وہ ہمارے پڑوس میں رہتی تھی۔ نام تو اس کا شاہانہ تھا، مگر پیار سے گھر والے اسے شینی پکارتے تھے۔ اس کا کوئی بھائی نہیں تھا، نہ بہن… جب تک باپ حیات رہا، اس نے بیٹی کو آرام، پیار اور سکون کی زندگی دی، اس کی ہر خواہش پوری کی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ مغرور اور خودسر ہو گئی تھی۔ جب باپ کا سایہ سر سے اٹھا، تب شینی سیانی ہو چکی تھی۔ وہ اب کسی کو خاطر میں نہ لاتی، ہر بات میں من مانی کرتی۔ اس کو قابو میں رکھنا گھر والوں کے لیے مشکل ہو گیا۔ وہ اب سترہ برس کی ہو چکی تھی۔ اس پر روپ آنے لگا۔ وہ روز بروز نکھرتی جاتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی غمزہ اداس بھی ہو رہی تھی۔ انہی دنوں کھیت سے ساگ توڑتے ہوئے اس کی ملاقات میرو سے ہو گئی۔ دونوں کے دلوں نے ایک دوسرے کے سگنلز وصول کیے اور چاہت کے سگنلز کے ذریعے آنے جانے لگے۔ ان کے بیچ ملاقاتیں ہونے لگیں اور پھر گہرے مراسم پیدا ہو گئے۔ انہوں نے بہت احتیاط کی کہ ان کا راز دنیا والوں پر آشکارا نہ ہو سکے، لیکن یہ محال تھا کہ ایسے تعلقات چھپتے نہیں۔ان کے بیچ کی بات نکل گئی۔ اڑتی اڑتی شینی کی ماں زبیدہ کے کانوں تک پہنچی۔ وہ سنائے میں رہ گئی۔ بھاگ کر اپنے بھائی کے پاس پہنچی اور دل پر ہاتھ رکھ کر دکھڑا بیان کیا۔ اس کے بھائی نے مشورہ دیا کہ شینی کی شادی کر دینی چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ پانی پلوں سے گزر جائے اور پھر اس غفلت کی تلافی ممکن نہ رہے۔ زبیدہ کے بھائی نے یہ بھی پیشکش کی کہ وہ بیٹی کو بہو بنانا چاہتا ہے، اس طرح لڑکی گھر میں رہے گی اور مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ شینی کی ماں نے مگر انکار کر دیا اور کہا، بھائی! مرحوم شوہر کی وصیت سے مجبور ہوں۔ مرتے دم اس نے وعدہ لیا تھا کہ شینی کی شادی اس کے بھائی کے لڑکے جبار سے کروں گی۔ جب اس نے یہ وعدہ لیا تھا، اپنے بھائی کو بطور گواہ بٹھا لیا تھا۔ اب میں قول سے منکر نہیں ہو سکتی، ورنہ یہ بات تنازع کی صورت میں برادری میں لے جائے گا۔ اب تم سے یہ التجا ہے کہ سرپرست بن کر میری بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھ کر عزت سے اس کی رخصتی کر دو۔ انور نے زبیدہ کو تسلی دی کہ فکر نہ کرے، جیسا وہ چاہے گی، ویسا ہی ہو گا۔ ماموں نے اس کے بیاہ کی تیاریاں شروع کر دیں۔ جب شینی کو علم ہوا کہ اس کو دلہن بنانے کے سامان ہو رہے ہیں، وہ سخت مضطرب ہو گئی۔ ماموں سے ڈرتی تھی، ماں سے احتجاج بیکار تھا، لہذا اس نے اپنے محبوب امیر بخش عرف میرو سے کہا کہ اب دوسرا کوئی راستہ نہیں، ماں اور ماموں مانیں گے نہیں، اس لئے چلو بھاگ چلیں۔ لیکن اس کا محبوب میرو شریف تھا یا بزدل… اس نے شاہانہ کی تجویز کی حوصلہ افزائی نہ کی اور اس کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ یہ قدم اٹھانے سے باز رہے۔ کہا، ہمیں شریفانہ طریقے سے ایک دوسرے کا ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تم خوابوں کی دنیا میں مت رہو، یاد رکھو کہ سیدھے طریقے سے تو تم مجھے کبھی بھی حاصل نہیں کر سکو گے۔ ماموں نہ صرف انکار کر دیں گے بلکہ تم لوگوں کی بے عزتی کرنے سے بھی باز نہ رہیں گے۔ شینی نے ٹھیک کہا تھا۔ میرو کا رشتہ حقارت سے ٹھکرادیا گیا اور برابھلا بھی کہا گیا۔ وہ شینی سے محبت کرتا تھا، تبھی خاموشی سے ذلت سہہ کر ان کے گھر سے نکل گیا۔
اس ناکامی پر ایک بار پھر شینی نے اس کو بھاگنے پر اکسایا۔ منصوبہ بنانے کے باوجود، عین وقت پر وہ اس منصوبے پر عمل نہ کر سکا۔ یوں روتی دھوتی شینی دلہن بنی چچازاد کے گھر آ گئی۔رخصتی کے وقت گھونگٹ میں بھی اس نے ماں سے یہی کہا تھا کہ اب مجھے دعائیں دے کر وداع کی ضرورت نہیں۔ اگر میں میرو کی نہ بنی تو میرا نام شاہانہ نہیں۔ تم مجھے چمارن کہنا۔ تم نے اپنی ضد کو پورا کیا، اب دیکھ لینا تمہاری شما شاہانہ کیا کرے گی۔ تب تم مجھ سے گلہ بھی مت کرنا کیونکہ تم نے تو اپنی سی پوری کر لی ہے۔ اماں خاموش اس کی سنا کر رہی تھیں۔ سوچا لڑ کی نادان ہے، شوہر کا پیار مل جائے گا تو ماضی بھلا دے گی۔ ابھی غصہ ہے، اول فول بک رہی ہے۔ کہتے ہیں جہاں دل نہ ملیں، وہاں مصلحتیں گرد ہو جاتی ہیں۔ شادی جسموں کا نہیں، روحوں کا ملاپ ہے، تبھی دلی خوشیاں نصیب ہوتی ہیں۔ شینی کی روح جبار سے نہ مل سکی۔ وہ اپنے ہی گھر میں اجنبی ہو رہی تھی۔ شوہر بھلا مانس تھا، مگر اس بچارے کو اپنی دلہن کے دل میں اٹھنے والے طوفان کا علم نہ تھا۔ وہ اس کو اپنی شریک حیات قبول کر چکا تھا اور چا و سے بیاہ کر لایا تھا۔ وہ تو ایک نارمل آدمی کی طرح صبح کام پر جاتا، رات کو تھکا ہارا گھر آتا۔ کبھی بیوی سے پیار و محبت جتلاتا اور کبھی تھکن سے چور یوں ہی پڑ کر سوتا، مگر شینی کے جسم و جاں میں جوالا دہک رہا تھا، وہ رفتہ رفتہ آتش فشاں کے روپ میں ڈھلنے لگا۔ جس قدر وہ خود پر جبر کرتی، اس قدر میرو یاد آتا اور اس کی دلی تکلیف بڑھ جاتی۔ وہ ایسی عورتوں میں سے نہ تھی جو قربانی دینا جانتی ہیں، پس غصہ اندر ہی اندر دو چند ہوتا جاتا تھا۔ ہر لمحہ اپنے محبوب کی یاد اس کو بے چین رکھتی تھی۔ جلد ہی وہ اس ذہنی عذاب سے نیم جان ہو گئی۔ اس کی زندگی اب اس کے لیے جہنم بن چکی تھی۔ اس کے پر ستم یہ کہ شادی کے ثمرات بھی ملنے لگے اور وہ تین برسوں میں دو بچوں کی ماں بن گئی۔ اب اس کی ذات کی تقسیم شروع ہو چکی تھی۔ ادھر بچے اور گھر بار، ادھر محبوب کی یاد اور اس کی چاہت… اس نے کسی طرح میرو کو سندیسے بھجوانے شروع کر دیے کہ مجھ سے ملو، میں تمہارے لیے بہت اداس ہوں۔ میرو، اگرچہ شریف النفس تھا، مگر تھا تو انسان۔ کچھ عرصہ اس نے شینی سے دوری بنائے رکھی، پھر دل سے مجبور ہو گیا حالانکہ وہ چاہتا نہ تھا کہ شاہانہ کی زندگی میں لوٹ کر جائے، جبکہ وہ اب بیاہتا تھا اور یہ بات اس کے نزدیک معیوب تھی۔ مگر شینی کو خود پر ذرا بھی قابو نہ رہا۔ وہ لگاتار اسے کسی نہ کسی طور سندیسے بھجواتی رہی۔ اس کے پیغامات نہ تھے، وہ خدا کے واسطے دیتی تھی کہ بس ایک بار ملو۔ میرو کب تک دل پر جبر کرتا جبکہ محبوبہ دلنواز رو رو کر بلاتی ہو، وہ پتھر دل نہ رو سکا۔ دونوں کی ملاقاتیں شروع ہو گئیں۔ محبت کا خطرناک کھیل پھر سے جاری ہوا کہ جدائی نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔ پھر تو یہ آگ ایسی بھڑکی کہ آنکھوں کے آگے دبیز پردے پڑ گئے اور سدھ بدھ ہی جاتی رہی۔ رات نصف شب گزر جاتی تو جبار گہری نیند سو جاتا۔ شینی جان خطرے میں ڈال کر میرو سے ملنے نکل کھڑی ہوتی۔
ایک رات جب وہ کھیتوں کی طرف میرو سے ملنے نکلی تو کتوں نے اسے آ لیا اور بھونک بھونک کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ اس کی خوش قسمتی کہ میرو قریب ہی تھا جس نے اسے کتوں سے بچایا اور انہیں ڈرا کر بھگا دیا، ورنہ ساری بستی ہی اس رات جاگ کر ان پر حملہ آور ہو جاتی۔ اب کھیتوں میں ملنے میں خطرہ تھا۔ شینی نے میرو کو مجبور کیا کہ وہ اس کے گھر آکر ملے۔ یہ تو اور بھی پُر خطر راہ تھی مگر برا ہو عشق کا کہ اسے لطف ہی خطرناک راہ پر چلنے میں آتا ہے۔ بالآخر محبوبہ کے مجبور کرنے پر وہ راضی ہو گیا۔ یہ کہنا چاہئے کہ اس کی مت ماری گئی کہ یہ دونوں جبار کے گھر کے اندر ملنے لگے۔ جب رات گہری ہو جاتی اور جبار دن کی مشقت سے تھکا ہارا نیند کی آغوش میں بے خبر سو جاتا تو جان کو خطرے میں ڈال کر میرو، شینی سے ملنے اس کے گھر آجاتا۔ وہ اس کے آنے کے وقت سے ذرا پہلے دبے قدموں ڈیوڑھی میں جا کر کنڈی کھول دیتی تھی۔ وہ رات کے اندھیرے میں اس کے پاس آتا اور پو پھٹنے سے قبل چلا جاتا۔یہ روز تو نہ ملتے تھے، مہینے میں تین، چار بار میرو کو جان ہتھیلی پر رکھ کر شینی کی خوشی کی خاطر کانٹوں کی اس باڑ کو پھلانگنا پڑتا تھا کیونکہ وہ گھر سے باہر اس سے ملنے سے قاصر تھی۔ اس روز شام سے ہی بادل گھرے ہوئے تھے۔ میرو کو شینی کا سندیسہ ملا کہ آج ملاقات کا موسم ہے۔ موسم واقعی سہانا تھا۔ آج رات تم کو آنا ہی ہوگا۔ یہ سندیسہ اسے ملا تو وہ شام سے ہی رات کا انتظار کرنے لگا۔ جبار کام سے گھر آیا۔ وہ آج بہت تھکا ہوا تھا۔ سارا دن تھریشر پر چڑھ کر بھاری کام نمٹایا تھا، تمام فصل سے بھوسہ الگ کر کے سمیٹ بھی دیا تھا۔ آج وہ بے حد تھک گیا تھا۔ بادل دیکھ کر اس نے کہا، شینی! رات کو بارش ضرور ہوگی، کھانا دے تاکہ میں سو جاؤں۔ کھانا کھا کر بارش کے خیال سے وہ صحن میں سونے کی بجائے اس کمرے میں جا کر سو گیا جہاں اس کی بیوی میرو سے ملتی تھی۔ گھر میں دو ہی کمرے تھے۔ دوسرے کمرے میں ساس، سسر اور دیور سو رہے تھے۔ آج وہ بھی صحن کی بجائے اندر جا سوئے تھے کہ بارش ہوگی تو نیند خراب ہوگی۔ اب شینی پریشان تھی کہ میرو کو سندیسہ بھیج چکی تھی۔ کھلے صحن میں اس کے ساتھ باہر بیٹھنا خطرے کو آواز دینا تھا، اوپر سے بارش ہو گئی تو اس کے کمرے میں دو ہی چارپائیاں تھیں۔ ایک پر جبار سو رہا تھا اور دوسری چار پائی پر اس نے اپنے دونوں لڑکوں کو سلادیا تھا۔ خود اس کے سونے کو کونے میں ایک کھٹیا پڑی رہ گئی تھی۔ ابھی بوندا باندی شروع نہ ہوئی تھی۔ رات کے آدھی بیت گئی تھی۔ اس نے گھڑی دیکھی اور دبے قدموں صحن پار کر کے بیرونی دروازے کی کنڈی کھول کر آگئی۔ اس کے کان صحن کی جانب لگے تھے۔ نیند تو آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اس نے کھٹیا کو اس چار پائی کے ساتھ برابر کر کے بچھا دیا جس پر اس کے بچے سو رہے تھے۔ کمر سیدھی کرنے کو وہ لیٹ گئی۔ کھٹکا کئے بغیر میرو دبے قدموں سے کمرے میں آ گیا۔ اسے دیکھ کر شینی کی جان نکل گئی۔ شینی نے آہستہ سے بازو سے پکڑ کر فرش پر بیٹھ جانے کا اشارہ کیا اور خود بھی اس کے ساتھ زمین پر بیٹھ گئی۔ اتنے میں بارش کے گرنے کی آواز آنے لگی۔ وہ اس کے کان کے پاس منہ لے کر سرگوشی میں بولی، میں نے تم کو بلوا تو لیا پھر منع نہ کروا سکی۔ اب باہر برآمدے میں چلو، یہاں جبار اور بچے سو رہے ہیں، کسی کی آنکھ کھل گئی تو… جملہ ادھورا چھوڑ کر وہ اس کو کمرے سے باہر لے آئی۔ خدا کی کرنی کہ ہلکی بارش چشم زدن میں تیز ہو گئی اور پھر موسلا دھار مینہ برسنے لگا۔ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔ ابھی وہ سوچ ہی رہے تھے کہ کیا کریں کہ کھٹکا ہوا اور سسر کے کھانسنے کی آواز آئی۔ وہ سمجھ گئی کہ سر بارش کا جائزہ لینے برآمدے میں آنے والا ہے۔ تم گندم کی کونڈی کے پیچھے ہو جاؤ، یہ ایک نظر بھینس اور گائے پر ڈال کر واپس چلا جائے گا۔
اتنے میں لاٹھی ٹیکتے سر برآمدے میں آ گئے۔ یہ دونوں جہاں بیٹھے تھے، وہاں ہی بیٹھے رو گئے۔ صد شکر کہ بوڑھے کی بینائی کمزور تھی اور دیئے کی روشنی مدھم۔ اس نے ادھر دیکھا جدھر یہ بیٹھے تھے۔ جانوروں کو باڑے کے اندر پایا تو مڑ کر اپنے کمرے میں چلا گیا، تب ان کی جان میں جان آئی۔ اگرچہ مینہ تیز برس رہا تھا مگر اب میرو کو مزید خطرے کی دعوت دینا تھی۔ وہ برستی بارش میں چلنے کو ہوا، تبھی بچے کے رونے سے جبار کی آنکھ کھل گئی۔ بیوی کو کمرے میں نہ پا کر اس نے لالٹین ہاتھ میں پکڑی اور برآمدے میں آیا۔ اس کے قدموں کی آہٹ سن کر ترنت میرو کوندی کے پیچھے چھپ گیا اور شینی تیز قدموں سے کمرے کی طرف لی۔ اس نے شوہر کو دہلیز پر جالیا۔ کدھر چلی گئی تھی؟ بچے کے رونے کا ہوش نہیں، میری نیند خراب کر دی اس نے۔ میں دیکھنے گئی تھی کہ مویشی صحن میں تو نہیں رہ گئے ہیں، بارش ہو رہی ہے تجھ سے… وہ یہ کہتی جلدی سے بچے کے پاس گئی اور اس کو پہلو میں لٹا کر خود اس کے پاس لیٹ گئی۔ بھنبھنا تا شوہر بھی آ کر اپنی چار پائی پر لیٹ گیا۔ وہ اب اس کے سو جانے کا انتظار کرنے لگی۔ میرو بدستور کوندی کے پیچھے کھڑا تھا۔ مٹی کی کوندی جس میں گندم ذخیرہ کرتے تھے، اس وقت وہی اس کے جان بچانے کا ذریعہ بنی تھی۔ بارش زور دکھا کر اب تھم گئی تھی، جبار کو نیند نہ آرہی تھی۔ وہ اٹھ کر برآمدے میں آیا اور وہاں پڑی چار پائی پر ڈھے گیا۔ چار پائی ایسی جگہ بچھی ہوئی تھی کہ کوندی کے پیچھے سے نکل کر دروازے کی طرف جانے کا راستہ بند ہو گیا تھا۔ اب جبار کے سو جانے کا انتظار لازم تھا جس سے میرو کا دم گھٹنے لگا مگر جبار کے خرانٹوں کی آواز نے اس کو سہارا دیا۔ وہ گہری نیند سو گیا تھا مگر سر کو نیند نہ آرہی تھی۔ اس کو اندر کوٹھری میں گرمی لگنے لگی۔ وہ چار پائی اٹھا کر صحن میں لایا اور بیرونی دروازے کے پاس ڈال کر سو گیا۔ اب میرو نے خود کو کہا، واہ! دیہاتی کی عقل… عورت کے کہنے میں آیا اور موت کے گڑھے میں آپھنسا۔ بوڑھا سو نے کا نام نہ لے رہا تھا اور رہ رہ کر کروٹیں بدل رہا تھا۔ کم بخت نے چار پائی بھی ایسی جگہ ڈالی ہے کہ ادھر سے نکل کر دروازے تک جانے کا راستہ مسدود ہو گیا ہے، تبھی اس کے سونے کا انتظار لازم تھا۔ کمرے کے اندر حبس کے باعث دم گھٹنے لگا۔ شینی کا بچہ کسمسایا اور رونے لگا۔ شینی نے گھبرا کر بچے کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا کہ کہیں اس کے رونے سے شوہر کی آنکھ نہ کھل جائے اور وہ اٹھ بیٹھے۔ اس طرح چپ ہونے کی بجائے دم گھٹنے سے بچے نے اور زور لگا کر رونا شروع کر دیا۔ گھبرا کر شینی نے کس کر اس کا جبڑا اپنی مٹھی میں بھینچا کہ اس کی سانس بند ہو گئی اور ساتھ رونے کی آواز بھی۔ بچہ تڑپ کر ٹھنڈا ہو گیا۔ شینی نے اپنا ہاتھ اس کے منہ سے ہٹا لیا اور اس کی ناک کے پاس ہاتھ لے جا کر سانس دیکھنے لگی۔ ابھی اس کے حواس ٹھکانے نہ آئے تھے کہ دوسرے بچے نے پہلو بدلا اور رونا شروع کر دیا۔ اس کی آواز کو خاموش کرنے کے لیے اس عورت نے پھر سے وہی عمل دہرایا۔ چند سیکنڈ میں ہی دوسرا بچہ بھی خاموش ہو گیا۔ جبار اور سر دونوں سو گئے تو شینی آہستہ آہستہ قدم بڑھاتی کوندی کے پیچھے آئی اور میرو کو بازو سے کھینچ کر کمرے میں لے آئی۔ بولی، اب تو کسی طرح باہر نکل جا، بچے پھر سے جاگ گئے تو باہر نہیں جا سکو گے لیکن تم نے ان کو خاموش کیسے کیا؟ منہ کو ہاتھ سے بند کر دیا تھا۔ اسے شک ہوا۔ کہا، دیکھو تو کہیں سانس تو ہمیشہ کے لیے بند نہیں ہو گئی؟ ہاں! ہو تو گئی ہے۔ ارے کہیں مر تو نہیں گئے؟ ماں نے باری باری دونوں کی ناک پر ہاتھ رکھ کر سانس جانچی۔ ہاں! مر گئے ہیں، اب تو نکل اپنی جان بچا! وہ کھانس رہا ہے، وہ ابھی نہیں سویا۔ کھٹک کی آواز سے ادھر کو نکل کر پچھلی دیوار سے باہر کود جا۔
عورت کا حوصلہ دیکھ کر میرو کا سر گھوم گیا۔ اسے لگا کہ اس کے پاس دیئے کی مدھم روشنی میں ان معصوم بچوں کی ماں نہیں، کوئی ڈائن کھڑی ہے۔ بے اختیار اس کے منہ سے نکلا، اف اف! تو عورت ہے کہ ڈائن؟ یہ کہہ کر وہ کمرے کی عقبی کھڑکی سے نکل بھاگا۔ پچھلی جانب کی دیوار پر چڑھا اور دھم سے باہر کود گیا۔ آواز پر سسر نے پکارا، یہ کیسی آواز تھی؟ ارے… کون کون کرتا؟ وہ اٹھ بیٹھا۔ بھاگنے والا بھاگ گیا اور وہ کون کون کرتا رہا، لیکن گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ میرو اس عورت کی سفاکی سے ڈر کر ایسا گیا کہ پلٹ کر گاؤں بھی نہیں آیا۔ وہ ہم راز دوستوں سے کہتا تھا، یارو! سمجھ میں نہیں آتا کوئی عورت ایسی سنگ دل بھی ہو سکتی ہے کہ عشق کے پیچھے بچوں کو ہی مار ڈالے۔ میں ایسی عورت کی محبت سے باز آیا۔ دوسری بار ملنے کا اب تصور بھی نہیں کر سکتا جبکہ شینی کے سندیسے اس اندوہناک واقعے کے بعد بھی ملا کرتے تھے کہ ایک بار ملونا ۔