چٹھی نہ کوئی سندیس… جانے وہ کون سا دیں، جہاں تم چلے گئے۔ مائرہ، حمزہ کا اسٹیٹس چیک کیا ہے تم نے؟ چند ایک مہمانوں کے درمیان بیٹھی نگین نے موبائل پر نظریں جماتے ہوئے مائرہ سے پوچھا۔ میں گھر کی بڑی بہو اپنی چھوٹی اور کنواری نند سے اس اسٹیٹس کے بارے میں پوچھ رہی تھی جو اس کے شوہر، یعنی گھر کے بڑے بیٹے نے اپنے باپ کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے غم میں واٹس ایپ پر لگایا ہوا تھا۔نہیں، بھابی۔ آپ دکھا دیں۔ اپنے موبائل پر دیکھو۔ کیا زبردست اسٹیٹس لگایا ہے! نگین اس بری طرح سے موبائل میں مگن تھی کہ لمحے بھر کے لیے بھی موبائل اپنی نند کو نہ دکھا سکی۔ نگین، مجھے دکھاؤ۔ کیا اسٹیٹس لگایا ہے حمزہ نے؟ سامنے والے صوفے پر بیٹھی ہوئی رابعہ خالہ بھی اس طرف متوجہ ہو کر بولیں۔ نہیں، آپ بھی مائرہ کے موبائل پر ہی دیکھیے۔ مائرہ، دکھاؤ نا حمزہ کا اسٹیٹس! یہ لیں۔ اسٹیٹس دیکھ لینے کے بعد کافی جوش سے مائرہ نے موبائل رابعہ خالہ کے سامنےکیا ۔ چٹھی نہ کوئی سندیس… جانے وہ کون سا دیں، جہاں تم چلے گئے۔ مائرہ نے رابعہ خالہ کے ساتھ صوفے پر بیٹھتے ہوئے اسٹیٹس پڑھا، جو اس کے بھائی حمزہ نے اس کے باپ کے دنیا سے چلے جانے کے دوسرے روز لگایا تھا۔ یہ بات شاید نگین بھابھی نے سب کے سامنے اس لیے لائی تھی کہ دیکھو، ان کے شوہر کو باپ کے دنیا چھوڑ کر چلے جانے کا کتنا دکھ ہے۔ وہاں لاؤنج میں بیٹھے ہوئے خالہ، ماموں، ممانی، اور کزنز نے ایک ایک کر کے اسٹیٹس دیکھا اور بظاہر تعریف کرتے ہوئے دکھ کا اظہار کیا۔ اور یہ مون کا اسٹیٹس تو دیکھیں ذرا، یہ اس نے کل رات لگایا تھا۔ اب کے مائرہ نے اپنا تلاش کردہ خزانہ دکھایا۔ مون گھر کا چھوٹا اور کنوارہ بیٹا تھا۔ کنواری بہن بھائیوں میں محبت ویسے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ مائرہ نے مون کا اسٹیٹس دکھاتے ہوئے یہ ظاہر کرنا چاہا تھا کہ بے شک اسٹیٹس حمزہ بھائی کا اچھا تھا، لیکن باپ کی موت کے حوالے سے پہلا اسٹیٹس مون نے ہی لگایا تھا۔ نند بھا بھی کا مکالمہ سن کر وہاں کچھ لوگ آبدیدہ ہو گئے، جبکہ کچھ کے چہروں سے صاف عیاں تھا کہ وہ ایک دکھ کا اپنے اپنے انداز میں اظہار کر رہے ہیں۔ شاید یہ مکالمہ کچھ دیر اور چلتا، اگر اندر بیٹھی اماں کا سپارے پڑھنے کا حکم نہ آ جاتا۔ چونکہ وہ عدت کے باعث اندر اپنے کمرے میں ہی تھیں اور کچھ قریبی عورتوں کے ساتھ سپارے پڑھ رہی تھیں، اس لیے کام والی ماسی کے ذریعے سپارے پڑھنے کا پیغام بھجوایا گیا تھا۔ باہر لاؤنج میں ہی سپارے پڑھ کر چھوٹا سا ختم دلوا دیا گیا۔ مائرہ نے کچھ تصویریں بنائیں اور اسٹیٹس پر اس ٹیگ لائن کے ساتھ لگا دیں: ابوجی کے قل شریف کا ختم۔
☆☆☆
رات تک تقریباً سب ہی مہمان اپنے گھروں کو چلے گئے تھے۔ گھر پر ذکیہ بیگم کی بہنیں ہی انھیں ڈھارس دینے کے لیے رک گئی تھیں ۔ ٹی وی لاؤنج کے عین سامنے ذکیہ بیگم اپنے کمرے میں اپنی بہنوں کے ہمراہ موجود تھیں۔ چونکہ ذکیہ بیگم کی زندگی میں بری طرح تلاطم برپا ہوا تھا جہاں وہ مہارانی بن کر رہ رہی تھیں۔ اس لیے انہیں ڈھارس کے ساتھ ساتھ جذباتی سہاروں کی بھی ضرورت تھی۔ گھر میں کسی چیز کی کمی تو نہیں تھی۔ ہر خواہش ان کے شوہر نے پوری کر رکھی تھی۔ اب وہ کیسے نہ نڈھال ہوتیں ۔ مائرہ تم نے اپنی میڈیسن لے لی ہے۔ کنزہ نے مائرہ سے پوچھا۔ باپ کی موت کی خبر سنتے ہی مائرہ حواس باختہ ہو گئی تھی۔ بے ہوشی کے دورے کے ساتھ ساتھ اس کا نروس بریک ڈاؤن ہوتے بھی بال بال بچا تھا۔ گاڑی میں بٹھا کر اسے جلدی سے ہسپتال لے جایا گیا تھا۔ جہاں ڈاکٹرز نے اسے ہوش دلوانے کے بعد کچھ دوائیں باقاعدگی سے لینے اور آرام کرنے کا کہا تھا۔ اس کی کزن کنز ا اس دوا سے متعلق پوچھ رہی تھی۔ ہاں میں ابھی لیتی ہوں ۔ ایک دم سے ہی مائرہ بہت بیمار اور کمزور نظر آنے لگی۔ تم نے تو کھانا بھی نہیں کھایا تو خالی پیٹ دوائی کیسے کھاؤ گی – رکو میں ابھی کھانا لاتی ہوں ۔ کنزہ کچن کی طرف بڑھنے ہی لگی تھی کہ مائرہ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔ رک جاؤ ابھی تھوڑی دیر میں کھا لیتی ہوں ۔ باپ کی موت کے غم سے نکل کر ایک دم سے کھانا کھانا اسے کچھ عجیب لگ رہا تھا۔ مائرہ کھانا کھا لو، اس نے بھی تمہارے پیچھے کچھ نہیں کھایا ۔ نگین بھابھی نے کنزہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ کیوں کنزہ؟ اچھا چلو پھر لے آؤ۔ کنزہ اوون میں کھانا گرم کر کے اور ساتھ پانی کا جگ پکڑ کر واپس مائر ہ کے پاس آگئی۔ یار ہمیں تو یقین ہی نہیں آرہا کہ ابواب ہمارے پاس نہیں رہے۔ تو ایسے ہی لگ رہا ہے کہ جیسے وہ سو رہے ہیں ۔ اس نے دیوار کو تکتے ہوئے کھوئے کھوئے سے انداز میں کہا۔ ہاں ٹھیک کہہ رہی ہو۔ مجھے بھی یقین نہیں آرہا کہ خالو جی اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔ لیکن مجھے اس بات کا سکون ہے کہ ہم نے ان کی بہت خدمت کی ۔ دنیا کی ہر چیز ان کے آگے لا کر رکھی۔ یہاں تک کے انہیں جس ہوٹل کا کھانا پسند تھا انہیں مرنے سے پہلے وہ بھی کھلایا ۔ ہم م …اس بے سروپا بات پر کنزہ بس یہ ہی کہ سکی۔ اتنے مہنگے ہسپتال سے ان کا علاج کروایا تھا۔ ڈاکٹرز نے ان کی اتنی کیئر کی۔ اتنا بہت سا پیسہ خرچ ہوا سو وہ الگ۔ پھر بھی پتا نہیں کیسے یہ سب کچھ ہمارے ساتھ ہو گیا ۔ مائرہ نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔ اسے تسلی دینے کی غرض سے کنزہ نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا۔ میں ان کی دوائیاں ٹائم پر دیتی تھی ۔ دوائیاں اتنی اچھی تھیں کہ وہ بالکل ٹھیک ہو گئے تھے ۔ بھائی نے امریکا سے منگوائی تھیں۔ اپنے ایک دوست کو کہہ کر ارجنٹ پارسل منگوایا تھا۔ اس پر الگ خرچا ہوا تھا ۔ اچھا؟ کنزہ حیرت سے سب سن رہی تھی۔ ہاں یار! ڈاکٹر بھی اسلام آباد سے آئے ۔ آرمی کے ڈاکٹر ۔ ایسے ہی تو نہیں انہوں نے دس لاکھ روپے لے لیے تھے۔ بہت اچھا ٹرٹیمنٹ کیا تھا ڈاکٹرز نے ابو کا ۔ اس نے اس انداز سے کہا کہ کنزہ بت سی بن گئی۔ موبائل پر اسٹیٹس پر اسٹیٹس لگاتے لگاتے مائرہ جس انداز سے اپنا اسٹیٹس ظاہر کر دی تھی اس نے کنزہ کو ہونق سابنا دیا تھا۔ صبح سے اتنی مس کالز اور مسجز آ رہے ہیں اور میں نے کسی ایک کا بھی رپلائی نہیں کیا ۔ وہ پھر سے موبائل میں گم ہونے لگی۔ تو اب کر لو۔ ہاں دیکھتی ہوں۔ یو کے سے پھوپھو اور کزنز کی کالز آئی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ میری فرینڈز اور آسٹریلیا سے سفیان کا – کالز لسٹ چیک کرتے کرتے وہ منگیتر کے نام پر مسکرا اٹھی۔ پھر ایک دم سے بات اور چہرے کے تاثرات بدل کر بولی ۔ یہ دیکھو میں نے اسٹیٹس لگایا ہوا ہے اور سب اسے دیکھ رہے ہیں ۔ اس نے موبائل آ گے کر کے دکھاتے ہوئے کہا۔ امی کی فرینڈ جو دبئی میں ہوتی ہیں انہیں تو کل صبح ہی پتا لگا تھا ابو کی وفات کا ۔ جب انہوں نے میرا اسٹیٹس دیکھا تھا۔ تو انہیں کال کر کے کسی نے بتایا نہیں تھا ؟ وہ اس کی طرف دیکھ کر پوچھنے لگی۔ یار میں نے غلطی کی جس دن صبح ابو فوت ہوئے ہیں میں نے اس دن رات کو اسٹیٹس لگایا ۔ جلدی لگا لیتی تو سب کو پتا چل جاتا ۔ اللہ فورا اس کے دل سے آواز نکلی۔ دیکھو کتنے میسجز آئے ہوئے ہیں۔ اب ایک ایک کو جواب دینے میں ہی صبح ہو جانی ہے۔ ہاں تو رسپانس دو انہیں ۔ کنزہ سے آگے بات نہیں بن پائی۔ نہیں۔ اچھا نہیں لگتا۔ ابھی میں آف لائن ہو جاتی ہوں ۔ کل سب سے بات کروں گی۔ سب کو جواب دیتے دیتے بناوٹ سے بولی۔ کنزہ خالی الدہنی سے اسے دیکھنے لگی۔تم کیوں موبائل یوز نہیں کرتیں کنزہ۔ سارا دن گھر پر بور نہیں ہو جاتیں کیا ؟ نہیں۔ مجھے موبائل کی ضرورت ہی نہیں ہے اور ویسے بھی میں گھر میں کتابیں پڑھتی رہتی ہوں ۔ مائرہ کی باتیں اسے اُلجھن میں مبتلا کر رہی تھیں۔ وہ سونے کے لیے لیٹ گئی۔ اچانک سے وہ یہاں خود کو اجنبی محسوس کرنے لگی تھی۔ اسے نیند بالکل نہیں آرہی تھی۔ اس کے ذہن میں طرح طرح کے خیالات کے سیلاب امڈ امڈ کر آرہے تھے۔ وہ ان باتوں کی وسعت اور گہرائی کا اندازہ لگا رہی تھی۔ غالباً اس نے پہلی باران چیزوں کو ان کے بڑے پیش منظر میں رکھ کر سوچا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے تو وہ کل والی مائرہ تھی جو نیم بے ہوشی کی حالت میں تھی اور اسٹریس کی وجہ سے اس کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں ادا ہو پا رہا تھا۔ آنسوؤں سے تر بتر ہاتھ کی انگلی سے اشارے سے باتیں کرتی مائرہ کو دیکھ کر وہ تو سمجھ رہی تھی کہ تین چار دن سے پہلے اسے ہوش آئے گا بھی۔ لیکن نہیں۔ گہری خوشی ہو یا گہر ا غم ، دوسروں کو ڈیل کرنے کے لیے لوگ اپنے حواس ہمیشہ قائم رکھتے ہیں۔ اور اوپر سے جو ظاہر کر رہے ہوتے ہیں تو کیا دہ ادا کاری ہوتی ہے یا منافقت …؟
☆☆☆
صبح سویرے مائرہ نے اسے جھنجوڑا، رات دیر سے ہونے کی وجہ سے وہ گہری نیند میں تھی۔ اٹھ جاؤ! بستر اُٹھانے ہیں، سب لوگ آنا شروع ہو گئے ہیں ۔ اس نے اُٹھ کر دیکھا کام کرنے والی اس کے اُٹھنے کی منتظر تھی۔ جبکہ باقی ہر جگہ سے صفائی کر لی گئی تھی۔ وہ وہیں بیٹھ کر صوفے پرڈھے گئی۔ اسے پھر سے رات والی باتوں نے گھیر لیا تھا۔ وہ بے چین تھی۔ اور ایک طرح سے شکر کر رہی تھی کہ صبح ہوئی ۔ اب وہ گھر جا سکتی تھی۔ منہ ہاتھ دھو کر وہ باہر کی تو سب مہمان اور گھر والے مل کر نا متام کر رہے تھے ۔ مما ! میں نے نگٹس کھانے ہیں ۔ بڑی بہن کے بیٹے ہادی نے سامنے رکھا ناشتا پیچھے سرکاتے ہوئے کہا۔ مائرہ جھٹ سے بول اٹھی ۔ دیتی ہوں ! سب کچھ پڑا ہے۔ ابو سب کچھ چھوڑ کر گئے ہیں۔ کہو تو ڈونٹس بنا دوں ؟ مائرہ کھانا چھوڑ کر فریج کی طرف لپکی. جبکہ کنزہ کے ہاتھ کا نوالہ اندر نہ جا۔ جاسکا۔ سب کچھ نگٹس ڈونٹس یہی الفاظ اس نے ذہن میں گردش کر رہے تھے۔ کیا سوچ رہی ہو کھانا کھاؤ شازیہ آپا نے اسے ٹہو کا دیا۔ جی ! وہ بس یہ ہی کہہ پائی۔ جب مائرہ واپس آئی تو اس سے یہ بھی نہیں کہا گیا کہ کھانا کھالو یا دوائی لے لو۔ وہ وہاں ایک ایک منٹ گن گن کر گزار رہی تھی۔ اس کے بعد مائرہ نے اس سے جتنی بھی باتیں کیں وہ بس حیرانی سے ہوں ہاں کرتی رہی۔ دوپہر کے کھانے کے بعد اس نے اندر کمرے میں اپنی خالہ کے موبائل سے اپنے بھائی علی کو فون کر کے وہاں آنے کا کہہ دیا، اور موبائل چپکے سے ایک سائڈ پر رکھ دیا۔ اب وہ سکون سے بیٹھ کر اپنے بھائی کا انتظار کرنے لگی۔ یہاں رہ کر اسے بہت بوجھل پن محسوس ہو رہا تھا۔ بار بار گھڑی پر ٹائم دیکھتے وہ بے چین ہو رہی تھی لیکن علی تھا کہ آ ہی نہیں رہا تھا۔ عصر کے بعد جب مغرب کا وقت بھی ہو گیا تو وہ اوپر بھابھی کے کمرے میں چلی گئی۔ چونکہ مہمانوں کی وجہ سے نیچے جگہ نہیں تھی تو وہ آرام سے او پر نماز پڑھ سکتی تھی۔ جو نہی نماز ادا کر کے نیچے آئی سامنے ڈرائنگ روم میں علی کو بیٹھا دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی۔ سیدھی وہ خالہ کے کمرے گئی۔ اچھا اجازت دیں۔ میں گھر جارہی ہوں ۔ کیوں نہیں تم کہیں نہیں جا رہیں۔ بیٹھ جاؤ یہاں ۔ انہوں نے ہاتھ پکڑ کر اسے وہیں اپنے پاس بٹھا لیا۔ آنٹی ! آپ کو تو پتا ہے کہ باہر علی بھائی آگئے ہیں مجھے لینے اور انہوں نے مجھے گھر چھوڑ کر پھر اپنے بھی کسی کام سے جانا ہے ۔ وہ آنٹی کے ہاتھ پرپیارے اپنا ہاتھ رکھ کر اُٹھ کر کھڑی ہوئی ۔ میں ان شاء اللہ امی کے ساتھ پھر آؤں گی ۔ لیکن بیٹا! کچھ دن اور رک جاتیں۔ تمہاری وجہ سے مائرہ کا دھیان بٹا ہوا ہے ۔ محبت اور تفکر کے ملے جلے آثار ان کے چہرے سے عیاں تھے۔ وہ مائرہ کے لیے فکرمند ہو رہی تھیں۔مجھے کالج کا کام کرنا ہے آنٹی ! میں ایک دو دن بعد پھر سے آجاؤں گی۔ وہ کچھ بھی بہانا بناکر گھر جانا چاہتی تھی۔ ٹھیک ہے۔ آجاؤ گی ناں؟ انہوں نےاس کا ہاتھ پکڑ کر پیار سے پوچھا۔ جی، ان شاء اللہ آجاؤں گی۔ اپنا خیال رکھیے گا۔ وہ ان سے مل کر احتیاط سے دروازہ بند کر کے باہر آ گئی۔ جا رہی ہو؟ رک جاتیں۔ مائرہ نے بھی دبے لفظوں میں رُک جانے کی ضد کی۔ امی نے تو کہا تھا کہ کچھ دن رک جاؤ، لیکن میں پھر آؤں گی، امی کے ساتھ۔ تو رہ لیتیں۔ ابھی تمہارے سامنے امی نے کسی اور کو نہیں کہا، تمہیں ہی کہہ رہی تھیں۔ آئی تھنک تمہاری کال آرہی ہے۔ اس نے بات بدلی اور اس کے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا۔ ہاں۔ اس نے کال ڈراپ کر دی۔ تمہیں تو پتہ ہے کہ باہر سے کتنی کالز اور میسجز آ رہے ہیں، لیکن میں ان سے کانٹیکٹ نہیں کر پا رہی، سب مہمانوں کی وجہ سے۔ اتنا شور ہے گھر میں۔ اندر اقبال ماموں نے میرے ہاتھ میں موبائل دیکھ کر کہا کہ اپنا موبائل مجھے دے دو، تو میں نے ان سے کہا، میرے چاہنے چالوں کو اتنا پیار دے پائیں گے تو لے لیں ۔ اپنی ادا پر مسکرا اس نے توقف کیا پھر خود ہی گویا ہوئی۔ یہ دیکھو۔ میں نے امی اور ابو کی پک لگائی ہے اسٹیٹس پی اور اس بار میرا اسٹیٹس سب سے زیادہ دیکھا گیا۔ یقین کرو گی ۔ دو سو لوگوں نے دیکھا ہے ۔ وہ موبائل آگے کر کے اسے اسٹیٹس دکھانے لگی ۔ کنزہ کی سانس سی اکھڑنے لگی ۔ ہاں اچھی ہے۔ وہ اور کیا کہتی . دوسو لوگوں نے لائک کیا تھا اسے … آج سب جائیں گے تو رات کو کروں گی ان سب سے بات ۔ مائرہ تو چپ ہونے کا نام نہیں نے رہی تھی۔ باہر علی نے گاڑی کا ہارن بجایا تو اسے ایک دم سے یاد آیا کہ اسے دیر ہو رہی ہے۔ ارے علی -اتنی دور سے لینے آیا ہے۔ امی سے کہہ دیتیں وہ گاڑی سے بھجوا دیتیں ۔ دیکھو ایسے ہی کھڑی ہوئی ہے، کچھ دن پہلے لی تھی۔ تیس لکھ کی آئی تھی ۔ بس ! ابو ہی چلاتے تھے۔ اب تو میں ہی سیکھوں نا تو چلاؤں گی ۔ اس کی نظریں نئی گاڑی پر لگی ہوئی تھیں۔ نہیں یارا بہت شکریہ۔ اپنا خیال رکھنا۔ اللہ حافظ ۔ اس نے جیسے ہی گیٹ سے باہر کھلی فضا میں قدم رکھا ایک سکون بھر ا سانس لیا۔ کیا ہوا ۔ تم نے تو ابھی یہاں کافی دن رہنا تھا۔ علی نے اس کے گاڑی میں بیٹھتے ہی پو چھا۔ ہیں۔ مجھ سے یہاں کا اسٹیٹس برداشت نہیں ہو رہا تھا۔اسٹیٹس؟ علی نے نا سمجھتے ہوئے پوچھا ۔ کنزہ نے سمجھانے کی کوشش نہ کی۔ کیوں کہ وہ چاہ کر بھی علی کو ساری بات اس کے پس منظر سمیت نہیں سمجھا سکتی تھی۔ اسٹیٹس اسٹیٹس اسٹیٹس موبائل پر اسٹیٹس لگاتے لگاتے نجانے کب لوگوں نے اپنی زبان پر اپنی امارت کا اسٹیٹس بھی لگانا شروع کر دیا ہے۔ انسان کس قدر غلط فہمیوں کے جہاں میں احمقانہ زندگی گزار رہا ہے۔ اپنی دولت ، کاروں، محلات کا ذکر کر کے معاشرے میں قابل احترام ٹھہرے جانے کی کوشش کرتا ہے اور المیہ تو یہ ہے کہ معاشرہ بھی اسے نہ صرف اس حیثیت میں قبول کرتا ہے بلکہ اسے اس حیثیت میں محترم بھی گردانتا ہے۔
☆☆