غزل کا رسیا تھا، اس روز جب میں نے غزل چھیڑی تو وقت گزرنے کا پتا نہ چلا۔ شام سے صبح ہوگئی، وہ تو غزلیں سن کر چلا گیا مگر میرا دل بھی ساتھ لے گیا۔ اس کے جانے کے بعد مجھ پر اداسی طاری ہوگئی اور اپنی اس حالت کو میں خود بھی سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ تھوڑی دیر کے لیے آنے والا اجنبی میرے دل پر کتنے گہرے نقوش چھوڑ گیا تھا میں پھر سے اس کے آنے کا انتظار کرنے لگی۔ خدا خدا کر کے وہ دن آیا کہ اس نے دوبارہ آنے کا کہا۔ میں نے خصوصی ریاض کیا اور دلکش لباس پہنا… لیکن وہ نہ آیا، میرا دل بیٹھ گیا، آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ تبھی خالہ نے میری کیفیت بھانپ کر اسے فون کیا تو وہ آگیا۔ اس کے گھر میں قدم رکھتے ہی چراغ سے جل اٹھے۔ میں نے غزل چھیڑی اور اس نے نانی کے بٹوے کو نوٹوں سے بھر دیا۔ وہ سامنے بیٹھا تھا اور بہترین لباس میں ملبوس تھا، میں ادب سے اس کے سامنے بیٹھی گا رہی تھی جب غزل ختم ہوئی تو اس نے کہا۔ میں نور کلی کی گائیکی کا دیوانہ ہوگیا ہوں، اس کی پرستش کرتا ہوں، اس نے سونے کے زیور کا سیٹ خالہ کو دیا اور کہا۔ مجھ پر اس کی گائیکی کے دروازے بند مت ہونے دینا کیونکہ اچھی موسیقی کو سننا میری زندگی ہے۔
کچھ دنوں بعد جب میں کالج سے لوٹ رہی تھی، اس نے کالج کے گیٹ سے نکلتے دیکھ لیا۔ میرے قریب آیا، پوچھا۔ کیا یہاں پڑھتی ہو۔ ہاں۔ میں نے بتایا، وہ حیران ہوا، بولا۔ میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھو تمہیں گھر چھوڑ دوں گا۔ اس کی پیش کش کو رد نہ کرسکی۔ اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھنا اچھا لگا۔ وہ اب روز کالج کے گیٹ پر ملتا۔ میں اس کے ساتھ تھوڑی دیر گاڑی میں گھوم کر گھر آجاتی۔ تاخیر سے آنے پر ماں پوچھتی کہ کیوں دیر کردی تو بہانہ کردیتی کہ آج کل ایک اضافی پیریڈ ہونے لگا ہے۔
ہم یونہی ملتے رہے۔ امتحان قریب آگئے۔ میں نے کبھی کالج کی کسی لڑکی کو نہ بتایا تھا کہ کس گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں مبادا وہ مجھے پریشان کریں۔ بس اپنی تعلیم سے غرض رکھتی تھی تبھی رزلٹ اچھا آیا۔ ایک دن اس نے بتایا کہ وہ ایک نئی کوٹھی خرید کر میرے نام کرنا چاہتا ہے۔ وہ مجھے اپنی شریک حیات بنانا چاہتا تھا مگر شرط یہ تھی کہ کبھی محفل میں نہ گائوں گی صرف اسی کے لیے گائوں گی۔ میں کہتی- میری محنت اور ریاض کس کام کے جب میں محفل میں کبھی نہ گائوں گی۔ سمجھاتا تھا کہ جس طبقے میں تمہیں عزت سے لے جانا چاہتا ہوں اس طبقے کی لڑکیوں کو گانے کا پیشہ زیب نہیں دیتا البتہ شوقیہ گانے پر پابندی نہیں ہے، تم روز جتنی غزلیں مرضی سنانا، میں سنوں گا، میرے علاوہ اور کوئی نہیں سنے گا۔ نہیں جانتی تھی وہ ایسا تنگ ذہن ہے کہ فن کے تقاضے بھی نہیں سمجھتا اور سروں کو قید میں رکھنا چاہتا ہے، لیکن مجھے اس سے محبت ہوگئی تھی۔ سوچتی تھی ماں اور خالہ کی زندگی کونسی اچھی ہے جو میں بھی ویسی ہی زندگی اختیار کروں۔
ایک روز خالہ ایک لڑکی کو لائیں کہا۔ میری دوست اور ہم پیشہ ہے اس کی ماں کو شوہر نے چھوڑ دیا تھا۔ اب وہ بھی وفات پاگئی تھی۔ آرزو اس دنیا میں اکیلی رہ گئی ہے۔ یہ گانے کے علاوہ رقص پر بھی عبور رکھتی ہے۔ اس کو رہنے کے لیے ایک ایسا کنبہ چاہیے تھا جو اس کے پیشے پر قدغن نہ لگائے۔ ماں اور نانی کو خالہ نے اصرار کر کے مجبور کیا کہ کچھ دن آرزو ہمارے ساتھ رہے گی اس وقت خالہ ہی کنبے کی کفیل تھیں لہٰذا ان دونوں کو بات ماننی پڑی۔
ایک دن بہروز آئے تو آرزو ریاض کررہی تھی۔ وہ اس کے فن میں کھو گئے۔ مجھے بہروز کی اس محویت سے خوف سا آنے لگا۔ کبھی میں بہروز کو دیکھتی اور کبھی آرزو کو جو مجھ سے زیادہ خوبصورت تھی۔ کئی دنوں تک بہروز نہ آیا۔ میں کچھ پریشان تھی، تبھی وہ بھانپ گئی، مجھے بتایا کہ بہروز کچھ دنوں کے لیے بیرون ملک گیا ہوا ہے اور مجھے بتا کرگیا ہے۔ میں حیران رہ گئی کہ وہ مجھے تو بتا کر نہیں گیا اسے کیوں کر بتا کرگیا ہے۔ وہ مجھ سے محبت کرنے لگا ہے۔ چہرے کے تاثرات سے میری دلی کیفیت پڑھ کر آرزو نے انکشاف کیا تو میں لرز گئی جیسے میرے اندر زلزلہ آگیا ہو۔ میری روح کسی طوفان میں گھر گئی ہو جیسے کڑکتی بجلیوں کی آواز میں نے سنی ہو۔ اپنے کمرے میں جاکر خود کو بند کرلیا۔
کچھ دنوں بعد اس نے فون کیا تو میں نے بات نہ کی، تب اس نے خالہ کو فون کیا اور کہا کہ نور کلی مجھ سے بات نہیں کررہی کس بات پر خفا ہے، پوچھ کر بتائو۔ خالہ نے پوچھا۔ تم کس وجہ سے بہروز سے ناراض ہو۔ میں خاموش رہی۔
اگلے دن اس نے دوبارہ فون کیا تو خالہ نے فون مجھے دے دیا۔ شک کا سانپ مجھے ڈس گیا تھا، اس نے بات کی تو میں نے کہہ دیا کہ آرزو سے پیارکرتے ہو تو بات بھی اسی سے کرو، مجھے کیوں فون کیا ہے۔ وہ حیران ہوا۔ کہا۔ یہ تم سے کس نے کہہ دیا۔ آرزو نے بتایا ہے اور کس نے۔ وہ بولا۔ اگر میں اس کے سامنے یہ بات کروں تو کیا پھر تمہیں یقین آجائے گا۔ وہ گھر آیا… خالہ نے کمرے میں لا بٹھا دیا۔ آرزو گھر پر تھی اسے بلا کر پوچھا۔ وہ بولی۔ بار بار مجھے کہتے تھے غزل سنا دو، رقص بھی دیکھنا چاہتے تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ مجھے چاہتے ہیں۔ یہ باتیں کہنے سے زیادہ محسوس کرنے کی ہوتی ہیں نا… اسی وجہ سے کہہ دیا تھا۔
میں اچھی غزل گانے والوں کی قدرکرتا ہوں اور ان کو محویت سے گاتے سنتا ہوں جس سے روح کو سکون ملتا ہے، پاگل لڑکی اور تم غلط سمجھ بیٹھیں۔ بہروز کے ایسا کہنے پر آرزو رنجیدہ ہوگئی اور کمرے سے چلی گئی۔ میں نے بہروز کو معاف کردیا کیونکہ وہ نہ ملتا تو بھی پریشان رہتی تھی اور ہمارے درمیان ملاقات کا ذریعہ خالہ ہی تھیں۔
ایک روز کسی نے مہندی کی تقریب میں مدعو کیا، خالہ اور نانی کے ہمراہ میں بھی چلی گئی۔ گھر پر بور ہورہی تھی۔ وہاں اچانک دولہا کو دیکھا۔ یہ بہروز تھا۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ حواس کھوتے کھوتے بچی۔ وہ بہت خوش نظر آرہا تھا۔ میری تو روح فنا ہوگئی، کئی بار سامنے آیا مگر اس نے میری جانب توجہ نہ دی۔
گھر آکر یہ کرب ناک رات میں نے کیسے کاٹی دل جانتا ہے یا میں جانتی ہوں اور کوئی میرے درد کی انتہا کو نہیں سمجھ سکتا۔ آج میں ایک ایسے بادشاہ کی طرح تھی جس کی سلطنت پر اچانک کسی نے قبضہ کرلیا ہو۔ مجھ پر غم کی وجہ سے سکتے کی سی کیفیت طاری تھی۔ اگلے دن اس کا فون آگیا اتفاق سے خالہ کی بجائے میں نے اٹھایا۔ اس نے کہا۔ ناراض ہو۔ اچھا ابھی آتا ہوں۔ میں نے فون رکھ دیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ آگیا۔ میں نے پوچھا۔ کیوں آئے ہو۔
پلیز میری بات سنو۔ وہ بولا۔ اس شادی میں میری رضامندی شامل نہیں ہے۔ میں نے کہا۔ آپ تو مہندی والی رات بہت خوش نظر آرہے تھے جبکہ ہنسنا انسان کے اپنے اختیار میں ہوتا ہے۔ کہا۔ ہنسی میں دکھ چھپانے کی کوشش کررہا تھا۔ دراصل یہ ایک کاروباری شادی ہے۔ جس شخص کی بیٹی سے والد صاحب شادی کرا رہے ہیں وہ ان کے بزنس پارٹنر بھی ہیں۔ مجھے شطرنج کا مہرہ بننا پڑا ہے یہی بتانے آیا ہوں۔ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ میری ماں کو بھی میرے باپ نے یہی کہا تھا۔ آپ لوگ وقتی محبت کرتے ہو، ہمیشہ ایسا ہی کہتے ہو۔
میرا یقین نہیں ہے تو بس ایک ہفتہ انتظار کرو۔ یہ شادی ہوجائے پھر میں تم سے شادی کرلوں گا۔ اب دیر ہوچکی ہے۔ میں نے جواب دیا مگر وہ نہیں مانا، تبھی میں نے کہا۔ تمہارے پاس کتنا سرمایہ ہے؟ تمہیں کتنا چاہیے؟ اتنا کہ اگر ہم یہ جگہ چھوڑ کر کسی اور جگہ جابسیں تو عمر بھر گزارہ کرسکیں۔ اس نے بے یقینی سے میری جانب دیکھا جیسے کوئی انہونی بات سن لی ہو۔ پھر کچھ سوچ کر بولا۔ کیا گھر والوں کے بغیر عمر بھر میرے ساتھ نباہ سکو گی۔ اگر تم میرے ساتھ ثابت قدم رہو تو مجھے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ٹھیک ہے۔ مجھے منظور ہے تم تیار رہنا۔ ولیمے کے بعد میں آئوں گا اور تمہیں لے جائوں گا۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ اس کی شادی اور ولیمے میں خالہ گئیں، میں مگر تڑپتی رہی، یہ تصور ہی سوہانِ روح تھا کہ وہ کسی اور کا ہوگیا ہے۔ خالہ اس کے توسط سے کبھی کبھی ٹی وی کے موسیقی پروگرام میں اپنے فن کا جادو جگانے لگیں مگر میں نے ہر بات سے کنارہ کرلیا یہاں تک کہ ایک روز خالہ نے اس کا سندیسہ دیا کہ وہ مجھ سے ملنا چاہتا ہے۔ والدہ تو پہلے ہی سانپ کی ڈسی تھیں۔ اب رسی سے بھی ڈرتی تھیں، میں نے ان کو ہوا بھی نہ لگنے دی کہ بہروز سے ملنے جارہی ہوں، شاپنگ کا بہانہ کیا جہاں بازار میں ایک بڑے اسٹور پر وہ میرا انتظارکر رہا تھا یوں میں وہاں پہنچ کر بہروز سے ملی اور اس کے ساتھ ایک انجانی منزل کی طرف چل دی۔ ایک شریفانہ اور محبت بھری زندگی کا خواب ساتھ لے کر اور اس خوف کے ساتھ کہ کہیں اس کے اور میرے گھر والوں کو خبر نہ ہوجائے۔
وہ مجھے ایک سجی سجائی کوٹھی میں لے آیا اور ملکیت کے کاغذات میرے حوالے کرکے کہا۔ اب یہ تمہارا گھرہے، ہم نکا ح کرکے ہمیشہ کے لیے ایک ہوجاتے ہیں۔ مگر تم اب پیچھے مڑ کر مت دیکھنا۔ اپنے ماضی کو دفن سمجھو۔ بہروز نے اگلے روز مجھ سے نکاح کرلیا جس میں اس کے انتہائی قابل اعتماد دوست شریک ہوئے۔ اس دن مجھے اپنی ماں بہت یاد آئیں۔ ہر بیٹی کے دل کی یہی آرزو ہوتی ہے کہ اس کی ماں اپنے ہاتھوں سے رخصت کرے اور ممتا کے صدق میں ڈوبی ہوئی دعائیں دے۔ وہ دعائیں جو تمام عمر کا سرمایہ ہوتی ہیں۔ میری بدنصیبی کہ میرے نکاح کے لمحات میں ماں کو علم ہی نہ تھا کہ میں کسی کے ساتھ عمر بھر کا پیمانِ وفا باندھ رہی ہوں… اس محرومی کے احساس کے باوجود میں خوش تھی کہ میں اب سہاگن تھی اس شخص کی جسے دل سے چاہا تھا، اس نے مجھے دھوکا نہ دیا تھا۔ دوسری بیوی بننے کا بھی مجھے دکھ نہ تھا۔ بہروز مجھے حاصل تو ہوگیا تھا۔ یہ ایسی خوشی تھی جو کم ہی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ مجھے شادی کی انگوٹھی پہنا کر اس نے کہا تھا اب تو خوش ہو، میں نے تمہیں اپنی شریک حیات بنالیا ہے۔ ہاں مگر ماں کو دھوکا دیا ہے اس بات کی بڑی کسک ہے۔ میں نے بھی تو کسی کو دھوکا دیا ہے۔ وہ بولا۔ ایسا نہ کرتے تو ہم کبھی ایک نہیں ہوسکتے تھے۔ وہ دن میری یادوں کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ ہم ہنسی خوشی رہتے تھے۔ وہ ہفتے میں دو دن میرے پاس آتا تھا۔ ایک ملازمہ دن رات میرے پاس رہتی تھی۔
ایک روز بہروز نے کہا کہ ملک سے باہر جارہا ہوں۔ جلد آنے کی کوشش کروں گا گھبرانا نہیں، اگر کچھ عرصہ لگ جائے تم اکیلی نہیں ہو ملازمہ تمہارے پاس ہے۔ وہ کچھ رقم بینک میں میرے نام جمع کرانے کے بعد چلا گیا۔ اور میں ملازمہ کے ساتھ رہ کر اس کا انتظار کرنے لگی۔ وہ چلا گیا اور مجھے تنہا کر گیا۔ پھر نہ لوٹا۔ میں روزانہ اس کی تصویریں دیکھتی تھی اور اسے یاد کرتی تھی مگر یہ تصویریں اور میرے جی کو بے چین کرتی تھیں۔ اس کی یاد زیادہ شدت سے آنے لگتی اور اسی یاد کے سہارے انتظار کرتے میں نے تین سال گزار دیے۔ ایک دن ملازمہ نے کہا۔ میں ان کے گھر جاکر پتا کرتی ہوں کیا حقیقت ہے۔ وہ چلی گئی اور واپس آکر بولی۔ آپ یہ کوٹھی کرائے پر دے دیں، خود کسی چھوٹے سے مکان میں کرائے پر شفٹ ہوجائیے کیونکہ بہروز امریکہ شفٹ ہوگئے ہیں، بیوی کو بھی ہمراہ لے گئے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ان کی زندگی میں اب آپ کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ملازمہ کے لبوں سے یہ کڑوے الفاظ سن کر میں رو دی تھی مگر اس نے سچ کہا تھا وہ دن اور آج کا دن بہروز نے پھر میری خبر نہ لی۔ اس کی یاد کے سہارے زندگی کے دن گزرتے جاتے ہیں۔ اللہ جانے کب یہ انتظار ختم ہوگا۔ بس اسی خیال میں جیتی ہوں کہ کبھی تو وہ لوٹ کر آئے گا۔ (م… ملتان)