Thursday, February 13, 2025

Izat Ki Qeemat

پیپ پیپ پیپ … پیپ پیپ پیپ
کرخت آواز والے اس ہارن نے صبح سویرے کالونی کے گیٹ پہ شور مچا رکھا تھا۔ چوکیدار نے ناگواری سے ڈرائیور کو دیکھا، وہ اس روٹین سے تنگ تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اب سامنے والے خستہ حال گھر سے وہ باہر نکلے گی اور تسلی دے کر ایک بار پھر گھر کے اندر غائب ہو جائے گی جب تک یہ پیپ پیپ دوبارہ فضا میں نہ ابھرے۔ اف… ارے بھائی آرہی ہوں! توقع کے عین مطابق، مہوش نے زنگ کھائے دروازے سے جھانکا اور ہاتھ کے اشارے سے وین ڈرائیور کو صبر کا دامن تھامنے کا کہا اور خود ایک بار پھر دروازے سے جھلک دکھا کر غائب ہو گئی۔ لیکن لمحہ بھر بعد ہی وین ڈرائیور کے صبر کا پیمانہ ہمیشہ کی طرح لبریز ہو گیا اور اس نے ہارن پہ ہاتھ دھر دیا۔ تقریباً بھاگتے ہوئے مہوش نے گیٹ پار کیا، وین ڈرائیور نے خوبصورتی سے نظروں کا تبادلہ کیا اور دھم سے نازش کے برابر والی سیٹ پر بیٹھ گئی۔مجھے جتنا چڑ ہے اس وین کے ہارن سے، شاید ہی زندگی میں کسی چیز سے اتنا چڑ رہی ہوں۔ ہونٹ کھینچتے ہوئے سرگوشی میں دل کی بھڑاس نکالتی مہوش نے کن انکھیوں سے آس پاس بیٹھی لڑکیوں کے تیور دیکھے، جو ناگواری سے اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔ہاں ہاں، معلوم ہے مجھے۔ نازش نے مہوش کی چڑچڑاہٹ سے لطف اٹھایا۔ لیکن دوسروں کا بھی تو خیال کرو، وہ تمہاری وجہ سے کتنا برداشت کرتے ہیں۔مہوش ایک دم چپ سی ہو گئی۔ جانتی تھی اس کی غلطی ہے۔ ویسے سوچو تو بے چارے وین والے کا بھی کیا قصور؟ اسے آگے بھی تو جانا ہوتا ہے، پھر وقت پر سب کو اسکول پہنچانا بھی اس کی ذمہ داری ہے، ورنہ میڈم کو تو تم جانتی ہی ہو، منٹ نہیں لگاتیں ہر کسی کے پیسے کاٹنے میں۔اچھا نا، بس وہ اس ہارن کی بات کر رہی تھی۔ مہوش نے جھینپ کر اپنی شرمندگی چھپائی۔ تم جانتی تو ہو، اس ہارن سے مجھے چڑ ہے۔ اسکول کے بعد کالج کی وین جو لی تھی، اس کا بھی تو ایسا ہی ہارن تھا نا؟ بات کو پلٹنے کی مہوش نے ایک کامیاب کوشش کی۔ہائے، کتنا وقت بیت گیا۔ نازش نے یاسیت سے کہا۔ ابھی کل کی بات لگتی ہے، ہم خود پڑھنے اسکول جاتے تھے اور اب پڑھانے جا رہے ہیں۔پتا نہیں کب اس اسکول کالج کی روٹین سے پیچھا چھٹے گا یار۔ مہوش کی سوئی وہی اٹکی ہوئی تھی۔ اب تو دل چاہتا ہے کوئی وظیفہ شروع کر دوں اپنی شادی کے لیے تاکہ روز صبح اٹھنے اور یہ پاں پاں پی پی کی منحوس آواز زندگی سے باہر نکلے۔شادی کے بعد اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیجو گی کیا؟ نازش نے ایک دم مہوش کی بولتی بند کرا دی۔انف! بدتمیز! سرخ چہرہ لیے مہوش نے اس بار خاموشی کو مقدم جانا، لیکن نازش کے چہرے کی شرارت اسے بتا رہی تھی کہ اب وہ کافی دیر تک اس بات کو لے کر مزے کرنے والی ہے۔
☆☆☆

ہیلو۔ ہاں نازش! کیسی ہو؟ مہوش نے موبائل اٹھاتے ہوئے سامنے رکھی اسکول کے بچوں کی کاپیوں پر ایک تھکی ہوئی نظر ڈالی۔وہ یار، کل میں اسکول نہیں آؤں گی، میم کو بتا دینا پلیز۔ مہوش نے جھجکتے ہوئے بات پوری کی۔کل میری سالگرہ ہے! شاید نازش نے ناراض لہجے میں شکوہ کیا۔اور تم چھٹی کر رہی ہو؟ یعنی تمہیں یاد بھی نہیں تھا؟ارے ایسی کوئی بات نہیں، ناز! میری پیاری دوست، دراصل لوگ مجھے دیکھنے آ رہے ہیں، تو تم سمجھ سکتی ہو، میں کیسے اسکول آ سکتی ہوں۔مہوش نے دھیرے سے بات مکمل کی تاکہ کہیں نازش کی پھر تقریر شروع نہ ہو جائے۔ ایک لمحے میں یہ بتا دیا کہ نازش کا موڈ زیادہ خراب نہیں ہوا۔اچھا اچھا، جاؤ، معاف کیا۔ کافی دریا دلی کا مظاہرہ کیا گیا۔لیکن مجھے ایک ایک چیز کی تفصیل بتانا پھر!تمہیں نہیں بتاؤں گی تو کس کو بتاؤں گی؟ بس تم دعا کرنا کہ اس بار بات بن جائے۔ مہوش نے آہستگی سے دل کا بوجھ بچپن کی دوست کے سامنے اتارا۔امی بہت پریشان رہنے لگی ہیں، میری کہیں بات طے ہو تو نازیہ کی باری آئے۔ تم تو جانتی ہو، ہم تین بہنوں کی وجہ سے امی کس قدر تھک چکی ہیں، پھر ابو کے بعد وہ ویسے ہی ہر وقت سوچوں میں گم رہنے لگی ہیں۔میں جانتی ہوں مہوش! اور فکر مت کرو، بس شادی کی تیاریاں پکڑو۔کیوں؟ تمہیں خواب آیا تھا کیا، جو ابھی لڑکے والوں کے آنے سے پہلے ہی شادی کی تیاریاں شروع کر دی؟خود کو سنبھالتے ہوئے مہوش نے نازش کی بات کا جواب دیا۔میرا دل کہہ رہا ہے، مہوش! میں نے تو فوراً شکرانے کے نفل بھی مان لیے ہیں۔ اپنی بات پہ زور دیتے ہوئے نازش نے حق دوستی ادا کیا۔ شکریہ پیاری دوست ۔ تم سے بات کرنے کے بعد میرا حوصلہ ہمیشہ ہی بلند ہو جاتا ہے۔ مہوش نے آسودگی بھری سانس بھری اور کل کی تیاری کا سوچنے لگی۔
☆☆☆

لو بھی پکچر دیکھو اور بتاؤ کیسے لگے۔ مہوش نے مسکراتے ہوئے کیک کا پیکٹ میز پر رکھتے ہوئے کہا، اور سناؤ، کیا ہو؟ ذرا تفصیل بیان کرو۔ نازش نے کیک کو ڈبے سے برآمد کرتے ہوئے سوال پوچھا۔ ویسے شکل و صورت تو اچھی ہے، خدا کرے آگے بھی اچھے ہی رہیں۔تمہیں پتا ہے وہ لوگ کل ہی شگن رکھ گئے، میرے ہاتھ یہ اور ہم سب حیران، یہ کیا ہو گیا؟ سکون سے کیک کے اوپر موم بتی روشن کرتی مہوش نے آنکھ کے اشارے سے حیران صورت والی نازش کو کیک کاٹنے کا اشارہ کیا۔ واہ واہ! کیا بات ہے میری دوست کی۔ نازش نے چھری سے کیک کو شہید کیا اور دونوں دوستوں نے کیک کو اسٹاف میں بانٹ کر اپنے اپنے حصے لے کر بیٹھ گئیں۔ سسرال کے افراد بتاؤ، کتنے ہیں؟ کہاں رہتے ہیں؟ دلہا بھائی کیا کرتے ہیں؟ سب بتاؤ نا۔ کیک سے لطف اندوز ہوتے ہوئے نازش نے پے در پے سوالات کیے۔ تین عدد نندیں ہیں اور ایک ساس، بس یہی ہے پورا سسرال۔ یا اللہ خیر، پوری تین نندیں؟ نازش نے مصنوعی پریشانی سے ہر ممکن آنکھیں پھاڑیں۔تم کیسے رہوگی؟بدتمیز! مہوش نے ایک دھپ دوست کے شانے پر مار کر بات کو آگے بڑھایا۔ دو نندیں شادی شدہ ہیں، بس ایک نند اور ساس ہوں گی میرے ساتھ۔ سسر کا انتقال ہو چکا ہے۔پھر تو شکر ہے۔ میں تو پریشان ہو گئی تھی کہ ہماری مہوش نندوں میں پھنس رہی ہے۔ ایک ہی تو نند ہے۔ تقریباً میری ہم عمر، ہم اچھے دوست بن کے رہیں گے۔ ہے… ان شاء اللہ۔ میری دعا تمہارے ساتھ ہے۔ تم دیکھنا نازش ڈارلنگ! تمہاری مہوش کی قسمت میں راوی چین ہی چین لکھے گا، کیونکہ بفضل خدا خود جو اتنے اچھے ہیں۔ گھر سے باہر نکلےہیں اسی لیے گھر کی قدر معلوم ہے۔مہوش نے فرضی کالر کھڑے کرتے ہوئے شوخی سے بات پوری کی۔ ساتھ ہی محدود بریک کے ختم ہونے کی بیل بج اٹھی، تو پورا اسٹاف الرٹ ہو کر اپنی اپنی کلاس لینے کے لیے تیار ہونے لگا۔
☆☆☆

یہ لو جناب، کھاؤ مٹھائی۔ مہوش نے مٹھائی کا ڈبہ نازش کو پکڑاتے ہوئے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔کیا بات، پکی ہوگئی تمہاری؟ نازش نے حیرت سے پوچھا۔ چٹ منگنی پٹ بیاہ والا چکر؟ہاں، بس وہ کل میری شادی کی تاریخ طے ہو گئی۔ اچانک وہ لوگ آگئے اور کہنے لگے کہ منگنی کی ویسے ہی کوئی شرعی حیثیت نہیں، تو کیوں نہ شادی کر لی جائے۔ارے واہ، یہ تو بہت اچھی خبر سنائی۔ نازش نے خوشی سے کہا۔ویسے شکر ہے کہ سسرال والے کافی لبرل ہیں۔ میری جاب پر پابندی نہیں لگا رہے۔ کہتے ہیں مرضی ہے، اگر نوکری کرتی ہو تو کرو، ہمیں کوئی مسئلہ نہیں، کیونکہ آصف کہہ رہے تھے کہ گھر چلانے کی ذمہ داری مرد کی ہوتی ہے۔اچھی سوچ ہے۔ نازش نے فوراً تعریف کی۔ ورنہ جاب کرنے والی لڑکی کے پیسوں پر سب کی نظریں لگی ہوتی ہیں۔لیکن اب میں سوچ رہی ہوں کہ کچھ وقت جاب جاری رکھوں اور اپنی ایک گاڑی لے لوں، تاکہ آگے جا کر محتاجی نہ ہو۔ہاں، گڈ آئیڈیا۔ نازش نے فوراً مہوش کو سپورٹ کیا۔ اٹھارہ ہزار اچھی تنخواہ ہے۔ اگر تم دس ہزار کی کمیٹی ڈال لو، تو بھی آٹھ ہزار بچیں گے۔ہوں، یہ بھی ٹھیک ہے۔ مہوش نے مسکراتے ہوئے نازش کو دیکھا۔ہاں، بس گاڑی لیتے ہی اس نوکری کو ٹاٹا بائے کر دوں گی۔ اف! کم از کم اس  پیپ پیپ سے تو جان چھوٹے گی۔ سامنے سے آتی وین کو دیکھ کر مہوش نے منہ بنایا۔
☆☆☆

کلاس لیتے ہوئے نازش نے کب سے بجتے فون کو دیکھا، جہاں اس کی پیاری دوست کا نام اور دلہن بنی ایک تصویر جگمگا رہی تھی۔ہیلو بی بنو! کیسی ہو؟ آگئی ہماری یاد؟ نازش نے فون اٹھاتے ہی کہا۔کیسی ہو میری جان؟ مہوش کا خوشگوار قہقہہ نازش کی سماعت سے ٹکرایا۔میں الحمدللہ بالکل ٹھیک ہوں۔ اور سناؤ، کب سے اسکول آرہی ہو؟بس کل سے، مہوش نے فوراً جواب دیا۔ارے ہاں، میں بھول گئی تھی۔ دس دن کی چھٹیاں دی تھیں کنجوس میڈم نے، نازش نے منہ بناتے ہوئے کہا۔ اور سناؤ، روٹین سیٹ ہو گئی تمہاری؟تقریباً ہو ہی گئی۔ کل کھیر میں ہاتھ ڈلوایا تھا سسرال میں۔واہ بھئی، سکھر بی بی! شوہر کے دل تک معدے سے جانے کے طریقے۔ کہیں سسرال کے چکر میں اپنی دوست کو تو نہیں بھول گئی ہونا؟ارے ایسے کیسے ہو سکتا ہے نازش۔ بالکل بے فکر رہو، تمہارے لیے تو کھیر کا بھی حصہ رکھا ہے۔ کل لاؤں گی نا، مہوش نے اپنی دوست کا مان بڑھایا۔
☆☆☆

بڑی مشکل سے ساتواں نمبر ملا ہے کمیٹی کا، نازش نے چائے کا سپ لیتے ہوئے تیزی سے کہا۔ دس منٹ رہ گئے تھے بریک ختم ہونے میں۔یہ تو دور کا نمبر ہے یار، مہوش نے مایوسی سے کہا۔ میں نے اپنی ساری سلامی بھی ابھی تک جمع کر رکھی ہے۔تو اچھی بات ہے نا۔ رکھو اپنے پاس تاکہ کمیٹی میں ڈال کر اپنی مرضی کی گاڑی لے سکو۔ اچھا یار، میں چلتی ہوں، ایگزام سر پر ہیں اور میڈم کی عقابی نظریں ہم پر جمی ہوئی ہیں۔چلو، کینٹین سے نکلتے ہیں، مہوش نے بھی تیزی سے ہاتھ میں پکڑی کاپیاں سمیٹیں اور اپنی کلاس کی طرف قدم بڑھا دیے۔
☆☆☆

نازش، مہوش نے جھجکتے ہوئے اپنی دوست کو پکارا۔پھر کلاس لینی ہے تمہاری؟ نازش نے مسکراتے ہوئے سامنے بیٹھی مہوش کو دیکھا جو کافی دنوں سے تھکی تھکی محسوس ہو رہی تھی۔ہاں، لیکن … آج کیا مسئلہ ہے سسرال میں؟یار، وہ گھر میں بڑی نند کی دعوت ہے۔ ساس نے کہا تھا کہ پہلے کی طرح دو تین بجے مت آنا۔ کندھے اچکاتے ہوئے مہوش نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ یہ بات کہی۔تو انہیں معلوم نہیں کہ ٹیچرز تو اسی وقت فارغ ہوتے ہیں؟ہاں، سب معلوم ہے، لیکن چھوڑو نا، خیر ہے۔ کون سی روز روز دعوت ہوتی ہے۔ ویسے بھی صرف ایک دو سالن ہی بنانے ہیں۔تم اسکول سے جا کر دعوت کا انتظام کروگی؟ نازش نے حیرانی سے کہا۔ وہ جو تمہاری نند تھی گھر میں، وہ ہاتھ نہیں بٹاتی کیا؟یہ سن کر مہوش ایک دم خاموش ہوگئی۔ اب کیا بتاتی کہ اس کی ہم عمر نند، گھر کی سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے لاڈلی ہے، اور اس سے کسی کام کی توقع نہیں کی جاتی۔ بلکہ اس کا ناشتا اور کھانا بھی مہوش کی ذمہ داری ہے۔چلو، تم بے فکر ہو کر جاؤ۔ میں تمہاری کلاس دیکھ لوں گی۔ نازش نے گم صم بیٹھی مہوش کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دی۔
☆☆☆

تمہارے چہرے کی رونق دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے، مہوش! اور یہ حلقے کیوں بڑھ رہے ہیں؟ نازش نے تھکی ہوئی مہوش کو دیکھا جو گم صم بیٹھی ہوئی ہاتھ میں پکڑے کمیٹی کے پیسے گن رہی تھی۔کیا کہہ رہی تھی؟ سوری، میں ذرا… مہوش نے گہری سانس لیتے ہوئے کمیٹی کے پیسے الگ کیے اور باقی پیسوں کو احتیاط سے پرس میں رکھا۔کوئی مسئلہ ہے، مہوش؟نازش نے اپنی بات دہرائی اور دوست سے سوال پوچھا۔مسئلہ؟ نہیں، ایسا کوئی بڑا مسئلہ تو نہیں ہے۔ اور یہ حلقے… پتا نہیں کیوں ختم نہیں ہو رہے۔ مہوش نے نازش کے سوال کے جواب میں کچھ بے بسی سے اعتراف کر ہی لیا۔ ویسے ہاں، کچھ نیند کی کمی بھی تو ہے۔لیکن؟ لیکن کیوں؟ تم تو اسکول سے آف ہوتے ہی گھر چلی جاتی ہو، پھر کیا پہاڑ کھودتی ہو گھر جا کر؟ نازش نے ماحول کی سنجیدگی کو کم کرنے کے لیے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔گھر کا کام ہی ختم نہیں ہوتا، نازش۔ مہوش نے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں آپس میں مسلتے ہوئے کہا۔ آدھا دن ادھر ضائع ہو جاتا ہے، باقی دن گھر کے کام میں لگ جاتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آ رہا، کیسے مینج کروں۔جاب چھوڑ دو، یار۔ گھر بیٹھو، سکون ہے۔ہاں، میں بھی یہ سوچ رہی تھی۔ تم کو پتا ہے، اگر کوئی میری کمیٹی کا نمبر لے لے تو مجھے پیسوں کی ضرورت نہیں ہے۔ بس ایسے ہی شوقیہ جاب جاری رکھی تھی، لیکن اب لگتا ہے کہ میری زندگی متاثر ہو رہی ہے۔اوکے، اوکے، ٹینشن مت لو، مہوش۔ کوئی نہ کوئی تمہاری کمیٹی کا نمبر لے لے گا، اور جب تمہارا نمبر کھلے گا تو اپنے جمع کیے ہوئے پیسے لے لینا۔ہاں، یہ ٹھیک ہے۔ اف! یہ پھر آ گئی وہی وین۔ سامنے سے آتی وین کو دیکھ کر مہوش نے منہ بنایا۔ کم از کم اس دن اس منحوس آواز سے تو جان چھوٹے گی میری۔چلو، یار، نکلو۔ ہاں، چلو۔ نازش نے ایک گہری نظر مہوش پر ڈالی، جو ابھی بھی الجھی ہوئی لگ رہی تھی۔
☆☆☆

ارے مہوش کی نظریں جھلملا گئیں۔ سیامنے ہی نازش کیک کے ساتھ کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔ مجھے تو یاد ہی نہیں تھا میری آج سالگرہ ہے ۔لیکن مجھے یاد تھا۔ اور یہ بھی لو۔ اس دن تم دکان پر دیکھ رہی تھیں، مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ تمہیں پسند آئی ہے۔بہت شکریہ، میری دوست۔ مہوش نے آنسو پیتے ہوئے نازش سے شال لی۔ وہ نازش کو نہیں بتا سکتی تھی کہ اپنی مرضی سے خرچ کرنے کا اختیار اب اس کے پاس نہیں رہا۔ویسے کیا یہ آخری شال تھی؟ کوئی اور بچی نہیں تھی؟ہاں، مجھے معلوم ہے۔ نازش سے نظریں چراتے ہوئے مہوش نے جواب دیا اور ایک آہ بھر کے خاموش ہو گئی۔ اگر دو شالیں ہوتیں، تو وہ اسی دن خرید لیتی، ایک اپنی نند کے لیے اور ایک اپنے لیے۔ کیونکہ اب اس پر یہ پابندی تھی کہ جو چیز وہ اپنے لیے خریدنا چاہے، اسے پہلے یہ سوچنا پڑتا ہے کہ گھر میں کسی اور کے لیے زیادہ ضروری تو نہیں۔ موجودہ اکلوتی نند کے لیے لینا بھی فرض سمجھا جاتا ہے۔میں نے سوچا، اب تم جاب چھوڑ دوگی تو دے دیتی ہوں، ورنہ تم اتنی عزیز نہیں ہو مجھے کہ ایک شال کے ساتھ گفٹ بھی دوں، نازش نے مذاق کرتے ہوئے مصنوعی انداز میں مہوش کو گھورا۔ویسے یہ تو بتاؤ، تین ماہ ہو گئے تم مسلسل آرہی ہو، کب جاب چھوڑنے کا ارادہ ہے بھئی؟ نازش نے ایک کیک کا پیس پلیٹ میں رکھتے ہوئے سوال پوچھا۔وہ… دراصل… مہوش کی آواز ایک دم لرزنے لگی۔ دراصل آصف نے نند کی شادی کے لیے اپنے آفس سے لون لیا ہے۔تو؟ نازش نے بھنویں اچکاتے ہوئے ناسمجھی سے مہوش کو دیکھا۔چلو جی، وین بھی آ گئی۔ تم خوش نصیب ہو، اس منحوس سے پیچھا چھوٹنے والا ہے بالآخر۔ نازش نے ہنستے ہوئے کہا۔ نازش! میری مرضی سے زیادہ ضروری اب گھر کے اخراجات ہیں۔ آصف کی تنخواہ زیادہ تر قرضے اتارنے میں چلی جاتی ہے، اور میری سیلری سے باقی لوازمات پورے ہوتے ہیں۔ ویسے بھی، میری ساس کہتی ہیں کہ میاں بیوی ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ ہم دونوں مل کر ہی گھر چلائیں گے اور ذمہ داری اٹھائیں گے۔ آخر میری جاب کا کچھ تو فائدہ ہونا چاہیے۔ سارا دن باہر رہتی ہوں، اگر چار پیسے گھر میں دے دوں گی تو کیا ہرج ہو جائے گا؟” نظریں نیچے کیے ہوئے مہوش نے اپنی ساس کے جملے دہرائے۔اسی لیے نامعلوم وقت کے لیے میری نوکری بھی جاری ہے، اور فی الحال یہ وین میری قسمت میں ہی ہے۔یعنی؟ نازش نے پھٹی ہوئی آنکھوں سے اپنی دوست کو دیکھا، جو یاسیت میں مسکراتی ہوئی جوان ٹیچرز کو دیکھ رہی تھی۔ کیا بات ہے، مہوش؟ کیا ہوا؟ بتاؤ، کھل کے بتاؤ۔یعنی یہ… یہ کہ تمہاری دوست ہار گئی۔ اس کا جو دعویٰ تھا کہ وہ اپنے سسرال میں عزت سے اپنی مرضی سے رہے گی، وہ ناکام ہو گیا۔ آنسو پیتی ہوئی مہوش نے سچائی کا سامنا کیا۔ میں جاب کرنے والی، ایک تیز اور چالاک لڑکی ہوں جو گھر کے کام بھی کرتی ہوں اور نوکری بھی۔ تو کیا ہوا اگر اس تنخواہ سے اپنے شوہر کے کچھ مسائل حل کر دوں؟ میں عزت سے اپنے شوہر کے گھر رہتی ہوں، تو کیا ہوا اگر اس کے گھر والوں کا ذرا سا کام کر دوں؟ نندیں تو بہت تیز ہوتی ہیں، مجھے شکر ادا کرنا چاہیے کہ میرے جہیز کی چند چیزوں کے عوض وہ راضی ہو گئی ہیں۔ کیونکہ وہ گھر میں رہنے والی سیدھی سادی لڑکی ہے جسے زمانے کی ہوا نہیں لگی، اسی لیے وہ بالکل ٹھیک ہے اور میں سو فیصد غلط ہوں۔ اتنی سی بات ہے۔

Latest Posts

Related POSTS