ان دنوں ہماری پھوپی زاد کبری کی شادی تھی۔ شادی کی رات لڑکے اور لڑکیاں ہال میں جمع تھے اور گا بجا رہے تھے۔ سلیمان میرا پھوپی زاد تھا اور بہت اچھا گاتا تھا، لیکن جب اسے گانے کو کہا گیا تو اُس نے منع کیا اور شرمانے لگا ، تبھی میں نے ہمت دلائی تو اس نے ایک مقبول لوک گیت سنایا ۔ اس کی آواز بہت اچھی اور گلے میں سوز تھا سب پر سحر طاری ہو گیا۔ مجھ پر تو اس کی پر سوز آواز نے ایسا اثر کیا کہ میں کھو سی گئی۔ شادی ختم ہو گئی۔ سب مہمان چلے گئے ہم بھی اپنے اپنے گھروں کو چل دیئے ، مگر میں اس بار ایک نئے سلیمان کی تصویر کو اپنے دل میں سجا کر لائی تھی ۔ اب اُس کا خیال ہر پل مجھے گھیرے رکھتا۔ نگاہیں دروازے اور کان آہٹوں پر لگے رہتے۔ مسئلہ یہ تھا کہ جس گھر جوان لڑکیاں ہوں وہاں رشتے دار لڑکے بہت کم جاتے تھے حالانکہ اس کا گھر ہمارے گھر کے پاس تھا وہ پھر بھی نہیں آتا تھا ۔ ایک سال یونہی گزر گیا اور میں اس کی ایک جھلک بھی نہ دیکھ سکتی تھی۔ ایک روز صحن میں بیٹھی تھی کہ اچانک وہ آگیا۔ بہت عرصے بعد دیکھا تو آنکھوں نے یقین نہیں کیا، بس بت بنی اسے دیکھتی رہی ۔ چھوٹی بہن نے ہلا کر مجھے خواب سے بیدار کیا۔ جب میں ہوش میں آئی تو دل خوشی سے لبریز ہو گیا کیونکہ عرصے بعد دل کے مالک کو دیکھا تھا۔ ماں نے اسے خوش آمدید کہا۔ اتنے عرصے بعد کیسے آنا ہوا؟ خیر تو ہے؟ سب خیر ہے بس ماموں یاد آتے تھے۔ اس نے جواب دیا۔ اس کے ماموں میرے والد تھے۔ تبھی ماں نے ہم سے کہا۔ لڑکیوں اٹھو! کچن میں جائو، کچھ چائے وغیرہ لائو۔ کیا مہمان کی تواضع مطلوب نہیں ہے؟ ہم دونوں بہنیں کچن میں چلی گئیں ۔ ہاں تو سلیمان کیا رشتہ بھول گئے تھے؟ شکر ہے آئے تو، کیا پھوپھی کی تم کو یاد نہیں آتی؟ بوا جی، آپ کیسی باتیں کرتی ہیں۔ یہ تو میرا گھر ہے ۔ماں نے ہم کو کہا۔ چائے بعد میں پہلے کھانے کا بندوبست کرو ، یہ کھانے کا ٹائم ہے۔ وہ کچن میں ہمارے پاس آگئیں اور بولیں۔ میں سلیمان کے لئے اچھا سا سالن بناتی ہوں۔ انہوں نے بھنا ہوا گوشت بنانا شروع کر دیا۔ رابعہ آٹا گوندنے لگی اور میں صحن میں تنور دہکانے کے لئے ایندھن اکٹھا کرنے لگی۔ میں ایندھن تنور کے پاس ڈھیر کر کے سلیمان کی طرف آئی اور کوئی بات کرنے کی بجائے اس کے چہرے کو دیکھنے لگی۔ اس نے کہا۔ پشمینہ کیا بات ؟کیوں ایسے مجھے تک رہی ہو۔ کیا میرے چہرے پر کچھ لگا ہوا ہے۔ نہیں یہ بات نہیں ہے ۔ میں نے کہا تو پھر کیا بات ہے؟بات یہ ہے کہ آج میں بہت خوش ہوں کیونکہ تم ہمارے گھر آئے ہو۔ میرے دل میں بڑی چاہ تھی تمہیں دیکھنے کی۔ اس کا مطلب ہے کہ تم کو میری صورت پسند ہے؟ میں شرمانے لگی ۔ شرمانے کی کیا ضرورت ہے! جو تم نے نہیں کہا، وہ بھی میں نے سن لیا۔ اچھا اگر میں علاقے سے باہر چلا جائوں تو پھر تم کیا کرو گی؟ میں جی نہ سکوں گی۔ برملا میرے منہ سے نکلا۔ پشمینہ تم اتنی مضبوط باتیں کرتی ہوں لیکن مجھے یاد ہے کہ تمہاری منگنی بخت سنوار سے طے ہے۔ وہ تو ایسے ہی بات ہوئی تھی نکاح، تو نہیں ہوا۔ میں نے افسردہ ہو کر کہا تو وہ چپ ہو گیا – پھر بولا۔ اداس نہ ہو ، بابا جان نے مجھے دکان کر دی ہے جو ہمارے گھر کے پچھواڑے ،سڑک پر ہے۔ کبھی تم وہاں آنا۔میں نے وعدہ کیا کہ ضرور آئوں گی ۔ اس روز کھانا اس نے ہمارے ساتھ کھایا اور اپنی اس آمد کی یاد میرے دل میں گلاب کے پھول کی خوشبو کی مانند وہ بسا کر چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد کئی دن تک خوشی میں سرشار رہی اور ایسے خوش رہنے لگی جیسے وہ ابھی تک ہمارے گھر میں موجود ہو پھر وقت کے ساتھ یہ کیفیت ماند پڑنے لگی اور اس کی یاد اور دیدار کی خواہش تنگ کرنے لگی۔ پل پل بے قرار ی نے مجھ کو اندر ہی اندر ہلاک کرنا شروع کر دیا۔ جب اس درد سے نمٹنا میرے بس کی بات نہ رہی تو دل سے مجبور ہو، میں نے اماں سے کہا۔ مجھے کچھ چیزیں خریدنی ہیں کیا میں رابعہ کے ساتھ سلیمان کے جنرل اسٹور پر چلی جائوں؟ ماں بولیں۔ چلی جاؤ مگر جلدی آ جانا۔ یوں میں اور میری بہن، اس کے اسٹور آ گئے -وہ ہمیں دیکھ کر خوش ہو گیا اور ہماری خاطر تواضع کے لئے اپنے اسٹور کے اوپر بنے ہوئے کمرے میں لا بٹھایا۔ تھوڑی دیر ہم نے باتیں کیں۔ اس نے ہمیں چائے پلوائی ، پھر ہم واپس آ گئے۔ امی اپنی بہن کے گھر گھنٹہ بھر کو جایا کرتی تھیں۔ خالہ کا گھر ساتھ ہی تھا۔ اسی وقت رابعہ مجھے گھر سے نکال دیتی اور میں سلیمان سے ،ملنے چلی جاتی۔ میں وہاں تقریباً آدھ گھنٹہ یا اس سے کم بیٹھتی اور ماں کے آنے سے قبل گهر واپس آجاتی۔ میں دو بار ہی اس طرح گئی تھی کہ وہ واقعہ ہو گیا جس کا کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ یہ جون کے مہینے کا ایک طویل دن تھا۔ میں اور سلیمان اسٹور کے اوپر والے کمرے میں بیٹھے تھے کہ کچھ لڑکے جو ہمارے محلے کے تھے آگئے اور ہم دونوں کو پکڑوا دیا۔ ظاہر ہے ہم کوئی برائی تو نہ کر رہے تھے، اسی لئے سیڑھی کا دروازه بھی کھلا رکھا تھا ہوا یہ کہ ان لڑکوں نے مجھے اوپر جاتے ہوئے دیکھا تھا۔ میں چادر لپیٹ کر آئی تھی۔ ان کو خبر نہ تھی کہ میں کس کی بیٹی ہوں۔ بہرحال ہم نے ان کو کسی نہ کسی طرح یقین دلا دیا کہ ہم یہاں بری نیت سے نہیں بیٹھے۔ کوئی اہم بات کرنی تھی جو دکان میں کھڑے رہ کر نہ ہو سکتی تھی۔ اس وقت تو یہ لڑکے چلے گئے اور میں بھی ہانپتی کانپتی گھر پہنچ گئی۔ میں اس روز بد نامی سے بال بال بچی لیکن دل تو مٹھی میں آ گیا تھا۔ رابعہ نے میری حالت دیکھی تو سمجھ گئی کہ میرے ساتھ کوئی حادثہ ہوا ہے۔ وہ قسم دینے لگی کہ سچ بتائو کیا ہوا ہے تب میں نے بڑی مشکل سے بتایا کہ میں کیسے مرتے مرتے بچی ہوں۔ اگر وہ لڑکے ہمارا جلوس نکال دیتے تو جانے کیا ہو جاتا۔ اب کبھی ایسے مت جانا۔ رابعہ نے مجھ کو ہدایت کی اور فوراً وضو کر کے شکرانے کے نفل ادا کرنے لگی کہ آج ہمارا گھرانہ ایک بڑی قیامت سے بچ گیا تھا۔ میں تو بچ گئی مگر لڑکوں نے سلیمان کو نہ بخشا۔ جب میں وہاں سے آگئی تو سلیمان بھی اپنی دکان پر جا بیٹھا اور وہ لڑکے بھی چلے گئے۔ اس واقعہ کا اثر سلیمان پر زیادہ تھا لہذا اس نے دکان بند کر دی اور اوپر والےکمرے میں جا کر لیٹ گیا۔ شاید وہ اپنے حواس بحال کر رہا تھا، تبھی ایک لڑکا دو پولیس والو ں کو لے کر آگیا۔ وہ پولیس والے اسے تھانے لے گئے اور حوالات میں بند کر دیا۔
اس کے گھر والوں کو کچھ پتا نہیں تھا کہ وہ کہاں گیا ہے۔ پولیس کو بس رشوت چاہئے تھی۔ کسی کی عزت و حرمت سے ان کو کچھ غرض نہ تھی۔ سلیمان سے انہوں نے موٹی رقم طلب کر لی۔ اس نے کہا۔ مجھے دکان پر لے چلو۔ رقم وہاں سے ہی دوں گا، یوں اس نے ان کو رقم دے کر جان چھڑائی لیکن اس واقعہ نے اس کے دل و دماغ پر گہرا اثر ڈالا۔ جو لڑکے ہمیں پکڑنے دکان پر آئے تھے ان میں سے ایک ہمارے رشتے دار کے بیٹے کا دوست تھا۔ اس نے یہ واقعہ اپنے دوست کو بتایا۔ بس پھر کیا تھا ، سارے خاندان میں بات پھیل گئی اور ہم دونوں بد نام ہو گئے۔ عجب بات یہ کہ جس بات کا چرچہ سارے خاندان میں تھا اس کا علم میرے والد صاحب کو نہیں تھا۔ وہ کاروبار کے سلسلے میں کبھی افغانستان ہوتے تو کبھی کوئٹہ اور کبھی ایران اور اکثر کاروبار ان کا پشاور میں چلتا تھا۔ وہ بڑے سخت آدمی تھے۔ کسی کی ہمت نہ تھی کہ اس واقع کا ذکر ان سے کرتا۔ وہ ایک لمحے میں بندوق تان لیتے ۔ اسی سبب لوگ آپس میں چہ میگوئیاں ہی کرتے رہے۔ کسی نے امی اور بابا جان کو کچھ نہ بتایا۔ ایک دن ہمارے علاقے کے ایک گائوں میں شادی تھی۔ وہاں سلیمان کے گھر والے اور ہم سب مدعو تھے۔ شادی کے وسیع گھر میں مجھے اور سلیمان کو بات کرنے کا موقع مل گیا۔ مجھے اس نے کہا کہ تم میرے ساتھ کچھ دیر کو یہاں سے باہر چلو۔ میں نے کہا کہ کسی کو پتا چل گیا تو کیا ہو گا۔ کہنے کا لگا کہ مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے، دوبارہ موقع نہ ملے گا۔ مری یہاں سے قریب ہے۔ مری چلو، شادی میں اتنا رش ہے سب ہی خریداری کے شوق میں شہر جاتے ہیں۔میں ماں سے پوچھ لیتی ہوں۔ بولا۔ ماں سے نہ پوچھو ۔ اگر تم نے پوچھا تو وہ کسی اور کو بھی ہمارے ساتھ کر دیں گی اور میں نے اکیلے میں بات کرنی ہے تم بس چادر لپیٹو اور نکلو۔ سڑک پر جو وین کھڑی ہے ،اس میں جا بیٹھو۔ میں پیچھے آتا ہوں۔ اگر وہاں تمہیں کسی نے سوار ہوتے دیکھ لیا تو پھر میں رابعہ اور خوباں کو بھی لے آئوں گا ورنہ ہم اکیلے چلیں جائیں گے۔ میں مکان کے پچھواڑے سے نکلی اتفاق سے ادھر کوئی نہ تھا۔ میں پہاڑی رستے پر چلنے کے بجائے سیدھی چڑھائی سے چڑھ کر سڑک پر پہنچی اوروین کا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی۔ سڑک کے سامنے والے کنارے پر وہ کھڑا تھا۔ وہ تیزی سے آیا اور وین میں بیٹھ کر گاڑی چلا دی۔ہم شہر کے ہوٹل میں آ گئے وہاں رجسٹر پر اس نے میرا اور اپنا نام مسٹر و مسسز لکھوایا ۔ ہم کمرے میں آ گئے ۔ اب ہم کھل کر باتیں کر سکتے تھے۔ اس نے کہا۔ پشمینہ !تم آج مجھ سے صاف کہو، کیا چاہتی ہو؟ کیا تو مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو؟ میں نے کہا۔ ہاں، میں تمہاری زندگی کی شریک بننا چاہتی ہوں۔ تو پھر تم میرے ساتھ ابھی اور اسی وقت کورٹ چلو جب بات سارے خاندان میں پھیل گئی ہے تو کیوں نہ وہ کیا جائے جس کی ہم کو کچھ غلط نہ کر کے بھی سزا مل رہی ہے۔ تم ابھی میرے ساتھ کورٹ چلو، ہم نکاح کر کے آجاتے ہیں۔ میرے دوست نے وہاں سب بندوبست کیا ہوا ہے۔ دو تین گھنٹے سے زیادہ نہیں لگیں گے ۔ خاندان میںتو ہم بدنام ہو چکے ہیں۔ بدنامی کسی روز کھلے گی تو جانتی ہو ،کیا ہو گا؟ تم پھر کسی کے گھر آباد ہونے کے بھی قابل نہیں رہو گی اور دوبارہ ایسا وقت نہیں ملے گا۔ ہم ابھی نکاح کر کے آجاتے ہیں ، میں تم کو واپس شادی والے گھر چھوڑ دوں گا۔ وہ مجھے اسی طرح ذہنی طور پر کورٹ میرج کے لئے آمادہ کر رہا تھا ۔ والد صاحب کو پتا چلے گا تو کیا ہو گا؟وہ تو جب وقت آئے گا، دیکھا جائے ، ان باتوں سے مجبور ہو کر نہیں بلکہ اپنی مرضی اور دل سے مجبور ہو کر میں سلیمان کے ساتھ اسی وقت کورٹ چلی گئی اور ہمارا نکاح ہو گیا۔ جب ہم واپس آرہے تھے تو ہمیں بخت خان کے چھوٹے بھائی شہباز نے دیکھ لیا۔ اس نے اسی وقت جا کر اپنے باپ کو بتایا کہ میں نے پشمینہ کو سلیمان خان کے ساتھ وین سے اتر کر شادی والے گھر کی طرف جاتے ہوئے دیکھا ہے ۔ اس نے اپنے بھائی کو بھی کہا کہ میں نے تیری ہونے والی بیوی کو اس کے کزن کے ساتھ دیکھا ہے۔ اب تم ہی سوچو کہ لوگ کیا کہتے ہوں گے کہ بخت کی ہونے والی بیوی اپنے کزن کے ساتھ چکر لگاتی پھرتی ہے۔ تبھی بخت نے اپنے چاچا سے کہا۔ کہ ابھی اور اسی وقت شادی کا بندوبست کرو۔ میں مزید ایسی باتیں برداشت نہ کر سکوں گا۔ طره خان تو افغانستان میں پھنسا ہوا ہے اور بیٹی کی شادی باپ کے آنے سے قبل ہو نہیں سکتی، تم ذرا صبر کرو. اصغر چاچا نے اسے ٹھنڈا کیا۔ جب میں شادی والے گھر پہنچی تو ماں پریشان تھی وہ مجھے کب سے ڈھونڈ رہی تھی ۔ اس وقت رابعہ آڑے آئی۔ اس نے ہی ماں کو روکا۔ ماں کیا کرتی ہو؟ شادی والے گھر میں اپنا ہی تماشا بنا رہی ہو۔ یہ کہیں نہیں گئی تھی۔ پچھلے گھر میں لڑکیاں دف بجا رہی تھیں جو دولہا کا گھر تھا۔ یہ وہاں چلی گئی تھی۔ میں نے چھوٹی بہن کی فراست کی داد دی اور کہا۔ ہاں ماں میں تو ادھر ہی تھی۔ تو مجھے بتا کر کیوں نہیں گئی تھیں ؟ رابعہ کو تو بتا دیا تھا ۔ الٹا میں نے رابعہ ہی کو پھنسا دیا اور خود ادھر ادھر ہو گئی۔ ماں رابعہ سے الجھتی رہ گئی۔ شادی ختم ہو گئی، ہم گھر آ گئے۔ اب میں جہاں پریشان تھی وہاں مطمئن بھی تھی کہ سلیمان کی منکوحہ ہوں۔ گرچہ یہ راز کسی ایٹم بم سے کم نہ تھا مگر اب ہم دونوں اپنا کچھ تو دفاع کر سکتے تھے کیونکہ میرا نکاح سلیمان سے ہو چکا تھا۔
بابا جان کے آنے کی امید نہ تھی وہ مگر اچانک آ گئے۔ جب بخت والوں نے سنا کہ خان آ گیا ہے تو انہوں نے آکر شادی کی بات چلا دی اور کہا کہ ہم جلد شادی کی تاریخ چاہتے ہیں۔ بابا جان بولے ۔ ٹھیک ہے ،مجھے آرام کر لینے دو۔ چند دن بعد آجانا ابھی مجھ کو اپنی بیوی سے بھی مشورہ کرنا ہے۔بابا جان نے اماں جان سے رائے طلب کی تو ماں نے کہا۔ کہ ابھی ان کو ٹال دو ، کیونکہ پشمینہ شادی پر رضا مند نہیں ہے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ بیمار پڑ جائے۔ بابا جان کو ہماری شادی کی کوئی جلدی نہ تھی۔ انہوں نے ان کو ٹال دیا کہ ابھی لڑکی کی صحت ٹھیک نہیں ہے۔ میرے سسرال والوں کو جلدی تھی وہ اصل بات کا ذکر ابا جان کے سامنے نہ کرتے تھے کہ کہیں وہ رشتہ دینے سے انکار نہ کریں۔ وہ سلیمان کے والد کے پاس گئے اور کہا کہ طرہ خان بیٹی کی شادی بخت سے کرنے پر رضا مند نہیں ہے اور آنا کانی کرتا ہے ، تم جا کر اس کو راضی کرو اور ہمیں تاریخ لے کر دو ۔ وہ ہمیں زبان دے چکا ہے۔ اب ہم یہ رشتہ نہیں چھوڑیں گے۔ سلیمان کو بھی خبر ہو گئی کہ معاملہ اب بالکل تیار ہے تو باپ کو حالات سے آگاہ کیا اور کہا۔ میں نے آپ کی اجازت کے بغیر یہ جرأت کر لی ہے اب حالات کوسنبھالنا آپ کا کام ہے۔ سلیمان کے والد صاحب جو میرے پھوپھا بھی تھے، یہ سن کر سوچ میں پڑ گئے بات کو طشت ازبام کرنے کی بجائے انہوں نے دوسرا طریقہ اپنایا۔ وہ بخت کے والد کے پاس گئے اور کہا۔دیکھو اصغر خان تم میرے رشتہ کے بھائی ہو ، اس لئے میں تمہارے پاس درخواست کرنے آیا ہو، ورنہ سیدھا طرہ خان کے پاس جا سکتا تھا۔ اب میری بات غور سے سنو میں پشمینہ کا رشتہ اپنے بیٹے سلیمان خان کے لئے لینا چاہتا ہوں۔ تم یہ رشتہ چھوڑ دو۔ اس کے بدلے میں تمہاری ہر شرط ماننے کو تیار ہوں۔ اگر تم کو رشتے کے بدلے رشتہ درکار ہے تو میں اپنی بیٹی خوباں کا رشتہ تمہارے لڑکے کو دینے پر راضی بون یا پھر تم اس کے لئے مجھ سے ایک ٹرک مال سے بھرا ہوا لے سکتے ہو۔ اصغر خان بولا۔ نہ میں رشتے کے بدلے رشتہ لوں گا اور نہ مال سے بھرا ہوا ٹرک ، ایسا کوئی سودا مجھے منظور نہیں۔ میں پشمینہ کا رشتہ ہی لوں گا کیونکہ ہم نے بہت پہلے اس لڑکی کو بہو بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا اور ہم آج بھی اس پر قائم ہیں۔ ہم تمہارے پاس اپنا مسئلہ لے کر آئے تھے اور تم الٹا اپنا مسئلہ لے کر آگئے۔ اس کے بعد وہ لوگ میرے ماموں کے پاس چلے گئے۔ ماموں نے کہا۔ اگر پشمینہ کا باپ تاریخ دینے پر راضی ہو تو میں تمہارے ساتھ ہوں، لیکن رشتہ دینا یا نہ دینا، ان ہی کا اختیار ہے۔ میں صرف ان کو تمہاری طرف سے کہہ سکتا ہوں ، مجبور نہیں کر سکتا۔ ماموں جان آئے۔ انہوں نے میرے والدین سے میری شادی کی بات کی۔ اماں راضی نہ تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں بخت والوں کی باتیں سن رہی ہوں۔ یہ لوگ ایک طرف میری بیٹی کو برا کہہ رہے ہیں، بدنام کر رہے ہیں اور دوسری طرف ہم سے تاریخ مانگ رہے ہیں۔ اگر میری بیٹی بری ہے تو یہ کیوں اس کو بہو بنانا چاہتے ہیں؟ اب اگر انہوں نے پشمینہ کا نام سلیمان کے ساتھ لیا تو میں بیٹی کی شادی سلیمان سے ہی کروں گی، لیکن والد صاحب نے ماموں کی بات مان لی اور میری شادی کی تاریخ بخت سنوار خان کے لئے دے دی کیونکہ وہ زبان دے چکے تھے۔ شادی کی تاریخ طے ہو گئی اس دن میں خالہ کے گھر میں تھی، مجھے بالکل خبر نہ ہوئی کہ یہ معاملہ طے ہو گیا ہے۔ جب مجھے خبر ہوئی، بہت روئی اور ماں سے کہا۔ ماں کیا صرف دولت کے لالچ میں میری زندگی برباد کرنی ہے؟ انہوں نے جواب دیا۔ میری پیاری بیٹی یہ میرا کام نہیں، تمہارے والد صاحب کا کارنامہ ہے۔ میں تو ان لوگوں کی باتیں رشتہ داروں کی زبانی سن رہی ہوں کہ وہ لوگ تیرا نام سلیمان کے ساتھ لے کر ہمیں بدنام بھی کر رہے ہیں۔ جب یہ خبر سلیمان تک پہنچی وہ اسی وقت ہمارے گھر آگیا ۔ بابا جان اور ماں گھر پر نہ تھے۔ وہ شادی کی مزید تفصیلات طے کرنے گئے تھے۔ صرف رابعہ گھر پر تھی۔ میں نے سلیمان کو دیکھا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اس نے کہا۔ ارے ا تم کیوں رو رہی ہو؟ یہ رونے کا وقت نہیں ہے۔ جرأت سے کام لو۔ یہ فیصلہ کرنے کا وقت ہے، میرا ساتھ دو۔ ہم اپنا نکاح نامہ تمہارے والد کے آگے رکھ دیتے ہیں۔ نہیں خدا کے لئے ایسا نہ کرنا۔ کیا تم چاہتے ہو کہ یہاں میرا لہو بہتا نظر آئے ؟ میں نے کہا تو پھر کیا حل ہے۔ اس نے پوچھا۔ کیا تم اسی وقت میرے ساتھ چلنے کو تیار ہو۔ اپنا بیگ اٹھائو دو جوڑے ڈالو ، پھر جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ بس یہی ایک راستہ ہے کہ ہم دونوں کہیں دور چلے جائیں۔ سلیمان کیسی باتیں کر رہے ہو ؟ ایسا نہیں ہو گا ، کبھی نہیں۔ اس سے مر جانا اچھا ہے۔ میں نہ تو نکاح نامہ والد صاحب کو دکھانا چاہتی تھی اور نہ سلیمان کے ساتھ جانا چاہتی تھی۔ اور کیا حل تھا شادی کو روکنے کا ؟ سلیمان بے بس تھا۔ وہ میری رضا مندی کے بغیر کوئی قدم بھی نہیں اٹھانا چاہتا تھا ۔ اب وہ اتنا پریشان تھا کہ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور کمرے کی دیواروں سے سر ٹکرا رہا تھا ۔ اپنے والد صاحب کو بھی وہ کچھ نہیں کہہ رہا تھا کیونکہ میں جو ساتھ نہیں دیتی تھی۔ چار دن بعد وہ ایک دوست کے ساتھ میچ دیکھنے چلا گیا ۔ جب وہ واپس لوٹا تو اس کی بہن نے بتایا کہ آج رات پشمینہ رخصت کی جائے گی۔ سلیمان نے بہن سے کہا۔ تم اسی وقت جائو، جلدی سے نکاح نامہ پشمینہ کو دو اور اس کو کہو کہ یا تو وہ اجازت دے کہ میں یہ کاغذات ظاہر کر دوں یا پھر خود ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے مجھے دے دے تو میں سمجھوں گا کہ میں نے اس کو اس نکاح سے آزاد کرنا ہے تاکہ وہ کسی اور کی دلہن بن سکے۔ اس کے بعد میں اس کی دنیا سے دور چلا جائوں گا۔
خوباں نکاح نامہ لے کر آ گئی۔ کمرا بند کر کے اس نے یہ نکاح نامہ میرے سامنے رکھا اور کہا کہ اب تم کیا کہتی ہو۔ اب بھی وقت ہے کہ نکاح نامہ ظاہر کر کے شادی روکی جا سکتی ہے۔ میں نے جواب دیا۔ اب تم مجھے مرا ہوا سمجھ لو کیونکہ باپ کی پگڑی اچھالنے کی مجھ میں ہمت نہیں ہے، پھر ان کاغذات کو میں نے اپنے ہاتھوں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور خوباں سے کہا۔ سلیمان سے کہنا، یہ تمہارا مجھ پر بڑا احسان ہو گا اگر تم میری عزت رکھ لو اور یہ راز ہمیشہ کے لئے اپنے دل میں دفن کر لو میرے دل میں اس کا پیار جوں کا توں ہے، مگر یہ جو گھر والوں سے چھپ کر کورٹ میں نکاح کیا ہے، یہ مجھ سے بھول ہو گئی ہے۔ اسے معاف کر دینا۔ مجھ میں ہمت نہیں کہ والد کا اس طرح سامنا کر سکوں اور ان کی سبکی کرائوں۔ سلیمان کی بہن نے جب یہ باتیں اسے بتائیں تو اس نے میری عزت کی خاطر زہر کا یہ گھونٹ پی لیا کیونکہ وہ سچے دل سے مجھ سے پیار کرتا تھا۔ اس نے اپنا بیگ اٹھایا اور اسی وقت کسی نامعلوم منزل کی طرف نکل گیا۔یوں میری شادی بخت سنوار خان سے ہو گئی۔ میرا دل کسی طور اپنے شوہر کو قبول نہیں کر رہا تھا۔ اب میں پچھتا رہی تھی کہ میں نے ہمت نہ کر کے کتنی بڑی غلطی کر دی ہے پتا نہیں والدین کی لاج رکھ کر میں نے اچھا کیا یا خود کے ساتھ ظلم کیا، لیکن یہ پچھتاوا ضرور تھا کہ کاش میں پھوپھی ہی کو اعتماد میں لے کر اپنے دل کا حال بتا دیتی تو وہی والد صاحب کو اس بات سے آگاه کر دیتیں کہ میں اور سلیمان عدالت میں نکاح کر چکے ہیں، مگر اپنی بزدلی کے باعث میں یہ سب نہ کر سکی یوں میں ایک ایسے جہنم میں گر گئی کہ جہاں سے نکلنا چاہتی تو نکلنا ممکن نہ تھا۔مجھے بعد میں پتا چلا کہ والد صاحب خود بھی میری شادی بخت سنوار سے نہیں کرنا چاہتے تھے مگر سوچتے تھے کہ یہ طے شدہ رشتہ بھی چھوڑ دوں تو کہیں میری بیٹی دوسرے مناسب رشتے کے انتظار میں بیٹھی نہ رہ جائے۔ اگر پھوپھی والوں کی طرف سے پیش رفت ہوتی تو وہ یقیناً میرے لئے سلیمان کو ہی ترجیح دیتے۔ سلیمان توایسا گھر سے غائب ہوا کہ پھر نہ آیا۔ آج بھی پھوپھی مجھے بدعائیں دیتی ہیں کہ اس لڑکی کی وجہ سے میرا بیٹا گھر سے چلا گیا اور ہم سے جدا ہو کر دربدر ہو گیا۔ یہ تو شادی رچا کر گھر آباد کیے بیٹھی ہے۔ ان کو کیا خبر کہ محض شادی سے سبھی گھر آباد نہیں ہوتے ، جب تک کہ دل آباد نہ ہوں۔