Friday, October 11, 2024

Intezar Ki Iziyat

میٹرک پاس کرنے کے بعد میں کالج میں داخلے کے لئے جتن کرنے لگی، لیکن والد صاحب میری شادی کرنا چاہتے تھے لہذا آگے پڑھنے کی اجازت نہ دی۔ یونہی سال گزر گیا، شادی ہوئی اور نہ داخلہ لیا۔ اب والد کو بھی احساس ہوا کہ شادی تو جب ہی ہو گی جب نصیب کا تالا کھلے گا۔ تب تک لڑکی پڑھ لے گی تو آگے تعلیم اس کے کام آئے گی۔ نئے سال انہوں نے کہا کہ بیٹی آگے پڑھنا چاہتی ہو تو داخلہ لے لو ، اگر اس دوران کوئی اچھا رشتہ آگیا تو پھر تعلیم کو خیر باد کہہ دینا۔ میں نے یہ بھی منظور کر لیا کہ آگے جو قسمت ہیں ہو گا، دیکھا جائے گا۔ میں بہت جلد گھل مل جانے والی، ہنس مکھ لڑکی تھی۔ چند دنوں میں کالج میں کئی لڑکیاں سہیلیاں بن گئیں۔ وجہ یہ تھی کہ ہر وقت ان کو ہنساتی رہتی تھی، تبھی وہ مجھے پسند کرتی تھیں تاہم میں نے کبھی کسی پر اپنے دکھ ظاہر نہ کئے۔ کسی دن ذرا خاموش بیٹھ جاتی تو ان کو فکر ہو جاتی کہ آج مجھے کیا ہوا ہے ، پھر سب لڑکیاں میرے پیچھے پڑ جاتیں کہ کیا بات ہے، تم چپ کیوں ہو ؟ کیا گھر میں کوئی بات ہوئی ہے۔ تب میں نہ چاہتے ہوئے بھی ہنس دیتی تھی۔ دن نہایت اچھے گزر رہے تھے۔ میں بس میں کالج جاتی تھی۔ اگر بس میں بیٹھنے کی جگہ نہ ہوتی تو لڑکیاں کھڑے ہو کر چلی جاتیں، لیکن میں کھڑی نہیں ہو سکتی تھی۔ ذرا سا جھٹکا لگتا، گر جاتی۔ مسافر مجھ پر بنتے اور لڑکیاں بھی مذاق اڑا تیں۔ ایسا کئی بار ہوا۔ اتفاق سے ایک نوجوان نے بھی میرے گرنے کا تماشہ دیکھا۔ جس بس اسٹاپ پر میں کھڑی ہوتی تھی، یہ نوجوان بھی اسی وقت ، اسی بس اسٹاپ پر اپنی گاڑی لا کر کھڑی کر دیا کرتا تھا۔ وہ یہاں سے اپنے ایک دوست کو اٹھاتا تھا۔ کچھ دنوں سے میں محسوس کر رہی تھی کہ وہ لڑکا مجھ پر توجہ مذکور کئے رکھتا ہے ، وہ ایک خوبرو، خوش لباس اور خوشحال شخص تھا۔ کسی یونیورسٹی کا طالب علم لگتا تھا۔ میں اس کی طرف دیکھنے سے حتی الامکان گریز کرتی پھر بھی اس کی نگاہیں مجھ کو اپنی طرف تکتی محسوس ہو تیں۔ اسٹاپ پر اس کی وجہ سے بھی الجھن میں مبتلا رہنے لگی کیونکہ میرے ساتھ اکثر لڑکیاں بھی ہو تیں تبھی میں نے برقعہ لینا شروع کر دیا۔ اپنی کار میں وہ اسٹاپ کے سامنے سے گزرتا تھا۔ دن ہو نہی گزرتے رہے۔ میں نے اس کی طرف بالکل توجہ نہ دی لیکن روزانہ وہ میرے قریب سے گزرتے ہوئے آہستہ سے کہتا کہ میں آپ کو ڈراپ کر دوں؟ میں نے کبھی اس کی بات کا جواب نہ دیا۔ ایک دن سب لڑکیاں اسٹاپ پر کھڑی تھیں۔ دھوپ بہت تیز تھی، تبھی ہم بس کے انتظار میں قریبی دکان میں کھڑے ہو گئے۔ یہ اسٹیشنری کی دکان تھی ، جہاں سے ہم کاپیاں ، رجسٹر اور کتابیں وغیرہ خریدتے تھے۔ لڑکیاں خوش گپیوں میں مصروف تھیں کہ دکان دار کی آواز پر سب چونک گئے۔ وہ کہہ رہا تھا کہ آپ میں سے جس بہن کا نام شاہین ہے ، اس کا فون آیا ہے ، سن لیں۔  شاہین تو میر ا نام تھا، تبھی میرا رنگ زرد ہو گیا-میں چپ رہی تبھی میری ساتھی لڑکی بولی۔ فون کسی لڑکے کا ہے یالڑ کی کا؟ جی کوئی لڑکی بول رہی ہے ۔ میں حیران تھی کہ یہ کون سی دوست ہے۔ ابھی میں فون پر الجھ رہی تھی کہ وہ صاحب بھی اسی دکان پر آ گئے۔ میں نے فون پر بات کرتے ہوئے کتا بیں اور عینک کاؤنٹر پر رکھ دی تھی۔ بڑی دیر بعد مشکل سے اس نامعلوم سہیلی سے پیچھا چھڑایا۔ فون بند کیا ہی تھا کہ بس آگئی اور سب لڑکیاں دوڑ کر اس میں سوار ہو گئیں۔ گھبراہٹ میں، میں اپنی ایک کتاب اور عینک، کاؤنٹر پر چھوڑ دی، بس کی طرف تیز قدموں سے چل دی۔ دوسرے دن دکان والے سے اپنی کتاب اور عینک کا پوچھا۔ معلوم ہو ا و ہی نوجوان میری چیزیں اٹھا لے گیا تھا۔ اس نے دکان دار سے کہا کہ میں شاہین کا کلاس فیلو ہوں ، اسے دے دوں گا۔ اگلے روز میں پھر دکان میں گئی اور کہا کہ کیا ان صاحب نے میری چیزیں لوٹائی ہیں؟ اس نے کہا۔ ہاں، یہ لیجئے۔ آپ کو نہیں دے پائے تبھی واپس یہاں رکھ گئے ہیں۔ میں نے اپنی چیزیں اٹھا لیں۔ گھر لا کر کتاب کھولی تو اس میں ایک شعر درج تھا۔ اگلے دن پھر میں دکان پر گئی اور دکان دار سے کہا کہ یہ کاغذ میری کتاب میں جس نے رکھا تھا، اسی کو دے دینا اور کہہ دینا کہ مجھے اس قسم کے اشعار سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ دکان دار نے کہا۔ اس کا نام سروش ہے ، وہ میرا دوست ہے۔ میں اسے دے دوں گا اور تنبیہ بھی کر دوں گا۔ آپ فکر نہ کریں، وہ آئندہ ایسی حرکت نہ کرے گا۔ یہ کہہ کر اس نے پرچہ رکھ لیا۔ میرے ساتھ ، عقیلہ تھی، بولی۔ شاہین، پلیز اس کو مت ٹھکراؤ۔ کتنا اچھا لگتا ہے وہ، خوبصورت آنکھوں والا۔ میں تو اس پر مرتی ہوں۔ میں نے جواب دیا۔ تم مرتی ہو تو مر جاؤ ، بلکہ چلو بھر پانی میں ڈوب مرو۔ مجھے اس قسم کے گانوں والے شعروں سے چڑ ہے۔ اس کے بعد وہ روزانہ مجھے اس دکان پر فون کرنے لگا۔ عقیلہ میری بجائے خود دکان پر جا کر اس کا فون سنتی، میں اسے منع کرتی لیکن وہ نہ مانتی۔ ایک دن میں نے فون اس سے لے لیا اور کہا کہ خدا کے لئے تم میرا پیچھا چھوڑ دو۔ تمہارا میرا کوئی میل نہیں ہے۔ اس پر وہ بولا۔ میری ایک بات سن لو۔ مجھے اپنی ماں کی قسم میں تم کو کبھی دھوکا نہ دوں گا۔ خدا کے لئے مجھ پر بھروسہ کرو۔ اگر تم نے مجھ سے بات نہ کی تو میں تمہارے سامنے بس کے نیچے سر دے دوں گا۔ اس بات سے میں گھبرا گئی۔ تمام رات میری سوچوں میں گزر گئی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کروں ؟ کیا کالج جانا چھوڑ دوں۔ وہ روزانہ فون کرتا اور عقیلہ ، اس کا فون سن کر اس کے پیغامات مجھے دیتی پھر اس نے میرا  پرسنل نمبر بھی اسے دے دیا، تب میں اپنی دوست سے ناراض ہو گئی اور اس سے بات چیت بند کر دی۔ جب میں نے اس کے فون نہ سنے تو وہ میرے کالج کے رستے میں آنے لگا۔ میں نے تنگ آکر ایک روز روڈ پر ہی اسے برا بھلا کہا اور سختی سے بات کی۔ ایک طرف والد صاحب کا ڈر اور خاندان کی عزت کا سوال تھا تو دوسری جانب یہ جنونی انسان تھا۔ ایک دن فون اٹھایا تو سروش نے خدا کا واسطہ دے کر کہا کہ فون بند نہ کرنا۔ پہلے میں سختی سے جواب دیتی تھی، اس روز منت بھرے لہجے میں بولی۔ دیکھو سروش ! تم جو بھی ہو ، میرا پیچھا چھوڑ دو، مجھے تنگ نہ کرو۔ میری بہت مجبوریاں ہیں۔ بڑی مشکل سے پڑھائی کے لئے اجازت ملی ہے۔ والد صاحب کو علم ہو گیا تو وہ دوسری کوئی بات نہ کریں گے ، بس مجھے کالج سے ہٹا دیں گے اور میرا بڑا نقصان ہو جائے گا۔ میں ایک برقعہ نشین لڑکی ہوں ، اس سے میرے گھر والوں کے ماحول اور مزاج کا اندازہ کر لو۔ تم کسی اور لڑکی سے دوستی کر لو مگر مجھے تنگ مت کرو۔ تمہیں اپنی امی کا واسطہ ، بات کو یہیں ختم کر دو۔ اس نے کہا۔ میں تم کو حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے ہی کیوں ؟ اور بھی تو اتنی لڑکیاں میرے ساتھ ہوتی ہیں۔ تم برقعہ لیتی ہو، باحیا ہو اس لئے ۔ تبھی مجھے   بدنام کرنے کا سامان کر رہے ہو ؟ میں تم کو حاصل ہونے والی نہیں ہوں۔ امید پر دنیا قائم ہے ، انسان کوشش تو کرتا ہے۔ میں نے فون بند کر دیا۔ یہ میری اس کے ساتھ پہلی تفصیلی بات چیت تھی۔ اگلے روز کالج کے لیے نکلی تو دل بری طرح دھڑک رہا تھا اور ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو رہے تھے۔ پچھتار ہی تھی کہ خواہ مخواہ ہی اس  شخص سے بات کی۔ سوچا کہ آج اپنے اسٹاپ کے بجائے ، اگلے اسٹاپ پر کھڑی ہو جاتی ہوں اور وہاں سے بس لے لیتی ہوں۔ میں اگلے اسٹاپ کی طرف چلنے لگی۔ تھوڑی ہی دور چلی تھی کہ ہمت جواب دینے لگی۔ تنھی عقیلہ آتی دکھائی دی۔ حالانکہ ہماری بات چیت بند تھی لیکن اسے دیکھ کر پھر بھی حوصلہ ہوا۔ سوچا وا پس اسی کے ساتھ اپنے والے بس اسٹاپ پر پلٹ جاتی ہوں۔ اگلا اسٹاپ تو کافی دور ہے۔ اس سے پہلے کہ میں بات کرتی، وہ خود میری طرف آ گئی۔ کہنے لگی ۔ آج ادھر کدھر جارہی ہو ؟ میں چپ تھی، کوئی بات بن نہ پارہی تھی۔ کالج کی بس کے پیچھے دوڑی مگر وہ نکل گئی۔ میں نے بے تکا سا جواز بتادیا۔ اس نے بال کی کھال نہیں اتاری اور میرے ساتھ ہوئی۔ ہم تھوڑی دور ہی چلے تھے کہ پیچھے سے ایک تیز رفتار موٹر سائیکل نے اسے ٹکر ماری اور وہ سڑک پر گر گئی۔ کتا بیں کہیں تو جوتے کہیں، موٹر سائیکل والا تو ٹکر مار کر بھاگ گیا۔ میں اسے اٹھانے کو جھکی۔ ارد گرد ٹریفک چل رہا تھا، صبح کا وقت تھا۔ لوگ دفتروں اور طالب علم کالج، اسکول کو جارہے تھے۔ اس کو زیادہ چوٹ لگی تھی اور وہ بھی سر میں۔ اسے ہوش نہ رہا تھا۔ میں اسے نہیں اٹھا سکتی تھی۔ بے بسی سے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔

لوگ ہمارے ارد گرد اکٹھے ہونے لگے سروش بھی ان لوگوں میں دکھائی دیا۔ اس نے دور سے ہی، موٹر سائیکل کی ٹکر سے عقیلہ کو گرتے دیکھ لیا تھا۔ ہجوم میں اسے دیکھا تو لگا، جیسے ، غیر لوگوں میں کوئی اپنا آ گیا ہے۔ میری گھبراہٹ میں کمی ہو گئی۔ اس نے آگے بڑھ کر عقیلہ کو بازوؤں میں اٹھا لیا اور کنارے پر کھڑی اپنی گاڑی کی طرف لے گیا۔ مجھے کہا کہ میرے پیچھے آؤ، ہمیں اسے اسپتال لے جانا ہو گا۔ میں نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور اور اس نے بدقت میری دوست کو کار کی سیٹ پر لٹا دیا۔ تم آگے بیٹھ جاؤ شاہین ! دیر مت کرو۔ سروش نے کسی اپنے کی طرح مجھے مخاطب کیا اور میں نے ایک معمول کی طرح اس کے حکم کی تعمیل کی۔ اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔ تمام رستہ اس نے کوئی کلام نہ کیا۔ گاڑی چلاتارہا اور ہم قریب ترین اسپتال پہنچ گئے۔ عقیلہ کو ایمر جنسی میں لے جایا گیا۔ یہاں پہنچ کر سب سے پہلے میں نے عقیلہ کے گھر والوں کو فون کر کے ایکسیڈنٹ کی اطلاع دی۔ جب تک اس کے گھر والے آئے ، سروش موجود رہا۔ سب بھاگ دوڑ ، خرچہ اس نے کیا تھا۔ کسی اپنے کی طرح معاملے کو سنبھالا۔ اس روز ہی اس نے مجھے بتایا کہ اس نے عقیلہ کو بہن بنایا ہوا ہے، تبھی اس کے ساتھ فون پر بات کرتا تھا اور رابطہ میں رہنے کی وجہ میں ہی تھی۔ میں سمجھی تھی کہ پہلی بار سروش نے میرا چہر ہ اسپتال میں دیکھا ہے لیکن یہ بات نہیں تھی۔ مجھے اس نے بتایا کہ وہ دور سے ہمارا رشتہ دار ہے اور ایک شادی میں اس نے مجھے دیکھا تھا ، تبھی سے پسند کر لیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی وہ اس بس اسٹاپ کی طرف سے گزرنے لگا تھا۔ یہ وورشتہ دار تھے جن کے گھر ہمارے بزرگ تو آتے جاتے تھے مگر ہم کبھی ان کے گھر نہیں گئے تھے اور نہ کبھی ان کا گھر میں تذکرہ ہوتا ، اس لئے میں نہیں جانتی تھی کہ سروش کے ساتھ ہماری کوئی رشتہ داری بھی ہے۔ میں تو اس کو ایک ایسے آوارہ مزاج نوجوان کے روپ میں دیکھ رہی تھی جو بس اسٹاپ پر لڑکیوں سے چھیڑ خانی کے چکروں میں رہتے ہیں۔ جب عقیلہ کے والدین آگئے تو اس نے جانے کی اجازت لی۔ مجھے بھی جانا تھا، کب تک اسپتال میں ٹھہرتی ، لیکن آنٹی اور انکل کے سامنے میں نے سروش سے کلام نہیں کیا اور نہ یہ کہا کہ میں نے بھی جاتا ہے۔ جب وہ اسپتال سے نکل گیا تو پندرہ منٹ بعد میں نے آنٹی سے کہا کہ مجھے اجازت دیجئے۔ میں عقیلہ کو دیکھنے، امی کے ساتھ شام کو آؤں گی۔ ابھی میرے گھر والوں کو علم نہیں ہے کہ میں کالج کے بجائے اسپتال میں ہوں۔ آنٹی بولیں۔ بیٹی تم اکیلی گھر چلی جاؤ گی یا تمہارے انکل تم کو چھوڑنے جائیں ؟ انکل کا اس وقت یہاں موجود رہنا ضروری ہے۔ میں چلی جاؤں گی ، رکشہ لے لوں گی، آپ فکر نہ کریں۔ میں گھر پہنچ کر فون کر دوں گی۔ وہ بھی بہت پریشان تھیں۔ ابھی عقیلہ کو ہوش نہیں آیا تھا۔ سڑک پر اس کا سر زور سے ہٹ ہوا تھا، سو وہ ابھی تک بے ہوش تھی۔ انہوں نے مجھے اکیلے جانے کی اجازت دے دی۔ جب میں اسپتال سے نکلی تو باہر سروش کو منتظر پایا۔ اس نے کہا۔ برا نہ مانو تو تمہیں، تمہارے گھر یا کالج، جہاں کہو، ڈراپ کر دیتا ہوں۔ میں نے ذرا دیر سوچا۔ کالج کا وقت تو نکل گیا تھا – اللہ پر بھروسہ کرکے اس پر بھی بھروسہ کر لیا اور اس کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ مجھے گھر کے پاس ڈراپ کر دیں۔ میں نے کہا۔ شکریہ ، میری عزت افزائی کا۔ وہ بولا اور گاڑی چلادی۔ پہلی بار کسی اجنبی کے ساتھ اکیلی گاڑی میں بیٹھی تھی، اس کی تو مراد بر آئی تھی لیکن میر اول بری طرح کانپ رہا تھا۔ کچھ گرمی اور کچھ خوف سے پسینے میں نہا گئی تھی۔ نقاب منہ پر پڑا تھا، بڑی مشکل سے میں نے تھوک نگلتے ہوئے سوال کیا۔ آپ کدھر سے جارہے ہیں ؟ ہم پشاور سے جارہے ہیں۔ اس نے جواب دیا اور ہنس پڑا، پھر بولا۔ خاطر جمع رکھو، کیوں ڈر رہی ہو؟ میں تم کو بھگا کر نہیں لے جاؤں گا۔ تمہارے گھر پر ڈراپ کر دوں گا۔ رستے میں دو چار مختصر باتیں ہوئیں، اس نے مجھے اپنی رشتے داری کے بارے میں سمجھایا کہ اس کے دادا اور میرے دادا آپس میں کزن ہوتے تھے اور جب ہم چھوٹے تھے تو ان کا ایک دوسرے سے ملنا اور آنا جانا ہوتا تھا۔ شادی بیاہ، خوشی غمی میں شریک ہوتے تھے مگر تیسری نسل کے آتے آتے یہ میل جول باقی نہیں رہا ہے۔ عقیلہ کو ٹھیک ہونے میں ڈیڑھ ماہ لگ گیا۔ دوماہ بعد اس نے دوبارہ با قاعدگی سے کالج آنا جانا شروع کر دیا۔ اس کی غیر موجودگی کا یہ عرصہ میں نے بڑی مشکل سے کاٹا۔ کالج میں دل ہی نہ لگتا تھا۔ اس عرصے میں تین بار میں امی کے ساتھ اس کے گھر عیادت کو گئی۔ اس کا گھر ہمارے گھر سے اگلے محلے میں تھا۔ اس واقعہ کے بعد سے جب میں اکیلی کالج جاتی تھی تو چند بار سروش بس اسٹاپ پر آیا اور مجھ سے گاڑی سے اتر کر بات کی کہا کہ میں تم کو کالج چھوڑ دیتا ہوں مگر میں نے انکار کر دیا کہ میں روز تو تمہاری گاڑی میں بیٹھ کر نہیں جاسکتی۔ اس کے باوجود وہ روز کالج کے وقت پر گاڑی بس اسٹاپ کے نزدیک کھڑی رکھتا تھا مگر میں بس پر ہی کالج جاتی رہی۔

جب وہ دکھائی دیتا تو حیا سے میری بری حالت ہو جاتی – جب عقیلہ ٹھیک ہو کر کالج آنے لگی ، تب اس کے توسط سے آہستہ آہستہ حجاب کے  پر دے سرکنے لگے۔ وہ مجھے زبر دستی کھینچ کر اس کی گاڑی میں  لے جانے لگی۔ میری طرف سے بھی مزاحمت میں کمی آ گئی تھی۔ وہی ہوا جو اس عمر میں اکثر ہوتا ہے۔ میں اور عقیلہ کالج کے بعد سروش کے ساتھ تپتی دوپہروں میں پارکوں میں ، جب وہاں کوئی نہ ہوتا، جا کر بیٹھ جاتے۔ عقیلہ ، سروش سے زیادہ اور میں کم بات کرتی۔ میرے دل میں بھی سروش کے لئے پسندیدگی کے جذبات نے جنم لے لیا تھا۔ وہ کہتا کہ کبھی تم اکیلے میں میرے ساتھ سیر کو چلو لیکن میں نے اس کی یہ بات کبھی نہ مانی۔ اس نے وعدہ کیا کہ تعلیم مکمل ہونے کے بعد وہ اپنے والدین کو میرے والدین کے پاس رشتے کے لئے لے کر آئے گا۔ اس طرح اس نے میرے دل میں امید کی جوت جلادی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں نے اسے گرمیوں کی چھٹیوں کی خبر سنائی تھی تو اس کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ پھر جب میں اسے آخری دن بتایا کہ میں کل سے کالج نہیں جاؤں گی کہ گرمیوں کی چھٹیاں ہو گئی ہیں، تو اس نے کہا کہ میرا کالج تمہارے کالج سے چند قدم آگے ہے۔ اس بار فائنل امتحان کے بعد میں کالج چھوڑ دوں گا کیونکہ میرا ایف ایس سی مکمل ہو جائے گا، پھر نجانے ہم کب اور کیسے ملیں ؟ آج پہلی بار میرا دل اس کی جدائی کے تصور سے گھٹ رہا تھا اور پھر ہم دوماہ کے لئے ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ یہ دو ماہ دو سال بن کر گزرے۔ جب چھٹیاں ختم ہو گئیں تو میں چھٹی کے وقت ،اس سے کالج سے باہر والی اسٹیشنری کی دکان پر ملی۔ اس نے  جذبات سے میرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور کہا کہ میں والدین کے پاس گاؤں جارہا ہوں، یہ بتانے کہ میں نے شادی کے لئے جس لڑکی کو پسند کیا ہے ، وہ ہماری رشتہ دار ہے۔ میں جلد ان کو رشتے کے لئے تمہارے والدین کے پاس لاؤں گا۔ وہ چلا گیا۔ میں اس کی جدائی میں تڑپ تڑپ کر روئی ، مگر کیا کر سکتی تھی۔ عقیلہ کے ذریعہ اس کے خط مل جاتے، جس سے دل کو تسلی ہو جاتی، پھر اچانک اس کے خط آنے بند ہو گئے۔ ایک دن عقیلہ نے بتایا کہ سروش آرہا ہے۔ میں یہ سن کر خوش ہو گئی۔ اس کے بعد وہ کئی بار ملا۔ وہی چاہت تھی لیکن ہم بہت تھوڑے وقت کے لئے ملتے تھے۔ عقیلہ ساتھ ہوتی تھی یوں دل کی باتیں دل ہی میں رہ جاتیں۔ کبھی کبھی مجھے اس کی نیت پر شک ہوتا، پھر خود کو تسلی دیتی کہ نہیں، اس نے وعدہ کیا ہے تو ضرور نبا ہے گا۔ اپنے والدین کو رشتے کے لئے لے کر آئے گا۔ کالج کے چار سال پورے ہونے کو تھے۔ اب مجھے گھر بیٹھ جانا تھا۔ یہ وقت میرے لئے انتہائی تکلیف دہ تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ میں گھر بیٹھ جاؤں گی تو میرے رشتے آنے لگیں گے اور تب میں والدین کو روک نہ سکوں گی۔ وہ کسی نہ کسی کو پسند کر لیں گے اور مجھ میں اتنی ہمت نہ تھی کہ والدین کو اپنی پسند سے آگاہ کر سکوں، سروش کے بارے میں بتا سکوں۔ آخر وہی ہوا۔ ایک روز امی نے کہا کہ بیٹی ! تمہارے ماموں تمہیں بہو بنانا چاہتے ہیں۔ تمہارا کیا خیال ہے ؟ میں نے جواب دیا۔ امی میں ابھی شادی نہ کروں گی۔ وہ بولیں۔ کیوں ؟ کیا وجہ ہے ، شادی تو ہر لڑکی کو کرنا ہوتی ہے ۔ تمہیں کوئی لڑکا پسند ہے تو بتا دو مگر خیال رہے خاندان سے ہو۔ خاندان سے باہر کسی غیر سے رشتہ تمہارے والد کو قبول نہ ہو گا۔ امی اگر کوئی رشتہ میری پسند کا ہوا تو وہ کسی رشتے دار گھرانے سے ہی ہو گا۔ آپ اس بات کی فکر نہ کریں۔ میں نے اتنا تو بتادیا یہ نہیں بتایا کہ وہ لڑکا کون ہے۔ اے کاش تبھی بتادیتی تو امی ان لوگوں سے خود ہی رابطہ کر لیتیں – کچھ دن گزرے تو ماموں ممانی آگئے۔ امی نے پھر مجھے کہا کہ یہ تمہارا رشتہ لینے آئے ہیں، تمہار اماموں زاد شکیل انجینئر ہے۔ یہ بار بار آئیں گے ، میں کیا جواب دوں۔ امی کہہ دیا نا کہ میں نے ابھی شادی نہیں کرنی۔ کیوں نہیں کرنی؟ امی نے مجھے ڈانٹ دیا۔ کب تک میں نے تمہارے ماموں کو انتظار کرواؤں، میں تمہاری ایک نہیں سنوں گی۔ ادھر یہ لوگ چکر لگارہے ہیں ، ادھر خاندان سے کئی اور رشتے آرہے ہیں۔ مجھے اب کہیں تو ہاں کرنا ہو گی۔ میں سارادن روتی رہی۔ سمجھ میں نہ آتا کہ کیا کروں؟ عقیلہ کے گھر جاکر سروش کو فون کیا۔ شاید ان کے والد اٹھاتے تھے۔ بھاری سی مردانہ آواز سن کر میں ریسیور رکھ دیتی۔ ان سے کیا کہتی ۔ گھر آکر خوب روتی۔ بار بار خیال آتا کہ خدا جانے سروش نے کیوں رابطہ ختم کر دیا ہے ؟ خدا کرے وہ خیریت سے ہو ۔ وہ اگر چاہتا تو اپنے والدین کو لے کر ہماے گھر آ سکتا تھا پھر اس نے اپنا وعدہ کیوں پورا نہیں کیا ؟ بالکل ہی خاموشی اختیار کرلی تھی۔ اب ہر دن اسی آس میں گزرنے لگا کہ شاید آج وہ آجائے لیکن اس کی کوئی خبر نہ تھی۔ اب جو رشتے آتے میں شدت سے انکار کر دیتی، یہاں تک کہ میرے سر میں سفید بال آنے لگے ، چہرہ مرجھا گیا – سروش کو نہ آنا تھا ، نہ آیا۔ یہاں تک کہ میرے والدین میری ضد سے مجبور ہو کر خاموش ہو گئے۔ والد نے مجھے بی ایڈ کرنے کی اجازت دے دی، میں نے بی ایڈ کی تعلیم مکمل کر لیا ور ایک اسکول میں ٹیچر لگ گئی۔ زندگی ایسے ہی بے کیف گزر رہی تھی۔ دل میں سروش سے ناراض ضرور تھی مگر اس کے لئے روز نفل پڑھ کر دعا کرتی تھی کہ خدا کرے وہ سرفراز ہو  اور اسے ہر جگہ اعلیٰ مقام عطا رہے۔ بس یہی دعا تھی جو میرے لبوں سے اس کے لئے نکلتی تھی۔ عقیلہ کی شادی ہو گئی اور وہ بیاہ کر اپنے گھر چلی گئی۔ اس کی شادی ایک آرمی آفیسر سے ہوئی تھی اور وہ خوش و خرم تھی۔ شادی کے بعد ہم کافی مدت نہ مل سکے۔ میں نے اپنی ویران زندگی سے سمجھوتہ کر لیا لیکن سروش کی یاد کو دل سے دور نہ کر سکی۔ خیالوں میں اس سے شکوہ کرتی کہ کیا میری وفاؤں کا یہی صلہ ہے۔ میں نے تو ماں باپ کی نافرمانی کی، تمہاری خاطر رشتے رد کر کے تمہارا انتظار کیا اور تم نے پلٹ کر خبر بھی نہ لی۔ کیا اسی کا نام محبت ہے ؟ ہماری محبت تو پاکیزہ تھی، پھر کیوں مجھے ایسی کڑی اور لمبی سزا ملی ؟ میں تو اب بھی خود کو سروش کی امانت سمجھتی تھی کہ شاید وہ کسی دن آ جائے اور میرے والدین سے رشتہ مانگ لے۔ ایک روز میں اسکول سے لوٹی تو عقیلہ میرے گھر آئی ہوئی تھی۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ مدت کے بعد وہ ملنے آئی تھی لیکن اکیلی نہیں، تین ننھے منے ، پیارے پیارے من موہنے سے بچوں کے ساتھ ۔ میں نے لپک کر ان کو گلے لگایا، پیار کیا اور کہا۔ عقیلہ تو اتنی خوبصورت تو نہیں ، پھر یہ پری زادے کہاں سے لے آئی ؟ تمہارے بچے تو بڑے خوبصورت ہیں۔ وہ بولی۔ یہ اپنے باپ پر گئے ہیں، وہ بہت خوبصورت ہیں۔ اچھا بھئی ، بڑی لکی ہو۔ ایسا کہتے ہوئے مجھے سروش یاد آ گیا – وہ سمجھ گئی کہ مجھے میری کس محرومی نے افسردہ کر دیا ہے۔ کچھ دیر کے توقف کے بعد کہنے لگی۔ شازیہ کبھی سروش نے تم سے رابطہ کیا؟ اس کا کچھ پتا چلا؟ میں نے جواب دیا۔ کبھی نہیں، کیا تم سے رابطہ کیا اس نے کبھی ؟ نہیں لیکن … یہ کہہ کر اس نے چپ سادھ لی۔ لیکن کیا؟ کوئی بات ہے تو بتادو مجھے۔ چھپانا مت، تم کو اپنے بچوں کی قسم۔ میں بہت تکلیف میں ہوں۔ جانتی ہو کہ انتظار کی اذیت کتنی زیادہ ہوتی ہے۔ جانتی ہوں لیکن جو بات ہے ، وہ تم سن نہ سکو گی۔ میں ہر بات کے سننے کا حوصلہ رکھتی ہوں۔ چاہے کتنی ہی تکلیف دہ بات کیوں نہ ہو ، مگر اس اذیت سے کم ہو گی جو انتظار کی اذیت میں سہ رہی ہوں۔ تبھی اس نے بتایا۔ شازیہ میرے شوہر جس بیچ میں تھے ، سروش بھی اس پیج میں تھے۔ ایک سلیکشن ہوا۔ پھر جب گارگل کی جنگ ہوئی تو محاذ پر دونوں ساتھ تھے۔ اللہ تعالی نے شکیل کی زندگی سلامت رکھی مگر سروش نے شہادت پائی۔ میں تم کو یہ خبر نہیں دے سکی کیونکہ مجھ میں حوصلہ نہ تھا۔ سروش نے تمہارے لئے اپنے والدین سے بات بھی کر لی تھی، وہ بھی راضی تھے مگر زندگی نے اسے اتنی مہلت نہ دی کہ وہ لوگ تمہارا رشتہ مانگنے آتے۔ اب سروش کی شہادت کے رتبہ پر اعلیٰ مقام پاچکا ہے اور اللہ تعالی نے ایسی اسے سر فرازی عطا کی ہے جس سے بڑی سرفرازی اور کوئی نہیں ہے۔ وطن کی سرحدوں پر حفاظت کرتے ہوئے اس نے جام شہادت نوش کیا ہے۔ یہ خبر جب میں نے سنی تو سکتے میں آگئی۔ ہوش نہ تھا کہ روؤں یا خوشی کے اس احساس میں ڈوب جاؤں کہ سروش بے وفانہ تھا بلکہ اس نے اپنے وطن کے لئے جان قربان کی تھی۔

Latest Posts

Related POSTS