Thursday, April 25, 2024

Iqbal e Jurm | Episode 2

اس کے بدن میں ایک لمحے کے لئے تھرتھراہٹ پیدا ہوگئی۔ کسی نے کہا تھا۔ ’’حیدر علی! یہ تیرے بچے نہیں ہیں، تیرا خون نہیں ہیں، انہیں اتنا پیار نہ کر کہ جواب نہ ملنے سے دکھی ہوجائے، یہ تجھے وہ نہیں دے سکیں گے جو تو انہیں دے رہا ہے۔‘‘
’’پاگل ہو تم۔ وہ میرا خون کیوں نہیں ہیں، میرے بھائی کی اولاد ہیں، میں انہیں اپنی ہی اولاد سمجھتا ہوں۔‘‘
لیکن اس وقت صائمہ کی آواز اسے بڑی اجنبی لگی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی۔ ’’یہ بہت مشکل ہے چچا جان۔ سارے انتظامات مکمل ہوچکے ہیں اور پھر نادر خان کو شاید یہ اچھا نہ لگے۔‘‘
’’ایں… ہاں… یہ تو ہے۔‘‘ اس کے علاوہ حیدر علی کو اور کچھ کہتے نہ بن پڑا۔ صحیح جواب مل گیا تھا۔ اس کے ٹوٹے دل کو شاہد کی آواز نے ڈھارس دی۔ ’’میں ہوں نا چچا جان! آپ فکر نہ کریں۔ میں چچی جان کو نرس کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑوں گا۔ میں خود ان کے پاس چوبیس گھنٹے رہوں گا۔ آپ بالکل بے فکر رہیں۔‘‘
حیدر علی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
صائمہ اور نادر خان یورپ چلے گئے۔ لیکن شاہد نے قول نبھایا۔ اس نے حق نمک ادا کردیا۔ وہ واقعی چوبیس گھنٹے دردانہ کی مسہری کے ساتھ لگا بیٹھا رہتا تھا۔ ایسے وقت میں آئزہ نے اس کا بھرپو ر ساتھ دیا۔ شاہد کی منگیتر کی حیثیت سے ہی سہی، وہ سارے کاموں میں پیش پیش رہتی تھی۔ نرس کے ساتھ مل کر وہ دردانہ کو غسل کراتی، اس کا لباس بدلواتی، ہر کام اپنی نگرانی میں کراتی تھی اور نہ صرف حیدر علی بلکہ شاہد بھی اس کے بہت شکر گزار تھے۔
’’یہ غلط ہے۔ اس طرح شاہد تم میری حیثیت صفر کردیتے ہو۔ وہ میری بھی تو چچی جان ہیں۔ بولو نہیں ہیں؟‘‘
’’ہیں۔‘‘ شاہد علی پیار سے کہتا۔
نادر خان اور صائمہ دو ماہ کے بعد واپس آئے۔ یورپ سے واپسی پر وہ دوسرے دن حیدر علی کے گھر آئی تھی۔ کل بارہ بجے دن پہنچی تھی۔ ایسی تھکی ہوئی تھی کہ آنے کی ہمت ہی نہ پڑی۔ ’’کیسی ہیں چچی جان؟‘‘ صائمہ نے اجنبی لہجے میں پوچھا۔
’’ٹھیک ہیں۔‘‘ حیدر علی نے آہستہ سے کہا۔
صائمہ بھول گئی تھی کہ صفدر علی نے اس کے لئے کچھ خاص نہیں چھوڑا تھا۔ اس کی جو شان و شوکت تھی، وہ حیدر علی کے دم سے تھی اور اس چچی نے اسے اپنی سگی اولاد کی طرح پالا تھا لیکن اب اس کے پاس چچی کے لئے وقت نہیں تھا۔ ہفتے میں ایک آدھ بار وہ اسے دیکھنے آجاتی تھی۔
پھر ایک دن اچانک دردانہ کا انتقال ہوگیا۔ اس وقت اس کے پاس کوئی نہیں تھا۔ نرس اس کو کھانا کھلا کر ذرا دیر کے لئے باہر گئی تھی۔ اس دن صائمہ اور نادر خان اس کے پاس آئے تھے اور بہت دیر تک بیٹھے رہے تھے۔ ان کے آنے سے دردانہ بہت خوش ہوئی تھی، پھر وہ چلے گئے تھے لیکن اسی رات دردانہ اچانک مر گئی۔
نرس اسے کھانا کھلا کر گئی تھی۔ حیدر علی، شاہد کو ایک ضروری کام سے اپنے ساتھ لے گیا تھا، واپس آیا تو دردانہ مر چکی تھی۔ نرس نے کانپتی آواز میں کہا۔ ’’بالکل ٹھیک تھیں سر! بس دس منٹ کے اندر ختم ہوگئیں۔‘‘
گھر پر غموں کی بارش ہوگئی۔ حیدر علی کے لئے بیوی کی موت بہت بڑا صدمہ تھی۔ وہ آخری وقت کی ساتھی تھی۔ بیوی، بیوی ہوتی ہے۔ ہر دکھ درد کی ساتھی۔ وہ بہت نڈھال ہوگیا۔
زندگی کے معمولات میں دلچسپی لینے کے لئے اب اس کے پاس کچھ نہیں تھا۔ بس شاہد ہی اس کے ساتھ لگا رہتا تھا۔ صائمہ کی بے اعتنائی وہی تھی۔ وہ اکثر شوہر کے ساتھ آجاتی تھی اور رسمی طور پر گھر کی دیکھ بھال کی اداکاری کرتی، پھر واپس چلی جاتی تھی۔ ہاں آئزہ اور اس کا بھائی اور شاہد کا دوست ان لوگوں کی ہر طرح خبرگیری کرتے تھے۔
صائمہ بظاہر تو چچا کی دلجوئی کے لئے آتی تھی لیکن آہستہ آہستہ وہ گھر کی ساری قیمتی چیزیں چچی جان کی نشانی کہہ کر ساتھ لے جاتی اور یہ کام وہ اکیلی نہیں کرتی تھی۔ ان چیزوں کے انتخاب میں نادر خان اس کے ساتھ بلکہ اس کے آگے ہوتا تھا۔
بے چارے حیدر علی کو اپنے تن بدن کا ہوش نہیں تھا۔ اس نے آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا کہ صائمہ اور نادر خان کیا کررہے ہیں اور کس بے حیائی سے ایک ایک چیز پر ہاتھ صاف کررہے ہیں لیکن شاہد نے بہن اور بہنوئی کی خودغرضی اور لوٹ مار پر غور کرنا شروع کردیا تھا۔ اسی طرح آئزہ بھی سب دیکھ رہی تھی اور سمجھ رہی تھی۔
دردانہ کی موت کے بعد صائمہ کی یہاں آمدورفت اور کم ہوگئی۔ وہ جس قدر گھر کی صفائی کرنا تھی، کر چکی تھی اور اب وہ شاذونادر ہی حیدر علی کے پاس آتی تھی جبکہ حیدر علی اسے یاد کرتا رہتا تھا اور اس کے رویئے پر افسردہ رہتا تھا۔
دردانہ کی موت کے چھ ماہ کے بعد حیدر علی کو قتل کردیا گیا۔ حیدر علی کے قتل کی اطلاع عزیز احمد کو صائمہ کے فون سے ملی تھی۔ صائمہ نے زاروقطار روتے ہوئے عزیز احمد کو بتایا کہ چچا جان کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا ہے۔
عزیز احمد ہکّابکّا رہ گیا۔ بمشکل اس کے منہ سے نکلا۔ ’’کب… کہاں؟‘‘
’’ان کے کمرے میں ان کی خون میں لت پت لاش پڑی ہوئی ہے۔‘‘ صائمہ ہچکیوں کے درمیان بولی۔
’’شاہد سے بات کرائو، وہ کہاں ہے؟‘‘
’’وہ گھر پر نہیں ہے۔ نادر سے بھی رابطہ نہیں ہورہا۔ ان کے فون پر شاید سگنل نہیں آرہے۔ میں سخت پریشان ہوں عزیز بھائی۔ آپ پلیز۔ میرے چچا جان۔‘‘ صائمہ کی ہچکیاں بندھ رہی تھیں۔
’’آپ خود کو سنبھالیں صائمہ۔ میں ابھی پہنچ رہا ہوں۔‘‘ عزیزاحمد نے کہا اور سلسلہ منقطع کردیا۔
پھر اس نے آئزہ کو یہ ہولناک خبر دی۔ وہ بھی دنگ رہ گئی۔ پھر دونوں بہن بھائی بھاگم بھاگ حیدر علی کے گھر پہنچ گئے۔ پولیس پہلے ہی وہاں آچکی تھی اور انچارج بابر علی اپنا کام کررہا تھا اور پوچھ گچھ کا سلسلہ جاری تھا۔
’’شاہد کہاں ہے؟‘‘
’’وہ نادر کے ساتھ گئے ہوئے ہیں۔‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’شاید فش فارم۔‘‘
’’کب گئے ہیں۔ کیا آج؟‘‘
’’نہیں۔ کل سہ پہر سے۔‘‘
’’آپ کب یہاں پہنچیں۔ آپ کو کس نے خبر دی؟‘‘ عزیز نے پوچھا۔
’’میں یہیں تھی۔ نادر خان کے ساتھ آئی تھی۔ اس کے بعد نادر، شاہد کو لے کر چلے گئے اور میں چچا جان کے ساتھ رہ گئی۔ نادر اور شاہد کہہ کر گئے تھے کہ وہ آج گیارہ بجے تک آجائیں گے۔‘‘
عزیز احمد اور آئزہ بھی اس ہولناک واقعے سے سخت متاثر تھے۔ وہ لوگ صائمہ کو تسلیاں دے رہے تھے۔ صائمہ کی حالت کافی خراب ہورہی تھی۔ وہ رو رو کر کہہ رہی تھی کہ آج وہ یتیم ہوگئی ہے۔ چچا اور چچی نے ہم دونوں بہن بھائی کو کبھی ماں باپ کی کمی نہیں محسوس ہونے دی تھی۔
پھر نادر خان واپس آگیا۔ لیکن وہ اکیلا تھا۔ اس نے یہ حیرت انگیز انکشاف کیا کہ شاہد اس کے پاس نہیں تھا۔ وہ کل شام ہی فارم ہائوس سے غائب ہوگیا تھا، اسے بتائے بغیر۔ اس کا موبائل بھی بند تھا۔
بعد میں اسے سارا دن تلاش کیا گیا لیکن اس کا کوئی پتا نہیں چلا ۔ لیکن شام کو یہ وحشت ناک خبر ملی کہ شاہد نے تھانے میں حاضر ہوکر خود کو حیدر علی کے قاتل کی حیثیت سے پیش کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ پستول بھی پولیس کے حوالے کردیا ہے جس سے گولی چلا کر حیدر علی کو قتل کیا گیا تھا۔
صائمہ دیوانی ہوگئی تھی۔ اس پر غشی کے دورے پڑنے لگے۔ ہوش میں آتی تو کہتی۔ ’’ہائے شاہد، یہ تو نے کیا کیا، تو نے فرشتے کو مار ڈالا۔‘‘ آئزہ اسے سہارا دیئے ہوئے تھی حالانکہ اس کا دل بیٹھا جارہا تھا۔ شاہد اس کی محبت، اس کا مستقبل تھا۔ اب کیا ہوگا۔ شاہد کسی کو مار سکتا ہے کیا؟
دوسری طرف نادر خان بھی دنگ تھا۔ اس نے پولیس کو بیان دیا کہ اس نے دولت کے لئے حیدر علی کو قتل کیا ہے لیکن سب کچھ اسی کا تو تھا۔ پھر اس جرم کی کیا ضرورت تھی۔ ایک دن سب کچھ اسی کو ملنا تھا۔
جو سنتا تھا، حیران رہ جاتا تھا۔ سگے بھتیجے نے اپنے چچا کو مار دیا اور پھر خود ہی تھانے حاضر ہوکر اپنے جرم کا اعتراف کرلیا۔
’’وہ ایسا نہیں کرسکتا آئزہ، وہ ایسا کبھی نہیں کرسکتا۔ میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں۔‘‘ آئزہ بھائی کے شانے سے سر ٹکا کر رو پڑی۔
’’میں جانتی ہوں بھائی۔ مجھے معلوم ہے شاہد کسی کو…‘‘ آئزہ کی آواز بند ہوگئی۔ بمشکل اس نے کہا۔ ’’پتا نہیں پولیس ان کے ساتھ کیا سلوک کررہی ہوگی۔‘‘
’’نہیں۔ پولیس اس کے ساتھ بدسلوکی نہیں کرے گی کیونکہ اس نے خود جرم کا اعتراف کیا ہے۔‘‘
’’آپ پولیس اسٹیشن جاکر شاہد سے ملیں۔ ان سے پوچھیں، وہ تو آپ کے گہرے دوست ہیں، آپ کو سب کچھ بتا دیں گے۔‘‘ آئزہ نے کہا۔
’’ہاں۔ میں اس سے جاکر ملتا ہوں۔ وہ ایسا کرہی نہیں سکتا۔ میں اس کی فطرت سے واقف ہوں۔ وہ خود تو ہر تکلیف برداشت کرسکتا ہے، کسی اور کو دکھ نہیں دے سکتا۔‘‘
عزیز احمد، بابر علی کے تعاون سے شاہد سے ملنے میں کامیاب ہوگیا۔ ’’اور اگر تم مجھ سے بھی یہی کہو شاہد کہ تم نے حیدر علی کو قتل کیا ہے تو میں خود کو دنیا کا ناکام ترین انسان سمجھوں گا۔ مجھے فخر تھا کہ میں تمہارا گہرا دوست ہوں اور ہم دو نہیں ایک ہیں۔ کیا تم مجھے اصلیت بتائو گے؟‘‘ عزیز احمد نے کہا۔
’’اصلیت وہی ہے عزیز احمد، جو میں نے پولیس کو بتائی ہے۔ میں نے جرم کیا ہے اور اسی کا اعتراف کیا ہے۔‘‘ شاہد نے غم میں ڈوبی آواز میں کہا۔
’’جھوٹ بول رہے ہو تم۔ مجھ سے بھی جھوٹ بول رہے ہو۔ تم ایسا کر ہی نہیں سکتے۔ تم اپنے چچا سے جتنا پیار کرتے تھے، یہ مجھ سے زیادہ کون جانتا ہے۔‘‘
’’بس، شیطان انسان کے ساتھ یہی کرتا ہے۔ میں ہوس اور لالچ کا شکار ہوگیا تھا۔ لیکن اب اپنے کئے پر شرمندہ ہوں۔ اسی لئے میں خود کو سزا دلوانا چاہتا ہوں۔ مجھے جینے کا حق نہیں ہے۔‘‘
’’کاش تم پہلے جیسے مخلص شاہد بن جائو۔ کاش تم سچ بول دو کاش!‘‘ عزیز احمد نے درد بھرے لہجے میں کہا۔
’’جو کچھ میں نے کیا ہے، مجھے اس کی سزا ضرور ملنی چاہئے۔‘‘ شاہد نے حتمی لہجے میں کہا اور عزیز احمد دل میں دکھ بسائے وہاں سے واپس آگیا۔ وہ خود سے سوال کرتا تو اس کا دل اس بات کی نفی کرتا کہ شاہد جیسا نیک نفس انسان اپنے چچا کو قتل کرسکتا ہے۔ لیکن وہ ہمت نہیں ہارنا چاہتا تھا۔ شریف اور عزت دار آدمی تھا۔ آئزہ کے چہرے کو دیکھ کر بھی اس کا دل کٹتا تھا۔ آئزہ ہر وقت روئی روئی سی رہتی تھی۔ اس نے آئزہ سے کہا کہ وہ تھانے جاکر شاہد سے بات کرے، اسے سمجھائے اور اصلیت معلوم کرے۔ تھانے کے نام سے ہی انسان کو وحشت ہوتی ہے۔ لیکن محبت کی ماری آئزہ فوراً تیار ہوگئی۔
’’میرا
کیا ہوگا شاہد۔ تمہیں سزا ہوئی تو میں بھی مر جائوں گی۔ خودکشی کرلوں گی، بتائے دے رہی ہوں۔‘‘
’’میں تمہارا بھی گناہگار ہوں آئزہ۔ واقعی مجھے تمہارا خیال کرنا چاہئے تھا لیکن جو کچھ کرچکا ہوں، اسے واپس نہیں لا سکتا۔ تم ایسا مت کرنا آئزہ۔ میں مر کر بھی خود کو معاف نہیں کروں گا۔‘‘
’’تم نے چچا جان کو قتل نہیں کیا، سمجھے۔‘‘ آئزہ نے کہا۔
’’جو میں نے کیا ہے، اس سے انکار کیسے کرسکتا ہوں؟‘‘ شاہد نے کہا۔
آئزہ کی ناکامی کے بعد عزیز احمد نے صائمہ اور نادر خان سے بات کی۔
’’وہ نہیں سمجھ رہا۔ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ بڑی سے بڑی سزا ہوسکتی ہے۔ خدا نخواستہ کہیں ہم اس سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔‘‘
’’کیا کریں۔ وہ خود اپنے جرم کا اعتراف کررہا ہے۔‘‘ نادر خان نے کہا۔
’’پھر بھی آپ دونوں اسے سمجھانے کی کوشش کریں۔ ممکن ہے وہ کسی دبائو میں آکر یہ اعتراف کررہا ہو۔‘‘
’’کمال کی بات کررہے ہیں آپ عزیز احمد صاحب۔ اگر ایک شخص کچھ کر بیٹھا ہے اور اسے اپنے کئے پر ندامت ہے تو آپ اس کا بیان کیسے بدلوا سکتے ہیں۔‘‘ نادر خان کے لہجے میں کسی قدر ناگواری پیدا ہوگئی۔ صائمہ بھی پتھرائی ہوئی بیٹھی رہی تھی۔
’’آپ کہہ رہے ہیں تو میں اور صائمہ ایک بار پھر اس سے ملاقات کرکے بات کرتے ہیں، شاید کوئی بات بن جائے۔‘‘ نادر خان نے کہا۔
دوسرے دن اس نے فون کرکے عزیز احمد کو بتایا کہ شاہد اپنی بات پر اَڑا ہوا ہے اور ٹس سے مس نہیں ہورہا۔
’’مجھے چاروں طرف سے مایوسی ہورہی تھی۔ کبھی کبھی مجھے جھنجلاہٹ ہونے لگی تھی کہ وہی بات ہے مدعی سست گواہ چست۔ میں پریشان پھر رہا ہوں اور اسے پروا نہیں ہے۔ بیشک مجھے اس کی دوستی عزیز ہے لیکن میری بہن کی جو کیفیت ہے، وہ مجھے بہت دکھ دے رہی ہے۔ آپ یقین کریں انسپکٹر صاحب! وہ قاتل نہیں ہے، وہ ایسا کر ہی نہیں سکتا۔ خیر اجمل شاہ صاحب سے بھی میری بہت عرصہ سے شناسائی ہے۔ اکثر اپنے اخبار کے لئے مجھ سے کاغذ لیتے رہے ہیں، اچھے انسان ہیں۔ مجھے پریشان دیکھ کر مجھ سے وجہ پوچھی تو میں نے بتا دی۔ کہنے لگے کہ تمہیں یقین ہے کہ شاہد نے قتل نہیں کیا؟ میں نے کہا کہ ہاں مجھے یقین ہے تو انہوں نے آپ کا نام لیا۔ میں نے کہا کہ کیس تو دوسرے تھانے میں ہے۔ تو اجمل شاہ نے کہا کہ وہ شخص جھوٹ کو جھوٹ اور سچ کو سچ ثابت کرنے کے لئے اس دنیا میں آیا ہے۔ وہ ضرور تمہاری مشکل حل کرے گا۔‘‘
عزیز احمد خاموش ہوگیا۔ اس نے اپنی یادداشت اور معلومات کے سوتے کھول دیئے تھے۔ صفورا اور شاہ میر پوری توجہ سے عزیز احمد کی داستان سن رہے تھے۔ دونوں کافی دیر تک خاموش رہے پھر شاہ میر نے صفورا کی طرف دیکھا۔
صفورا نے عزیز احمد سے کہا۔ ’’آپ یوں کریں کل کسی وقت آئزہ کو لے کر یہاں آجائیں یا اگر یہاں مناسب نہ سمجھیں تو کہیں اور…‘‘
’’آپ جیسے حکم دیں۔ ہم جتنے پریشان ہیں، بتا نہیں سکتے۔‘‘ عزیز احمد نے کہا۔
’’ٹھیک ہے، کل شام چار بجے آپ آئزہ کو لے کر یہیں آجائیں۔‘‘
شاہ میر کے چہرے پر ایک خوشگوار تاثر پھیلا ہوا تھا۔ عزیز احمد کے جانے کے بعد اس نے کہا۔ ’’مجھے بہت خوشی ہوئی ہے اس وقت۔‘‘
’’کس بات پر؟‘‘ صفورا نے پوچھا۔
’’آئزہ سے ملاقات کی بات اگر تم نہ کہتیں تو میں کہنے والا تھا۔ خوشی اس بات کی ہے کہ اب تم اعتماد اور ذہانت سے اچھے فیصلے کرلیتی ہو۔ اچھا مجھے بتائو تمہارے ذہن میں آئزہ سے ملاقات کا خیال کیوں آیا؟‘‘
صفورا اسے اپنی سوچ کے بارے میں بتانے لگی۔ تب شاہ میر نے اپنا منصوبہ بتایا۔
عزیز احمد کی اس معاملات سے لگن کا اندازہ اس طرح ہوتا تھا کہ دوسرے دن جونہی چار بجے، اردلی نے عزیز احمد اور اس کی بہن کے آنے کی اطلاع دی۔ صفورا اور شاہ میر نے خوش اخلاقی سے ان کو خوش آمدید کہا۔ شاہ میر نے صفورا کو آئزہ سے بات چیت کی مکمل آزادی دے دی تھی اور خود عزیز احمد سے باتیں کرتا رہا تھا۔ صفورا کوئی ایک گھنٹے تک آئزہ سے باتیں کرتی رہی تھی۔ پھر وہ فارغ ہوگئی اور بولی۔ ’’میں نے آئزہ سے بات مکمل کرلی ہے۔ یہ ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کریں گی اور ہم تین دن کے بعد شاہد سے ملاقات کریں گے۔‘‘
’’میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ اب وہ جیل میں ہے۔ بابر علی نے اس کا چالان پیش کردیا ہے اور اس کی پیشی کی تاریخ مل گئی ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، میں معلوم کرلوں گا۔‘‘ شاہ میر نے کہا۔
٭…٭…٭
حسین آباد پولیس اسٹیشن کا انچارج بابر علی اپنی ذمہ داری پوری کرچکا تھا۔ قتل کا مجرم اقبالی تھا۔ کسی بھی طرح وہ اپنا بیان بدلنے پر آمادہ نہیں تھا۔ چنانچہ بابر علی نے عدالت میں چالان پیش کردیا تھا اور پیشی کی تاریخ مل گئی تھی۔
شاہ میر کے لئے جیل میں شاہد علی سے ملاقات کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ جیلر امتیاز احمد کے شاہ میر سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ چنانچہ اس نے ہر طرح کی سہولت مہیا کی تھی۔
صفورا کے منصوبے کے مطابق آئزہ نے دوبارہ شاہد سے ملاقات کرکے بمشکل اسے انسپکٹر شاہ میر سے ملنے پر آمادہ کیا تھا۔
’’تم لوگ مُردے میں جان ڈالنے کی کوشش کیوں کررہے ہو۔ میں نے جرم کیا ہے، میں قانون کا ہی نہیں اپنے ضمیر کا بھی مجرم ہوں، مجھے صرف موت کی سزا چاہئے۔‘‘
’’اور میں تمہاری ہی نہیں، اپنی بھی زندگی بچانا چاہتی ہوں۔ اگر تمہیں سزائے موت ہوئی تو اس سے ایک دن پہلے تمہیں اطلاع مل جائے گی کہ آئزہ گردن میں پھانسی لگا کر مر چکی ہے۔ خدا کی قسم میں ایسا ہی کروں گی۔‘‘
’’نہیں۔ خدا کے لئے آئزہ۔ ایسا مت کرنا۔‘‘ شاہد رو پڑا۔
’’اور میں جو دن رات رو رہی ہوں شاہد۔‘‘
’’تم کیا چاہتی ہو؟‘‘
’’تمہارا سچ۔ تم انسپکٹر شاہ میر سے مل لو۔ ان سے سچ بولو، وہ ہمارے ہمدرد ہیں۔‘‘ آئزہ نے کہا اور شاہد نے گردن جھکا دی۔
شاہ میر اور صفورا نے شاہد کو دیکھا۔ خوبصورت نوجوان تھا۔ عمر زیادہ نہیں تھی۔ اس کے چہرے کی سادگی اور معصوم سے نقوش اس بات کے گواہ تھے کہ وہ قاتل نہیں ہوسکتا۔ اس نے سہمی ہوئی نظروں سے ان اسمارٹ پولیس والوں کو دیکھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کسی کالج کے خوبصورت جوڑے نے شرارتاً پولیس کی وردی پہن لی ہو۔
’’جی سر؟‘‘ اس نے کہا۔
’’تو تم نے دولت کے حصول کے لالچ میں اپنے چچا کو قتل کیا؟‘‘
’’جی سر۔‘‘
’’اور اس سے پہلے اپنی چچی کو۔‘‘ شاہ میر نے سرد لہجے میں کہا۔
’’جی۔ آپ نے… آپ نے چچی کہا؟ چچی۔‘‘ وہ ہکلا کر بولا۔
’’جی ہاں۔ چچا کے قتل کا اعتراف اور چچی کے قتل سے انحراف۔ یہ میری سمجھ میں نہیں آیا۔‘‘
’’چچی کا قتل۔‘‘ شاہد نے اضطراب سے پوچھا۔
’’چچا کی جائداد کا راستہ صاف کرنے کے لئے چچی کا درمیان سے ہٹنا ضروری تھا۔ مجھے صرف اس بات کی الجھن ہے شاہد کہ چچی کے قتل کے وقت تمہارا ضمیر کیوں نہیں جاگا۔ بس میں اتنا جاننا چاہتا ہوں۔‘‘
’’چچی کو قتل نہیں کیا گیا تھا۔ وہ بیمار تھیں۔‘‘
’’جھوٹ بول رہے ہو۔ یہ اخبار کی تازہ خبر ہے اور یہ پوسٹ مارٹم رپورٹ!‘‘ شاہ میر نے دونوں چیزیں شاہد کے سامنے کردیں۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں دردانہ زوجہ حیدر علی کی موت کی رپورٹ تھی جس میں تفصیل بتائی گئی تھی کہ دردانہ کو زہر دے کر ہلاک کیا گیا تھا۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ پولیس کو شبہ ہوا کہ حیدر علی کے قاتل بھتیجے نے چھ ماہ قبل اپنی چچی کو بھی زہر دے کر ہلاک کرد یا تھا۔ چنانچہ لاش قبر سے نکال کر اس بات کی تصدیق کرلی گئی۔
صفورا اور شاہ میر نے شاہد سے تین دن کے بعد ملاقات کا وقت اسی لئے لیا تھا کہ اجمل شاہ کے اخبار سے یہ کام لے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی ضرورت کے مطابق حاصل کرلی گئی تھی۔ شاہ میر کے لئے یہ مشکل کام نہیں تھا۔ اجمل شاہ نے بھی دلچسپی سے تعاون کیا تھا اور شاہ میر کی مرضی کے مطابق خبر چھاپی تھی۔
اس تفصیل کا ری ایکشن بھرپور ہوا۔ شاہد کا چہرہ گہرا سرخ ہوگیا۔ اس کی کنپٹی کی رگیں پھول گئیں اور وہ شدید ہیجان کا شکار نظر آنے لگا۔ دردانہ کے انتقال کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ ماں باپ کی موت کے بعد چچا اور چچی نے دونوں بھائی بہن کو جس طرح رکھا تھا، اس طرح شاید کوئی بھی نہیں رکھ سکتا تھا۔ اور پھر دردانہ نے تو خاص طور سے شاہد کو شہزادہ بنا کر رکھا تھا۔ اتنا خیال رکھتی تھی اس کا کہ شاہد کی گردن جھک جاتی تھی۔ وہ بھی دردانہ کو سگی ماں کی طرح چاہتا تھا۔ چچی کے قتل کے انکشاف نے اسے پاگل کردیا تھا۔
’’کیا یہ سچ ہے چچی کو بھی، میری چچی کو۔‘‘ اس کی آواز آنسوئوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔
’’یہی میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ جن لوگوں نے آپ کے چچا کو قتل کیا ہے، وہ چھ ماہ پہلے آپ کی چچی کو قتل کرچکے ہیں۔ ان کا پلان کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے اور انہوں نے بڑی ذہانت سے آپ کو قاتل بنا کر پیش کیا ہے۔ آپ دانستہ یا نادانستہ ان کے آلۂ کار بنے ہیں۔‘‘
’’میری چچی کو قتل کیا ہے؟‘‘ وہ بدستور ایک ہی جملے کی گردان کر رہا تھا۔
’’آپ یہاں آرام سے بیٹھ کر موت کا انتظار کریں لیکن قانون بے وقوف نہیں ہے۔ ہم کام کررہے ہیں، آپ کی منگیترر آئزہ ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کررہی ہیں۔ آپ کے حق میں استغاثہ انہوں نے ہی دائر کیا ہے اور انہی کی درخواست پر پولیس نے لاش نکلوا کر اس کا پوسٹ مارٹم کرایا ہے۔‘‘
’’اوہ میرے خدا۔‘‘ شاہد کے چہرے پر نفرت کے آثار نمودار ہونے لگے۔
’’تم بزدل ہو شاہد۔ احمقوں کی طرح اپنے آپ کو مٹا سکتے ہو۔ جو کام آئزہ نے کیا ہے، وہ تمہاری بہن کو کرنا چاہئے تھا لیکن خیر… تم مرنا چاہتے ہو، بیشک مر جائو۔ لیکن پولیس حیدر علی اور دردانہ کے اصل قاتلوں کو بہت جلد گرفتار کرلے گی۔‘‘
’’میرے چچا رخصت ہوگئے اور چچی نہیں۔ یہ غلط ہے، یہ غلط کیا گیا ہے۔ میری چچی میرے لئے ماں سے بڑھ کر تھیں۔ میں ان کے قاتلوں کو کبھی معاف نہیں کرسکتا۔‘‘
’’اور تم… تم ان دونوں کے قاتلوں کو اچھی طرح جانتے ہو۔‘‘ شاہ میر نے کہا۔
’’میں… میں کیا کروں؟‘‘ وہ گلوگیر لہجے میں بولا۔
’’اپنی احمقانہ ضد کو چھوڑ کر پولیس کی مدد کرو اور جن لوگوں نے دولت اور جائداد کے لالچ میں تمہارے چچا اور چچی کو قتل کیا ہے، انہیں روشنی میں لائو۔‘‘
٭…٭…٭
عزیز احمد، شاہد کے عزیز ترین دوستوں میں تھا۔ شاہد بھی اسے بے حد پسند کرتا تھا۔ شاہد
آئزہ بھی پسند کرتی تھی اور پھر جب اس نے محسوس کیا کہ شاہد بھی اسے پسند کرتا ہے تو دونوں تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آگئے۔ اس بات کا علم عزیز احمد کو بھی ہوگیا۔ وہ اس بات سے ناخوش نہیں بلکہ خوش ہوا۔ اس نے دل میں سوچا کہ اس کی بہن کے لئے شاہد ایک اچھا شوہر ثابت ہوگا۔ ادھر شاہد کے دل میں بھی یہ خیال تھا کہ وہ عزیز احمد سے اپنی بہن صائمہ کی شادی کروا دے لیکن جلد اسے اندازہ ہوگیا کہ صائمہ اور عزیز احمد ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے۔
پھر نادر خان ان کے درمیان آگیا اور بہت جلد حیدر علی کو یہ اندازہ ہوگیا کہ صائمہ، نادر خان کو پسند کرتی ہے۔ نادر خان خود بھی صاحب حیثیت آدمی تھا۔ حیدر علی اور دردانہ نے اسے ناپسند نہیں کیا اور جب حیدر علی نے ان دونوں کی شادی کا فیصلہ کیا تو شاہد ان سے متفق نہیں تھا۔ لیکن بہن کے مزاج کو سمجھتا تھا۔ وہ نک چڑھی اور مغرور فطرت کی مالک تھی اور عموماً شاہد اس کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا تھا۔ اس لئے اس نے اس فیصلے میں مداخلت نہیں کی جبکہ نادر خان اسے پسند نہیں تھا۔
نادر خان اور صائمہ کی شادی ہوگئی۔ نادر خان شاہد کا بہنوئی بن گیا۔ لیکن شاہد کو اس کا افسوس تھا۔ وہ نادر خان کی جگہ عزیز احمد کو دیکھنا چاہتا تھا لیکن یہ نہ ہوسکا۔ رفتہ رفتہ اسے اندازہ ہوتا گیا کہ نادر خان واقعی اچھا انسان نہیں ہے۔ وہ کسی قدر حاسد اور لالچی بھی تھا۔ اکثر وہ حیدر علی کی دولت اور کاروبار کے بارے میں چھان بین کرتا رہتا تھا اور کئی بار اس نے شاہد سے بھی اس طرح کی باتیں کی تھیں۔
’’تمہیں جب چچا جان کی دولت اور جائداد ملے گی تو تم ان کے کاروبار کو دیکھو گے یا اپنا کچھ اور کام کرو گے؟‘‘ ایک بار اس نے پوچھا۔
’’خدا انہیں سلامت رکھے، بس۔ میں اس طرح کبھی نہیں سوچتا۔‘‘
’’سوچنا چاہئے۔ تمہارے اور صائمہ کے علاوہ اُن کا کون ہے، ان کے بعد صائمہ کے معاملات بھی مجھے ہی دیکھنے ہوں گے۔‘‘
شاہد نے ناگواری سے منہ بنا لیا تھا۔ اسے نادر خان کی یہ بات بری لگی تھی لیکن بہنوئی کا رشتہ تھا۔ اس نے کوئی اظہار نہیں کیا۔
صائمہ اور نادر خان کی شادی کے کچھ عرصے کے بعد ہی دردانہ کا انتقال ہوگیا۔ شاہد کے لئے یہ بہت بڑا صدمہ تھا۔ ماں باپ کا نعم البدل دونوں چچا اور چچی اسے بہت پیارے تھے۔ جب صفدر علی اور میمونہ کار ایکسیڈنٹ میں مرے تھے تو دونوں بہن بھائی اچھے سمجھدار تھے۔ شاہد کافی عرصہ گم صم رہا تھا۔ اگر چچا چچی سہارا نہ دیتے تو پتا نہیں دونوں بہن بھائی کا کیا حال ہوتا۔ پھر جس انداز میں چچا چچی نے انہیں سینے سے لگایا تھا، اس میں دنیا داری نہیں بلکہ خلوص اور پیار تھا۔ چچی کی موت والدین کی موت کے بعد دوسرا عظیم سانحہ تھی۔ شاہد بہن سے چھوٹا تھا لیکن بڑے بھائی جیسا پیار کرتا تھا۔ اس سے اور اس کی ہر خواہش کا احترام کرتا تھا۔ نادرہ بیگم کی موت کے بعد حیدر علی بے حد اداس رہنے لگا تھا۔ ایک دن نادر خان اور صائمہ رات کے کھانے پر آئے ہوئے تھے۔
کھانے کی میز پر حیدر علی نے اداس لہجے میں کہا۔ ’’میں اس کاروبار کو فروخت کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔‘‘
’’کیوں چچا جان؟‘‘ نادر خان نے چونک کر کہا۔
’’بس۔ شاہد کو کاروبار سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور میں تھک گیا ہوں، اب دل نہیں لگتا۔‘‘
’’آپ کے کاروبار کی تو دنیا تعریف کرتی ہے چچا جان۔ اتنے شاندار کاروبار کو آپ چھوڑ دینا چاہتے ہیں؟‘‘ نادر خان نے کہا۔
’’بس، اب دل اُکتا گیا ہے۔‘‘ حیدر علی نے اداسی سے کہا۔
’’آپ اپنی ذمے داریاں نادر کو کیوں نہیں دے دیتے چچا جان۔ یہ بھی تو آپ کے بیٹے ہیں۔‘‘ صائمہ نے کہا۔
’’نہیں۔ نادر خان اپنا کام کررہے ہیں، یہ ممکن نہیں ہے۔‘‘ حیدر علی نے ٹالنے والے انداز میں کہا اور بات بدل دی۔ نادر خان نے کسی طرح کا تاثر نہیں دیا تھا البتہ صائمہ کے جانے کے بعد حیدر علی نے کہا۔ ’’مجھے افسوس ہے کہ مجھے صائمہ کی بات کے جواب میں یہ خشک رویہ اختیار کرنا پڑا۔ میں نادر خان کے بارے میں زیادہ اچھے خیالات نہیں رکھتا اور پھر اس کے اہل خانہ بھی زیادہ اچھی رپورٹیشن نہیں رکھتے۔ خاص طور سے نادر خان کا باپ بہت لالچی انسان ہے۔ نادر خان کے ہاتھ میں اپنا کاروبار دینے کا مطلب ہے کہ میں اسے یہ سب کچھ سونپ دوں۔ میرے دل میں ایک آرزو ہے شاہد… تم اپنا رویہ بدل دو، کاروبار میں دلچسپی لو اور میرا بوجھ ہلکا کردو۔ دوسری صورت صرف یہ ہے کہ میں کاروبار فروخت کردوں اور تم دونوں کو ان کے حصے دے دوں۔‘‘
ان دنوں وہ اس کاروبار کو فروخت کرنے کی تیاریاں کررہے تھے۔ اس کے علاوہ بھی شاہد نے کچھ اور انکشافات کئے تھے جو بے حد اہم تھے۔
’’آپ نے یہ جادو کہاں سے سیکھا؟‘‘ صفورا نے واپسی میں شاہ میر سے پوچھا۔
’’کون سا جادو؟‘‘
’’جو کام شاہد کا جگری دوست، اس کی منگیتر اور محبوبہ نہ کرسکی، آپ نے ایک ہی دائو میں اسے چت کردیا۔‘‘
’’چھوڑو یار! کوئی جادو وادو نہیں۔ آج تک تم پر تو کوئی جادو کارگر نہیں ہوسکا۔‘‘ شاہ میر نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔
’’یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں۔ میں تو سر سے پائوں تک سحر زدہ ہوں۔ دن رات مرشد مرشد کی گردان کرتی رہتی ہوں۔‘‘ صفورا شوخی سے بولی۔
شاہ میر نے کار کو بریک لگا دیئے۔
’’کیا ہوا؟‘‘ صفورا چونک کر بولی۔
’’تمہارے ان الفاظ سے میرے دل کو ایسا ہی جھٹکا لگا ہے۔ ویسے اس ریسٹورنٹ میں کافی بہت اچھی ملتی ہے۔‘‘ شاہ میر نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
کافی پیتے ہوئے صفورا نے کہا۔ ’’آپ نے آخر پانسہ پلٹ ہی دیا ورنہ بابر علی تو یہ کیس ختم کرچکا تھا۔ بے چارے شاہد کو عمر قید یا پھانسی کی سزا ہوجاتی۔‘‘
’’ابھی شاہد سے ایک دو ملاقاتیں اور کرنی ہیں۔ اس کا کیس ہم طارق مفتی کو دیں گے۔‘‘
’’آپ یقین کریں۔ میرے دل میں بھی یہی تھا۔‘‘
شاہ میر تھوڑی دیر خاموش رہ کر بولا۔ ’’ایک اور کام کرنا ہے، وہ یہ کہ عزیز احمد اور اس کے گھر والوں کو کچھ دن کے لئے منظرعام سے ہٹادیا جائے، یہ ضروری ہے۔‘‘ پھر شاہ میر، صفورا کو اس کی وجہ بتانے لگا۔
عزیز احمد نے شاہ میر کی بات سے اتفاق کیا تھا۔ ’’میرے پاس ایسی جگہ موجود ہے۔‘‘
’’ہمارا آپ سے مکمل رابطہ رہے گا۔‘‘ شاہ میر نے کہا۔


’’میں آپ کا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گی صفورا بہن۔‘‘ آئزہ نے آنسو بھری آواز میں کہا۔
’’یار بہن کہہ کر بھی ایسا کہہ رہی ہو۔ اپنی شادی میں بلانا مت بھولنا۔‘‘ صفورا نے کہا اور آئزہ سسک پڑی۔
٭…٭…٭
مٹھل فش فارم پر نوکر تھا۔ فارم پر دوسرے لوگ بھی نوکری کرتے تھے مگر مٹھل، نادر خان کا منہ چڑھا تھا۔ نادر خان نے اسے فارم ہائوس پر ہی رہنے کی جگہ بھی دی تھی۔ اس روز مٹھل اچانک فارم ہائوس سے غائب ہوگیا۔ دوسرے لوگوں کو اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا کہ وہ کہاں چلا گیا۔ ایک کارکن صرف اتنا بتا سکا کہ شاید کوئی شخص اس کو فارم سے بلا کر لے گیا تھا۔ اس نے مٹھل کو فش فارم سے باہر جاتے دیکھا تھا۔ یہ صبح کا وقت تھا۔
نادر خان کو شام کو پتا چلا کہ مٹھل صبح سے غائب ہے، تو وہ پریشان ہوگیا اور اپنے طور پر مٹھل کو تلاش کرنے لگا۔ لیکن یہ کوئی نہیں جان سکا تھا کہ زمان شاہ نے سادہ لباس میں بڑی ہوشیاری سے مٹھل کو فارم ہائوس سے اٹھا لیا تھا اور اس وقت وہ شاہ میر کے تھانے کے ڈرائنگ روم میں موجود تھا۔
شاہ میر کا ڈرائنگ روم بڑے طریقے سے سجایا گیا تھا جسے دیکھ کر ہی احساس ہوجاتا تھا کہ یہاں کیا ہوسکتا ہے۔ چنانچہ اس وقت مٹھل بھی خوف سے تھرتھر کانپ رہا تھا۔ اس سے پہلے اس نے ایسی خوفناک جگہ کبھی نہیں دیکھی تھی۔
’’ہاں مٹھل۔ تم شاہد کو تو اچھی طرح پہچانتے ہو؟‘‘ زمان شاہ نے سرد لہجے میں پوچھا۔
’’جی مائی باپ۔‘‘ مٹھل کی آواز بڑی مشکل سے نکلی تھی۔
’’اس رات جب سیٹھ حیدر علی کو قتل کیا گیا تھا تو شاہد کو فارم ہائوس کے کون سے کمرے میں قید کیا گیا تھا؟‘‘ زمان شاہ کی آواز ابھری۔
مٹھل کی جان نکلنے لگی۔ ’’جواب دو۔‘‘ زمان شاہ کی آواز سانپ کی پھنکار جیسی تھی۔ ساتھ ہی اس نے میز پر رکھا ہوا رول اٹھا لیا۔
مٹھل ایک عام آدمی تھا۔ زمان شاہ کے انداز پر اس کی زبان کھل گئی۔ پھر اس نے وہ سب کچھ اُگل دیا جو اس سے پوچھا بھی نہیں گیا تھا۔
’’تم جو کچھ کہہ رہے ہو، وہ اس ٹیپ میں ریکارڈ کرلیا گیا ہے۔ اگر عدالت میں تم اس بیان سے مکرے تو تمہیں بھی ان مجرموں کے ساتھ پھانسی کی سزا ہوسکتی ہے۔ پھانسی کا مطلب جانتے ہو نا؟‘‘
’’جی مائی باپ۔‘‘ مٹھل نے لرزتے ہوئے کہا۔
’’تم نے قتل کے اس جرم میں برابر کی شرکت کی ہے۔ اس لئے تم سزا سے نہیں بچ سکتے۔ لیکن اگر تم نے قانون کی مدد کی تو تمہیں معافی مل جائے گی۔ دوسری صورت میں تم جانتے ہو کیا ہوگا۔‘‘
’’میرے کو معافی دے دو سائیں۔‘‘ مٹھل نے ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے کہا۔ ’’میں نے آپ کو جو کہا ہے، وہی عدالت میں کہوں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ مٹھل کو لاک اَپ میں بند کردیا گیا اور شاہ میر، صفورا ڈرائنگ روم سے نکل کر آفس میں آبیٹھے۔
’’بڑا کامیاب چھاپہ رہا سر۔ آپ نے بڑے زبردست مہرے پر ہاتھ ڈالا ہے۔ کمال کے انکشافات کئے ہیں اس نے، اب کس کا نمبر ہے؟‘‘ صفورا نے کہا۔
’’صائمہ۔‘‘ شاہ میر بولا۔
٭…٭…٭
نادر خان سخت پریشان تھا۔ ایک ادنیٰ سے ملازم کی گمشدگی کوئی اہم بات نہیں تھی۔ لیکن مٹھل ادنیٰ ملازم نہیں تھا۔ وہ اس کا خاص آدمی تھا۔ اس کے سینے میں اتنے راز دفن تھے کہ اگر وہ ان کا انکشاف کردے تو نادر خان گردن تک دلدل میں دھنس جائے۔ ویسے اسے مٹھل پر بھروسا تھا کہ وہ کبھی اس کا راز فاش نہیں کرے گا۔ لیکن وہ گیا کہاں۔ وہ پرانا نوکر تھا اور کبھی اس نے ایسی کوئی غیر ذمہ دارانہ حرکت نہیں کی تھی۔
پھر اس کے دماغ میں ایک خوفناک دھماکا ہوا۔ گھر سے فون آیا تھا۔ بتایا گیا۔ ’’پولیس صائمہ کو گرفتار کرکے لے گئی ہے۔‘‘
دیر تک وہ کچھ بول ہی نہیں سکا۔ بمشکل اس نے کہا۔ ’’کیا، کب؟‘‘
’’اسے اپنے چچا حیدر علی کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔‘‘ اس کے بعد نادر خان ایک لفظ نہ بول سکا۔ اس کا دم گھٹنے لگا۔ دل چاہ رہا تھا کہ کسی تاریک گوشے میں چھپ جائے۔ اسے اپنے چاروں طرف کالے ناگ لہراتے نظر آرہے تھے۔
اس سے
زیادہ خراب حالت صائمہ کی تھی۔ اس وقت وہ شاہ میر کے ڈرائنگ روم میں پولیس کی تفتیشی ٹیم کے سامنے بیٹھی تھی۔ جب اسے گرفتار کرکے بتایا گیا تھا کہ اسے اپنے چچا حیدر علی کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا جارہا ہے تو اس نے سخت احتجاج کیا تھا۔
’’قتل کا مجرم تو گرفتار ہوچکا ہے اور اس نے جرم کا اعتراف بھی کرلیا ہے۔‘‘
’’یہ سب تمہیں تھانے چل کر معلوم ہوجائے گا کہ اصل قاتل کون ہے؟‘‘
صائمہ نے دیر تک مدافعت جاری رکھی لیکن یہاں آکر اس کی ہمت پست ہوگئی۔
’’جی صائمہ بیگم! آپ نے اور آپ کے شوہر نے حیدر علی کی ساری دولت ہڑپ کرنے کے لئے اپنے چچا اور اکلوتے بھائی کی قربانی دے دی۔‘‘
’’مم… میں نے کیا کیا؟‘‘ اس کے حلق سے بھنچی بھنچی آواز نکلی۔
’’جو آپ نے کیا ہے، شاہد نے وہ حقائق بتا دیئے۔‘‘ پولیس آفیسر نے کہا اور صائمہ کے ذہن میں دھماکے ہونے لگے۔ اس کے پورے بدن نے پسینہ اگل دیا تھا۔
’’آپ سے زیادہ محسن کش کون ہوسکتا ہے، جس چچا نے آپ کو باپ سے زیادہ پیار دیا، آپ نے اس سے زندگی چھین لی اور اپنے چھوٹے بھائی کے لئے موت کا بندوبست کردیا۔ کوئی رشتہ آپ کو عزیز نہیں رہا۔ صرف دولت کے لئے، جبکہ آپ کے پاس بہت کچھ تھا۔‘‘
’’میں نے کسی کو قتل نہیں کیا۔‘‘ صائمہ ہیجانی انداز میں بولی۔
’’تم اور تمہارا شوہر، اب موت کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ اپنی گردن میں پھانسی کا پھندا محسوس کرو اور غور کرو کہ تم نے اپنی عمر، اپنی خوشیاں کس طرح کھو دیں اور اپنا اعمال نامہ سنو۔‘‘
زمان شاہ کے اشارے پر ایک سپاہی نے وہ ٹیپ ریکارڈ آن کردیا جن کا رابطہ دو بڑے لائوڈ اسپیکروں سے تھا۔ بڑے ہال نما کمرے میں شاہد کی آواز گونج اٹھی اور صائمہ کا رواں رواں خوف سے کانپ اٹھا۔ اس کی آنکھوں میں ویرانی اور چہرے پر زردی پھیل گئی۔
’’اپنا جرم قبول کرلو۔ نجات کا راستہ تلاش کرو۔‘‘
اور صائمہ سو گئی۔ اس پر نیند جیسی کیفیت طاری ہوگئی اور وہ سب کچھ بتانے لگی، سب کچھ سنانے لگی۔ اس پر نیم غشی کی سی کیفیت طاری تھی اور اس کی زبان بے اختیار ہوگئی تھی، دماغ بول رہا تھا، دل بول رہا تھا اور زبان ان کے تابع ہوگئی تھی۔ وہ بس بول رہی تھی، سارے بھید کھول رہی تھی اور اس کے منہ سے نکلا ہر لفظ ویڈیو کی شکل میں ریکارڈ ہورہا تھا۔
٭…٭…٭
صائمہ کی گرفتاری بلاوجہ نہیں ہوئی تھی۔ پولیس مکمل ثبوتوں کے بنا کسی پر ہاتھ نہیں ڈالتی۔ مگر یہ ثبوت پولیس کو کہاں سے ملے اور فوراً ہی اسے مٹھل کی گمشدگی یاد آئی۔ اوہ میرے خدا۔ کیا مٹھل پولیس کے ہاتھ لگ گیا ہے، کیا اس نے زبان کھول دی۔ اس کا دل مچلنے لگا۔ ایک دم اس نے سوچا کہ یہاں سے سیدھا ریلوے اسٹیشن جائے اور ٹرین میں بیٹھ کر کہیں بھی چلا جائے، روپوش ہوجائے لیکن یہ کاروبار یہ عیش و عشرت اور پھر صائمہ…!
اس نے خود کو سنبھالا اور آفس سے باہر نکل آیا۔ اس نے اپنے وکیل کے پاس جانے کا فیصلہ کیا اور سوچا کہ وکیل سے کہے کہ اور کچھ کرنے کے بجائے سب سے پہلے اس کی ضمانت قبل از گرفتاری کرا لے۔
لیکن اس کی بدنصیبی تھی کہ کیس شاہ میر جیسے آفیسر کے چنگل میں آگیا تھا۔ وہ بھیڑیوں کا شکاری تھا اور نادر خان جیسی بھیڑیں اس کے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھیں۔ وہ کار کے پاس پہنچا ہی تھا کہ اسپیشل پولیس کے دو بندے اس کے دائیں بائیں آکھڑے ہوئے۔
’’نادر خان صاحب!‘‘ ان میں سے ایک نے کہا۔
’’ہاں، کیا بات ہے؟‘‘ نادر خان نے کرخت لہجے میں کہا۔
’’آپ کہیں تشریف لے جارہے ہیں؟‘‘
’’کون ہو تم۔ کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’وہ آپ کے لئے شاہی سواری موجود ہے۔‘‘ ان میں سے ایک نے اشارہ کیا اور نادر خان نے اس طرف دیکھا۔ تھوڑے فاصلے پر پولیس موبائل کھڑی تھی۔
’’چلئے۔‘‘ دوسرے نے ریوالور نکال کر نادر خان کی کمر سے لگا دیا۔
’’یہ… یہ کیا؟‘‘ نادر خان کی ساری اکڑ، ’’فوں‘‘ ہوگئی۔ اسے موبائل کی طرف جانا پڑا اور پھر اسے بڑے پیار سے تھانے اور ڈرائنگ روم میں لے آیا گیا جہاں شاہ میر، صفورا اور شاہی جلاد یعنی زمان شاہ موجود تھا۔
’’آپ لوگوں نے میری بیوی کو بھی گرفتار کیا ہے، مجھے اطلاع ملی ہے؟‘‘
’’آپ کی اطلاع بالکل ٹھیک ہے۔‘‘ صفورا نے کہا۔
’’کہاں ہے وہ؟‘‘
’’مہمان خانے میں۔ آپ اسے لاک اَپ کہہ سکتے ہیں۔‘‘
’’لیکن ہمیں کیوں گرفتار کیا گیا ہے؟‘‘
’’آپ دونوں کو حیدر علی کے قتل کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے۔‘‘
’’میرا اس قتل سے کیا تعلق ہے۔ قاتل تو گرفتار ہوچکا ہے اور اس نے…‘‘
’’آپ کی گھڑی ہوئی کہانی سنا دی ہے۔ نہیں نادر صاحب! کھیل ختم ہوگیا۔ آپ کا لالچ آپ کی گردن میں پھانسی کا پھندہ بن گیا۔ اب آپ ہمیں داستان ہوشربا سنا دیجئے۔‘‘
’’میں اپنے وکیل کے بغیر کوئی بات نہیں کروں گا۔ مجھے اپنے وکیل کو فون کرنے دیجئے۔‘‘
’’یہ کھیل کھیلنے کے لئے تو بہت وقت ہے۔ فی الحال آپ چور سپاہی، چور سپاہی کھیل لیجئے۔ چور آپ، سپاہی ہم۔‘‘
’’یہ… یہ سب غیرقانونی ہے۔‘‘
’’یہ آوازیں قانونی ہیں۔ انہیں سننے کے بعد آپ کو بہت سے فیصلے کرنے میں آسانی ہوگی۔‘‘ زمان شاہ کے اشارے پر آپریٹر نے وہ پروجیکٹر آن کردیا جس پر پہلے مٹھل اور پھر صائمہ کی فلم اور آوازیں سنائی دینے لگیں اور نادر خان کے دل و دماغ پر کوڑے برسنے لگے۔ اس کا رواں رواں کانپ رہا تھا۔ یہ کیا ہوگیا، یہ کیسے ہوگیا۔ اس طرح تو پوری کہانی ختم ہوگئی تھی۔ شاہد کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ دو تین پیشیوں میں اسے سزائے موت یا عمر قید سنا دی جائے گی اور بس… لیکن یہ نیا کھیل کیسے شروع ہوگیا اور اس وقت اس کے بدن کا سارا خون سمٹ کر کنپٹیوں میں آگیا۔ دماغ کی نسیں پھول گئیں جب اسے شاہد کا نیا بیان سنوایا گیا۔ اس نے اپنا سارا اقبالی بیان بدل دیا تھا۔ وہ سب کچھ بتا دیا تھا جو اس کیس کی اصل صورت تھی۔ اس کے بعد سوالات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جس نے نادر کے ذہن کو نچوڑ کر رکھ دیا۔ اسے اندازہ ہورہا تھا کہ وہ آہستہ آہستہ پھانسی کے پھندے کی طرف قدم بڑھا رہا ہے۔
٭…٭…٭
نادر خان ایک صاحب حیثیت گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ مالی طور پر وہ مستحکم تھا لیکن نئے دور کے نوجوانوں کی طرح اس کی خواہش تھی کہ وہ کسی مالدار گھرانے میں شادی کرے۔ پھر جب اس کی ملاقات صائمہ سے ہوئی اور اسے صائمہ کے بارے میں تفصیل معلوم ہوئی تو وہ اس پر ریجھ گیا۔
صائمہ خوبصورت تھی اور دولت مند بھی۔ اس کے مالدار چچا کی دولت کا آدھا حصہ اس کی ملکیت تھا۔ اس نے صائمہ پر پنجے گاڑھنے شروع کردیئے اور اسے مایوسی نہیں ہوئی۔ صائمہ پوری طرح اس کی مٹھی میں آگئی اور وہ اس کے گھرانے میں داخل ہوگیا۔ اس نے اس مختصر سے گھرانے کے ایک ایک فرد کا جائزہ لیا اور اسے اندازہ ہوگیا کہ باقی تو سب ٹھیک ہے لیکن شاہد اسے پسند نہیں کرتا۔
ایک بار اس نے صائمہ سے اس بارے میں بات کی تو صائمہ نے کہا۔ ’’ہاں! مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ شاہد آپ سے کھنچا کھنچا رہتا ہے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ آئزہ کو چاہتا ہے تو میں نے اس کے راستے میں کون سی رکاوٹ ڈالی، وہ اپنے کام سے کام رکھے۔‘‘
’’وہ خود ہمارے درمیان رکاوٹ تو نہیں بنے گا۔‘‘
’’میں ہر رکاوٹ کو راستے سے ہٹانا جانتی ہوں۔‘‘ یہ الفاظ صائمہ نے جس لہجے میں کہے تھے، نادر خان کو اس سے بڑا اطمینان ہوا تھا اور پھر اس نے قدم آگے بڑھائے تھے۔ نادر خان اور صائمہ جانتے تھے کہ لااُبالی فطرت کے مالک شاہد کو حیدر علی کے کاروبار سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ اپنی ہی دنیا میں مست رہتا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنے منصوبے کے تحت کہا۔ ’’شاہد کو چچا جان کے کاروبار سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اگر یہ کاروبار اسے دے دیا گیا تو وہ اسے تباہ کرکے رکھ دے گا اور مجھے اس کا بہت افسوس ہوگا۔‘‘
’’اس کا حل ہے میرے پاس۔‘‘ صائمہ نے کہا۔
’’کیا؟‘‘
’’شادی کے بعد میں چچا جان کو مجبور کردوں گی کہ وہ کاروبار آپ کے حوالے کردیں۔‘‘ صائمہ نے وہ بات کہہ دی جو نادر خان اس سے کہلوانا چاہتا تھا۔ لیکن وہ نہ ہوا جو نادر خان کا منصوبہ تھا۔ شادی ہوگئی، کچھ وقت بھی گزر گیا۔ لیکن جب صائمہ اور نادر خان نے اپنے مقصد کا اظہار کیا تو حیدر علی نے خوش اسلوبی سے انکار کردیا۔ حیدر علی تجربے کار آدمی تھا اور نادر خان کے خاندان سے بھی واقف تھا۔
بیوی کی بیماری کے بعد وہ دوسرے انداز میں سوچنے لگا تھا۔ بہتر ہے وہ اس کاروبار کو فروخت کرکے صائمہ اور شاہد کو ان کے حصے دے دے۔ پھر دردانہ کا انتقال ہوگیا۔ صائمہ نے کافی دن کے بعد نادر خان کے اکسانے پر حیدر علی سے پھر بات کی کہ اس کی صحت ٹھیک نہیں رہتی، وہ اب اپنا کاروبار نادر خان کو سونپ دے، نادر خان اس کی بہتر دیکھ بھال کرلے گا۔ لیکن حیدر علی نے صاف انکار کردیا۔
’’تم نے دیکھا انکل کا رویہ کیسا ہے۔ صائمہ یہ میری توہین ہے۔ کیا میں کوئی چور اُچکا ہوں۔ انکل کے دل میں میرے لئے جو کچھ ہے، آج وہ کھل کر سامنے آگیا اور تم دیکھنا وہ تمہیں تمہارا حصہ دینے میں بھی انصاف نہیں کریں گے۔‘‘
’’کیسے انصاف نہیں کریں گے۔ میں اپنا حق وصول کرنا جانتی ہوں۔‘‘
’’تم ایک معصوم سی لڑکی ہو۔ کچھ نہیں ملے گا تمہیں۔‘‘
’’جانے دو نادر خان۔ میں تمہیں بتائوں گی کہ میں کیا کرسکتی ہوں۔‘‘ صائمہ کے لہجے میں سانپ کی سی پھنکار تھی۔
’’نہیں صائمہ۔ میں تمہاری جان خطرے میں نہیں ڈالوں گا۔ شاہد، انکل سے بہت قریب ہے۔ وہ تمہیں نقصان پہنچانے سے گریز نہیں کرے گا۔‘‘ نادر خان صائمہ کو بھڑکا کر پکا کررہا تھا۔
’’میں سب کو راستے سے ہٹا دوں گی نادر، ایک ایک کی چھٹی کردوں گی۔ یہ دولت، یہ کاروبار ہمارا ہے، صرف ہمارا… کوئی اسے ہم سے نہیں لے سکتا۔‘‘ صائمہ نے کہا۔
بات صاف ہوگئی۔ نادر خان نے صائمہ کو شیشے میں اتار لیا۔ منصوبہ اس نے پیش کیا اور دونوں نے اس کے نوک پلک پر غور کیا۔ اس منصوبے میں حیدر علی کا قتل اور اس قتل کے الزام میں شاہد کو پھنسانا تھا۔ صائمہ خود غلط تھی ورنہ ضرور سوچتی کہ جن کے خلاف وہ یہ منصوبہ بنا رہی ہے، ان میں ایک اس کا مشفق چچا ہے، دوسرا بھائی۔ لیکن نادر خان نے اسے ہپناٹائز کردیا تھا اور وہ سارے رشتے بھول گئی تھی۔
منصوبے کے مطابق نادر
نے رات کے کھانے پر شاہد سے کہا۔ ’’شاہد! کل مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔‘‘
’’کس بارے میں بھائی؟‘‘
’’یار فارم ہائوس پر کچھ مہمان آرہے ہیں، یہ فش فارمنگ کے ایکسپرٹ ہیں، مجھے ان سے بہت مدد ملے گی۔ بس میں تمہیں ساتھ رکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’لیکن بھائی میں…‘‘
’’جائے گا، شاہد آپ کے ساتھ جائے گا نادر۔‘‘ صائمہ نے بڑی بہن کا حق استعمال کیا اور شاہد کو خاموش ہونا پڑا۔
منصوبے کے مطابق نادر خان، شاہد کو ساتھ لے کر فارم ہائوس پہنچ گیا۔ یہاں رسمی طور پر مہمانوں کے استقبال کی کچھ تیاریاں کی گئیں جن میں مٹھل پیش پیش تھا۔ اسے شاید نادر خان نے کچھ ہدایات دی تھیں۔ وہ باربار مسکرانے لگتا تھا۔
شاہد یہاں سخت بور ہورہا تھا لیکن بہن نے کہا تھا، اس لئے وہ نادر خان کی بات مان رہا تھا۔ شام ہوگئی، کوئی مہمان نہیں آیا۔ تب نادر خان نے شاہد سے کہا کہ وہ مہمانوں کو لینے جارہا ہے۔ شاہد کو وہ ایک کمرے میں چھوڑ گیا تھا۔ نادر خان کو گئے ہوئے کافی دیر ہوگئی تو شاہد نے موبائل فون پر اس سے مہمانوں کے بارے میں پوچھنے کے لئے موبائل نکالنے کی کوشش کی لیکن موبائل نہ ملا۔ وہ حیران ہوگیا۔ موبائل کہیں نہیں تھا۔ اسے یاد آیا کہ اس نے موبائل میز پر رکھا تھا۔ وہ وہاں سے غائب تھا۔ دوسری جگہوں پر اسے تلاش کرنے کے لئے اس نے کمرے کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی تو حیران رہ گیا۔ دروازہ باہر سے بند تھا۔ اس نے زور زور سے دروازہ پیٹا تو چھوٹی کھڑکی سے مٹھل نے جھانکا۔
’’یہ دروازہ باہر سے کس نے بند کیا ہے؟‘‘
’’نادر سائیں نے بابا۔ میرے کو منع کیا ہے کہ دروازہ نئیں کھولوں اور کہا ہے کہ آپ کوئی گڑبڑ کرو تو آپ کے پیروں میں گولیاں مار دوں۔‘‘ مٹھل نے کہا۔
شاہد دنگ رہ گیا۔ یہ کیا ہوا، کیوں ہوا۔ نادر خان کیا چاہتا ہے۔ نادر خان جو چاہتا تھا، اسے رات کو معلوم ہوگیا جب نادر خان کے ساتھ صائمہ بھی کمرے میں داخل ہوئی۔ پیچھے مٹھل گن لئے اندر آیا تھا۔ شاہد نے غصے سے کچھ بولنے کی کوشش کی تو نادر خان نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا۔
’’اس وقت صرف سنو، بولو مت شاہد۔ دولت کے حصول کے لئے بڑے بڑے کھیل ہوتے ہیں، یہ بھی ایک ایسا ہی کھیل ہے۔ میں نے اور صائمہ نے فیصلہ کیا ہے کہ حیدر علی کو راستے سے ہٹا دیا جائے۔ ویسے بھی اپنی بیگم کی موت کے بعد وہ اداس رہنے لگے ہیں۔ ہم انہیں ان کی بیگم کے پاس روانہ کررہے ہیں۔ صائمہ تم سے کچھ کام لینا چاہتی ہیں۔‘‘
صائمہ نے کہا۔ ’’ہاں شاہد! ہم نے سب کو راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے جس میں تم اور آئزہ کی فیملی بھی ہے۔ دس لاکھ روپے کے عوض ایسے لوگوں کو تیار کیا ہے جو کرائے کے قاتل ہیں۔ اگر تم نے ہماری ہدایت کے مطابق کام نہیں کیا تو وہ لوگ عزیز احمد، آئزہ اور ان کے اہل خاندان کو بم سے اُڑا دیں گے، یہ ان کی ڈیوٹی ہے۔ انہیں وہ رقم اسی وقت ملے گی جب وہ اپنا کام کرلیں گے۔ ہاں! وہ لوگ بچ سکتے ہیں اگر تم ان کے لئے قربانی دو۔ حیدر علی کو قتل کردیا جائے گا اور اس قتل کی ذمہ داری تم لو گے۔‘‘
صائمہ اسے پورا منصوبہ سمجھاتی رہی اور شاہد پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھتا رہا۔ اس نے بس اتنا کہا۔ ’’صائمہ! تم چچاچچی، کی ساری مہربانیوں کو بھول جائو گی۔‘‘
’’یہ دور ہی بھول جانے کا ہے شاہد۔ تم اگر آئزہ اور اس کے اہل خاندان کی زندگی چاہتے ہو تو وہی کرو جو کہا جائے۔‘‘ شاہد کو فارم ہائوس سے دوسری جگہ منتقل کردیا گیا جہاں وہ ساری رات اور دوسرے دن قید رہا۔ مٹھل اس کی نگرانی کرتا رہا۔ ادھر پروگرام کے مطابق صائمہ نے حیدر علی کو اپنے ہاتھ سے گولیاں ماریں اور پستول ایسی جگہ چھپا دیا جو نادر خان کو معلوم تھی۔ بعد میں صائمہ نے بہترین ڈرامہ کرکے پولیس کو خبر کی اور باقی کارروائی ہوئی۔ شاہد نے آئزہ اور اپنے عزیز دوست کی زندگی بچانے کے لئے اپنی قربانی دے دی لیکن قدرت کے اشارے کچھ اور تھے۔ اجمل شاہ، عزیز احمد کو لے کر شاہ میر کے پاس پہنچ گیا اور شاہ میر کے ریکارڈ میں تھا کہ اس نے کسی بے گناہ کو موت کے منہ میں نہیں جانے دیا تھا۔
شاہد تا قیامت آئزہ کے خاندان کے لئے رسک لے کر زبان نہ کھولتا لیکن شاہ میر نے اس کی چچی کے قتل کی کہانی گھڑ کر سنائی اور وہ ضمیر کی تڑپ کا شکار ہوگیا اور اس نے سب کچھ اُگل دیا۔
یہ شاہ میر کا سب سے کامیاب حربہ تھا جس نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا۔ حالانکہ نادر خان نے اپنے منصوبے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ آلہ قتل اس نے شاہد تک پہنچایا تھا کہ وہ اسے لے کر مقررہ وقت پر پولیس اسٹیشن پہنچ کر خود کو قاتل کی حیثیت سے پیش کردے۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ کوشش کرکے شاہد کو ضرور بچا لے گا۔
شاہ میر کے اشارے پر یہ کیس طارق مفتی کو دے دیا اور اس نے تین پیشیوں میں شاہد علی کو باعزت رہا کرا لیا۔ نادر خان اور صائمہ کے بارے میں صرف ایک ہی اطلاع تھی کہ انہیں اس گھنائونے جرم کے نتیجے میں سزائے موت سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔
(ختم شد)

Latest Posts

Related POSTS