چوہدری برکت ہمارے گائوں کے بڑے زمیندار تھے۔ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ بیٹی کا نام حمیرا تھا، بیٹوں کے نام طارق اور خرم تھا۔ یہ نہایت خوشحال فیملی تھی لیکن گھر میں سکون کی کمی تھی کیونکہ چوہدری برکت کو جھوٹ بولنے کی عادت تھی جس کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں ان کی عزت باقی نہ رہی تھی۔ ان کا تعلق سیاست سے بھی تھا۔ وہ لوگوں کو دھوکا دینا اپنا شعار سمجھتے تھے۔ چوہدری کے تینوں بچے نہایت سیدھے سادے اور خوبصورت تھے۔ طارق اور حمیرا کو انہوں نے اسکول میں داخل تو کرایا مگر وہ مڈل سے آگے نہ پڑھ سکے۔ ابھی وہ کمسن ہی تھے کہ ان کی شادیاں کر دی گئیں۔ چونکہ خرم چھوٹا تھا اور اس کے ہم عمر لڑکے پڑھنے جاتے تھے لہٰذا اسے بھی اسکول جانے کا شوق ہو گیا تب والدین نے اس کو اسکول بھیجنا شروع کر دیا۔ خرم بہت مہذب اور اور با اخلاق تھا۔ اپنی ماں سے پیار کرتا تھا، والدہ کا ہاتھ بٹاتا اور گھر میں لڑکیوں کی طرح کام کرتا تاکہ ماں سکھی ہوکیونکہ بھابھی تو علیحدہ گھر میں رہتی تھی۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد باپ نے اسے شہر کے کالج میں داخل کرا دیا جہاں وہ ہاسٹل میں رہنے لگا۔ یہیں سے معاملہ غلط سمت اختیار کر گیا۔ اس کو ہاسٹل میں کچھ اوباش لڑکےمل گئے ، ان لڑکوں کی عادتیں خراب تھیں جس کا اثر خرم نے بھی لیا۔ چوہدری برکت، بیٹے کو خرچے کے لیے اچھی خاصی رقم بھجواتے تھے تاکہ صاحبزادے کو پردیس میں کوئی تکلیف نہ ہو۔ جب پیسہ وافر دیکھا تو اوباش لڑکوں نے اسے گھیرا۔ وہ اس سے خوب کھاتے پیتے۔ جب رقم ختم ہو جاتی، وہ باپ کو فون کرتا اور اگلے روز ہی مزید رقم مل جاتی۔ ساری خرابی کی جڑ دولت کی فراوانی ہوتی ہے۔ باپ نے کبھی یہ نہ پوچھا کہ بیٹے اتنی رقم تم کو کیوں چاہیے اور کس لیے چاہیے۔ شہر کی کچھ منچلی لڑکیاں دولت مند سمجھ کر اس کو لفٹ دیتیں اور بےوقوف بنا تیں۔ کچھ کو وہ خود بے وقوف بناتا تھا۔ بس دن یونہی گزرتے جارہے تھے۔ گائوں میں اس کا ایک دن بھی جی نہ لگتا۔ اگر والدین بلاتے تو دو دن بعد ہی شہر جانے کو تیار ہو جاتا تھا۔ ماں کہتی۔ اتنے روز بعد آئے ہو ، کچھ دن تو رہو لیکن یہاں رہنا گویا کنویں میں رہنے جیسا تھا۔
ماں ! شہر کی رونقیں کیسی ہوتی ہیں، یہ تم کیا جانو۔ یہاں رہنے سے تو میرا دم گٹھنے لگتا ہے۔ اس نے ہاسٹل چھوڑ کر ایک کرائے کا مکان لے لیا۔ سارا وقت دوست براجمان رہتے۔ خانساماں کھانا پکاتا اور وہ کھاتے تھے، ہلا گلا کرتے اور دوست لڑکیوں کو یہاں لاتے تھے۔ ان کے ایسے ہی کارنامے تھے کیونکہ خرم کے سارے دوست بگڑے ہوئے گھرانوں کے تھے۔ وہ میرا خالہ زاد تھا۔ بچپن میں امی اور خالہ کا یہی خیال تھا کہ میری شادی اس کے ساتھ ہو گی۔ اسی خیال کو میں نے اپنا خواب بنائے رکھا۔ خرم کا تصور میرے ذہن میں راسخ ہو گیا۔ اب اس کے سوا میں کسی اور کی ہو جانے کا نہیں سوچ سکتی تھی۔ میں گائوں کی لڑکی تھی لہٰذا میری سوچیں محدود اور آزادی کم تھی۔ میں اس کے تصوراتی جال سے آزاد نہ ہو سکتی تھی جو بچپن میں بنا گیا تھا۔ اس گھڑی کا انتظار کر رہی تھی جب وہ شہر سے اپنی تعلیم مکمل کر کے آجائے پھرہماری شادی ہو۔ پھر ایک روز میں نے سنا کہ امی جان، پھپھو سے کہہ رہی تھیں۔ صبیحہ ! تم اپنے بیٹے کے لیے شہر بانو کا رشتہ لے لو، میں خرم سے اس کو نہیں بیاہنا چاہتی کیونکہ سنا ہے وہ شہر جا کر بہت آوارہ ہو گیا ہے۔ میرے دل میں دھماکا سا ہوا اور جب امی جان نے پھوپی زاد نواب کا نام لیا تو میں نے اس کے ساتھ شادی کرنے سے صاف انکار کردیا۔ میں نے کہا۔ امی جان! میں شادی کروں گی تو صرف خرم سے اس کے سوا کسی سے نہیں کروں گی کیونکہ آپ اور خالہ بچپن سے یہی کہا کرتی تھیں کہ ہم شہر بانو کی شادی خرم سے کریں گے۔ یہ خیال اب میں نہیں بدل سکتی۔ امی جان نے مجھے بہت سمجھایا کہ وہ تمہاری بچپن کی بات تھی لیکن اب معاملہ الٹ گیا ہے۔ خرم عیاش دوستوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے اور وہ بہت بدل گیا ہے۔ تم اس کے ساتھ کبھی خوش نہ رہ سکو گی ۔ امی کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا اور میں بدستور ضد پر اڑی رہی کیونکہ میں اب خرم کے خیال سے بے وفائی نہیں کر سکتی تھی۔ ماں خاموش تو ہو گئیں لیکن وہ چپکے چپکے میرے لیے رشتے تلاش کرنے لگیں۔ مجھے ان کی سر گرمیوں کا پتا تھا، تب ہی میں نے براہ راست خرم کی امی سے بات کی۔ خالہ نے خرم سے کہا کہ تعلیم مکمل ہوتے ہی ہم تمہاری شادی شہر بانو سے کر دیں گے۔
میں کسی جاہل لڑکی سے نہیں بلکہ شہر کی پڑھی لکھی سے شادی کروں گا۔ اس نے ماں کو جواب دیا تھا۔ خالہ نے اسے سمجھایا کہ شہر بانو گائوں کی لڑکی سہی مگر وہ سیدھی سادی ہے، سگھڑ اور شریف ہے، پھر کئی مربع زمین کی مالک ہے مگر خرم نہ مانا۔ تعلیم مکمل ہو جاتی اگر خرم سنجیدہ ہوتا لیکن وہ پڑھائی میں کب سنجیدہ تھا۔ اس کو تو زیادہ سے زیادہ دن شہر میں رہنا تھا۔ وہ بہانے بہانے سے پرچے نہ دیتا۔ ادھر باپ کو سیاست میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ کافی زمین فروخت کر کے بھی وہ الیکشن نہ جیت سکے۔ ادھر بیٹے کی تعلیم کا خواب مکمل کرنے کی خاطر زمین بیچ کر اس کو رقم بھجواتے رہے۔ یہاں تک کہ زمین کا کافی حصہ فروخت کر دیا گیا۔ اب تھوڑی سی گزارے لائق زمین باقی رہ گئی۔ ادھر خرم نے شہر میں ایک ایسی لڑکی سے چکر چلا رکھا تھا جو گائوں سے پڑھنے آئی تھی اور پانچ بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ جب اس لڑکی کے بھائیوں کو پتا چلا تو انہوں نے خرم کے والدین سے صاف کہہ دیا کہ اگر خرم ہماری بہن کے ساتھ کہیں نظر آیا تو ہم اسے گولی مار دیں گے۔ اپنے بیٹے کو سمجھ لو، کل ہم سے گلہ مت کرنا۔ خرم کب باز آنے والا تھا۔ ناصرہ کے بھائیوں تک لوگ خبریں پہنچارہے تھے۔ وہ ایک بار پھر برکت کے پاس آئے تو چو ہدری صاحب نے ان سے کہا۔ آپ لوگوں نے اپنی بہن کو شہر بھیجا ہے تو برداشت کریں۔ لوگ ایسی باتیں کرتے ہی ہیں اور لڑکوں کا کیا ہے ، اس عمر میں ان سے ایسے کام ہو جاتے ہیں۔ ناصرہ کے بھائیوں کو چوہدری کی یہ باتیں اور کھل گئیں۔ وہ دھمکیاں دے کر چلے گئے تو چوہدری صاحب شہر آئے اور بیٹے کو سمجھایا کہ ناصرہ نامی لڑکی سے شادی کا خیال دل سے نکال دو۔ اس کے بھائی تمہاری جان کے درپے ہیں۔ میں یہ شادی نہ ہونے دوں گا۔ جب باپ گائوں واپس چلا گیا تو خرم نے گھر بدل لیا۔ ایک دوسرا کرائے کا مکان لے لیا جس کا پتا اس نے کسی کو نہ بتایا۔ اس مکان کے پڑوس میں ایک بیوہ عورت رہا کرتی تھی جس کی بیٹی شاہانہ بہت خوبصورت اور سولہ سترہ برس کی تھی۔ خرم نے یہاں آتے ہی اس کے ساتھ دوستی کر لی۔ شاہانہ کا بڑا بھائی ایک سرکاری محکمے میں ملازم تھا۔ اس کو بھی شیشے میں اتار لیا اور قوی کو اپنا دوست بنا لیا۔ قوی سے ملنے کے بہانے وہ بیوہ کے گھر آنے جانے لگا جہاں شاہانہ سے باتیں کرنا آسان تھا۔ حالانکہ یہ لڑکی معمولی پڑھی لکھی تھی – مگر خرم کو پسند آ گئی تھی۔ وہ سب کچھ بھول بھال کر اس کے چکر میں پڑ گیا۔ اس چکر کی وجہ سے اس نے یونیورسٹی جانا بھی ترک کر دیا اور تعلیم کو خیر باد کہہ دیا جبکہ چوہدری صاحب اس خیال میں رہے کہ ان کا بیٹا تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ وہ اب بھی خطیر رقم ہر ماہ بھجواتے تھے کہ خرم کو پریشانی نہ ہو۔ اس طرح تقریباً تمام زمین بک گئی۔ ایک دوست نے خرم کی ماں کو جا کر بتایا کہ آپ کے بیٹے نے یونیورسٹی چھوڑ دی ہے اور شاہانہ نامی لڑکی کے ساتھ وقت ضائع کر رہا ہے۔ آپ لوگ اس کو رقم بھیجنا بند کر دیں۔ والدین کو پتا چلا تو سکتے میں آ گئے۔ خالہ جان نے فون کر کے خرم کو گائوں بلوایا اور کہا کہ تم کسی لڑکی کے چکر میں پڑے ہو۔ ہم ہر گزاسے بہو نہ بنائیں گے ، یہ یاد رکھنا۔ کیا شہر بانو اس سے بری ہے ؟ خرم بضد رہا کہ شہر چلیں اور شاہانہ کا رشتہ مانگ لیں۔ مجھے شادی اس سے کرنی ہے۔ ماں شہر آگئی مگر شاہانہ کے گھر جا کر رشتہ مانگنے کی بجائے ان لوگوں کی خوب بے عزتی کی تاکہ وہ ان کے بیٹے کا خیال دل سے نکال دیں۔ خالہ جان، خرم کے پاس ہی رہنے لگیں تا کہ شاہانہ وہاں نہ آنے پائے لیکن ایک رات شاہانہ ، خرم کے کمرے میں بیٹھک کے اندر آگئی تو خالہ جان نے دیکھ لیا۔ وہ اسی وقت جاکر لڑکی کی ماں اور بھائی کو بلا لائیں۔ وہ لوگ شاہانہ کو مارتے ہوئے گھر لے گئے اور بھائی نے اس لڑکی کو اتنا مارا کہ نیل پڑ گئے۔ دو دن تک وہ بستر سے اٹھ نہ سکی۔ اس واقعے سے خرم سخت برہم ہوا۔ وہ ماں سے روٹھ کر گھر سے چلا گیا۔ اس نے ایک جنرل اسٹور پر نوکری کر لی اور وہاں رہنے لگا۔ اس دوران اس نے کسی طرح شاہانہ سے دوبارہ رابطہ کر کے اس کو گھر سے بھاگ آنے پر آمادہ کیا۔ اپنی کار فروخت کر دی اور شاہانہ کو لے کر اپنے دوست کے گھر رہنے لگا۔ ماں نے مایوس ہو کر گھر کو تالا لگا دیا اور وہ واپس گائوں آ گئی۔ ادھر دوست نے شاہانہ اور خرم کا نکاح کرا دیا۔ اس واقعے سے محلے والوں کی نظروں میں قو ی اور اس کی ماں کی بھی کوئی عزت نہ رہی۔ وہ محلہ چھوڑ کر دوسری جگہ چلے گئے۔ جب ہم لوگوں کو پتا چلا کہ خالہ جان شہر سے افسردہ آ گئی ہیں اور خرم نے شادی کر لی ہے تو ہم ان کے گھر گئے۔ وہ مجھے گلے سے لگا کر خوب روئیں کہ ہائے ! میں نے تو تم کو بہو بنانے کے خواب دیکھے تھے ، یہ کیا ہو گیا؟ چوہدری برکت بہت زیادہ غصے میں تھے۔ وہ شہر گئے اور پندرہ روز کی تلاش کے بعد خرم اور شاہانہ تک پہنچ گئے۔
انہوں نے خود ہی دونوں کو پولیس کے حوالے کر دیا کیونکہ شاہانہ کے ماموں نے خرم پر اغوا کا پرچہ درج کرا دیا تھا۔ اس کو جیل ہو گئی۔ شاہانہ کو بھی زنانہ جیل بھیج دیا گیا۔ جیل میں ماں، بیٹی سے ملنے گئی۔ شاہانہ نے ماں اور ماموں سے ملنے سے انکار کر دیا۔ تب ماں نے اس کو خوب بد دعائیں دیں کہ جیسا تو نے ہم کو برباد کیا ہے ، خدا کرے تو بھی کبھی آباد نہ ہو۔ یہ مقدمہ چار ماہ چلتا رہا اور فیصلہ چوہدری برکت و خرم کے حق میں ہو گیا کیونکہ شاہانہ نے ان کی حمایت میں بیان دیا تھا۔ چوہدری صاحب یعنی میرے خالو جان، خرم اور شاہانہ کو لے کر گھر آ گئے اور یہ لوگ گائوں میں زندگی گزار نے لگے۔ کچھ دن تو اچھے گزرے ، پھر شاہانہ اور خالہ جان میں جھگڑا رہنے لگا کیونکہ خالہ نے ابھی تک شاہانہ کو بطور بہو دل سے قبول نہ کیا تھا۔ وہ چاہتی تھیں کہ کسی طرح یہ لڑکی ہمارے گھر سے چلی جائے۔ وہ ہروقت شوہر اور بیٹے کے کان بھر نے لگیں۔ نوبت مار پیٹ تک آ گئی۔ اب شاہانہ سوچتی کہ اس نے بہت غلط فیصلہ کیا تھا کیونکہ اب وہ گھر واپس جا سکتی تھی اور نہ خرم کے گھر والے اس کو قبول کرتے تھے۔ شادی کو پانچ ماہ ہو چکے تھے۔ شاہانہ ماں بننے والی تھی لہٰذا خرم نے شاہانہ کا ساتھ دیا اور ماں باپ کو چھوڑ کر بیوی کے ساتھ ہو لیا اور علیحدہ گھر میں جا بسا۔ جب بیٹے کو ہاتھ سے جاتا دیکھا، خالہ شاہانہ کے گھر گئیں۔ اس کو منایا اور کہا کہ میں تم کو بہو جیسی شان دوں گی ۔ تم ایک بات مان لو۔ شہر بانو اس کی بچپن کی منگیتر ہے ، ہم اس کو نہیں چھوڑ سکتے ۔ تم اس کی شادی شہر بانو سے ہونے دو۔ وہ تمہاری بہن بن کر رہے گی۔ مگر یہ شرط شاہانہ نے قبول نہ کی۔ ماں نے خرم کو بھی سمجھایا کہ اب تم کنگال ہو گئے ہو، کوئی نوکری بھی نہیں ہے، کیسے گزارہ کرو گے ؟ بہتر ہے کہ شہر بانو سے نکاح کر لو۔ وہ کئی مربعوں کی مالک ہے اور تمہاری خاطر کہیں اور شادی نہ کرنے کا عہد کر چکی ہے۔ اس کی زندگی بر باد نہ کرو۔ اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔ یہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا جب شاہانہ نے ایک پیاری سی بچی کو جنم دیا۔ اس رات خرم گھر پر نہیں تھا۔ چار روز بعد جب وہ آیا تو بچی کو دیکھ کر پدرانہ شفقت سے دل معمور ہو گیا۔ وہ اسے پیار کرتے نہ تھکتا تھا۔ وہ والدین کے پاس گیا۔ ان کے قدموں میں بیٹھ کر معافی طلب کی اور کہا کہ آپ کی پوتی ہوئی ہے ، آ کر اس کو دل سے لگائیے۔والدین اس کے ساتھ آگئے اور پوتی کو پیار کیا۔ بہو کو ساتھ لے آئے۔ پانچ ماہ خیریت سے گزر گئے۔
ایک روز خرم کسی کام سے شہر گیا تو ساس نے بہو پر الزام لگا دیا کہ وہ کسی اور شخص کے ساتھ واسطہ رکھتی ہے۔ اگرچہ یہ سراسر الزام تھا مگر شاہانہ کی ایسی اہانت کی گئی کہ وہ بچی کو لے کر گائوں سے چلی گئی۔ جب خرم گھر آیا، شاہانہ اور بیٹی کو نہ پایا۔ ماں سے پوچھا۔ وہ دونوں کدھر ہیں ؟ ماں بولی۔ مجھ سے کیا پوچھتے ہو ، جائو اور جا کر گائوں کے لوگوں سے پوچھو۔ سب کو پتا ہے کہ شاہانہ تمہارے جانے کے بعد کسی سے ملنے دریا کے کنارے گئی تھی۔ لوگوں نے کئی بار پہلے بھی اس کو کسی کے ساتھ دیکھا تھا۔ وہ شرم سے نہیں بتاتے تھے لیکن اب وہ چپ نہیں رہ سکے۔ کچھ لوگ تمہارے ابا کے پاس شکایت کرنے آ گئے کہ تمہاری بہو کا چال چلن ٹھیک نہیں ہے۔ آپ کی عزت کو خاک میں ملتے ہم نہیں دیکھ سکتے۔ خرم کا سر گھوم گیا۔ اس کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ اس نے فون پر بات کی کہ شاہانہ تم کہاں ہو اور یہ لوگ کیسی باتیں کر رہے ہیں ؟ تم کیا کسی سے ملنے نہر پر گئی تھیں؟ ہاں، میں گئی تھی۔ تمہیں جو کرنا ہے ، کر لو۔ اس نے غصے سے جواب دیا۔ یہ سن کر خرم کے حواس جاتے رہے اور اس نے بغیر سوچے سمجھے نہر میں چھلانگ لگا دی۔ افسوس کہ یہ سب کچھ غلط فہمی کی وجہ سے ہوا کیونکہ شاہانہ کے کسی غیر مرد سے تعلقات نہ تھے۔ وہ نہر پر اپنے بھائی سے ملنے گئی تھی جو اس کی ماں کا سندیسہ لایا تھا کیونکہ شاہانہ کی والدہ کافی بیمار بلکہ قریب المرگ تھی۔ وہ تو جھگڑوں سے تنگ تھی۔ جب ماں کی علالت کا پتا چلا ، اس نے خرم کے آنے تک انتظار نہ کیا اور ساس کے الزام لگانے پر غصے میں اپنے بھائی کے ساتھ بغیر کسی کو کچھ بتائے شہر چلی گئی۔ جب اس کو خرم کے ڈوب کر مر جانے کی اطلاع ملی، وہ سکتے میں آ گئی کہ آہ ! جلد بازی میں مجھ سے یہ کیسی غلطی سرزد ہو گئی۔ وہ بے ہوش ہو گئی۔ جب ہوش آیا تو یہی الفاظ بار بار اس کے لبوں پر آتے تھے۔ خرم یہ کیا کر گزرے۔ میرا اعتبار تو کرتے، میں نے تمہاری خاطر سب کچھ چھوڑ دیا اور تم مجھے اکیلا چھوڑ کر چل دیئے، کس کے سہارے۔ میرا تو کوئی نہیں تھا تمہارے سوا – مجھے بھی ساتھ لے جاتے تو اچھا تھا۔ ماں سے گلے لگ لگ کر کہتی تھی۔ آپ نے مجھے بددعا دی تھی نا کہ تم بر باد ہو جائو تو دیکھو آج میں بر باد ہوگئی ہوں۔ اس کی ماں بیمار تھی، وہ پھر بھی آگئی تھی۔ ہفتہ بھر بعد بیٹی کو ساتھ لے گئی کیونکہ بچی چھوٹی تھی لہٰذا اسے بھی لے گئے۔ وہ بیوہ کی بیٹی تھی۔ صرف انیس برس کی عمر میں خود بھی بیوہ ہو گئی۔ خالہ جان کی حالت تو لکھ نہ پائوں گی۔ وہ آج بھی خرم، خرم پکارتی ہیں۔ ہر ایک سے یہی کہتی ہیں کہ میرے خرم کو کہیں دیکھا ہے ؟ اے کاش! کہ میں بہو پر الزامات نہ لگاتی۔ اس کے میکے والوں سے ملنے سے نہ روکتی تو وہ یوں چوری چوری بھائی سے ملنے نہ جاتی۔ اس واقعے کو عرصہ گزر گیا ہے لیکن ہمارے دلوں میں آج بھی خرم کی یاد باقی ہے۔ میں ماؤں سے گزارش کروں گی چاہے جتنا بھی دکھ ہو، اپنی اولاد کو بد دعا نہ دیں۔ میں نے خرم کی یاد میں ابھی تک شادی نہیں کی کیونکہ میرے دل میں جو جگہ اس کی تھی ، وہ کسی اور کی نہیں ہو سکتی –