بی بی دروازہ کھولو بی بی اماں جی ! گیٹ کھولو ۔ اماں جی، آئو ، دروازہ کھولو۔ جلدی کرو… یہ ڈری ڈری روہانسی آواز زنیاں کی تھی۔ وہ آوازیں لگا رہی تھی اور ساتھ ساتھ گھر کا دروازہ بھی پیٹ رہی تھی۔ لوہے کا گیٹ ، ہلانے اور ہاتھوں سے پیٹنے سے ایک خوفناک ماحول پیدا ہو رہا تھا۔ دو پہر تین ساڑھے تین کا وقت تھا۔ گلیوں میں لو کی وجہ سے سناٹا تھا۔ گھر کی مالکن صدیق بیگم ، جو اندر کمرے میں تھیں ، گھبرا کر ، تیزی سے گیٹ کی طرف لپکیں۔ باہر سے زنیاں کی سہمی سہمی آوازیں آرہی تھیں۔ خلاف معمول اُس نے ڈور بیل نہیں بجائی تھی، بس جاہلوں کی طرح دروازہ پیٹ رہی تھی۔ ٹھہرو زنیاں ! میں آرہی ہوں۔ ہوا کیا ہے ؟ پریشانی میں دروازہ کھولتے ہوئے صدیق بیگم کی زبان سے نکلا۔ انہوں نے دروازے میں لگے تالے کے لیور کو جو نہی کھسکایا، دروازہ ایک دھکے کے ساتھ کھل گیا اور زنیاں دوڑنے کے انداز میں اندر آ گئی۔ پھولتی سانس میں اس نے برآمدے کے ننگے فرش پر خود کو گرا دیا۔ صدیق بی بی کا دل زور زور سے دھکڑ نے لگا۔ انہوں نے باہر جھانکے بغیر گیٹ بند کر کے بولٹ چڑھا دیا۔ ان کی زبان سے نکلا۔ اللہ خیر کرے۔ زنیاں چارپائی کا سہارا لیے فرش پر بیٹھی ہوئی تھی۔ گھر کی مالکن ، ہمیشہ پُر سکون رہنے والی صدیق بیگم کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا تو وہ پانی لینے باورچی خانے میں گئیں۔ ریفریجریٹر سے بوتل نکالی، گلاس میں پانی بھرا اور زنیاں کو پلانے باہر نکلیں پھر سوچ کر الٹے قدم واپس ہوئیں۔ ڈیوائیڈر پر رکھی دوائوں میں سے گلوکوز کا ڈبا کھول کر تین چار چمچے پانی میں ملائے اور زمین پر بیٹھی ہوئی زنیاں کے ہونٹوں سے لگا دیئے۔ زنیاں نے بغیر رکے پور اگلاس ایک سانس میں پی لیا۔ اسے اب سکون آنے لگا تھا۔ پھولی سانسوں میں کمی آئی لیکن چہرے پر پریشانی کے اثرات اب بھی واضح تھے۔ صدیق بیگم نے فوراً کچھ نہیں پوچھا۔ وہ فرش پر اس کے قریب بیٹھ کر حوصلہ دینے لگیں۔ زنیاں کی سانس میں سانس آئی۔ اس نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پالیا تھا، پھر صدیق بیگم نے پوچھا۔ ”کیا ہوا زنیاں ! اتنی ڈری ڈری کیوں ہو..؟اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور اٹھتے ہوئے بولی۔ آہاں صدیق ! بہت بہت شکریہ۔ میں اب ٹھیک ہوں، چلتی ہوں۔“ ٹھہرو زنیاں کو صدیق بیگم نے ہاتھ پکڑ کر اسے روک لیا۔ ” کیا ہوا بیٹی ! یہ سب کیا تھا ؟ بیٹھو ، مجھے ساری بات بتائو ۔ “ کچھ نہیں اماں … بس ایک دم دل گھبرا گیا تھا اور آپ کا گھر ہی نزدیک تھا، سو یہاں آ گئی۔“ زنیاں ! تم ایک اچھی عورت ہو ، سمجھ دار … تم نے مجھ سے آج تک کچھ نہیں چھپایا اور میر اخیال ہے کہ جھوٹ تم بولتی نہیں۔ میں جیسی ہوں، تم جانتی ہو۔ تمہیں کیا ہوا تھا ؟ بتاؤ، بولتی کیوں نہیں ..؟ مالکن کچھ نہیں ہوا، سب ٹھیک ہے۔ میں جاتی ہوں۔“ زنیاں نے نظریں ملائے بغیر کہا۔ کچھ نہیں ہوا ؟ زنیاں ! تمہارا چہرہ کچھ بولتا ہے اور زبان کچھ ۔ میں تم سے سچ سننا چاہتی ہوں ۔ آج تم کوئی اور ہی زنیاں لگ رہی ہو۔ ایسا لگتا ہے کوئی بد معاش تمہارا پیچھا کر رہا تھا اور تم میرے گھر پناہ لینے آ گئیں۔ اب جائو اور آج شام کام کرنے میرے گھر نہ آنا۔ گھر جا کر آرام کرو۔ ہاں ، گھر سے برقعہ پہن کر یا چادر لپیٹ کر باہر نکلنا۔ … زمانہ بہت خراب ہے۔“ زنیاں چلی گئی اور صدیق بیگم کو ، جو اماں صدیق کے نام سے پکاری جاتی تھیں، الجھنوں میں چھوڑ گئی۔ زنیاں سلیقے سے کام کرنے والی عورت تھی۔ اس کا تعلق ملتان کے نزدیک ایک چھوٹے سے گائوں سے تھا۔ گھروں میں کام کرنے والی ماسی زنیاں کو کراچی میں رہتے ہوئے بارہ سال اور اماں صدیق کے گھر کام کرتے سات برس سے زیادہ ہو گئے ہے۔ اس کا اصل نام نام زینت جان تھا لیکن لوگ اسے زنیاں کے نام سے جانتے تھے۔ وہ خود بھی اپنا نام زنیاں ہی بتاتی تھی۔ سچی، ایمان دار عورت ، صفائی کرتی تو بکھری چیزوں کو سمیٹ کر رکھ دیتی، گھر کی دار عورت ، صفائی کرتی تو بکھری چیزوں کو سمیٹ کر رکھ دیتی، گھر کی مالکن سے پوچھے بغیر ہی بستر کی چادروں کو تہہ کر کے رکھ دیتی، روپے یا کوئی قیمتی چیز کہیں بھی نظر آئے ہاتھ تک نہیں لگاتی ، مو بائل فون بستر پر پڑا ہو یا ٹیبل پر ، محفوظ ہوتا۔ اس کی نگرانی کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔
☆☆☆
آماں صدیق اس گھر میں اکیلی ہی رہتی تھیں۔ ایک ہی بیٹا تھا، جو سعودی عرب کے شہر ریاض کے قریب ایک چھوٹے شہر میں ملازمت کرتا تھا۔ نیک، فرماں بردار لڑکا… ریال کی کشش نے اسے گھر سے دور کر دیا تھا، پھر اس نے بیوی کو اپنے پاس بلوالیا۔ ہم وطن دوستوں کے ساتھ زندگی آرام سے گزر رہی تھی۔ ماں کو اکثر فون کرتا، خیریت پوچھتا، ماں کے بینک اکائونٹ میں ایک معقول رقم بھجوا دیتا تھا۔ اس کے باپ کا انتقال تین برس پہلے ہو گیا تھا، چھوٹے گریڈ کا ملازم تھا۔ اس کی پنشن سے صدیق بیگم اپنی ضروریات پورا کر لیتی تھیں۔ مصروفیت کے لیے شام کو کچھ بچوں کو قرآن ناظرہ کی تعلیم دیتیں، کسی سے اُجرت طلب نہیں کرتی تھیں۔ اس کے بر عکس غریب بچوں کی کتابیں، کا پیاں اور ان کے لباس کے لیے بھی رقم مہیا کرتی تھیں محلے میں ان کا ایک مقام تھا۔ کچھ لوگ انہیں بڑی آماں کہہ کر مخاطب کرتے اور ضرورت کی چیز مانگنے سے بھی نہیں جھجکتے تھے۔ ان کے کچھ رشتے دار پنجاب کے دور دراز کے دیہاتوں میں رہتے تھے۔ وہ پڑھے لکھے نہ تھے۔ کھیتی باڑی کرتے تھے ، گائوں کی زندگی میں مگن ، گائے بھینسیں پالنے کے عادی اور شوقین۔ آvاں صدیق کے شوہر عبد الماجد کو شہر کی میونسپل کمیٹی کے اسکول میں نائب قاصد کی نوکری مل گئی۔ یہ اسکول گائوں میں کھولا گیا تھا۔ وہ پرائمری پاس تھے۔ لیڈی ٹیچروں کے درمیان رہتے۔ ان کے ذاتی کام کرتے ، ان کے گھر کے لیے سوداسلف لے آتے تھے۔ ان کی تنخواہ میں سالانہ انکریمنٹ کے علاوہ کچھ اضافہ نہ ہوتا تھا۔ گورنمنٹ کے سالانہ بجٹ میں سرکاری ملازموں کی تنخواہیں دس پندرہ فی صد بڑھ جاتی تھیں۔ اس طرح عبد الماجد کی سیلری میں بھی پانچ چھ سو کا اضافہ ہوتا تھا۔ عبد الماجد آفس یا اسکول میں ہر جگہ ماجو بھائی کہلاتے تھے۔ ایک سال ایک نئے آنے والے ذمہ دار ہیڈ ماسٹر ، ایک نئی پوسٹ لانے میں کامیاب ہو گئے ، یعنی نائب قاصد کی پوسٹ کو قاصد بنادیا گیا، یوں ماجو بھائی کی گریڈ دو میں ترقی ہو گئی۔ گھر میں خوشیاں منائی گئیں۔ اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے ان کی بیوی صدیق بیگم نے تین نفلی روزے رکھے۔ اپنے اکلوتے بیٹے عبدالرشید کو گائوں میں اچھی تعلیم دلانے کے لیے پہلے گھر میں قرآن ناظرہ مکمل کروایا، فرماں بردار اور باشعور بنانے کے لیے اچھی تعلیم دلوائی۔ سات سال کی عمر سے نماز پڑھنے کی عادت ڈالی۔ رشید ذہین تھا۔ میٹرک میں اچھے نمبروں سے کامیاب ہوا۔ اس کو چار میل دور بڑے گائوں کے اسکول پیدل جانا اور واپس آنا پڑتا تھا۔ عبد المساجد کا ایک گہرا دوست پلمبری کیا کرتا تھا۔ وہ جب بھی کام پر جاتا، رشید کو ہیلپر کے طور پر لے جاتا۔ اس طرح وہ ٹیکنکل کاموں کی طرف چل نکلا۔ ہنر کی قدر کو سمجھ کر اس کو اپنانے کے لیے نکل پڑا۔ میٹرک کے بعد آگے تعلیم جاری رکھنا اس خاندان کے لیے مشکل تھا۔ عبد الماجد نے اپنے بیٹے کو پلمبر کے کام میں ڈال دیا۔ خود رشید کو اپنے باپ کی طرح قاصد کا کام کرنا یا کرک بابو بننا پسند نہ تھا۔ وہ پلمبری کی لائن میں اتنی مہارت حاصل کر چکا تھا کہ اُستاد کے بغیر بھی کام سنبھال لیتا تھا۔ عبد الماجد کا ایک پڑوسی لیاقت سعودی عرب میں ملازمت کرتا تھا۔ اس نے بتایا کہ سعودی عرب میں ایک تعمیراتی کمپنی ہنر مند کاریگروں کی تلاش میں ہے، جہاں ایجنٹ کے ذریعے ملازمت مل سکتی ہے۔ ایجنسی کے لوگ لالچی نکلے۔ پچھتر ہزار کی رقم طلب کی تو عبد الماجد نے پراویڈنٹ فنڈ کی پیشگی ادائیگی لے لی۔ ماں کے پاس تھوڑا ساز یور تھا، اسے بھی فروخت کرنا پڑا۔ چند ہزار لیاقت سے قرض لیے، اس طرح ایجنٹ کی ڈیمانڈ پوری ہو گئی اور عبدالرشید کو سعودی عرب میں ملازمت مل گئی۔ عبد الماجد نے اپنی زندگی میں اپنی بیوہ بہن کی چھوٹی بیٹی سلطانہ سے رشید کی شادی طے کر دی تھی۔ بیوہ بہن سادہ طبیعت کی دیہا تن تھی۔ اپنے بیٹوں کو اسکول کی اچھی تعلیم نہ دلوا سکی تھی۔ اس کی دونوں بیٹیاں پرائمری پاس تھیں۔ مدرسے میں قرآن ناظرہ تجوید کے ساتھ مکمل کر چکی تھیں۔ کھیتوں میں کام کرنا، کنویں یاندی سے پانی بھر کر لانا، اپنی بھینسوں، بکریوں اور مرغیوں کی دیکھ بھال کرنا ہی ان کی زندگی تھی۔ وہ جانوروں کے گوبر سے اُپلے بنا کر ایندھن کی اضافی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔ شام ہونے سے پہلے ہی سب کام سمیٹ کر بستر پر چلے جانے کی تیاری کر لیتیں تا کہ سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی گھر کے طے شدہ کاموں میں خود کو مصروف رکھ سکیں۔ باپ اپنے زمیندار مالک کے کاموں کو نمٹا کر تھکا ہارا گھر لوٹتا، اسے آرام پہنچانا بھی ان کے فرائض میں تھا۔ بڑی بیٹی کے بیاہ اور رخصتی کے بعد چھوٹی بیٹی سُلطانہ کو اپنی ماں کے ساتھ گھر کے سارے کام انجام دینے ہوتے تھے۔ بڑی کی طرح چھوٹی بھی بڑی جفاکش تھی۔ وہ خود ہی اکیلی مرغی ، مرغوں کو ذبح کر کے صفائی کر لیتی۔ عید قرباں کے موقع پر باپ کے ساتھ بکری یا بکرا ذبح کر کے کھال اُتار نا اور چھری سے گوشت کے پارچے بنادینا اس کے لیے بہت آسان تھا۔ شادی کے بعد یہ خاندان شہر میں بھی عید الاضحی میں بکرا بکری کے ذبیحے کے لیے کسی پیشہ ور قصائی کا محتاج نہ تھا۔ فاضل گوشت کو دھوپ میں سکھا کر محفوظ کرنا بھی سلطانہ نے متعارف کرا دیا۔ سادہ اور محنت کرنے والی بہو عبد الماجد کے گھرانے میں آئی تو کم آمدنی والی زندگی بھی سنور گئی۔ اپنے سر کی معمولی پنشن اور شوہر کی کمائی سے زندگی گزارے کے لائق بن گئی۔ رشید اپنے سسرال کی بھی مالی مدد کرنے لگا۔ سلطانہ کو گائوں کے مقابلے میں یہاں آسان زندگی مل گئی۔ اسے اب پانی بھر کر لانا اور ایندھن کے لیے تگ ودو نہیں کرنا پڑتی تھی۔ اس کو شوہر کی روز مرہ کی بڑھتی آمدنی نے آسان کر دیا تھا۔ وہ پہلے جیسی محنتی عورت نہ رہی لیکن اس کی دیہات کی تربیت ہمیشہ کام آتی رہی۔ وہ ہر حال میں خوش تھی، ملنسار اور جاں نثار ۔ چند جوڑے کپڑوں میں گزارہ اور دُودھ روٹی کھا کر اللہ کا شکر ادا کرنے کی عادت نے اس خاندان کو کبھی محتاج نہیں نہیں ہونے دیا۔ کبھی پڑوسیوں یا جاننے والوں سے کوئی چیز مانگنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ نہ کبھی قرضہ لینے کے لئے ہاتھ پھیلا نا پڑا۔ رشید کو اپنی بیوی کی جابے جا فرمائشوں نے الجھنوں اور فکروں میں نہ ڈالا۔ اس کو ماں باپ کے بعد پلمبر اُستاد کی تربیت نے خالی بیٹھنے اور آرام کرنے سے باز رکھا۔ اسے بڑے گائوں کے کباڑی بازار میں دلچسپی ہو گئی۔ پرانی اور بے کار چیزیں سستے دام لا کر درست کرنے کی لگن نے الیکٹرک اور لوہار کے کاموں میں بھی اس کی مہارت کو بڑھا دیا۔ کسی گھر میں کام کرنے جاتا تو بجلی کے کام یا دوسرا کام بھی کر ڈالتا۔ اس طرح اضافی آمدنی ہو جاتی۔ اسے میٹرک کی تعلیم ہی اپنے لیے کافی محسوس ہوتی۔ رشید ہمیشہ محنت کر کے روزی کمانے والوں کی قدر دانی اور حوصلہ افزائی کرتا۔ وہ کسی موچی کے پاس بیٹھ کر اس کی دلجوئی کرتا یا کبھی بازاروں میں مزدوری کرنے والوں کو سگریٹ و یا نسوار سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ترغیب دیتا۔ سلام کرنا یا حال احوال پوچھنا اور نماز کی پابندی کی ہدایت کرنا اس کا معمول تھا۔ وہ سب کی عزت کرتا تھا۔ دوسری بھی اس کا احترام کرتے تھے۔ پلمبری یا کوئی کر درست کرنے کی لگن نے الیکٹرک اور لوہار کے کاموں میں بھی اس کی مہارت کو بڑھا دیا۔ کسی گھر میں کام کرنے جاتا تو بجلی کے کام یاد و سرا کام بھی کر ڈالتا۔ اس طرح اضافی آمدنی ہو جاتی۔ اسے میٹرک کی تعلیم ہی اپنے لیے کافی محسوس ہوتی۔ رشید ہمیشہ محنت کر کے روزی کمانے والوں کی قدر دانی اور حوصلہ افزائی کرتا۔ وہ کسی موچی کے پاس بیٹھ کر اس کی دلجوئی کرتا یا کبھی بازاروں میں مزدوری کرنے والوں کو سگریٹ یا نسوار سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ترغیب دیتا۔ سلام کرنا یا حال احوال پوچھنا اور نماز کی پابندی کی ہدایت کرنا اس کا معمول تھا۔ وہ سب کی عزت کرتا تھا۔ دوسری بھی اس کا احترام کرتے تھے۔ پلمبری یا کوئی اور کام اس کے چھوٹے گائوں میں ممکن نہ تھا، اس لیے وہ روز چار میل ڈور پیدل بڑے گائوں چلا جاتا اور رات گئے واپس لوٹتا۔ چاند اور ستاروں کی روشنی اس کو راستہ سمجھانے کے لیے کافی ہوتی۔ پیدل چلنے کی عادت نے اس کو دبلا پتلا اور سخت جان بنادیا تھا اور یہ جفاکشی سعودی عرب کی سر زمین میں بڑی کار آمد ثابت ہوئی۔ وہ سواری کا محتاج کبھی نہ بنا۔ سفر کا خرچ بچانا اس کے لیے ہمیشہ کفایت شعاری کی عادت کو پختہ کرتا رہا۔ ماں کو خط لکھنا یا فون پر بات کرنا اس نے کبھی نہ چھوڑا۔ وہ ماں کو یقین دلاتارہتا کہ اللہ نے چاہا غربت کی زندگی سے نجات حاصل کر لیں گے۔ صدیق بیگم کو تنہا زندگی گزار نا بہت مشکل معلوم ہوتا تھا، اس لیے اُنہوں نے گھر پر قرآن ناظرہ پڑھانا اور محلے کی تقریبات میں شرکت کو لازمی بنالیا۔ عورتوں اور بچیوں کی میت کو غسل دینے اماں صدیق ہی بلائی جاتیں اور یہ کام وہ بغیر کسی معاوضے کے انجام دیتی تھیں۔
زینت جان گھروں میں ماسی کی خدمات انجام دیتی تھی۔ وہ پڑھی لکھی نہ تھی لیکن پڑھے لکھے گھر میں کام کرنے سے اُسے گھر یلو ادب و آداب سے واقفیت ہو گئی۔ وہ صرف ایسے گھر خدمات انجام دیتی تھی جہاں اُس کے خیال میں حلال رزق کمایا جاتا تھا۔ ضرورت مند ہونے کے باوجود گھر کے مالکان سے زکوۃ کی رقم لینے سے انکار کر دیتی تھی، اس لیے لوگ اس کی زکوۃ سے مدد کرتے، لیکن ظاہر نہ کرتے تھے۔ وہ جس گھر میں کام کرتی، غیر ضروری طور پر پانی بہانا یا غیر ضرورت بلب یا پنکھے چلانا اسے پسند نہ تھا۔ وہ کسی گھر میں نماز کے لیے وضو کرتی تو لوٹے یا بڑے مگ میں پانی بھر کر استعمال کرتی۔ ٹوٹی کھول کر نل سے وضو کرنا اسے پسند نہ تھا۔ اُس کی یہ عادت کئی گھروں میں تقلید کا باعث بنی۔ گھر کے بڑوں نے نہ صرف یہ عادت اپنائی اپنے چھوٹوں کو بھی اس طرف توجہ دلائی۔ عیدین میں عیدی کے لئے ہاتھ پھیلا نا اسے اچھا نہیں لگتا تھا۔ دوسرے گھروں میں ماسیاں عیدی اور نئے جوڑے کپڑے کی فرمائشیں کرتیں، لیکن زنیاں سلام اور مبارک باد تک خود کو محدود کرتی۔ گھر کی مالکن خود کچھ دے دیتی تو وہ شکر یہ کہہ کرلے لیتی، اس لیے وہ جہاں جہاں کام کرتی ، اسے خاندان کے ممبر کی طرح سمجھا گیا، غیر نہیں۔ کبھی کسی گھر کے تمام لوگوں کو کسی تقریب میں شرکت کرنی ہوتی تو وہ زنیاں کو گھر کی چوکیداری کرنے کی ذمے داری دے کر چلے جاتے۔ ایسا اکثر ہوا کہ گھر کے سب افراد پکنک منانے کسی فارم ہائوس گئے اور رات وہاں گزاری، زنیاں ان کے گھر میں نگہبانی کے لیے موجود رہی۔ اس کے تین بچے تھے ، دولڑکیاں اور ایک لڑکا۔ بڑی بیٹی ناز و بارہ سال کی تھی۔ وہ گھر میں اپنی چھوٹی بہن بھائی کو سنبھالتی۔ اُن کے لیے دو پہر اور رات کا کھانا بنانا بھی اس کے ذمے تھا۔ زنیاں، ناز و کو کسی گھر میں ماسی کی ذمے داری سنبھالنے کے لیے تربیت کر رہی تھی۔ اسے کسی ایسے گھر کی تلاش تھی جو بھروسے کے لائق ہو۔ زنیاں کا شوہر اپنے دونوں پائوں سے محتاج تھا۔ ایک کنسٹرکشن کمپنی میں ملازمت کے دوران اوپر کی منزل سے بھاری سلیب گرنے سے اُس کے دونوں پائوں اتنے مجروح ہوئے کہ وہ معذور ہو گیا۔ کنسٹر کٹر نے ہیں ہزار روپے دے کر اس کی ملازمت ختم کرادی۔ اس کے شوہر کے دوست اچھے چال چلن کے نہ تھے۔ پان سگریٹ کے عادی، سینما کے شوقین۔ اداکارائوں ، ماڈل گرلز اور ہیروئنوں کی گھریلو زندگی کی سنی سنائی گھنائونی کہانیوں میں خود بھی اپنی طرف سے اضافہ کر کے مزے لے لے کر سناتے اور خوابوں کی دُنیا میں رہتے۔ اُن کی جیبوں اور والٹ میں کسی نہ کسی ملکی یا غیر ملکی ہیروئن یا ماڈل کی تصویر ہوتی۔ ایک دوست کے پاس اسمارٹ فون بھی تھا۔ وہ اپنے دوستوں کو بے ہودہ تصویریں دکھا کر ورغلایا کرتا تھا۔ جن دوستوں کے گھروں میں ٹی وی تھا، وہ اُس پر دیکھی خبریں سب کو سناتے۔ کہنے کو وہ بُرائی کا تذکرہ کر کے مذمت کیا کرتے لیکن ان کے انداز بیان سے ان کے دل کی حسرتیں بھی واضح ہو جاتی تھیں۔ زنیاں ایک امیر گھر میں ماسی کا کام کرتی تھی۔ یہاں رہنے والے بوڑھے ماں باپ کو امریکا میں مقیم بیٹوں نے بلا لیا تو وہ مکان فروخت کر کے منتقل ہو گئے۔ زنیاں کو ان کے جانے کا بڑا رنج تھا۔ اس خاندان سے اس کی اچھی مالی مدد ہو جاتی تھی۔ اُس نے آناں صدیق سے اُس کا ذکر کیا تو انہوں نے اپنی ایک جاننے والی خاتون فائقہ سے بات کی۔ فائقہ کی ایک کزن ماہ رخ اچھی ملازمہ کی تلاش میں تھی۔ زنیاں اس کے گھر میں ماسی بننے کے لیے تیار ہو گئی۔ ماہ رخ دو منزلہ گھر میں رہتی تھی۔ گرائونڈ فلور پر منجھلا اور پہلی منزل پر چھوٹا دیور رہتے تھے۔ گرائونڈ فلور کی ایک الگ ماسی تھی۔ چھت کے اوپر ایک کمرہ بنا ہوا تھا۔ اُس میں گھر کا سب سے بڑا بیٹا شاکر علی رہتا تھا۔ شاکر پندرہ سولہ برس اس میں گھر کا سب سے بڑا بیٹا شاکر علی رہتا تھا۔ شاکر پندرہ سولہ برس سے ذہنی عدم توازن کا شکار تھا۔ وہ کبھی کبھی ہفتوں نارمل انسان کی طرح نظر آتا لیکن پھر جب بگڑتا تو سنبھالے نہیں سنبھلتا۔ اس کے دونوں چھوٹے بھائی اسے قابو کرنے کے لیے بید کی چھڑی سے پٹائی کر دیتے۔ وہ مار سے ڈرتا تھا۔ فوراً معافی مانگ لیتا۔ دو بار اسے اسپتال میں بھی داخل کرنا پڑا۔ نفسیاتی اسپتال مضبوط گرل کے پیچھے سخت گیر نگراں عملے سے وہ پناہ مانگتا۔ اُس کا دو بار الیکٹرک شاک سے علاج بھی کیا گیا۔ اسپتال کا عملہ قابو کر کے انجکشن لگادیتا اور شاکر کی ساری اکر دُور ہو جاتی۔ اُس کو دوا پابندی سے کھانی ہوتی تھی لیکن وہ اکثر لا پروائی کرتا، دوا چھوڑ دیتا یا کم مقدار میں کھاتا۔ ایسے ذہنی مریض جھوٹ بھی بہت بولتے ہیں۔ اس کے غیر ذمہ دارانہ رویئے سے اُس کی بیماری میں شدت پیدا ہو جاتی تھی۔ زنیاں کو ماہ رخ کا کمرہ، باورچی خانہ ، ساس کا کمرہ اور دو باتھ روم صاف کرنے ہوتے تھے۔ ماہ رخ نے زنیاں کو بتایا کہ بڑا دیور اپنے کمرے میں وی سی آر پر فلمیں دیکھتا تھا۔ یہ فلمیں کرایے پر لی جاتی تھیں۔ آج انٹرنیٹ کے زمانے میں وی سی آر کی ٹیکنالوجی پرانی ہو گئی ہے۔ دونوں بھائیوں نے بڑے بھائی شاکر علی کو اسمارٹ فون سے دور رکھا ہوا تھا۔ اس کو مصروف کرنے کے لیے دُور کے کسی محلے سے وی سی آر پر فلمیں حاصل کی جاتی تھیں۔ اسمارٹ فون ہو یا وی سی آر دونوں میں شیطان صفت افراد نے بے راہ روی کا بہت بڑا حصہ آپ لوڈ کر رکھا ہے۔ شاکر ایسی فحش فلمیں ہی نہیں دیکھتا تھا، بلکہ گالیاں بھی بکتا تھا۔ وہ اپنی ماں سے بھی لچر گفتگو کرتا۔ بے چاری ماں تھی، ضبط کر جاتی۔ وہ اکثر اپنی جان لینے ، خود کشی کرنے اور گھر کو آگ لگا کر سب کچھ تباہ کرنے کا ڈراوا دیتا۔
سب لوگ اس بات سے خوفزدہ رہتے تھے۔ ماورخ نے ماسی زناں کو خبر دار کر دیا کہ شاکر کے کمرے میں نہ جانا۔ زنیاں فرسٹ فلور کے کمرے ہی صاف کرتی، سیکنڈ فلور جانے کا کبھی خیال نہ آیا۔ اس گھر میں بڑی بی کا راج تھا، وہ زنیاں پر نہ بیکار سختی کرتی تھی۔ کام پورا لیتی تھی۔ زنیاں ماہ رخ کے اچھے سلوک کی وجہ سے اس گھر میں کام کرتی رہی۔ دو تین ہفتوں سے اس نے محسوس کیا کہ بڑی بی کا رویہ کچھ بدل رہا ہے۔ اب وہ اکثر بچا ہوا سالن اس کو دے دیتی اور اس سے میٹھی میٹھی باتیں کرنے لگی تھی۔ زنیاں کو اس گھر میں کام کرنا اس لیے بھی اچھا لگتا تھا کہ یہ بس اسٹاپ سے بہت نزدیک تھا۔ آنے جانے میں بہت آسانی تھی۔ یہاں سے ایک ہی بس اس کے گھر کی طرف بھی جاتی تھی۔ اس کی بڑی بیٹی نے گھر سنبھالا ہوا تھا اس لیے وہ بڑی بے فکری سے گھروں کے کام کرتی رہتی۔ اس کا شوہر اپنے سامان کا تھیلا اُٹھا کر بے ساتھیوں کے سہارے گھر سے تھوڑی دور نالے پر بنے پل کے نزدیک چٹائی بچھا کر بچوں کی چیزیں بیچا کرتا تھا۔ روز ستر اسی روپے کی آمدنی ہو جاتی تھی اور وہ اسے سگریٹ پی کر ٹھکانے لگا دیتا۔ گھر چلانے میں اُس کا کوئی قابل ذکر حصہ نہ تھا۔ معذور دیکھ کر کبھی کبھی کوئی ہیں تیس روپے کی بھیک بھی دے دیتا تھا۔ خیرات بچوں کی چیزیں بیچنے سے زیادہ بن جاتی تھی۔ زنیاں اپنے حالات میں اتنی گھری ہوئی تھی کہ اسے کبھی لگی بندھی زندگی سے باہر نکلنے کا خیال نہیں آیا۔ ادھر ماہ رخ کی ساس کا رو یہ تبدیل ہوتا رہا۔ آخر وہ دن بھی آگیا کہ زنیاں کو اس گھر کی ملازمت چھوڑنی پڑی۔ وہ یہاں سے بھاگ کر آماں صدیق کے مکان پر پہنچی۔ پھولی سانسوں، غم اور رنج کا طوفان اٹھائے گلو کوز پی کر دل گھبرانے کا بہانہ بنا کر چلی گئی۔ اس واقعے کے ایک مہینے بعد آماں صدیق کو فائقہ نے فون پر بتایا کہ زنیاں نے ماہ رخ کے گھر کا کام کرنا چھوڑ دیا۔ فائقہ نے آماں صدیق سے شکایت کی۔ زنیاں نے کام چھوڑنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔ پچیسں دن کی تنخواہ بھی نہیں لی۔ آج زنیاں جب کام کرنے آئی تو انہوں نے اس سے پوچھا۔ زنیاں ! کیا ہوا؟ ماه رخ بی بی کے گھر کام کیوں چھوڑا؟ ابھی تھوڑی دیر پہلے فائقہ نے مجھے دوسری بار فون کیا ہے۔ پتا ہے اس نے کیا بتایا…؟ کیا بتا یا اماں !“ تم نے بڑی بی کے کمرے سے سونے کا ہار اور سونے کی بھاری انگو ٹھی چرائی ہے ، اس لیے کام کرنے نہیں آرہی ہے۔ بھاگ گئی ہے۔“ یہ سن کر زنیاں کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ یہ بڑی بی نے کہا ہو گا۔ یہ بڑھیا ایک نمبر کی جھوٹی ہے ، ظالم … بے ہودہ عورت …. اس کی بات پوری نہیں ہوئی گھر کی ڈور بیل بجی۔ زنیاں دیکھ کون آیا ہے دیکھ کر دروازہ کھولو۔ “آناں نے کہا۔ زنیاں نے دروازہ کھولا اور فائقہ عبایا پہنے اندر آگئی۔ زنیاں نے اس کے آتے ہی کہاں صدیق سے کہا۔ ”ہاں میں کچھ کام کر کے آتی ہوں ، تب تک آپ فائقہ بی بی سے بات کر لیں۔“ آماں صدیق کے کچھ کہنے سے پہلے فائقہ نے زنیاں کا ہاتھ پکڑ کر روک لیا اور کہنے لگی۔ ٹھہر وہ مجھے تم سے کام ہے ، بات کرنی ہے۔“ زنیاں نے ہاتھ چھڑانے کی ناکام کوشش کی لیکن پھر اماں کی آواز بھی آئی۔ فائقہ اور ماہ رخ دونوں تمہارے لیے پریشان ہیں۔ تم بات کر کے جائو۔“ فائقہ کی زنیاں کے ہاتھ سے گرفت بہت سخت تھی۔ وہ بڑی بے دلی سے آمادہ ہو گئی۔ اماں اور فائقہ برآمدے کی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ زنیاں ذرا ہٹ کر تخت نما چوکی پر بچوں کی کتابیں ہٹا کر بیٹھ گئی۔ فائقہ نے زنیاں سے مخاطب ہو کر محبت اور نرمی سے بات شروع کی۔ سنو زنیاں ! یہ میں کیا سُن رہی ہوں ؟ تم ماہ رخ بی بی کے گھر سے سونے کا ہار اور انگوٹھی چرا کر بھاگ گئی ہو ؟ پولیس کے ڈر اور گرفتاری سے بچنے کے لیے ان کے گھر کا کام چھوڑ دیا؟“ زنیاں کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ اس کی زبان سے کچھ نہیں نکلا، وہ بس نفی میں گردن ہلاتی رہی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ، تب فائقہ نے پھر پوچھا۔ زنیاں بتائو ! کیا یہ سچ ہے ؟ تم نے ان کے سونے کا ہار اور انگو ٹھی چوری کر کے چھپالی ہے۔ بتائو ، سچ سچ بتائو ۔ “ آمال صدیق آپ خود بتادیں۔ کیا میں نے پہلے بھی کبھی کسی کے گھر میں چوری کی ہے ؟“ دو نہیں زنیاں، لیکن سونے کا ہار اور انگوٹھی کچھ نہیں تو ستر اسی ہزار کے تو ہوں گے۔ ہزاروں کا مال کسی کی نیت خراب ہوتے کا نے کتنی دیر لگتی ہے۔ تم تو غریب ہو… ضرورت مند بھی۔“ آمال صدیق ! زنیاں ایسا کام کبھی نہیں کرے گی۔“ زنیاں کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ روتے روتے اس نے کہا۔ ” میں لعنت بھیجتی ہوں ایسے کام پر ، چوری پر اللہ کرے چوری کرنے والے کو جہنم کی سزا ہو جس میں وہ ہمیشہ پڑا رہے۔“ زنیاں ، اب سچ سچ بتائو ۔ کھل کر بتائو کہ تم کام پر کیوں نہیں جا رہیں ؟ پیسے کی ضرورت سب کو ہے۔ تم نے پچیس دنوں کی تنخواہ بھی چھوڑ دی۔ کیا تمہیں اپنی محنت کے پیسے نہیں جائیں؟زنیاں مسلسل روئے جارہی تھی۔ اس سے جواب نہیں بن پڑ رہا تھا۔ آخر اس کی زبان سے نکلا۔ میں بے قصور ہوں۔ میں نے کوئی چوری نہیں کی … زنیاں تم ٹھیک کہہ رہی ہو گی لیکن میں سچ سننا چاہتی ہوں۔“ فائقہ نے اس پر سے نظریں ہٹائے بغیر کہا۔ آماں صدیق نے اپنی کرسی چھوڑ دی اور زنیاں کے پاس جا کر تخت پر اس کے ساتھ جا بیٹھیں۔ روتی ہوئی عورت کو سینے سے لگایا، پیٹھ سہلائی۔ اتنی محبت پا کر زنیاں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ ماں صدیق مجھے بچا لیجئے۔ میں چور نہیں ہوں. میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔ میں نے ماہ رخ بی بی کے گھر سے ایک تنکا بھی چوری نہیں کیا۔ اماں مجھے بچا لیجئے۔ “ پانچ سات منٹ گزر گئے۔ زنیاں اماں صدیق کے سینے سے لگی ، زور زور سے روتی رہی۔ اس کی سانسیں دھونکنی کی طرح چلتی رہیں۔ اماں صدیق کا شفقت بھرا ہاتھ اس کی پیٹھ سہلاتا رہا۔ فائقہ اس صورت حال میں چپ ہو کر بیٹھ گئی تھی۔ اماں صدیق نے پھر ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے چپ رہنے اور ریفریجریٹر سے ٹھنڈا پانی لانے کے خاموش اشارے گئے۔ فائقہ پانی لینے چلی گئی۔ اماں صدیق اپنے دوپٹے سے زنیاں کے آنسو خشک کرنے میں مصروف ہو گئیں۔ ننھے بچے اور بچیوں کے قرآن ناظرہ پڑھنے کا ٹائم شروع ہوا چاہتا تھا۔ گھر کے باہر شاید بچے آ بھی گئے تھے۔ فائقہ نے دروازہ کھولا۔ ایک بچہ ڈرتے ڈرتے اندر داخل ہوا۔ اماں نے اسے اشارے سے اپنے پاس بلایا اور کہا۔ ” حسن سنو ! آج میں مصروف ہوں۔ تم باہر کھڑے ہو جائو اور جو بھی پڑھنے آئے اسے گھر بھیج دو۔ آج تم سب کی چھٹی کل وقت پر آجانا۔“ اس سے فارغ ہو کر وہ زنیاں سے پھر چمٹ گئیں اور بولیں۔ زنیاں میری اچھی بچی ! تم کچھ بتانا نہیں چاہتیں تو بالکل زور نہیں دوں گی۔ میں فائقہ کو بھیج کر ماہ رخ سے تمہاری پچیس دن کی تنخواہ منگوالوں گی۔ تمہیں وہاں جانا نہیں پڑے گا۔ جانے کی کوئی ضرورت بھی نہیں ۔ تم بالکل پریشان نہیں ہونا۔ مجھے یقین ہے تم نے چوری نہیں کی ہو گی بلکہ میرا خیال ہے تم نے زیور دیکھے بھی نہیں ہوں گے۔ فائقہ پانی مجھے دے دو۔ میں زنیاں کو پلا دوں گی۔ میری بچی رورو کر ہلکان ہو گئی ہے۔“ پانچ منٹ اور گزر گئے۔ صدیق کی صلح جو طبیعت اور مصلحتوں سے واقعہ کو سنبھالنے کے انداز سے کشیدہ فضا معمول پر آنے لگی۔ زنیاں، آماں صدیق کی آغوش سے نکل کر فائقہ کی طرف متوجہ ہو گئی۔ ایسا لگتا تھا کہ اب وہ فائقہ کی ہر بات کا جواب دے دے گی۔ پھر آماں صدیق نے دیکھا۔ زنیاں نے اُٹھ کر فائقہ کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑ لیے۔ فائقہ بی بی ! آپ میری محسن ہیں۔ آپ نے اس گھر میں کام دلوایا۔ آپ کی بہن ماہ رخ بی بی بھی میری محسن ہیں۔ وہ اتنی محبت کرنے والی، اتنی عزت دینے والی بی بی ہیں۔ ان کے لیے میرے دل سے دُعائیں نکلتی ہیں۔ ان کا کوئی بچہ نہیں ہوا۔ وہ اس بارے میں فکر مند رہتی ہیں۔ مجھے بہت افسوس ہوتا ہے۔ میں ان کے لیے ہر نماز کے بعد دُعا کرتی ہوں۔“ آماں صدیق اور فائقہ دونوں خاموشی سے اس کی طرف متوجہ تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ زنیاں کے دل میں جوش مارتا اونچی لہروں والا نشیب کی طرف بہتا دریابند توڑنے میں کامیاب ہو گیا۔ رستہ پاکر یہ دریا اس کے منہ سے نکل پڑا۔ اس کی خاموش زبان ساری داستان سنانے کے لیے تیار ہو گئی۔
آماں جی، فائقہ بی بی جی … کیا بتائوں ! ماہ رخ بی بی ہمیشہ گھر میں رہتی ہیں، کہیں باہر نہیں جاتیں۔ کبھی جاتی ہوں گی تو مجھے نہیں معلوم … وہ میرے کام کے وقت ضرور گھر پر ملتیں، اپنی نگرانی میں سارے کام کرواتیں۔ اپنی ساس کا کمرا، ان کا باتھ روم ، ہر روز صاف کرواتیں پھر اپنی ساس سے پوچھی یوں کہ آہاں ! زنیاں نے سب کام کر لیانا …؟ ساس ماہ رخ بی بی سے محبت کرتی ہیں۔ فرسٹ فلور میں سب کام ماہ رخ بی بی مادر سے ہی کرتی ہیں۔ مہمان آتے تو بڑی بی بی سے ملنے آتے۔ ان کی مہمان داری ان کے کھانے پینے کا خیال ، ان کی مزاج پرستی ماه رخ بی بی کرتیں۔ میں نے خود دیکھا اور ماہ رخ بی بی سے پتا چلا کہ کھانے پینے، صفائی ستھرائی سب ساس صاحبہ سے اجازت لے کر ان کی مرضی کے مطابق ہوتا تھا۔“ زنیاں کی زبان کھل گئی تھی، اس لیے آماں صدیق اور فائقہ نے اس کی گفتگو میں کوئی مداخلت نہیں کی۔ اب وہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئی۔ دونوں عورتیں چپ چاپ بیٹھ رہیں۔ فائقہ نے دیکھا۔ زنیاں کی دونوں مٹھیاں سختی سے بند تھیں۔ اس کے چہرے سے کرب کے آثار نمایاں نظر آنے لگے۔ فائقہ بی بی سنے ! زنیاں نے بات پھر شروع کی۔ ”ساس صاحبہ کام کرواتیں تو طعنے بھی دیتی جاتیں۔ بولتیں، ، نمک حرام اچھی طرح کام کر ! ٹالو کام نہ کر۔ تنخواہ میں سے پیسے کاٹ لوں گی۔ اس بڑھیا کی باتیں مجھے بہت بری لگتیں لیکن میں کچھ نہ بولتی۔ ماہ رخ بی بی نے مجھے سمجھادیا تھا کہ بڑی بی کچھ بھی کہے تم پلٹ کر جواب نہ دینا۔ میں نے یہی کیا۔ میری تنخواہ اچھی تھی۔ ماہ رخ بی بی اتنی عزت کرتی تھیں کہ میں بڑی بی کی گالیاں پی جاتی تھی ، لیکن ایسا کیا ہوا مجھے پتا نہیں۔ مجھے بڑی بی میں تبدیلی نظر آنے لگی …کیسی تبدیلی …؟ فائقہ کی زبان سے بے ساختہ نکلا۔ اماں نے ہاتھ کے اشارے سے آگے بات کرنے سے روک دیا۔ زنیاں نے فائقہ کے ٹوکنے کو نظر انداز کر دیا۔ بات جاری رکھی۔ میں نے محسوس کیا کہ بڑی بی اب مجھے نہ علمی بولتیں اور نہ ہی کام چور ۔ وہ اپنا کمرا اچھی طرح صاف کرواتیں، باتھ روم دھلواتیں اور پچاس روپے میرے ہاتھ میں تھمادیتیں، کبھی زیادہ بھی دے دیتیں۔ کہیں کہ بس کا کرایہ رکھ لو۔ میں خوش ہو جاتی۔ یہ روپے میرے لیے بڑی نعمت تھے۔ اس طرح تین ہفتے گزر گئے۔ اب کبھی کبھی بڑی بی رات کا بچا سالن بھی مجھے دے دیا کر تیں۔ ایک دن سالگرہ کا کیک بھی کھانے کو ملا۔ بڑی بی نے اپنے ہاتھ سے میرے منہ میں کیک ڈالا، پھر کہنے لگیں کہ یہیں کھالو، گھر لے کر نہیں جانا۔ فائقہ نے مجھے خبر دار کر دیا تھا کہ بڑی بی بہت میٹھی چھری ہیں، ذرا سنبھل کر رہنا۔ وہ کچھ بھی کر سکتی ہیں۔“ زنیاں کی آنکھیں اب خشک ہو گئی تھیں۔ اس کی گفتگو میں اعتماد آگیا تھا۔ بڑی بی ہر روز میرے گھر کے بارے میں ، بچوں اور شوہر کے متعلق کچھ نہ کچھ بات کرتیں۔ انہوں نے ایک بار نہیں، کئی بار کرید کرید کر پوچھا کہ میرا شوہر معذور کیسے ہو گیا؟ آج تک اتنی محبت سے کسی نے نہ پوچھا تھا۔ میں نے تفصیل سے سارا واقعہ بتایا۔ ایک بڑی بلڈ نگ بنانے والا ٹھیکیدار جو مالک کا بھائی تھا، بڑا ظالم تھا۔ ڈانٹ ڈپٹ کر میں ہزار دیئے ، کام سے نکالا اور الٹا الزام لگادیا۔ اوپر سے ملبہ گرنے کی جگہ سب مزدوروں کو دکھادی گئی۔ انہیں اس جگہ سے دور رہنے کو کہا اور بولا کہ میرے شوہر دینو کو بھی بتادیا تھا کہ یہاں کھڑے نہ ہونا۔ یہ اس نے غلط کہا تھا۔ اگر اس نے میرے شوہر کو خبر دار کیا ہوتا تو وہ وہاں سے ہٹ کیوں نہ جاتا۔ بڑی بی نے مجھ سے ہمدردی کے لیے ٹھیکیدار کو جی بھر کے گالیاں دیں۔“ بولتے بولتے اس کی زبان پھر خشک ہو گئی۔ اس نے خود ہی ٹھنڈی بوتل اٹھا کر گلاس میں پانی بھرا اور گھونٹ گھونٹ پی گئی، پھر اس کی زبان سے ایک فقرہ نکلا۔ آخر وہ منحوس دن بھی آگیا … منحوس دن …؟ فائقہ کی زبان سے بے ساختہ نکل گیا۔ ”ہاں بھی، منحوس دن … منحوس سے بھی زیادہ خراب دن …. فائقہ بی بی ! آماں ، آپ بھی سنیں۔“ زنیاں نے تخت پر بیٹھے بیٹھے آماںصدیق کی طرف چہرہ کیا، جو ان کے پاس ہی بیٹھی تھیں ، اور ان کا ہاتھ تھاما۔ کبھی اس کی گرفت سخت بھی ہو جاتی تھی۔ اس دن ماه رخ بی بی لیڈی ڈاکٹر کے پاس گئی ہوئی تھیں۔ میں چار مہینے سے اس گھر میں کام کر رہی تھی اور یہ پہلا دن تھا جس میں ماہ رُخ بی بی گھر پر نہیں تھیں۔ آہاں صدیق مجھے معاف کرنا، میں نے آپ کو پہلے نہیں بتایا بلکہ جھوٹ بھی بولا تھا۔ سنیے ! اس دن وہ بڑھیا گھر میں اکیلی تھی۔ وہ مجھے اپنے کمرے میں لے گئی۔ کہنے لگی، زنیاں آج تیرا کام ہلکا ہے بلکہ کام ہے ہی نہیں۔ میرا کمرہ ٹھیک ہے ، باتھ روح بھی صاف ہے۔ تو روز کام کر کے تھک جاتی ہو گی ، آج ہیں مجھے کو لا پلاتی ہوں، بریانی بھی کھلاتی ہوں۔ بریانی بھی شادی کی … نیچے منجھلا بیٹا رہتا ہے۔ اس کی بیوی فریدہ سے تم تو ملی ہونا … ! کل رات اس کی چھوٹی بہن کی شادی تھی۔ کھانا بہت بچ گیا، مجھے بھی اچھا خاصامل گیا۔ تم یہاں پیٹ بھر کے کھانا، اپنے گھر کے لیے بھی لے جانا۔ جی بھر کے سب کھا ئیں گے تو مزہ آجائے گا۔ میٹھے میں گلاب جامن بھی ہیں، وہ بھی لے جانا۔ بڑی بی نے ریفریجریٹر کھول کر پلاسٹک کے ایک بڑے شاپر یہیں سے پلیٹ بھر کر چاول نکالے ، اس پر چکن کی بڑی بڑی بوٹیاں رکھیں اور کچن میں رکھے مائکرو ویو اوون میں گرم کر کے ڈائننگ ٹیبل پر رکھ دیا۔ بریانی وہ بھی شادی ہال سے آئی ہوئی، کمرہ خوشبو سے بھر گیا۔ میں نے دو پہر کھانا کھا لیا تھا۔ بریانی دیکھ کر دل ایسا مچلا کہ پلیٹ میں نکالے سب چاول مزے لے کر کھا لئے۔ کوک کی بوتل سے گلاس بھرا، وہ بھی پی لیا اور بڑی بی کے آگے صوفے پر بیٹھ کر اللہ کا شکر ادا کرنے لگی۔ پیٹ بھر گیا تھا۔ گھر کے لیے بھی اتنی ڈھیر ساری بریانی ملنے والی تھی۔ میرا تو بچوں کی رات بھی عیش میں گزر جائے گی۔ فائقہ بی بی ! ماہ رخ بی بی نے کہا تھا کہ بڑی بی بہت میٹھی چھری ہے۔ ان کے لہجے میں اتنی نرمی تھی، اتنا پیار تھا۔ وہ مجھ سے ایسے بات کر رہی تھی جیسے میں نوکرانی نہیں ، ان کی رشتے دار ہوں۔ وہ کہنے لگی ، زنیاں میرے پیروں میں بہت درد ہے، سیڑھیاں چڑھنا نہیں چاہتی۔ تم او پر جا کر یہ بریانی میرے بیٹے کو دے آئو اور کمرے سے باہر اس کا باتھ روم ہے ، اسے بھی صاف کر دو۔ بس اتنا سا کام ہے۔ ان کا لہجہ اتنا میٹھا تھا میں بغیر سوچے سمجھے تیار ہو گئی۔ آناں صدیق اور فائقہ بی بی ! آپ کو بتائوں، بڑی بی نے پھر کیا کیا … اپنی الماری سے سو سو کے پانچ چھے نئے نوٹ نکال کر کھانے کی میز پر رکھے ، فریج میں سے بریانی کا بڑا شاپر نکالا اور وہ بھی نوٹوں کے پاس رکھ کر کہنے لگیں کہ گھر جائو تو بریانی لے جانا اور یہ پیسے بھی۔ “ اب زنیاں تھوڑی دیر کے لیے پھر خاموش ہو گئی۔ اماں صدیق نے اس کے سر کو مضبوطی سے پکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔ اس کو اطمینان ہو گیا کہ وہ جس گھر میں بیٹھی ہے ، وہاں اس کے خیر خواہ ہیں، ، غم بانٹنے والے۔ اس کا اعتماد لوٹ آیا۔ اس نے اپنی بات جاری رکھی۔ بریانی کی پلیٹ اُٹھائی اور سیڑھیاں چڑھ کر او پر ان کے بیٹے کو دینے چلی گئی۔ مجھے کیا پتا تھا میں شیطانی چکر میں پھنس جائوں گی۔ ان کا بیٹا ایک چادر لپیٹے بستر پر بیٹھا تھا۔ میں نے کھانے کی پلیٹ کمرے میں رکھی اور واپس لوٹنے لگی تو اس شیطان نے اپنے اپنے جسم کو ڈھانکنے والی چادر اٹھا کر پھینک دی اور تیزی سے آکر اپنی بانہوں میں مجھے جکڑ لیا۔ میں ایسی صورت حال کے لیے تیار نہ تھی۔ اس کی مکار آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ اس کے دونوں بازوئوں کی پکڑا تنی سخت تھی کہ میں اس کے ہاتھوں میں جھول گئی۔ آناں جی میری کوئی نیکی اللہ میاں کو اچھی لگی ہو گی۔ میرے ذہن میں ایک خیال آیا۔ میرے دل سے دُعا نکلی، اللہ سے رحم کی دُعا، شیطان سے بچنے کی دعا میں حیران ہوں اور اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ میری زبان سے کس طرح یہ الفاظ نکلے ۔ ٹھہر جلدی نہ کرو۔ کپڑے پھٹ گئے تو کیا پہن کر گھر جائوں گی۔ باتھ روم جانے دو، پھر دیر تک تمہارے پاس رہوں گی۔ مجھے یاد نہیں بی بی میرے الفاظ کیا تھے۔ میں نے ایسا ہی کچھ کہا ہو گا۔ وہ میرے جال میں آگیا۔ اس نے اپنی پکڑ چھوڑ دی۔ میں پیچھے دو قدم ہٹ گئی، ہاتھ کے اشارے سے اسے رکنے کو کہا۔ اسے یقین ہو گیا ہو گا کہ میں باتھ روم جا کر واپس آجائوں گی۔ اس طرح میں اس کے کمرے سے نکل گئی۔ یہ سب کیسے ہوا مجھے بالکل نہیں معلوم .. میں نے کمرے سے نکل کر دروازے کے دونوں پیٹ کھینچ کر فوراً بند کیے اور باہر سے بولٹ لگادیا۔ دروازہ بہت مضبوط لکڑی کا بنا ہوا تھا۔ آسانی سے کھل نہیں سکتا تھا، نہ توڑا جا سکتا تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ میں نے اس کو کمرے میں بند کر دیا ہے۔ وہ دروازے سے زور آزمائی کر کے چیخنے چلانے لگا۔ ماں بہن کی گالیاں … اور جانے کیا کیا کہ دیا۔ میں اس سے بچ کر نکل گئی۔ نیچے اترنے کے لیے بھاگی لیکن معلوم ہو ا سیڑھیوں سے اُترنے کا گیٹ دوسری طرف سے بند تھا۔ بڑی بی نے میرے فرار ہونے کا راستہ روک دیا تھا۔ بہت خبیث عورت تھی۔ میں اس شیطان سے تو بچ گئی۔ وہ ذلیل آدمی کمرے سے گالیاں دے رہا تھا پھر اس نے اپنی ماں کو آواز یں دیں۔ اماں مجھے کمرے سے نکالو۔ وہ کمینی مجھے کمرے میں بند کر کے باہر بیٹھی ہے۔ یہ لوگ اوپر نیچے فون پر باتیں کرتے رہتے ہیں۔“ ہاں ہاں … فائقہ بیچ میں بول پڑی۔ ” مجھے معلوم ہے ، ان کے گھر میں انٹر کام ہے۔ یہ لوگ آپس میں باتیں کرتے رہتے ہیں۔ پھر کیا ہوا زنیاں ! ہونا کیا تھا۔ بڑی بی فون سن کر سیڑھیاں چڑھ کر اپنے بیٹے کی مدد کو آئی۔ بولٹ ہٹا کر وہ جیسے ہی آئی، میں نے اسے دھکا دے کر ایک طرف گرادیا اور سیڑھیوں کے کھلے گیٹ سے نیچے اتر گئی اور لوہے کے دروازے میں بولٹ لگا کر ان لوگوں کے اترنے کا راستہ بند کر دیا۔ اب بیٹے کے ساتھ ماں کی زبان سے گالیاں سننے کو مل رہی تھیں۔ بڑی بی اتنی مکار عورت تھی، چیخ چیچ کر مجھے سُنانے لگی۔ پولیس میں رپورٹ کروں گی، چوری کا پرچہ کٹوائوں گی، پیسے اور زیور چوری کر کے بھاگ گئی۔ میں وہاں سے فرار ہو کر آگئی۔ بڑی بی کی میرے لیے میز پر رکھی بریانی کسی اور نوٹ سب وہیں رہ گئے۔ اس کے بعد میں بس پکڑ کر کسی نہ طرح آماں صدیق کے گھر آ گئی۔ آگے کی بات آماں کو پتا ہے۔ میں نے آماں سے جھوٹ بولا۔ جو کچھ ہوا اسے چھپالیا… اب زنیاں پھر سے آماں صدیق سے لیٹ کر زور زور سے رونے لگی۔ آماں صدیق نے اس کی پیٹھ سہلائی۔ شکر کرو تم بچ گئیں۔ انہوں نے کہا کہا۔ آماں آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ زنیاں بے آبرو ہونے سے بچ گئی۔ اب آپ لوگ آگے کی سُنو ! جیسی کرنی ویسی بھرنی … مجھے ماہ رخ نے بتایا کہ اس کے دیور شاکر علی کا دماغ پھر الٹ گیا۔ ایک روز اس نے اپنے علاج کی دو تین دن کی دوا ایک ساتھ کھالی تا کہ آرام آئے۔ سکون اور نیند کی دوا زیادہ ہو گئی تو وہ بستر پر ڈھیر ہو گیا۔ بعد میں اُٹھا تو باتھ روم کے فرش پر گر پڑا۔ کولہے کی ہڈی میں فریکچر ہو گیا۔ اس کے گرنے اور باتھ روم میں تڑپنے کو آٹھ دس گھنٹے گزر گئے تب بھائیوں کو اور ماں کو پتا چلا۔ جیسے تیسے کر کے اسپتال لے گئے ، آپریشن کر کے ہڈی سیٹ کی۔ اب وہ بستر پر معذور پڑا ہوا ہے۔ ماں اور بھائیوں کو گالیاں دیتا رہتا ہے ، بڑ بڑاتا رہتا ہے۔ ماں اس کو کھانا کھلانے جاتی ہے، اس کی گندگی صاف کرتی ہے اور روتی رہتی ہے۔ ماہ رخ کہتی ہے وہ اب نماز پڑھنے لگی ہے، پہلے جیسی نہیں رہی۔ خاموش رہتی ہے۔“ آناں صدیق نے کہا۔ ” فائقہ کچھ بھی ہو، اللہ اس عورت پر کرم کرے۔“ آماں آپ یہ سب کچھ جاننے کے بعد بھی اس کے لیے دُعا کر رہی ہیں ؟ اس ظالم عورت …. اس سازشی بڑھیا کے لیے …؟ فائقہ بولی۔ ”ہاں فائقہ … وہ ماں ہے ، عورت ہے۔ اس کا شوہر زندہ ہوتا تو شاید یہ سب کچھ نہ ہوتا۔ یہ روگ اس کی جان کو چمٹ گیا ہے۔ نہ اسے زہر دے کر ہلاک کر سکتی ہے، نہ زندہ رہنے میں اس کی خاطر خواہ مدد۔ تم ہی بتائو ! کیا میں اس کے لیے زبان سے کوئی کلمہ خیر نہ نکالوں۔ ایسی آزمائشوں سے ہمارا پالنے والا سب کو محفوظ رکھے۔ وہ نماز پڑھنے لگی ہے۔ شاید اسے اپنے بیٹے کے لیے ، اس کی تسکین کے لیے کی جانے والی غلطی کا احساس ہو گیا ہو گا۔ کیا معلوم اس نے اللہ کے آگے سجدے میں گر کر توبہ کر لی ہو ! کیا بتا خالق کا ئنات نے اسے معاف کر دیا ہو۔ یہ روگ اس کی جان لو چمٹ لیا ہے۔ . ! کیا پتا خالق کا ئنات نے اسے معاف کر دیا ہو۔ زنیاں تم بھی اسے معاف کر دو… معاف کر دو بیٹی ! اللہ معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے ان کی آواز رندھ گئی۔