چچا کے دو بیٹے تھے جبکہ اکلوتی بیٹی ماہ پارہ مجھ سے دو برس چھوٹی تھی۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔ ہم دونوں کی طبیعت ایک جیسی تھی۔ ہم میں بھی ہمارے والدین کی طرح آپس میں بہت پیار و محبت تھا۔ کوئی بات ایک دوسرے سے نہیں چھپاتے تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ایف ایس سی کر رہی تھی اور منزہ میٹرک میں تھی۔ ایک لڑکا بار بار ہمارے گھر فون کرتا اور مجھ سے بات کرنے کی کوشش کرتا۔ اکثر میں فون بند کر دیتی اور کبھی کبھار بات کر لیا کرتی اور کہتی کہ تم غلط جگہ فون کرتے ہو ۔ ہیں تم سے بات نہیں کر سکتی۔ جمعہ کا دن تھا۔ والد چچا اور میرے بھائی وغیرہ سب شکار کھیلنے گئے ہوئے تھے۔ منزہ میرے ساتھ بیٹھی تھی ، میری والدہ چچی کے پاس گئی ہوئی تھیں۔ میں منزہ سے اس لڑکے کا ذکر کر رہی تھی۔ اچانک فون کی گھنٹی بجی، منزہ بولی۔ آئمہ تم فون اُٹھائو۔ میں اس سے بات کرتی ہوں اور اس کو سمجھاتی ہوں کہ وہ آئندہ یہاں فون نہ کرے۔ منزہ نے اس سے بات کی مگر اس کی باتوں نے اس پر ایسا جادو کیا کہ وہ دو گھنٹے تک باتیں کرتی چلی گئی اور اس کو اپنا نمبر بھی دے دیا۔ پہلی گفتگو میں ہی منزہ نے اپنے بارے اس کو سب کچھ بتادیا اور وہ صرف یہی معلوم کر سکی کہ لڑکے کا نام معظم ہے۔ اس دن کے بعد ان کے درمیان فون کالز کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ وہ اکثر رات کو فون کرتا، جب سب سو چکے ہوتے ، منزہ فون اپنے کمرے میں لے جاتی اور صبح تک اس کے ساتھ باتوں میں مشغول رہتی۔ میں نے کئی مرتبہ اسے منع بھی کیا اور کہا کہ اگر یہ لڑ کا واقعی تم سے محبت کرتا ہے ، تو اپنی امی کو رشتے کے لئے بھیجے۔ تبھی میری کزن نے جواب دیا۔ یہ تو بعد کی بات ہے پہلے میں لڑکے سے مل تو لوں ، پتا تو چلے کتنے پانی میں ہے۔ اور ہمارے والدین کافی آزاد خیال ہیں اور یہ شاید اسی کا نتیجہ تھا کہ اس شہر میں واحد لڑکی میں ہی تھی جو گاڑی چلایا کرتی تھی۔ ایک دن منزہ نے معظم کو ایک جگہ ملنے کے لئے بلایا۔ میں اور وہ گاڑی پر اس جگہ پہنچ گئے۔ ہم وہاں کافی دیر ٹھہرے مگر وہ نہ آیا۔ جب ہم واپس جانے لگے تو میں نے دیکھا کہ ایک گاڑی ہمارا تعاقب کر رہی ہے کبھی وہ آگے نکل جاتا بھی ہم ۔ گاڑی ایک خوبصورت نوجوان چلارہا تھا ۔ ہم نے جان لیا کہ یہی معظم ہے۔ اس مختصر ملاقات میں منزہ اور معظم کی کوئی بات نہ ہو سکی مگر تعارف ہو گیا تو اس کے بعد ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جب شام کو منزہ کے والد اور بھائی ٹینس کھیلنے جاتے تو وہ مجھ سے ملنے کا بہانہ بنا کر ہمارے گھر آجاتی اور وہاں سے معظم کے ساتھ چلی جاتی۔ کچھ عرصہ بعد اس نے مجھ بتایا کہ منظم اس سے ملنے گھر آتا ہے۔ ہوتا یوں تھا کہ جب سب گھر والے سو جاتے تو وہ مین گیٹ کھول دیتی۔ وہ اندر آجاتا اور یہ لوگ ساری رات باتیں کیا کرتے ، کبھی وہ باہر آجاتی اور معظم اسے ساتھ لے جاتا۔ وہ اسے اپنے گھر لے جاتا تھا۔ اس واقعے سے مجھے شدید رنج ہوا۔ میں نے اپنی دلار می کزن کو سمجھایا کہ اب تم نے لڑکا تو دیکھ لیا ہے اور اس کو پسند کر چکی ہو۔ یہی وقت ہے کہ والدین کو سب کچھ بتادو۔ اس سے پہلے کہ انہیں پتا چل جائے یا کوئی حادثہ پیش آجائے۔ وہ ہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ ایک رات حسب معمول انہوں نے ملنا تھا۔ بارہ بجے کے قریب منزہ باہر آگئی۔ کچھ دیر بعد وہ بھی پہنچ گیا۔ دونوں گاڑی میں بیٹھ کر لمبی ڈرائیو پر نکل گئے۔ رات ڈھائی بجے جب یہ لوگ واپس آرہے تھے تو منزہ نے دیکھا کہ اس کے گھر کے قریب والد و بھائی سب کھڑے ہیں۔ اس نے معظم سے کہا تم مجھے کو یہیں اُتار دو۔ جب وہ گھر پہنچی تو اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی کہ سب گھر والے اسے ڈھونڈ رہے تھے۔ در اصل منزہ کی امی رات کو پانی پینے کے لئے اٹھیں تو بیٹی کے کمرے کی طرف بھی چلی تھیں اور جب منزہ کو غائب پایا تو پریشان ہو کر سب کو جگادیا۔ منزہ نے بہانہ بنایا کہ طبیعت ٹھیک نہیں تھی بہت گھٹن ہو رہی تھی۔ گھڑی پر نظر ڈالی اور بس ” واک“ کو نکل گئی۔ میرے چچا کافی سمجھ دار آدمی ہیں۔ انہوں نے اس وقت جھگڑا کرنا مناسب خیال نہیں کیا لیکن بیٹی کی گھبرائی ہوئی حالت سے بہت کچھ سمجھ گئے۔ اگلے دن اس کی والدہ نے کافی پوچھا کہ وہ کون ہے جس سے تم ملتی ہو ؟ بتا دو تا کہ تمہارا باپ اس کے گھر والوں سے بات کر سکے۔ منزہ نے کچھ نہیں بتایا اور اس کی وجہ معظم تھا۔ اس نے منزہ کو منع کر رکھا تھا کہ جب تک میں ایف ایس سی نہ کر لوں کسی کو کچھ نہ بتانا، ورنہ زمانہ ہمارے بیچ دیوار بن جائے گا۔ وہ اس کی باتوں میں آ گئی۔ کچھ دن گزرے کہ پھر ایک اور واقعہ ہوا۔ معظم نے منزہ کو فون کیا کہ تم سے ملنے کو بہت جی چاہ رہا ہے۔ میں رات کو ملنے آئوں گا مگر رات کا انتظار کئے بغیر شام ہی کو ہمارے گھروں کی طرف آگیا۔ ہم سب لان میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ جب معظم نے دیکھا کہ سب باہر لان میں بیٹھے ہیں تو پچھلی جانب سے دیوار پھلانگ کر اندر آگیا اور چھت پر چڑھ کر منزہ کے اندر آنے کا انتظار کرنے لگا۔ اگر میری کزن کو علم ہوتا کہ معظم آیا ہوا ہے تو وہ بھی چلی جاتی اور اسے اپنے کمرے میں لے جا کر چھپادیتی۔ اچانک اس کے بھائی کی نظر چھت پر پڑ گئی۔ چور سمجھ کر فورآً دوڑے اور پستول نکال لائے۔ وہ اسی سمت او پر گئے جہاں معظم کو دیکھا تھا۔ اس نے چھت پر سے چھلانگ لگائی اور بھاگ گیا۔ چچا سمجھ گئے کہ شام سات بجے کون چور ہو سکتا ہے ؟ اس واقعہ کے بعد سے ہمارا خود گاڑی ڈرائیو کر نا بند ہو گیا اور فون بھی ہماری دسترس سے دور کر دیئے گئے۔ وہ پھر بھی کسی نہ کسی طریقے سے معظم کے ساتھ رابطہ کر لیتی اور وہ رات کو ہمارے گھر آجاتا تھا۔ بتاتی چلوں کہ ہم مالدار ، معزز گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ والد کے تین بھائی کراچی اور اسلام آباد میں رہتے تھے جبکہ چچا ہمارے ساتھ رہتے تھے۔ بڑا سا ہمارا مکان دو حصوں میں ایک دیوار کے ذریعہ تقسیم تھا لیکن دیوار میں بھی ہم لڑکیوں کے آنے جانے کی خاطر دروازہ لگادیا گیا تھا۔ اس وجہ سے میں اور منزہ جب چاہے ایک دوسرے کے گھر آ جا سکتی تھیں۔ ایک دفعہ تو ایسا ہوا کہ وہ منزہ کے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ دروازہ کھلنے کی آواز آی۔ اس نے فورا اپنے اوپر چادر ڈال لی اور سوتا بن گیا۔ چچاجان اندر آگئے ادھر ادھر دیکھا۔ ان کی نظر پلنگ پر پڑی چادر پر نہ گئی کہ اس پر کوئی ہے۔ انہوں نے دروازہ بند کیا اور واپس چلے گئے۔ معظم نے ایک غلطی یہ بھی کہ کہ منزہ کے بارے اپنے ایک دوست کو سب باتیں بتاتارہا۔ اس لڑکے کا دیگر غلط قسم کے لڑکوں سے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا۔ ان آوارہ مزاج لڑکوں نے تمام واقعات دوسرے اپنے قماش کے لڑکوں کو بتائے یہاں تک کہ معظم اور منزہ کے درمیان جو گفتگو بھی ہوتی وہ بھی وہ دوسرے لڑکوں تک پہنچتی رہتی ، یوں میری کزن سارے شہر میں بد نام ہو گئی۔ اس کے چرچے گلی گلی ہونے لگے اور لڑکوں نے منزہ کو فون کر کے تنگ کرنا شروع کر دیا۔ آئے دن ہمارے گھر میں بھی رانگ نمبر آنے شروع ہو گئے۔ اس طرح یہ تمام باتیں محلے کے ایک لڑکے کے ذریعہ منزہ کے بھائی کے کانوں تک پہنچ گئیں۔ جب اس کے بھائیوں کو علم ہوا تو گھر آکر انہوں نے بہن کو بہت مارا اور پستول نکال کر اس کو شوٹ کرنے لگے ، تب چچی رو کر بیٹی کی زندگی کی بھیک مانگنے لگیں۔ سارے بھائی اب معظم کے خون کے پیاسے تھے۔ اس کے پیچھے بھی گئے لیکن نہ ڈھونڈ سکے کیونکہ وہ تو ایسا غائب ہوا کہ اس کے گھر والوں کو بھی پتا نہ چل سکا کہ کہاں چلا گیا ہے۔ منزہ پر سخت پابندیاں لگ گئیں، اس کا گھر سے نکلنا بھی بند کر دیا گیا۔ اب اس کو کہیں آنے جانے کی اجازت نہ تھی یہاں تک کہ وہ اب میرے گھر بھی نہیں آسکتی تھی۔ وہ ایک قیدی کی مانند تھی۔ تمام وقت اپنے کمرے میں بند رہتی۔ مجھ کو اس پر ترس بھی آتا تھا۔ کہاں اتنی آزادی سے جی رہی تھی اور کہاں اب کھلے آسمان کے لئے ترس رہی تھی۔ تین ماہ بعد معظم کی والدہ اچانک ہمارے چچا کے گھر کارشتہ لینے آگئیں۔ چچا جان پہلے ہی بپھرے ہوئے تھے۔ ان کا غصہ برحق تھا کہ پہلے تو ہمیں سارے شہر میں بد نام کر دیا اور اب رشتہ لینے آگئے۔ اگر رشتہ ہی لینا تھا تو پہلے آتے، بہر حال چچانے صاف انکار کر دیا۔ یہ بھی کہا کہ معظم کو کہیں اور بھیج دو۔ ہمیں ہمارے محلے میں دکھائی دے گیا تو میں اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکوں گا اور کچھ کر بیٹھوں گا۔ معظم کی ماں دُکھی ہو کر روتی دھوتی چلی گئی۔ ادھر منزہ نے کھانا پینا چھوڑ دیا اور بیمار پڑ گئی۔ چا چی اسے کبھی غصے سے اور کبھی پیار سے سمجھاتے مگر اس کی سمجھ میں کچھ نہ آتا۔ اس کے سر پر ابھی تک عشق کا بھوت سوار تھا۔ ادھر اس کے بھائی مسلسل معظم کو دھمکیاں بھیج رہے تھے کہ یہ شہر چھوڑ کر کہیں چلے جائو ورنہ ہم تم کو ختم کر دیں گے۔ بالآخر وہ اپنا شہر چھوڑ کر کراچی چلا گیا۔ حالات وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ درست ہو نا شروع ہو گئے۔ دو سال کا عرصہ بیت گیا۔ معظم کے گھر والوں نے یہ مشہور کر دیا کہ وہ مزید تعلیم کے لئے بیرون ملک چلا گیا ہے۔ ہم اپنے ایک چچازاد بھائی کی شادی کے سلسلے میں کراچی گئے تھے۔ وہاں بازار میں منزہ کو معظم مل گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہماری نظروں سے گم ہو گئے۔ جب ہم گھر گئے تو چچا جان نے خوب ڈانٹا۔ کافی پریشانی تھی۔ ہم دودن تک کو ڈھونڈتے رہے مگر کراچی جیسے شہر میں وہ ہمیں کہاں مل سکتی تھی۔ تیسرے دن وہ خود ہی آگئی اور چچا کو تھاما۔ بہت سمجھا بجھا کر راضی کیا کہ اب کیا ہو سکتا ہے۔ لڑکی نے اپنی مرضی کر لی ہے۔ اب عزت سے رخصتی کرو۔ اس میں سارے خاندان کی بھلائی ہے۔ ہمارے یہ تایا ابو کراچی میں رہتے تھے۔ انہوں نے چچا سے وعدہ کیا کہ گھر جا کر منزہ کو کچھ مت کہنا بلکہ اس کی رخصتی کی تیاری کرنا۔ جب ہم گھر واپس آگئے تو مجبوراً چچا کو اپنی عزت بچانے کی خاطر ان کی دوبارہ شادی کرنی پڑی اور برادری کو بلا کر با قاعده در خصت کیا تا کہ لوگ باتیں نہ بنائیں ، یوں وہ جس لڑکے کے خون کے پیاسے تھے وہ انہی کے ہاتھوں سے ان کی بیٹی لے گیا۔ منزہ کی شادی تو ہو گئی اور اس شادی کو میں برس بھی گزر گئے مگر اس کے بعد باپ اور بھائیوں نے اس سے کوئی ناتا نہ رکھا۔ محلے میں برے لڑکوں نے البتہ جو باتیں پھیلائیں، اس کا اثر مجھ پر بھی ہوا کہ ہم رہتے تو ایک ہی گھر میں تھے اور میں بھی اسی خاندان سے تھی لہذا اس کے بعد میر ارشتہ کوئی نہ آیا۔ میں سوچتی تھی کہ اس تمام قصے میں بھلا میرا کیا قصور تھا؟ میں تو اس کو سمجھایا کرتی تھی کہ منزہ باز آجائو اور والدین کو بتا دو۔ کم از کم ماں کو ہی آگاہ کر دو مگر وہ نہ مانتی تھی۔ منزہ نے نہ صرف اپنی زندگی خراب کی بلکہ میرا مستقبل بھی خاک میں ملادیا۔ ہم جس چھوٹے سے شہر میں رہتے تھے وہاں سب ایک دوسرے کو جانتے تھے اسی سبب اب لوگ مجھے بھی اس جیسا سمجھتے تھے۔ بالآخر اسلام آباد والے چچا کو خیال آیا کہ جب تک آئمہ وہاں ہے ، اس کی شادی کسی اچھے گھرانے میں ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے والد صاحب کو سمجھایا اور زمین بکوا کر ان کو اسلام آباد شفٹ کیا۔ یہاں چچا کے ایک پڑوسی کی بیگم کی نظر مجھ پر پڑی تو بار بار ان کا آنا جانا ہونے لگا اور انہوں نے اپنے لڑکے کے لئے میرا رشتہ مانگ لیا۔ اس طرح دیر سے سہی میرا گھر بس گیا اور والدین کی فکر ہٹی۔ سوچتی ہوں منزہ تو آج جیسی تیسی زندگی گزار رہی ہے مگر ہم بہنوں کے رشتے میں کتنے کانٹے بکھیر گئی ہے اور یہ سب اس کارن ہوا کہ ہم ایک چھوٹے سے شہر میں رہتے تھے۔ بڑے شہر میں پڑھے لکھے گھرانوں میں بھی اب لڑکے اور لڑکی کی مرضی کو شادی کو اہمیت دی جاتی ہے اور پسند کی شادی اب اتنی بڑی خطا نہیں رہی کہ جس کی سزا تمام خاندان کی لڑکیوں کو بھگتنی پڑے۔