والد صاحب ٹھیکیدار تھے۔ انہوں نے ان دنوں دریا کے گھاٹ پر ماہی گیری کا ٹھیکا لیا ہوا تھا۔ علاقے کا کوئی مچھیرا مچھلیاں پکڑنے کے لیے دریا میں جال نہیں ڈال سکتا تھا، سوائے اُن ماہی گیروں کے جو والد صاحب نے اُجرت پر رکھے ہوئے تھے۔ ایک روز اُن کا ایک ماہی گیر ہانپتا ہوا آیا اور بتایا کہ ایک عورت اپنے تین بچوں سمیت دریا میں اچانک کود گئی۔ ہم چاروں نے یہ منظر دیکھا تو آناً فاناً دریا میں چھلانگ لگا دی اور انہیں بچا لیا۔ اب وہ کنارے پر پڑے ہیں۔ آپ ڈاکٹر کو لے کر چلئے۔ میرے بڑے بھائی ڈاکٹر ہیں۔ بابا جان نے انہیں ساتھ لیا اور ماہی گیر کے ساتھ دریا کے کنارے چلے گئے۔ تین گھنٹے بعد وہ چاروں کو اپنی جیپ میں گھر لائے۔ سب کی حالت خستہ تھی۔ والدہ نے گرم دُودھ پلایا اور کچھ دیر بعد یہ کھانا کھا کر سو گئے۔
اگلی صبح ناشتے کے بعد امی نے عورت سے پوچھا کہ تم کیوں بچوں سمیت ڈوبنے چلی تھیں۔ وہ ٹھنڈی سانس لے کر بولی۔ ان رواجوں کی وجہ سے۔ ہم عورتوں کی غلامی کے لیے عجیب و غریب رسم و رواج موجود ہیں، میں بھی اِسی کی بھینٹ چڑھ گئی ہوں۔ ایسا کیا ظلم ہوا تمہارے ساتھ جو خودکشی کرنے لگیں اور ساتھ معصوم بچوں کو بھی دریا برد کیا۔ اگر وہ ماہر تیراک وہاں موجود نہ ہوتے تو تم سب ڈُوب گئے ہوتے، تمہیں اپنی اولاد پر بھی ترس نہ آیا۔
جب بندے اتنے ظالم ہو جائیں کہ عورت سے جینے کا حق چھین لیں تو پھر کیا کرے عورت؟ خودکشی نہ کرے تو کیا کرے؟ کیا میں اپنے بے زبان چھوٹے چھوٹے بچّے ظالموں کے حوالے کر جاتی کہ وہ عمر بھر ان سے جو چاہیں سلوک کریں۔ سوچا اس سے اچھا ہے کہ ان کو بھی ساتھ لے کر مروں۔ عورت کی جذباتی باتیں سُن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ وہ کہہ رہی تھی۔ ہمارا گھر اِس دریا سے دو میل دُور قریبی بستی میں ہے۔ میرے شادی چودہ برس کی عمر میں ہوئی اور بدلے میں میری نند میرے بھائی کے نکاح میں دے دی گئی۔ ہم دونوں نے چار سال اپنے اپنے شوہروں کے ساتھ سکون سے گزارے۔ اس دوران میں دو بیٹیوں کی ماں بن گئی اور ناصرہ کو بھی اللہ نے دو بچوں سے نواز دیا۔
ہم سب آپس میں شیر و شکر تھے کہ ایک دن کسی بات پر میرے جیٹھ، دلاور کی ابا جی کے ساتھ تلخ کلامی ہوگئی۔ اپنے سے چھوٹے کی منہ زوری پر ابّا کو غصہ آ گیا اور انہوں نے طیش میں آکر ایک تھپڑ دلاور بھائی کے منہ پر جڑ دیا۔ دلاور کہاں چپ رہنے والا تھا۔ بکتا جھکتا گھر آیا اور آتے ہی میرے خاوند کو کہا کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دو کیونکہ اس کے باپ نے میرے منہ پر تھپّڑ مارا ہے، میں اس بے عزتی کا بدلہ لوں گا۔
میرے شوہر نے اپنی دونوں معصوم بچیوں کی طرف دیکھا اور جواب دیا۔ بڑے بھائی تمہاری بات دُرست مگر ہماری بہن ناصرہ بھی تو اُن کے گھر میں ہے اور وہ بھی دو بچوں کی ماں ہے۔ اگر میں نے صغراں کو طلاق دی تو کیا وہ ناصرہ کو طلاق نہیں دے دیں گے؟ ہو جانے دو ناصرہ کو طلاق۔ میں بھی یہی چاہتا ہوں۔ ہم اپنی بچیاں رکھ لیتے ہیں اور ناصرہ کے بچّے ان کے منہ پر دے مارتے ہیں۔ غصے میں تیری مت ماری گئی ہے۔ میری ساس نے کہا۔ ارے عقل کے اندھے، اُس بڈھے کا کیا بگڑے گا، تیرے بھائی اور تیری بہن دونوں کا گھر اُجڑے گا، ان کے چھوٹے چھوٹے بچّے مصیبت میں آ جائیں گے۔ بس اماں، تو تو جب بولتی ہے خودغرض ہو کر بولتی ہے۔ کیا میری عزت کی کوئی پروا نہیں تجھے۔ اُس نے کیسے جرأت کی مجھے تھپڑ مارنے کی اور میں ہوں کہ بے غیرت تھپڑ کھا کر گھر آ گیا۔ ساری زندگی تیرے سمدھیوں کے سامنے میری مونچھ نیچی رہے، کیا تو یہ چاہتی ہے۔ اس سے تو اچھا ہے میں اپنے پیٹ میں چھری مار لوں۔
بڑے بھائی کو اس قدر جذباتی دیکھ کر میرے شوہر نے منت کی۔ لالہ دلاور دو دن کی مہلت دے دو۔ اتنا بڑا فیصلہ ایک لمحے میں نہیں ہوسکتا۔ میری دو بیٹیاں ہیں، ان کو ماں سے لینے کے لیے پنچایت بیٹھے گی، ذرا سوچ سمجھ لینے دو۔ ٹھیک ہے تو سوچتا رہ، میں تو جا رہا ہوں اپنی بہن کو لینے۔ دیکھتا ہوں کیسے نہیں بھیجتے وہ ناصرہ کو۔ یہ کہہ کر لالہ گھر سے نکل گیا۔ ابھی اُس کو گئے ایک گھنٹہ بھی نہ ہوا تھا کہ گائوں میں شور مچ گیا کہ دلاور نے اپنی بہن کے سُسر کو قتل کر دیا ہے۔ یہ قتل عمداً نہیں ہوا تھا، نہ لالہ اس نیت سے وہاں گیا تھا مگر جب چاچا اکرم نے بہو کو میکے جانے سے روکا تو بات بڑھ گئی۔ گالم گلوچ تک نوبت پہنچ گئی، خود ناصرہ نے انکار کیا، وہ دلاور کے ساتھ میکے نہیں جانا چاہتی۔ طیش میں آ کر سامنے پڑے ٹوکے سے لالہ نے ناصرہ پر وار کیا تو ابّا جی بہو کو بچانے کی خاطر سامنے آ گئے۔ وہ موقع پر دم توڑ گئے۔
واقعے کی خبر گائوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ جونہی مجھے کسی نے آ کر بتایا، دل نے کہا۔ تیار ہو جا، اب تو اس جھگڑے میں قربانی کا بکرا بنے گی۔ تب ہی میں خوف سے اپنی دونوں بچیوں کو لے کر علاقے کے بڑے زمیندار کے گھر چلی گئی اور پناہ طلب کی کیونکہ مجھے پتا تھا کہ اب اپنے گھر میں میری زندگی محفوظ نہیں ہے۔ دلاور کو گرفتار کر لیا گیا۔ میرا شوہر ناصرہ کو گھر لے آیا کیونکہ میں بھی گھر سے جا چکی تھی۔ میرے بھائی نے اپنے دونوں لڑکے جن کی عمریں ایک اور دو سال تھیں، اپنے پاس رکھ لیے اور سُسرال والوں نے میری طلاق کروا دی۔ طلاق کے بعد بھائی مجھے زمیندار کے گھر سے لے آیا۔ دو سال بعد اس نے میری شادی ساتھ والے گائوں میں رجب سے کر دی، اور رجب نے بدلے میں اپنی بہن قیصرہ کو میرے بھائی کے نکاح میں دے دیا۔
دو اُجڑے ہوئے گھر پھر بسا لیے گئے لیکن میرے دل کی دُنیا ابھی تک اُجڑی ہوئی تھی کیونکہ مجھے اپنے پہلے شوہر سے بہت محبت تھی جو میری دو بچیوں کا باپ تھا۔ اُس کو بھی مجھ سے محبت تھی۔ دُوسری شادی ہو جانے کے باوجود اس نے مجھ سے بچیوں کو چھیننے کی کوشش نہیں کی۔ اس کا بھائی میرے والد کے قتل کے کیس میں جیل کے اندر تھا اور وہ اس کیس میں پھنسا ہوا تھا کہ کسی طرح بھائی کی جان بچ جائے اور اُس کو پھانسی کی سزا نہ ہو۔ سُسر نے اپنی زمین بیچ کر مقدمے پر لگا دی۔
کیس چلتا رہا۔ اس دوران دُوسرے خاوند سے میں ایک بیٹے کی ماں بن گئی۔ میں نے اس شادی سے سمجھوتا کر لیا تھا۔ رجب نے میری دونوں لڑکیوں کی پرورش کا خرچہ اُٹھا لیا تھا اور اپنے گھر میرے ساتھ ان کا رہنا بھی قبول کر لیا تھا تاہم اُس کی بہن میرے بھائی کے ساتھ ہرگز خوش نہ تھی کیونکہ وہ اپنے چچازاد سے شادی کی آرزومند تھی، جس کے ساتھ رجب کی دشمنی چل رہی تھی لیکن قیصرہ کے دل سے اپنے محبوب منور کی یاد جاتی نہ تھی۔ تبھی آئے دن وہ میرے بھائی کے ساتھ گھر میں مسئلے کھڑے کرتی رہتی تھی۔ اس کی غیرمطمئن زندگی نے میری زندگی پر بہت بُرے اثرات مرتب کئے جبکہ میری پناہ گاہ رجب کا گھر تھا، میں اور کہاں جاتی۔ باپ قتل ہو چکا تھا اور بھائی تو تھا ہی خودغرض، اُسے صرف اپنی خوشیوں سے مطلب تھا۔
ایک دن آیا کہ رجب کی اُس کے چچازاد منور سے صلح ہو گئی۔ وہ ہمارے گھر آنے جانے لگا۔ جب قیصرہ کو علم ہوا تو وہ تڑپ گئی اور میرے بھائی سے رُوٹھ کر میکے آ بیٹھی۔ بھائی اُسے لینے آیا تو ساتھ جانے سے صاف انکار کر دیا۔ اس پر بھائی نے مجھے کہا کہ صغراں تم میرے ساتھ میکے چلو جب تک تم میرا ساتھ نہیں دو گی، قیصرہ یہاں ہی بیٹھی رہے گی اور رجب پر بھی دبائو نہیں پڑے گا، اس پر دبائو ڈالنے کے لیے تمہیں بھی خاوند کا گھر چھوڑ کر اس وقت تک میکے میں رہنا ہوگا جب تک کہ قیصرہ کو مجبور ہو کر یہ لوگ واپس نہیں کرتے۔ گویا میں ایک بے جان کھلونا تھی جسے ہر کوئی استعمال کر سکتا تھا۔ میں نے قیصرہ کی منت کی۔ بھابی تم میرے بھائی کے ساتھ گھر واپس چلی جائو، اُسے کھانے کی تکلیف ہے۔ آخر کب تک یہاں رہو گی۔ اگر تم نہیں جائو گی تو لامحالہ بھائی مجھے لے جائے گا۔ یوں تنازع بڑھ جائے گا۔ بچّے الگ پریشان ہوں گے۔ اُس نے میری بات نہیں سمجھی کیونکہ اس کے سر پر عشق کا بُھوت سوار تھا۔ قیصرہ نے اپنے والدین کی بات بھی نہ سُنی۔ وہ کہتی تھی کہ میرا نباہ سخی کے ساتھ ممکن نہیں، مجھے طلاق چاہیے۔ بس طلاق چاہیے۔
باپ نے اُسے مارا۔ بھائی نے جان سے مارنے کی دھمکی دی۔ قیصرہ پر کوئی اثر نہ ہوا نتیجہ یہ نکلا کہ میرا بھائی ایک روز آ کر لے گیا۔ ایک بار پہلے گھر اُجڑا تھا۔ دُوسری بار جو بے دلی سے بسایا وہ بھی اُجڑ گیا۔ اب ہماری اور رجب کی طرف سے بزرگ مل بیٹھے کہ مسئلے کا کوئی حل نکلے۔ حل یہ نکالا گیا کہ میرے بھائی نے رجب سے مطالبہ کیا اگر تم مجھے پچاس ہزار روپے دے دو تو میں تمہاری بہن قیصرہ کو آزاد کر دیتا ہوں اور پچاس ہزار سے کوئی دُوسری عورت خرید کر اُس سے شادی کر کے گھر بسا لیتا ہوں۔ یوں میری بہن کا گھر نہیں اُجڑے گا۔ تمہیں تمہاری بیوی واپس مل جائے گی اور ہم صغراں کو طلاق نہیں دلوائیں گے۔ رجب نے کہا۔ میری اتنی استطاعت نہیں ہے کہ پچاس ہزار تمہیں دے سکوں۔ میں نے تمہاری بہن کے سابق شوہر کی دو بیٹیاں پانچ سال اپنے گھر رکھی ہیں۔ ان کی پرورش کا خرچہ اُٹھایا ہے، جبکہ تم نے اور نہ ان بچیوں کے سگے والد نے اب تک ان کے خرچے کے لیے ایک پائی ادا کی ہے۔
سخی میرے سابقہ خاوند کے پاس گیا اور اُس سے کہا کہ تم ان بچیوں کی پرورش پر جو خرچہ ہو چکا، وہ ادا کر دو اور اپنی بچیاں لے لو۔ وہ دُوسری شادی کر چکا تھا۔ اُس کے دو بچّے ہوگئے تھے۔ اُس نے کہا کہ میں اُسی صورت میں خرچہ ادا کر کے بچیوں کو اپنے ساتھ رکھوں گا اگر ان کی والدہ کبھی ان سے ملے اور نہ بچیاں ماں سے ملنے جائیں گی، یہ شرط منظور ہے تو پھر بات کریں۔
سخی بھائی نے گھر آ کر مجھے میرے سابقہ شوہر کی شرط بتا کر کہا کہ تم اسٹامپ پیپر پر لکھ کر دو گی کہ تم کبھی رابطہ کرو گی اور نہ کبھی اپنی بچیوں سے ملنے کا مطالبہ کرو گی، اسی صورت میں تمہاری لڑکیوں کا باپ ان کا وارث بننے پر آمادہ ہے اور وہ پچاس ہزار کی رقم بھی ان لڑکیوں کے عوض دینے پر رضامند ہے۔ میں نے کہا۔ سخی دل میں ان بچیوں کی ماں ہوں، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پچاس ہزار کی خاطر میں اپنی بچیاں دے دوں۔ مجھے کوئی پچاس لاکھ بھی دے تب بھی یہ سودا نہ کروں۔ کوئی ماں کیا کبھی ایسا سودا قبول کر سکتی ہے، جب اُن لوگوں نے بہت مجبور کیا تو کوئی رستہ فرار نہ پایا۔ سوچا کہ اپنی اولاد سے جیتے جی ناتا توڑ لینے سے بہتر ہے کہ ماں مر جائے، اسی افسردگی میں ہی اپنے بچوں کو لے کر گھر سے صبح تڑکے نکل پڑی تھی۔ گھر والے اُس وقت گہری نیند سو رہے تھے۔
صبح طلوع ہوتے ہم دریا کنارے آ پہنچے اور میں نے یہ قدم اُٹھایا جو دل میں ٹھان لی تھی کہ خودکشی کر کے دُکھوں سے پیچھا چھڑا لوں گی مگر وہاں یہ نیک دل مچھیرے آ پہنچے۔ مجھے اور میرے بچوں کو بچا لیا۔ آج آپ کے گھر میں ہوں کل نجانے میرا ٹھکانہ کہاں ہوگا؟ یہ داستانِ غم سنا کر وہ آبدیدہ ہوگئی۔ امّی نے دلاسا دیا کہ جب تک تمہیں کوئی محفوظ جگہ نہ ملے، ہمارے پاس رہو۔ صغراں دو سال ہمارے گھر رہی۔ وہ گھر کا کام کاج کر کے میری ماں کو سکھ پہنچاتی تھی، بہت اچھی عورت تھی۔ تمام عمر بھی ہمارے گھر میں رہ جاتی تو بوجھ نہ لگتی۔
دو سال بعد ایک روز رجب آ گیا اُسے اپنے بیٹے کی محبت کھینچ لائی تھی۔ اس نے والد صاحب سے وعدہ کیا کہ وہ صغراں کو اچھی طرح رکھے گا، اُسے طلاق بھی نہ دے گا اور نہ اس کے بھائی کے حوالے کرے گا۔ اس کے عوض پچاس ہزار کی رقم وہ سخی دل کو ادا کر دے گا کیونکہ قیصرہ طلاق لے چکی تھی۔ والد نے سخی دل کو بلوایا اور رجب نے اُسے اس کی بہن کی قیمت چکائی اور پکے کاغذ پر عہدنامہ لکھوا کر ان کا تنازع ختم کروا دیا۔ صغراں کے سابق شوہر نے بھی اپنی بچیوں سے دستبرداری کا عہدنامہ لکھ کر دے دیا کہ بچیاں ماں کے پاس رہیں گی کیونکہ اس کی دُوسری بیوی ان بچیوں کو اپنے پاس رکھنے کی روادار نہ تھی اور وہ خود بیٹیوں کا خرچہ دینے سے قاصر تھا۔ یوں صغراں جو جان سے جا رہی تھی، اس کی زندگی میں ایک بار پھر سے بہار آ گئی۔ وہ بخوشی اپنے خاوند رجب کے گھر میں آباد ہوگئی، اس کی بیٹیوں کی شادیاں بھی رجب نے کیں۔ بابا جان کو شادی پر مدعو کیا تو انہوں نے ان بچیوں کی شادی میں شمولیت کی تھی۔ ان کی شادی دو سگے بھائیوں سے ہوئی تھی جو صغراں کے چچازاد بھائی کے بیٹے تھے۔ وہ خوشحال تھے اور دبئی میں کما رہے تھے۔ جب تک صغراں زندہ رہی، اس نے ہمارے گھرانے سے رابطہ قائم رکھا۔ عید پر ضرور آتی اور حال احوال امّی جان سے کرتی۔ بعد میں جب بزرگ اللہ کو پیارے ہوگئے اور ہماری بھی شادیاں ہوگئیں۔ زندگی، وقت، حال، مستقبل سب تبدیل ہوگئے تو صغراں سے بھی رابطے نہ رہے۔ آج کبھی کبھی جب اس قسم کی بات سُنتی ہوں کہ ایک ماں نے بچوں سمیت دریا میں چھلانگ لگا دی تو صغراں کے حالاتِ زندگی نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں۔ خدا جانے کب تک ہمارے دیہات کی عورتیں اسی طرح حالات سے تنگ آ کر دریائوں کی بانہوں میں پناہ لیتی رہیں گی؟ (س… خیرپور)