عروسہ میری دوست تھی۔ ہمارے مزاج ایک سے تھے، اسی لیے ہماری دوستی مثالی تھی۔ ایسی دوستی کم ہی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ وہ ایک امیر گھرانے کی بیٹی تھی۔ کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ وکالت پڑھنے لندن چلی گئی۔ یوں میری اور اس کی راہیں جدا ہو گئیں۔ میں نے میڈیکل میں جانے کا فیصلہ کیا۔ داخلہ تو مل گیا لیکن والد اس پر راضی نہ تھے کیونکہ کالج کے اخراجات کا مسئلہ تھا۔ بہرحال، بڑی مشکل سے والدہ کے سمجھانے پر انہوں نے اجازت دے دی۔ اب میرے سامنے سوائے پڑھائی اور محنت کے اور کوئی راستہ نہ تھا۔
شروع میں عروسہ کے خطوط آتے تھے، لیکن پھر یہ سلسلہ ختم ہو گیا، اور میرا اس سے کوئی واسطہ نہ رہا۔ کالج میں میری کوئی عروسہ جیسی دوست نہ بنی۔ اکیلی تھی، اسی لیے وہ زیادہ یاد آتی تھی۔ سچ ہے، بچپن کی دوستی اور بعد کی دوستی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ ان ہی دنوں میری واقفیت ذیشان سے ہو گئی۔ وہ ایک خوش حال گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ منفرد قسم کا لڑکا تھا۔ مجھے اس کی باتیں اچھی لگتیں، اسی لیے میں اس کے گروپ میں شامل ہو گئی۔ وہ میرا بہت خیال رکھتا تھا۔ میرے دل سے تنہائی کا احساس ختم ہونے لگا۔ ذیشان کے ساتھ دوستی میں خود کو بھلا بیٹھی تھی۔ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ زندگی کے کسی موڑ پر کوئی اتنا اچھا انسان ملے گا کہ اس کے ساتھ زندگی اجلی اجلی اور راستہ روشن نظر آئے گا۔
ذیشان نے وعدہ کیا تھا کہ میں تمہیں زندگی کے کسی موڑ پر تنہا نہ چھوڑوں گا۔ لیکن، ہم جتنے بھی دن ساتھ رہے، اس کے بعد ہماری راہیں جدا ہو گئیں۔ ایک دن ہماری گروپ کی ایک لڑکی تارا نے مجھے بتایا کہ وہ لندن جا رہا ہے اور تم سے ملنا چاہتا ہے۔ تم پرسوں میرے گھر آ جانا کیونکہ ہم سب ذیشان کی پارٹی کر رہے ہیں۔ میں تارا کے گھر گئی اور آخری بار اس سے ملی۔ ہماری آنکھیں جدائی کے خیال سے نم تھیں۔ اس نے کہا، میں ضرور لوٹوں گا، تم میرا انتظار کرنا۔ میں حوصلہ ہار بیٹھی تھی، لیکن اس نے حوصلہ دیا۔ وہ میرے دل میں امید کی شمع روشن کر گیا۔
اس کے جانے کے بعد دنیا میرے لیے سونی سونی ہو گئی۔ میں اداس رہنے لگی۔ امی شادی کی بات کرتیں تو میں ٹال جاتی۔ پھر میں نے ایک اسپتال میں ملازمت کر لی۔ اس دوران ذیشان کا کوئی فون نہ آیا۔ رفتہ رفتہ، میں اس کی طرف سے ناامید ہوتی گئی۔ میری ہم عمر لیڈی ڈاکٹرز میں سے اکثر کی شادیاں ہو گئیں۔ امی کہتیں کہ تم بھی اب گھر بسالو، مگر میں نے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اسی دوران والد انتقال کر گئے۔ دونوں بھائیوں کی شادیاں ہو چکی تھیں۔ بھابیوں نے شروع میں میرا خیال رکھا، لیکن بعد میں وہ بھی اپنی دنیا میں مگن ہو گئیں۔ یوں ہی کئی برس بیت گئے، لیکن جس کا انتظار تھا، وہ نہ آیا۔ سوچتی تھی کہ کاش ایک بار اس کی کوئی خیر خبر آجائے، کوئی بتا دے کہ وہ کہاں ہے، کیسا ہے، اور کس حال میں ہے۔ اس نے مجھے انتظار کرنے کو کہا تھا، مگر انتظار کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
ایک دن ایک بزرگ مریض آئے، ان کا نام صلاح الدین تھا۔ علاج سے انہیں افاقہ ہوا تو وہ عقیدت سے اکثر میرے پاس آنے لگے۔ مجھے بھی ان سے مل کر خوشی ہوتی تھی۔ ایک دن جب میں آپریشن تھیٹر میں تھی، تو ان کے آنے کی اطلاع ملی۔ وہ میرے انتظار میں بیٹھے رہے۔ جب آپریشن سے فارغ ہوئی، تو ان کے پاس گئی۔ کہنے لگے، ڈاکٹر بیٹی! میں آج ایک خوش خبری لے کر آیا ہوں۔ میرا بیٹا اور بہو لندن سے آئے ہیں اور تم سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے وقت دے دیا۔ اگلے دن وہ اسی وقت پر مجھے ملانے لے آئے۔ انہیں دیکھ کر میری نگاہیں ساکت رہ گئیں۔ وہ میرے لیے اجنبی نہ تھے۔ ان کی بہو اور بیٹا، عروسہ اور ذیشان تھے۔ عروسہ تو مجھے دیکھتے ہی کھل اٹھی، لیکن ذیشان ساکت تھا۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ عروسہ ہمارے دلوں کی حیرت سے بے خبر اپنی دھن میں بولے جا رہی تھی۔ وہ پرجوش انداز میں باتیں کرنے لگی۔ مجھے ان پر رشک اور اپنی قسمت پر رونا آ رہا تھا۔
عروسہ کو کسی شے کی کمی نہ تھی۔ وہ ایک دولت مند گھرانے میں پیدا ہوئی، اسے زندگی کی ساری خوشیاں اور سہولتیں ملیں، اور ذیشان جیسا شریکِ زندگی بھی اسے ملا۔ سچ ہے، دولت کے نقصانات کم اور فائدے زیادہ ہوتے ہیں۔ وہ اگر اتنی امیر نہ ہوتی، تو لندن کیسے جاتی، جہاں اسے ذیشان ملا۔ اس بے وفا نے مجھے طویل انتظار دیا اور زندگی کی خوشیاں اس کی جھولی میں ڈال دیں۔ جب انسان کی اپنی قسمت کھوٹی ہو، تو کسی سے کیا گلہ کرنا۔ میں نے بھی گلے شکوے دل میں دفن کر دیے۔ ذیشان نے تو میرا ذکر تک عروسہ سے نہ کیا تھا، تو میں کیوں کرتی؟ میں نے بھی اس راز کو چھپا دیا کیونکہ میں اپنی دوست کی زندگی میں زہر نہیں گھول سکتی تھی۔ حیرت زدہ تھی کہ کچھ لوگ ماضی کو کتنی جلدی بھلا دیتے ہیں۔
کچھ دن پاکستان میں رہ کر یہ لوگ چلے گئے لیکن مجھے بڑا دکھ دے گئے، جو میں کسی سے بانٹ بھی نہیں سکتی تھی۔ ایک دن بابا صلاح الدین صاحب کے اصرار پر میں ان کے گھر گئی، جہاں ان کی بیٹی سے میری ملاقات ہو گئی۔ میں اس سے ذیشان کی شادی کے بارے میں پوچھنا چاہتی تھی۔ اس نے بتایا کہ لندن میں عروسہ کے ساتھ ایک المناک حادثہ ہوا تھا، جس میں اس کی عزت چلی گئی تھی۔ تب ذیشان نے اسے سنبھالا کیونکہ دونوں آپس میں چچا زاد ہیں۔ تب ہی والدین نے شان سے کہا کہ وہ عروسہ سے شادی کر لے۔ اس نے ماں باپ کی التجا پر اس پریشان حال لڑکی سے شادی کر لی۔ گویا یہاں بھی ذیشان نے عظمت کا ثبوت دیا۔ میں نے تب خود کو سمجھا لیا کہ اب میری زندگی میری نہیں ہے، یہ دوسروں کے لیے ہے۔ مجھے خدا نے شاید اسی مقصد کے لیے پیدا کیا ہے کہ میں لوگوں کے کام آئوں۔ اب میری سوچ کا زاویہ بدل چکا تھا، سو میں نے اپنے ڈاکٹری کے پیشے کو مقدس سمجھنا شروع کر دیا۔ اب میں پیسوں کے لیے نہیں، ضرورت مندوں کے لیے پریکٹس کرتی تھی۔ اپنے کلینک پر بھی غریبوں سے واجبی فیس لیتی تھی۔
بلاشبہ زندگی ایک ایسی شاہراہ ہے جس پر بے شمار رنگ برنگی تتلیاں اڑتی پھرتی ہیں۔ یہ انسان کی آرزوئیں ہیں، اس کے خواب ہیں، جن کے پیچھے وہ بھاگتا رہتا ہے۔ کبھی یہ خواب اس کے ہاتھ آ جاتے ہیں اور کبھی نہیں آتے۔ محبت بھی سفرِ زیست کا ایک لازمی انمول انگ ہے۔ اس سے بڑھ کر پُر کشش چیز شاید ہی کوئی ہو۔ کوئی اسے پا لیتا ہے اور کوئی کھو دیتا ہے۔ میں نے اپنی محرومیوں سے سمجھوتہ نہیں کیا، بلکہ انہیں بھلانے کی کوشش بھی کرتی تھی۔ بہن بھائیوں سے میرا مزاج بالکل مختلف تھا۔ مجھ میں اپنی ذات کی حفاظت کا احساس کچھ زیادہ تھا۔ بہن بھائیوں میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جس سے دل کی بات کہہ سکتی۔
ایک دن میری ملاقات ڈاکٹر یوسف سے ہوئی۔ وہ متاثر کن اور خاموش طبع آدمی تھے۔ انہوں نے سب سے الگ تھلگ اپنی ایک دنیا بسائی ہوئی تھی۔ وہ صورت و شکل سے معمولی، مگر ان کی شخصیت بہت خاص تھی۔ میں شروع سے ہی اچھی شخصیت والوں کی پرستار رہی تھی۔ مجھے حسن سے زیادہ شخصی خوبیاں لبھاتی تھیں۔ تبھی میں بھی ان سے متاثر ہو گئی، مگر وہ میری طرف متوجہ نہ ہوئے اور نہ ہی میں ان سے ہم کلام ہو سکی کیونکہ وہ مجھ سے سینئر اور بہت قابل ڈاکٹر تھے۔ حالانکہ میں ہر ایک سے آگے بڑھ کر بات کر لیتی تھی، لیکن میرے دل میں شاید چور تھا کہ ان سے بات کرنے کی ہمت نہ کی۔ کئی ماہ گزر گئے، میری کہانی جہاں تک تھی، وہیں رہی۔ اس میں کوئی قابلِ ذکر موڑ نہیں آیا۔ ایک روز سنا کہ ڈاکٹر یوسف کوئی امتحان دے رہے ہیں، اس لیے اسپتال سے چھٹی لی ہے۔ تب میری طبیعت بے چین ہو گئی۔ اس بے چینی کو دور کرنے کے لیے میں ان کے ایک دوست ڈاکٹر اشعر سے ملنے چلی گئی۔ ان سے میری اکثر بات چیت رہتی تھی۔ ان سے پتا چلا کہ یوسف ایک ماہ کی چھٹی پر ہیں۔ یہ سن کر میرا رنگ پھیکا پڑ گیا۔ ڈاکٹر اشعر کی جہاں دیدہ نظروں نے بھانپ لیا کہ میں ڈاکٹر یوسف کو پسند کرنے لگی ہوں۔ انہوں نے کہا، ربیعہ، اب زیادہ دن تک تنہا نہ رہو تو اچھا ہے۔ میں سمجھی نہیں، آپ کی بات؟ مطلب یہ کہ تم بہت جلد ایک خوش خبری سنو گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ تم اپنی قیمتی زندگی کو رائیگاں نہ کرو، بلکہ گھر بسالو۔ ڈاکٹر اشعر کا میں بہت لحاظ کرتی تھی، اسی لیے ان کو جواب نہیں دیا اور خاموش ہو گئی، مگر شش و پنج میں ضرور تھی کہ آخر انہوں نے ایسا کیوں کہا ہے۔
ایک دن وہ آئے تو بڑے خوش تھے۔ میں نے پوچھا، ڈاکٹر صاحب، خیر تو ہے، کیا کوئی خوشی ملنے والی ہے؟ بس ایسا ہی سمجھو، انہوں نے جواب دیا۔ ارے بہن، قارون کا خزانہ ملنے والا ہے۔ دراصل یہ خوشی تم ہی سے متعلق ہے۔ مجھ سے؟ ہاں، تم سے، پتھر میں جونک لگ سکتی ہے نا؟ ہاں، لگ تو سکتی ہے، میں نے جواب دیا۔ اگلے لمحے وہ مجھے ڈاکٹر یوسف کی طرف سے پروپوز کر رہے تھے۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ اندر سے میں خوش تھی، مگر اوپر سے بنائوٹی طور پر منہ بسور لیا۔ انہوں نے کہا، دیکھو ربیعہ، ایسا ہیرا پھر نہیں ملنے والا، کیا منہ بسور رہی ہو، پاگل لڑکی؟ اب تمہاری عمر ایسی لڑکیوں والی تو نہیں کہ غصہ کرو یا شرماؤ، اس مسئلے پر سنجیدگی سے سوچو اور گھر جا کر اچھی طرح سوچ بچار کرنے کے بعد مجھے جواب دینا۔ اچھا، سوچوں گی۔ ہاں، اچھا ہی سوچنا۔ گھر آ کر سوچا کہ کیا میرا خواب پورا ہونے والا ہے؟ میں نے کافی عرصہ بعد اپنا چہرہ آئینے میں دیکھا، اپنے سفید ہوتے بال بھی دیکھے، جن میں سفید بال چاندی کے تاروں کی مانند جھانک رہے تھے۔ امی جان میری اس تبدیلی سے بہت خوش تھیں کہ میں نئے جوڑے سلوا رہی تھی، نئے جوتے خرید لائی تھی اور ڈرائنگ روم کے پردے بدلوانے کو کہہ رہی تھی۔ زندگی میں پہلی بار کچھ شوخ رنگ بھی پسند آئے۔ ربیعہ، کیا بات ہے، آج بہت خوش ہو؟ کیا اچانک کوئی پرانی سہیلی ملی ہے یا ترقی ہو گئی ہے؟ ہاں امی جان، کوئی پرانا دوست بھی ملا ہے اور ترقی بھی ہو گئی ہے۔ میں نے جواب دیا اور گنگنانے لگی تو اماں میرا کھلا ہوا چہرہ دیکھ کر مسکرا دیں۔ خدا کرے، صدا اسی طرح مسکراتی رہو۔ انہوں نے دعا دی۔ ماں کی اس دعا میں کتنی وسعت تھی۔ اس کا مطلب تو ایک لیڈی ڈاکٹر ہی اچھی طرح سمجھ سکتی ہے، جو سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اب تک تہی دامن تھی۔ کچھ دنوں بعد ڈاکٹر اشعر کا فون آیا، سوچ لیا ہے؟ کیا فیصلہ کیا ہے؟ امی جان سے بات کی ہے؟ وہ بہت خوش تھیں۔ میں نے جواب دیا۔ انہوں نے پوچھا، تم بھی خوش ہو کہ نہیں؟ پتا نہیں۔ میں نے کہہ دیا، حالانکہ اندر سے بہت خوش تھی اور ابھی تک میں نے ماں سے بات نہیں کی تھی۔
بہن سے بات کی، کہا کہ تم میری مدد کرو لیکن اس نے صاف انکار کر دیا۔ کہنے لگی، پاگل ہوئی ہو جو اس عمر میں شادی کرنے چلی ہو۔ تمہاری شادی کی عمر گزر چکی، اب یہ کھیل نہ کھیلو، مگر میں گھر بسانا چاہتی تھی۔ میں ہمیشہ ایک ہرے بھرے کنبے کا خواب دیکھتی تھی۔ ذیشان اگر میری زندگی میں نہ آتا، مجھے انتظار کرنے کا نہ کہتا تو اب تک میں بھی ایک چہکتے مہکتے گلستان کی مالک ہوتی۔ ایک بار پھر میں نے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا۔ ابھی تک میرا چہرہ ادھیڑ عمری کا غماز نہیں تھا۔ میں توانا بھی تھی، گھریلو ذمہ داریاں اٹھا سکتی تھی۔ میرا دل بے تاب تھا اور میری روح تنہائی کے صحراؤں میں بھٹکنے سے اکتا چکی تھی۔ بہن سے مایوس ہو کر خود ہی اس کام کو سرانجام دینے کا فیصلہ کر لیا۔ ڈاکٹر یوسف کا انتظار تھا۔ ان کے آنے تک خود پر قابو رکھنا تھا۔ فون کر کے ان کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتی تھی۔
لمحہ لمحہ گنتے دن کٹ گئے۔ میری ان سے باقاعدہ ملاقات ان کے امتحانات ختم ہونے کے بعد ہوئی۔ انہوں نے کوئی تمہید نہیں باندھی، براہِ راست شادی کا پیغام دیا۔ ان کی بے ساختگی نے میرا دل جیت لیا۔ اس کے بعد ہماری آپس میں بات چیت بڑھنے لگی۔ کتنے خوبصورت دن تھے وہ، ترس گئی تھی میں پیار بھرے دو بولوں کے لیے مگر زندگی میں سچی خوشیوں کا ملنا اتنا آسان نہیں۔ جب میں نے سنجیدگی سے شادی کا سوچا تو مجھے اپنے گریبان میں جھانکنا پڑا۔ بدقسمتی سے انہی دنوں انکل صلاح الدین نے آ کر بتایا کہ عروسہ اور ذیشان آئے ہوئے ہیں اور تم سے ملنے کو بے تاب ہیں۔ ذیشان کا تو پتا نہیں، عروسہ واقعی مجھ سے ملنے کو بے تاب تھی۔ وہ خود ملنے آگئی اور آتے ہی میرے گلے لگ گئی، مگر ذیشان حیرت و حسرت کی تصویر بنا سامنے آیا، مجسمے کی طرح خاموش۔ مجھے خبر نہ تھی کہ اس کی ڈاکٹر یوسف سے گہری دوستی ہے۔ دونوں نے ڈاکٹری کا ایک اعلیٰ امتحان اکٹھے پاس کیا تھا۔ لندن میں ایک ہی گھر میں رہا کرتے تھے۔ کبھی یوسف صاحب نے اس کا ذکر نہ کیا تھا۔ پاکستان آ کر بھی دونوں ملے تو ذیشان نے ان کو بتا دیا کہ وہ لڑکی جو میرے خوابوں میں بستی ہے، سوتے جاگتے جس کا خیال میرے ساتھ رہتا ہے، وہ ڈاکٹر ربیعہ ہے، جو تمہارے ساتھ اسپتال میں تعینات ہے۔ مجھے خبر نہ تھی کہ اور کیا کچھ ڈاکٹر یوسف کو اس نے میرے بارے میں بتایا تھا۔ بس ایک نام کے سوا ماضی کی ہر بات اپنے دوست سے کہہ رکھی تھی اور جب نام بھی بتا دیا تو وہ چونک گئے، ان کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ جیسے میرا خواب ٹوٹا، ویسے ہی ان کا بھی ٹوٹ گیا۔
یوسف نے مجھ سے پوچھا جیسے ذیشان تم سے محبت کرتا ہے، کیا تم بھی ویسے ہی ابھی تک اس سے محبت کرتی ہو؟ یہ ایسا سوال تھا جس کا میرے پاس جواب تھا ہی نہیں۔ میں نے خود کو تتولہ، ہاں ابھی تک میرے دل کے سنگھاسن پر ذیشان کی مورتی سجی ہوئی تھی، وہاں یوسف کا کہیں عکس تک نہ تھا۔ انسان کا چہرہ جھوٹ نہیں بول سکتا۔ اس سوال پر میں خاموش تھی مگر میرا چہرہ بول رہا تھا اور وہی سچ تھا۔ تو کیا شادی کرنا تمہاری ضرورت ہے؟ تمہیں تنہائی کا ساتھی اور ایک آباد گھر چاہیے۔ اس بات کا تمہارے دل سے، تمہاری روح سے کوئی تعلق نہیں ہے اور جس بات کا دل سے اور روح سے تعلق نہ ہو، جانتی ہو، وہ کس قدر بے جان ہوتی ہے، جیسے کوئی مردہ عذاب ہوتی ہے۔ پھر یوسف نے کہا ربیعہ، خود کو دھوکا نہ دینا، خود سے جھوٹ بھی نہ بولنا اور نہ مجھ سے۔ سچ خوبصورت نہیں ہوتا، کڑوا ہوتا ہے، مگر اس کے ثمرات بہت شیریں ہوتے ہیں۔ جھوٹ، نفرت ہے مجھے جھوٹ سے، جھوٹے لوگوں سے اور جھوٹی زندگی گزارنے والوں سے۔ میں سمجھ گئی ڈاکٹر یوسف کیا کہہ رہے ہیں اور کیا کہنا چاہتے ہیں۔
یہ ہماری آخری ملاقات تھی، جس نے مجھے زندگی کی اونچ نیچ سمجھا دی تھی اور محبت کو دلوں کا تعلق بتا کر وہ مجھ سے جدا ہو گیا تھا۔ وہ ایسا نہ تھا، جو کہتا کہ میں تم کو زمانے سے چھین لوں گا۔ وہ تو کہتا تھا کہ ربیعہ، یہ ہی سچ ہے کہ شان ہمیشہ سے تمہارے دل میں ہے اور ہمیشہ رہے گا، لیکن اب جب وقت گزر چکا ہے، میں اسے کیسے بتاؤں؟ کیونکہ اس کے جانے کے بعد مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ ذیشان نہیں، بلکہ اب وہی ہمیشہ میرے دل میں رہے گا۔ اس نے تو فوراً اپنا تبادلہ دوسرے شہر میں کروا لیا، مگر اس واقعے نے مجھے توڑ کر رکھ دیا۔ یوسف چلے گئے تو ذیشان بھی عروسہ کے ساتھ لندن پرواز کر گیا۔ وہ شاید چند دنوں کے لیے ہی آیا تھا تاکہ ایک بار پھر میری دنیا برباد کر سکے اور میرا گھر آباد نہ ہو سکے۔ یہ بھی اس کا احسان تھا مجھ پر یا پھر اپنے دوست ڈاکٹر یوسف پر۔
آج میرا تجربہ یہ ہے کہ جانے والوں کا انتظار نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ پردیس گئے تو پھر وہ پلٹ کر آنے والے نہیں ہوتے۔