وہ میری کلاس فیلو تھی بہت کم گو اور سنجیدہ اتنی کہ کوئی اس سے بات نہ کرتا تھا۔ سب سے پہلے میری دوستی اس سے ہوئی۔ مجھے کم گو لوگ پسند تھے کہ میں خود سنجیدہ مزاج تھی۔ رفتہ رفتہ ہم میں ذہنی ہم آہنگی بڑھتی گئی وہ مجھ سے بے تکلف ہوگئی تو بتایا کہ وہ اپنی بیوہ ماں کے ساتھ رہتی ہے اور ان کا کوئی ذریعہ آمدنی نہیں ہے۔ ماموں، چچا جیسے رشتوں سے بھی محروم ہے۔ ایک بڑی بہن شادی شدہ ہے۔ بہنوئی خوشحال آدمی ہے۔ وہی ان کی مالی مدد کرتے ہیں۔ گویا اس کے سنجیدہ رہنے کی ایک معقول وجہ موجود تھی۔
ایک دن اس نے کہا میری ماں بیمار ہے۔ ان کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا ہے وہ چلنے سے معذور ہیں۔ سوچ رہی ہوں کیسے لے کر جائوں۔
میرے بھائی ابھی لینے آتے ہوں گے۔ ان سے کہتی ہوں۔ ہم اپنی گاڑی میں لے چلتے ہیں۔ اس نے بات مان لی۔ چھٹی ہوئی تو بھائی جان لینے آئے ہوئے تھے، میں نے انہیں بتایا کہ فرح کی امی بیمار ہیں۔ بولے ۔ چلو… جہاں جانا ہے چلتے ہیں۔
میں نے فرح کو اپنی گاڑی میں بٹھالیا۔ پہلے ہم اس کے گھر گئے فرح کی والدہ کو سہارا دے کر گاڑی میں بٹھایا اور ڈاکٹر کے پاس لے گئے ۔ اس روزآثم بھائی نے فرح کو پہلی بار دیکھا تھا۔ اس کی ماں کو ڈاکٹر کو دکھا کر گھر پہنچے تو امی پریشان تھیں، پوچھا کیوں اتنی دیر ہوگئی کہاں رہ گئے تھے؟ میں نے فرح کی والدہ کی بیماری کا بتایا کہنے لگیں، جب ان کو ضرورت ہو، فرح سے کہنا فون کردے ، ہم گاڑی بھیج دیں گے۔
میں نے تمام احوال گھر والوں کو بتادیا تھا۔ فرح کا سبھی خیال رکھتے تھے۔ امی خاص طور پر کہ یتیم بچی ہے اور ضرورت مند لوگ ہیں۔ ان کا گھر بھی اپنا نہ تھا۔ کرائے پر ایک چھوٹے سے مکان میں ماں بیٹی رہتی تھیں جس کا کرایہ فرح کی بڑی بہن دیتی تھی۔ حالات کی وجہ سے فرح ناخوش اور مجبور سی دکھتی تھی۔ کئی بار چاہا وہ میرے ساتھ سیر پر چلے تاکہ کچھ لمحات فرحت کے محسوس کرسکے۔ راضی نہ ہوئی۔ کہتی ماں کمزور ہیں ان کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتی، کبھی کہتی کتنی بدقسمت ہوں، میرا کوئی بھائی نہیں ہے؟ بھائی اگر ہوتا کم از کم سہارا تو بنتا۔
بہنوئی بھی بھائی ہوتے ہیں، فرح وہ تمہارا خیال رکھتے ہیں۔ ہاں… شہلا تم صحیح کہتی ہو۔ بہنوئی خیال رکھتے ہیں۔ تبھی ہم دو وقت کی روٹی کھا کر زندہ ہیں، مگر بھائی اور بہنوئی میں فرق ہوتا ہے۔ بھائی کی کمائی احسان نہیں لگتی لیکن بہنوئی دیتے ہیں تو لگتا ہے کہ ہم ان کے احسان تلے دبتے جارہے ہیں، بس یہ فرق ہے سگے بھائی اور بہنوئی میں۔ تم زیادہ محسوس کرتی ہو، فرح… ورنہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ایسی ہی بات ہے… تم نہیں سمجھوگی لیکن مجھے لگتا ہے کہ ان کا ہم پر خرچ کرنا ایک احسان ہے۔ اور اس کا بدلہ کسی دن اتارنا پڑے گا مجھے…
میرے بھائی کو فرح پہلی نظر میں اچھی لگی تھی، جب میں اس کے بارے میں باتیں کرتی، اس کے حالات بتاتی تو بھائی کے دل میں اس کے لئے ہمدردی کے جذبات جاگ جاتے۔ کہتے کہ تم اس کی مالی مدد کیا کرو، شہلا… وہ یتیم ہے اور طالب علم ہے۔ اس کے تعلیمی اخراجات ہم برداشت کرسکتے ہیں۔
وہ بہت خوددار ہے بھیا، اگر میں نے اس سے کوئی ایسی بات کہہ دی جو اسے بری لگ گئی تو مجھ سے بولنا چھوڑ دے گی، کبھی میری امداد قبول نہ کرے گی۔ میٹرک کے بعد فرح پڑھائی جاری نہ رکھ سکی، اس کی ماں اب بالکل بستر سے لگ گئی تھی اور دائمی بیماری کی لپیٹ میں آچکی تھی، ماں کی دیکھ بھال کرنے والا اس کے سوا کوئی نہ تھا۔ بڑی بہن کے چار چھوٹے بچے تھے۔ وہ اپنے گھر کی ذمہ داریاں چھوڑ کر ماں کے پاس رہنے نہیں آسکتی تھی۔
اب میں ہی کبھی کبھی کالج سے واپسی پر فرح سے ملنے چلی جاتی۔ بھائی ساتھ ہوتے وہ اکثر گاڑی میں بیٹھ کر میرا انتظار کرتے یا کبھی اس کی ماں اصرار کرکے بلاتی تو بھائی ان کی عیادت کے لئے گھر کے اندر چلے جاتے۔ آنٹی باتیں کرلیتی تھیں۔ آنٹی بھی میرے بھائی کو پسند کرنے لگی تھیں۔ شاید ان کو داماد کے روپ میں دیکھنا ان کی آرزو تھی۔ ان کی باتوں میں اس ارادے کو بھانپ کر بھائی نے یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ ان کی بیٹی سے شادی کریں گے۔ انہوں نے امی سے بات کی اور آنٹی کی گرتی صحت کے پیش نظر جلدی کی تاکید کی۔ فرح کے حالات امی جانتی تھیں، ان کے دل میں اس لڑکی کے
لئے شفقت کا جذبہ تھا۔وہ راضی ہوگئیں۔ میں نے فرح کو بتایا، وہ مایوس نظر آرہی تھی، کہنے لگی امی دل سے چاہتی ہیں میری شادی ہو جائے لیکن باجی اور بہنوئی جب تک راضی نہ ہوں گے یہ رشتہ نہ ہوگا۔
میں نے آنٹی سے بات کی ان کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا۔ اگلے لمحے وہ کچھ بجھ سی گئیں، کہا۔ داماد اور بیٹی کو کل بلوالوں گی۔ آپ لوگوں کو ان سے بات کرنی ہوگی۔ خاص طور سے اس معاملے میں میرے داماد کا راضی ہونا ضروری ہے کیونکہ وہی اب ہمارے کفیل اور سرپرست ہیں۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ ہماری آئو بھگت کریں گے اور موزوں رشتے کے مل جانے پر خوش ہوں گے، کیونکہ ہمیں جہیز وغیرہ کا لالچ نہ تھا لیکن فرح کے بہنوئی نے ایسا سخت رویہ اپنایا کہ جس کی توقع کوئی عزت دار آدمی نہیں کرسکتا۔ انکار کا بھی ایک شائستہ طریقہ ہوتا ہے، انہوں نے امی جان کو آڑے ہاتھوں لیا کہ میری سالی کے ساتھ تمہاری لڑکی پڑھتی تھی، تبھی تمہارے لڑکے نے اس پر نجانے کب سے نظر رکھی ہوئی تھی۔ ہم حیران پریشان ان کے گھر سے نکلے امی کی آنکھوں میں آنسو بھرے تھے۔
اس واقعہ سے ہم کافی صدمے میں رہے۔ بالٓاخر خود کو سمجھا بجھا کر آنٹی سے ملنے دوبارہ ان کے گھر چلی گئی اور سوال کیا کہ آنٹی آپ بڑی تھیں، جب آپ کے داماد ایسی نازیبا باتیں کررہے تھے آپ نے مداخلت کیوں نہیں کی، آپ نے کیوں ان کو نہیں روکا۔ بولیں بیٹی وہ میری ایک نہیں چلتے دیتا۔ چونکہ ہم اس پر انحصار کرتے ہیں، تو وہ سمجھتا ہے کہ وہ ہی عقل کل ہے۔ ہمارے تمام فیصلے اس نے اپنے ہاتھوں میں لے رکھے ہیں۔ آپ لوگوں کے آنے سے قبل اس رشتے پر اس نے سوال کیا تھا کہ کیا فرح سے پوچھ لیا ہے؟ میں نے بتایا ہاں، وہ راضی ہے… پوچھا، کیسے راضی ہے؟ کیا اس نے لڑکے کو دیکھا ہے۔ جانتی ہے اسے؟
ہاں دیکھا ہوا ہے، اس کی کلاس فیلو کا بھائی ہے۔ میں سمجھی کہ میرے صحیح جواب سے اس کو فیصلہ کرنے میں رہنمائی ملے گی لیکن اس نے الٹ ہی فیصلہ کردیا۔ میری صحیح بات کو غلط سمت لے گیا۔ کہا کہ فرح نے خود لڑکا پسند کیا ہے یہ آزاد اور آوارہ ہوگئی ہے۔ تم لوگوں کے جانے کے بعد اس پر ہم سے جھگڑا بھی کیا۔ مجھے معلوم ہوتا وہ ایسا الٹا ردعمل دکھائے گا ، کیوں آپ لوگوں کو بلوا کر بے عزتی کرواتی۔ آنٹی بچاری رو رہی تھیں۔ فرح اس واقعہ پر اتنی غمزدہ تھی کہ اس نے خود کو کمرے میں بند کرلیا۔ وہ ندامت سے میرے سامنے ہی نہ آرہی تھی۔ میں ان کی مجبوری سمجھ گئی۔ بھائی سے کہا کہ میری سہیلی کی ماں مجبور ہے۔ ہمیں فرح کا خیال دل سے نکال دینا چاہئے۔ سوچا رشتے تو آسمانوں پر ہوتے ہیں، اس وجہ سے کہ ناتا نہ جڑسکا۔ مجھے اپنی دوست کی دوستی کو خیرباد نہ کہنا چاہئے۔ یہی سوچ کر کچھ دنوں بعد اس کے گھر چلی گئی وہاں تالا لگا ہوا تھا۔
پڑوس میں جو لوگ رہتے تھے، ان کی لڑکی بھی فرح کی دوست تھی، اس سے پتا کیا تو اس نے بتایا کہ فرح کی بہن بہنوئی ان لوگوں کو اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ آپا بتارہی تھیں کہ اب والدہ اور بہن کو اپنے پاس رکھیں گی۔ فرح نے جاتے ہوئے کچھ نہیں بتایا۔ بتایا تھا کہ آپ لوگوں کے رشتہ لانے سے اس کا بہنوئی شک میں پڑگیا ہے کہ شاید آپ کے بھائی نے اس پر پہلے سے ڈورے ڈال رکھے تھے اور یہ رشتہ تبھی آیا ہے کہ فرح کا کوئی تعلق آپ کے بھائی سے بنتا ہے۔ یہ سن کر میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ سوچنے لگی کہ اس کا بہنوئی کس قدر گندی ذہنیت کا مالک ہے۔ ہم ہمدردی کی وجہ سے رشتہ مانگ رہے تھے اور وہ کیا سوچ رہا ہے بھلا فرح جیسی غریب گھر کی لڑکی سے کیا لالچ وابستہ ہوسکتا ہے ہم لوگوں کا، میرا بھائی بھی نرم دل انسان ، اچھی فطرت کا مالک تھا، ان لوگوں کو مصیبت اور کسمپرسی کی زندگی سے نکالنا چاہتا تھا لیکن فرح کی قسمت میں ہماری محبت نہ لکھی تھی۔
سال بھر تک میرا فرح کے ساتھ کوئی رابطہ نہ ہوسکا۔ میری شادی طے ہوگئی کارڈ دینا تھا۔ جی چاہا کہ فرح سے کسی طرح رابطہ ہو۔ اس کا حال پوچھوں اور اپنی شادی پر مدعو کروں، آئے یا نہ آئے یہ اور بات تھی۔ ان کی سابقہ پڑوسن لڑکی سے دوبارہ رابطہ کیا، اس نے فرح کی بڑی بہن کا نمبر دیا۔ میں نے کال کی، آپا نے فون اٹھایا۔ میں شہلا بول رہی ہوں کوثر آپا۔ آپ کیسی ہیں اور فرح کا کیا حال ہے؟ ٹھیک ہو ں، فرح بھی خیریت سے ہے۔ کہو کیسے یاد کیا ہے شہلا آج تم نے۔ میں سمجھی کہ
کے لئے ناراض ہوگئی ہو۔ آپا آپ لوگوں کو شادی کا کارڈ دینا تھا۔ تبھی فون کیا ہے۔ آپ کا نمبر آنٹی کی پڑوسن سے لیا ہے۔ میں کارڈ دینے گئی تو تالا تھا میں ان کے گھر چلی گئی ۔ کیا فرح سے بات ہوسکتی ہے۔
ہاں… کیوں نہیں۔ انہوں نے فون فرح کو دے دیا۔ کیسی ہو فرح، اتنے دن بعد تم سے رابطہ ہوا ہے خیریت تو ہے نا۔ ہاں خیریت ہے، تم کیسی ہو۔ تمہیں شادی کا کارڈ دینا ہے۔ میں نہیں آسکوں گی شہلا، بہنوئی اجازت نہ دیں گے۔ اور تم دوبارہ فون مت کرنا ورنہ مجھ پر مزید پابندیاں لگ جائیں گی، دولہا بھائی آپ لوگوں کے ساتھ میرا ملنا جلنا پسند نہیں کریں گے، اچھا اللہ حافظ یہ کہہ کر اس نے فون بند کردیا۔ مجھے بہت صدمہ ہوا، اتنے دنوں بعد میں نے فون کیا تو ایسا جواب ملا کہ دل بجھ گیا۔ سوچا اس لڑکی سے الگ ہی رہنا بہتر ہے۔ اس کے بعد میں نے اس سے ملنے یا بات کرنے کی کبھی کوشش نہ کی۔
شادی کے بعد بیاہ کر میں اسلام آباد چلی گئی۔ میں اپنی بیاہتا زندگی میں مصروف اور مگن تھی۔ بچوں کی جب گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں تو ہم نے امی کے گھر جانے کا پروگرام بنایا۔ ایک روز شاپنگ کے دوران اچانک آٹھ سال بعد فرح سے بازار میں مڈبھیڑ ہوگئی۔ اس کی حالت دیکھ کر ششدر رہ گئی، وہ بالکل پہچانی نہ جارہی تھی۔
یہ تم کو کیا ہوگیا ہے فرح… تم تو جوانی میں بوڑھی نظر آرہی ہو؟ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اس کے ساتھ ایک چار برس کی بچی تھی۔ میں نے اصرار کرکے گاڑی میں بٹھالیا اور گھر لے آئی۔ تم تو بالکل اجڑ کر رہ گئی ہو۔ وقت سے پہلے بڑھاپا اور ویرانی اتنی کہ میرا دل ہی بیٹھ گیا ہے۔ خوش تو ہو اپنے گھر میں، کس سے ہوئی ہے تمہاری شادی۔ کسی سے نہیں ہوئی؟ کیا مطلب میں نے اس کے ساتھ آئی بچی کی طرف دیکھ کر کہا۔
میرے تابڑ توڑ سوالات کے بعد بالٓاخر گویا ہوئی۔ امی کی وفات کے بعد آپا پانچ برس اور زندہ رہیں اور پانچویں بچی کو جنم دیتے وقت وفات پاگئیں، ان کے پانچ بچوں کو دیکھنے والا کوئی نہ تھا، ان کے شوہر نے کہا کہ اب تمہیں مجھ سے شادی کرنی ہوگی ورنہ ان بچوں کو کون پروان چڑھائے گا؟ جب انکار کیا تو کہا پھر میں ان کو کسی یتیم خانے میں داخل کروادیتا ہوں۔ مجھے آپا کے بچوں کی خاطر ان کی بات ماننا پڑی، کیا کرتی اور کوئی چارہ نہ تھا، شاید اسی وجہ سے میرے لئے کوئی رشتہ پسند نہ آتا تھا اور وہ میری شادی کرانے کا نام نہیں لیتے تھے۔ ہمیں یہ خرچہ دیتے ہی اسی لئے تھے کہ مجھے ایک دن ان کا احسان اتارنا ہوگا … سو ایسا ہی ہوا ہے۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی آنکھوں سے بہتے آنسو پونچھے۔
اس کی حالت زار کہہ رہی تھی کہ وہ بالکل خوش نہیں ہے بس جی رہی ہے لیکن اپنی مرضی سے نہیں بلکہ کسی اور کی مرضی سے سانس لے رہی ہے۔ تھوڑی دیر میرے پاس بیٹھ کر وہ چلی گئی اور میں سوچتی رہ گئی کہ انسان کے نصیب میں کبھی دکھ اور کبھی سکھ ہوتے ہیں مگر کیسا نصیب لے کر آئی تھی فرح بچاری کہ پہلے یتیمی اور پھر جبر بھری زندگی اسے گزارنی پڑ گئی۔ بے شک اس نے اپنی مرحومہ بہن کی خاطر قربانی کا قرض اتار دیا تھا لیکن اس کا اپنا دامن تو خوشیوں سے خالی تھا۔ وہ کہہ رہی تھی ہر لڑکی کے خواب ہوتے ہیں اور میرا خواب تھا ایک پیارا سا پرسکون گھر، تم لوگوں نے پیار دیا تو جی چاہتا تھا تمہارے گھر کی ہی چھائوں مل جائے، مگر میں اس وقت بھی مجبور تھی جب ایسا ممکن تھا اور آج بھی جس گھر میں رہنا کبھی نہ چاہتی تھی اسی گھر میں رہنے پر مجبور ہوں کہ اس کے سوا کوئی اور میرا گھر نہیں ہے۔ جائوں تو کہاں جائوں؟ پہلے آپا کے بچے چھوٹے تھے، میری ان کو اشد ضرورت تھی، اب بڑے ہوگئے ہیں تب بھی میری ان کو اشد ضرورت ہے۔ وہ میرے بغیر ایک پل نہیں رہ سکتے جبکہ ان کے باپ سے پہلے بھی مجھے نفرت تھی اور اب بھی ہے۔
شہلا…بہت مشکل ہوتا ہے اس انسان کے ساتھ عمر بھر رہنا جو آپ کو پسند نہ ہو لیکن اس کے ساتھ رہنا ایک ناگزیر مجبوری بن جائے، ہر سانس میں خنجر چلتا ہے جو میرے دل کو زخمی کرتا رہتا ہے۔ کسی سے اپنا دکھ نہیں کہہ سکتی، کسی رشتہ دار کے گھر پناہ نہیں لے سکتی کہ کوئی ایسا رشتہ دار ہے ہی نہیں جو مجھے پناہ دے۔ فرح اپنا دکھ بتا کر چلی گئی میرے دل کا سویا زخم جگا گئی۔ اس کی یاد کو بھلاچکی تھی لیکن جب دوبارہ مل کر گئی ہے تو اس کی یاد میرے کلیجے کو زخم زخم کرتی رہتی ہے۔ دعا کرتی
ہوں اللہ ایسی مجبور زندگی کسی لڑکی کو نہ دے۔ پہلے فرح کو بھلادیا تھا لیکن اب کبھی نہ بھلا سکوں گی۔ (ن ۔و۔ ملتان)