بھورے والا ملتان، ضلع کا ایک چھوٹا سا قصبہ تھا اور یہی ہمارا آبائی گائوں تھا۔ ہمارے آبائو اجداد کی یہاں زمینداری تھی اور وہ مدتوں سے یہاں آباد تھے۔ والد صاحب کو وراثت میں جاگیر تو نہیں ملی، بس تھوڑا سا حصہ ملا تھا، جس کی کاشت سے اچھا گزارہ ہو رہا تھا۔ تاہم ایک چھوٹاز میندار بھی لگن کے ساتھ اپنی زمینوں کی آبیاری کرتارہے تو نصف عمر گزرنے تک وہ بہت خو شحال ہو جاتا ہے اور کافی رقم پس انداز کر سکتا ہے ، بات بس طریقے اور سلیقے سے زندگی گزارنے کی ہے۔ میرے والد نے بھی اپنے آبائو اجداد کی طرح زمینوں سے محبت کی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ رزق کا ذریعہ اور خوشحالی کی ضمانت تو ہیں ہی مگر عزت اور زمین کا ساتھ چولی دامن کا ہے۔ وہ کہا کرتے کہ زمین ہے تو عزت ہے، اگر یہ نہیں تو در در بھٹکنا بہت گھاٹے کا سودا ہے، لہذا زمیندار بڑا ہو یا چھوٹا، اسے اپنی زمین نہیں بیچنی چاہئے۔ تبھی والد صاحب نے کبھی ملازمت کا نہیں سوچا۔ سال بھر کا آناج اور کپاس کی فصل سے اتنی آمدنی ہو جاتی تھی کہ گھر میں کسی شے کی تنگی نہ تھی۔ بینک بیلنس بھی اتنا رہتا کہ چاہتے تو کاروبار کر سکتے تھے۔ دوست مشورہ بھی دیا کرتے ، مگر وہ کہتے کہ زمیندار کو زمینداری ہی راس آتی ہے۔ تاجر ہونے کے لئے تجربہ چاہئے اور تجربہ باپ دادا سے ملتا ہے۔ ہمارے باپ دادا کاشت کے ماہر تھے ، ہم بھی زمین داری سے ہی پھلتے پھولتے رہیں گے ۔ کاروبار ہمارے بس کا روگ نہیں ہے۔ وہ یہ بھاشن اور لمبی تقریریں جب ہم بچوں کے سامنے کرتے تو ہمیں بڑی بیزاری ہوتی ، خاص طور پر بھائی کو کہ جنہیں زراعت سے ذرا بھی دلچسپی نہ تھی۔ اسے تعلیم حاصل کرنے اور شہر جانے کا شوق تھا۔ والد صاحب تعلیم کے خلاف نہ تھے۔ انہوں نے سب بچوں کو تعلیم دلائی لیکن وہ اپنے آبائی علاقے کو چھوڑ کر شہر جالنے کے ہر گز قائل نہیں تھے۔ جب میں نے میٹرک پاس کر لیا تو والد کو میرے بیاہنے کی فکر ہو گئی۔ انہوں نے جھٹ پٹ اپنے قریبی عزیز کے بیٹے کے ساتھ میری شادی کر دی۔ جب میں دلہن بنی ، عمر سترہ سال تھی۔ میرے شوہر کی بھی تھوڑی سی اراضی تھی۔ اپنی ہی زمین پر سڑک کنارے چند دکانیں بھی تھیں۔ سسرال والے امیر کبیر نہ ملے مگر جیسا میکے میں خوش حال سیٹ اپ تھا، ویسا سسرال میں بھی تھا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ شوہر محبت کرنے والے تھے۔ شادی کے سال بعد ہی مجھے بچوں نے گھیرنا شروع کر دیا۔ وقت کے ساتھ یکے بعد دیگرے چار بچے ہو گئے اور میں ان کی معصوم چہکاروں میں کھو گئی۔ لگتا تھا اب اس مطمئن زندگی میں کوئی غم نہ آئے گا مگر سکون اور مسرت کے برس چھوٹے ہوتے ہیں۔ کون سا آدمی ہے، جس نے غم کے ساتھ موت کا وار نہیں سہنا۔ میرے در پر بھی ایک روز ایک بُری خبر نے آکر دستک دی اور میری ساری خوشیاں ہوا میں تحلیل ہو گئیں۔ اطلاع لانے والے نے بتایا کہ آپ کے شوہر جو دوستوں کے ساتھ شکار پر گئے تھے، ان کو کتے نے کاٹ لیا اور اسپتال لے گئے ہیں۔ ان دنوں کتے کے کاٹنے پر پیٹ میں چودہ انجکشن لگائے جاتے تھے۔ کوئی قسمت والا ہو تا تو بچ جاتاور نہ کوئی علاج نہ تھا۔ یہ کتا جنگلی تھا جو اچانک جھاڑیوں سے نکل کر ان پر حملہ آور ہو گیا تھا۔ ایک دوست نے اس کتے پر فائر کر کے اسے ہلاک کر دیا اور یہ لوگ جو سور کا شکار کرنے گئے تھے ، جو فصلوں کو خراب کرتے تھے خود غم کا شکار ہو کر آگئے- اللہ تعالیٰ جسے چاہے لمبی عمر دے ورنہ تو ایک پھانس بھی موت کا بہانہ بن سکتی ہے۔ اجمل بھی کتے کے کاٹنے سے نہ بچ سکے اور میں بچوں کی ذمہ داریاں نباہنے کو اکیلی رہ گئی۔ جوانی میں تو بیو گی مصیبت کے پہاڑ کی طرح ٹوٹتی ہے۔ ہمارا سار اثاثہ میرے شوہر تھے۔ اپنے پیچھے وہ جو اثاثہ چھوڑ گئے، اس میں بھی قانونا اور شرعا ان کے رشتہ داروں کی شراکت موجود تھی۔ بچوں کے حصے میں جو کچھ آیا، زیادہ نہ تھا، بس گزارہ تھا۔ان ہی دنوں میرے بھائی سالار کالج کی تعلیم سے فارغ ہو گئے ، ابا جی نے اس کو کھیتوں کی دیکھ بھال پر لگانا چاہا مگر اس نے انہی دنوں تعلیم مکمل کی تھی اور نیا نیا شہر سے آیا تھا۔ وہ اب دیہات کو رہائش کے لئے چھوٹا جان رہا تھا اور زمینداری اس کے نزدیک مشقت طلب اور فرسودہ سی بات تھی۔ اس بارے کئی بار ابا جان سے بحث ہو چکی تھی۔ ابا جی سمجھاتے تھے۔ بیٹا ہم کھیتوں کے محافظ ہیں، زمین نے ماں بن کر ہمیں پالا ہے۔ زمین سے غداری میں عافیت نہیں ہے۔ میرا کہا مانو ، اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کرو اور ملازمت کا خیال چھوڑ دو مگر بھائی کا کہنا تھا کہ ابا جی آج کل زمینداری میں وہ عزت نہیں رہی جو پہلے تھی۔ آج ایک معمولی ہاری بھی اپنی من مانی کرتا ہے اور ہمارے منہ کو آتا ہے اور ہم کوئی ایسے بڑے زمیندار بھی نہیں۔ معمولی آدمی ہیں، اگر ہم زمینیں بیچ کر بزنس کر لیں تب ہی آج کے دور میں پنپ سکتے ہیں۔ آج کل ہر شخص دولت کے پیچھے بھاگ رہا ہے بلکہ دولت کے پیچھے نہیں، عزت کے پیچھے بھاگ رہا ہے ۔ جہاں دولت سے عزت ملتی ہو ، وہاں لوگ دولت کے پیچھے نہیں بھا گیں گے تو کیا کریں گے۔ ابا جی سادے گائوں کے آدمی انہوں نے شرافت کو عزت کا معیار جانا تھا اور یہی سمجھتے تھے کہ عزت دولت میں نہیں بلکہ شرافت میں ہے اور بھائی نئے زمانے کا لڑکا تھا۔ شہر جا کر کالج سے تعلیم پائی تو خود کو ہم سب سے مختلف سمجھنے لگا۔ وہ اب کالج سے وابستہ تعلیم یافتہ باتیں کرتے ہوئے یہ بھلا چکا تھا کہ ہر خاندان کی اور خاندانوں سے قوموں کی جڑیں اس دھرتی میں پیوست ہوتی ہیں، جہاں ان کے آباو اجداد نے صدیاں گزاری ہوتی ہیں۔ ان کی ریت، روایات کو پل بھر میں تو نہیں مٹایا جا سکتا، مگر نئے خون میں تو نیا جوش ہوتا ہے۔ بالآخر ابا جان نے ہار مان لی اور کہہ دیا کہ بیٹا والدین تو اولاد کی خوشی کے لئے جیتے ہیں، تم خوش تو میں بھی خوش ، تم کو اگر کوئی اچھی اور باعزت ملازمت ملتی ہے تو کر لو۔ زمینداری کو تمہارا چھوٹا بھائی دیکھ لے گا۔ ابا جی ! ملازمت جب بھی اچھی مل گئی ، کرلوں گا۔ فی الحال تو میں بزنس کرنا چاہتا ہوں اور شہر میں رہنا چاہتا ہوں اور آپ جانتے ہیں کہ کاروبار شروع کرنے کے لئے سرمایہ چاہئے۔ بیٹا میں نے لمبے عرصے سے رقم جوڑنی شروع کی تھی۔ اب اتنا روپیہ جمع کر لیا ہے کہ دو مربع اور خرید لوں اور رقبہ بڑھالوں تا کہ وراثت میں میری ساری اولاد کو زمین کا اتنا ٹکڑا آ جائے کہ وہ اپنے کنبے کے ساتھ عزت سے خوشحالی کی زندگی بسر کر سکیں۔ یہ سُن کر سالار رو پڑا کہ وہ ترقی کرنا چاہتا تھا۔ کہتے ہیں بڑوں کے دل بڑے ہوتے ہیں ، سو والد بولے۔ تمہاری خوشی کے لئے میں سرمایہ کاروبار کے لئے تم کو دے رہا ہوں لیکن دھیان رہے کہ اس کو ایسے کاروبار میں لگانا کہ پیسے کے ضائع نہ ہونے کی ضمانت رہے۔ تم کو کاروبار کا تجربہ نہیں ہے اور لوگ گھاگ ہوتے ہیں۔ کہیں ایسے لوگوں میں پھنس گئے تو منافع دور کی بات، اصل زر سے بھی جائو گے ۔ بھائی یہ سُن کر خوش ہو گئے ، کہا۔ ابا جی میرا یقین کیجئے کہ روپیہ کو محفوظ جگہ لگائوں گا اور ساتھ ملازمت بھی تلاش کروں گا۔ آپ بس دُعائیں دے کر مجھے شهر رخصت کیجئے۔ آپ کے مشورے کے بغیر کوئی کاروبار شروع نہ کروں گا۔ اس کے بعد سالار کئی بار شہر گئے اور واپس آئے۔ ان کو معقول ملازمت نہ ملی۔ اعلیٰ پوزیشن میں بی ایس سی کا امتحان کیا تھا۔ وہ اسی ملازمت ڈھونڈ رہا تھا کہ جس میں عزت ہو ہم جس بات کو آسان سمجھ رہے تھے اتنی آسان نہ تھی۔ جب ملازمت کی تلاش کو سالار نکلا تو ہر جگہ بھاری رشوت، اقربا پروری تو کہیں علاقائی تعصب شہری لڑکوں کے مقابلے میں ایک دیہاتی لڑکے کے لئے اچھے عہدے کے حصول میں کافی دقتیں درپیش تھیں۔ انہی دنوں ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم سے ملاقات ہو گئی۔ اس نے باتوں باتوں میں بتایا کہ ایک نئی فنانس کارپوریشن کھلی ہے۔ اگر اس میں اپنی طرف سے ان کی مقررہ حد کے حساب سے سرمایہ جمع کروا دو تو کمپنی میں منیجر کا عہدہ مل سکتا ہے ، سرمایہ بھی محفوظ رہے گا اور اس پر سود یا منافع بھی ملتا رہے گا، جس کی شرح بینک کی شرح سے زیادہ ہے۔ اس ریٹائرڈ پرسن نے اپنا تمام روپیہ جو ریٹائر منٹ کے بعد ملا تھا ، اسی فنانس کمپنی میں لگا دیا تھا۔ چونکہ بے اولاد تھا سوچا کہ جو منافع ملے کا گزارہ چلتا رہے گا۔ بھائی فوراً اس فنانس کارپوریشن کے مالکان سے جا کر ملا۔ انہوں نے کہا ہم دوسرے شہر میں اپنی کمپنی کی برانچ کھول رہے ہیں۔ اگر تم مطلوبہ رقم جمع کروا سکو تو ہم تمہیں اس نئی برانچ کا منیجر بنادیں گے۔ تم کو اس طرح یہ فائدہ ہو گا کہ اچھی تنخواہ کے ساتھ ساتھ کل رقم پر بارہ فی صد منافع ملے گا اور تمہارا اصل سرمایہ جوں کا توں محفوظ رہے گا۔ سالار کو یہ سودا اچھا لگا۔ ابا جان سے سرسری بات کی کہ ایک شخص نے اس طرح سرمایہ کاری کی ہے مگر کھل کر اجازت نہ لی کہ والد جہاندیدہ تھے ، ضرور منع کرتے۔ والد نے اپنی رائے کا اظہار کر دیا کہ جس شخص نے نی کمپنی پر اندھا اعتماد کر کے ایسا کیا ہے، اسے سرمائے سے ہاتھ دھونے پڑ جائیں گے کیونکہ اکثر لوگ پہلے کمپنیاں قائم کر لیتے ہیں اور پھر لوگوں سے رقمیں اینٹھ کر چلتے بنتے ہیں اور خود کو دیوالیہ ظاہر کر دیتے ہیں۔ تم ایسا مت کرنا ورنہ میری تو ساری زندگی کی پونجی ڈوب جائے گی۔ ابا جی ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ کتنے ہی گھرانوں کا سرمایران کمپنیوں میں لگا ہوا ہے۔ کیسے یہ کمپنیاں اتنے سارے لوگوں کے ساتھ فراڈ کر سکتی ہیں؟ اتنا بڑا فراڈ کوئی بھی آسانی سے نہیں کر سکتا جبکہ ان کمپنیوں کے بیشتر مالکان ملک کی جانی پہچانی شخصیات ہیں۔ ضرور ہماری وزارت خزانہ کے علم میں یہ لوگ ہوں گے۔ آپ تو بس بال کی کھال نکالنے بیٹھ جاتے ہیں۔ آپ پُرانے وقتوں کے لوگ، نئے عہد کے تقاضوں کو سمجھ ہی نہیں سکتے جبکہ میرے پاس بی کام کی تعلیم بھی ہے اور فنانس بارے خوب پڑھا ہے کہ سرمائے کو کیسے بڑھایا جاتا ہے۔ بیٹا ! تم نے لاکھ فنانس بارے پڑھ لیا مگر میری ناقص عقل یہ کہتی ہے کہ دیہات کے لوگ اپنی رقموں کو زیادہ شرح منافع کے لالچ میں بینکوں میں جمع کروانے کی بجائے ان فنانس کمپنیوں میں جمع کرواتے ہیں کہ رقم نہیں ڈوبے گی ،لالچ ان پر غالب آ جاتا ہے۔ نہیں ابا جان، اس طرح غریب دیہاتی نوجوانوں کو روزگار ملتا ہے۔ وہ خود اور اپنے رشتہ داروں کو باور کروا کر ان کی رقوم بھی لاتے ہیں تو یہ کمپنیاں مضبوط ہو جاتی ہیں۔ ان کی رقوم نہ صرف محفوظ ہو جاتی ہیں، کاروبار چل پڑنے کی بدولت وہ بعد میں جب چاہے نکلوا بھی سکتے ہیں۔ ابا جی نے مزید اسے سمجھانا وقت کا زیاں جانا۔ وہ بھائی کے سامنے بے بس ہو گئے۔ سمجھ گئے تھے کہ یہ نادان منہ کے بل گرنے والا ہے۔ بھائی نے جو سوچا تھا کر گزرا اور والد صاحب کی رضا کے بغیر سرمایہ ایک نئی فنانس کمپنی میں لگا دیا۔ اس لالچ میں کہ وہ اس کمپنی کی نئی برانچ کے ایریا منیجر بنادیئے جائیں گے ۔ تنخواہ اور منافع ملے گا اور اصل سرمایہ بھی کمپنی کے پاس محفوظ ہو جائے گا اور ایساہی ہوا۔ بھائی نے روپیہ
کمپنی کے حوالے کیا۔ نئی برانچ میں ان کو منیجر لگادیا گیا، تنخواہ ملنے لگی اور منافع بھی۔ چار پانچ ماہ تو بڑی خوشی کے گزرے، کمپنی نے گاڑی بھی دے دی۔ بھائی کی شادی کی بات پکی ہو گئی کہ اب منیجر تھے۔ اچھی تنخواہ اور گاڑی بھی تھی۔ برانچ میں میرا بھائی سفید و سیاہ کا مالک تھا۔ ان کے دستخط کے بغیر کوئی رقم نہ نکل سکتی تھی۔ انہی دنوں مالک نے کمپنی خسارے میں دیکھ ملتان کی ایک اچھی سیاسی فیملی کو فروخت کر دی۔ نئے مالک نے سالار کو کہا کہ تم اگر اتنی رقم اور جمع کروا دو تو تم ہی کو ایر یا مینجر بنادیں گے۔ باپ کی کل پونجی اور رشتہ داروں کی رقوم کو وہ پہلے ہی کمپنی کو جمع کروا چکا تھا، اب ایر یا مینجر کوئی اور بن جاتا، یہ اس کو گوارہ نہ تھا، لہذاوہ سوالی بن کر مجھ بیوہ کے پاس آیا اور مجھ سے اپنی مشکل بیان کر دی۔ اپنے ماں جائے کا سوالی چہرہ دیکھ کر میں شش و پنج میں پڑ گئی۔ ایک طرف بھائی نے جھولی پھیلائی تھی دوسری جانب میرے یتیم بچوں کا سوال تھا۔ میرے پاس ان کی تعلیم و تربیت کا کل اثاثہ اور میرے زیورات ملا کر مشکل سے سات لاکھ بنتے تھے۔ اگر بھائی کو یہ اثاثہ نہ دیتی ڈر تھا کہیں اس کی محبت سے ہاتھ نہ دھو بیٹھوں، بابا بوڑھے ہورہے تھے۔ اُن کے بعد مجھے بیوہ کی داد رسی کرنے والا یہی بھائی ہی تھا۔ میرے انکار سے بھائی کے دل پر ملال آ جاتا۔ یہی سوچ کر میں نے اس کو رقم دے دی اور اپنے یتیم بچوں کا حق اس کی جھولی میں ڈال دیا کہ رقم جمع ہو جائے تو محفوظ رہے گی اور بہ وقت ضرورت واپس مل جائے گی۔ سالار کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ اب پھولے نہ سماتا تھا۔ ایک استدعا کی کہ فی الحال ابا جی کونہ بتاتا، وہ خواہ مخواہ رخنہ ڈال دیں گے ، ہو تا کام بھی نہ ہو جائے گا۔ بھائی کو ایریا مینجر بننے کی خوشی تھی تو میں بھی اسی میں خوش تھی کہ اس کا ترقی کی منازل طے کرنے کا خواب پورا ہو رہا ہے۔ ہم نے ابا جی سے مشورہ نہ کیا بلکہ ان سے بات چھپائی تو خوشی راس نہ آئی، جلد ہی آس بھرے خوابوں کی الٹ تعبیر سامنے آگئی۔ کمپنی کے فراڈ مالکان کل رقم نکلوا کر بیرون ملک چلتے بنے۔ میرے یتیم بچوں کا اثاثہ چھن گیا اور میرے بھائی کا مستقبل بھی ڈوب گیا۔ ہمارا اوسط درجے کا خوش حال گھرانہ شدید مالی مشکلات میں گھر گیا۔ جن دوستوں اور رشتہ داروں نے بھائی پر اعتبار کر کے رقوم دی تھیں، ان کا بھی اعتبار اٹھ گیا اور قرض خواہ ابا جی کا در کھٹکھٹانے لگے۔ میری رہی سہی زمین اور رزق کا آسرا بھی گیا۔ ابا جی کو دولت جانے سے زیادہ غم اپنے بیٹے کا ہوا، جو سرمایہ کھو جانے کے سبب غم میں گھل کر آدھا رہ گیا تھا۔ وہ اس قدر صدمے سے دوچار ہوا کہ اس کی نا تجربہ کاری کا ماتم کرنے کو شہر کے سارے لوگ بھی کم پڑ گئے کیونکہ بھائی ان دنوں جینے کی امید ہی کھو بیٹھا تھا۔ والد کہتے تھے کہ دیکھا ! میں نہ کہتا تھا کہ زمین ہے تو عزت ہے۔ ہمارے والد سیانے تھے ۔ انہوں نے کسی حال زمین فروخت نہ کی مگر ایسے بھی لوگ تھے جنہوں نے اپنی زمینیں فروخت کر کے ان فنانس کمپنیوں میں پیسے لگائے تھے۔ ایسے معصوم دیہاتیوں کی تمام جمع پونجی ان کمپنیوں نے ہڑپ کر لی تھی۔ زیادہ خسارے میں غریب ملازم پیشہ ریٹائرڈ لوگ اور چھوٹے زمیندار رہے یا پھر عہدے کے لالچ میں نئے تعلیم یافتہ نوجوان بے وقوف بنے اور اپنے رشتہ داروں کی رقمیں ڈبو بیٹھے۔ پینشن کا پیسہ، پراویڈنٹ فنڈز اور فصل کی کمائی کیا کچھ نہیں ڈوبا تھا۔ لوگ بیچارے روتے رہ گئے تھے۔ یہ تو ایک کمپنی کی کہانی ہے ، ایسی کئی فراڈ کمپنیوں نے ان دنوں ہمارے وطن کی سرزمین پر جنم لیا تھا اور نجانے کتنے گھرانوں میں خوشحالی کے چراغوں کو بجھا دیا تھا۔