Friday, March 29, 2024

Iqbal e Jurm | Episode 1

حسین آباد تھانے کے انچارج بابر علی کو فون موصول ہوا۔ ایک نسوانی آواز تھی۔ گھبرائی ہوئی، روتی ہوئی۔ ’’جلدی آیئے پلیز، میرے چچا جان، میرے چچا جان۔‘‘ آواز سسکیوں میں ڈوب گئی۔
’’کون ہیں آپ بی بی۔ کیا ہوا آپ کے چچا جان کو؟ کسے فون کیا ہے آپ نے؟‘‘ بابر علی نے نرم اور ہمدرد لہجے میں پوچھا۔
’’قتل ہوگئے ہیں، انہیں گولیاں مار کر…‘‘ آواز رکی۔ پھر کہا گیا۔ ’’کیا یہ پولیس اسٹیشن ہے؟‘‘
’’جی بالکل، میں تھانہ انچارج بول رہا ہوں۔ کس نے گولی ماری ہے آپ کے چچا جان کو؟‘‘ بابر علی نے پوچھا۔
’’آپ آجایئے۔ فوراً آجایئے۔‘‘
’’پتا بتایئے؟‘‘ بابر علی نے کہا اور روتی ہوئی آواز نے پتا بتایا۔ جس گھر کی نشاندہی کی گئی تھی، وہ ایک دولت مند شخص حیدر علی کا تھا۔
بابر علی نے موبائل تیار کرائی اور اپنے لوگوں کو لے کر چل پڑا۔
فون مقتول کی بھتیجی صائمہ نادر علی نے کیا تھا، جس کی حالت اس وقت کافی بگڑی ہوئی تھی۔ موقع واردات پر سیٹھ حیدر علی کی لاش اس کے بستر پر پڑی ہوئی تھی۔ اس کو تین گولیاں ماری گئی تھیں۔ ایک گولی سر، ایک گردن اور ایک سینے میں لگی تھی۔
بابر علی نے ابتدائی کارروائی کے بعد مقتول کی بھتیجی صائمہ سے پوچھا۔ ’’حیدر علی آپ کے چچا تھے؟‘‘
’’جی، سگے چچا۔ وہی میرے باپ بھی تھے۔‘‘
’’آپ یہیں رہتی ہیں؟‘‘
’’نہیں۔ میرا گھر تاج نگر میں ہے جہاں میں اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہوں لیکن میں زیادہ تر چچا جان کے یہیں ہوتی ہوں کیونکہ چچی جان کی موت کے بعد وہ تنہا ہوگئے تھے۔‘‘
’’آپ کے شوہر کہاں ہیں؟‘‘
’’وہ اور شاہد شہر سے باہر کاروباری سلسلے میں گئے ہیں۔‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’بھال گری میں میرے شوہر نے فش فارم بنایا ہے۔ اس کی دیکھ بھال کے لئے شاہد اور وہ ساتھ جاتے رہتے ہیں۔ ابھی وہاں کام ہورہا ہے۔‘‘ صائمہ نے بتایا۔
’’شاہد کون ہے؟‘‘
’’میرا بھائی ہے۔ مجھ سے ایک سال چھوٹا ہے۔‘‘
’’وہ کہاں رہتا ہے؟‘‘
’’یہیں چچا جان کے پاس۔ چچا جان ہی ہمارے سب کچھ تھے۔ انہوں نے ہی ہم دونوں کو پالا تھا۔ انہوں نے ہی میری شادی کی تھی۔‘‘
’’آپ کے شوہر کا کیا نام ہے؟‘‘
’’نادر خان۔‘‘
اس تفصیل کے بعد بابر علی نے مزید معلومات حاصل کیں۔ مقتول کی بھتیجی صائمہ اپنے چچا کے پاس آئی ہوئی تھی۔ اس کا شوہر اس کے بھائی کے ساتھ فش فارم گیا ہوا تھا۔ وہ اپنے کمرے میں بے خبر سوئی ہوئی تھی کہ اچانک اسے فائرنگ کی آواز سنائی دی۔ اسے یوں لگا جیسے فائرنگ کی آواز چچا کے کمرے سے آئی ہو جو زیادہ دور نہیں تھا۔ وہ تیزی سے اٹھ کر چچا کے کمرے کی طرف بھاگی اور کمرے میں داخل ہوگئی۔ چچا کے کمرے کا دروازہ اندر سے بند نہیں تھا۔ اندر داخل ہوکر اس نے مدھم روشنی میں دیکھا کہ چچا جان خون میں لت پت پڑے ہیں۔ ان کے جسم سے خون نکل رہا تھا۔ لباس اور بستر خون سے تر ہوچکا تھا۔
صائمہ ہچکیوں کے دوران یہ سب کچھ بتا رہی تھی۔
’’آپ نے کسی کو کمرے سے نکلتے ہوئے نہیں دیکھا یا آس پاس کوئی نظر آیا ہو؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’گھر میں اس وقت آپ کے علاوہ کون کون تھا؟‘‘
’’بس ملازم فضلو، مگر وہ اپنے کوارٹر میں تھا۔‘‘
’’کہاں ہے فضلو؟‘‘ بابر علی نے پوچھا۔ اور دبلا پتا سہما ہوا نوکر فضلو آگے آگیا۔
’’میں ہوں جناب فضلو۔‘‘ فضلو بولا۔ ’’گولیوں کی آواز میں نے بھی سنی تھی سرکار۔ پھر جب صائمہ بی بی کی چیخ سنائی دی تو میں بھاگا بھاگا آیا اور…‘‘ وہ انگوچھے سے آنکھیں پونچھنے لگا۔
’’اس گھر میں اور کون رہتا ہے صائمہ صاحبہ؟‘‘
’’مستقل تو صرف تین افراد چچا، بھائی شاہد اوریہ فضلو۔ لیکن دن کے وقت دو آدمی اور ہوتے ہیں۔‘‘
’’وہ کون ہیں؟‘‘
’’ڈرائیور جاوید خان اور حمید مالی۔‘‘
’’ڈرائیور صرف دن میں ہوتا ہے۔‘‘
’’جی۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ بابر علی نے کہا اور ضروری کارروائی کے بعد لاش پوسٹ مارٹم کے لئے روانہ کردی گئی۔ اس دوران ڈرائیور اور مالی بھی آگئے اور ان سے پوچھ گچھ کی گئی لیکن ان سے کوئی خاص بات نہیں معلوم ہوسکی۔ قتل کی اس واردات کی وجہ نامعلوم تھی۔ قاتل حیدر علی کو قتل کرکے بھاگ گیا تھا۔ اس نے وہاں سے کوئی چیز نہیں اٹھائی تھی۔ اس طرح یہ چوری، ڈکیتی کی واردات نہیں تھی۔ قاتل کا مقصد صرف حیدر علی کو قتل کرنا تھا۔
دن کے بارہ بجے نادر خان واپس آگیا۔ لیکن شاہد اس کے ساتھ نہیں تھا۔ وہ اکیلا ہی آیا تھا۔ یہ اطلاع پا کر اسے سکتہ سا ہوگیا۔ پھر اس نے شاہد کے بارے میں پوچھا۔ ’’شاہد کہاں ہے؟‘‘
’’وہ تو آپ کے ساتھ ہی گیا تھا؟‘‘
’’کیا مطلب۔ وہ واپس نہیں آیا؟‘‘ نادر نے حیرت سے کہا۔
’’نہیں۔‘‘
بعد میں بابر علی کو نادر نے بتایا۔ ’’ہم دونوں کل دوپہر کو یہاں سے ساتھ گئے تھے۔ بھال گری میں، میں نے ایک فش فارم بنایا ہے جہاں میں جاتا رہتا ہوں، ابھی وہاں کام ہورہا ہے، کبھی کبھی میرے ساتھ شاہد بھی جاتا ہے، کل بھی وہ میرے ساتھ گیا تھا لیکن وہ رات کو فارم پر میرے ساتھ نہیں رکا، وہ واپس آگیا تھا۔‘‘
’’لیکن وہ یہاں تو نہیں آیا جبکہ آپ کی مسز نے بتایا کہ آپ دونوں ساتھ ہی آئیں گے۔‘‘
’’حیرت ہے۔ وہ مجھ سے یہی کہہ کر آیا تھا کہ وہ گھر جارہا ہے۔‘‘
’’ہوں۔ آپ کے خیال میں وہ کہاں جاسکتا ہے؟‘‘
’’مجھے اس بارے میں کوئی اندازہ نہیں۔ لیکن ہے عجیب بات۔ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔‘‘
اس بارے میں صائمہ بھی کچھ نہیں بتا سکی۔ ویسے بھی اس کی حالت کافی خراب تھی۔ آنکھیں رو رو کر سرخ ہورہی تھیں۔ اس نے کہا۔ ’’نہیں، شاہد گھر نہیں آیا۔‘‘
’’خیر آپ اس بارے میں ان لوگوں سے پوچھئے جو ان کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔‘‘
مزید گفتگو سے پتا چلا کہ حیدر علی ایک نفیس اور صلح جو انسان تھا۔ اس کی کسی سے معمولی سی بھی رنجش نہیں تھی۔ نادر نے پریشانی سے کہا۔ ’’ہم پر تو یہ ناگہانی آفت آئی ہے۔ چچا جان کی موت ناقابل یقین ہے، ان کی صحت بھی شاندار تھی، اب شاہد کے بارے میں بھی تشویش ہوگئی ہے، وہ بتائے بغیر کبھی باہر نہیں رہا۔‘‘
’’میں چلتا ہوں۔ آپ عزیز و اقارب اور شاہد کے دوستوں میں اسے تلاش کیجئے اور جیسے ہی وہ آئے یا اس کے بارے میں کوئی اطلاع ملے، مجھے فوراً بتایئے۔‘‘
شام تک شاہد کے بارے میں کوئی خبر نہیں ملی۔ لیکن مغرب سے کچھ پہلے ایک نوجوان تھانے میں بابر علی کے پاس پہنچ گیا۔ ’’میرا نام شاہد ہے، میں حیدر علی کا بھتیجا ہوں، جنہیں ان کے گھر میں قتل کردیا گیا ہے۔‘‘
’’اچھا، اچھا۔ آپ کی تو صبح سے تلاش جاری ہے۔ کہاں تھے آپ، پولیس کو آپ کا بیان لینا ہے۔‘‘
’’جی سر۔ میں بیان دینے کے لئے ہی آیا ہوں۔‘‘ اس نے کہا اور اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر رومال میں لپٹی ہوئی کوئی چیز نکال کر انسپکٹر بابر علی کے سامنے رکھ دی۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ بابر علی حیرت سے بولا۔
’’یہ ریوالور ہے۔ وہ ریوالور جس سے آج میرے چچا کا خون ہوا ہے۔‘‘
’’یہ آپ کے پاس کہاں سے آیا۔ کیا آپ اپنے چچا کے قاتل کو جانتے ہیں؟‘‘
’’جی ہاں، میں جانتا ہوں کیونکہ ان کا قاتل میں خود ہوں۔‘‘
’’کیا؟‘‘ حیرت سے بابر علی کا منہ کھل گیا۔ ’’آپ ہوش و حواس میں تو ہیں نا؟‘‘
’’جی۔ میں مکمل ہوش و حواس میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ اپنے چچا کو میں نے خود قتل کیا ہے۔ اسی ریوالور سے میں نے انہیں مارا ہے۔ اس پر میری انگلیوں کے نشانات موجود ہیں۔‘‘
’’لیکن آپ تو اپنے بہنوئی کے ساتھ ان کے فارم ہائوس پر گئے تھے؟‘‘
’’ہاں۔ لیکن میں وہاں سے چلا آیا تھا اور پھر میں نے صبح کو اپنے چچا کا خون کردیا۔‘‘
’’لیکن آپ نے ایسا کیوں کیا؟‘‘ بابر علی نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’میں ان کو ہلاک کرکے ان کی جائداد اور کاروبار پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔‘‘ شاہد نے سرد لہجے میں کہا۔
’’کیا یہ بے وقوفی نہیں۔ تمہارے اور تمہاری بہن کے بارے میں اب تک مجھے جو معلومات حاصل ہوئی ہیں، وہ یہ ہیں کہ چچا کی موت کے بعد آپ دونوں ہی ان کی دولت کے وارث تھے۔ پھر آپ کو اپنے چچا کو قتل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟‘‘
’’میں نے بڑی مشکل زندگی بسر کی ہے۔ چچا بے حد کنجوس تھے۔ میری کوئی ضرورت پوری نہیں ہوتی تھی۔ ان کی صحت بھی شاندار تھی اور دور دور تک ان کی موت کے آثار نہیں تھے۔ مجھے ان کی دولت حاصل کرکے اپنی شاندار زندگی کا آغاز کرنا تھا۔‘‘
’’ٹھیک۔ لیکن اب آپ کو کیا ہوا۔ کون سی چیز نے آپ کو اعتراف جرم پر مجبور کیا؟‘‘
’’میرے ضمیر نے۔ اس جرم کے ارتکاب کے بعد میں شدید ذہنی دبائو کا شکار رہا ہوں۔ مجھے لگ رہا ہے کہ میرے چچا کی روح میرے اردگرد منڈلا رہی ہے۔ وہ مجھ سے ایک ہی سوال کررہی ہے۔ کیوں، شاہد کیوں… میرا ضمیر مجھے مسلسل ملامت کررہا ہے۔ میں اپنے اعصاب پر اس گناہ کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا۔ اس لئے میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں خود کو قانون کے حوالے کردوں اور اپنے جرم کا اعتراف کرلوں۔‘‘
بابر علی کو حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی۔ تاہم یہ انوکھی بات بھی نہیں تھی۔ اکثر جرائم جذبات کے ہاتھوں عارضی طور پر مفلوج ہوکر کئے جاتے ہیں۔ پھر ضمیر کی عدالت انہیں معاف نہیں کرتی۔ آخرکار بابر علی نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے شاہد صاحب، میں آپ کا بیان ریکارڈ کرا لیتا ہوں۔ ایک بات بتایئے، جو کچھ آپ یہاں کہہ رہے ہیں، عدالت میں اس بیان سے مُکر تو نہیں جائیں گے، اس پر قائم تو رہیں گے؟‘‘
’’جی۔ آپ مطمئن رہیں۔ میں نے اپنے جرم کو تسلیم کرنے کا فیصلہ خاصے غوروخوض کے بعد کیا ہے۔‘‘ شاہد نے کہا۔
شاہد کا بیان لے لیا گیا۔ اس کے علاوہ آلۂ قتل بھی پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا اور شاہد کو لاک اَپ کردیا گیا۔ بعد میں پستول کے معائنے سے ظاہر ہوا کہ یہ وہی ریوالور تھا جس سے حیدر علی کو ہلاک کیا گیا تھا۔ وہ تین گولیاں جو مقتول کے جسم سے برآمد کی گئی تھیں، اسی ریوالور سے نکلی تھیں۔ شاہد ہی اپنے چچا کا قاتل تھا۔
بعد میں پولیس نے اس سے اور بہت سی باتیں معلوم کی تھیں جن کے اس نے تسلی بخش جواب دیئے اور پولیس نے پوری تفصیل کے بعد اسے عدالت میں پیش کردیا جہاں اس نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا۔ اس کے
بعد کوئی گنجائش نہیں رہی۔
صائمہ اپنے بھائی کے لئے پاگل ہورہی تھی اور رورو کر ہر ایک سے کہہ رہی تھی کہ اس کا اکلوتا بھائی ہے، کوئی اسے بچا لے۔ لیکن بے چارا نادر علی بھی اس کے لئے کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ اس نے جس وکیل سے بھی بات کی، اس نے معذوری ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کسی اقبالی مجرم کو بھلا کیسے بچایا جاسکتا ہے۔ شاہد کو جیل ریمانڈ پر بھیج دیا گیا۔
٭…٭…٭
’’یار ہم کیسے لوگ ہیں کہ سکون سے بیٹھ ہی نہیں سکتے۔ ہماری طرح کے مصروف لوگ تو دعا مانگتے ہیں کہ خدایا ہمیں بھی فرصت کے چار دن دے۔ لیکن وہ بھی بس دو آرزو میں کٹ جاتے ہیں اور دو انتظار میں۔ حالانکہ مجھ جیسا کوئی لاچار انسان تو یہی دعا مانگ سکتا ہے کہ الٰہی جرم کرنے والوں کو توفیق دے کہ وہ جرم نہ کریں اور مجھے محبوب کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع ملے مگر…‘‘
’’سکون اور فرصت موت کے دو نام ہیں شاہ میر صاحب، تحریک ہی کو زندگی کہتے ہیں۔‘‘ صفورا نے کہا۔
’’آہ! ایسے کیسے گزارہ ہوگا مس صفورا۔ حجلۂ عروسی میں اگر کوئی ٹیلیفون آگیا تو آپ تو وردی پہن کر تفتیش کے لئے چل پڑیں گی اور ہم…‘‘
شاہ میر نے ایسا منہ بنایا کہ صفورا ہنس پڑی۔ شاہ میر نے درد بھری آواز میں کہا۔ ’’للہ اپنی دعا واپس لے لیں اور کسی جرم کی خواہش نہ کریں۔ ویسے بھی جرم کی دعا مانگنا گناہ ہے کہ اس سے کسی کو نقصان ہی پہنچتا ہے۔‘‘
’’میں یہ کہہ رہی تھی کہ آج کل بڑی خاموشی ہے۔ ویسے میں ایک بات سوچ رہی ہوں۔‘‘
’’کیا؟‘‘ شاہ میر نے کہا۔
’’اخبارات میں ایک اشتہار دیا جائے۔ ضرورت ہے مجرموں کی جو جرائم کریں اور ہمیں اس سے آگاہ کریں۔ سب سے اچھا جرم کرنے والے کو…‘‘
’’توبہ توبہ کتنے بُرے خیالات ہیں آپ کے مس صفورا۔ اپنی ایکٹویٹی کے لئے آپ عوام دشمن بن رہی ہیں۔ ویسے بے فکر رہیے۔ ایسا اشتہار کوئی اخبار شائع نہیں کرے گا۔‘‘
’’کرے گا۔‘‘ صفورا نے کہا۔
’’کون…؟‘‘
’’اپنا اجمل شاہ۔‘‘ صفورا نے کہا۔
’’السلام علیکم۔‘‘ اچانک دروازے سے اجمل شاہ کی آواز سنائی دی۔
’’میں نے صفورا صاحبہ کے آخری الفاظ سن لئے ہیں۔ یعنی حیرت ہے میرا ذکر اور ان کی محفل میں۔‘‘
’’کمال ہے۔ شیطان کی تصوراتی تصویریں کتنی غلط شائع کی جاتی ہیں۔ لمبے لمبے سینگ، بھیانک آنکھیں، زبان باہر لٹکی ہوئی۔ اصل شکل یہ ہے۔ ہم آپ ہی کو یاد کررہے تھے اجمل صاحب۔‘‘ شاہ میر نے ہنس کر کہا۔
’’شیطان، میرا مطلب ہے اجمل شاہ حاضر ہے۔‘‘ اجمل شاہ نے کہا۔
’’آیئے اجمل بھائی، ہم واقعی آپ ہی کو یاد کررہے تھے۔‘‘
’’اس بارے میں بعد میں پوچھوں گا کہ کیوں۔ اس وقت اپنے ایک کرم فرما کو آپ سے ملانے لایا ہوں۔ بہت نیک انسان ہیں، عزیز پیپر مارٹ کے مالک ہیں، ان کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ ہمارے اخبار کے لئے کاغذ ادھار دے دیتے ہیں اور تقاضا نہیں کرتے۔ آپ خود سوچیں ان سے زیادہ ہمیں کون عزیز ہوسکتا ہے؟‘‘
’’نام کیا ہے؟‘‘ شاہ میر نے کہا۔
’’عزیز احمد۔‘‘ اجمل شاہ نے کہا۔
’’کہاں ہیں؟‘‘
’’باہر کھڑے ہیں۔ اب شیطان تو کہیں بھی بلااجازت آسکتا ہے، کوئی اور تو نہیں۔ اجازت ہو تو اندر لے آئوں۔‘‘
’’ضرور، ضرور۔‘‘ آنے والا ایک خوش شکل اور پُروقار شخصیت کا مالک تھا۔ شاہ میر نے مسکرا کر اس کا خیرمقدم کیا اور اسے بیٹھنے کی پیشکش کی۔
’’شکریہ! تھوڑا سا نروس ہوں۔ پہلی بار کسی تھانے میں حاضری ہوئی ہے۔‘‘ عزیز احمد نے کہا۔
’’آپ دوستوں کے درمیان ہیں عزیز صاحب۔ آرام سے بیٹھئے۔ میرا نام شاہ میر ہے اور یہ ایس آئی مس صفورا شرجیل ہیں۔‘‘ شاہ میر نے خوش اخلاقی سے کہا۔
عزیز احمد کے چہرے پر ممنونیت کے آثار نظر آئے۔ اسی وقت اجمل شاہ نے کہا۔ ’’میرے محترم عزیز صاحب ایک مشکل کا شکار ہوگئے ہیں۔ میں بڑے اعتماد سے انہیں یہاں لے آیا ہوں۔ بات سوفیصد قانونی اور مشکل ہے لیکن میں نے انہیں بتایا ہے کہ اگر وہ غلط ہے تو شاہ صاحب فوراً معذرت کرلیں گے اور اگر صحیح ہے تو دنیا کی کوئی طاقت کسی بے قصور کو سزا نہیں دے سکتی۔‘‘
’’کیا مسئلہ ہے عزیز صاحب۔‘‘ شاہ میر نے پوچھا۔
’’میں ایک قتل کے کیس میں آپ کے پاس آیا ہوں۔‘‘
’’جی فرمایئے؟‘‘
پوری کہانی سن کر شاہ میر سوچ میں ڈوب گیا۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا۔ ’’پھر آپ کیا چاہتے ہیں؟‘‘
’’مجھے اور میری بہن آئزہ کو یقین ہے کہ یہ قتل شاہد نے نہیں کیا۔‘‘
’’اگر اس نے قتل نہیں کیا تو پھر اس نے اس کا اقبال کیوں کیا ہے؟‘‘
’’یہی وہ اہم سوال ہے جس میں سارے معاملے کا راز چھپا ہے۔‘‘
’’ہر چیز کا ایک جواز ضرور ہوتا ہے۔ آپ صرف اپنے دل کی بات پر ایک ایسے شخص کو بے گناہ قرار دے رہے ہیں جو خود اپنے گناہ کو قبول کررہا ہے۔‘‘
’’ہاں، کیونکہ میں اس کو اچھی طرح جانتا ہوں۔‘‘ عزیز احمد نے گہری سانس لے کر کہا۔
’’وہ آپ کا کون ہے؟‘‘
’’دوست۔ اور یہ لفظ سارے رشتوں کا مجموعہ ہے۔‘‘
’’لیکن یہاں ذاتی جذبات کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ قانون کا معاملہ ہے۔ آپ ایک تعلیم یافتہ آدمی ہیں اور یہ ضرور جانتے ہوں گے کہ قانونی معاملات میں جذباتی رویوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ عدالتوں میں جو کچھ ہوتا ہے، وہ دلیل اور شہادتوں کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ آپ عدالت کو صرف قانون کی زبان میں قائل کرسکتے ہیں۔ آپ کسی ملزم کو صرف یہ کہہ کر نہیں بچا سکتے کہ آپ کے خیال میں وہ بہت شریف آدمی ہے اور ہرگز یہ جرم نہیں کرسکتا۔ خاص طور سے اس صورت میں جبکہ وہ خود اپنے جرم کا اقرار کرچکا ہو۔‘‘
’’جی۔ مجھے آپ سے پورا اتفاق ہے۔‘‘ عزیز احمد نے بے بسی سے کہا۔
’’اچھا، آپ یہ بتایئے کہ آپ کے خیال میں وہ کیا مجبوری ہوسکتی ہے جس کی بنا پر شاہد خود کو قاتل کی حیثیت سے پیش کررہا ہے۔‘‘
’’جناب! اگر مجھے اس کے بارے میں اندازہ ہوتا تو میں سب سے پہلے آپ کو بتاتا۔‘‘
’’اچھا کیا آپ کسی ایسے شخص کا نام بتا سکتے ہیں، آپ کی نظر میں جس نے یہ قتل کیا ہو؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘
’’تو پھر؟‘‘ شاہ میر نے پہلے عزیز احمد، پھر اجمل شاہ کو دیکھا۔ اجمل شاہ بولا۔ ’’یہ ساری جرح میں پہلے ہی کرچکا ہوں۔ آپ سے میں کچھ اور چاہتا ہوں شاہ میر صاحب۔‘‘
’’ہاں، بتایئے۔‘‘ شاہ میر نے بڑی اپنائیت سے کہا۔
’’کچھ وقت آپ ہمیں دے دیجئے۔ اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ اس کیس کے بارے میں ذاتی حیثیت سے تحقیق کرلیجئے۔ اگر کوئی نتیجہ نکل آئے تو ہماری خوش بختی اور اگر شاہد نے ہی یہ قتل کیا ہے تو مجبوری ہوگی۔ ایک بات آپ کو بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔ شاہد، عزیز احمد صاحب کی بہن آئزہ کا منگیتر ہے۔‘‘
’’اوہ!‘‘ شاہ میر نے سیٹی بجانے کے انداز میں ہونٹ سکوڑ کر کہا۔
اسی وقت صفورا بول اٹھی۔ ’’ٹھیک ہے، ہرچند کہ یہ کیس دوسرے تھانے کا ہے، پھر بھی ہم اپنے طور پر اس کی تحقیق کریں گے۔‘‘
اجمل شاہ اور عزیز احمد نے چونک کر صفورا کو دیکھا تھا۔
٭…٭…٭
’’جی نہیں۔ میری زبان کالی نہیں ہے اور یہ سب میرے کہنے سے نہیں ہوا ہے۔ مگر میں جانتی ہوں آپ خود بیکاری سے بور ہورہے تھے۔‘‘ صفورا نے کہا۔
’’آپ اپنی اس زبان سے ہماری شادی کی آرزو بھی کرسکتی تھیں۔‘‘ شاہ میر نے کہا۔
’’آپ خود بھی کچھ کرلیا کریں، سب کچھ میں ہی کروں۔‘‘ صفورا نے آہستہ سے کہا۔
اسی وقت زمان شاہ نے اندر آکر ایڑیاں بجائیں اور بولا۔ ’’معافی چاہتا ہوں سر۔ آپ کی اجازت کے بغیر تین افراد کے لئے چائے کہہ آیا ہوں، بڑی طلب ہورہی تھی، وہ جو شعر ہے۔ رسم موقع بھی ہے، الفت بھی ہے، قانون بھی ہے۔‘‘
’’سزائے موت دلوا دوں گا اگر شعر کو قتل کیا۔ کتنی بار کہا ہے کہ وردی پہن کر شاعری نہ کیا کرو زمان شاہ۔‘‘ شاہ میر نے کہا۔
’’سوری، سوری سر۔‘‘ زمان شاہ نے کان پکڑ کر کہا۔
چائے کے دوران شاہ میر نے زمان شاہ کو پوری کہانی سنائی۔ زمان شاہ گردن ہلا کر بولا۔ ’’سر جی! اس سے پہلے بھی ہمارے پاس ایسے کیس آئے ہیں جن میں کسی نے اقبال جرم کرلیا ہے۔ بظاہر واقعات سیدھے ہوتے ہیں لیکن بعد میں پتا چلتا ہے کہ معاملہ ہی دوسرا تھا۔ میرے خیال میں اس سلسلے میں چھان بین کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘
’’حسین آباد تھانے کا انچارج بابر علی ہے نا؟‘‘ شاہ میر نے کہا۔
’’جی سر! آپ کا مرید ہے، میرے پنڈ کا رہنے والا ہے۔ جب بھی ملتا ہے، آپ کی بڑی تعریفیں کرتا ہے۔‘‘
’’تم اس سے اب تک کی رپورٹ لے لو۔ ہم اس کیس میں اس کی معاونت کریں گے۔‘‘
دوسرے دن بابر علی اس کیس کے کاغذات لے کر آگیا۔ ’’بڑا دل چاہتا تھا کہ آپ سے ملاقات کو شاہ جی۔ میری خوش قسمتی ہے کہ آج آپ سے ملنے کا موقع مل گیا۔‘‘
’’شکریہ بابر صاحب۔ میرے ایک دوست نے مجھ سے درخواست کی ہے کہ میں اس کیس پر ایک نظر ڈال لوں۔ اس کا خیال ہے کہ قتل شاہد نے نہیں کیا، وہ کسی دبائو میں ہے۔‘‘
’’ہوسکتا ہے جناب۔ میں نے اسے لاکھ کریدا کہ وہ کسی جبر یا دبائو کے تحت تو یہ بیان نہیں دے رہا۔ اس نے صاف انکار کردیا۔ اس نے یہی بتایا کہ اس نے دولت کے لالچ میں یہ جرم کیا ہے اور اعتراف جرم کرکے اپنے گناہ کا کفارہ ادا کرنا چاہتا ہے۔‘‘
٭…٭…٭
عزیز احمد کو ایک بار پھر طلب کرلیا گیا تھا۔
’’اجمل شاہ نے بتایا تھا کہ آپ کی بہن آئزہ سے شاہد کی منگنی ہوئی تھی؟‘‘
’’جی ہاں۔ اور میں کچھ عرصے کے بعد دونوں کی شادی کردینا چاہتا تھا۔‘‘ عزیز احمد نے بتایا۔
’’معاف کیجئے عزیز صاحب۔ آپ اس حوالے سے تو نہیں چاہتے کہ شاہد اس جرم سے بری ہوجائے۔‘‘
’’وہ میرا ذاتی دوست ہے اور میری بہن کا مستقبل بھی۔ میں اسے بے شک بچانا چاہتا ہوں کیونکہ میری بہن اس صدمے کو برداشت نہیں کرسکے گی۔ لیکن ان دونوں باتوں سے ہٹ کر آپ کو پورے یقین سے بتانا چاہتا ہوں۔ وہ بے حد شریف انسان ہے، انتہائی رحم دل اور مخلص۔ وہ خود پر جبر کرلیتا ہے، کسی دوسرے کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ آپ خود سوچئے ایسا شخص کسی کو نقصان کیسے پہنچا سکتا ہے۔‘‘
’’کیا… معاف کیجئے۔ آپ کی بہن اور وہ محبت کرتے ہیں؟‘‘
’’ان کی منگنی دونوں کی مرضی سے کی گئی تھی۔ دونوں خوش تھے۔‘‘
’’گرفتاری کے بعد آپ نے اس سے


ملاقات کی؟‘‘
’’جی دو بار! میں نے اسے بہت سمجھایا کہ وہ اصل بات بتا دے۔ آخر وہ کیوں اپنی جان دینے پر تُلا ہوا ہے۔ مگر اس نے ایک ہی رَٹ لگا رکھی ہے کہ یہ قتل اسی نے کیا ہے۔‘‘
’’کیا آپ کی بہن بھی اس سے ملی؟‘‘
’’جی! مگر اس نے اسے بھی یہی جواب دیا کہ جو کچھ وہ کرچکا ہے، اس کی سزا اسے ملنا ضروری ہے۔‘‘
’’تو پھر آپ خود بتایئے۔ ایسے شخص کے لئے کیا کیا جاسکتا ہے۔ اس نے اپنی منگیتر تک کی بات نہیں مانی۔ پھر ہم لوگ کیا کرسکتے ہیں۔‘‘
’’آپ اگر کچھ کرسکتے ہیں تو ضرور کریں۔ وہ قاتل نہیں ہے، بدنصیب ہے۔ پتا نہیں اس کے پس پردہ کیا راز ہے۔ لیکن کچھ ہے ضرور۔ یہ میں دعوے سے کہتا ہوں۔‘‘
’’لیکن اس راز سے پردہ کون اٹھائے گا۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ کہ وہ قاتل نہیں ہے اور اس اعتراف کے پس پردہ کچھ اور ہے تو اس کی پردہ کشائی بھی آپ ہی کرسکتے ہیں۔‘‘ شاہ میر نے سرد لہجے میں کہا۔
’’میں؟‘‘ عزیز احمد نے چونک کر کہا۔
’’جی۔‘‘
’’کیسے؟‘‘ وہ حیرانی سے بولا۔
’’ہر اس پہلو کو سامنے لا کر جو شاہد کی ضد کی بنیاد بن سکتا ہے۔ کہیں نہ کہیں تو تل کی اوٹ پہاڑ چھپا ہوا ہے۔‘‘
’’میں ہر وہ بات بتانے کے لئے تیار ہوں جو مجھے معلوم ہے۔ میں آپ سے کچھ نہیں چھپائوں گا۔‘‘
’’میں آپ لوگوں کے ماضی، آپ کے گھرانے کی مکمل تفصیل، شاہد، اس کی بہن، اس کے بہنوئی نادر خان اور اس کے خاندان کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔‘‘
’’آپ مجھ سے جو بھی پوچھیں گے، بتائوں گا۔‘‘
’’مزید یہ کہ آپ پورے اعتماد سے بتائیں۔ ساری باتیں میرے اور صفورا کے پاس آپ کی امانت ہوں گی۔‘‘
’’جی۔ مجھے بھروسا ہے۔‘‘ عزیز احمد نے کہا۔
٭…٭…٭
دونوں سگے بھائی تھے۔ لیکن دونوں کی فطرت اور سوچ میں بڑا فرق تھا۔ بڑا بھائی صفدر علی تھا، چھوٹے کا نام حیدر علی تھا۔ دونوں کی عمروں میں دو سال کا فرق تھا۔ پڑھا لکھا خاندان تھا۔ ان کا باپ ایک پرائیویٹ فرم میں منیجر کے عہدے پر کام کرتا تھا۔
باپ تعلیم یافتہ تھا۔ اس نے دونوں بیٹوں کو بھی اعلیٰ تعلیم دلوائی تھی لیکن شروع ہی سے دونوں بھائیوں کے رجحانات علیحدہ تھے۔ حیدر علی کو کاروبار سے دلچسپی تھی اور وہ کاروباری لائن کو اپنانا چاہتا تھا جبکہ صفدر علی کو کاروبار سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت تلاش کرلی۔ یہ اچھی ملازمت تھی جبکہ حیدر علی نے کاروبار کے لئے ہاتھ پائوں مارنے شروع کردیئے اور آہستہ آہستہ اس میں کامیاب ہوتا چلا گیا۔
کچھ عرصے کے بعد دونوں کی شادیاں ہوگئیں۔ صفدر علی کی بیوی کا نام میمونہ تھا اور حیدر علی کی بیوی کا نام دردانہ۔ دونوں پڑھی لکھی اور سلجھی ہوئی طبیعت کی مالک تھیں اور اپنے شوہروں کی اچھی ساتھی تھیں۔
ان کی شادی شدہ زندگی خوشگوار تھی۔ پھر صفدر علی اور حیدر علی کے والدین ایک ایک کرکے رخصت ہوگئے۔ والدین کی جدائی دونوں بھائیوں کے لئے بڑی اندوہناک تھی۔ ایک کنبہ تھا جو ایک دوسرے سے ذہنی طور پر منسلک تھا۔ سب ساتھ رہتے تھے، کوئی چپقلش نہیں تھی۔ تاہم حیدر علی نے ایک کرم فرما کی وساطت سے شہر کے ایک اچھے علاقے میں پلاٹ لے لیا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ اس کی تعمیر بھی شروع کردی تھی۔ منصوبہ یہی تھا کہ گھر بن جائے گا تو اسے کرائے پر اٹھا کر آمدنی بڑھائی جائے گی۔ رہنے کے لئے ماں باپ کا گھر موجود تھا۔ مکان تیار ہوگیا۔ کچھ رنگ و روغن کا کام باقی تھا کہ ماں باپ اللہ کو پیارے ہوگئے۔
صفدر علی ایک فرم میں کام کرتا تھا اور اسے مکان کے کرائے کی مد میں معقول رقم ملتی تھی۔ والدین کے جدا ہونے کے بعد مزاجوں میں کچھ تبدیلیاں ہوئیں اور فیصلہ کیا گیا کہ یہ آبائی مکان فروخت کردیا جائے۔ چنانچہ مکان بک گیا۔ حیدر علی اپنے گھر کو مکمل کرا کر اس میں منتقل ہوگیا۔ صفدر علی نے کرائے پر گھر لے لیا اور اپنے بیوی اور ایک بچے کے ساتھ اس گھر میں چلا گیا۔ اس وقت صفدر علی کا صرف ایک بیٹا تھا جس کا نام اس نے شاہد علی رکھا تھا۔ بعد میں ایک بیٹی بھی پیدا ہوگئی، اُس کا نام صائمہ رکھا گیا۔ البتہ حیدر علی کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی۔ حیدر علی اور اس کی بیوی اولاد کے نہ ہونے سے افسردہ رہتے تھے۔ ان کی دلی آرزو تھی کہ ان کے ہاں بھی اولاد ہو اور ان کی دولت کا کوئی وارث ہو۔ لیکن قدرت کو یہ منظور نہیں تھا۔
پھر آسمان نے رنگ بدلا، جھیل کی ساکن سطح پر بھنور آگیا اور ایک خوفناک حادثے نے دونوں خاندانوں کی بنیادوں میں شگاف ڈال دیا۔ شاہد کی عمر اس وقت بارہ سال تھی اور اس کی چھوٹی بہن صائمہ نو سال کی تھی۔ اس شام صفدر علی اور میمونہ کو ایک شادی میں جانا تھا۔ صرف میاں بیوی کے لئے دعوت نامہ تھا۔ بچوں کو گھر میں چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا تھا لیکن دعوت نامہ صرف مسٹر اور مسز کے نام کا تھا اس لئے دونوں نے بچوں کو لے جانا مناسب نہیں سمجھا۔ البتہ گھر کی ملازمہ سے کہا گیا کہ وہ رات کو رک جائے، ممکن ہے واپسی میں دیر ہوجائے۔
’’ٹھیک ہے بیگم صاب! آپ فکر نہ کریں۔‘‘
’’بچوں کو کھانا کھلا دینا۔‘‘
’’آپ بے فکر ہوکر جائیں، میں سب کرلوں گی۔‘‘ ملازمہ نے کہا اور دونوں میاں بیوی اپنی کار میں بیٹھ کر چلے گئے۔ ان دنوں شادی کی تقاریب میں وقت کی پابندی نہیں تھی۔ چنانچہ ان لوگوں کو واپسی میں کافی دیر ہوگئی۔ صفدر علی رات کو زیادہ دیر تک جاگنے کا عادی نہیں تھا۔ چنانچہ شادی ہال میں دیر ہوجانے سے اس کی آنکھیں نیند میں ڈوب رہی تھیں اور بار بار پلکیں جھپک جاتی تھیں۔ گاڑی وہی چلا رہا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا، ایک ٹرالر سے خطرناک ٹکر ہوئی اور کار کے پرخچے اُڑ گئے۔ دونوں میاں بیوی موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔
حیدر علی کو رات گئے اس ہولناک سانحے کی اطلاع مل گئی اور دونوں میاں بیوی دوڑ پڑے۔ بڑا قیامت خیز سانحہ تھا جس نے ان لوگوں کی زندگی کا رخ ہی بدل دیا۔ شاہد اور صائمہ اکیلے رہ گئے۔ اب حیدر علی کے علاوہ دنیا میں ان کا اور کوئی نہیں رہ گیا تھا۔
طویل عرصے تک ہر فرد سوگوار رہا۔ حیدر علی کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی۔ ویسے بھی شاہد اور صائمہ بھائی کی نشانی تھے۔ چنانچہ حیدر علی انہیں اپنے پاس لے آیا۔ صفدر علی ملازمت پیشہ تھا۔ اس کے پاس کوئی خاص جمع پونجی نہیں تھی جبکہ حیدر علی بہترین مالی پوزیشن کا حامل تھا۔ چنانچہ بچوں کی بہترین پرورش کوئی مسئلہ نہیں تھی۔ ماں باپ کی اچانک جدائی نے بچوں کو گم صم کردیا تھا۔ لیکن حیدر علی نے اپنے بے پناہ پیار اور توجہ سے دونوں کی ذہنی حالت کافی حد تک بحال کردی۔
حیدر علی کے لئے وہ بھائی کی نشانی تھے۔ چنانچہ وہ ان پر جان چھڑکتا تھا لیکن دردانہ نے حد کردی تھی۔ وہ انہیں دیوانوں کی طرح چاہنے لگی اور دونوں بچے بھی اسے سگی ماں کی طرح پیار کرنے لگے۔
’’ہمارے لئے تو آپ ہی سب کچھ ہیں چچا جان۔ اگر آپ نہ ہوتے تو ہم دونوں بہن بھائیوں کا نہ جانے کیا ہوتا، آپ ہی ہمارے ابو ہیں۔‘‘
گزرتی عمر کے ساتھ دردانہ کو یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ ہمیشہ بے اولاد رہے گی۔ لیکن اس نے اپنی زندگی شاہد اور صائمہ کے لئے وقف کردی تھی۔ دونوں بچے اچھی تعلیم حاصل کررہے تھے اور اپنے باپ کی زندگی سے کہیں بہتر حالت میں پرورش پا رہے تھے۔ انہیں دنیا بھر کی سہولتیں حاصل تھیں۔ ادھر قدرتی طور پر حیدر علی کے کاروبار میں دن رات ترقی ہوتی جارہی تھی اور وہ کافی دولت مند آدمی بن چکا تھا۔ اس نے کافی جائداد بھی بنا لی تھی۔ کوٹھیاں، دکانیں اور پلاٹ جو اس کے کاروبار کا حصہ تھے، وہ خرید و فروخت میں لگا رہتا تھا جن سے اسے زبردست آمدنی ہوتی تھی۔
کاروبار کافی بڑھ گیا تھا۔ بیشک حیدر علی کے بہت سے کارندے تھے لیکن اسے تنہا ہی پورے معاملات سنبھالنے پڑتے تھے۔ اس کی دلی خواہش تھی کہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ شاہد اس کا کاروبار سنبھالے۔ اب وہی اس کا مستقبل تھا۔ یہ سب کچھ انہی دونوں بہن بھائیوں کے لئے تھا۔
ایک دن اس نے اپنا مدعا ظاہر کیا۔ ’’کاروبار پھیلتا جارہا ہے شاہد بیٹے اور میں بوڑھا ہوتا جارہا ہوں لیکن میری جوانی تم ہو۔ میں چاہتا ہوں اب تم مجھے ریٹائر کردو۔‘‘
’’میں سمجھا نہیں چچا جان۔‘‘ شاہد نے کہا۔
’’تم جائداد کی خرید وفروخت کا کام سنبھال لو۔‘‘
’’یعنی پراپرٹی ڈیلر بن جائوں۔‘‘ شاہد نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’میرے کام کا مذاق مت اُڑائو شاہد۔ میں نے بڑی محنت سے یہ سب کچھ بنایا ہے۔‘‘
’’میں جانتا ہوں چچا جان۔ لیکن مجھے ایک بات بتایئے۔‘‘ شاہد نے منطقی انداز میں کہا۔ ’’آپ کے پاس کروڑوں روپے کا کاروبار اور جائداد ہے۔ خدا آپ کو سیکڑوں سال کی زندگی عطا فرمائے۔ لیکن آخرکار زندگی کی انتہا ہوتی ہے اور ہم اپنے ساتھ کچھ نہیں لے جاتے۔ پھر انسان ہزار کو لاکھ اور لاکھ کو کروڑ بنانے کے لئے اپنا سکھ چین کیوں تباہ کردیتا ہے۔ اتنی دولت پر اکتفا کیوں نہیں کرتا کہ زندگی سکون سے گزر جائے۔‘‘
’’نہیں بیٹے۔ دنیا کو دیکھو، انسان ترقی کرنے کے لئے محنت کرتا ہے، اپنی نسلوں کو محفوظ کرتا ہے، معیشت اسی طرح چلتی ہے، ہر شخص اس طرح مطمئن ہوکر بیٹھ جائے تو سب کچھ تباہ ہوجائے، میرے خیال میں تم کاروبار میں دلچسپی لیا کرو، دفتر آیا کرو، میری کرسی پر بیٹھ کر جائزہ لیا کرو کہ میں کیا کرتا ہوں اور مستقبل میں تمہیں کیا کرنا ہے۔ میرا کیا ہے، کتنی دن زندگی ہے میری، میرے بعد…‘‘
شاہد نے جلدی سے آگے بڑھ کر حیدر علی کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور جذباتی لہجے میں بولا۔ ’’خدا کے لئے دوبارہ اپنے منہ سے یہ لفظ نہ نکالئے گا۔ آپ کے علاوہ دنیا میں ہمارا کون ہے۔ آپ ایسی بات کرتے ہیں تو مجھے ابو یاد آجاتے ہیں۔ آپ میرے ابو ہیں آپ… آپ۔‘‘ شاہد کی آواز بھرّا گئی۔ صائمہ کی آنکھوں سے بھی آنسو بہنے لگے۔
’’ارے نہیں، میں ابھی نہیں مروں گا، ابھی تو مجھے بہت کچھ دیکھنا ہے۔ صائمہ کو اس کے گھر بھیجنا ہے، شاہد کے بچوں کے ساتھ کھیلنا ہے۔‘‘ حیدر علی نے جلدی سے کہا۔
یہ جذباتی باتیں اکثر ہوتی تھیں اور جذباتی طور پر ختم بھی ہوجاتی تھیں۔ صائمہ البتہ اکثر تلقین کرتی۔ ’’چچا جان ٹھیک کہتے ہیں شاہد، تم آفس جایا کرو، ان کا کام دیکھا کرو۔‘‘
’’مجھے اس دو اور دو چار سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جو کام مجھے پتا ہی نہیں، وہ
کیسے کرسکتا ہوں۔‘‘
’’پھر تم کیا کرو گے؟‘‘
’’پتا نہیں۔‘‘ شاہد لاپروائی سے کہتا۔
’’یہ غلط ہے شاہد۔ بہت بڑا کاروبار ہے چچا جان کا اور کون ہے ہمارے سوا۔ لوگ دولت کے لئے ترستے ہیں۔ دولت کیا چیز ہوتی ہے، تم اس پر غور کرو۔ اگر تم نے اس کاروبار کو نہیں سنبھالا تو پھر اتنے بڑے کاروبار کو اور کون سنبھالے گا۔‘‘
’’پتا نہیں تم کیوں نہیں سمجھتیں۔ میں اس مزاج کا انسان نہیں ہوں۔ بس خدا چچا جان کو سلامت رکھے۔‘‘
صائمہ تھک ہار کر خاموش ہوجاتی۔ وہ اکثر سوچتی کہ آخر آگے چل کر ہوگا کیا۔ شاہد زندگی میں کیا کرے گا۔ شاہد ان دنوں ایم اے کررہا تھا اور صائمہ بی اے کے پہلے سال میں تھی۔ ان دونوں کے بہت سے دوست اور سہیلیاں تھے جو ان کے گھر آتے رہتے تھے۔ اسی طرح یہ دونوں بھی اپنے دوستوں کے گھر جاتے تھے۔ حیدر علی اور اس کی بیوی دردانہ روشن خیال تھے۔ اس کے علاوہ یہ دونوں بچے ان کی آغوش میں پروان چڑھے تھے۔ اس پڑھے لکھے گھرانے کے ان بزرگوں کو اپنے بچوں پر پورا اعتماد تھا۔ چنانچہ انہیں مناسب آزادی حاصل تھی۔
ادھر عزیز احمد بھی شاہد کے ساتھ ہی پڑھتا تھا اور اس کے گہرے دوستوں میں تھا۔ شاہد بھی اپنے اس دوست کو بہت عزیز رکھتا تھا۔ عزیز احمد بڑی بے تکلفی سے شاہد کے گھر آتا تھا۔ خود عزیز کی دو بہنیں تھیں جن میں بڑی کا نام آئزہ تھا۔ آئزہ تقریباً صائمہ کی ہم عمر تھی۔ اس سے چھوٹی بہن نمرہ البتہ ابھی اسکول میں پڑھتی تھی۔ آئزہ بیشک دوسرے کالج میں پڑھتی تھی لیکن وہ بھی عزیز احمد کے حوالے سے صائمہ کی بہت اچھی دوست بن چکی تھی۔
دونوں بہن بھائی یعنی آئزہ اور عزیز احمد کی دوستی بہت آگے بڑھ چکی تھی اور جب شاہد اور آئزہ نے اپنا جائزہ لیا تو انہیں احساس ہوا کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے ہیں۔ دونوں کے مزاج یکساں تھے اور یہی یکسانیت انہیں قریب لے آئی تھی۔ ویسے عزیز احمد اور آئزہ کا خاندان بھی کسی سے کم نہیں تھا۔ اگرچہ وہ لوگ اتنے دولت مند نہیں تھے جتنا دولت مند حیدر علی کا گھرانہ تھا لیکن پھر بھی وہ کھاتے پیتے لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ آئزہ بہت اچھی لڑکی تھی۔ ذہین اور شائستہ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ حسین بھی تھی اور شاہد کے گھر والے بھی اسے پسند کرتے تھے۔ ان کی محبت کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔
یہ خاندان اتنا گھل مل گیا تھا کہ ایک دوسرے سے الگ نہیں لگتا تھا۔ آئزہ اور شاہد ایک دوسرے کے خاصے قریب آگئے تھے۔ لیکن صائمہ اور عزیز احمد کے درمیان ایسا کوئی جذبہ نہیں پیدا ہوسکا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ خود عزیز احمد، صائمہ سے متاثر نہیں ہوسکا تھا ورنہ شاید صائمہ آسانی سے اس کی زندگی میں آسکتی تھی۔ ان دونوں کے مزاج میں پسند اور ناپسند، ان کے رویوں میں کافی فرق تھا۔ عزیز احمد اپنے لئے ایک ایسی لڑکی چاہتا تھا جس کے ساتھ اس کی ذہنی مطابقت ہو اور جو زندگی کے سفر میں اس کے لئے زیادہ مسائل نہ پیدا کرے جبکہ ان ملاقاتوں میں اس نے محسوس کیا تھا کہ صائمہ کافی حد تک مغرور مزاج ہے۔ اس کی بہت سی باتوں سے اس کا اندازہ ہوتا تھا۔ ویسے دونوں ایک دوسرے سے خوش اخلاقی سے ملتے تھے لیکن دونوں کو اندازہ تھا کہ ان کے دلوں میں ایسا کوئی جذبہ نہیں پیدا ہوسکا جو انہیں ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے قریب کردیتا۔
پھر نادر خان اچانک صائمہ کی زندگی میں داخل ہوا اور بڑی تیزی سے چھاتا چلا گیا۔ بلاشبہ نادر خان بہترین مردانہ وجاہت کا مالک تھا۔ اس کا قد چھ فٹ دو انچ تھا۔ رنگ سرخ و سفید، آنکھیں چمکدار اور چہرہ کرختگی لئے ہوئے تھا۔ اس کے انداز سے لگتا تھا کہ وہ قوت تسخیر رکھتا ہے اور اس نے واقعی صائمہ کو تسخیر کرلیا۔ اس کا تعلق ایک متمول گھرانے سے تھا۔ اس کا باپ بھی کاروبار کرتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ سیاست میں بھی حصہ لیتا تھا اور اس کے ذریعے زبردست مفادات حاصل کرتا تھا بلکہ سیاست بھی اس کے کاروباری امور کا ایک حصہ تھی۔
صائمہ سے اس کی ملاقات اپنی دوست ثمن کے ہاں ایک تقریب میں ہوئی تھی۔
’’اوہ۔ مس صائمہ! میں آپ کے چچا جان سے واقف ہوں۔ شاید انہیں بھی میرا نام یاد ہو۔‘‘
’’اچھا۔ کیسے؟‘‘ صائمہ نے اس شخص میں دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔
’’میں نے نیو وے پر اپنا ایک فش فارم بنایا ہے۔ فش فارم کی یہ زمین میں نے ان ہی سے خریدی تھی۔‘‘
’’گڈ… کبھی ہماری طرف آیئے۔‘‘ صائمہ نے کہا۔
’’کبھی؟‘‘ نادر خان نے معنی خیز لہجے میں کہا۔
’’جی۔ میں سمجھی نہیں۔‘‘
’’میرا مطلب ہے کل، شام کی چائے پر کیوں نہیں؟‘‘ نادر خان نے بے تکلفی سے کہا۔
’’کل آجایئے۔‘‘ صائمہ ہنس کر بولی۔
’’نہیں جناب۔ اس انداز میں نہیں، ایسے ہم نہیں آئیں گے۔‘‘
’’تو پھر؟‘‘
’’تھوڑے سے چاہت بھرے انداز میں کہیں، نادر خان صاحب! آپ اگر کل شام کی چائے میرے ساتھ پئیں تو مجھے خوشی ہوگی۔‘‘ صائمہ خوب ہنسی پھر اس نے اسی انداز میں نادر خان کو چائے کی پیشکش کی، جسے اس نے قبول کرلیا۔
تقریب کے دوران ہی ثمن نے صائمہ سے کہا۔ ’’یار صائمہ! میں تم سے تھوڑی سی جیلس ہوگئی ہوں۔‘‘
’’ارے کیوں؟‘‘ صائمہ نے حیرت سے کہا۔
’’نادر خان کے ساتھ تمہاری جوڑی کس قدر سج رہی تھی۔ تم یقین کرو مجھ سے کئی لڑکیوں نے کہا کہ ذرا اس جوڑے کو دیکھو، کتنا پیارا لگ رہا ہے۔ بس کیا کروں۔ اگر میری منگنی ناصر سے نہ کردی گئی ہوتی تو… تو میں نادر خان پر ضرور ڈورے ڈالتی۔‘‘
’’تو کیا ہے، منگنی توڑ دو۔‘‘
’’ہائے! مجھے ناصر سے بھی تو پیار ہے۔‘‘ ثمن نے مسخرے پن سے کہا اور صائمہ نے اس کی پیٹھ پر دھول جما دی۔ لیکن وہ رات، ایک اجنبی سی رات جو پہلے کبھی نہیں آئی تھی۔ وہ چہرہ، وہ آواز۔ آنکھوں میں نیند نہیں آنے دے رہی تھی۔ وہ سوچتی رہی۔
دوسرے دن وہ آگیا۔ صائمہ نے گھر میں بتا دیا تھا کہ اس نے شام کی چائے پر ایک مہمان بلایا ہے۔ یوں اس گھر میں نادر خان کا داخل ہوا اور اس نے اپنی ساحرانہ قوت سے پورے گھر سے دوستی کرلی۔ شاہد بھی اس سے گھل مل گیا۔
سارے گھر والوں کو جلد ہی اس بات کا پتا چل گیا کہ نادر خان اور صائمہ ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے ہیں۔ حیدر علی ان کی شادی کے بارے میں سوچنے لگے۔ کہیں نہ کہیں تو اس کی شادی کرنی تھی۔ نادر خان اس لحاظ سے اچھا لڑکا تھا کہ تعلیم یافتہ تھا۔ ایک اچھے کاروباری گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور بظاہر اس میں کوئی برائی نہیں تھی۔ پھر سب سے بڑی بات یہ تھی کہ صائمہ جیسی نک چڑھی لڑکی نے اسے پسند کرلیا تھا جو کسی کو خاطر میں نہیں لاتی تھی۔ شاہد بیشک صائمہ سے چھوٹا تھا لیکن گھر کا ذمہ دار فرد تھا، اسے بھی کوئی اعتراض نہیں تھا۔ چنانچہ نادر خان کے گھر والوں نے رشتہ دیا اور اسے منظور کرلیا گیا اور کچھ عرصے کے بعد دونوں کی شادی ہوگئی۔
اس شادی سے عزیز احمد کو بھی خوشی ہوئی تھی۔ اس کی اور شاہد کی گہری دوستی تھی اور کئی بار اسے محسوس ہوا تھا کہ حیدر علی، صائمہ کے سلسلے میں اس کی طرف متوجہ ہیں اور اس بات کے خواہشمند ہیں کہ عزیز احمد کے گھر والے صائمہ کے لئے عزیز احمد کا رشتہ دیں۔ لیکن عزیز احمد اور صائمہ ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ دونوں کے درمیان بس ایک رسمی سی سلام دعا تھی۔ عزیز احمد کو خطرہ تھا کہ کہیں اس کا عزیز ترین دوست اس سے اپنی بہن کے ساتھ شادی کی فرمائش نہ کر بیٹھے۔ یہ لمحات عزیز احمد کے لئے بڑے روح فرسا ہوتے۔ وہ فیصلہ نہ کر پاتا کہ اسے کیا کرنا چاہئے لیکن شکر تھا کہ نادر خان نے اس کی یہ مشکل حل کردی تھی۔ اس نے بڑھ چڑھ کر اس شادی میں حصہ لیا تھا۔ اس کے علاوہ حیدر علی اور دردانہ نے یہ شادی اس طرح کی تھی کہ شاید صفدر علی بھی اس شان و شوکت سے یہ شادی نہ کر پاتے۔ انہوں نے صائمہ کو جی کھول کر جہیز دیا تھا۔ اس کے گھر والے نہال ہوگئے تھے جبکہ خود نادر خان بھی ہوائوں میں اُڑ رہا تھا۔ سسرال والوں نے اسے سلامی میں قیمتی کار اور صائمہ کو ایک خوبصورت کاٹیج دیا تھا۔
صائمہ اپنے گھر چلی گئی۔ ادھر آئزہ اور شاہد تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آتے گئے۔ شاہد، عزیز احمد کا گہرا دوست تھا۔ یہ جان کر اسے بے حد خوشی ہوئی کہ شاہد اس کی بہن کو پسند کرتا ہے۔ تب دردانہ نے ایک دن عزیز احمد سے کہا۔ ’’بیٹے اصولی طور پر مجھے تمہارے گھر آکر یہ بات تمہارے اہل خانہ سے کرنی چاہئے تھی لیکن میں تمہیں شاہد سے کم نہیں سمجھتی، اس لئے پہلے تمہارا عندیہ لینا چاہتی ہوں تاکہ آگے اعتماد سے بات کرسکوں۔‘‘
’’حکم چچی جان۔‘‘ عزیز احمد نے کہا۔
’’میں شاہد کا رشتہ آئزہ کے لئے دینا چاہتی ہوں، تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘
’’اس کا فیصلہ بھی آپ ہی کو کرنا ہوگا چچی جان۔ وہ آپ ہی کی بیٹی ہے۔‘‘ دردانہ نے فیصلہ کرلیا۔ آئزہ کی منگنی بڑی دھوم دھام کے ساتھ شاہد سے ہوگئی اور شادی کے بارے میں طے ہوا کہ وہ ایک سال کے بعد کی جائے گی کیونکہ عزیز احمد کے سگے تایا امریکا میں رہتے تھے اور وہ آئندہ سال اپنے گھر والوں کے ساتھ آسکتے تھے۔ مزید یہ کہ ان کا خاندان بہت بڑا تھا اور دنیا کے مختلف ملکوں میں رہتا تھا۔ اس لئے ان کی شرکت کے لئے بھی وقت درکار تھا۔ منگنی میں بھی سب کی کمی محسوس کی گئی تھی جسے شادی میں پوری کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اس میں دونوں گھرانوں کو اعتراض نہیں تھا۔
لیکن فیصلے اصل میں کہیں اور ہوتے ہیں اور وہی فیصلے مستحکم ہوتے ہیں۔ وہی ہوا دردانہ پر کچھ عرصے کے بعد ہی فالج کا حملہ ہوا۔ وہ تقریباً ایک ماہ اسپتال میں رہی۔ پھر گھر واپس آگئی لیکن وہ معذور ہوگئی تھی، چل پھر نہیں سکتی تھی۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ وہ ہمیشہ کے لئے معذور ہوگئی ہے اور اب کبھی چل پھر نہ سکے گی۔
حیدر علی کے لئے یہ سانحہ بے حد خوفناک تھا۔ وہ دردانہ سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔ حالانکہ اولاد نہ ہونے کی صورت میں اس کے دوستوں نے بارہا اسے مجبور کیا کہ وہ دوسری شادی کرلے۔ خود دردانہ نے بھی کئی بار کہا کہ وہ بڑی خوشی سے اسے دوسری شادی کی اجازت دیتی ہے لیکن حیدر علی ہنس کر خاموش ہوجاتا تھا یا پھر کہتا۔ ’’ٹھیک ہے، میں تیار ہوں لیکن ایک شرط پر۔‘‘
’’بتائو؟‘‘
’’تمہیں گارنٹی دینی ہوگی کہ دوسری بیوی کے ہاں اولاد ضرور ہوگی۔‘‘
’’یہ میں کیسے کہہ سکتی ہوں۔‘‘
’’میں دوسری شادی کا تصور بھی نہیں


کرسکتا۔‘‘
اتنی چاہت تھی دونوں کے درمیان، اور اب اچانک دردانہ کا جیتا جاگتا وجود، زندگی سے بھرپور بدن اچانک گوشت کے بے جان لوتھڑے کی شکل اختیار کرگیا تھا۔ دردانہ کو اس حال میں دیکھ کر اس کا کلیجہ پھٹتا تھا۔
جس وقت دردانہ پر فالج کا حملہ ہوا تھا، اس وقت صائمہ اور نادر خان سیروتفریح کے لئے یورپ جانے کا پروگرام بنا رہے تھے۔ انہیں رکنا پڑا۔ نادر خان کا موڈ خراب ہوگیا۔ اس نے تنہائی میں کہا۔ ’’تمہاری شادی ہوچکی ہے۔ اب دردانہ آنٹی کی دیکھ بھال تمہاری ذمہ داری نہیں ہے۔ ہماری زندگی کے یہی دن سیر و سیاحت کے لئے ہیں۔ پھر کہاں وقت ملے گا۔ حیدر انکل ان کے لئے ایک نرس رکھ لیں جو ان کی بہتر دیکھ بھال کرسکتی ہے۔‘‘
’’میں چچا جان سے بات کرتی ہوں۔‘‘ صائمہ نے کہا۔
صائمہ کی بات کے جواب میں حیدر علی نے کہا۔ ’’نرس کل صبح سے آجائے گی صائمہ۔ لیکن تمہاری بات اور ہے۔ ہم نے اپنی اولاد کی حیثیت سے تمہیں دیکھا ہے۔ دردانہ تمہیں کتنا چاہتی ہے، تم جانتی ہو، تم لوگ کچھ عرصے کے لئے اپنا پروگرام ملتوی کردو۔‘‘ حیدر علی نے صائمہ کے چہرے کی کشمکش صاف محسوس کرلی تھی۔
(جاری ہے)

Latest Posts

Related POSTS