ہمارے سسر صاحب کے پڑوس میں ایک شخص نیاز رہتا تھا۔ وہ عمر کی آخری منزلوں میں تھا، مگر ابھی تک جوانوں سے ہمارے زیادہ تگڑا اور صحت مند تھا، لمبا، اونچا، چوڑا چکلا۔ وہ کبھی علاقے کا مشہور پہلوان ہوا کرتا تھا۔ کسی سبب اس نے ادھیڑ عمری تک آتے آتے پہلوانی چھوڑ دی اور تھوڑی سی زمین سے گزر بسر کرنے لگا۔ اس کی داستان میں نے اپنی ساس سے سنی تھی۔ نیاز نے بھری جوانی میں پہلوانی کی اور جب پہلوانی چھوڑی تو شادی کر لی کیونکہ وہ زندگی کی تنہائی سے تنگ آ گیا تھا۔ یوں تو وہ ایک خوشحال اور مطمئن زندگی گزار رہا تھا لیکن اس کی حسین بیوی کے بارے میں لوگ دبے لفظوں میں چہ میگوئیاں کرنے سے باز نہیں آتے تھے کہ حسن بانو کا چال چلن ٹھیک نہیں ہے۔ ایک بار کسی محلے دار نے جرأت کر کے نیاز کے کان میں یہ بات ڈال ہی دی۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کیونکہ اس نے بیوی کو ہر طرح سے اچھا رکھا ہوا تھا، تاہم دل میں شک تو آ چکا تھا۔ دل کی شورش سے تنگ آکر اس نے بالآخر ایک روز بیوی کو قرآن پاک دے کر کہا کہ اس پر ہاتھ رکھ کر قسم کھا تو کہ تمہارا کسی شخص سے غلط تعلق نہیں ہے کیونکہ مجھے پاس پڑوس سے ایسی سن گن ملی ہے کہ تم نے کسی غیر کے ساتھ مراسم رکھے ہوئے ہیں۔ اس نے صاف صاف بات کی اور بیوی سے بھی صاف جواب چاہتا تھا۔ حسن بانو نے کہا کہ پڑوسی جھوٹ بولتے ہیں، مگر نیاز نے اس کی زبان کی لکنت محسوس کر لی، تبھی شک اس کے دل سے نہ گیا اور وہ حقیقت کھوجنے کے لئے بے چین رہنے لگا۔
ہمارے گاؤں سے کچھ دور ایک میدان تھا، جہاں ہر سال میلہ لگتا تھا اور تماشے ہوا کرتے تھے۔ اس بار بھی میلے کا آغاز ہوا تو نیاز نے بیوی سے کہا کہ میں آج رات میلہ دیکھنے جا رہا ہوں، وہاں پہلوانوں کا دنگل بھی ہو گا۔ ممکن ہے کل رات بھی نہ آ سکوں، تم میرا انتظار مت کرنا۔ یہ کہہ کر وہ میلہ دیکھنے چلا گیا۔ جب رات ایک بجے تماشا ختم ہو گیا اور گاؤں کے لوگ گھروں کو لوٹنے لگے تو اس نے اپنے پڑوسی سے کہا، سردار جی! میری بیوی کو یہ پیغام پہنچا دینا کہ میں دو دن کے لئے اگلے گاؤں اپنے بھائی سے ملنے جا رہا ہوں، وہ میرا انتظار نہ کرے۔ اب میں دو دن بعد گھر لوٹوں گا۔ جب حسن بانو کو سردار جی کی بیوی نے صبح یہ پیغام پہنچایا تو وہ خوش ہو گئی کہ چلو دو دن اور آزادی ملی۔ دراصل اس کی دوستی اپنے میکے کے گاؤں کے ایک نوجوان سے تھی، جو وہاں کے زمین دار کا بیٹا تھا۔ اس کا نام رانا تھا۔ یہ دوستی نیاز کے ساتھ شادی سے پہلے سے تھی۔ حسن بانو نے شوہر کا پیغام ملتے ہی محلے کے ایک لڑکے کو رانا کے پاس بھیج کر اسی وقت بلوا لیا۔ ادھر نیاز اپنے بھائی کے گاؤں نہیں گیا تھا، وہ سورج ڈوبنے کا انتظار کر رہا تھا۔ رات ایک بجے وہ اپنے گھر روانہ ہوا۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا تو رانا اس کے گھر میں موجود تھا۔ حسن بانو گھبرا گئی کہ اس وقت کون آ گیا۔ اس نے جلدی سے رانا کو لکڑی کی الماری کے پیچھے چھپا دیا اور دروازے کے پاس پہنچی۔ کون ہے؟ اس نے پوچھا۔ میں ہوں، نیاز، دروازہ کھولو۔ حسن بانو نے دروازہ کھولا اور بولی، میرے پاس ماچس نہیں ہے، اندر آ کر لالٹین جلا دو۔ اس کا خیال تھا کہ جیسے ہی اس کا شوہر دروازہ کھلا چھوڑ کر لالٹین جلانے کچن کے اندر جائے گا، اتنی دیر میں اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر رانا بھاگ جائے گا، مگر نیاز بھی کچی گولیاں نہیں کھیلا تھا۔ اس نے جیب سے ماچس نکال کر حسن بانو کو تھما دی اور کہا، تو جا کر لالٹین جلا، میں ابھی آتا ہوں۔ وہ دروازے کے پاس ہی کھڑا رہا۔ جب لالٹین جل گئی اور روشنی ہو گئی، تو اس نے برآمدے میں اسے لٹکا دیا اور خود بھی وہاں چارپائی پر لیٹ گیا۔ ادھر رانا کو موت پکار رہی تھی۔ اچانک اسے کھانسی آ گئی۔ اس نے کھانسی کو دبانے کی کوشش کی، اس کوشش میں اس کا دم گھٹنے لگا، پھر آخرکار زور سے کھانسی نکل گئی۔ اس کی آواز پر نیاز اٹھ کر بیٹھ گیا۔ یہاں کون ہے؟ اس نے بیوی سے پوچھا۔ حسن بانو نے کہا، شاید پڑوس سے کوئی لڑکا کھانس رہا ہے۔ نیاز نے کہا، آواز پڑوس سے نہیں، ہمارے گھر کے اندر سے آئی ہے، اور کسی لڑکے کی کھانسی کی آواز اتنی بھاری نہیں ہو سکتی۔ دم گھٹنے کی وجہ سے اتنی دیر میں رانا الماری کے پیچھے سے نکل آیا اور کھانا کھانے والی تانبے کی تھالی تاک کر نیاز کو مار دی، مگر نشانہ چوک گیا اور تھالی فرش پر گر گئی۔ نیاز سمجھ گیا کہ جو بھی ہے، اس کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے۔ اس نے فوراً دروازے کے پیچھے سے ڈنڈا نکالا، جس کے سرے پر لوہے کا خول لگا ہوا تھا، اور رانا کے سر پر پوری قوت سے مار دیا۔ وہ چکرا کر گر گیا۔ نیاز نے تابڑ توڑ وار اس کے سر پر کیے، یہاں تک کہ اس کی جان نکل گئی۔ جب وہ بے حس ہو چکا تو نیاز نے بیوی سے کہا، اب اس کو اٹھا کر میرے کندھوں پر ڈال، تاکہ اسے پھینک آؤں۔ لگتا ہے کوئی چور ہمارے گھر میں بھی آیا تھا اور تجھے خبر تک نہ ہوئی۔ حسن بانو بچی نہیں تھی، سمجھ گئی کہ وہ یہ بات اسے بہلانے کو کہہ رہا ہے۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح اس نے رانا کا بے جان جسم اپنے شوہر کے کندھوں پر لاد دیا۔ نیاز اس کا جسد خاکی ایک کنویں میں جا کر پھینک آیا، لیکن جب واپس گھر آیا تو اس کی بیوی بھاگ چکی تھی۔صبح ہونے لگی تھی۔ اس نے اپنے خون آلود کپڑے دھو کر الگنی پر ڈال دیئے، فرش کو دھویا، خود بھی نہایا، اور جب کپڑے خشک ہو گئے تو انہیں پہن کر گاؤں میں واقع ایک مزار پر چلا گیا۔
جب صبح ہوئی تو رانا کے گھر والوں کو پریشانی ہوئی کہ وہ ابھی تک گھر نہیں آیا۔ ان کو علم تھا کہ ساتھ والے گاؤں سے ایک لڑکا کبھی کبھی اس کو بلانے آتا تھا۔ وہ فوراً ساتھ والے گاؤں گئے اور ڈھونڈتے ڈھونڈتے نیاز کے گھر کے پاس پہنچ گئے۔ ان کو وہاں خون کے قطرے نظر آئے۔ وہ ان قطروں کا پیچھا کرتے ہوئے کنویں کے پاس پہنچ گئے۔ ایک آدمی کنویں میں اترا، اسے لاش نظر آ گئی۔ اسے رسی سے نکالا گیا۔ اتنی دیر میں کسی نے تھانے میں اطلاع کر دی اور پولیس آ گئی۔ نیاز جب مزار سے واپس آیا تو پولیس والوں سے ہاتھ ملایا۔ انہوں نے رانا کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہہ دیا کہ میں نے مارا ہے مگر پولیس والے یقین نہیں کر رہے تھے، کیونکہ اس کا کردار بہت اچھا تھا اور سبھی علاقے کے لوگ اس کی عزت کرتے تھے، لیکن جب اس نے وہ ڈنڈا دکھایا، جس سے رانا کو مارا تھا، تب وہ اسے تھانے لے گئے۔ اسے کچھ عرصے کی جیل ہو گئی۔ جب سزا کاٹ کر واپس آیا تو اس نے بیوی کو طلاق دے دی۔ رانا کے بھائیوں نے دو بار اس پر قاتلانہ حملے بھی کرائے، مگر وہ بچ گیا اور اپنے بیٹے کو لے کر کسی اور طرف کوچ کر گیا۔ اس واقعہ کو پندرہ برس بیت گئے۔ لوگوں کے ذہنوں سے واقعہ کی یاد محو ہونے لگی کہ ایک بار پھر گاؤں میں ایک اور واقعہ نے جنم لیا تو بھولی باتیں تازہ ہو گئیں۔ ان دنوں میں اسکول میں پڑھتی تھی۔ میرے ساتھ ایک لڑکی چندا بھی پڑھتی تھی، وہ میری سہیلی بن گئی۔ ایک دن چندا نے بتایا کہ وہ بہت پریشان ہے۔ میں نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو بولی، میں ایک لڑکے زبیر کو چاہتی ہوں۔ وہ بہت خوبصورت ہے مگر خوشحال گھرانے سے نہیں ہے۔ یہی پریشانی ہے۔ تمہیں اس لڑکے سے میل جول ختم کر دینا چاہیے، ورنہ تم اس کے لئے مصیبت بن جاؤ گی اور تمہاری چاہت کی سزا تمہارے بھائی اس غریب لڑکے کو دیں گے۔ بات یہ تھی کہ چندا کا تعلق گاؤں کے معزز گھرانے سے تھا۔ اس کے والد اپنی اراضی کی دیکھ بھال کی خاطر شہر سے گاؤں آ بسے تھے، ورنہ اس کے تایا چچا شہر میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ اس کے برعکس زبیر کا کوئی نہیں تھا۔ وہ یہاں کسی رشتہ دار کے توسط سے آیا تھا اور چندا کے والد نے اس کو اپنا گھریلو ملازم رکھ لیا تھا۔ وہ بلاشبہ ایک غریب لڑکا تھا۔ ماں باپ مر چکے تھے۔ میٹرک پاس اور خوبصورت نوجوان تھا۔ میں اکثر چندا کو سمجھاتی تھی کہ وہ اس کے خیال سے باز آجائے کیونکہ یہ موت کا کھیل ہے لیکن وہ زبیر کو کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتی تھی۔ آخر اس بات کی بھنک اس کے گھر والوں کو ہو گئی کہ ان کی لڑکی، گھر کے ملازم کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھا رہی ہے، تبھی اس کے بھائیوں نے اس کی نگرانی شروع کر دی اور یہ بھی معلوم کرنے کی کوشش کی کہ زبیر کون ہے؟ اس کے والدین کہاں ہیں؟ جب چندا کے والد کو پتا چلا کہ یہ مشہور پہلوان نیاز کا بیٹا ہے، تو وہ سوچ میں پڑ گئے۔ بزرگوں نے ان کو بتایا کہ جب اس کے باپ نے گاؤں چھوڑا، تب یہ چھوٹا سا تھا۔ انہی بزرگوں نے زبیر کو بلا کر سمجھایا کہ بیٹا، تم ان لوگوں کی نوکری چھوڑ دو اور گاؤں سے چلے جاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے باپ کے دشمن تمہاری جان لے لیں۔
چندا یہ نہیں جانتی تھی کہ زبیر کے والد نے جس رانا کو قتل کیا تھا، وہ اس کے والد کا قریبی رشتہ دار تھا۔ گویا وہ اپنے خاندان کے دشمن کے لڑکے سے محبت میں مبتلا تھی۔ یہ اور زیادہ خطرے والی بات تھی، کیونکہ قتل کا زخم مندمل ہو تو ہو، مگر اندر سے ہرا ہی رہتا ہے۔ جب بزرگوں کی زبانی زبیر نے اپنے باپ سے متعلق قتل کی واردات کا قصہ سنا تو اسے معاملے کی نزاکت کا احساس ہوا۔ اس سے پہلے وہ اس سے ناواقف تھا۔ گاؤں کے بزرگوں کے سمجھانے پر اس نے فوراً یہ گاؤں چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے چندا کو بھی اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا، مگر وہ ایک نادان لڑکی تھی۔ اس نے بجائے زبیر کو زندگی سے نکالنے کے، اصرار کیا کہ وہ بھی اس کے ساتھ جائے گی۔ کہنے لگی، مجھے تمہارے والد یا تمہارے ماضی سے کچھ مطلب نہیں۔ میں نے فیصلہ کر لیا ہے، جیوں یا مروں، مگر تمہارے ساتھ رہوں گی۔ اس ضدی لڑکی نے اسے اتنا مجبور کیا کہ وہ بے بس ہو گیا اور دونوں نے آدھی رات کو گھر چھوڑ دیا۔ چندا اپنے ساتھ دو جوڑے کپڑے اور کچھ زیور لے گئی۔ انہوں نے تھوڑا سا فاصلہ طے کیا تھا کہ کھیتوں میں موجود کتے بھونکنے لگے۔ کتوں کے بھونکنے سے گاؤں والے سمجھ جاتے ہیں کہ کھیتوں میں کوئی داخل ہوا ہے، تبھی لوگ لالٹین اور لاٹھیاں لے کر باہر کا جائزہ لینے آ جاتے ہیں۔ گاؤں کے لوگوں نے فوراً ہتھیار سنبھالے اور باہر آ گئے۔ ان میں ایک جوان جو بہت جیالا تھا، اس نے ادھر کو دوڑ لگا دی، جدھر سے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ باقی لوگ تو اس کے تعاقب میں آ رہے تھے مگر یہ نوجوان، جس کا نام منظور تھا، اس طرف اس کا باڑہ بھی تھا۔ نوجوان نے زور سے للکارا، کون ہو؟ رک جاؤ! وہ سمجھ رہا تھا کہ کوئی چور گائے بھینس کھولنے نکلا ہے۔ اس نے ٹارچ کی روشنی گھمائی، وہاں کوئی چور تو نہ تھا، مگر ایک لڑکا اور لڑکی بھاگے جا رہے تھے۔ وہ بھی پیچھے بھاگا اور انہیں جا لیا۔ ٹارچ کی روشنی ان کے چہروں پر ڈالی تو دیکھا کہ یہ زبیر تھا، جو ملکوں کی لڑکی کو بھگائے لیے جا رہا تھا۔ اس کو چندا پر ترس آ گیا۔ اس نے کہا، چندا بی بی! تم اپنے عزت دار باپ بھائیوں کے چہروں پر کالک نہ ملو۔ یوں بھی تم لوگ پکڑے جاؤ گے۔ گاؤں کے لوگ تمہارے تعاقب میں آ رہے ہیں۔ میرے باڑے میں جا کر چھپ جاؤ۔ وہاں میرے جانور بندھے ہیں۔ چندا دوڑتی ہوئی گئی اور باڑے میں جا کر چھپ گئی، لیکن زبیر کو اس نے دھر لیا۔ اتنے میں گاؤں والے آپہنچے۔ انہوں نے دیکھا کہ منظور، زبیر کو پکڑے کھڑا تھا۔ اس نے لوگوں سے کہا، یہ میری گائے کھول رہا تھا۔ اسے چوری کی سزا ہو گی۔ زبیر خاموش رہا، تبھی منظور نے تعاقب میں آئے لوگوں سے کہا، اس کا دھیان رکھنا، یہ بھاگنے نہ پائے۔ یہ میرا چور ہے، اس کو سزا بھی میں دوں گا۔ تم میں سے کوئی اس کو کچھ نہ کہے گا۔ میری گائے کھلی ہوئی ہے، میں اسے کھونٹے سے باندھ کر ابھی آیا۔ یہ کہہ کر وہ دوڑتا ہوا باڑے میں گیا اور چندا سے کہا، یہ لو لاٹھی اور ابھی کے ابھی باڑے کے پچھلے دروازے سے نکل کر فوراً اپنے گھر چلی جاؤ۔ ابھی سب سو رہے ہیں، زیادہ وقت نہیں گزرا ہے۔ بدنامی سے بچنے اور اپنی جان بچانے کا بس یہی طریقہ ہے۔ وہ لڑکا گاؤں والوں کے ہاتھوں میں ہے، مجھے فوراً جا کر اس کی بھی جان بچانی ہے۔ چندا اس کی بات سمجھ گئی۔ منظور باڑے سے نکل کر دوڑتا ہوا ہجوم کے پاس لوٹ آیا اور چندا دوسری جانب سے اپنے گھر کی طرف دوڑ پڑی۔ وہ ہانپتی کانپتی دس منٹ سے بھی پہلے گھر پہنچ گئی اور جاتے ہی اپنی چارپائی پر ڈھے گئی۔ گھر والے بے خبر سو رہے تھے۔ اس کے دہلیز پار کرنے اور پھر واپس آنے کی ان کو خبر نہ ہوئی۔ ماں البتہ جاگ رہی تھی، اس نے جا کر دروازے کی کنڈی لگا دی۔
زبیر کو منظور نے لوگوں کے گھیرے سے نکالا اور اپنے ساتھ لے گیا کہ صبح ہو گی تو میں اس چور کا فیصلہ کرواؤں گا۔ اب آپ سب لوگ اپنے گھر جائیں۔ صبح اسے چور کی حیثیت سے گاؤں کی پنچایت میں پیش کیا گیا اور منظور نے اس کی پاس داری کرتے ہوئے اس کو گاؤں بدر کرنے کا مطالبہ کیا اور کوئی دوسری سزا نہ دلوائی کیونکہ گائے کی چوری کی سزا حوالہ پولیس کرنا یا خود جرمانہ عائد کرنا بنتی تھی۔ گاؤں میں اس کا کوئی نہ تھا جس سے جرمانہ وصول کیا جاتا۔ منظور نے کہا، اس کو مار پیٹ بھی کریں گے تو کیا حاصل؟ کون اس کے زخموں کا علاج کرائے گا؟ میری گائیں میرے تھان پر ہیں۔ اس کو اتنی سزا کافی ہے کہ گاؤں بدر کر دیا جائے۔ یوں زبیر جان بچا کر وہاں سے چلا گیا۔ اگلے دن جب چندا مجھ سے ملی، تو بہت دہشت زدہ تھی۔ وہ روتے ہوئے بولی، تم نے سچ کہا تھا کہ گھر سے بھاگنا آسان نہیں۔ مجھے پہلے ہی اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے تھا۔ آج اللہ نے ہم دونوں پر کرم کیا۔ اگر ہم منظور جیسے نیک انسان کے بجائے گاؤں والوں کے ہجوم کے ہاتھ آ جاتے تو وہ ہمیں میرے والد اور بھائیوں کے حوالے کر کے ہماری موت یقینی بنا دیتے۔ میں نے کہا، شکر کرو چندا، تمہاری ماں کی دعائیں کام آ گئیں ورنہ تمہارے ساتھ ہونا تو یہی تھا۔ آج اس کی شادی ایک زمیندار گھرانے میں ہو چکی ہے اور زبیر پھر کبھی ہمارے گاؤں لوٹ کر نہیں آیا۔ میں اب بھی یہی سوچتی ہوں کہ ہماری لڑکیوں کو کب عقل آئے گی۔