Friday, April 19, 2024

Ishq e Aatish – Part 1

چاندنی کسی گوری کے پیروں میں بندھی پائل کی صورت میں چھن چھن کرتی کو ہسار کی برفیلی چوٹی اتری تھی اور پھر پھسلتے ہوۓ پوری وادی پر پھیلتی چلی گئی۔ قریہ قریہ چمکتی ہوئی چاندنی نے اس حویلی کے احاطے کو بھی اپنے حصار میں لے لیا تھا، مگر پھر بھی اس
حویلی کی ویرانی میں کمی آئی نہ پراسرار یت میں ۔
جانے کتنے دہائیوں سے یہ حویلی ملکہ کوہسار کے پہاڑوں کو منہ اٹھا کر تک رہی تھی ۔ اس کے بدن کی مٹی بھر بھری ہوتی جارہی تھی ۔ شان وشوکت ڈھلنے کو تھی مگر پھر بھی وہ اپنی جگہ پر پنجے گاڑے کھڑی، وادی کے باسیوں کو خوف زدہ کرتی ۔
ہاں خوف زدہ ہی تو کرتی تھی ۔ نہ جانے کون سا آسیب پلتا تھا اس حویلی میں جو آدھی رات کو حویلی دلدوز چیخوں سے لرز اٹھتی ایسی دلدوز چیخیں جسے سن کر انسان کو دہشت گھیر لے۔ آج بھی حویلی ان دل کو چیر جانے والی چیخوں سے لرز اٹھی تھی۔
نہ جانے کب اس حویلی میں بھٹکنے والی آتماؤں کو شانتی ملے گی ۔‘‘ نورمحمد نے کانپتے دل سے سوچا اور ایک نگاہ اپنے بیوی بچوں پر ڈال کر آنکھیں زبردستی میچے سونے کی کوشش کرنے لگا۔
دیگر وادی باسیوں کی طرح اسے بھی یقین تھا کہ اس حویلی میں بھوت پریت، آتما ئیں منڈلاتی ہیں۔
”پیارے ارقم !‘‘ قلم سے یہ دولفظ کیا رقم ہوۓ ، اس کے لبوں پر خوب صورت سی مسکان سج گئی۔ بے ساختگی کے سے انداز میں اس نے قلم اپنے دانتوں تلے دبا لیا۔ آنکھوں میں شرارت چمک اٹھی ۔ چہرے کا تاثر یوں تھا جیسے شش و پنج میں مبتلا ہو کہ مزید کیا لکھوں ۔ میز کے دائیں جانب سرخ رنگ کے مگ میں بھاپ اڑاتی کافی اس کی توجہ کی منتظر تھی ۔ نہ جانے کیا لکھ رہی تھی وہ … شاید محبت کی کوئی داستان رقم کر رہی تھی۔ ہاں یہ ہی ہوسکتا ہے۔ جو دل آویز مسکان اس وقت ایس کے لیوں پر بھی تھی ، وہ محبت کے مرہون منت ہی ہو سکتی تھی ۔
دائیں جانب کی دیوار پر نصب گھڑیال نے ٹن سے گھنٹہ بجایا، وہ چونک اٹھی ۔ سرد ہوتی کافی نے اسے خفگی سے گھورا۔
سامنے رکھے لیپ ٹاپ کی اسکرین آن ہوئی ۔ اس کی مخروطی انگلیاں کی بورڈ پر جبکہ نگاہیں سکرین پر بڑی پھرتی سے دوڑنے لگیں ۔ کچھ دیر یہی سلسلہ چلتا رہا۔ کچھ ای میلز تھیں جن کا جواب دے کر وہ لیپ ٹاپ بند کر کے ان صفحوں کو ایک جگہ اکٹھا کر کے دراز میں ڈال کر بڑے مطمئن سے انداز میں کافی کا مگ اٹھاتے ہوۓ کری سے اٹھی اور دھیرے دھیرے قدموں سے کھڑکی کی جانب بڑھنے لگی۔ وہ مسکراتی ہوئی کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے باہر برستی موٹی موٹی بوندوں کو دیکھنے لگی ۔ سرد موسم سرد کافی ، سرد بوندیں ….. اس نے لطف کی اس کیفیت کو آ نکھ بند کر کے محسوس کیا۔ کافی کا آخری گھونٹ بھرتے ہی اچا نک کسی خیال کے زیر اثر اس نے گردن موڑ کر بیڈ کے ساتھ رکھے ایک سیاہ ہینڈ بیگ کو دیکھا اور پھر گھڑیال کو… مسکاتے لب دھیرے سے ہم کلام ہوۓ ۔
وادی کوہسار عنقریب تم سے ملاقات ہونے والی ہے۔ وہ کافی کا خالی مگ میز پر رکھ کر نرم و گداز بستر کی نرمی وگرمی کے احساس تلے سوتی چلی گئی۔
صبح نہایت خوش گوار تھی ۔ وہ بے دار ہوئی تو خود کو بے حد تازہ دم محسوس کرنے لگی ۔ شاید یہ تر وتازگی اس ٹرپ کی بدولت اس پر چھائی تھی جس میں اسے اسکول کے طالب علموں کے ساتھ شمالی علاقہ جات میں ہفتہ دس دن کے لیے جانا تھا۔ مسز صدیقی پرنسپل نے اس کی ذمہ دارانہ فطرت کو دیکھتے ہوۓ خاص طور پر اس کا نام تجویز کیا تھا۔ رات بھر ہوتی بارش کا سلسلہ اب تھم چکا تھا۔ وہ کھڑکی سے داخل ہوتی تازہ ہوا کے جھونکوں کو کچھ دیر تک آنکھیں بند کر کے اپنے اندرا تارتی رہی اور پھر تیاری کی غرض سے واش روم میں چلی گئی۔
میاں جی – آپ کو سنبل کواتنے دنوں کے لیے ان علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے تھی۔ دس دن تک میری بیٹی مجھ سے دور رہے گی ، یہ سوچ سوچ کر تو میرادل ہول رہا ہے ۔ حبیبہ،اشتیاق عالم کو چا ے کا کپ پکڑا کر فکر مندی سے بولیں.
ارے بیگم! آپ خواہ مخواہ خود بھی ہول رہی ہیں اور اپنے دل کو بھی ہولا رہی ہیں۔ سنبل ماشاء اللہ بڑی ہو چکی ہے، اسکول میں پڑھتی نہیں ، پڑھاتی ہے اور آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ مسز صدیقی نے سنبل کی سمجھ داری اور ذمہ دارانہ فطرت سے متاثر ہوکر خاص طور پر اسے منتخب کیا ہے۔ اشتیاق عالم نے ناک پر دھرے عینک کو ہٹا کر، بیگم کے ہاتھ سے چاۓ کا کپ تھامتے ہوۓ انہیں سمجھایا۔
“السلام علیکم اماں، ابا!‘‘ سنبل پر جوش سے انداز میں کہتی لاؤنج میں داخل ہوئی اور حبیبہ کے گلے میں بانہیں ڈال کر چہکتے ہوۓ کہنے لگی ۔
آج آپ کی لاڈلی سیر و سیاحت کی غرض سے پریوں کی وادی کا رخ کر رہی ہے اماں جان! آپ نے ہماری شان میں پیٹ پوجا کے لیے یقینا خاطر خواہ انتظام تو کیا ہی ہوگا ۔
بالکل ٹھیک فرمارہی ہیں صاحب زادی صاحبہ! آپ کی والدہ ماجدہ نے اعتراضات کے ٹوکرے بھر بھر کر آپ کی خدمت میں پیش کرنے کو سجاۓ ہیں۔ ہاں غصے کی چھاگل کا الگ انتظام کیا ہے۔ تیمور صاحب کی ماں بیٹی کے لاڈ دیکھ کر رگ ظرافت پھڑک اٹھی۔
ہاں تو ….. ایک ہی بیٹی ہے میری اور آپ کی وجہ سے پہلی بار اتنے دن دور رہے گی مجھ سے ۔ ماں ہوں ناں، میں فکر نہ کروں گی تو کیا محلے والے فکر کریں گے میری بیٹی کی – حبیبہ،میاں جی کی باتوں کا برامناتے ہوۓ بولیں۔
بابا جان …. نہ چھیٹریں میری پیاری اماں جان کو ‘‘ وہ تیمور صاحب کی شرارت سمجھ کر ہنستے ہوۓ کہنے لگی۔
او صنم آ … او صنم آ ….. صنمآں … صنمآں …… اوصنمآں تیری تصویریں — تیری تحریریں — تیری تصویریں، تیری تحریریں ۔۔۔۔ اب میری تنہائی ہے آسان …… اب میری تنہائی ہے آسان — تیری تحریریں — تیری تصویریں، تیری تحریریں ۔۔۔۔
گھر میں میرے پھیلا ہوا ہے یہی سامان – ارقم کمرے سے گنگناتا ہوا اترا تھا۔ دادی جان کی ریڈار جیسی تیز نظر نے جھٹ ارقم کو اپنے حصار میں لیا اور بلند آواز میں اعلان فرمایا۔
بہو- اب تمہارا بیٹا شادی کی درست عمر کو پہنچ گیا ہے۔ اپنی بہن سے اب شمائلہ کو رخصت کرنے کی بات کیوں نہیں کرتی ہو۔ دیکھ نہیں رہیں بیٹے کی حالت، کیا اتاؤلا ہوا جارہا ہے ۔ دادی جان کی کڑک دار آواز نے جہاں ارقم کو خوابوں کی دنیا سے حقیقی دنیا میں واپس لا پٹخا تھا، وہیں دال میں بگھار لگاتی عفت آرا کو بھی ہڑ بڑادیا۔
دادی جان میری سفارش کر رہی ہیں یا کھنچائی ۔ وہ آفس کے لیے نکل رہا تھا مگر دادی جان
کے اس اعلان کے بعد ان کے پاس آ بیٹھا اور پاندان سے پان نکال کر بنانے لگا۔ یہ تھا دادی جان کو رام کرنے کا خاص انداز ۔
بیٹا! اس عمر میں تو تمہارے دادا بھی باپ بن چکے تھے۔ ایک تم ہو کہ سارے جہاں میں ادھر سے ادھر لور لور پھرتے رہتے ہو۔ دادی جان نے اس کے ہاتھ سے پان لیتے ہوۓ کہا۔
ہونہہ، دادا کا بتارہی ہیں۔ پوتے کے ابا کا نہیں کہ ان کی کس عمر میں شادی کی تھی ۔ عفت آرا کچن میں دونوں دادی پوتا کی گفتگوسن کر بڑ بڑا ئیں ۔ دادی جان- دادا کو تو ہر بات اور کام میں جلدی کی عادت تھی ۔ شادی بھی جلدی کی، بچے بھی جلدی پیدا کر لیے اور ٹکٹ کٹوا کر اوپر بھی جلد چل دیے۔ میں ہر کام آرام سے، وقت پر کروں گا ۔ دادی کو پان پکڑا کر اب وہ انہیں چونالگار ہا تھا۔
چل ہٹ بدمعاش ۔ نامعقول کہیں کا ،اپنی ہر ذمہ داری پوری کر کے گئے ہیں صدیقی صاحب۔ مرحوم بڑے ہی نیک طبیعت انسان تھے ۔ دادی جان اپنے مجازی خدا کو یاد کر کے آب دیدہ ہو گئیں ۔ دادی جان – ان کی زندگی میں بھی انہیں یوں ہی یاد کیا کرتی تھیں یا یہ اعزاز انہیں مرنے کے بعد حاصل ہوا۔ مجال ہے جو وہ بھی سنجیدہ ہوا ہو۔ بھر پور گھر و جوان اور کریمنل انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ کا بہترین آفیسر ہونے کے باوجود اس کی طبیعت میں شوخی کے سارے رنگ گھلے ہوۓ تھے۔ فطرتا وہ زندہ دل انسان تھا۔
دیکھ رہی ہو بہو! تمہارا بیٹا کیسے میرا مذاق اڑا رہا ہے۔ جب وہ طیش میں آ تیں تو ان کا لاڈلا پوتا اچانک ہی بہو بیگم کا بدمعاش سپوت بن جا تا تھا۔
ارقم- کیوں تنگ کر رہے ہو اماں جی کو، اب دیر نہیں ہورہی تمہیں اپنے مجرموں کے ادارے پہنچنے میں عفت آرانے حجٹ بیٹے کے کان کھینچے۔
ارے میری پیاری ماں- جارہا ہوں، اب بندہ گھر والوں کو چھیٹر بھی نہیں سکتا۔ چلوارقم میاں اٹھو اور اپنا سر بس مجرموں کے ساتھ ہی پھوڑتے رہو۔ وہ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر چلتا بنا تو عفت آ را ساس کے پاس آ بیٹھیں ۔
ویسے اماں جی! کہہ تو آپ ٹھیک رہی ہیں۔ کل رات میں اور رحمن بھی ارقم کی شادی کے حوالے سے سوچ رہے تھے۔ میرا خیال ہے، راحت اور تیمور بھائی سے بچوں کی شادی کے سلسلے میں اب بات کرنا چاہیے۔
لو بہو! میں بھی تو یہی سمجھانے کی کوشش کر رہی ہوں کب سے کہ سہرے کے پھول سجانے کی تیاری کرو بیٹے کے لیے ۔ اماں جی مسکرا کر بولیں تو عفت آرا ساس کے ساتھ مل کر شادی بیاہ کے امور پر مزید بات کرنے لگیں ۔
عفت آپا کا فون آیا تھا آج، کہہ رہی تھیں منگنی کو دو سال گزر چکے اب شادی کی تاریخ طے کر لینی چاہیے ۔‘‘ راحت آ را خوشی خوشی شمائلہ کو بتارہی تھیں ۔ شمائلہ کی تو جیسے من کی مراد پوری ہوگئی۔ کل رات ہی تو وہ ارقم پر ناراض ہوئی تھی کہ وہ جان بوجھ کر شادی کو لٹکا رہا اور کتنا بدتمیر ہے ارقم ذرا جو پتا چلنے دیا ہو اس نے کہ خالہ جان سے شادی کی بات کر چکا ہے.
میں نے کہا سو بسم اللہ۔ آپ کا اپنا گھر ہے آیا، جب چاہیں آپ لوگ آئیں ہمارے گھر پر- راحت آراء پر جوش سی شمائلہ کو ساری تفصیل بتاری تھیں ۔ کمرے کے باہر سے گزرتی میمونہ کے قدم ارقم کا نام سنتے ہی رک گئے۔ کتنی دیر تک وہ دروازے کی آ ڑ میں کھڑی کن سوئیاں لیتی رہی اور جیسے ہی اسے پتا چلا کہ شمائلہ اور ارقم کی شادی کی تاریخ پکی ہونے والی ہے وہ پیر پٹختے اپنے کمرے میں آ گئی۔
’’ نہ جانے شمائلہ میں ایسے کون سے سرخاب کے پرلگے ہوئے ہیں جو میرے پھسلانے کے باوجود ارقم کے سر سے اس وقوف لڑکی کی محبت کا بخار نہیں اتر رہا۔ وہ منہ ہی منہ میں بڑ بڑاتی ، جلے پیر کی بلی بنی کمرے میں ادھر سے ادھر ٹہلنے لگی۔
’’اور یہ شمائلہ ، آ جاۓ گی ابھی میرے سینے میں مونگ دلنے، ارقم کی محبت کے قصے سنانے۔ ہونہہ …. اور ایسا ہی ہوا۔ میمونہ پلٹی ہی تھی کہ شمائلہ کمرے میں مسکراتے ہوئے داخل ہوئی ۔
تمہیں پتا ہے میمونہ- خالہ آنے والی ہیں شادی کی تاریخ لینے ‘‘ وہ خوشی خوشی اسے بتارہی تھی اور میمونہ کے دل سے دھواں اٹھ رہا تھا۔
یہ تو بہت اچھی بات ہے ناں، آخر ارقم نے منا ہی لیا عفت خالیہ کو شادی کے لیے، ورنہ وہ تو منگنی کر کے ایسے بھولی تھیں جیسے شادی کا ارادہ ہی نہ ہو۔ جل بھن کر اس نے ہوا میں تیر چھوڑا۔
تمہارے کہنے کا مطلب ہے کہ خالہ شادی کے لیے راضی نہ تھیں ۔ ارقم کے ضد کرنے پر راضی ہوئی ہیں ۔ شمائلہ کا خوشی سے چمکتا چہرہ لمحے بھر میں ماند پڑ گیا۔ میمونہ کی دل کو ٹھنڈ پہنچی ، وہ ایسی ہی تھی دوسروں کی خوشی میں بھنگ ڈالنے والی ۔
آثار تو ایسے ہی بتاتے ورنہ خود سوچو، اتنی طویل منگنی آج کل کے زمانے میں کر کے کون بھول جاتا ہے۔ خیر چھوڑو اب تو تمہاری خالہ مان گیں ہیں ناں یہ بتاؤ ارقم سے بات ہوئی۔ وہ دل میں گرہ ڈال کر اب موضوع گفتگو تبد یل کر چکی تھی مگر شمائلہ کی خوشی پر اوس پڑ چکی تھی ۔ وہ ایسی ہی تھی ، دوسروں کی نظر سے دیکھنے والی ، دوسروں کے ذھن سے سوچنے والی اور دوسروں کی سکھائی گئی بولی بولنے والی ۔
نہیں ، ارقم ہے تو کوئی بات نہیں ہوئی ۔‘‘ شمائلہ نے بجھے دل سے آہستگی سے کہا۔
لو آج کل تو لڑ کے ہر بات کی خبر پہلے ہی لڑکیوں تک پہنچا دیتے ہیں۔ یہ تمہارا ارقم بھی ناں، مجھے پچھلی صدی کا کھڑوس سا ہیرو لگتا ہے۔ وہ بظاہر ہنستے ہوۓ سرسری سے انداز میں کہہ رہی تھی مگر در حقیقت بدگمانی کے ننھے منے سانپ اس کے دل میں بھر رہی تھی۔ شمائلہ کی چند لمحوں قبل ملنے والی خوشی کا کافور ہوگئی۔
’’ایسا کرو تم ہی کرلوفون ارقم کو اور ذرا کلاس تو لو کہ بتایا کیوں نہیں۔ بھئی پتے کی بات بتارہی ہوں مرد پر حاوی ہوکر رہو گی تو ہی خوش رہ پاؤ گی ۔‘‘ میمونہ اب اسے دور دراز کے قصے سنا کر مرد پر حاوی رہنے کے گر سکھارہی تھی اور شمائلہ کسی مرید کی طرح اس کی کی ایک ایک بات تعویذ کی طرح گھول کر پیتی چلی جارہی تھی اور نتیجہ کچھ یوں نکلا کہ کچھ دیر بعد شمائلہ نے ارقم کو کال کر نے پہلے سے شادی کی خبر نہ سنانے پر خوب غصہ اتارا۔ ارقم بے چارہ ہکا بکا رہ گیا۔
میمونہ شمائلہ کی چاچا زاد بہن ہی نہیں بلکہ بہترین سہیلی بھی تھی۔ کچھ عرصہ قبل اس کے چچا حیدر آباد شفٹ ہو گئے تھے جس کی وجہ سے دونوں سہیلیوں کا رابطہ پہلے جیسا نہ رہا تھا۔ میمونہ نے شمائلہ کی زبانی ارقم کے قصے تو کئی سن رکھے تھے مگر اس کے ذہن میں کئی سالوں پہلے والامنچلا سا ارقم تھا۔ اس لیے اس کی ارقم سے منگنی کی خبرسن کر بھی میمونہ پر کوئی خاص فرق نہ پڑا تھا۔
فرق تو تب پڑا جب دو ماہ قبل شمائلہ حیدر آباد چاچا سے ملنے گئی تھی اور واپسی پر کچھ دنوں کے لیے میمونہ کو ضد کر کے اپنے ساتھ کراچی لے آئی۔ یہاں آنے کے بعد جب پہلی مرتبہ میمونہ نے ارقم کو دیکھا تو اسے شمائلہ کی قسمت پر رشک آنے لگا۔ وہ منچلا سا ارقم نہ جانے کب اور کیسے شاندار سے انسان کے روپ میں ڈھل گیا۔ مزید اس کی شخصیت میں چار چاند سی آئی ڈی آفیسر کے ٹیگ نے لگا دیا۔
رشک کب میمونہ کے دل میں حسد کی صورت کنڈلی مار کر بیٹھ گیا، یہ خود میمونہ بھی نہ جان سکی مگر اس نے شمائلہ کی خوشیوں میں آگ لگانا شروع کر دی۔ بنیادی طور پر میمونہ خود غرض اور خود پسند انسان تھی اور خود غرض ، خود پرست انسان کسی کو خوش نہیں دیکھ پاتے ۔ وہ دوسروں کی خوشیوں میں آگ لگانے کے اس قدر عادی ہو چکے ہوتے ہیں کہ صحیح اور غلط کا فرق مٹادیتے ہیں ۔ خود غرضی ان کا حق ہوتی ہے اور خود پسندی ان پر فرض ہوتی ہے اور ایسے لوگوں کے پسندیدہ لوگ کچے ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے شمائلہ کا شمار بھی ان ہی نادانوں میں ہوتا تھا۔
رام کے جڑواں بیٹے تھے، ایک لو اور ایک کش ۔اس کے دونوں بیٹوں نے جن علاقوں کو آباد کیا۔ان علاقوں کے نام ان ہی کے نام پر رکھے گئے ، جیسے لو نے جو جگہ آباد کی اسے لو پور کا نام دیا گیا جو بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوگیا اور ایک زمانے سے اس علاقے کو لاہور کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ گائیڈ انہیں لاہور کی تاریخ کے حوالے سے معلومات فراہم کر رہا تھا۔
اوہ یہ تو بہت دلچسپ معلومات ہیں۔ آپ بچوں کو لاہور کے حوالے سے مزید آگاہ کریں ، تا کہ اس وزٹ کے ساتھ وہ یہاں کی تاریخ بھی ہمیشہ یاد رکھیں۔ سنبل نے گائیڈ کی دی گئی معلومات میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ اس نے بچوں کے چہرے پر مزید جاننے کی خواہش کو ابھرتے دیکھا تھا ، تب ہی گائیڈ سے فرمائش کی۔
جی ضرور… لا ہور شہر اوائل تاریخ سے ہی بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس کی دو وجوہات تھیں ، ایک تو راوی کے کنارے ہونے پر اور دوسرا ایسے راستے پر موجود ہونے پر جو بیرونی حملہ آوروں کی راہ گزر رہا ہے۔ایسے میں اس کی اہمیت سے کسی دور میں بھی انکارنہیں کیا جاسکتا ۔
’’بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی گائیڈ صاحب! بیرونی حملہ آوروں کی راہ گزر سے کیا مراد؟ یہ مہین تھی سنبل کی ساتھی ٹیچر ۔
مطلب یہ بی بی کہ ہندوستان فتح کرنے کے ارادے سے جو بھی راجا مہاراجا آ تا تھا وہ لاہور کے راستے سے ہوکر ہی آ تا تھا۔ بس شہاب الدین غوری تھا جو لا ہور چھوڑ کر ہندوستان کے راستے سے جے پور پر حملہ آور ہوا تھا۔ بڑی ہی گھمسان کی جنگ لڑی گئی تھی ۔‘‘ گائیڈ کہتے کہتے رکا اور پھر پر جوش سا بلند آواز میں بولا۔
لیں جی آ گیا آپ کا شاہی قلعہ‘‘ گائیڈ کے کہنے پر ساری بچیاں کوسٹر کی کھڑکی سے جھانک کر اس قدیم ، پرشکوہ قلعے کود یکھنے لگیں جو آج بھی پورے جاہ وجلال کے ساتھ کھڑا اپنے دیکھنے والوں کو دعوت نظارہ دے رہا تھا۔
یقین نہیں آ رہا کہ جس قلعے کے بارے میں ایک عرصے سے پڑھتے اور سنتے آۓ ، آج اسے اپنی آنکھوں سے سامنے دیکھ رہے ہیں۔ ماہین نے کھوۓ کھوۓ انداز میں سنیل سے کہا۔ وہ سب مسز صدیقی کی نمائندگی میں بچیوں کو اپنی نگرانی میں لیتے عالمگیر دروازے سے اندر داخل ہورہے تھے، گائیڈ ان کے ہمراہ تھا۔
میں تو حیرت زدہ ہوں ۔ ذرا سوچواک زمانہ گزرجانے کے بعد بھی اس قلعے کا یہ رعب ہے تو مغل بادشاہوں کے دور میں کیا حال ہوگا شاہی قلعہ کا۔ سنبل قلعے کی اونچی اونچی فصیلوں کو تکتی کہ رہی تھی۔
کیا شان وشوکت تھی ان بادشاہوں کی ۔ ہم نے تو بس پڑھی اور سنی ، مگر سوچو تو ایک خواب سے زیادہ نہیں لگتی ۔‘‘ بچیوں پر بھی قلعے کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ وہ ساری چھٹی سے آٹھویں جماعت تک کی طالبات تھیں اور قلعے کے حوالے سے ایک دوسرے سے چہ مگوئیوں میں مصروف تھیں-
مگر بظاہر اس خوابی کہائی نظر آتی زندگیوں میں بڑے نشیب وفراز ہوتے ہوں گے۔ یہ جوان کی شان وشوکت کے آثار ہم دیکھ رہے ہیں ناں۔۔۔۔ ہمیں کیا خبر کتنے مواقعوں پر یہی شان وشوکت ان کے لیے عذاب بنی ہو۔ سنبل نے کھوۓ کھوۓ لہجے میں کہا تو مہین نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ گردن اٹھاۓ قلعے کے اسرار ورموز میں کھوئی ہوئی تھی ۔ وہ لوگ قلعے کی تاریخ سنتے سنتے اس کی بھول بھلیوں میں کھوتے چلے گئے-
یہ ہاتھی پیر ہے، یہاں سے بادشاہوں کی شاہی سواری گزرتی تھی‘‘ گائیڈ ان بے انتہا چوڑی اور لمبی سیڑھیوں سے اترتے ہوۓ بتارہا تھا۔ وہ سب ان سیڑھیوں کا بغور جائزہ لیتے نیچے اترنے لگے۔
یہ شیش محل ہے، جو شاہ جہاں نے اپنی محبوب ملکہ ممتاز کے لیے بنوایا تھا مگر یہاں رہنا کسی اور کو نصیب ہوا۔ وہ لوگ سراہتی نظروں سے شیش محل کا جائزہ لے رہے تھے، جب گائیڈ نے یہ نیا انکشاف کیا۔ پھر یہاں رہنا کس کو نصیب ہوا ؟ یہ سوال سب کے لبوں پر مچلا تھا مگر پھسلاسنبل کے لب سے ۔
رانی جنداں کو
مگر یہ کون تھی؟ وہ سب بے چینی سے استفسار کررہے تھے۔
شیر پنجاب، رنجیت سنگھ کی زوجہ…… رانی جنداں- گائیڈ تاریخ کے جھروکوں سے ایک اور کہانی کا سرا کھول رہا تھا۔ وہ سب دلچسپی سے ان تاریخی کہانیوں کو سنتے ہوۓ شیش محل کی خوب صورتی کا نظارہ کر رہے تھے شیش محل سے نکلتے ہی اس کی سماعتوں میں عشق آتش کی خوب صورت دھن رس گھول گئی ۔ اس نے بے قرار نگاہوں سے اردگرد دیکھا اور پھر اس کی بے قرار نگاہ ٹھہر گئی۔
وہ اونچے قد کاٹھ کا نوجوان تھا جو اس کی جانب پشت کیے بیٹھا بانسری بجارہا تھا۔ اس نے سر پر ہلکے بھورے رنگ کا ہیٹ پہن رکھا تھا۔ آسمانی رنگ کی شرٹ پر لیدر کی براؤن سلیولیس جیکٹ میں وہ بے حد منفرد لگ رہا تھا۔ اس کے آس پاس لڑکے،لڑکیاں بیٹھے تھے اور اس سے اس خوب صورت لوک گیت کی فرمائش کر رہے تھے، اس کے قدم وہیں رک گئی ۔
رک کیوں گئیں، چلو بھی سمبل – ماہین نے اسے پکار کر اس کا ارتکاز توڑا تھا اور اس کے رکے قدم اٹھ گئے۔ وہ پلٹ کر ماہین کے سنگ چل دی مگر ساعتیں ابھی بھی اس دھن کی مٹھاس میں کھوئی ہوئی تھیں کہ اچا نک بانسری کی آواز تھم گئی۔ اس کی محویت ٹوٹی اور قدم تیزی سے اٹھنے لگے ۔اب کی بار جو آواز فضا میں ابھری اس نے سمبل کے صرف قدم ہی نہیں ، دل کی دھڑکنیں بھی روک ڈالیں ۔
یار ڈاڈھی عشق آتش لائی ہے
یار ڈاڈھی عشق آتش لائی ہے
وے یارسانو …….
وے دوست سانو لگ گئی بے اختیاری
سانو لگ گئی بے اختیاری
سینے دے وچ نہ سمائی ہے
یار ڈاڈھی عشق آتش لائی ہے
یار ڈاڈھی عشق آتش لائی ہے
اس نوجوان نے پھر سے تان لگائی تھی اور اس کی آواز کی کشش میں سنبل کھوتی چلی گئی۔ بے اختیار سی وہ ان لفظوں کی گہرائی میں ڈوبتی چلی گئی۔
یه گم سم کھڑی اس نوجوان کی پشت کو تکے جارہی تھی۔ جس کے اطراف نو جوان لڑکے لڑکیاں سردھنے جارہے تھے۔اس میں ہمت نہ تھی شاید ، اس خوب صورت آواز سے منہ موڑنے کی ۔
اچھا گا رہا ہے ناں، سن لیا، اب چلیں ۔‘‘ ماہین نے اسے بازو سے پکڑ کر جھنجوڑتے ہوۓ کہا تھا۔ وہ حیرانی سے اسے دیکھ کر رہ گئی ۔ اس ساز ، اس آواز اور اس بول کا جادو اس پر کیوں نہ چلا تھا۔
یکی سی سنبل انجان تھی کہ عشق کے بول میرا ایک کے لیے نہیں ہوتے ۔ ان کی تاثیر ہر ایک کے دل میں اترنے کے لیے نہیں ہوتی ۔ شاہی قلعہ میں اس دن وہ ایک پل سنبل کے دل میں قید ہو گیا تھا۔
*********
آج راحت کو فون کیا تھا میں نے جانتے ہو کیابات ہوئی ۔ وہ رات دیر سے آیا تھا اور چاہے کتنی دیر ہو جاۓ کھانا وہ گھر آ کر ہی کھا تا تھا۔ اس وقت بھی جب سارا گھر نیند کی وادی میں جا سویا تھا۔ عفت ارقم کے لیے جاگ رہی تھیں ۔
جی بالکل جاتا ہوں۔ میری اور شمائلہ کی شادی کی تاریخ پکی کرنے کی بات ہوئی ہے آپ دونوں کے درمیان ۔ وہ چاول کے لقے بنا تا عفت آرا کے پھیلائے گئے تجسسس پر پانی ڈال رہا تھا۔
ہا ہیں تمہیں کیسے پتا؟‘‘ عفت نے حیرانی سے ہاتھ کھلے منہ پر جماتے ہوۓ پوچھا۔ ’’آپ کی ہونے والی بہو کی کال آئی تھی۔ محترمہ خوب برسیں ۔ ارقم نے انہیں مزید ورطہ حیرت میں مبتلا کر ڈالا ۔ برسیں کیوں بھئی ، شادی کی تاریخ پکی ہوتا تو خوشی کی خبر ہے۔ اس پر لڑنے کی کیا تک بھلا۔ وہ متعجب گویا ہوئیں ۔
جب دماغ میں فتور بھر جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے- محترمہ کو شکایت ہے کہ آپ سے پہلے اسے میں نے کیوں نہیں بتایا۔ اب خود بتائیں مجھے کب پتا تھا جو میں اسے بتاتا۔ شمائلہ کچھ دنوں سے بہت امیچور سا رویہ رکھنے لگی ہے اور میں سمجھ گیا ہوں ۔ یہ سب اس کی کزن میمونہ کی وجہ سے ہورہا ہے۔ وہی اس کے ذہن میں الٹی سیدھی باتیں ڈالتی ہے۔ ارقم اب پر سوچ انداز میں کہہ رہا تھا، وہ جتنی بار بھی راحت خالہ کی طرف گیا تھا۔ میمونہ کے انداز دیکھ کر چونک گیا تھا۔ وہ یہ جاننے کے باوجود کہ ارقم اور شمائلہ محبت کی مضبوط ڈور سے بندھے ہوۓ ہیں، ارقم کو اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کرتی تھی ۔ یہ تو ارقم تھا جو میمونہ کی حقیقت جان کر اس سے محتاط رہنے لگا تھا- ورنہ کوئی اور ہوتا تو کب کا پھنس چکا ہوتا۔
ایسی بات ہے تو جس دن راحت آۓ گی میں اسے سمجھانے کی کوشش کروں گی کہ میمونہ کو حیدر آباد واپس بھجواۓ ۔ خواہ خواہ شمائلہ کا ذہن خراب کر رہی ہے یہ لڑکی ۔ عفت آرا بگڑے مزاج سے بولیں۔
راحت خالہ کب آ رہی ہیں ۔ ارقم کے لیے شمائلہ کے حالیہ رویے کے باعث اب ہر بات کی خبر رکھنا بے حد ضروری ہو گیا تھا۔
اس ہفتے بلایا ہے، میں نے تمہارے خالہ ، خالو کو۔ شمائلہ بھی آۓ گی ساتھ۔ تمہارے ابا کہہ رہے تھے کہ تیمور بھائی اور راحت کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کرلیں۔ اس دن باہمی رضا مندی سے شادی کی تاریخ بھی طے کر لی جائے گی۔ عفت آ را اسے مزید تفصیلات فراہم کر رہی تھیں، اس کے لبوں پر دھیمی سی مسکان سج گئی۔
شکر ہے میرے اللہ میری ماں کے دل میں میری شادی کا خیال ڈال دیا ورنہ وہ تو منگنی کر کے بھول گئی تھیں- ارقم ، عفت آرا کو چڑانے سے باز نہ آ یا۔
چل ہٹ بدمعاش ۔ ماں کو چھیڑتا ہے۔ عفت آرا نے پیار سے اس کے کان کھینچتے ہوۓ کہا۔ وہ بھی شرارت سے ہنس پڑا اور سونے کی غرض سے اٹھ کھڑا ہوا۔
اپنے کمرے میں پہنچا تو موبائل پر شمائلہ کے کئی پیغامات روشن تھے۔ ایک ایک پیغام کو باری باری کھول کر پڑھا، وہی شکوے، شکایتیں، ناراضی …… ساری باتیں بے معنی ہیں ۔اس نے آنکھیں موند لیں ، ایک جھماکے سے شمائلہ کی صورت دل کے نہاں خانوں سے ابھر کر بند پردوں پر آ دھمکی۔ گہری سانس کے ساتھ اس نے آنکھیں وا کیں اور ان سب متنفر زدہ پیغاموں کا جواب لکھنے لگا۔
میری وہ شمائلہ کہاں جا کھوئی ہے جو میری ہمت ہوا کرتی تھی ۔ جس کی باتوں سے چاہت کی شرینی ٹپکتی تھی۔ جس کی محبت میری ہمت ہوا کرتی تھی- اتنے سارے پیغاموں کے بعد آدھی رات کو اس کا پیغام شمائلہ کے موبائل کی اسکرین پر روشن ہوا تھا۔ آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی ، کب سے وہ اکیلی جاگ رہی تھی۔ سارا دن اس کی عقل چوپٹ کر کے میمونہ اس کے برابر میں گدھے، گھوڑے بیچ کر سورہی تھی ۔ دل ہی دل میں کہیں ارقم سے بلاوجہ جھگڑے کرنے پر احساسات اسے ملامت کر رہے تھے۔ایسے میں ارقم کے موصول شدہ پیغام نے اس کے اندر ہل چل مچا دی۔ وہ بے چینی سے پیغام کھول کر پڑھنے لگی۔ طمانیت کا احساس اس کے روئیں روئیں میں پھیلتا چلا گیا۔ مدھرسی مسکراہٹ لیوں پر سج گی-
وہ کسی جنگل میں جا چھپی ۔ اس نے شرارتی سے ایموشن کے ساتھ پیغام بھیجا۔
سنو شیرنی- اپنے جنگل میں واپس جاؤ اور میرے دل کی رانی کو واپس میرے پاس بھیج دو ۔ ارقم کے شوخ و شنگ سے جواب نے اس کے اندر پھیلی سارے دن کی اضطرابی کیفیت کو اڑنچھوکر ڈالا تھا۔ وہ اب مطمئن سی ارقم سے باتوں میں مشغول تھی ۔
یہ میمونہ بھی ناں، خواہ مخواہ میرا دماغ کھاتی ہے۔ سوتے سمے اس کی نظر جب منہ کھولے خراٹے لیتی میمونہ پر پڑی تو بڑبڑاہٹ لبوں سے خود جا پہسلی۔
آں …… کچھ کہا تم نے؟ اس کی بڑ بڑاہٹ پر بوکھلا کر اٹھی۔
کچھ نہیں میری ماں ، سوجاؤ آرام سے۔ شمائلہ کو اس کی اس درجہ چوکنی نیند پر ہنسی آ گئی ۔
**********
آج گروسری کے لیے گئی تھی وہاں پڑوس والی خاتون عفت آرا سے ملاقات ہوئی ۔ باتوں باتوں میں بتانے لگیں کہ ہفتے کے دن ان کے بیٹے ارقم کی تاریخ طے ہونے کی رسم ہے۔ شام کی چاۓ پیتے ہوئے حبیبہ نے اشتیاق عالم تک اطلاع پہنچائی-
ماشاء الله ماشاء الله .. اللہ مبارک کرے ان کے گھر خوشیاں ۔ اشتیاق عالم نے رسمی انداز میں دعا دی-
صرف دعا ئیں دینے کے لیے خبر نہیں سنارہی ہوں، آپ کو کچھ فکر اپنے گھر کی بھی کرنی چاہیے۔ چاۓ کا آخری گھونٹ بھرتے ہوۓ حبیبہ نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوۓ کہا۔
پھر کس لیے سنارہی ہیں بیگم صاحبہ- اشتیاق صاحب حبیبہ کی جانب متوجہ ہو کر بولے، جانتے تھے کہ اب کچھ اہم بات کرنے والی ہیں-
سنبل کے بارے میں بھی ہمیں کچھ سوچنا چاہیے۔ اس کی تعلیم مکمل ہو چکی ہے۔ شوقیہ ٹیچری بھی کر لی۔اب ابھی سے اس کے لیے سوچیں گے تو کل کہیں اس کا رشتہ ہوگا ناں۔ بیٹی کی محبت میں چور حبیبہ فکر مندی سے کہہ رہی تھیں ۔ اشتیاق عالم ان کی بات پر مسکرا اٹھے۔
بات تو ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ حبیبہ- چلیں پھر آپ بھی اپنی کوشش شروع کیجیے اور اللہ سے اچھی امید رھیں۔ نصیب بے شک اس کے ہاتھ میں ہے مگر دعاؤں کا اختیار اس نے ہمیں دیا ہے اور دعایں ہی تو ہیں جو تقدیر بدلنے کی طاقت رکھتی ہیں ۔ان شاء اللہ سب اچھا ہوگا۔ اشتیاق صاحب بہت پرسکون سے انداز میں بول رہے تھے اور ان کے الفاظ حبیبہ کی ممتا کوبھی ٹھنڈ پہنچ گئے۔
ان شاء اللہ ۔ آپ کی بات ہوئی سنبل سے، کہاں تک پہنچیں صاحب زادی صاحبہ- حبیبہ کوخیال گزرا۔
آج صبح اسلام آباد پہنچے ہیں وہ لوگ ۔ سارا دن گھوم پھر کر کل صبح مری کے لیے نکلیں گے۔ کہ رہی تھی لاہور میں بے حد مزا آیا۔ تمام تاریخی مقامات دیکھے اس نے ۔واہگہ بارڈر پر بھی گئی تھی ، کہ رہی تھی کہ بہت ہی پر جوش لمحات گزرے وہاں ۔ بیٹی کی بتائی ہوئی تفصیل اب وہ بیگم کوسنا ر ہے تھے۔
یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ اللہ ان سب کو خیر و عافیت سے گھر واپس لاۓ ۔ یہ چاۓ کے کپ اٹھا کر کچن کی جانب بڑھتے ہوۓ دعا گو ہوئیں ۔
آمین اشتیاق صاحب حبیبہ کے جانے کے بعد پھر سے ٹی وی لگا کر بیٹھ گئے ۔ ویسے بھی وہ ایک اچھے سا مع تھے۔ بیوی اور ٹی وی دونوں کی خوب اچھی طرح سنتے ۔
**********
وہ اسلام آباد مونومنٹ سے نکل کر سیڑھیاں اتر رہی تھی کہ اس کا پاؤں مڑا اور وہ لڑکھڑاتے ہوۓ گرنے لگی تھی کہ کسی کے مضبوط ہاتھوں نے اسے تھام لیا۔ اس نے ان ہاتھوں کے سہارے خود کوسنبھالا اور بے اختیار نگاہ اٹھا کر اپنے ہمدرد کو دیکھا۔ وہ انتہائی خوش شکل نوجوان تھا جو اس کی جانب پر اشتیاق نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر دبی دبی سی مسکراہٹ بھی تھی ، اس کی شخصیت کہیں سے لفنگوں، والی نہ تھی۔ وہ پر وقار تھا، پراثر ،متاثر کن شخصیت کا حامل تھا مگر اس کی آنکھیں میں محو رقص شرارت نے سنبل کو جزبز کر دیا تھا۔
غالبا آپ شکر یہ ادا کرنا چاہ رہی ہیں ۔ اس نوجوان نے سنبل کی مشکل آسان کی۔
جی وہ ……. …. شکریہ۔ وہ اعتماد سے عاری لڑکی تو ہرگز نہ تھی- مگر فی الوقت وہ کچھ ایسا ہی خود کو محسوس کر رہی تھی ۔ اس کے شکر یہ ادا کرنے پر وہ مسکرا کر آگے بڑھ گیا۔ وہ اسے مڑ کر جاتا دیکھتی رہ گئی۔ چوٹ تو نہیں آئی۔ ماہین کب اس کے عقب میں آ کھڑی ہوئی اسے علم نہ ہوسکا۔
نہیں، پاؤں مڑنے سے بچ گیا۔ سب بیٹھ گئے گاڑی میں؟ اس نے چونکتے ہوۓ پوچھا۔ ہاں بیٹھ گئے ، تم بھی چلو ۔ سب تمہارا انتظار کر رہے ہیں ۔ ماہین نے احتیاطاً اس کا ہاتھ تھامتے ہوۓ کہا۔ وہ صرف اس کی ساتھی ٹیچر ہی نہیں بلکہ اچھی دوست بھی تھی۔ آج صبح وہ لوگ اسلام آباد پہنچے تھے اور اس کے بعد مسلسل مارگلہ کی پہاڑیوں میں گھوم رہے تھے۔ اب شام ڈھلنے کوتھی ، وہ لوگ واپس ہوٹل پہنچ گئے ۔ تمام طالبات کو ان کے کمرے میں بخیر و عافیت پہنچا کر سنبل اور ماہین میٹنگ ایریا میں مسز صدیقی کے بلانے پر پہنچ گئی-
ہمارے ٹرپ کا الحمد للہ آج چوتھا روز بھی بخیر و عافیت گزر گیا۔ کل صبح ہی ہمیں مری کے لیے نکلنا ہے۔ آپ لوگ بچیوں کو مطلع کر دیجیے گا تا کہ وہ وقت پر تیار ہیں۔ داؤد بھائی نے مری کے تمام انتظامات مکمل کر لیے ہیں آپ لوگ بس بچیوں پر توجہ مرکوز رکھیے گا کیونکہ ان جگہوں کو دیکھ کر اکثر اوقات بچیاں جوش و خروش میں مبتلا ہو کر احتیاط کا دامن ہاتھ سے کھو دیتی ہیں ۔ مسز صدیقی ٹرپ کی تفصیلات کے حوالے سے ان سب کو بریف کر رہی تھیں ۔
جی ہمیں احساس ہے کہ اب ہم جن علاقوں میں جائیں گے، وہاں خوب صورتی کے ساتھ ساتھ کچھ خطرات بھی ہیں ۔ اس لیے وہاں احتیاط کی زیادہ ضرورت ہے ۔ مسز صدیقی کی بات کا جواب داؤد بھائی نے دیا تھا۔ مطلب کیا وہ علاقے خطرناک ہیں۔ سنبل نے چونکتے ہوۓ سوال داغا۔ ایسی بات نہیں مس سنبل- مگر دراصل وہ سارے پہاڑی علاقے ہیں ۔ وہاں کا مزاج شہروں سے کافی مختلف ہے۔ پھر ہم لوگوں کے لیے احتیاط کرنا تو بنتا ہے ناں ۔ داؤد بھائی نے نرمی سے سمجھایا۔
یہی ان کا خاص انداز تھا۔ سنبل اور ماہین ان کی بات سمجھ چکی تھیں ۔ اب وہ دن بھر کی سیاحت پر بات کر رہے تھے تب ہی سنبل کی نظر ہوٹل کے اندر داخل ہوتے لڑکوں کے گروپ پر پڑی۔ ان میں سے ایک وہی لڑکا تھا جس نے اسے آج سہارا دے کر گرنے سے بچایا تھا ۔ وہ اپنی گہری نگاہ اس لڑکے کی نذر کر کے واپس مسز صدیقی کی جانب متوجہ ہوئی ، جو کوئی ماضی سے پیوستہ دلچسپ قصہ سنارہی تھیں ۔
***********
یار تجھے جس لوکیشن کی تلاش ہے، وہ آخر کب مل کر دے گی ۔زوار نے جھنجلا کر پوچھا۔ واقعی یار- حد ہوگئی۔ لاہور کے ساتھ ساتھ اسلام آباد بھی چھان مارا، اب اور کہاں جائیں – یہ محسن تھا جو بے زار ہوا بیٹھا تھا۔
مری… کل صبح مری جائیں گے۔ مجھے یقین ہے میری من پسند لوکیشن وہیں ملے گی ۔ وہ اطمینان سے گویا ہوا اور اس کے اطمینان نے ان سب کے دلوں کو جلا کر رکھ دیا۔
یہی یقین تمھیں اسلام آباد آنے سے پہلے بھی تھا کہ یہی ہے وہ جگہ جہاں مجھے اپنے ویڈیو سانگ کے لیے خاص لوکیشن مل جائے گی۔ زوار ٹھیک ٹھاک چڑ گیا تھا۔
تم دونوں مجھے ایک بات بتاؤ، نہ اس سفر پرتم لوگوں کا کوئی خرچا آ رہا ہے نہ کوئی وقت ضائع ہورہا ہے بلکہ مجھ سے زیادہ تفریح کر بھی تم لوگ رہے ہو یہاں پر، پھر یہ جھگڑالو بیویوں کی طرح طعنے مارنے کا شوق کس خوشی میں پورا ہورہا ہے ۔ اس بار شناور نے کڑے تیوروں سے ان دونوں کی کلاس لی ۔
بھائی دیکھو، گھومنا پھرنا ،موج مستی اپنی جگہ مگروقت پر ویڈیو نہ بنی تو نقصان ہمارا اپنا ہی ہے۔ اس لیے اب خیالی تصورات پر ذرا کمپرومائز کرو اور اب مری میں جگہ پسند کر ہی لینا۔ ہمارے معاہدے کا ایک وقت مقررہ ہے اور مقرر وقت کے اندر اندر ہم نے گانے کی ویڈیو بنا ہی لینی ہے اور اب تک تم نے لوکیشن ہی او کے نہیں کی بات کو سمجھو یار- زوار اس بار سنجیدہ ہو چلا تھا۔ شناور کو اس کی بات سمجھ آ ہی گئی ۔
چلو یار- پہلے کھانا منگواؤ ۔ پھر بات کرتے ہیں اس موضوع پر – محسن کو بھوک نے پریشان کر رکھا تھا –
زوار ویٹر کو بلا کر کھانے کا آرڈر دینے لگا۔ شناور نے اردگرد کا جائزہ لینے کی غرض سے ایک طائرانہ نگاہ ڈائنگ ہال کے چاروں اطراف دوڑائی اور پھر اس کی نظر میٹنگ ایریا سے باہر آتی ہوئی اس انجان لڑکی پر ٹہر گئی ۔ جس سے آج شام اس کا آمنا سامنا ہوا تھا۔ سنہری لڑکی ۔ اس کے لب دھیمے سے کہہ اٹھے۔
ڈھلتے آفتاب کی مدھم کرنوں میں جب اس نے پہلی مرتبہ اس لڑکی کو دیکھا تھا تو تب بھی اس کا دل بے اختیار کہہ اٹھا تھا۔
سنہری لڑکی- وہ واقعی سنہری تھی ۔ اس کی رنگت گندم کی سنہری ڈالی جیسی سنہری تھی۔ اس کی آنکھیں اور بال بھورے تھے۔ اس کی توجہ کہیں اور مرکوز تھی اور اس کا پیر مڑا تھا۔ وہ بے خود سا اس کی جانب متوجہ تھا اور اس کے پیرمڑتے ہی وہ اسے تھام بیٹھا تھا۔ کتنی حیرانی تھی ان بھوری آنکھوں میں ، وہ دلچسپی سے دیکھے گیا اور ابھی بھی وہ اسے سیڑھیاں چڑھتے ، اوپر جاتے بے خود سا د یکھتا رہ گیا۔
**********
پینتیس سالہ نور محمد کے دل میں اگر کوئی خوف پنپتا تھا تو وہ اس پر اسرار حویلی کا خوف تھا۔ جو جنگل کے بیچوں بیچ تن تنہا کھڑی اسے بھیا نک چڑیل ہی لگتی تھی ۔ یوں تو کوئی بھی اس حویلی کا رخ نہ کرتا اور اگر کبھی کوئی بھٹک کر یہاں انجانے میں چلا بھی گیا تو وہ لوٹ کر واپس نہ آیا۔ نورمحمد کے دل میں کئی ایسے لوگ بستے تھے جو اس بھیا نک حویلی کے اسرار میں کھو چکے تھے۔
وارث ….. اس کی نو عمری کا ساتھی تھا۔ ان سب دوستوں کی آپس میں شرط لگی تھی ، جو اس حویلی میں ایک گھنٹہ بتا کر آۓ گا اسے وادی کا سب سے بہادر نوجوان گردانا جاۓ گا اور پرجوش سے وارث نے ٹھان لیا تھا کہ وہ اس حویلی میں گھنٹہ بتا کر ضرور واپس آۓ گا۔ سورج ڈھلتے ہی وارث شرط کے مطابق اس حویلی کی جانب روانہ ہو گیا۔ وہ سب یار دوست چاچا شکور کے ڈھابے پر بیٹھے گھنٹہ بیتنے کا انتظار کر رہے تھے۔ گھنٹہ بیت چکا مگر وارث نہ آیا۔ کافی وقت گزر گیا تو پریشان ہوکر وہ لوگ بھی وہاں سے اٹھ گئے ۔ ان کے قدموں کا رخ حویلی کی جانب تھا۔ ڈرے، سے خوف زدہ قدم ….. سناٹے سے پر حویلی کے کئی حصے بے حد ناتواں ہو چکے تھے اور کسی بھی وقت منہدم ہو سکتے تھے۔ وہ چاروں حویلی کے اندر داخل ہو گئے، کچھ بھی نہ تھا۔ بس سائیں سائیں کرتی ہوا، دہشت زدہ ،مکڑیوں کے جال سے لدے چھت و بام اور دھول مٹی سے آٹی ہوئی زمین ۔ وہ چاروں وارث کو آواز دیتے دیتے حویلی کے پچھلے حصے میں جا پہنچے۔ یہ حصہ آگلے حصوں سے زیادہ ہیت ناک تھا۔ یہاں کی خاموشی میں اسرار چھپا تھا۔ ایک لمبی سی راہداری تھی اور اس راہداری میں کھلنے والا ہر دروازہ مضبوطی سے بند تھا۔ ان چاروں نے کھولنے کی بے حد کوشش کی مگر ان دروازوں کو زنجیروں سے باندھا گیا تھا۔
اگر یہ زنجیر سے بندھے دروازے ہیں تو یقیناً وارث ان کے اندر نہ جاسکا ہوگا۔ ان میں سے ایک دوست نے خیال ظاہر کیا۔
ہمیں سارے دروازے چیک کرنے چاہئیں ۔ نور محمد نے کہا۔ وہ لوگ حیران تھے کہ حویلی خالی ہے تو وارث پھر کہاں گیا۔ وہ حویلی میں آیا بھی تھا کہ نہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ حویلی میں نہ آیا ہو اور کہیں اور جا چھپا ہو اور ان سب پر بعد میں ظاہر کرے کہ وہ اتنی دیر حویلی میں رہ کر آیا ہے۔ اسی شش و پنج میں مبتلا وہ چاروں ہر دروازے کو کھولنے کی کوشش کرتے رہے اور پھر ایک درواز کھل ہی گیا۔ کمرے کا منظر اس قدر وحشت ناک تھا کہ ان چاروں کی چیخوں سے تو حویلی گونج اٹھی ۔
**********
ان کی کوسٹر ناگن کی طرح بل کھاتے پہاڑوں کی تراش خراش سے بنائے گئے ان پکی سڑکوں پر محو سفر تھی۔ ایک جانب بلند و بالا پہاڑ تو دوسری جانب گہری کھائی ۔ جہاں سبک روی سے بہتا دریاۓ نیلم موجود تھا یعنی ایک طرف بادلوں کو چھوتی بلندی ، تو دوسری جانب اتھاہ گہرائی ۔ جو بد قسمتی سے اس کی پناہ میں آ جاۓ تو موت کی وادی استقبال کو بانہیں وا کیے اس کی منتظر ہوتی ۔ یہ خوف ناک حقائق اپنی جگہ مگر جو حسین نظارے تھے وہ نظروں کو خیرہ کر رہے تھے۔ قدرت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ افروزگی ۔
وہ کھڑکی کے شیشے پر چہرہ لگائے خاموشی سے پتھریلے پہاڑوں کو سرسرگز رتا دیکھ رہی تھی ۔ کوسٹر میں موجود لڑکیاں جو شیلے جذبات کے ساتھ ان خوب صورت نظاروں کو اپنے کیمرے میں قید کرتی ان کی قصیدہ گوئی میں مشغول تھیں ۔ اس پر ہیبت طاری تھی۔ ان پہاڑوں کی خوب صورتی سے زیادہ ان کی ہیبت نا کی اسے ڈرا رہی تھی ۔ سورج اپنی آب و تاب کے ساتھ روشن تھا اور سفر ابھی آدھا گزرا تھا۔
کچھ دیر بعد ان کی گاڑی ایک پر فضا مقام پررکی۔ یہ مری تو نہ تھا مگر وادی کو ہسار کی شروعات اس سے آگے سے ہوتی تھیں۔ وہاں چھوٹی چھوٹی دکا نیں تھیں، جہاں کھانے پینے کی اشیاء بکتی تھیں ۔ داؤد بھائی سب کے لیے گرما گرما پکوڑوں کے ساتھ کشمیری چاۓ لے کر آۓ تھے، وہ پکوڑے بے حد ذائقہ دار تھے اور کشمیری چائے لا جواب تھی ۔ سفر کی تھکن ان سب کے جسموں سے غائب ہوگئی ، وہ سب اب تازہ دم ہوکر وادی کو ہسار میں داخل ہونے کو تیار تھے۔ ان پہاڑوں کا خوف اب سنبل کے اندر سے بھی نکلتا جارہا تھا۔ قدرت کی رعنائیاں اب اسے بھی اپنی جانب کھینچ رہی تھیں ۔ چاۓ کا کپ داؤد بھائی کو لوٹا کر وہ پھر سے شیشے کے اس پار سے نظر آتے نظارے کی جانب متوجہ ہوئی مگر ایک خوش گوار حیرت نے اس کے وجود کا ایک دم احاطہ کر ڈالا۔ ان کی گاڑی کے قریب ایک جیپ آ رکی تھی اور اس کی ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان تھا وہ شخص جس پر نگاہ بے ساختگی کے عالم میں جا ٹکی ۔ وہ ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان تھا اور ایک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔ سمنبل بامشکل اس کی جانب سے نظریں ہٹا پائی۔ مگر دل بے قابوسا تھا، دھڑکنیں بے ترتیب ہی تھیں ۔ آ ثار کچھ اچھے نہ تھے، دل لگی کا خدشہ تھا۔ سمنبل نے بے اختیار منہ موڑ لیا۔
شناور نے بھی مسکراہٹ دباۓ نظروں کا زاویہ بدل لیا۔ بہت سنا ہے انکھیوں کی آنکھ مچولی کے بارے میں ۔ اس کھیل سے آج خود واسطہ پڑا تو مزا آنے لگا۔ اسے بھی اچھا لگ رہا تھا اس سنہری لڑکی سے نظر میں ملانا ۔
کوسٹر چل پڑی تھی ،رخ وادی کو ہسار کی جانب تھا۔ مسافر تو شناور بھی اس راہ کا تھا مگر ان لوگوں کا پلان یہاں کچھ دیر وقت گزارنے کا تھا۔
کیا وادی کو ہساراتنی مختصر ہوگی کہ اس کا سامنا پھر اس اجنبی سے ہو سکے ۔‘‘ دل نے چپکے سے پوچھا تھا۔اے کاش ایسا ہو ۔ اس کے لبوں پر خواہش مچلی-
مزید ڈیڑھ گھنٹے کے سفر کے بعد وہ لوگ وادی کوہسار کی بلندی پر واقع مال روڈ پر جا پہنچے تھے۔ پرانے پوسٹ آفس کی ڈھلتی عمارت کے پاس ان کی کوسٹر رک گئی تھی۔ وہاں سے اتر کر انہیں پیدل جانا تھا۔ یہی دستور تھا وہاں کا مگر خوش آئند بات یہ تھی که صرف دس منٹ کی مسافت پر وہ مال روڈ کے بازار کے بیچوں بیچ جا پہنچے مگر وہ چڑھائی کا راستہ تھا۔
داؤد بھائی نے وہاں سامان اٹھانے والوں کو بلا رکھا تھا۔ ان سب کا سامان ٹرالی میں رکھ کر سامان اٹھانے والوں کی معیت میں وہ چڑھائی پر چڑھنے لگے۔
ما بین طالبات کے ایک گروپ کو لیڈ کر رہی تھی تو دوسرے گروپ کو سنبل اور تیسرے گروپ کو مسز صدیقی اور داؤد بھائی ان سب کے مشتر کہ لیڈر تھے۔ کچھ ہی لمحوں میں مال روڈ کی رونقیں ان پر آشکار ہوتی چلی گئیں۔ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اس وقت کسی دور افتارہ پہاڑی چوٹی پر بھی آبادی میں آ گئے ہیں۔ وہاں بہترین دکانیں تھیں ۔ بیچ میں چوڑی سڑک اور ان کے اطراف بڑی بڑی بہترین دکانیں، جن میں زرق برق ملبوسات ،شال، اوڑھنیاں ٹنگی ہوئی تھیں-
داؤد بھائی نے ہوٹل کی بکنگ پہلے کرا لی تھی اور وہ ہوٹل مال روڈ کے بیچوں بیچ واقع تھا۔ وہ لوگ اپنا سامان اپنے کمروں میں رکھ کر فریش ہونے لگے۔ سمبل کمروں سے منسلک راہداری میں آ کھڑی ہوئی۔ وہاں بالکنی سے وادی کے بالائی حصے کا نظارہ نظر آتا تھا۔ کچے پکے، چھوٹے چھوٹے مکان، ہرے بھرے درخت، ہر سو ہریالی پھیلی ہوئی تھی ۔ آنکھوں کو سکون عطا کر دینے والا نظارہ تھا وہ اس میں میں کھوتی چلی گئی کہ اچانک اس کا فون بج اٹھا۔
اچھا تو مری پہنچ گئے تم لوگ ۔ کیسا لگا مری پھر؟ حبیبہ پراشتیاق لہجے میں پوچھ رہی تھیں۔ کتنی دیر سے وہ کال ملا رہی تھیں اب جا کر سگنلز ملے تو ان کی سنمبل سے بات ہورہی تھی۔
اچھا اچھا، ابھی ابھی مری پہنچے ہو۔ سفر کیسا رہا؟ کچھ کھانا وانا کھایا بھی ہے یا نہیں ۔ وہ اب فکرمند سی پوچھ رہی تھیں ۔
ہاں، ہاں میں اور تمہارے بابا جان بھی ٹھیک ہیں ۔ بس اکیلے بیٹھے رہتے ہیں سارا دن۔ تم ہوتی تھیں تو گھر میں رونق رہتی تھی ،اب تو سارا گھر بس سائیں سائیں کرتا رہتا ہے۔ وہ اب اپنی بپتا سنارہی تھیں ۔
ہاں ہاں نکلتے ہیں بھئی گھر سے باہر ، اسی دن تو گروسری کے لیے گئی تھی میں ۔ پڑوس والی خاتون سے ملاقات ہوئی ، بتارہی تھیں کہ ان کا بیٹا ہے ناں، آج شادی کی تاریخ پکی ہونے جارہی ہے۔ ارے وہی ناں ارقم – اس کی بات کر رہی ہوں میں ، ہاں ہاں ارقم کی ….. ہیلو ہیلو .. سنبل- بات ابھی مکمل نہ ہوئی تھی حبیبہ کی کہ سنبل کی آواز آنا بند ہوگئی ۔
ارے سگنلز کا مسئلہ ہوگا۔ رابطہ منقطع ہوگیا ہوگا۔ حبیبہ ذرا ایک کام تو کریں سنبل کی رائٹنگ ٹیبل پر جا کر دیکھیں ذرا، وہاں کچھ ٹائپ شدہ کاغذات ایک ڈائری میں رکھے ہوں گے میں نے کل ہی رکھے ہیں ۔ وہ کاغذات ذرا لیتی آئیے گا۔ ان کی ہیلو ہیلو کی گردان سن کر اشتیاق عالم نے ہا نک لگا کر اپنا مدعا پیش کیا۔
حبیبہ جی اچھا- کہہ کر اپنا موبائل وہیں رکھ کر سنبل کے کمرے میں چلی آئیں ۔ رائٹنگ ٹیبل کی سطح پر انہیں نہ ڈائری نظر آئی اور نہ ہی صفحات۔ وہ ڈھونڈتے ڈھونڈ تے دراز کھول بیٹھیں، دراز کھلتے ہی کچھ صفحات ہوا سے پھڑ پھڑائے۔ حبیبہ کی نگاہ ان پھڑ پھڑاتے صفحات پر ٹہر گئی۔
یہی مانگ رہے ہوں گے ۔ وہ بڑ بڑاتی ہوئی ان صفحات کو دراز سے نکال کر کمرے سے باہر چلی گئیں۔
یہ لیجیے جناب،اپنے صفحات ۔ حبیبہ نے ان صفحات کو مسکراتے ہوئے اشتیاق عالم کی طرف بڑھاتے ہوۓ کہا۔
شکر ہے آپ کو آج فورا صفحات مل گئے ورنہ تو دو تین چکر میں کچھ ڈھونڈ کر لانے کی عادی ہیں آپ۔ اشتیاق عالم بیگم کو چھیٹرنے سے باز نہ اے-
حبیبہ ہونہہ کر کے سامنے صوفے پر بیٹھ گئیں۔ اشتیاق عالم نے عینک لگا کر ان صفحات کی ورق گردانی شروع کر دی۔ جوں جوں وہ پڑھتے جاتے چہرے کی رنگت بدلتی جاتی ۔ یہاں تک کہ ان کے چہرے کی رنگت متغیر ہوتی چلی گئی اور ہاتھ کپکپا اٹھے۔ حبیبہ- یہ کیا ہے؟ انہوں نے کانپتے ہونٹوں سے بیگم کی جانب سوال اچھالا ۔
آپ نے جو صفحات منگوائے تھے یہ وہی صفحات ہیں- حبیبہ کی نگاہیں ٹی وی اسکرین پر جمی تھیں، انہوں نے میاں کے چہرے کی جانب دیکھے بغیر ہی جواب دے ڈالا۔
اسے پڑھیے ذرا آپ، پھر بتائے کہ یہ کیا ہے؟ اشتیاق عالم کے لہجے نے انہیں چونکا ڈالا۔ صفحات کا پلندہ ان کے ہاتھوں سے لے کر انہوں نے پڑھنا شروع کیا۔ چہرے کی رنگت اڑنے کی باری اب حبیبہ کی تھی۔
یہ تو محبت نامہ ہے ….. ارقم کے نام سے لکھا ہوا ہے او… اور ارقم کی تو آج تاریخ طے ہونے والی ہے ۔ لفظ حبیبہ کے زبان سے ٹوٹ ٹوٹ کر نکل رہے تھے۔انہوں نے پریشان کن انداز میں اشتیاق عالم کی جانب دیکھا۔ وہ سر دونوں ہاتھوں سے تھامے بیٹھے ہوۓ تھے۔
*********
مبارک ہو رحمن بھائی، مبارک ہو عفت آپا۔ تیمور حسن نے رحمن احمد سے گلے لگتے ہوۓ مبارک سلامت کی صدا بلند کی ۔ ارقم اور شمائلہ کی تاریخ طے ہو چکی تھی۔ دو مہینے بعد نکاح، رخصتی اور ولیمے کی تقریب طے پائی تھی۔ آپ کو بھی بہت مبارک ہو بھائی صاحب ۔ میں مٹھائی لے کر آتی ہوں۔ عفت خوشی سے کہتی کچن میں مٹھائی لینے چلی گئیں۔
ارے رحمن- ذرا غزالہ کوفون لگاؤ میں اسے اس کے لاڈلے بھانجے کی تاریخ پکی ہونے کی خوش خبری تو سنادوں۔ اماں جی کو بروقت بیٹی کی یاد ستائی۔ غزالہ اپنے میاں کے ساتھ لاہور میں رہائش پذیر تھیں۔
یہ لو بھئی سب منہ میٹھا کرو اور میری پیاری بہو کہاں ہے۔ راحت- ذرا شمائلہ کوتو آپ یہاں بلالو۔ اسے تو میں خود اپنے ہاتھوں سے مٹھائی کھلاؤں گی ۔ عفت آراء کے دل میں بہو کے لیے محبت امڈ آئی۔
آپا آپ ہی کی بیٹی ہے۔ آپ خوداندر سے بلا لائیں نا- راحت نے مسکرا کر کہا اور عفت اندر سے شمائلہ کوکھینچ لائیں ۔ فالسی رنگ کے مختصر سے انگررکھے اور بنفشی رنگ کے ٹراؤزر اور نیٹ کے دوپٹے میں ملبوس نکھری نکھری سی شمائلہ شرم سے گلابی پڑرہی تھی ۔ عفت آرا نے اسے گلے سے لگایا ، ماتھے کو بوسہ دیا اور مٹھائی سے منہ میٹھا کرایا۔ تب ہی نظر اچا نک عقب میں کھڑی زبردستی کی مسکراہٹ منہ پر سجاۓ میمونہ پر پڑی۔
یہ لوبھئی، تم بھی آئی ہو تو منہ میٹھا کرلو- بڑا سا گلاب جامن عفت آرا نے میمونہ کے منہ میں ٹھونس دیا۔ میمونہ اس توہین آمیز جملے اور گلاب جامن یوں منہ میں ٹھونسنے کے انداز پرتلملا کر رہ گئی ۔
لیں اماں جی- آپ بھی منہ میٹھا کریں- اماں جی غزالہ سے بات کر کے فارغ ہوئیں تو عفت آرا نے ان کا منہ بھی میٹھا کرایا۔ ارے بھئی یہ ارقم کہاں رہ گیا۔ اس کی کمی ہے یہاں۔ تیمور حسن نے گھڑی پر نگاہ ڈالتے ہوئے دریافت کیا۔
بس راستے میں ہے تیمور بھائی۔ آ رہا ہے۔ میری بات ہوئی ہے ابھی- عفت آرا نے فوراً جواب دیا۔
***********
تو کیا سنبل اور ارقم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ مجھے یقین نہیں آرہا مگر ارقم کی تو آج تاریخ پکی ہونے والی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ سب کیا ہورہا یہ سب ہے۔ ارقم محبت اگر سنبل سے کرتا ہے تو شادی کسی اور سے کیسے کرسکتا ہے۔ یا اللہ یہ سب کیا ہورہا ہے۔ مجھے تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔ حبیبہ بیگم کا بلند آواز میں واویلا شروع ہو گیا۔
مجھے سمنبل سے یہ امید نہیں تھی ۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ پڑوس کے لڑکے سے محبت کا چکر چلا رہی ہے۔ وہ آخری خط پڑھا آپ نے جو آپ کی بیٹی نے محبت میں لکھا تھا اور آخر میں خود کو’’ تمہاری محبت کے نام سے تعبیر کر ڈالا۔ توبہ… میں نے تو تصور بھی نہیں کیا تھا کہ میری سنبل، میری بیٹی ہماری ناک کے نیچے یہ گل کھلاۓ گی ۔ اشتیاق عالم کو بیٹی کی بے شرمی کا غم کھائے جارہا تھا۔
سنبل تو یہاں ہے نہیں ، میں تو کہتی ہوں اس ارقم کو جا کر پکڑنا چاہیے ہمیں جو ہماری معصوم بیٹی کوان خطوط میں سبز باغ دکھا کر خود کو کسی اور کے نام سے منسوب کرنے کا انتظام کیے بیٹھا ہے۔ حبیبہ نے سوں سوں کرتی ہوئی ناک کو دوپٹے سے پونچھتے ہوۓ تڑخ کر کہا۔
مگر— مگر اس کی تو آج تاریخ پکی ہونے کی رسم ہے۔ سب مہمان آۓ ہوں گے، ہم کس طرح جا کر سب کے سامنے بی خطوط رکھ چھوڑیں ۔اس سے تو ہماری بیٹی کی بھی بدنامی ہوگی ناں ۔ اشتیاق عالم ہچکچاتے ہوۓ بولے۔ ان آٹھ خطوط میں سے سات خط ان کے بیٹے کے ہیں ، بدنامی کیسے پھر ہماری بیٹی کی …… اچھا ہے ناں ان کے خاندان والوں کو بھی پتا چلے کہ صاحب زادے کیا گل کھلا رہے ہیں محلے میں اور میاں صاحب کیا معلوم ارقم یہ شادی مجبوری میں کر رہا ہو۔ ہمارے وہاں پہنچنے سے اس کی مشکل بھی آسان ہوجائے۔ دیکھا نہیں آپ نے ، ارقم کی شادی کی خبر سن کر سنبل نے فون بند کر ڈالا۔ ہم ماں باپ ہیں سنبل کے، ہم بیٹی کے لیے نہیں کھڑے ہوں گے تو پھر کون کھڑا ہوگا۔ حبیبہ کو ایک نئی راہ سوجھی یکا یک ان کا دماغ فلمی انداز میں کام کرنے لگا۔ ہوتا ہے عموماً ایسا جب بے حد فلمی سیچویشن رونما ہوتی ہے۔ ہماری عام سی زندگی میں تو فیصلے بھی یوں ہی ڈرامائی انداز میں ہونے لگتے ہیں ۔ حبیبہ کی بات بھی اشتیاق عالم کے دل کو لگی اور دونوں میاں بیوی ان خطوط کا پلندہ اٹھاۓ رحمن احمد کے گھر جا پہنچے۔
*************
مبارک سلامت کا زور شور کے ساتھ سلسلہ جاری تھا۔ تب ہی دروازے کی گھنٹی بجی۔ لگتا ہے ارقم آ گیا۔ میں گیٹ کھول کر آتا ہوں ۔ رحمن احمد مسکرا کر دروازہ کھولنے کے لیے اٹھے اور پھر واپسی ان کی اشتیاق عالم اور حبیبہ کے ساتھ ہوئی۔ ارے بڑے اچھے موقع پر آۓ آپ لوگ آیے آیے منہ میٹھا کریں۔ عفت آرا پر جوشی مٹھائی کی پلیٹ لے کر ان دونوں میاں بیوی کی
جانب بڑھیں۔
کہ تو بالکل سچ رہی ہیں آپ، آۓ تو واقعی بڑے اہم موقع پر ہیں اور اگر یہ خطوط آپ پڑھ لیں تو اس موقع کی اہمیت کا بھی خوب اندازہ ہو جاۓ ۔ حبیبہ نے معنی خیز انداز میں کہا اور ان کے اس انداز پر وہاں بیٹھے سب ہی افراد چونک اٹھے۔ خیر تو ہے ناں بہن ۔ عفت آرا نے تعجب نیز نگاہوں سے پڑوسن کو دیکھا۔ جو کچھ ماہ قبل ہی اس محلے میں آباد ہوئی تھیں اور ان سے اچھی علیک سلیک بھی ہوئی تھی مگر آج ان کا یہ ا نداز انہیں چونکا رہا تھا۔
آپ یہ خطوط پڑھ لیں ، بہن ، ساری بات سمجھ میں آ جاۓ گی ۔ حبیبہ نے منہ بنا کر کاغذوں کے پلندے کو عفت آرا کے حوالے کرتے ہوۓ کہا۔ عفت آرا نے ان صفحوں کو پہلے حیرانی سے الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر پڑھنے لگیں ۔ جوں جوں وہ پڑھتی جاتیں ان کا دل بیٹھتا جا تا ۔ رحمن احمد ان کی فق پڑتی رنگت اور متغیر ہوتی حالت کو دیکھ کر جھٹ اٹھ کھڑے ہوے-
کیا لکھا ہے ان کاغذوں میں؟ وہ ان خطوط کو عفت آرا کے ہاتھ سے لیتے ہوۓ بولے۔ ارقم کے ابا- آپ خود پڑھ لیجیے۔ میرا تو دل بیٹھا جارہا ہے ان محبت ناموں کو پڑھ کر ۔‘‘ عفت آرا صوفے پر بیٹھتے ہوۓ بولیں مگر ان کے منہ سے نکلے لفظ محبت نامے- نے وہاں ہلچل مچادی۔
محبت نامہ – تیمور حسن نے اچنبھے سے اس لفظ کو دہرایا اور اپنی زوجہ کو دیکھا۔ زوجہ صاحبہ نے کندھے اچکا کر لاعلمی کا اظہار کر تے ہوۓ اس لفظ کی گردان کرتے ہوئے ساتھ بیٹھی شمائلہ اور میمونہ کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ شمائلہ کے من میں عجیب خطر ناک سی گھنٹیاں بجنے لگیں اور بجلی کے کرنٹ کی صورت اس کی زبان سے بل کھا کر لفظ پھسلا- محبت نامہ-
ہاں محبت نامہ۔ پڑوسیوں کے گھر سے آیا محبت نامہ ارقم کے گھر رہی سہی کسر میمونہ نے پوری کر دی۔ خوب آنکھیں مٹکا کر شمائلہ کو ٹہوکا مارا اور شمائلہ کے اندر بجنے والی گھنٹیاں خطرناک سائرن میں تبدیل ہوئیں۔ ان خطور کو پڑھ کر رحمن احمد کی پیشانی بھی عرق آلودہ ہوگئی ۔
ہاۓ یہ کس نے کس کو محبت نامہ لکھ ڈالا ۔ مجھے بھی تو بتاؤ۔ اماں جی نے سب کے دلوں میں مچلتا سوال بالآ خر کر ہی ڈالا۔ اس کا جواب تو آپ کے پوتے صاحب ہی آ کر دیں گے۔ رحمن احمد نے نڈھال سے انداز میں صوفے پر بیٹھتے ہوۓ کہا۔
*************
اس نے دائیں پیر کی سیاہ ہائی ہیل کی نوک سے اپنی راہ میں پڑے ایک چھوٹے سے پتھر کو ہلکے سے ٹھوکر ماری۔ وہ پھر لڑ کھڑاتا ہوا بائیں جانب کی ڈھلان کی طرف سرک گیا۔ وہ سیاہ لانگ کوٹ، اسکن فٹنگ کافی کلر کی ویلویٹ کی پینٹ میں ملبوس لمبی چوڑی سڑک پر ایک خوب صورت جگہ کا نظارہ کرتی چہل قدمی میں مگن تھی۔ یہ پر رونق اسٹریٹ نیومری کا مال روڈ تھا۔ جس کے دونوں اطراف مختلف مشہور برانڈز کے آؤٹ لیٹس بھی موجود تھے۔ سنبل کے ہاتھوں میں موجود کون منفی ٹمپریچر کے باعث برف کی طرح جمی ہوئی تھی ۔ وہ سب کچھ گھنٹوں کے ریسٹ کے بعد اب مال روڈ کی سیر کو نکلے تھے اور ادھر ادھر کی دکانوں میں گھس چکے تھے۔ وہ آئس کریم شاپ سے اپنے لیے کون لے کر مال روڈ کی رونقوں سے لطف اندوز ہورہی تھی ۔ اس نے کون کو اپنے لبوں سے لگا کر اس کے ذائقے کو محسوس کیا۔ تب ہی اچا تک موسم نے انگڑائی لی اور دھنکی ہوئی روئی کی مانند برف باری شروع ہوگئی۔
سنوفال کا آغاز ہو گیا۔ مبارک ہو۔ اس سے کچھ فاصلے پر بنچ پر براجمان خوش گوار انداز میں باتیں کرتے میاں بیوی اچا نک خوشی سے چہک اٹھے۔ وہ تمام طالبات جو دکانوں میں گھسی خریداری میں مگن تھیں ۔ باہر نکل کر اپنے بازوؤں کو پھیلا کر برف باری کے مزے لینے لگیں اور سب سے ذرا آگے اپنے لیے گرم اونی ٹوپے خریدتے داؤد بھائی کے چہرے پر خوش گواری مسکراہٹ رقصاں تھی ۔ گویا جیسے وہ بھی موسم کے تیور بدلنے کے منتظر تھے ۔ مسز صد تقی فکرمند سی لڑکیوں کے پیچھے پیچھے پھر رہی تھیں اور ماہین اپنی کون تھامے ان کی جانب بڑھ رہی تھی۔ کچھ منچلے نوجوان بلند قہقہے لگاتے ، برف کو اپنی ہتھیلیوں پر جمع کر کے ایک دوسرے پر اچھال رہے تھے ۔ وہاں موجود ہر شخص کے چہرے پر خوشی جگمگارہی تھی۔ مسکان لیوں پر سج اٹھی تھی ، معصوم ، بے ریا ، شفاف مسکراہٹ۔
وہ بھی آنکھیں بند کر کے چہرے کا رخ آسان کی جانب کیے، پیاری سی مسکان لبوں پر سجاۓ برفیلی برسات سے لطف اندوز ہورہی تھی۔ برف کے ننھے گالے کبھی اس کے رخسار پر تو کبھی اس کے گلابی ہونٹوں پر گرتے ۔ کمر سے نیچے تک آتی زلفوں میں بھی سفید موتی جا ٹنکے تھے۔ وہ ٹھیک اسٹریٹ لیمپ کے نیچے کھڑی تھی اور سنہری روشنی نے اس کے چہرے کا احاطہ کیا ہوا تھا۔ وہ ان حسین لمحات کو آنکھیں موندے محسوس کر رہی تھی ، اپنے اندر جذب کر رہی تھی اور یوں وہ کسی طلسماتی داستان کا ایک افسانوی کردار محسوس ہورہی تھی۔
سفید موتیوں سے بھی چوڑی سڑک پر تیز رفتار جیپ دندناتی ہوئی چلی آئی اور ٹھیک اس کے سامنے جا رکی ۔ جیپ کی روشن ہیڈ لائٹس نے سنبل کے پورے وجود کا احاطہ کرلیا تھا۔ وہ پھر بھی بے خبر رہی، ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان شناور نے اس خوب صورت منظر کو نہایت ہی دلچسپی سے دیکھا تھا۔ وہ لڑکی اسے مجسمہ محسوس ہورہی تھی ۔ وہ مبہوت سا اسے دیکھے چلا گیا۔ یہاں تک کہ اس ساکت مجسمے میں حرکت ہوئی ، پہلے اس نے آنکھیں ذرا سی کھولیں ، مگر روشنی کے تیز جھماکے نے اسے آنکھیں دوبارہ بند کرنے پر مجبور کر دیا۔ مبہوت سے شناور کا ارتکاز ٹو ٹا اور اگلے ہی لمحے اس نے جیپ کی لائٹس بجھا دیں۔
سنبل نے دھیرے سے آنکھیں کھول لیں ۔ وادی کوہسار واقعی اتنی مختصر ثابت ہوئی تھی کہ اجنبی چند گھنٹوں کے وقفے سے پھر اس کے سامنے موجود تھا۔ سنبل کی نظریں بے اختیار شناور پر جا ٹہریں، بس چند ساعتوں کا ٹکراؤ تھا مگر دل سیراب ہو گیا اور جب دل سیراب ہوا تو سنبل نے نظریں جھکا لیں۔ جیپ میں بیٹا شناور بھی مسکراہٹ دباۓ جیپ آگے بڑھا لے گیا۔
بعض لمحے امر ہو جانے کے لیے ہمیشہ زندہ رہ جانے کے لیے ہوئے ہیں۔ دلوں میں بھی اور ذہنوں میں بھی۔ یہ لحہ بھی امر ہو جانے کے لیے ان دونوں کے درمیان چپکے سے گزر گیا تھا۔ اس گزرتی جیب کو سنبل نے مڑ کر چیکے سے دیکھا تھا اور اور اس حرکت کو شناور نے مسکراتے ہوۓ بیک ویو اسکرین پر دیکھا تھا-
برف باری مزید شدت اختیار کر گئی تھی۔ وہ لوگ ہوٹل واپس آ گئے۔
سنو سنبل- ایک بات تو بتاؤ۔“ ماہین نے کھڑکی پہ کھڑی عقب سے پکارا۔ اس وقت وہ دونوں کمرے سے منسلک راہداری میں کھڑی تھیں ۔ اس راہداری کی کھڑکیاں مال روڈ کی جانب کھلتی تھیں ۔
ہاں پوچھو- سنبل نے پلٹ کر جواب دیا۔ ماہین اس کے برابرآ کھڑی ہوئی ۔
تمہارے اس ایڈونچر کا کیا بنا۔ وہ دونوں اب کھڑکی کے اس پار سے نظر آتے نظارے کا نظارہ کر رہی ہیں۔
کس ایڈونچر کا۔ سنبل حیرت میں مبتلا ہوئی- ارے وہی بابا، جو تمہیں کتابوں کو پڑھتے پڑھتے کہانیاں لکھنے کا شوق ستایا تھا۔ ماہین نے یاد دلایا۔
اچھا وہ….. سنبل کو یک دم یا دآ گیا۔ میں نے لکھی ہے ایک کہانی چند خطوط پرمبنی محبت کی ایک اچھوتی کہانی- وہ کھوۓ کھوۓ لہجے م یں کہہ رہی تھی۔ ذہن کے پردے پر وہ خطوط اپنے میٹھے لفظوں سمیت بکھرنے لگے۔ واقعی تم نے لکھ لی کہانی اور مجھے بتایا بھی نہیں ۔ ماہین پر جوش سی چہکی ۔ میں نے یہاں آنے سے ایک دن قبل ہی تو کہانی مکمل کر کے سارے صفحات اپنے دراز میں رکھ کر آئی ہوں۔ سنبل مسرورسی بتا رہی تھی ۔ کتابوں سے محبت تو اسے ایک زمانے سے تھی، اب لکھنے شوق بھی ہو گیا تھا۔
اچھا یہ بتاؤ کیا نام رکھے ہیں تم نے اپنے کرداروں کے ماہین کو اشتیاق نے آ گھیرا۔
ارقم ۔۔۔ میری کہانی کے اصل کردار کا نام ارقم ہے۔ پتا ہے ماہین ! ہمارے پڑوس میں جو آ نٹی رہتی ہیں، ان کے بیٹے کا نام بھی ارقم ہے اور میں نے اماں جان کی زبانی اکثر یہ نام سن رکھا تھا۔ مجھے اچھا لگا تھا یہ نام، اس لیے میں نے اپنی کہانی میں اس نام کا استعمال کر ڈالا۔ اس نے نیا نیا لکھنا شروع کیا تھا اور اس موضوع پر بات کرنا اسے بے حد پسند بھی تھا۔
ماہین نے جب یہ موضوع چھیڑا تو وہ بھی پر شوق اندازمیں بتانے لگی۔ اور تمہاری ہیروئن …… اس کا نام کیا رکھا ؟ ماہین کو مزید تجسس ہوا۔
اپنی ہیروئن کی پہچان میں نے محبت سے کرائی ہے، ارقم کی محبت۔ ہے ناں میرا آئیڈ یا منفرد سا۔ وہ اب اپنے خیال کے منفرد ہونے پر ماہین کی راۓ مانگ رہی تھی۔
بہت زیادہ منفرد……. مجھے اپنا یہ خوب صورت سا تجر بہ ضرور پڑھنے کے لیے دینا۔ ماہین نے اصرار سے کہا اور بند کھڑ کی کو ہولے سے کھول دیا۔ کوہسار سے برفیلی ہواؤں کا جھونکا ان دونوں کے چہرے کو چھیڑتا ہوا گزر گیا۔
وہ دونوں باہر روڈ کی جانب متوجہ ہوگئیں۔ اچانک شور اٹھا اور سب لوگ مجمع کی صورت ایک جگہ گھیرا ڈال کر کھڑے ہو گئے-
یہ کیا ہورہا ہے اچا نک یہاں ۔ وہ دونوں بھی چونک کر اس مجمع کی جانب متوجہ ہوئیں اور پھر اچا نک سکوت چھا گیا اور ٹھنڈی ٹھار رگوں میں اترتی سرد خاموشی کو بانسری کی مدھر لے گرما گئی۔ دھن ایسی سحر نگیز تھی کہ وہاں موجود سب ہی لوگ دم بخود سے بیٹھتے چلے گئے۔
یہ تو وہی دھن ہے جو ہم نے لاہور میں سنی تھی ۔ ماہین فورا پہچان گئی۔
ہاں یہ وہی دھن ہے۔ اس رومانوی ماحول میں مزید فسوں بکھیرتی ۔ سنبل وہ دھن بھلا کیسے بھول سکتی تھی ، وہ تو اس دھن کے سحر میں اسی دن قید ہوچکی تھی-
بانسری کی مدھر دھن بستروں میں د بکی طالبات کو بھی راہداری میں کھینچ لائی تھی۔ راہداری میں رش بڑھ گیا۔ یک دم بانسری کی آواز ان فسوں خیز فضاؤں میں گم ہوگئی ۔ ارد گرد ہجوم کی صورت میں بیٹھے لوگوں میں بے تابی بڑھ گئی اور پھر نہایت سحر انگیز فضا میں گونجی۔
دوعشق تے عاشق دونوں برابر
اڑے عشق داتا دکھیڑا
آتش ساڈے ہے پخت تے پان
ارے عشق ساڈے دل جھیڑا
آتش پانی نال بجھاندی
ارے شق تا داروکھیڑا
یہ وہی ہے ما بین- جو شاہی قلعے میں ملا تھا۔ سنبل بے چین ہو اٹھی۔ دل مچل اٹھا۔ اس بندے کے دیدار کو جو عشق آتش کی تان چھیٹر رہا تھا۔
داؤد بھائی بچیوں کو لے کر ہوٹل سے باہر جانے لگئے۔
ارے مس سنبل،مس ماہین! آپ دونوں بھی آیے ناں۔ مری میں یہ لوک میلہ روز روز نہیں لگے گا ، جو پل آج خوب صورت ملے ہیں انہیں محسوس کر لیں۔ یہی پل گزر جائیں گے تو سنہری یادیں بن جائیں گے۔ داؤد بھائی نے مسز صدیقی کو بھی باہر چلنے کی دعوت دی ۔ مگر انہوں نے شدید تھکان کے باعث انکار کر دیا تھا۔ سنبل اور ماہین بچیوں اور داؤد بھائی کے ہمراہ ہوٹل سے باہر چلی آ ئیں اور اس مجمع میں شامل ہوئیں ۔
وہ تین نوجوان تھے، جنہوں نے فضاؤں میں سروساز کے رنگ بکھیر رکھے تھے۔ سنبل کی جانب ان تینوں کی پشت تھی، بچیوں کا اصرار تھا کہ وہ لوگ سامنے کی جانب جا کر بیٹھیں ۔
سنبل اور ماہین بچیوں کے ہمراہ لوگوں کے درمیان سے جگہ بناتے ہوۓ سامنے جا پہنچیں۔اس نوجوان نے وہی بھوری ہیٹ اس انداز سے پہن رکھی تھی کہ اس کے چہرے کا بالائی حصہ ہیٹ میں جا چھپا تھا۔ سراس نے جھکایا ہوا تھا ، اس کا چہرہ ان سب کی نگاہوں سے اوجھل تھا۔ دائیں جانب بیٹھے ساتھی نے گٹارسنبھالا ہوا تھا جبکہ دوسرا ساتھی ان سب لوگوں کی ویڈیو بنا رہا تھا۔ سنبل ٹھیک اس کے سامنے جا بیٹھی۔
غلام فرید….. ا تھے چاہ نہ رکھی
جتے عشق لاوے ڈیرہ…….
شناور نے جیسے یہ مصرعہ سنبل کے لیے گاتے ہوۓ اپنا جھکا سر دھیرے سے اوپر اٹھایا۔ مگر اس کی آ نکھیں تا حال بند تھیں ۔اس کی آواز میں سوز کے جو رنگ کھلے تھے وہی رنگ اس کے چہرے پر بھی عیاں تھے۔ وہ اب سنبل کے عین سامنے تھا اور سنبل کی آنکھیں حیرت سے کھلی تھیں۔ کچھ لمحے ایسے ہوتے ہیں جن میں ہم قید ہوکر رہ جاتے ہیں اور یہ ایسی اسپری ہوتی ہے جس میں آزادی کی چاہ بھی نہیں ہوتی سنبل حیرت زدہ تھی ، اس سفر کے آغاز سے ہی وہ جن لمحوں میں خود کو قید پارہی تھی ، اس کے سارے تانے بانے سامنے بیٹھے شخص سے جڑتے تھے۔
یا الله… کیا محض اتفاق ہے یا کوئی معجزہ ہونے کو ہے۔ اس کا دل بے اختیار دھڑک اٹھا۔
یار ڈاڈھی عشق آتش لائی ہے
یار ڈاڈھی عشق آتش لائی ہے
اس کی آواز بلند ہوئی اور مجمع جھوم اٹھا۔
وے یار سانو… شناور نے یک دم آنکھیں کھول لیں اور اس کی نگاہیں عین سامنے حیرت زدہ سی بیھٹی سنبل پر جم کر رہ گئیں۔ شناور اس وقت اپنے آپ میں نہ تھا، وہ اس سرائیکی لوک گیت کے مدھر بولوں میں گھل چکا تھا۔ ایک الوہی رنگ میں ڈھل چکا تھا ، وہ میں نہ رہا تھا- تو- بن چکا تھا ۔
ملکہ کوہسار نے برفیلی اوڑھنی کے گھونگھٹ سے ذرا سی جھا نک کر اس عشق کے روگی کو دیکھا اور مسکرا کر گھونگھٹ میں رخ چھپا لیا۔ اس کی بانہوں میں سمٹی وادی بھی ہولے
ہولے عشق کے سرور میں محو رقص تھی-
وے یارسا نو لگ گئی بے اختیاری
سینے دے وچ نہ سمائی ہے۔
یار ڈاڈھی عشق آتش لائی ہے
سنبل کو محسوس ہونے لگا کہ ایک بے اختیاری اس پر بھی چھانے لگی ہے۔ شناور کی نگاہوں کا مرکز اگر وہ تھی تو شناور بھی اس کی نظروں کے حصار میں تھا۔ برف باری کا تمھا ہوا سلسلہ پھر سے جاری ہو گیا۔ ننھے روئی جیسے گالے ان سب پر جھومتے ہوۓ پھر سے برسنا شروع ہو گئے ۔ حسن یہ فسوں خیز مناظر اپنے کیمرے میں ریکارڈ کر چکا تھا۔ عشق آتش کا سلسلہ بھی تھم چکا تھا اور لوگ اب شناور سے آٹو گراف لے رہے تھے۔
میم ہمیں بھی لینا ہے آٹو گراف- شوخ و شنگ بچیوں نے ضد باندھ لی تھی۔ داؤد بھائی پہلے ہی ان لڑکوں سے علیک سلیک بڑھاچکے تھے۔ آٹو گراف ملنا مشکل نہ ہوا، ساری بچیوں نے قطار بنا کر آٹو گراف لیا تھا۔ بچیوں کے ساتھ ساتھ لگے ہاتھوں ماہین نے بھی آٹو گراف لے ڈالا۔ ماہین کے پیچھے وہ بھی کھڑی تھی ، کھوئی کھوئی سی ۔ بے اختیاری ابھی بھی اس پر چھائی ہوئی تھی ، تب ہی نظریں جھکی ہوئی تھیں ۔
آپ نہیں لیں گی آٹو گراف ۔‘‘ کسی نے اس کی جانب جھک کر سرگوشی کی تھی۔
سنبل نے بے اختیار سر اٹھا کر دیکھا۔ وہ مسکراتے ہوئے پوچھ رہا تھا اورکتنی پرکشش تھی اس کی مسکراہٹ۔
دراصل میرے پاس آٹو گراف لینے کے لیے کچھ ہے نہیں ۔ سنبل نے بوکھلا کر اپنے خالی ہاتھوں کی جانب اشارہ کیا اور واپس جانے کو مڑ گئی ۔
سنیے – شناور بے اختیارپکار بیٹھا۔ وہ بے ساختہ پلٹی ۔ مگر میرے پاس آپ کو دینے کے لیے کچھ ہے۔ اتنا کہہ کر وہ اپنی لید رجیکٹ کی جیب سے ایک کارڈ نکال کر اس پر لکھنے لگا اور پھر اپنی اس مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ وہ کارڈ اس کی جانب بڑھا دیا-
سنبل نے وہ کارڈ تھاما اور پلٹ کر تیزی سے اپنے گروپ کی جانب بڑھ گئی۔ چاۓ کے اسٹال سے نزدیک ایک بینچ پر بیٹھ کر اس نے مٹھی میں دبا کارڈ نکالا جواس کے ہاتھوں کے لمس سے بھیگ چکا تھا۔ وہ بے قرار نگاہوں سے اس کارڈ پر رقم لفظوں کو پڑھنے لگی-
اس سنہری لڑکی کے لیے جو ایک سنہرے لمحے میں مجھ سے آ ملی۔ اس ایک خوب صورت سطر کے ساتھ اس کا نام درج تھا- شناور- سنبل نے اس کارڈ کوالٹ پلٹ کر دیکھا، وہ وزیٹنگ کارڈ تھا جس میں شناور کا نمبر بھی درج تھا۔ اس نے بے اختیار سراٹھا کر کچھ فاصلے پر کھڑے شناور کو دیکھا تھا، وہ اس کی جانب تکتا متبسم تھا۔
یہ کیا آنکھ مچولی چل رہی ہے جناب۔ مابین نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ دریافت کیا۔ وہ کب اس کے سر پر آ کھڑی ہوئی ،اسے علم ہی نہ ہوسکا۔
’داؤد بھائی چاۓ کے اسٹال پر جا کھڑے ہوۓ۔ داؤد بھائی نے کشمیری چاۓ کا لمبا چوڑا آرڈر دیا تھا۔ ایک سولہ سترہ سالہ لڑکا تھا جو برقی رفتاری سے چائے بنارہا تھا اور گا ہکوں کو بھی ڈیل کر رہا تھا-
” نام کیا ہے تمہارا- داؤد بھائی نے یوں ہی بات براۓ بات نام پوچھ لیا۔ ظاہر خان ۔ اپنا نام بتا کر چاۓ کی ٹرے داؤد بھائی کے حوالے کرتے ہوۓ وہ پوچھنے لگا۔ آپ لوگ کہاں ٹھہرے ہو صاحب۔
یہ جو سامنے ہوٹل ہے ناں ، اس میں ۔ داؤد بھائی نے ہبٹوے سے پیسے نکالتے ہوۓ جواب دیا۔ جب بھی چاۓ لینا ہو، ادھر ہی آنا صاحب وہ پیشہ ورانہ مسکراہٹ چہرے پر سجاۓ کہہ رہا تھا۔ ایک سرسری سی نگاہ اس نے داؤد بھائی کے عقب میں گھڑی نو عمر لڑکیوں کے خوش گپیاں کرتے گروپ پر ڈالی ۔
ضرور ، بشرط تمہاری چاۓ ہمارے معیار کے مطابق ہو۔ داؤد بھائی نے مسکرا کر کہا اور ٹرے اٹھا کر پلٹ گئے ۔اس بار ظاہر خان کی نگاہ بنچ پربیٹھی ان دو نوجوان لڑکیوں پر جا ٹھہری ، اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں ایک عجیب کی چمک کوندی ۔
**********
وہ آج خوش تھا ، بے تحاشا خوش۔ دوڑتی بھاگتی سینکڑوں گتھیوں میں الجھی زندگی میں شمائلہ کا خیال کسی بہار کے موسم سے کم نہ تھا۔ آج کا دن بے حد مصروف گزرا تھا۔ وہ ایک بے حد اہم اور مشکل کیس پر کام کر رہا تھا ، اس سلسلے میں اسے کئی اہم میٹنگز میں شامل ہونا پڑ رہا تھا اور اسی وجہ سے آج اسے گھر جانے میں تاخیر ہوئی۔ وہ زمانے بھر کی تھکن ذہن سے پرے کر کے شمائلہ سے شادی کے تصور میں کھویا سا گھر میں داخل ہوا۔ مگر اس کی توقعات کے برعکس خوشی اپنائیت اور محبت کے بجاۓ تناؤ زدہ چہروں اور کثافت بھرے ماحول نے اس کا استقبال کیا۔
خیریت، آپ سب کے منہ کیوں اترے ہوۓ ہیں؟‘‘ اس نے حیرانی سے استفسار کیا۔ گھر میں پڑوسی مہانوں کی موجودگی اور ان کی نگاہوں سے عیاں ہوتی خفگی اسے مزید ورطہ حیرت میں مبتلا کر گئی۔
بیٹا یہ خطوط جو تمہارے سامنے پڑے ہیں، انہیں پڑھ لو۔ پھر جان جاؤ گے کہ ہم سب کے منہ کیوں اترے ہوۓ ہیں ۔ رحمن صاحب نے لفظ چبا چبا کر جواب دیا ۔ اسے حیرت نے آ گھیرا۔ ان سب پر ایک نگاہ دوڑاتے ہوۓ اس نے ان خطوط کو اٹھایا، ایک ایک کر کے وہ خطوط کو پڑھتا چلا گیا۔ اس کے لب ہے ساخت مسکراہٹ سے کھل اٹھے۔
یہ کسی کے ذاتی خطوط ہیں، آپ سب نے مجھے پڑھنے کے لیے کیوں دے دیے۔ وہ ان خطوط سے محظوظ ہوتے ہوۓ ان سے دریافت کرنے لگا۔ کیونکہ بیٹا جی خطوط لکھنے والے آپ ہی
ہیں۔ آپ کا ہی نام درج ہے ان تمام خطوط میں- اس با راشتیاق عالم طنزیہ لب ولہجہ اختیار کر گئے ۔
کیا مطلب کہ میرا نام لکھا ہے، اس بات سے مقصد کیا ہے آپ لوگوں کا؟ ارقم کے اندرخطرے کی گھنٹی بجی۔
لگتا ہے سی آئی ڈی والے آج کل اپنے افسروں کو ادا کاری سکھار ہے ہیں ، تب ہی سب کچھ جانتے بوجھتے ہوۓ بھی تم انجان بن رہے ہو بیٹا جی- حبیبہ بیگم طنزیہ لہجے میں کہے بنا نہ رہ سکیں ۔ ارقم بھونچکارہ گیا۔
دیکھو بیٹا- ان لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ خطوط تم نے لکھے ہیں ان کی بیٹی کو۔ اور سچ پوچھو تو خط میں نام بھی تمہارا لکھا ہے۔ اب تم ہی بتاؤ یہ سارا چکر کیا ۔ آخر رحمن احمد نے تحمل سے سارا معاملہ ارقم کے گوش گزار کیا۔
میں آپ کی بیٹی کو خط کیوں لکھوں گا۔ میں نے آج تک اسے دیکھا بھی نہیں ۔ ایک بہترین سی آئی ڈی آفیسر ہونے کے باوجود اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ عجیب وغریب مسئلہ پیدا کب ہوا اور جوان ہوکر کب اس کی خوشیاں اجاڑ نے اس کے سامنے آ کھڑاہوا۔
یہ عجیب کہی تم نے بیٹا کہ دیکھا تک نہیں ، خط نہیں لکھا۔ ارے نام تمہارا لکھا ہے پھر خط تم نے نہیں لکھا تو کیا کسی خلائی مخلوق نے لکھ ڈالا ہے ۔ حبیبہ کے سر پر لگی اور تلوؤں پر بجھی ۔
سنو پڑوسن بی بی- یہ میرے پوتے کو خلائی مخلوق کہہ کر مشکوک نہ بناؤ۔ ہاۓ کل ہی میں نے خبروں میں سنا ہے کہ حکومت کی خلائی مخلوق سے جنگ چل رہی ہے اور ہاں اگر خط لکھ بھی دیے تو کیا ہو گیا۔ نادانی کی حدوں کو چھوتیں دادی اماں نے کچھ دنوں قبل ہی خلائی مخلوق کی خبر میں نیوز چینلز پر سنی تھیں اور فی الوقت حبیبہ کے منہ سے اس لفظ کو سن کر پوتے کی محبت میں سٹپٹا کر بول پڑیں-
مگر دادی اماں- میں نے یہ خط نہیں لکھے۔ آپ لوگ میری بات مان کیوں نہیں رہے ۔ اس کا دل چاہا اپنے بال نوچ ڈالے۔ دیکھیں عفت آپا- خطوط کا یہ معاملہ صحیح نہیں ہے۔ارقم اگر شمائلہ سے منسوب ہے تو کیا ضرورت ہے اسے آس پڑوس کی لڑکیوں کو خطوط لکھنے کی ۔اس بار راحت آرا بھی منہ پھلاۓ شکوہ کناں ہوئیں۔ ہاۓ میں نے سوچا بھی نہ تھا کہ ارقم بھائی ایسے دل پھینک نکلیں گے ۔ بے چاری شمائلہ کا تو دل ی ٹوٹ گیا۔ چہ چہ چہ‘‘ میمونہ نے حجٹ شرانگیزی دکھائی۔ارقم نے خوں خوار نگاہوں سے میمونہ کوگھورا اور پھر کن انکھیوں سے اس کے برابر میں آنکھوں سے ندی بہاتی شمائلہ کو۔ اچھی مصیبت گلے پڑ گئی یار- وہ بڑ بڑا کر رہ گیا۔
آپ سب لوگ ایک طرف کی کہانی سن رہے ہو۔ ارقم کی بات سن ہی نہیں رہے جب وہ کہہ رہا ہے کہ یہ خط اس نے نہیں لکھے تو ہوسکتا ہے اس نے نہ لکھے ہوں ۔ کیا خبر یہ خطوط کسی اور نے لکھے ہوں ۔عفت آرا بالآخر بیٹے کی حمایت میں میدان میں اتریں۔ارقم نے انہیں ممنون نگاہوں سے دیکھا۔
آپ تو یہی کہیں گی ناں بہن ، آپ کا بیٹا جو ہے اور بیٹے والوں کو بیٹی والوں کے دکھ دکھائی نہیں دیتے۔ یہ خطوط تو آپ لوگوں کے لیے بے معنی سی بات ہے مگر ذرا سوچیے کہ جو وعدے دعوے ارقم نے خطوط میں میری بیٹی سے کر ڈالے ہیں۔ جب اسے علم ہوگا کہ ارقم اب کسی اور شادی کر رہا ہے تو کتنا دکھ ہوگا اسے- کبھی سوچا بھی ہے آپ لوگوں نے ۔ حبیبہ آب دیده سی بیٹی کی محبت میں بولے چلی گئیں۔
بات تو ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ۔ بیٹیوں والوں کے درد کا احساس بیٹے والوں کو کم ہی ہوتا ہے ۔ ارقم ایک ہی وقت میں دولڑکیوں کے دلوں سے کھیلتا آ رہا ہے اور آپا- آپ کو بھی اپنا بیٹا غلط معلوم نہیں ہور ہا۔ افسوس کا مقام ہے یہ ۔ راحت آرا کا دل بھی آنسو بہاتی بیٹی کے درد پر کر لایا تھا۔
ارقم بھائی اگر آپ کو شمائلہ سے شادی نہیں کرنی تھی تو ایسے ہی کہہ دیتے۔ اس طرح کسی اور سے چکر چلا کر آپ نے تو اسے جیتے جی مارڈالا- اس پورے قصے میں میمونہ بھی اپنا حصہ خوب ڈال رہی تھی-
اوہو بس کر دیں آپ سب، جس بات کا نہ کوئی سر ہے نا پیر۔ اس بات کے پیچھے پڑ گئے ہیں آپ لوگ اور آنٹی آپ یہ تو بتائیں یہاں ان خطوط کو لاکر ہنگامہ کھڑا کر دیا مگر اپنی بیٹی سے پوچھا کہ اسے یہ خطوط کس نے لکھے ہیں ۔ اب جرح کی باری ارقم کی تھی-
پوچھوں کیا؟ جب صاف جلی حروف میں نام تمہارالکھا ہے صاحب زادے اور جب اسے بتایا کہ تمہاری آج تاریخ طے ہورہی ہے شادی کی تو میری معصوم ہنستی کھلکھلاتی بچی کو چپ لگ گئی۔ایسی خاموشی ہوئی وہ کہ میں ہیلوہیلو بولتی رہی مگر وہ ایک لفظ نہ بول پائی۔ بڑی حساس ہے میری بچی ، نہ جانے کیسے وہ اتنا بڑا صدمہ وہاں اکیلے سہہ رہی ہوگی۔ اب بتایے ذرا، ایسے میں کیسے میں یہاں آ کر فریاد نہ کروں ۔ حبیبہ کی آنکھوں سے اشک رواں تھے اور لہجہ بھیگا تھا۔ عفت آرا اور رحمن احمد ساری بات سن کر سر جھکا کر رہ گئے۔
رحمن بھائی- میرے خیال سے ہمیں اب پڑوسیوں کی بچی کے کراچی لوٹنے کا انتظار کرنا چاہیے۔ تب تک اس معاملے کو یہیں چھوڑ دیتے ہیں ۔ اب جو بھی بات ہوگی ، اس بچی کے آنے کے بعد ہوگی ۔ تیمور حسن تمام معاملے کو بغور سن اور دیکھ رہے تھے۔ رحمن احمد سے اجازت لیتے ہوئے بولے۔ ارقم لب بھینچے انہیں جاتادیکھتا رہ گیا۔ شمائلہ کی آنکھوں میں پھیلی بدگمانی اس کی نظروں سے مخفی نہ تھی اور وہ بخوبی جانتا تھا کہ میمونہ اب اس کے حوالے سے شمائلہ کے دل میں بدگمانی کے ساتھ ساتھ نفرت کے بیج بھی بونے والی ہے۔
آج تم نے ہمارا سر خاندان کے ساتھ ساتھ محلے بھر میں بھی شرم سے جھکا دیا- اب دیکھنا کیسے یہ خبر ہر جگہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہے۔ مجھے سمجھ میں نہیں آ تا ارقم- کہ ایک ذمہ دار آ فیسر ہوکر بھی تم اتنی بچگانہ حرکت کیسے کر سکتے ہو۔ خط لکھتے پھر رہے ہو لڑکیوں کو ۔ رحمن احمد نے جو غصہ اتنی دیر سے اپنے اندرد با رکھا تھا ، وہ بالآخرابل ہی پڑا۔
مجھے بھی آپ لوگوں سے یہ امید نہیں تھی ، میرے کردار کی پختگی سے میرا پورا ادارہ واقف ہے۔ مگر میرے اپنوں کو ہی اعتبار نہیں۔ حد ہوگئی ہے، آپ لوگوں نے سوچ لیا کہ میں محبت نامے لکھنے جیسی بے وقوفانہ حرکت کرتا پھروں گا۔ باہر سے آ کر کسی نے مجھ پر انگلی اٹھائی اور آپ لوگوں نے اس کا یقین کر کے مجھے بے اعتبار کر ڈالا۔ میں آپ لوگوں کا اپنا خون ہوں، پھر بھی رتی بھر کا بھروسانہیں آپ لوگوں کو وہ مسلسل لگنے والے بے بنیادالزامات کی صفائی دے دے کر تھک چکا تھا۔ تب ہی چیخ پڑا۔ ایک افسوس بھری نگاہ ان سب کے خاموش چہروں پر ڈال کر وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔
زندگی کے سفر میں کب کوئی بھیا نک سا موڑ اچانک آ دھمکے، کچھ پتا نہ چلنا- چاہتے نہ چاہتے ہوۓ بھی انسان کو نہ صرف اس بھیانک اژدھے کے مانند منہ پھاڑے موڑ کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ اس میں سے گزرنا بھی پڑتا ہے۔ ارقم کو بھی یہی صورت حال در پیش تھی ۔ اس نے بھی سوچا بھی نہ تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کی نظر میں ہوں بے عتبار ہو کر رہ جائے گا۔ کچھ حادثات بجلی کی سی تیزی کے مانند رونما ہوتے ہیں۔ پلک جھپکتے ہی ہوکر گزر جاتے ہیں ۔ مگر اثرات دیر پا اور بھیانک ثابت ہوتے ہیں۔
جو کچھ بھی ہوا وہ ارقم کے لیے بھی ایک حادثہ ہی تھا۔ جس لڑ کی وہ جانتا بھی نہ تھا ، اس کے ساتھ اس کا نام زبردستی نتھی کر دیا گیا ۔ اس کے کردار کو تار تار اور اس کی عزت کو داغ دار بنا دیا گیا اور پھر ستم یہ کہ کوئی اس پر یقین کرنے کو بھی تیار نہ تھا ۔
حد ہے یار- یہ سب کچھ تو عموماً ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ میں تاریخ میں پہلا انوکھا لڑ کا ہوں گا جو اپنی عزت و وقار کے لیے گھر بھر سے لڑ رہا ہوں ۔ وہ زیر لب بڑبڑاتا ہوا بستر پر دراز ہو گیا۔
’’شمائلہ…..اسے بھی یقین نہیں مجھ پر۔ وہ بھی بے اعتبار کر گئی مجھے ۔ اسے دکھ نے آ گھیرا۔
بہت دیر تک وہ اس تمام قصے کے متعلق سوچتا رہا۔ بے حد یاد کرنے کے باوجوداسے اس لڑکی کا چہرہ یاد نہ آیا جس کے عشق میں گرفتار ہو کر محبت نامے لکھنے کا الزام اس پر لگا تھا اور یاد آتا بھی کیسے جو چہرہ نظروں سے بھی گزرا ہی نہیں ، وہ ذہن کے پردے پر کیسے اپنی شبیہہ دکھلاتا۔
بہت سوچ و بچار کے بعد اس نے شمائلہ سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ شمائلہ اس سے متنفر ہو۔ وہ اس کا اعتماد کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا تھا۔ وہ میمونہ کوشمائلہ کو بہکانے کا موقع ہرگز نہیں دینا چاہتا تھا۔ وہ بستر سے اٹھا اور کال ملاتے ملاتے کھڑکی پر جا کھڑا ہوا۔ کھڑکی کے کھلے پٹ سے آتی خوش گوار ہوا نے اس کے مزاج پر چھائی کثافت کو بھی تھوڑا دور کر ڈالا تھا۔ گھنٹی بج رہی تھی ، وہ اپنی بھیجی گئی صدا کو قبولیت کی سند ملنے کا منتظر تھا ۔
***********
مت اٹھانا فون ، بالکل بھی نہیں اٹھانا ۔ ارقم کا نام اسکرین پر روشن ہوتے ہی شمائلہ نے بے اختیار موبائل تھاما اور بجلی کی کی سرعت کے ساتھ میمونہ نے اسے کال وصول کرنے سے روکا ۔کیوں ، کیوں نہ اٹھاؤں؟ مجھے بات کرنی ہے ارقم سے ۔ میں نے پوچھنا چاہتی ہوں اس نے ایسا کیوں کیا میرے ساتھ ۔ شمائلہ کا لہجہ بھیگا اور دل چھلنی تھا۔ میمونہ کے دل میں ٹھنڈ پڑ گئی، یہ اس کے لیے خوش آئند بات تھی کہ شمائلہ کے دل میں ارقم کی ہے وفائی کی گرد بیٹھ چکی ہے۔ وہ لوگ جب سے گھر آۓ تھے، تب سے ارقم کے حوالے سے ہی بات ہورہی تھی۔ ماموں مامی کو تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ ارقم ایسا کچھ کر سکتا ہے۔ اس یقین دلانے میں بھی میمونہ کی چرب زبانی کا بڑا کمال تھا۔ ماموں ، مامی تو اب تھکن زده اعصاب کے ساتھ اپنے کمرے میں جاچکے تھے مگر وہ تب سے بی ارقم کے حوالے سے شمائلہ کے کان بھرنے جارہی تھی۔
بے وقوف لڑکی وہ جب قبول ہی نہیں رہا تو وضاحت کیا دے گا۔ وہ تو صاف منکر ہے اپنی اس نیچ حرکت پر اور تم فورا اس سے بات کرلو گی تو وہ فوراً تمہیں بہلا لے گا اور آخر میں کیا ہوگا ۔۔۔۔ کہ تم یوں ہی اس کی باتوں کے جال میں پھنسی رہوگی اور وہ دوسری جانب اس لڑکی سے چکر بھی چلاتا رہے گا۔ میمونہ نے بہت تاک کر پا نسہ پھینکا تھا۔
مگر ارقم ایسا نہیں ہے۔ وہ ایسا کبھی نہیں کرسکتا کہ مجھے محبت میں دھوکا دے یہ اس کے اندر سے کوئی تڑپ کر بولا ،شاید سسکتی محبت تھی۔
ایسانہیں ہے تو پھر وہ خطوط کس خوشی میں اپنی پڑوسن کو لکھ ڈالے۔ سی آئی ڈی والوں نے کوئی نیا مشن اس کے حوالے کیا تھا کہ محلے کی لڑکیوں کو خط لکھو۔ ارقم ایسا نہیں ہے، اونہہ- میمونہ نے ہنکارا بھرتے ہوئے آخری فقرہ ادا کیا اور شمائلہ اس کی بات سن کر بجھ سی گئی ۔ واقعی ارقم نے وہ خط کیوں لکھے، کیا واقعی وہ پڑوسن کے عشق میں گرفتار تھا۔ سوال تو بہر حال اس کے ذہن میں اٹھتا تھا۔
تم بہت ہی بے وقوف لڑکی ہوشمائلہ تمہیں تو فورا سمجھ لینا چاہیے کہ ارقم نے شادی میں اس لیے تاخیر کی کیونکہ اپنی پڑوسن سے دل لگا بیٹھا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ اب تمہاری خالہ نے ضد لگالی ہو تو وہ مجبوراً شادی پر راضی ہوا ہو۔ میمونہ ایک بار پھر سے اس کے نا پختہ ذہن سے کھیلنے لگی ۔ تواب اب میں کیا کروں؟ یوں ہی بیٹھ کر ٹسوے بہاتی رہوں ۔ میمونہ کی باتیں سن سن کرشمائلہ چرڑا اٹھی- ارے میری جان- تم بس وہی کرو جو میں تمہیں سمجھاؤں اور کہوں ۔ میمونہ نے اب اگلا پانسا پھینکنا شروع کیا۔ في الوقت اس سے کوئی بات نہ کرو۔ وہ مسلسل کال کرتا رہے گا ،ایک دو دن بعد بات کرو اور اس سے صاف صاف کہہ دو کہ اب تم یہ شادی اسی صورت میں کرو گی کہ جب وہ لڑکی ساری حقیقت سے پردہ اٹھاۓ ۔ تب وہ تم سے معافی مانگے اور اس لڑکی سے سارے رابطے ختم کرے تب جا کر تم اس شادی کے لیے راضی ہوگی ۔ میمونہ اب اسے پکی عمر کی عورتوں کی طرح سمجھارہی تھی۔
دیکھوتمہارے اس سخت قدم اٹھانے اور فیصلے کے بعد ہی وہ اپنی پڑوسن سے تعلق مکمل طور پر ختم کرنے پر راضی ہوگا۔ اگر تم سے سچی محبت کرتا ہوگا ور نہ اس کے لیے تو بہت آسان ہے تم سے بھی شادی کرتا اور محلے کی لڑکی کو بھی پھنسا کر رکھتا ۔ غالبا شمائلہ نے پھر کوئی سوال اٹھایا تھا جس پر میمونہ نے جھنجلا کر جواب دیا۔ کچھ ہی پل لگے تھے شمائلہ کو میمونہ کے ذہن سے سوچنے ، نگاہوں سے دیکھنے میں ، بس باقی بچاتھا تو میمونہ کی
زبان سے بولنا۔
*********
شناور دنیاۓ موسیقی میں راج کرنے کے خواب دیکھنے کا عادی تھا اور خوش قسمت تھا کہ اکلوتا ہونے اور بے حد لاڈلا ہونے کے باعث ماں باپ کی طرف سے مکمل سپورٹ حاصل تھی ۔اس سلسلے میں اس نے موسیقی کی تعلیم بھی حاصل کی ۔اب تک وہ چند گانوں کی ویڈیوز بنا کر سوشل ویب سائٹس پر اپلوڈ بھی کر چکا تھا۔ یہ اس کی آواز میں چھپا سوز تھا جو سننے والوں کو اس کا دیوانہ بنا ڈالتا تھا۔ وہ شہرت کی بلندیوں پر تو نہ پہنچا تھا مگر مسافراسی منزل کا تھا۔ ۔ حال ہی میں اس نے بے حد مقبول و معروف لوک گیت عشق آتش کو اپنی آواز میں گانے کا قصد کیا تھا اور اس گانے کو وہ اپنے سننے والوں کے ذہن میں امر کر ڈالنے کی خواہش رکھتا تھا۔ اس گانے کی ویڈیو کے لیے وہ ایک ایسی جگہ کا متلاشی تھا جسے دیکھتے ہی اس کے قلب و ذہن ایک ساتھ راضی ہوجائیں اور اس ایک خاص لوکیشن کی تلاش میں نگر نگر گھومتے گھومتے وہ وادی کو ہسار آ پہنچا تھا۔
جب سے شناور نے اس گیت کے بول اپنے من میں اتارے تھے، تب سے وہ ایک انوکھی کیفیت کا شکار ہو چلا تھا۔ ایسی کیفیت جسے وہ کوئی نام نہیں دے سکتا تھا۔ اسے قدرت اپنی جانب کھینچ رہی تھی۔ عام سے لوگ اسے خاص لگنے لگے تھے۔ مسکراہٹ اس کے لیوں پر چھائی رہتی۔ ایک دلفریب سا سرور اس کے من کو بھاۓ رکھتا۔ایک چنگاری سی اس کے اندرآ نچ دیتی رہتی ۔
ہل ہلا کے عشق جو آیا
محبت ڈاڈھا شور مچایا
تھاہ تھاہ ناچ نچائی ہے
یار ڈاڈھی عشق آتش لائی ہے
اس دن شاہی قلعے میں جب وہ یہ گیت گا رہا تھا تو ایک مجمع سا اس کے اطراف جمع ہو گیا تھا۔ خواب واہ واہ ہوئی اور اس کی یہ کیفیت مزید پروان چڑھتی چلی گئی۔ میری چھٹی حس بار بار مجھے اس احساس سے دو چار کر رہی ہے جیسے عشق مجھے ہونے کو ہے۔ شاہی قلعہ سے لوٹے ہوۓ اس نے ہنستے ہوۓ زوار اور محسن سے کہا تھا۔
میرے پیارے، یہ اس لوک گیت کا جادو ہے جو تیرے سر پر چڑھ کر بول رہا ہے۔اس لیے تجھےعشق سا محسوس ہورہا ہے۔ زوار نے ہنستے ہوئے اس کی کیفیت کا تجزیہ کیا تھا۔
وہ شاہی قلعے کی تاریخ کے جھروکوں سے جھانکتے مناظر سے بھی مطمئن نہ ہوا تھا اور پھر وہ اسلام آباد پہنچ گیا۔ وہ ایسا ہی تھا۔ من کی مرضی پر چلنے والا۔ اسلام باد میں اسے لوکیشن سمجھ میں نہیں آئی مگر وہاں اسے سنہری لڑکی مل گئی۔
کچھ چیزیں بلاوجہ ہماری زندگی میں شامل ہوجاتی ہیں مگر وہ بلاوجہ چیزیں آہستہ آہستہ ہماری زندگیوں کا اہم حصہ بنتی چلی جاتی ہیں جیسے کہ بانسری۔ بچپن میں اس کے محلے میں ایک بنجارہ آتا تھا، بانسری بجاتا محلے سے گزر جاتا۔ کچھ لوگ اس کی خوب صورت دھن سے متاثر ہوکر کچھ سکے اس کی جانب اچھال دیتے اور وہ ان سکوں کو جیب میں ڈال کر بانسری بجاتا چل پڑتا۔ وہ اپنی چھت پر کھڑا مبہوت سا اس دھن کو سنتا چلا جاتا۔ بانسری کی وہ دھن یوں ہی بلاوجہ اس کی زندگی میں شامل ہوتی چلی گئی اور اس کے دل میں خواہش پنپنے لگی۔ وہ ان مدھر لمحوں کے زیر اثر فلوٹ لوور بنتا چلا گیا اور آج جب وہ خود بانسری کی دھن کو اپنے لبوں پر ترتیب دیتا تھا تو اردگرد کے ماحول پرفسوں چھا جا تا ۔لوگ سحر انگیز سے اس کی جانب بڑھتے اور دم سادھے بانسری کی دھن سنتے چلے جاتے۔ جس طرح بانسری اس کی زندگی میں بلاوجہ داخل ہوکر اپنی جگہ بنا گئی، اس طرح وہ سنہری لڑکی بھی بلاوجہ نظروں کو بھا کر ذہن میں اپنا نقش چھوڑ گئی اور پھر اسی شب ہوٹل میں اس لڑکی سے اس کا سامنا ہوا۔ وہ اسے ٹھیک سے دیکھ نہ سکا مگر اس ایک سامنے کے بعد دل کو نہ جانے کیوں امید بندھ گئی تھی ، بار بار آمنا سامنا ہونے کی اور وادی کو ہسار کے پرہیچ راہوں سے گزرتے وہ سنہری لڑکی اسے پھر نظر آئی تھی اور وہ سوچ بیٹھا ، اس کے دل میں بانسری کی جوت جگانے والا بنجارہ اس دنیا کے ہجوم میں کھو کر اس کے دل میں لا کھ خواہش ہونے کے باوجود نہ ملا۔ دل کتنا چاہتا تھا کہ وہ بنجارہ اس کے سامنے بیٹھا ہواور وہ اس کے سامنے بیٹھا وہی دھن اپنے لبوں سے چھیڑ کر اسے حیران کر دے مگر لاکھ شدت کے باوجود اس کی یہ خواہش پوری نہ ہو پائی۔ شاید دل میں ابھرنے والی ہر چاہ قبولیت کا درجہ نہیں پاسکتی اور یہ دل میں ابھی بھی سانس لیتی چاہ ایک دم پوری ہو گئی۔ وہ سنہری لڑکی ایک بار پھر اس سے ٹکرا گئی۔
یا الله- آخر یہ ماجرا کیا ہے؟ وہ زیر لب مسکرا تا رب سے پوچھ بیٹھا۔ وادی کو ہسار میں اس کا استقبال برفیلی ہواؤں کے ساتھ ساتھ پھر سے اس سنہری لڑکی نے کیا تھا۔ اور اس ڈھلتی شب میں جب وہ عشق کی تان چھیٹر بیٹھا تھا تو تصور میں وہ وادی بھی اس کے سرور میں جھوم اٹھی تھی اور وہ سنہری لڑکی بھی…. اور پھر اس نے آنکھیں کھول دیں ۔خواب اور حقیقت ایک سے ہوں تو دل خوش قسمتی پر نازاں کیوں نہ ہو۔ سنہری مورتی مبہوت سی اس کے سامنے بیٹھی تھی۔ اور بے اختیاری اس پر بھی چھاتی چلی گئی۔
اس نے دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر رابطے کا نمبر اسے دے تو دیا تھا مگر وہ بخوبی جانتا تھا کہ وہ اس سے رابطہ نہیں کرے گی۔ وہ ان لڑکیوں میں سے نہیں تھی جن کا دل حہٹ پھسل جاتا ہو۔اتنا تو وہ بھی جان چکا تھا۔ اس کی چھٹی حس اسے باور کرا رہی تھی، یہ ٹکراؤ خالق کائنات کے کن فیکون کا نتیجہ ہے تو اپنی کوششیں چھوڑ اور رب کے آگے سرنگوں ہو جا۔ پھر دیکھ ہوتا کیا ہے اور شناور نے اپنا سر خالق کائنات کے آگے جھکا ڈالا تھا۔
داؤد بھائی سے ان لوگوں کی اچھی علیک سلیک ہو چکی تھی۔ وہ ایک خوش اخلاق ، زندہ دل اور یاروں کے یارقسم کے انسان تھے اور یہ بھی حسن اتفاق تھا کہ داؤد بھائی اپنے اسکول گروپ کے ساتھ اس ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔ جہاں وہ تینوں قیام پذیر تھے۔ داؤد بھائی نے اسے رات ہی مطلع کیا تھا کہ وہ نیومری میں واقع ایک ہل اسٹیشن کی طرف صبح سویرے نکلیں گے۔ساتھ ساتھ ان تینوں کو بھی ساتھ چلنے کی دعوت دے دی کہ ان خوب صورت جگہوں پر ساتھ گزرا وقت یادگار رہے گا ۔
شناور نے بھی دعوت قبول کر لی تھی اور صبح سویرے وہ تینوں بھی داؤد بھائی کے اسکول گروپ کے ساتھ سفر کے لیے نکل پڑے۔ اس مرتبہ کوسٹر اور جیپ کا سفر ساتھ ساتھ طے ہورہا تھا۔ کچھ ہی گھنٹوں میں وہ لوگ ہل اسٹیشن پہنچ چکے تھے۔ یہ ہل اسٹیشن مزید بلندی پر واقع تھا اور یہاں لفٹ چیئرز اور کیبل کار کے ذریعے پہاڑوں کی بلند چوٹی تک پہنچا جا تا تھا یہاں کا نظارہ انتہائی دلکش اور حسین تھا۔ دھند میں لپٹی بھوری چوٹیوں کے سلسلے کشمیر کی پہاڑیوں سے ملتے دکھائی دیتے تھے۔ قد آور تناور چنار اور صنوبر کے درختوں سے لدا جنگل …… اور جنگل کے کچھ حصوں کا صفایا کر کے سیاحوں کے لیے بنایا گیا ہل اسٹیشن ۔ نیچے ہرے بھرے درختوں کے درمیان بڑی بڑی رنگ برنگی چھتریوں تلے میز اور کرسیاں جگہ جگہ بچھی ہوئی تھیں۔ کچھ کینٹین تھیں جہاں سے لوگ کھانے پینے کی اشیاء خرید کر کرسیوں پر بیٹھ کر ان خوشیوؤں سے مہکتی فضاؤں میں خود کو تازہ دم محسوس کرر ہے تھے-
ایک طرف چٹانوں کو تراش کر چوڑی چوڑی سیڑھیاں بنائی گئی تھیں۔ جو بل کھاتی ہوئی اس مقام تک جاتی ہیں جہاں سے چیئر لفٹ کا سلسلہ شروع ہوکر مزید بلندی پر جا پہنچتا تھا اور بلندی پر واقع تھیں رونقیں ، رنگینیاں اور وہیں سے نظر آتا تھا جنت نظیر وادی کشمیر کے پہاڑوں کا نظارہ ……
وہ لوگ بھی سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے سنبل نے شناور کوکن انکھیوں سے دیکھا، وہ صنوبر کے درختوں کے جنگل سے گھرے میدان میں اپنے دوستوں کے ہمراہ جا رکا تھا سنبل نے کئی دفعہ اسے کن انکھیوں کی دیکھا مگر وہ اس کی جانب آج متوجہ نہ تھا۔ شاید وہ اس سے نارا ض ہو گیا تھا یا پھر نا امید….. اس نے اسے رابطے کے لیے نمبر دیا تھا مگر اس نے کوئی رابطہ نہ کیا۔ شاید اسی وجہ سے وہ اب اس سے اجنبیت برت رہا تھا۔ سنبل کے دل میں وہم پلنے لگا۔ تو کیا اسے شناور سے رابطہ کرنے میں پہل کرنا چاہیے۔ دل نے استفسار کیا۔ نہیں، بالکل نہیں کرنا چاہیے۔ وہ گلوکار ہے، کتنی ہی لڑکیوں سے رابطے میں رہتا ہوگا اور اس سے ابھی تعلق بنا ہی کیا ہے۔ صرف آنکھوں ہی آنکھوں میں تو چند ایک باتیں ہوئیں، پھر رابطہ کر کے کردار کیوں ہلکا کرنا اپنا۔ عقل نے جھٹ ڈ پٹا تھا اسے۔ ….. پھر کیا کرنا چاہے اسے ۔۔ دل اداس ہوا۔ کچھ نہیں کرنا چاہیے۔ گھومو، پھرو، لطف اندوز ہو اور بس اپنی ذمہ داری نبھاؤ۔ عقل نے سخت گیر ٹیچر کا روپ دھارلیا تھا۔

 

Latest Posts

Related POSTS