میر ابھائی شاہ میر بچپن سے ہی ایک شوخ و شنگ لڑکا تھا، اسے ہر دم شرارتیں ہی سوجھا کرتی تھیں۔ کبھی کبھی محلے کے لوگ بابا جان سے اس کی شکایتیں کرنے آجاتے، جن کے بچوں کو تنگ کر کے وہ بھاگ آتا تھا، تب شاہ میر کو باباجان سے کراری مار پڑ جاتی۔ وقت گزرتا گیا۔ ہم سب بڑے ہو گئے۔ وہ بھی پڑھ لکھ کر بر سر روز گار ہو گیا۔ اُس کی ملازمت ہوائی کمپنی میں لگی تو ڈیوٹی پر ایک ملک سے دوسرے ملک جانے لگا۔ اپنی ملازمت سے وہ بہت خوش تھا۔ ہم پشاور کے رہائشی تھے اور بھائی ڈیوٹی کر کے پنڈی سے پشاور صرف چھٹیوں کے دنوں آتا تھا۔ چونکہ ہم صوبہ سرحد کے باسی تھے تو بھائی کو بھی ادھر ہی رہنا پسند تھا مگر ملازمت ایک مجبوری تھی۔ آخر ان کی مراد بر آئی اور اُن کو ایسی فلائٹ ملی کہ اسلام آباد سے پشاور آنے جانے لگے۔ ایک دفعہ ان کا افغانستان جانا ہوا۔ اُن دنوں وہاں کے حالات پر امن نہ رہے تھے ، ایک فیملی سے اُن کی ایئر پورٹ پر ملاقات ہو گئی ، یہ لوگ پاکستان آرہے تھے۔ اسی جہاز میں جس پر بھائی کی ڈیوٹی لگی تھی۔ اس طرح اس فیملی سے بات چیت ہو گئی اور انہوں نے میرے بھائی کو اتنا پسند کیا کہ گھر کا پتا اور فون نمبر لے لیا۔ اس فیملی نے پاکستان پہنچ کر اسلام آباد میں رہائش لی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بمباری اور جنگ کی وجہ سے بہت سے افغان باشندے پاکستان میں پناہ لے رہے تھے۔ انہوں نے بھی پناہ لے لی اور شاہ میر سے رابطہ رکھا۔ جب بھائی کا اسلام آباد جانا ہوتا، وہ اُن کی طرف بھی چلا جاتا۔ اس فیملی میں گھر کا سربراہ عبد الرحمن، اس کی بیوی، ایک بیٹی اور دو بیٹے تھے۔ بیٹی گل رخ اٹھارہ سال کی اور لڑکے اپنی بہن سے چھوٹے تھے۔ گویا یہ کنبہ پانچ افراد پر مشتمل تھا، جو افغانستان میں خوشحال خاندان ہوا کرتا تھا۔
جنگ کے دنوں جو افغان شہری پاکستان آئے ، ان میں بہت سے خاندان پاکستان کے مختلف شہروں میں آباد ہو گئے اور اپنی روزی روٹی کے جتن کرنے لگے ، جن کے پاس پیسے تھے ، انہوں نے چھوٹے موٹے کاروبار کر لئے ۔ غالباً 1991ء کا زمانہ تھا۔ عبدالرحمٰن نے بھی پنڈی میں کپڑے کی دُکان کرلی اور روزگار کا ذریعہ پیدا ہو گیا۔ اب اُسے اپنی بیٹی کو بیاہنے کی فکر تھی۔ ایک روز عبدالرحمٰن کی فیملی، شاہ میر کے توسط سے میرے والدین سے ملنے آئی تو ہم نے گل رُخ کو دیکھا۔ اُس لڑکی کے ے حُسن سے ہماری آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ ایسی حسین، معصوم اور پاکیزہ صورت لڑکی میں نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ سُرخ و سفید رنگت ، شربتی آنکھیں اور نین نقشہ کسی یونانی مجسمے جیسا تھا۔ میں تو دیکھتے ہی اُس پر فریفتہ ہو گئی مگر بات نہ کر پائی کیونکہ اُسے اُردو آتی تھی نہ پشتو۔ وہ افغانی زبان میں بات کرتی تھی جبکہ ہمیں ان کی بولی سمجھ میں نہ آئی، البتہ اُس کے والد پشتو میں گفتگو کر سکتے تھے ، لہٰذا وہی میرے والد اور بھائی سے محو گفتگو رہے۔ ہم نے گل رخ اور اُس کی ماں سے بس اشاروں میں باتیں کیں اور مسکراہٹوں کے تبادلے سے ہی کام چلایا۔ جب وہ چلے گئے تو والد نے میری والدہ سے کہا کہ یہ افغانی سدوزئی قبیلے سے ہیں اور اپنی لڑکی کی شادی بارے فکر مند ہے۔ اگر تمہیں اس کی لڑکی پسند آئی ہے تو ہم شاہ میر کے لئے گل رُخ کارشتہ لے لیتے ہیں۔ والدہ کہنے لگیں۔ لڑکی کو ہماری زبان نہیں آتی اور ہم کو ان کی بولی سمجھ میں نہیں آئے گی تو پھر گزارا کیسے ہو گا؟ والد نے کہا۔ کچھ دنوں میں ہی ان کی گفتگو سمجھ میں آنے لگے گی، کیونکہ یہ کچھ فارسی سے ملتی جلتی زبان میں بات کرتے ہیں اور کچھ پشتو کے الفاظ بھی اُن کی بولی میں مستعمل ہیں۔ بہر حال تم سوچ سمجھ لو اور شاہ میر سے بھی بات کر لو۔ شاہ میر کو تو گل رخ بہت پسند آئی تھی۔ جب ماں نے ذکر کیا تو وہ بولا۔ میں نے تو پہلی نظر میں دیکھ کراس لڑکی کو پسند کر لیا تھا۔ آپ لوگ زبان کو مسئلہ نہ بنائو ، گل رخ ایسی حسین بہو آپ کو ساری دنیا میں ڈھونڈنے سے نہیں ملے گی۔ میں نے بھی بھائی کی ہاں میں ہاں ملائی اور ماں کو راضی کر لیا۔ اس طرح گل رخ دو ماہ بعد میری بھا بھی بن گئی۔
بھائی تو اپنی دلہن پر فدا تھا، ہم بھی گھر کی بہو پر ہزار جان سے واری ہو گئے۔ وہ تھی بھی ایسی من موہنی اور اچھی خصلت والی، معصوم ، سیدھی، سچی اور بھولی بھالی۔ امی ابو کا ادب کرتی ، کام میں ہاتھ بٹاتی اور ہم سے پیار کا اظہار کرتی لیکن سب سے بڑا مسئلہ زبان کا تھا۔ ہم سب کو اُردو آتی تھی۔ ہم نے اسکول پڑھا تھا لیکن گل رخ تو اردو سے بھی نابلد تھی۔ تب بھائی نے اس کے لئے ایک لیڈی ٹیچر کا بندوبست کر دیا جو گھر پر اس کو پڑھانے سکھانے آتی تھی۔ شاہ میر نے سوچا کہ پشتو تو اس کو ہمارے درمیان رہ کر آہی جائے گی۔ اگر میرا تبادلہ کسی دوسرے شہر ہو گیا، تب اُس کو وہاں ہر کسی سے بات کرنے میں مشکل پیش آئے گی لہٰذا اسے قومی زبان کی شدبد ہونا چاہئے۔ گل رُخ نے سال بھر میں اُردو سیکھی۔ اُسے تھوڑا سا پڑھنا لکھنا اور قومی زبان میں بات کرنا بھی آگیا۔ وہ جب افغانی لہجے میں اُردو بولتی تو بہت پیاری لگتی ، یوں محسوس ہوتا جیسے کوئی یورپین لڑکی بول رہی ہے۔ ایک دن بھائی نے بتایا کہ ان کو قومی ایئرلائن میں نوکری مل گئی ہے اور وہ کراچی جارہے ہیں۔ اُن کے ساتھ گل رُخ بھی جارہی تھی۔ دونوں بہت خوش تھے۔ مجھے یاد ہے ، جب بھائی ڈیوٹی سے گھر آتے تو وہ دروازے پر ان کا استقبال کرتی اور صبح جب ڈیوٹی پر جانے لگتے تو مسکراتے ہوئے اُنہیں الوداع کہتی۔ اس وقت وہ قدرت کے ہاتھوں تراشا ہوا ایک شاہکار معلوم ہوتی مگر اتنی سادہ کہ بغیر میک آپ کے حسن کی پتلی تھی۔ کراچی میں تو سبھی پاس پڑوس میں اُردو زبان ہی بولتے تھے۔ اُس نے بھی محنت سے یہ زبان سیکھی تھی۔ ایک افغانی لڑکی کے منہ سے اتنی اچھی اُردو سُن کر لوگ حیران ہو جاتے تھے۔
ایک روز بھائی اپنے کسی دوست کی شادی میں ہمیں لے کر گئے ، جہاں خواتین کے لئے علیحدہ انتظام تھا۔ کھانا کھانے کے بعد ایک کرسچن لڑکی جو شاہ میر کے دفتر میں کام کرتی تھی، بڑے اشتیاق سے اس کی شریک حیات سے ملنے ہماری طرف آئی۔ شاہ میر ہی اسے گل رُخ سے ملانے لائے تھے۔ اُس لڑکی ماریہ نے گل رُخ کو دیکھ کر بھائی سے کہا۔ تمہاری بیوی بہت خوبصورت اور سادہ ہے۔ جب اُردو بولتی ہے تو بہت پیاری لگتی ہے۔ یہ بات سن کر بھائی ہنس دیئے تو ماریہ بھی ہنس پڑی۔ کبھی ڈیوٹی کے بعد شاہ میر دیر سے گھر لوٹتا تو گل رخ بھا بھی اُن کے انتظار میں جاگتی رہتی۔ اس کی عادت تھی کہ رات کا کھانا بھائی کے ساتھ کھاتی، خواہ وہ کتنی دیر سے کیوں نہ گھر آئیں۔ شاہ میر بھابھی کو ستانے کو اکثر مذاق میں کہتا، تم کھانا کھا لیا کرو۔ میں تو وہاں سے کھا ہی لیتا ہوں ، تم اتنی دیر تک بھوکی رہتی ہو۔ وہ کہتی میں تو آپ کے بغیر نہیں کھا سکتی اور آپ کھا لیتے ہو ، کیوں؟ کیا کروں، ماریہ بہت اصرار کرتی ہے ، تب کھانا پڑتا ہے۔ ساتھ ڈیوٹی کرنے والوں کا خیال تو کرناہی پڑتا ہے۔ اس پر وہ شوہر کے مذاق کو سچ سمجھ کر روٹھ جاتی۔ بھائی اُسے مناتا، کہتا۔ نادان ، میں نے کب تیرے بغیر کھایا ہے ؟ لائو ، کھانا دو۔ وہ کھانا لاتی، جب دونوں کھا لیتے بھائی کو پھر مذاق سوجھتا، کہتا۔ دونوں کو راضی کرنا پڑتا ہے۔ ماریہ کے ساتھ بھی کھا لیتا ہوں اور تمہارے ساتھ دوبارہ کھانا پڑتا ہے۔ دیکھو اب میرا وزن کتنا زیادہ ہوتا جارہا ہے، کہیں نوکری سے فارغ نہ کر دیں۔ وہ تو یہ مذاق میں کہتا لیکن گل رُخ اسے سچ سمجھ لیتی اور اُس کا دِل مرجھا جاتا۔ شاہ میر کی عادت تھی کہ بار بار مذاق کر کے خود خوش ہوتا اور دوسرے کی دل آزاری کا احساس نہ کرتا۔ دراصل وہ میرے بھائی سے بہت محبت کرتی تھی۔ ایک بار شاہ میر ہم کو منوڑہ لے کر گیا۔ ہم کشتی میں سیر کر رہے تھے۔ بھائی نے سمندر کا پانی چلو میں بھر کر کہا۔ دیکھو گل! یہ پانی چکھنا۔ ہمارے وطن کا پانی کتنا میٹھا ہے۔ بھابھی نے چلو بھر کر پانی منہ میں لے لیا۔ ظاہر ہے کہ سمندر کا پانی کڑواہی تھا مگر اس نے پانی منہ سے نکال پھینکنے کی بجائے پی لیا اور بولی۔ ہاں شاہ میر ، تمہارے وطن کا پانی بہت میٹھا ہے۔ ہم سب ہنس رہے تھے مگر اس نے پانی کی کلی پھینکنے کے بجائے اس لئے نگل لی تھی کہ اُس کا شوہر خوشی محسوس کرے۔
شاہ میر اور گل رُخ کی زندگی اتنی خوشگوار تھی کہ دفتر سے آنے کے بعد یا چھٹی کے دن میں وہ گھر سے باہر کہیں نہ جاتا تھا۔ پاس پڑوس والے اس خوش و خرم جوڑے کی زندگی کو مثالی کہتے تھے۔ ہمارے گھر کے برابر اشفاق بھائی کا گھر تھا ۔ وہ میرے بھائی کے ساتھ ایئر لائن میں ملازم تھے۔ ان کی بیوی گل رُخ کی سہیلی تھی۔ ایک بار مذاق میں انہوں نے بیوی سے کہہ دیا کہ شاہ میر کی تو ماریہ سے بہت بنتی ہے۔ اے کاش! ہماری بھی کوئی ماریہ جیسی دوست دفتر میں ہوتی ۔ یہ آدمی تو بڑا خوش قسمت ہے۔ دفتر میں بھی خوب صورت ساتھی اور گھر میں بھی۔ اس نے تو یہ سب اپنی بیوی کو جلانے کو کہا تھا لیکن کچھ عورتوں کی عقل واقعی گدی میں ہوتی ہے ، ان کے پیٹ میں بات کہاں پڑتی ہے۔ اس خاتون نے آکر گل رخ کو بتایا کہ تمہارا میاں اپنے دفتر کی ایک کرسچن لڑکی ماریہ سے محبت کرتا ہے۔ بھا بھی یہ بات سُن کر خاموش رہ گئی، شاید اُس نے سچ سمجھ لیا۔ اُس کے بعد وہ ہر وقت خاموش ہی رہنے لگی۔ پہلے وہ مجھ سے باتیں کرتی ، امی کے ساتھ چہکتی، نہیں تو اپنے ننھے منے بیٹے اور بیٹی کے ساتھ کھیلتی۔ اس نے تو اپنے بچوں کے ساتھ بھی چہکنا مہکنا چھوڑ دیا، جیسے اُسے چُپ ہی لگ گئی ہو۔ ایک دن میں نے بھائی کی توجہ دلائی کہ گل رخ اب اداس اور چپ چپ رہنے لگی ہے، کہیں اُسے اپنے میکے کی یاد تو نہیں ستاتی۔ تب بھائی نے قسم دے کر اس سے پوچھا کہ تم کیوں اُداس ہو۔ اس پر وہ روپڑی۔ کہنے لگی۔ اشفاق کی بیوی بتا کر گئی ہے کہ تم کو ماریہ سے بہت محبت ہے، اُس کو اس کے شوہر نے بتایا ہے۔ بھائی نے کہا۔ ایک عورت کی بات پر تم نے یقین کر لیا ؟ اول تو یہ بالکل غلط بات ہے ، میں کسی سے پیار نہیں کرتا اور اگر مجھے کسی سے پیار ہو جائے تو تم کیا کرو گی ؟ سچ بتائو۔ میں چاہوں گی کہ تم اپنا پیار پالو مگر خوش رہو۔ گل رُخ نے جواب دیا۔ انہی دنوں بھائی کے دفتر میں کچھ سیاست چل پڑی جس سے شاہ میر کو پریشانی لاحق ہو گئی۔ گھر آتا تو دفتری پریشانی چہرے سے ظاہر ہوتی۔ بھا بھی اس کا پریشان چہرہ دیکھ کر بجھ جاتی۔ وہ سمجھتی کہ اُس کا شوہر ماریہ کے سبب اداس رہنے لگا ہے۔ بھائی اسے اپنے دفتر کی پریشانی تو بتا نہیں سکتا تھا۔ آخر ہمت کر کے گل رخ نے پوچھ ہی لیا کہ کیا تم ماریہ کے لئے پریشان رہتے ہو ؟ اس نے بھی کہہ دیا کہ ہاں۔ یہ ان کی مذاق کی عادت والی بات تھی مگر گل رخ نے دل پر لے لی۔ ایک روز مجھ سے بولی۔ عالیہ باجی میں بہت دُکھی رہنے لگی ہوں، کیوں کہ میرے سر کا مالک دُکھی رہتا ہے۔ بھائی کو آفس کی کوئی پریشانی ہو گی۔ ایسی پریشانیاں آتی جاتی رہتی ہیں، تم کیوں دُکھی ہوتی ہو گل رخ ! کیوں نہ دُکھی رہوں ؟ جس لڑکی سے وہ پیار کرتا ہے ، میری وجہ سے اُس کے ساتھ شادی نہیں کر سکتا نا ! میں اُس کے بچوں کی ماں جو ہوں۔ وہ تبھی اب بہت پریشان رہنے لگا ہے۔ آخر بھابھی نے مجھے اپنے دل کی بات کہہ ہی ڈالی۔ میں نے کہا۔ بھا بھی یہ بات نہیں ہے ، تم سے بھائی ایسے ہی مذاق میں کہتا ہے اور تم سچ سمجھ لیتی ہو۔ اس کی تو یہ عادت ہے بچپن سے مذاق کی۔
ایک دن بھا بھی شاہ میر سے بولی۔ میرے سردار ! ایک بات کہوں؟ ایک نہیں دس کہو۔ دس نہیں ، بس ایک ہی بات کہنی ہے۔ اگر آپ اس لڑکی کے بغیر نہیں رہ سکتے جس کے لئے اُداس رہتے ہو، تمہیں میری قسم ، اُس سے ساتھ شادی کر لو۔ میں اس بات پر راضی ہوں۔ میں خوش دیکھنا چاہتی ہوں آپ کو۔ اچھا کر لوں گا، تم کیوں فکر کرتی ہو۔ تم سے پوچھ کر تھوڑی کروں گا۔ بھائی نے جس بات کو ذرہ برابر اہمیت نہ دی تھی، اس کو گل رخ نے دل کے دامن میں باندھ لیا حالانکہ شاہ میر اس کے سوا کسی سے محبت نہ کرتے تھے۔ خُدا کے بعد اگر کوئی ذات تھی، جس کی اسے چاہت تھی تو وہ گل رُخ ہی تھی، جو اُس کی رگ رگ میں سمائی ہوئی تھی۔ وہی اُس کی سب کچھ تھی۔ اگر وہ یہ بات جان لیتی تو آج اپنے پیارے شوہر سے دور نہ چلی جاتی۔ وہ بھولی بھالی عورت یہ اندازہ بھی نہ کر سکی کہ شاہ میر اُس کا کتنا خیال رکھتا ہے ، اس کے آرام کے لئے سب کام کرتا ہے ، محنت کرتا ہے۔ وہ یہ سمجھتا تھا کہ اُس کے عمل سے ہی محبت ثابت ہے تو پھر مذاق میں کچھ کہہ دینے سے یا زبان سے محبت کا اظہار نہ کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ہر عیش آرام ، زندگی کی ہر سہولت تو اس نے گل رخ کو مہیا کر دی تھی۔ محبت خود عمل سے ظاہر ہوتی ہے نہ کہ زبانی اظہار سے … کچھ دن گزرے تھے کہ بھابھی کی طبیعت گری گری رہنے لگی، جیسے اُسے کوئی گھن اندر اندر کھا رہا ہو۔ آمی اور بھائی سمجھے کہ پھر سے اُس کی گود ہری ہونے کے یہ آثار ہوں گے ، لیکن جب اس کی طبیعت نہ سنبھلی تو شاہ میر بھائی ڈاکٹر کے پاس لیے گیا۔ اس نے کچھ ٹیسٹ وغیرہ لکھ کر دیئے تو کینسر کی رپورٹ آگئی۔ سبھی حیران کہ یہ تو اچھی بھلی تندرست تھی، اچانک کیا ہو گیا۔ شاہ میر بھائی کے تو پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ اُن کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی۔ کچھ ساتھی دوستوں۔ سے اپنی پریشانی کا ذکرہ کیا جو ساتھ ایئر لائن میں کام کرتے تھے۔ غموں کے مصائب میں کراچی جیسے بے مہر شہر میں جہاں ہر طرف اجنبی لوگ تھے ، ان دوستوں کا ہونا بھی ایک نعمت تھا، جنہوں نے بھائی کو تسلی دی، ہر طرح سے تعاون کا یقین دلایا۔ شاہ میر کا تو یہ عالم کہ ہر وقت غائب دماغ رہنے لگا۔ ڈیوٹی سے چھٹی لینی پڑی۔ ہم بچے سنبھالتے اور وہ اپنی پیاری بیوی کو ۔ ایک پل اُس سے دور نہ ہوتا۔ کبھی آپس میں باتیں کرتے کرتے ایک ساتھ رونے لگتے۔ شاہ میر کہتا کہ تمہیں میں نے کیا غم دیا کہ اب مجھے چھوڑے جاتی ہو ۔ تب ایک روز گل رخ بولی۔ آپ ماریہ سے محبت کرتے ہیں اور میری خاطر آپ اپنی خوشی پوری نہیں کرتے ، مجھے اس بات کا غم لگا۔ یہی بات دن رات سوچتی تھی ، اداس رہتی تھی۔ اسی سبب کھانا بھی نہیں کھا پاتی تھی۔ چھپ چھپ کر روتی اور دُعا کرتی تھی۔ اے اللہ مجھے اس دنیا سے اُٹھالے تاکہ میرا پیارا شوہر اپنی خوشی پوری کر سکے ، اپنی محبت پاسکے ، اسے اپنی دلہن بنا کر اپنے گھر میں لاسکے۔ دیکھو میری دل سے نکلی دُعا اللہ نے سُن لی ہے۔ اگر اب میں اس جہاں سے رخصت ہوئی تو سکون سے جائوں گی۔
پہلے تو دوا کے لئے بھاگ دوڑ کی مگر جب ڈاکٹر نے کہہ دیا کہ اب علاج نہیں ہو سکتا، ان کی زندگی تھوڑی سی رہ گئی ہے تو گل رخ نے بھائی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر یہ وعدہ لیا کہ شاہ میر تمہیں میرے پیار کی قسم ، جس لڑکی سے تم پیار کرتے ہو اُسے ضرور اپنا لینا۔ تم خوش رہو گے تو میری روح خوش ہو گی۔ مجھے یاد ہے جب وہ یہ الفاظ کہہ رہی تھی اُس کی آواز لرز رہی تھی اور شاہ میر ہی کی نہیں ہماری آنکھوں سے بھی اشک گر رہے تھے۔ اُن الفاظ سے بھائی کے دل کو تو جیسے گھونسالگا۔ اُنہوں نے کہا۔ میں نے تو مذاق میں ماریہ سے محبت کی بات کی تھی۔ مجھے کیا خبر تھی کہ میرے مذاق کو گل اتنی سنجیدگی سے لے گی ، دل کا روگ بنالے گی۔ شوہر بیویوں سے ایسے مذاق کرتے ہی ہیں۔ بے شک زندگی اور موت اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جسے چاہے لمبی عمر عطا کرے ، جس کو چاہے شفاء دے دے اور جس کو چاہے موت دیے مگر ہم سب کو تو یہی تاسف رہنے لگا کہ اے کاش! شاہ میر مذاق میں بھی گل سے یہ بات نہ کہتا کہ وہ اپنے جیون ساتھی سے دل کی گہرائیوں سے اتنی زیادہ محبت کرتی تھی کہ مذاق میں کہی بات کو بھی نہ سہ سکی۔ شاہ میر نے گل کے بعد شادی نہ کی، حالانکہ وہ عمر کے اس دور میں تھا، جہاں اُمنگیں اور خواب ہی خواب ہوتے ہیں لیکن اب اُن کی زندگی بے بہار چمن ہے ، جہاں نہ پھول پودے ہیں اور نہ ہی گل و بلبل کی چہکاریں سُنائی دیتی ہیں۔ وہ ایک اُداس اور اُجاڑ زندگی گزار رہا ہے ، اپنے بچوں کی خاطر جی رہا ہے۔ کل اس کی حیات کس قدر صورت تھی اور آج افسانہ ہو گئی ہے۔ کہتا ہے۔ آنکھیں بند کرتا ہوں تو پھر سے وہی زندگی بسر کرنے لگتا ہوں اور آنکھیں کھولتا ہوں تو کچھ نہیں پاتا۔ صرف خوبصورت یادوں کی ڈھول نظر آتی ہے۔ اس دُھول سے میرے بھائی کا چہرہ اور آنکھیں دُھندلا گئی ہیں۔ وہ مجھ سے پانچ برس چھوٹا ہے، لیکن دس برس بڑا لگتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ غم عمر کی خوب صورتی کو کھا جاتا ہے۔