میرے والد دولت مند نہ تھے پھر بھی ہم خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ جب میں نے میٹرک پاس کیا تو والد صاحب نے حکم دیا کہ بیٹی ابھی گھر داری سیکھو، اگلے سال کالج میں داخلے لے لینا، سو میں نے کالج جانے کا خواب اپنی آنکھوں میں بند کر لیا اور ابا جان کے حکم پر گھر داری سنبھال لی اور ماں کے ساتھ کام کاج میں ہاتھ بٹانے لگی۔ میں والدین کی اکلوتی بیٹی تھی۔ وہ میرا بہت چائو کرتے تھے مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ یہ میرے سگے ماں باپ نہیں ہیں بلکہ انہوں نے مجھ گمشدہ بچی کو پناہ دی اور اولاد کی طرح پالا ہے۔ یہ حقیقت بہت عرصے بعد مجھ کو معلوم ہوئی۔ ہوا یہ تھا کہ میں ایک روز جب دروازہ غلطی سے کھلا رہ گیا، میں اپنے حقیقی والدین کے گھر سے نکلی اور گلی میں آگئی۔ ان دنوں میر کی عمر تین سال کے قریب تھی۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ تین سال کے بچے کو کتنا شعور ہوتا ہے۔ میں بھی دنیا کے حالات سے بے خبر بس گلی میں سیدھی چلتی چلی گئی اور واپس نہ پلٹی۔ بھلا کیسے مڑ کر دیکھتی، اتنا شعور ہی نہ تھا۔ آگے جاکر سڑک پر پہنچی تو اتنی چھوٹی بچی کو ٹریفک سے بھری سڑک کے کنارے ادھر ادھر دیکھتے پاکر ایک جوڑے کی نگاہیں مجھ پر ٹھہر گئیں۔ چند سیکنڈ میں انہوں نے جان لیا کہ میں گھر سے نکلی گمشدہ بچی ہوں جو راستہ بھول کر مین روڈ تک آگئی ہے۔ وہ اپنی گاڑی سے اترے اور میرے پاس آئے۔ مجھ سے نام پوچھا۔ میں کچھ نہ سمجھی اور رونے لگی ، تب انہوں نے مجھے سڑک کنارے سے اٹھالیا اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔ اب میں عورت کی گود میں تھی اور مرد گاڑی چلارہا تھا۔ مجھے لے کر وہ کچھ دیر ادھر ادھر گلیوں میں پھرے، دکانداروں سے پوچھا، ہر کسی نے میرے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا، کوئی نہ بتا سکا کہ یہ کس کی بچی ہے تب وہ میاں بیوی مجھ کو لے کر اپنے گھر آگئے۔ یہ ایک بے اولاد جوڑا تھا۔ انہوں نے میرے والدین کی تلاش کی مگر ناکام ہونے پر مجھے گود لے لیا۔ میرا نام انہوں نے نور رکھا کیونکہ میں ان کی بے نورزندگی میں اجالا بن کر آئی تھی۔ انہوں نے بڑے چائو سے میری پرورش کی، ہر کسی کو یہی باور کرایا کہ میں ان کی حقیقی بیٹی ہوں۔ وقت گزرتا رہا، میں سولہ سال کی ہو گئی اور میٹرک پاس کر لیا۔ انہوں نے مجھ کو کبھی کوئی تکلیف نہ دی پیار ہی دیا۔ ہمارے گھر کے پچھواڑے ایک گلی تھی۔ اس کے ساتھ ہی کوٹھیوں کی لائن تھی۔ ہمارے مکان کے متصل بھی ایک چھوٹا سا بنگلہ نما گھر تھا جس کی چھت سے ہمارا آنگن دکھائی دیتا تھا۔ یہ امیر لوگ تھے۔ صاحب خانہ ایک بزنس مین تھے۔ ان کا بھی ایک ہی بیٹا تھا، جس کا نام گل بخت تھا لیکن پیار سے سب اس کو راجا کہہ کر بلاتے تھے۔ وہ بڑا خوبرو اور بانکا سجیلا نوجوان تھا۔ وہ جب بھی اپنے گھر کے اوپر کی حصے میں جاتا، اس کی نظر ہمارے آنگن پر ضرور پڑتی تھی۔ اس کی نگاہوں میں تجسس بھرا ہوتا، جیسے کسی کی تلاش ہو ۔ میں سامنے دکھائی دے جاتی تو اس کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھتا۔ مجھے لگتا کہ اس بانکے سجیلے کو ضرور میری ہی جستجو ہے۔ میرا بھی دل کرتا کہ اس کو دیکھتی رہوں۔ تمنا کرتی اے کاش یہ خوبصورت لڑکا میری زندگی کا ساتھی بن جائے، مگر جانتی تھی کہ ایسے خواب ہم جیسی متوسط گھرانے کی لڑکیوں کے لئے کتنے تکلیف دہ ثابت ہوتے ہیں کیونکہ راجا کا باپ ایک مال دار آدمی تھا اور میرے ابا سفید پوش تھے۔ یہ بھی سن رکھا تھا کہ امیر گھرانوں کے لڑکے بھولی بھالی لڑکیوں کو برباد کرتے ہیں۔ وعدے تو کرتے ہیں مگر شادی نہیں کرتے۔ میری عمر اس وقت گرچہ چھوٹی تھی مگر تب بھی میں نے اپنے پورے شعور اور عقل سے کام لیا، دل پر قابور کھا اور بہت دنوں تک اس کی متلاشی نگاہوں سے بچتی رہی مگر اس امیر زادے نے بالآخر ایک روز مجھ کو اپنی چاہت کا اسیر کر ہی لیا۔ وہ امتحان کی تیاری میں مشغول اور دھوپ کے بہانے اپنی کوٹھی کی چھت پر کتابیں لئے مطالعے میں مصروف رہتا۔ ان دنوں ہلکی ہلکی سردیاں تھیں۔ میں بھی کبھی سبزی کاٹنے اور کبھی بال سکھانے کے لئے اپنے آنگن میں جا بیٹھتی تھی۔ تب ہی وہ اپنی چھت پر آتا اور کبھی پنسل تو کبھی کاپی گراتا۔ آواز پر میں سر اٹھا کر دیکھتی تو مسکراتا، تب میں اپنی مسکراہٹ کو ہونٹوں میں دبا کر سر کو جھکا لیتی۔ راجا کیونکہ مجھے کو اچھا لگتا تھا لہذا میں اس کی ان حرکتوں کا برانہ مناتی تھی۔ اگر دو چار دن وہ اوپر نظر نہ آنا تو میرا جی ماندہ ہونے لگتا۔ منتظر ہو جاتی کہ کب وہ اپنی چھت پر آئے تو میرے من میں مسرت کے پھول کھلیں۔ جس روز اس کو نہ دیکھتی سارادن کوئی کمی محسوس ہوتی رہتی اور دیکھ لیتی تو دل ہلکا پھلکا ہو جاتا۔ بہت عرصے سے یہ لوگ ہمارے پڑوس میں آباد تھے۔ کبھی راجا نے کسی کو شکایت کا موقع نہ دیا تھا، محلے کے سارے لوگ اس کو ایک شریف لڑکا سمجھتے تھے اور اس سے اچھے طریقے سے پیش آتے تھے۔ کوئی نہیں سوچ سکتا تھا کہ یہ محلے پڑوس میں کسی لڑکی پر نظر رکھتا ہوگا۔ یہ عین حقیقت تھی کہ وہ مجھ پر نظر رکھنے لگا۔ شروع میں، میں نہ سمجھی لیکن اس نے رفتہ رفتہ اپنی وارفتگی بڑھائی۔ اشارے سے سلام کرنا اور کنایوں سے بات کرنا، احوال پوچھنا، جواب میں سر جھکا لیا کرتی تھی۔ ایک روز میں صحن میں بیٹھی تھی۔ ابا دفتر گئے ہوئے تھے اور اماں خالہ کے گھر ۔ میں صحن میں بیٹھی دال ، چاول صاف کر رہی تھی، تبھی ایک چھوٹی سی پینسل میرے سامنے آکر گری۔ سراٹھا کر دیکھا تو وہ ہاتھ جوڑے کھڑا تھا۔ اس نے ہماری سیڑھی کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ ادھر سے اپنی چھت پر آجائو ، ضروری بات کرنی ہے۔ وہ جان چکا تھا کہ میں گھر پر اکیلی ہوں۔ مجھ کو اس کی منت سماجت سے لحاظ آ گیا اور میں اپنے زینے سے چھت پر چلی گئی۔ اب ہم دونوں آمنے سامنے تھے اور ہمارے درمیان چھوٹی سی منڈیر تھی۔ وہ اپنی چھت کی منڈیر کے پاس کھڑا تھا اور میں اپنی چھت کی منڈیر کے پاس۔ یہ ہماری پہلی ملاقات تھی۔ ڈرتے کانپتے میں نے اس کی بات سنی ، بس اتنا یاد ہے کہ وہ میری تعریف میں کچھ کہ رہا تھا مگر میں کیا سن سکتی تھی کہ میرے تو کان ہی جیسے بند ہو گئے تھے ، پلک جھپکتے میں واپس اپنے زینہ سے صحن میں لوٹ آئی۔ وہ مجھے روکتا رہ گیا مگر تیز تیز قدموں سے ایک ہی سانس میں سارا زینہ میں نے طے کر لیا۔ صحن میں قدم رکھا تو ہاتھ پائوں ٹھنڈے ہورہے تھے۔ لگتا تھا کہ چھت پر نہ تھی بلکہ کسی نے مجھے کنویں میں لٹکا دیا تھا۔ اپنے کمرے میں جاکر کتنی ہی دیر تک گم صم بیٹھی رہی تھی۔ دوسرے روز پھر صحن میں جا بیٹھی ، آج پہلے دن والا ڈر ختم ہو گیا تھا۔ اس کو جیسے ہوا نے میرے صحن میں آنے کی خبر کر دی۔ چند لمحوں بعد چھت پر موجود تھا۔ اس نے پھر سے مجھے اشاروں اشاروں میں بلایا۔ میں نہ گئی تو وہ مایوس ہو گیا مگر سلسلہ تو چل ہی نکلا تھا۔ کبھی ہمت ساتھ دیتی، کبھی حوصلہ ہار جاتی، رفتہ رفتہ سارا خوف دور ہوتا گیا۔ وہ مرحلہ بھی آگیا کہ جب ہم دور رہ کر بھی پاس ہو گئے۔ میں نے اس کو کہ دیا تھا کہ مجھ سے صرف بات کرنا، چھونے کی کوشش نہ کرنا۔ لوگ تم کو نیک چلن لڑکے کے طور پر جانتے ہیں تو نیک چلن ہی رہنا۔ خدارا دھوکا نہ دینا۔ اگر والدین سے مجبور ہو تو بھی کوئی بات نہیں پہلے سے بتادو۔ ہم خود کو غلط امیدوں سے پہلے ہی دکھوں سے بچالیں گے مگر جھوٹی آس دلا کر مجھ سے کھیل مت کر نا ورنہ میں بے موت ماری جائوں گی۔ اس نے مجھ سے شادی کا وعدہ کر لیا تھا اور بہت منت کر کے ہاتھ جوڑ کر کہا تھا کہ ناراض نہ ہو۔ جلد بازی میں کسی کے بارے یوں غلط رائے قائم کرنا اچھا نہیں ہوتا۔ انسان بہت مشکل سے ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔ یونہی اگر رشتے توڑ ڈالے جائیں تو عمر بھر ایک دوسرے کے لئے تڑپنے اور پچھتانے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ میں ہر حال میں اپنے والدین کو راضی کر کے تمہیں اپنا لوں گا۔ اس کی ان باتوں سے اس کی محبت اور یقین نے میرے دل میں گھر کرنا شروع کر دیا۔ ادھر میں خوابوں میں آنے والی خوشیوں کے استقبال کو رقص کناں تھی، ادھر راجا تھا کہ گھڑی گھڑی مجھے اپنے گھر بلانے پر اصرار کرتا تھا۔ میں اس کو جواب میں یہی کہتی کہ راجا صاحب اب تو میں آپ کے گھر تبھی آئوں گی جب بارات لے کر آپ مجھے لینے کے لئے آئیں گے۔ ایک روز موسم بڑا سہانا اور ابر آلود تھا کہ بوندا باندی ہونے لگی۔ راجا کے گھر والے کہیں گئے ہوئے تھے۔ اس نے ہمارے آنگن میں جھانکا اور مجھے بلانے لگا۔ میں نے حسب معمول انکار کیا تو ناراض ہو کر بولا۔ اگر آج تم نہ آئیں تو پھر عمر بھر نہ تم سے بات کروں گا اور نہ تم کو بلائوں گا۔ ہمیشہ کے لئے یہاں سے تایا جی کے گھر پشاور چلا جائوں گا۔ اس کے تیور دیکھ کر میرا دل دھک سے رہ گیا۔ کسی صورت میں اسے ناراض نہ کرنا چاہتی تھی۔ اب تک میں نے اپنے والدین کی عزت کا پاس رکھا تھا۔ ایک مشرقی لڑکی کی طرح خود کو سنبھالے رکھا تھا ورنہ تو میں اس کے ساتھ اڑ کر آسمانوں میں بھی جانے کو تیار تھی۔ اس کے بلانے پر بھی میں اس کے گھر نہ گئی تو وہ مجھ سے ناراض ہو گیا۔ خدا جانے اس کے ذہن میں کیا تھا۔ اپنی ضد پر اڑ گیا اور اس کے بعد میری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ بڑی مشکل سے دو ہفتے گزرے۔ دل کی عجیب حالت تھی۔ جی چاہتا فوراجا کر اس کو منالوں۔ اپنے دل کو سمجھاتی، کہ راجا ایک اچھا لڑکا ہے۔ بھلا وہ کیوں مجھ کو بری نیت سے بلائے گا۔ یونہی گھر پر بلارہا تھا اور میں نے اس کی محبت کا مان نہیں رکھا۔ اب دل اس کی اچھائیاں گنوانے لگا۔ وہ برے ارادوں والا انسان نہیں ہے۔ محلے والے اس کی شرافت کی گواہی دیتے ہیں۔ نیک چلن نہ ہوتا تو کیوں یہ سب لوگ اس کی تعریف کرتے۔ میرے ساتھ بھی توراجا کا رویہ ہمیشہ شریفانہ رہا ہے۔ کبھی بات چیت سے آگے نہ بڑھا۔ خط لکھنے پر اصرار کیا اور نہ کبھی تحفوں کا چکر چلایا۔ ہم سایوں سے اس کے باعزت تعلقات تھے۔ غرض ایسی باتیں سوچ سوچ کر خود کو آمادہ کر لیا کہ اس سے ملوں۔ ایک بچے کے ہاتھ پیغام بھجوایا کہ مجھ سے ملو، جہاں کہو گے آجائوں گی۔ اس پیغام کا بھی اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ دل میں ہوک سی اٹھی، زندگی بیکار لگنے لگی۔ تڑپ کر رہ گئی۔ ایک روز دیکھا کہ وہ اپنے گھر کی سیڑھی سے چھت پر جا رہا ہے۔ میں صحن میں بیٹھ کر اس کی واپسی کا انتظار کرنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد وہ اپنا زینہ اتررہا تھا۔ فورا گھر کا دروازہ کھول کر میں گلی میں نکلی اور اس کے دروازے پر پہنچ گئی۔ اس نے زینے سے مجھے دہلیز پار کرتے دیکھ لیا تھا۔ میرا یہ حربہ کامیاب رہا۔ فور نیچے آ کر راجا نے اپنے گھر کا دروازہ کھول دیا۔ کہنے لگا۔ گھر سے باہر کیوں نکلی ہو ؟ اس طرح میرے گھر کے دروازے پر مت کھڑی رہو، کوئی دیکھ لے گا تو تمہاری بدنامی ہو جائے گی۔ تم جو ناراض ہو۔ ناراضی ختم کر دو توہی اپنے گھر جائوں گی ورنہ یہیں کھڑی ہوں۔ اچھا جائو ، میں ناراض نہیں ہوں۔ جب بلائو گے آجائوں گی لیکن اب کبھی ناراض مت ہو نا۔ ٹھیک ہے۔ اس نے کہا۔ لیکن ابھی گھر جائو اور آئندہ اس طرح گلی میں مت نکلنا۔ اس نے نرم لہجے میں کہا تو مجھے قدرے سکون ملا اور میں اپنے گھر کے اندر واپس پلیٹ آئی۔ ایک روز میں آنگن دھو رہی تھی کہ کسی نے در بجایا۔ والد صاحب دروازے پر گئے۔ پھوپھو کا بیٹا تھا۔ اس نے بتایا کہ خبر کرنے آیا ہوں اماں چل بسی ہیں۔ آپ اور ممانی جان فوراً میرے ساتھ چلئے۔ والد صاحب اور امی جان نے فوراً جانے کی ٹھانی اور جس گاڑی میں وقار آیا تھا، اسی میں بیٹھ کر پھوپھو کے گھر چلے گئے۔ جاتے ہوئے مجھ سے کہا کہ کنڈی لگا کر رکھنا۔ ہم شام تک آجائیں گے۔ وہ پھوپھو کی فوتگی میں گئے تھے اور میں گھر میں اکیلی تھی۔ میرا دل اداس تھا۔ بار بار راجا کی چھت کی طرف نگاہیں اٹھتیں۔ میں تمنا کر رہی تھی کہ وہ نظر آجائے تو میرے دل کی اداسی دور ہو لیکن وہ نظر نہ آیا۔ آج ایسا موقعہ تھا کہ اگر وہ اپنے گھر بلاتا تو میں چلی جاتی لیکن وہ نظر ہی نہ آیا۔ دو پہر کے بعد تک میں صحن کے چکر لگاتی رہ گئی۔ سہ پہر کو کہیں وہ دکھائی دیا۔ میں نے بتایا کہ امی ابو پھوپھو کے گھر گئے ہیں۔ آج ملنا ہے تو ملو۔ اس نے کہا۔ کہاں ملوں ؟ میرے گھر والے تو گھر میں ہیں، تم کو اپنے گھر نہیں بلا سکتا۔ دل بجھ گیا، جانے کیوں راجا سے تنہائی میں باتیں کرنے کی آرزو مجھے بے قرار کرنے لگی۔ شاید اس لئے کہ وہ ہفتوں مجھ سے ناراض رہا تھا اور اب ڈھیر ساری باتیں کر کے اس کی خفگی کو دور کرنا چاہتی تھی ۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد میں نے کہا۔ امی ابو دوپہر تک آئیں گے۔ قریبی گائوں گئے ہیں۔ میں گھر میں اکیلی ہوں تم میرے گھر آجائو۔ اگر وہ اچانک آ گئے یا کوئی اور آگیا؟ امی ابو رات تک ہی آئیں گے اور کوئی نہیں آئے گا۔ میرے لہجے میں اصرار تھا، تبھی نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے میری بات مان لی۔ کہا کہ در کھولو میں آتا ہوں۔ چند منٹ بعد وہ ہمارے گھر کے دروازے پر موجود تھا۔ میں نے آہٹ سن کر دروازہ کھول دیا۔ وہ اندر آگیا اور ہم نے در کولاک کر دیا۔ یہ ایسا لاک تھا کہ اگر کسی کے پاس چابی ہو تو باہر سے چابی لگانے سے کھل سکتا۔ مجھے دھیان نہ رہا کہ ابو کے پاس چابی ہے۔ یوں بھی یقین تھا کہ وہ مغرب سے پہلے آنے کے نہیں، کیونکہ پھوپھو کی تدفین مغرب تک ہونا تھی۔ راجہ کو آئے بیس منٹ بھی نہ گزرے تھے کہ اچانک ابا جان آگئے، وہ بیرونی دروازے کے لاک کو چابی سے کھول کر اندر آگئے تھے۔ ہم اس قدر باتوں میں کھوئے ہوئے تھے کہ ان کے آنے کا کھٹکا بھی نہ سن سکے۔ دراصل وہاں کچھ رقم کی ضرورت پڑ گئی تھی لہذا وہ پیسے لینے آئے تھے۔ ان کو اپنے سامنے دیکھ کر ہمارے حواس گم ہو گئے۔ انہوں نے وہ غصہ کیا کہ خدا بچائے۔ بولے۔ ابھی تم دونوں کو ٹھکانے لگاتا ہوں۔ ہماری غیر موجودگی میں یہ کیا ہو رہا ہے۔ آخر راجا کو گھر کے اندر آنے کی جرات کیسے ہوئی؟ میں نے روتے ہوئے کہا۔ اباجی! بے شک مجھ کو مارڈالئے مگر راجا کو کچھ مت کہئے۔ اس کا قصور نہیں ہے۔ میں نے ہی اس کو بلایا تھا۔ راجا نے بھی یہی کہا کہ میں گلی میں سے گزر رہا تھا۔ مجھ کو نور نے آواز دے کر بلا یا اور کہا کہ ہمارے یہاں کوئی پتھر مار رہا ہے دیکھو اور منع کرو۔ خیر والد صاحب کو واپس فوتگی والے گھر جانے اور رقم پہنچانے کی جلدی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تم جائو ، میں تمہارے والد سے بات کروں گا اور مجھ کو حکم دیا کہ چلو تم گاڑی میں بیٹھو۔ میں جن کپڑوں میں تھی ان ہی کپڑوں میں ان کے ہمراہ پھوپھو کے گھر آگئی۔ میراجی اس وقت بہت پریشان تھا اور یہاں میت والے گھر میں تو رونا پیٹنا مچا تھا، جس سے اور جی پریشان ہو گیا۔ رات کو اپنے والدین کے ہمراہ پھوپھو کے گھر ہی رہنا پڑا۔ اگلے دن گھر لوٹے تب ابو ، راجا کے والد سے ملے اور تمام واقعہ ان کے گوش گزار کر دیا۔ وہ بچارے شریف آدمی ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی۔ کہا کہ راجا آپ کے سامنے بڑا ہوا ہے ، یہ آپ کا بیٹا ہے۔ جو جی میں آئے سزا دیجئے ، میں اف نہ کروں گا۔ آپ کہیں تو مکان بیچ کر ہم کہیں اور چلے جائیں گے۔ ابوانتہائی شریف آدمی تھے۔ بولے۔ آپ کو مکان بیچنے کی ضرورت نہیں۔ بس اتنی عرض ہے کہ آئندہ کے لئے اپنے بیٹے کو قابو میں رکھئے گا، دوبارہ ایسی حرکت نہ کرے۔ اس واقعہ کے ایک ماہ کے اندر اندر والد صاحب نے میری شادی اپنے ایک رشتہ دار کے بیٹے سے کر دی۔ یوں میری محبت کا انجام ہوا کہ بدیس بیاہی گئی اور ایڑیاں رگڑتے رگڑتے رہ گئی۔ اس کے بعد سنا کہ دل برداشتہ ہو کر راجانے خود کشی کی کوشش کی تھی۔ والد نے میری شادی عجلت میں کر دی۔ اے کاش وہ راجا کے والد سے کہتے کہ میری بیٹی کا رشتہ لے لو لیکن ان کی حمیت نے یہ بھی گوارا نہ کیا۔ میرا شوہر اچھی خصلت کا نہ تھا۔ محلوں میں رہنے کے خواب دیکھنے والی لڑکی، اب ایک ایسے دیہاتی کی داسی بنے پر مجبور تھی، جس کو عورت کی عزت کرنا بھی نہ آتی تھی۔ گائوں کے اڈے پر اس کی دو بسیں چلتی تھیں۔ سارا دن وہ اڈے پر رہتا اور چرس کے سوٹے لگا کر اپنے عملے کو گالیوں سے نوازتا تھا۔ میں ہر بار اس امید کے ساتھ میکے جاتی تھی کہ شاید ایک بار راجا نظر آجائے لیکن وہ کبھی مجھ کو نظر نہ آیا۔ ایک دو بار گلی میں آتے جاتے مڈ بھیڑ ہوئی بھی تو وہ سر جھکا کر پاس سے گزر گیا اور میں اس سے یہ شکوہ بھی نہ کر سکی کہ کہاں گئے تمہارے وہ دعوے، مجھے حاصل کرنے کی خاطر کوئی کمال نہ دکھایا، بس سر جھکا لیا، چپ سادھ لی۔ اور مجھ کو عمر بھر جہنم جیسی زندگی بسر کرنے کے لئے ایک چرسی کے پلے باندھ دیا گیا۔ سسرال آ کر پتا چلا کہ جن کو میں اپنے والدین سمجھتی تھی وہ میرے والدین نہیں ہیں بلکہ میں ان کو ایک گم شدہ بچی کے روپ میں ملی تھی۔ یہ بات صرف چند رشتہ داروں کو پتا تھی۔ ساس نے ایک روز جھگڑتے ہوئے منہ سے یہ راز اگل دیا۔ کہا کہ تم ہمارے خاندان سے ہی نہیں ہو۔ اگر ناصر کی اپنی سگی اولاد ہوتیں تو اس طرح سٹریل مزاج نہ ہو تیں۔ تم میں تو وہ گن ہی نہیں ہیں جانے کس کی اولاد ہو۔ انہوں نے تو کھوئی ہوئی کو رستے سے اٹھا کر گلے سے لگالیا تھا۔ اس انکشاف کے بعد میں نے اپنی باغیانہ سوچوں کو موت کی نیند سلادیا اور جان لیا کہ اگر میرے پالنے والوں نے بھی مجھ سے منہ پھیر لیا، تو کدھر جائوں گی۔ وہ بھی یہی سوچیں گے کہ ہماری سگی بیٹی ہمارا خون نہ تھی ورنہ ہماری لاج رکھتی، شوہر جیسا بھی تھا نباہ کرتی، سو میں کبھی روٹھ کر میکے نہ گئی تاکہ میری پرورش کرنے والوں کو کوئی یہ طعنہ نہ دے کہ پرائی اولاد تھی، تبھی تمہار امان نہ رکھ سکی۔