میں ایسے علاقے کی رہنے والی ہوں جہاں کے دیہاتوں میں لڑکیوں کو بدلے میں بیاہنے کی روایت آج بھی عام ہے۔ یہ عورت کی غلامی کی ایک عجیب و غریب رسم ہے، جس نے میری زندگی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بدلے کی اس رسم کے تحت میرے شوہر نے اپنی بہن کو میرے بھائی شیرو کے نکاح میں دے دیا، اور یوں میری نند گوہر میری بھاوج بن گئی۔
چار سال تک میں اور گوہر اپنے اپنے گھروں میں زندگی گزارتے رہے۔ اس دوران میری دو بیٹیاں، رقیہ اور ساجدہ، پیدا ہوئیں۔ ایک دن میرے والد اور میرے جیٹھ قدیر کے درمیان کسی بات پر جھگڑا ہو گیا۔ غصے میں آ کر میرے والد نے قدیر کو برا بھلا کہہ دیا، جس پر قدیر طیش میں آ گیا۔ گھر آ کر اس نے میرے شوہر سے کہا:نوری، اپنی بیوی کو طلاق دے دو اور بچیوں کو اس سے چھین لو۔میرے شوہر نے جواب دیا:بڑے بھائی، ہماری بہن گوہر کا کیا ہوگا؟ وہ بھی تو دو بچوں کی ماں ہے!قدیر نے کہا:ہم اسے بھی گھر لے آئیں گے۔یہ بات سن کر میرے شوہر نوری سوچ میں پڑ گیا اور ایک دن کی مہلت مانگی۔ اگلے دن ہم ابھی سو کر ہی اٹھے تھے کہ خبر ملی میرے والد کو میرے جیٹھ قدیر نے قتل کر دیا ہے۔
اصل معاملہ یہ تھا کہ قدیر اپنی بہن گوہر کو لینے گیا تھا، لیکن میرے والد نے بہو کو میکے بھیجنے سے انکار کر دیا۔ گوہر بھی اس جھگڑے میں قربانی کا بکرا نہیں بننا چاہتی تھی اور اپنے بھائی کے ساتھ جانے سے صاف انکار کر دیا۔ قدیر نے بہن کے انکار کو اپنی توہین سمجھا اور پاس پڑی سوٹی سے اسے مارنے لگا۔ جب میرے سسر نے بیچ بچاؤ کرنے کی کوشش کی، تو قدیر نے غصے میں کلہاڑا اٹھایا اور میرے والد پر حملہ کر دیا۔ ایک ہی وار میں وہ وہیں ڈھیر ہو گئے۔یہ خبر پورے دیہات میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ کسی نے ہمیں اطلاع دی، تو میں اپنی دونوں بیٹیوں کو لے کر علاقے کے معزز شخص، چوہدری سردار، کے گھر پناہ لینے چلی گئی۔ مجھے معلوم تھا کہ اپنے گھر میں میری زندگی محفوظ نہیں رہی۔ میرے جیٹھ نے جان بچانے کے لیے یہ بیان دیا کہ میرے والد کی نظر اس کی بہن گوہر پر تھی، اس لیے اس نے اسے قتل کر دیا۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ اپنی بہن گوہر کو قتل کرنا چاہتا تھا، اور میرے والد بیچ بچاؤ کرتے ہوئے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ قدیر کو گرفتار کر لیا گیا۔
ادھر میرا شوہر نوری، گوہر کو اپنے گھر لے آیا کیونکہ میں پہلے ہی چوہدری سردار کے گھر پناہ لے چکی تھی۔ میرے بھائی نے گوہر کے دونوں بیٹوں کو اپنے پاس رکھ لیا اور انہیں ماں کے ساتھ نہیں جانے دیا۔ حالانکہ دونوں بچے بہت چھوٹے تھے؛ ایک کی عمر دو سال اور دوسرے کی ایک سال تھی۔ ماں کے بغیر ان کا گزارہ ممکن نہ تھا، لیکن بھائی نے بیوی پر رحم نہ کیا اور اسے طلاق دے دی۔ادھر میرے شوہر نے بھی مجھے طلاق دے دی۔ اس کے بعد میرے بھائی علاقے کے معزز شخص کے گھر سے مجھے اپنے گھر لے آئے، جہاں میرے والد کے قتل کا سوگ منایا جا رہا تھا۔
دو سال بعد میرے بھائی نے میرا نکاح سرور خان سے کر دیا اور بدلے میں اس کی بہن زبیدہ سے خود نکاح کر لیا۔ سرور خان ایک دیہاتی آدمی تھا اور ہمارا رشتہ دار بھی تھا۔ میں اس کے ساتھ پانچ سال تک رہی، اس دوران میرے ہاں دو لڑکیاں اور ایک لڑکا پیدا ہوئے، جبکہ زبیدہ بھابھی بھی ان برسوں میں دو بچوں کی ماں بن گئیں۔
میری بھابھی زبیدہ، میرے میکے میں خوش نہیں رہتی تھی، اور ان کے روز جھگڑے ہوتے تھے۔ ان کی غیر مطمئن زندگی نے میری زندگی پر بھی برا اثر ڈالا۔ میری ساس بہت ظالم عورت تھی اور مجھے کھانے پینے تک کے معاملے میں تنگ کرتی تھی، لیکن میں بچوں کی خاطر خاموشی سے سب برداشت کرتی رہی۔ میرے تین بچے سرور سے تھے، جبکہ نورے (میرے سابقہ شوہر) سے ہونے والی دو لڑکیاں بھی میرے پاس تھیں، جن کا خرچ سرور اٹھاتا تھا۔ یوں وہ اپنے بچوں کے ساتھ میرے سابقہ شوہر کی بچیوں کو بھی پال رہا تھا۔ میں نے حالات سے سمجھوتہ کیا تاکہ میری بچیاں مجھ سے جدا ہو کر دربدر نہ ہو جائیں۔
ادھر میری نند زبیدہ، میرے بھائی کے ساتھ نباہ نہ کر سکی اور ایک دن ناراض ہو کر میکے آ گئی۔ اس نے شوہر کے گھر واپس جانے سے صاف انکار کر دیا۔ میرا بھائی میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ تم یہاں آرام سے رہ رہی ہو، جبکہ میرا گھر اجڑ گیا ہے۔ زبیدہ کو واپس بھیجو، ورنہ تم میرے ساتھ چلو۔ مجھے گھر کے کام کاج، روٹی پانی، سب کی تکلیف ہے۔ ہماری بوڑھی ماں چارپائی پر پڑی ہے اور گھر کے کام نہیں کر سکتی۔میں نے زبیدہ کو سمجھایا کہ بھابھی، تم بھائی کے ساتھ گھر چلی جاؤ۔ دیکھو، وہ تمہیں لینے آیا ہے۔ اگر تم نہیں جاؤ گی تو تنازعہ بڑھ جائے گا، اور میرے پانچ بچے دربدر ہو جائیں گے۔ لیکن میری منت سماجت کے باوجود زبیدہ نہ مانی اور اس نے طلاق کا مطالبہ کر دیا۔ میرا بھائی سخت پریشان ہو گیا اور اس نے میرے شوہر سے کہا کہ میری بہن کو واپس کرو یا اپنی بہن کو میرے حوالے کرو۔ اگر یہ دونوں باتیں ممکن نہیں، تو تیسری صورت یہ ہے کہ مجھے تیس ہزار روپے دو، تاکہ میں تمہاری بہن کو طلاق دے کر کسی اور عورت سے شادی کر سکوں اور اپنا گھر بسا سکوں۔
تیس سال پہلے کے لحاظ سے تیس ہزار بہت بڑی رقم تھی۔ میرے شوہر سرور خان نے اس معاملے میں میرے سابقہ شوہر نور احمد کو بلوایا۔ سرور نے سوچا کہ اگر میں اپنی بیوی واپس کرتا ہوں تو لڑکیاں بھی واپس کرنی ہوں گی، جو نورے کی بیٹیاں ہیں۔ بہتر ہے کہ ان بچیوں کو ان کے سگے باپ کے حوالے کر دوں، بجائے اس کے کہ ان کا ماموں لے جائے۔ یہ اس کے لیے ایک خسارے کا سودا ہوتا۔
نور احمد کے آنے پر سرور نے کہا کہ میری بیوی اپنے بھائی کے گھر واپس جا رہی ہے کیونکہ یہ لوگ میری بہن کو طلاق دے رہے ہیں۔ تمہاری دونوں لڑکیاں بھی وہ اپنے بھائی کے سپرد کر دے گی۔ میں انہیں قانونی طور پر اپنے پاس نہیں روک سکتا۔ لیکن لڑکیوں کا ماموں تمہاری بیٹیوں کے دام کھرے کر لے گا، جبکہ اصل وارث تو تم ہو۔ اب بتاؤ، تمہارا کیا خیال ہے؟
نور احمد نے کہا کہ وہ میری لڑکیاں ہیں اور میں ان کا اصل وارث ہوں۔ میں خود ان کو رکھوں گا، میرا حق ہے اپنی اولاد پر۔ یہ چھوٹی تھیں، تو طلاق کے وقت میں نے رحم کرتے ہوئے انہیں ان کی ماں کے ساتھ رہنے دیا۔ لیکن اب یہ سمجھدار ہو گئی ہیں اور ماں کے بغیر رہ سکتی ہیں۔ تم ان کو ان کے ماموں کے حوالے مت کرنا۔ اور یہ جو برسوں میں نے ان کی پرورش کا خرچ اٹھایا، ان کا کیا؟ وہ میرے گھر کھاتی پیتی رہیں، اس کا حساب کون دے گا؟ مجھے اس کا بھی حق دیا جائے۔
میرا سابقہ اور موجودہ شوہر آپس میں خالہ زاد تھے۔ نورے نے سرور سے کہا کہ اگر تم میرا ساتھ دو اور میں بچیوں کو لینے میں کامیاب ہو جاؤں تو میں ابھی سے ان کا رشتہ رقم کے عوض طے کر دیتا ہوں۔ وہ رقم ہم آدھی آدھی بانٹ لیں گے، اور یوں تمہارا انہیں اپنے پاس رکھنے اور ان کی پرورش کا احسان بھی ادا ہو جائے گا۔سرور نے جواب دیا کہ یہ تجویز مجھے منظور ہے۔ تم بھی ان کے رشتے تلاش کرو، میں بھی دیکھتا ہوں۔
میری بیٹیاں بہت کم عمر تھیں، لیکن ان ظالموں نے رقم کے بدلے ان کے رشتے طے کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ دیہات میں آج بھی یہ رواج عام ہے کہ اگر لڑکی کے بدلے لڑکی کا رشتہ نہ ملے تو رقم کے بدلے بیٹی کا رشتہ طے کر دیا جاتا ہے۔ سرور نے جلد ہی دونوں لڑکیوں کے لیے رشتے ڈھونڈ لیے اور نورے کو بلا کر کہا کہ ایک شخص لڑکی کے لیے ایک لاکھ روپے دینے کو تیار ہے، اور بچیوں کے رشتے میں پچاس پچاس ہزار مانگ رہے ہیں۔ اب بتاؤ، کیا ارادہ ہے؟
نورے نے کہا کہ مجھے یہ تجویز منظور ہے، لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو، ورنہ لڑکیوں کا ماموں مسئلہ کھڑا کر دے گا۔ میری مانو تو تینوں کا سودا کر لو، پیسہ لے کر نکاح نامے پر دستخط کر دیتے ہیں۔ سالے کو بھی کچھ رقم دو گے تو بہتر رہے گا، ورنہ وہ یہ سب نہیں ہونے دے گا۔یوں سودا طے ہو گیا۔ میرا سابقہ شوہر، میرا بھائی، اور موجودہ شوہر سرور، تینوں نے مل کر ان لوگوں سے بات کی، جنہوں نے رقم کے عوض تینوں کے رشتے قبول کیے تھے۔ معاملہ ایک ہوٹل میں بیٹھ کر طے ہوا، اور وہ لوگ کچھ ایڈوانس رقم لے کر واپس آ گئے۔
اتفاق سے اس ہوٹل میں ایک ممبر اسمبلی بھی اپنے دوست کے ساتھ موجود تھا۔ اس نے ساری باتیں سن لیں اور ہوٹل کے ایک ملازم کے ذریعے مجھے اطلاع بھجوائی کہ تمہارا اور تمہاری بیٹیوں کا سودا ہو چکا ہے۔ تمہارے بھائی کو بھی اس رقم سے تیس ہزار ملیں گے تاکہ وہ کوئی عورت خرید کر اپنے گھر لے آئے۔ لہذا، بی بی! تم جلد بچیوں کو لے کر گھر سے نکل جاؤ کیونکہ تمہارا سگا بھائی بھی تیس ہزار کے لالچ میں تمہارے خلاف ہے۔یہ اطلاع ملتے ہی میں نے وہی کیا جو پہلے کیا تھا۔ پانچوں بچوں سمیت اپنے علاقے کے معزز شخص کے گھر پناہ لینے چلی گئی۔ یہ وہی شخص تھا جسے ہم اپنے علاقے کا چوہدری یا سردار کہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ بہن، میں اب تمہیں پناہ نہیں دے سکتا کیونکہ تمہارا دشمن ایک شخص نہیں، بلکہ تمہارا سگا بھائی، سابقہ شوہر، موجودہ شوہر، اور ان کے بھائی، سب ایک ہو گئے ہیں۔ رقم کے لالچ میں یہ سب تمہارے خلاف ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر میں تمہیں پناہ دوں تو کس حیثیت سے دوں؟ تمہیں کسی نہ کسی وارث کے حوالے کرنا ہوگا۔ بہتر یہی ہے کہ تم ڈی سی صاحب کے روبرو پیش ہو جاؤ۔ بس یہی ایک طریقہ تمہارے تحفظ کے لیے باقی رہ گیا ہے۔چوہدری صاحب نے اسی وقت ایک ویگن کرائے پر لی اور مجھے بچوں سمیت بٹھا کر ڈپٹی کمشنر کے دفتر لے گئے۔ وہاں انہوں نے مجھے ڈی سی کے سامنے پیش کیا۔ڈپٹی کمشنر نے مجھے دارالامان بھیج دیا۔ یوں میں اور میری بیٹیاں بکنے سے تو بچ گئیں، لیکن اب ان کا مستقبل کیا ہوگا؟ میں ہر وقت یہی سوچتی رہتی ہوں۔ لعل بی بی نے اپنے دوپٹے سے آنسو پونچھتے ہوئے اپنی بات ختم کی۔
ان دنوں میں بطور منتخب ممبر ضلع کونسل ہر ہفتے دارالامان کا دورہ کیا کرتی تھی۔ ضلع کی سبھی جیلوں، دارالامان اور اداروں میں اس قسم کی مظلوم عورتیں بچوں سمیت مقیم تھیں۔ اس طرح کی کہانیاں، جنہیں میں نے قلمبند کیا ہے، ان کے جیتے جاگتے کرداروں کو میں کبھی نہیں بھول سکتی۔