میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ جہاں عورت کی عزت نازک ہوتی ہے ، وہاں مرد کا روپ بھی ناقابل اعتبار ہوتا ہے ۔ خصوصا جب باپ، بھائی ان پڑھ ، دیہاتی ہوں تو جھوٹی غیرت کے نام پر لڑکیوں کے جذبات اور آرمانوں کا سودا کر دیتے ہیں۔ شوہر ہے تو وہ مجازی خدا بن کر اس کی خودی سے ان کو محروم کر دیتا ہے ، تاہم سارا الزام مردوں کو دینا بھی ناانصافی ہے کیونکہ اکثر عورتیں فریب اپنی مرضی سے کھاتی ہیں۔ اگر وہ چاہئیں تو اپنی زندگی کی خوبصورت راہیں نہایت ہوشیاری سے متعین کر سکتی ہیں مگر تقدیر کے ہاتھوں میں اپنا سب کچھ سونپ کر وہ خود اپنی بربادی کو دعوت دے دیتی ہیں، جبکہ قدرت نے کچھ کام تدبیر کے زیر اثر رکھے ہیں ، وہ تدبیر سے ٹھیک کئے جا سکتے ہیں۔ تبھی تو کہا جاتا ہے کہ روتی ہوئی ہر عورت اور ہنستے ہوۓ ہر مرد پر اعتبار نہیں کرنا چاہئے۔
میری تباہی کی کہانی میں زیادہ دوش میرا ہے یا میرے والدین کا؟ یہ الزام اپنے والدین پر لگانا تو مجھے زیب نہیں دیتا کہ انہوں نے تو میرے سنہرے مستقبل کے خواب دیکھے تھے۔ میں نے ہی اپنے خوابوں کا سنہری جال خود پر اس طرح ڈالا کہ وہ مجھ سے دور ہو گئے۔ انہوں نے میر انام رحمت اس لئے رکھا تھا کہ بیٹی ان کے آنگن میں رحمت بن کر اتری ہے۔ بڑی منتوں مرادوں سے انہوں نے مجھ کو رب سے مانگا اور پالیا۔ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ بیٹی نہیں بلکہ اپنی عزت کی اجلی اور سفید چادر کے لئے سیاہ دھبہ مانگ رہے ہیں تو شاید وہ پیدا ہوتے ہی میری زندگی کا چراغ گل کر دیتے۔ دونوں بھائیوں اور میری عمر میں بہت فرق تھا۔ وہ کالج جاتے تھے ، جب میں پیدا ہوئی۔ اتنی مدت بعد ماں کی گود ہری ہونے پر خاندان بھر حیران تھا مگر اتنا خوش تھے کہ ان کے گھر آنگن میں اللہ کی رحمت کی بارش ہوئی تھی۔ بھائی بھی مجھ کو جان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ باپ کے مکان میں میری معصوم کلا کاریوں کے باعث بہار کا سماں رہتا تھا، اپنے تو اپنے گھر کے نوکر بھی خوش تھے۔ میری ہر جائز و ناجائز خواہش پوری کی جاتی تھی۔ دادی بیحد لاڈ پیار سے منع کرتیں ، کہتیں کہ کل کو اس نے پرائے گھر جاتا ہے۔ لڑکی ذات ہے اتنا نہ بگاڑو کہ کسی گھرانے سے مطابقت اس کے لئے مسئلہ ہو جاۓ۔ میں آٹھویں میں تھی جب بڑے بھائی کی شادی ہوئی۔ بھابھی بہت اچھی تھیں۔ سارا دن میں ان کے کمرے میں گھسی رہتی تھی۔ امی سمجھاتیں بھی ان کو آرام بھی کرنے دیا کرو مگر ان کی ایک نہ سنتی ۔ سال بعد دوسرے بھائی کے سر پر سہرا سج گیا۔ اپنی زندگیوں میں مصروف ہو جانے کے باوجود دونوں بھائی مجھ کو اب بھی اتنا ہی وقت دیتے جتنا پہلے دیا کرتے تھے بلکہ اب تو گھر میں میرے ناز اٹھانے والی بھابھیاں بھی آگئی تھیں۔ کتنی خوش قسمت تھی میں کہ میری دونوں بھابھیاں بھی مجھ کو اس طرح چاہتی تھیں جیسے میں ان کی سگی چھوٹی بہن تھی۔ دونوں ہی بہت اچھی تھیں۔ ہم مل بیٹھتے تو قہقہوں کی برسات ہو جاتی۔ اگر حسنہ آ جاتی تو محفل گل و گلزار ہو جاتی۔ حسنہ میری عزیز از جان سہیلی تھی۔ اس کا گھر ہمارے برابر میں تھا۔ تبھی زیادہ تر ہمارے گھر پائی جاتی- میں اپنی سہیلی سے بہت محبت کرتی تھی۔ اس سے بچھڑنے کا تصور نہ کر سکتی تھی۔ دراصل میں ایک جنونی قسم کی لڑکی تھی۔ جس کے ساتھ تعلق بن جاتا یہ وابستگی آخری حدوں کو چھو لیتی تھی۔ حسنہ کے والد ایک سرکاری آفیسر تھے اور ان کا تبادلہ ہوتارہتا تھا۔ حسنہ کے ساتھ میری دلی وابستگی اتنی بڑھی کہ یہ بھول ہی گئی کہ اس کے والد کا تبادلہ ہو گیا تو یہ لوگ کہیں بھی چلے جائیں گے اور میں اس کو خود سے بچھڑنے سے نہ روک پائوں گی۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ایک روز اس نے مجھے بتایا کہ اس کے ابو کا تبادلہ کراچی ہو گیا ہے اور پندرہ دن میں وہ یہ مکان چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ یہ اطلاع مجھ پر بجلی بن کر گری۔ ایک دن وہ ہمارے گھر نہ آتی یا میں اس سے نہ ملتی تو وہ دن پہاڑ بن کر مجھ پر گزرتا۔ میری کوئی بہن نہ تھی ، یہ کمی اسی لاجواب اور دھیمے مزاج والی لڑکی نے پوری کر دی تھی۔ اس نے جدائی کے تصور سے مجھے ہر وقت رونا آتا، آنکھوں سے خود بخود آنسو گرنے لگتے۔ اتفاق کہ ان دنوں ہمارے میٹرک کے امتحان ہونے والے تھے۔ اللہ نے میری سُن لی۔ امتحان کی خاطر حسنہ کے والدین نے اس کو ہمارے گھر چھوڑ دیا۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اگرچہ جانتی تھی کہ یہ خوشی عارضی ہے پھر بھی کچھ دن تو وہ میرے ساتھ تھی۔ ہمارے گھر قیام پذیر تھی ہم نے مل کر امتحان کی تیاری کی ، پرچے دیئے اور وقت پر لگا کر اڑ گیا۔ حسنہ کے والد اس کو لینے آگئے ، اس دن میں بہت روئی۔ آنکھیں رورو کر سرخ کر ڈالیں۔ وہ بھی روتی ہوئی ہمارے گھر سے گئی۔ چودہ پندرہ برس کی عمروں میں ہم لڑ کیاں کتنی جذباتی ہوتی ہیں۔ اف میں اس وقت کو بھول نہیں سکتی۔ حسنہ چلی گئی ، میں اداس رہنے لگی ، ہنسنا بولنا چھوڑ دیا۔ امی کو ڈر تھا کہیں بیمار نہ پڑ جائوں ۔ بھائی میرا دھیان بٹانے کو گھمانے پھرانے لے جاتے مگر میرے ذہن میں ہر وقت حسنہ کی یاد کسی زخمی پرندے کی مانند چکر لگاتی رہتی تھی۔ بالآخر میں ہمہ دم سوچتے رہنے سے بیمار پڑ گئی۔ والدین پر یشان رہنے لگے۔ امی نے کہا کہ اس کو حسنہ سے ملانے کراچی لے جاتے ہیں تا کہ یہ ٹھیک ہو جائے۔ میں یہ سن کر خوش ہو گئی۔ والدین سے اصرار کیا کہ کراچی چلیں مجبور والدین مجھے کراچی لائے۔ حسنہ سے ملتے ہی میری بیماری اور پیش مردگی کافور ہو گئی۔ وہاں ہم کچھ دن رہے لیکن تادیر تو نہ رہ سکتے تھے، گھر واپس آنا ہی تھا۔ گھر آکر میں نے رٹ لگادی کہ کراچی اچھا شہر ہے ، ہم وہاں شفٹ ہو جائیں۔ والد نے سمجھایا کہ جس کی خاطر شفٹ ہونے کا کہہ رہی ہو ، اس کے والد کا پھر کہیں اور تبادلہ ہو گیا تو کیا ہم ان کے پیچھے مارے مارے پھریں گے ۔ میں نہ مانی اور ضد پکڑ لی۔ یہ والد صاحب کی محبت کی انتہا تھی کہ انہوں نے کاروبار، بھائیوں کے سپرد کیا اور میری خاطر شہر بدل لیا۔ ہم کراچی آگئے اور میں نے حسنہ کے ساتھ کالج میں داخلہ لے لیا۔ مجھ کو والد نے حسنہ کے گھر وقتی طور پر چھوڑا کیو نکہ والدہ کے ساتھ سامان بھی لاہور سے لانا تھا۔ کچھ دنوں بعد ابو نے کراچی میں گھر لے لیا اور میرے ساتھ رہنے لگے۔ میں بہت خوش تھی ، مراد جو پوری ہو گئی تھی۔ ابھی مجھے کالج جاتے تھوڑے ہی دن ہوئے تھے۔ میں نے کالج کے رستے میں ایک نوجوان کو کھڑے دیکھا۔ اس کی خوبصورتی نے مجھے متوجہ کیا تو وہ بھی میری جانب متوجہ ہو گیا۔ اب میں خود کو سمجھاتی کہ اس کی جانب دھیان نہ دوں لیکن وہ تو روز ہی کھٹرا ملتا۔ میں اس کی جانب دیکھے بنا نہ رہتی ، خود سے خوف بھی آتا تھا کہ جنونی طبیعت پائی تھی۔ کسی سے بھی تعلق بنانے سے گھبراتی تھی کہ یہ تعلق خود میرے لئے باعث عذاب بن جاتا تھا۔ ایک سہیلی کی محبت نے میرے والدین سے ان کا شہر چھٹروا دیا تھا تو یہ دوسرا تعلق نجانے کون سا دن دکھانے والا تھا۔ ایک دن میں کالج سے واپس آرہی تھی کہ اس نوجوان نے میرا رستہ روک لیا اور ایک موبائل فون میرے ہاتھوں میں تھما کر چلتا بنا۔ لوگ دیکھ رہے تھے اس لئے اس کو آواز بھی نہ دے سکی۔اب اس موبائل نے کام دکھایا۔ اس کے وائس میسجز جو اس نے مجھ کو مخاطب کر کے بھرے تھے اور التجا کی تھی کہ میں اس کے میسجز کا جواب اپنی آواز میں دوں اور موبائل اگلے دن اس کو لوٹا دوں۔ یہ میرے لئے ایک بڑا امتحان تھا۔ بہر حال میں نے وائس میسجز تور یکارڈ نہ کیے البتہ موبائل لوٹانے کی نیت سے اگلے دن اس جگہ کھڑی ہو گئی جہاں وہ کھٹرا رہتا تھا۔ وہ کہنے لگا۔ سامنے پارک میں آ جائو۔ یہاں لوگ بہت ہیں۔ وہاں میں تم سے اپنا موبائل فون لے لوں گا۔ میں بےخوف پارک چلی گئی۔ وہ ایک منٹ کو میرے پاس آیا۔ کہنے لگا سامنے میر ادوست آرہا ہے ، کل لے لوں گا ، فون اپنے پاس رکھو۔ یہ کہہ کر بغیر فون لئے وہ چلتا بنا اور میں حیران پر ایشان کھٹڑی کی کھڑی رہ گئی۔ یہ اس کی چال تھی۔ وہ اس بہانے مجھے دوبارہ پارک میں بلانا چاہتاتھا۔ گھر آتے ہی اس کا فون کھولا۔ تمام وائس میسجز سننے لگی۔ یہ تقریبا بارہ صوتی پیغامات اس نے میرے نام ریکارڈ کئے تھے- پہلے دن تو دو ہی کھولے تھے جن میں کچھ اس طرح کی باتیں تھیں۔ آپ کی نظروں نے مجھے ہمت دی کہ آپ کو مخاطب کروں۔ آپ کی نگاہیں مجھ سے پسندیدگی کا اظہار کرتی ہیں۔ امید ہے آپ مجھ کو مایوس نہ کر یں گی کہ میں نے آپ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے کوئی ذریعہ سمجھ میں نہ آیا تو اپنے ہی موبائل فون کو قاصد بنا کر آپ کے ہاتھ میں پکڑادیا۔ میرا نمبر اس میں فیڈ ہے ۔ رابطہ رکھنا چاہیں تو اپنے پاس محفوظ کر لینا۔ ابھی میں اس کے یہ پیغامات ایک ایک کر کے پڑھ رہی تھی کہ امی کوئی شے لینے میرے کمرے میں آ گئیں۔ اس کا موبائل فون میرے ہاتھ میں تھا لیکن والدہ نے دھیان ہی نہ دیا، وہ اپنی مطلوبہ چیز اٹھا کر چلی گئیں۔ امی میرے کاموں میں بہت کم دخل دیتی تھیں۔ کاش وہ اس دن غور کر لیتیں کہ میں کس کا موبائل پکڑے ہوں۔ انہوں نے تو مجھ کو نہ ٹوکنے کی قسم کھائی ہوئی تھی۔ والدین مجھ کو بڑا اہم سمجھتے تھے۔ میری ہر بات ان کے لئے حکم کا درجہ رکھتی تھی۔ اس بات نے میرا دماغ خراب کر دیا تھا۔ خود کو جانے کیا سمجھنے لگی۔ میں یہ سمجھنے لگی کہ میرا ہر فیصلہ ٹھیک ہوتا ہے۔ اس میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اب اگلے دن کا مجھے کو بےچینی سے انتظار تھا۔ اس کا موبائل میرے دل کا بوجھ بن گیا تھا۔ چاہتی تھی کہ کل ہی لوٹا دوں ،اور اس کو چند باتیں بھی سنادوں۔ اگلے روز اس کو دیکھ کر جانے کیا دل کو ہوا کہ کھری کھری تو نہ سنا سکی البتہ یہ ضرور کہا کہ اس طرح کسی لڑکی کے ہاتھ میں سر راہ اپنامو بائل پکڑا دینا کہاں کی عقلمندی ہے۔ اگر اس پر میں تمہارے خلاف کوئی کارروائی کرنا چاہوں تو پورا ثبوت میرے پاس موجود ہے۔ مجھے یقین ہے کہ تم میرے خلاف کوئی کارروائی نہ کرو گی ۔ اگر تم ایک اچھی لڑکی ہو تو میں بھی کوئی گرا پڑا نہیں ہوں۔ مجھ کو تمہاری آنکھوں نے کچھ کہا تو میں نے یہ جرأت کر لی۔ تمہیں یہ سب پسند نہیں تو معافی چاہتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی تم کو یہاں تو کیا اس دنیا میں ہی نظر نہیں آئوں گا۔ خیر ، معاف کیا۔ میں نے بے نیازی سے کہا اور موبائل اس کو دے دیا۔ تاہم اپنی طرف سے کوئی وائس میسج ریکارڈ کر کے نہ دیا۔ میں کوئی ثبوت ایسا اس کے ہاتھ میں نہ دینا چاہتی تھی کہ جس کی وجہ سے بعد میں پچھتانا پڑے۔ اس کی ایسی جسارت پر مجھے اس پر غصہ نہ آیا تھا کیونکہ اس کے لئے دل میں نرم گوشہ پہلے سے موجود تھا۔ اسی نرم گوشے نےیہ راہ دکھائی کہ میں بعد میں اس کے ساتھ پارک میں جا کر بیٹھنے لگی۔ اس کی باتیں مجھ کو اچھی لگتیں جن میں محبت کی مہک رچی بسی ہوتی۔ اپنی تعریف سن کر میں پھولے نہ سماتی اب روز پریکٹیکل کا کہہ کر کالج سے پارک چلی جاتی۔ مجھ کو دیکھ کر زبیر کی آنکھوں میں خوشیوں کے دیپ جل اٹھتے ، پھر یہ حال ہوا جس روز ہماری ملاقات نہ ہوتی کمی سی محسوس ہوتی۔ وہ اب میری زندگی میں اہمیت اختیار کر گیا تھا۔ ایک روز کالج میں مجھے پتا چلا کہ اس کی اور بھی لڑکیوں سے دوستیاں ہیں۔ میری ایک کلاس فیلو نے مجھ کو اس کے ساتھ راستے میں باتیں کرتے دیکھ لیا۔ دوسرے روز اس نے مجھ سے پوچھا کہ زبیر تمہارا کیا لگتا ہے ؟ اس پر میں نے بھی یہی سوال اس سے کر دیا کہ وہ تمہارا کیا لگتا ہے ؟ وہ میرا چچازاد ہے لیکن اچھا لڑکا نہیں ہے۔ نشہ کرتا ہے اور دوسری برائیوں میں بھی ملوث ہے ، تبھی میرے والد صاحب نے میری باجی کے رشتے سے سختی سے انکار کر دیا ہے۔ رابعہ نے مجھ کو چند لڑکیوں کے نام اور فون نمبر دیے کہ تم خودان سے بات کر کے تصدیق کر لو، یہ ان کو بھی بے وقوف بنا
رہا ہے۔ اس کی بات میرے دل کو لگی۔ میں نے ان لڑکیوں کا کھوج نکالا ، ان سے مل کر تصدیق کی۔ وہ سب صحیح تھا جو رابعہ نے بتایا تھا۔ مجھ کو بے حد دکھ ہوا۔ زبیر نے میرے ساتھ دھوکا کیا تھا اور جھوٹ بولا تھا کہ مجھ سے پہلے اس کی کسی لڑکی سے دوستی نہ تھی۔ اب جو میں اس سے پارک میں ملی تو ان لڑکیوں کے نام اس کو بتا دیے اور دوٹوک بات کی کہ تم نے ان لڑکیوں کو برباد کیا ہے ۔ بولو یہ بات سچ ہے یا نہیں ؟ وہ گھبرا گیا۔ کہنے لگا۔ تم سے کس نے کہا ہے ؟ جس نے بھی کہا ہے کہا تو صحیح ہے نا۔ جب اس کو یقین ہو گیا کہ میں اس کی اصلیت جان چکی ہوں تو وہ کمینگی پر اتر آیا۔ کہنے لگا۔ میں تم کو بھی ایسے ہی رسوا کر سکتا ہوں جیسے میں نے ان کو کیا ہے ورنہ مجھ سے یونہی ملتی رہو۔ ہر گز نہیں، میرے دل میں اب تمہارے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر تم نے مجبور کیا تو میں اپنے والد اور بھائیوں سے شکایت کر دوں گی۔ وہ تمہارا بندوبست خود کر لیں گے۔ مجھے دھمکاتی ہو ؟ جانتی ہو اس کا انجام ؟ کیا ہے اس کا انجام ؟ وہ غصے سے بھڑک اٹھا۔ اس نے کہا۔ میرے دوست نے تمہاری میرے ساتھ اپنے موبائل فون میں تصویریں بنائی ہوئی ہیں۔ جب ہم پارک میں محو گفتگو ہوتے تھے تم تو محبت کے جذبے سے مدہوش مجھ میں کھوئی ہوتی تھیں۔ تم کو معلوم بھی نہ ہو سکا کہ کوئی ہماری مووی اور تصاویر بناتا تھا۔ یہ سن کر مجھے شدید جھٹکا لگا۔ تو کیا کوئی محبت کا نقاب اوڑھ کر اتنا بھی گر سکتا ہے ؟ اچھا میں معذرت کرتی ہوں جو میں نے تم کو غصے میں کہہ دیا ہے لیکن تم وہ تصویریں اور موویز اپنے دوست کے موبائل سے ڈیلیٹ کر دو۔ وہ تو میں کر دوں گا۔ اس کا فون میرے ہی گھر پڑا ہے۔ مجھے کیسے یقین آۓ کہ تم واقعی ڈیلیٹ کر دو گے۔ یقین نہ آئے تو ابھی میرے ساتھ چلو اور اپنے ہاتھ سے خود وہ ساری تصویریں وغیر ہ مٹا ڈالو۔ میں اس کی باتوں میں آگئی اور اس کے ساتھ چلی گئی۔ مجھ کو خود پر ضرورت سے زیادہ اعتماد تھا۔ وہ گھر ہمارے گھر سے زیادہ دور بھی نہیں تھا جہاں زبیر مجھے لے گیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ وہاں افراد خانہ ہوں گے لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ اس خالی مکان میں اس نے میرے برا بھلا کہنے کا بدلہ لے لیا اور حد سے بڑھی میری خود اعتمادی نے میرے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ اتنی بڑی قیمت لے کر اس نے وہ موبائل دیا، جس میں میری اور اس کی پارک والی تصویریں اور موویز تھیں۔ میں نے ان سب چیزوں کو خود ڈیلیٹ کیا تو میری جان میں جان آئی۔ کہ اب میں رسوائی کے خطرے سے باہر ہو گئی ہوں لیکن یہ تو میری خام خیالی تھی۔ ایسے تیز طرار ، غلط قسم کے آوارہ لڑ کے بھلا اتنی آسانی سے پیچھا کہاں چھوڑتے ہیں۔ اس نے میری تصویریں ایک اور موبائل میں محفوظ کر رکھی تھیں جو اس نے فیس بک میں ڈال کر مجھ کو سارے زمانے میں رسوا کر دیا۔ یہ تو میں سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ وہ اتنا سفاک دل ہو گا۔ اس نے محبت کے اتنے قول واقرار کر کے بھی حیا نہ کی۔ مجھ سے بڑی بھول ہوئی کہ اس کی خوبصورتی کے جال میں پھنس کر اس پر اعتبار کیا۔ دراصل ماں باپ نے اتنا مجھ کو پیار اور اعتماد دیا تھا کہ میراخیال تھا کہ میں چاند پر بھی اڑ کر چلی جائوں تو جاسکتی ہوں۔ کوئی بھی اجنبی اور تنہا جگہ ، مجھ کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ فیس بک پر میری تصویریں چلنے سے میں ہی بدنام نہ ہوئی میرے گھر والے بھی کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ میری زندگی برباد ہوگئی بلکہ زندگی ہی بدل گئی۔ میرے والد رسوا، بھائی بھی بدنام ،ان کے لاڈ پیار کو میں نے اپنی نادانی سے رسوائی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔ ابو بالکل خاموش ہو گئے۔انہوں نے مجھ سے بات کرنا ترک کر دیا۔ پہلے میں کیا تھی اور آج کیا ہوں ؟ کبھی کبھی انسان کی ذرا سی لغزش اس کو عزت بھری زندگی سے باہر نکال پھینکتی ہے کہ وہ منہ کے بل جا گرتا ہے اور پھر تمام عمر اٹھنے کے قابل نہیں رہتا۔ زبیر نے تو مجھے برباد کر کے گھر بسا لیا ہے ، لیکن میں اپنے گھر میں بھی اجنبی ہوں۔ میرا تجربہ بھی یہی کہتا ہے کہ ریا کار مرد کا واقعی کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ وہ ایک ایسے سانپ کی طرح ہوتا ہے جو موقع پاتے ہی ڈس لیتا ہے۔ کچھ تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی ہوس کی خاطر کتنی ہی معصوم اور بے گناہ لڑکیوں کی زندگیاں اجاڑتے چلے جاتے ہیں۔ شاید وہ اپنی ہوس کی شدت میں یوم حشر کو بھی بھول جاتے ہیں۔ خوبصورتی اس پر سونے پر سہاگے کا کام کرتی ہے یہ ایک ایسا پردہ ہے جو انسان کے اندر کی صورت کو بالکل چھپا دیتا ہے تب عورت ہو کہ مرد ، اس کی پہچان مشکل ہو جاتی ہے کہ وہ دھوکا دینے والا ہے یا کہ دھوکا کھانے والا- میں بھی ایک ایسے ہی حسین چہرے کے فریب میں الجھ گئی تھی، تبھی دھوکا کھا گئی۔ پھر جب اس کی شخصیت سے پردہ اٹھا، بہت دیر ہو چکی تھی۔ خود فریبی کی دھند میں ، میں واپسی کے سارے راستے گنوا چکی تھی۔ قدرت نے مجھے کو ایسی سزادی کہ ویران ہو گئی- سچ کہتے ہیں ، لڑکیاں کانچ کے کھلونوں کی مانند ہوتی ہیں۔ ان کے لئے زندگی اک ٹیٹرھا میٹرھا راستہ ، جس کے ارد گرد لا تعداد کانٹے بکھرے رہتے ہیں۔ ذرا دیر کو پیر رستے سے اتر جائیں تو تمام زیست زخمی ہی رہتے ہیں۔ جب تک سر پر باپ یا بھائیوں کا ہاتھ نہ ہو ،اس کی اپنی بہادری و سمجھداری ایک بے معنی شے ہے۔ ہمارے یہاں بلاشبہ والد اور بھائیوں کی طرف سے ان کو بڑی توجہ اور تحفظ حاصل ہوتا ہے مگر حیرت کا مقام تو یہ ہے کہ کبھی والد اور بھائیوں کی طرف سے بھی ان نازک آبگینوں کو ٹھیس پہنچ جاتی ہے اور یہ ٹوٹ کربکھر جاتے ہیں۔ جیسا زخم میں نے زندگی سے کھایا کاش کوئی دشمن بھی نہ کھاۓ – یہ وقتی دوستیاں صرف ایک زندگی نہیں بلکہ خاندانوں کی عزتیں پامال کرنے کے لیے کافی ہوتی ہیں -اب سوچتی ہوں کہ اگر روک ٹوک ہوتی اور ہر بات پر اعتبار نہ کر لیا جاتا تو میں اتنی بڑی آزمائش سے بچ نکلتی –