Monday, September 16, 2024

Jab Mohabbat Hue | Teen Auratien Teen Kahaniyan

والدہ ایرانی اور والد پٹھان فیملی سے تھے۔ دو حسین نسلوں کے سنجوگ سے جس اولاد نے جنم لیا ہو ، وہ پری زاد اور پری چہرہ ہی کہلائے گی۔ ہمیں جو دیکھتا، دیکھتا رہ جاتا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں دوسری اور میرا بھائی پری زاد تیسری جماعت کا طالب علم تھا۔ تبھی ہم دونوں کی قسمت کا فیصلہ کر دیا گیا۔ میری منگنی چچازاد اور بھائی کی پھوپی کی بیٹی سے ہو گئی جس کا نام زرجانہ تھا۔ جب ہم سن شعور کو پہنچے تو اس حقیقت کا علم ہوا۔ بھائی کو اپنی منگیتر زرجانہ قطعی پسند نہ تھی۔ وہ امی سے گاہے گاہے اپنی نا پسندیدگی کا اظہار کرتا رہتا تھا۔ وہ ‘ہاں، ہوں ، میں ٹال دیتیں کہ ایسے معاملات میں فیصلہ ابو کا ہی چلتا تھا۔ وقت گزرتا رہا۔ بھائی کی تعلیم مکمل ہو گئی تو اس کی شادی کے چرچے ہونے لگے۔ وہ پہلے ہی زرجانہ سے شادی سے انکاری تھا، اب کھل کر کہہ دیا کہ مجھے یہ لڑکی پسند نہیں ، ہر گز اس سے شادی نہیں کروں گا۔ والد صاحب سختی سے اپنے فیصلے پر قائم تھے اور بھائی ضد پر اڑا تھا کہ شادی کسی سے بھی کر دیں، انکار نہیں کروں گا مگر زرجانہ سے نہیں۔ جانے کیا وجہ تھی کہ اس کو اپنی منگیتر سے چڑ ہو گئی تھی۔ غالباً وہ زرجانہ سے زیادہ اس کی والدہ یعنی اپنی پھوپی کو ناپسند کرتا تھا۔ والد صاحب نے شادی کی تاریخ رکھ دی۔ بیٹے کی ایک نہ سنی۔ کہا کہ چل کر میرے ساتھ اپنے ناپ کے جوڑے درزی سے سلوائو، شادی میں کم دن رہ گئے ہیں۔ ابو کا گھر کے ہر فرد پر رعب تھا۔ جب انہوں نے پری زاد کو گاڑی میں بٹھایا تو وہ بنا حیل و حجت ان کے ساتھ ہو لیا۔ کپڑا خریدا گیا اور پھر درزی کو ناپ دے کر جوڑے سلوانے کا آرڈر دے آئے۔ جس روز بھائی نے اپنی شادی کے جوڑے اٹھانے تھے ، والد صاحب نے رسید دے کر کہا کہ جا کر جوڑے لے آئو۔ رسید لے کر بھائی چلا گیا۔ وہ صبح کا گیا شام ہو گئی، واپس گھر نہ آیا۔ والد کام سے لوٹے تو پوچھا پری زاد کہاں ہے۔ کیا جوڑے لے آیا ہے۔ والدہ نے بتایا کہ وہ ابھی تک گھر نہیں آیا۔ ابو کو فکر ہوئی، اسی وقت ٹیلر کے پاس پہنچے۔ اس نے بتایا کہ آپ کا بیٹا میرے پاس نہیں آیا۔ ہاں جوڑے تیار ہیں آپ لے جائے۔ اب والد صاحب کو فکر نے گھیرا۔ جہاں تک پہنچ تھی اور گمان تھا کہ پری زاد وہاں موجود ہو گا، وہ گئے ، ہر جگہ پتا کرایا بھائی کو ملنا تھا اور نہ ملا۔ جانے وہ کہاں چلا گیا تھا۔

اتفاق کہ اسی دن پھوپی بھی زرجانہ کی شادی کے جوڑے اپنے درزی سے لائی تھیں۔ وہ خوش خوش جوڑے ٹرائی کرا رہی تھی کہ ٹھیک سلے ہیں یا نہیں۔ امی نے بھی آن سلا کپڑا پھوپی کو بھجوادیا تھا کہ جب تم زرجانہ کے کپڑے سلوانے جائو تو بری کے جوڑے بھی سلوا لینا تا کہ صحیح سل جائیں، ساتھ ہی سلائی کی رقم بھی دے دی تھی۔ امی نے بہت خوبصورت اور قیمتی کپڑے خریدے تھے اور پھوپی خاص طور پر ایک مشہور ٹیلر کے پاس گائوں سے شہر آئی تھیں۔ واپسی میں اس خیال سے ہمارے گھر آگئیں کہ شام ہو رہی تھی، سوچا کہ بھائی کو کہوں گی اپنی گاڑی میں گھر چھوڑ آئیں گے اور بری کے سلے ہوئے جوڑے بھی بھابی کو دیتی جائوں گی۔ وہ لوگ انتہائی مسرور آئے تھے لیکن جب ہمارے گھر میں قدم رکھا تو یہاں سوگ کی سی کیفیت تھی۔ سبھی کے چہرے اترے ہوئے۔ سب بہت پریشان تھے، پری زاد کی گمشدگی کی وجہ سے۔ ہماری رونی شکلوں کو دیکھ کر پھوپی نے پوچھا۔ خیر تو ہے خدا نخواستہ کوئی برا واقعہ تو پیش نہیں آگیا۔ یہ شادی کا گھر ہے مگر ہر شخص اداس ہے ، قبرستان کی سی خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ ان کا اتنا کہنا تھا کہ والدہ کی آنکھوں سے چھم چھم آنسو گرنے لگے اور نین نیر بہانے لگے۔ اب تو پھوپی کو بھی تشویش ہوئی کہ کوئی سنگین معاملہ ہو گیا ہے۔ بالآخران کو بتانا پڑا کہ پری زاد صبح شادی کے جوڑے لینے گیا تھا، ابھی تک نہیں لوٹا ہے ۔ ٹیلر ماسٹر سے معلوم کیا تو اس نے بتایا کہ وہ ادھر نہیں آیا، بہت ڈھونڈا اس کا کچھ پتا نہیں چلا، اسی لئے ہم لوگ پریشان ہیں۔ کیا گھر سے ناراض ہو کر گیا تھا۔ پھوپی نے سوال کیا۔ بس ایسا ہی سمجھ لیں۔ میرے منہ سے نکل گیا۔ کسی بات پر ناراض تھا۔ وہ ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا اور امی ابو زبردستی کر رہے ہیں۔ میں نے بس اسی قدر بات منہ سے نکالی لیکن میری چھوٹی بہن نے کہہ دیا کہ وہ زرجانہ کو ناپسند کرتا ہے۔اس لئے وہ شادی سے انکاری ہے اور یہ جھگڑا بہت دنوں سے چل رہا تھا۔ اس نے کہہ دیا تھا کہ اگر میرے ساتھ زبردستی کی گئی تو میں گھر سے بھاگ جائوں گا یا خود کشی کرلوں گا۔ مگر ابو نے اس کی بات نہ سنی اور شادی کی تاریخ رکھ دی۔ ایسا تو لڑ کے اسی وقت کرتے ہیں جب وہ کسی اور لڑکی کو پسند کرتے ہیں۔ کیا ایسا کوئی معاملہ ہے پھوپی نے پوچھا۔ یہ تو معلوم نہیں، معلوم ہوتا تو کوئی حل نکالتے ۔ بس وہ بغیر وجہ بتائے انکار کرتا تھا۔ یہ ساری باتیں زرجانہ کے سامنے ہو رہی تھیں اور اس لڑکی کا رنگ اڑتا جا رہا تھا۔ وہ ایسی پژمردہ ہو گئی جیسے اس کا وقت آخر آ پہنچا ہو۔

اس روز پھوپی واپس گائوں نہ گئیں۔ ہمارے گھر قیام کر لیا۔ بھائی کو گئے تیسرا دن تھا۔ پھوپی ابھی تک ہمارے گھر قیام پذیر تھیں۔ ظاہر ہے کہ تشویش کی بات تھی۔ کئی طرح کے گمان دل کو گھیرے تھے۔ ممکن ہے کہ پری زاد کو کوئی حادثہ پیش آگیا ہو۔ ہمارے علاقے میں دشمنی بھی چلتی تھی۔ ممکن ہے کسی دشمن نے نقصان پہنچایا ہو۔ بتا نہیں سکتی کہ ہمارے گھر پر کیسا غم کا سیاہ ابر چھایا ہوا تھا۔ دس روز بعد شادی تھی، ساری تیاریاں تقریباً مکمل تھیں اور اچانک پری زاد غائب ہو گیا تھا۔ امی اور پھوپی کا رورو کر برا حال تھا۔ ہم بہنیں سجدے میں گری اپنے بھائی کے واپس زندہ سلامت لوٹ آنے کے لئے دعائے خیر کر رہی تھیں اور والد صاحب کبھی ادھر اور کبھی اُدھر بھاگ رہے تھے۔ پری زاد کے کلاس فیلوز اور دوستوں کے پاس جا جا کر معلومات لے رہے تھے کہ جن کو وہ جانتے تھے۔ بھائی کا کوئی سراغ نہ ملا۔ پھوپی اور زرجانہ اداس گائوں لوٹ گئیں کہ پری زاد کی خیریت کی خبر آجائے تو فورا مطلع کرنا۔ پندرہ دن بیت گئے۔ شادی کی تاریخ گزر گئی، میرا بھائی نہ لوٹا۔ ابھی ہم اسی غم میں گھل رہے تھے کہ اچانک خبر آگئی کہ زرجانہ نے زہر کھا لیا ہے اور وہ موت وزیست کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ اسے شہر کے اسپتال لے آئے تھے۔ چار دن موت سے لڑنے کے بعد وہ زندگی کی بازی ہار گئی، جس قدر دکھ بھائی کی گمشدگی کا تھا اس سے کہیں زیادہ زرجانہ کا ہوا۔ پری زاد کے بارے میں امید تھی کہ شاید لوٹ آئے یا اس کی خیریت کی خبر آجائے لیکن زرجانہ تو جان کی بازی ہار گئی تھی اور اب وہ کبھی واپس نہیں لوٹ سکتی تھی۔ کسی کو خبر نہ تھی کہ وہ معصوم جذباتی لڑکی ایسا انتہائی قدم اٹھالے گی۔ اس کی میت کے ساتھ ہمار ا سارا گھرانہ پھوپی کے گائوں چلا گیا۔ پھوپی نے اسے شادی کا سرخ جوڑا پہنا دیا اور موت کے کھٹولے میں سجا سنوار کر دلہن بنا کر لٹا دیا۔ کیا بتائوں کیسی پیاری لگ رہی تھی، شاید رخصتی کے وقت بھی ایسا روپ اس پر نہ آتا لیکن اب جو اس کا وقت رخصت تھا، وہ اللہ کسی جوان لڑکی پر نہ لائے۔ وہ ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے رخصت ہو رہی تھی۔ یہ قیامت کا سماں تھا۔ تین دن پھوپی کے گھر قیام کیا اور چوتھے دن ہم گھر آگئے۔ ہمیں آئے چند ہی گھنٹے ہوئے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ والدہ نے در کھولا سامنے پری زاد کھڑا تھا۔ والدہ زرجانہ کا غم بھلا کر اپنے بیٹے کی صورت دیکھتے ہی قابو سے باہر ہو گئیں اور میر الخت جگر کہتے ہوئے بیٹے سے لپٹ گئیں۔ وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔ شکر ہے تو زندہ ہے، شکر ہے تو واپس آگیا ہے۔ ممتا بھی عجیب شے ہوتی ہے ، ایک ماں کا دل اجڑا تھا اور اس کا دکھ بھلا کر دوسری ماں اپنے بیٹے کی سلامتی پر خوشی سے دیوانہ وار اسے چوم رہی تھی۔ تم کہاں چلے گئے تھے بیٹا۔ ماں نے سوال کیا۔ اس وقت تو میں غصے میں چلا گیا تھا ماں، کیونکہ آپ لوگ میری بات نہیں مان رہے تھے۔ میں لاہور ایک دوست کے گھر چلا گیا تھا۔

دوست اور اس کے والدین نے بہت سمجھایا تو میں نے اپنا فیصلہ بدل لیا اور اسی وجہ سے واپس لوٹ آیا ہوں۔ آپ لوگوں کی خوشی اور مرضی سے مجھے شادی کر لینی چاہئے۔ والدین کی دعائیں لینی چاہئیں کیونکہ ماں باپ کی ناراضی میں اللہ کی ناراضی ہوتی ہے ، پس یہ خیال آتے ہی واپس آنے کا فیصلہ کیا ور نہ دل میں یہی ٹھان کر گیا تھا کہ اب کبھی گھر نہ جائوں گا اور بیرون ملک چلا جائوں گا۔ وہ یہ بتارہا تھا، اسے بالکل خبر نہیں تھی کہ زرجانہ خود کشی کر چکی ہے۔ وہ پری زاد سے دل ہی دل میں اس قدر پیار کرتی تھی کہ اس کی جدائی اس کے لئے سوہان روح بن گئی تھی۔ بھلا جس لڑکی کے دل میں بچپن سے ہی اس کے منگیتر کا پیار راسخ ہو جائے ، وہ کسی اور کی ہونے کا کیسے تصور کر سکتی ہے ؟ جبکہ والد صاحب نے یہ سوچ لیا تھا کہ اگر پری زاد کسی طور قابو میں نہ آیا تو ہم زرجانہ کی شادی اپنے دوسرے بیٹے گل رخ خان سے کر دیں گے۔ میری چھوٹی بہن اتنی نادان تھی کہ اس نے زرجانہ کو اکیلے میں رات کے وقت جب دونوں سونے کے لئے لیٹیں تو ساری باتیں گوش گزار کر دیں۔ تبھی اسے یقین ہو گیا کہ پری زاد اس سے شادی نہ کرنے کی وجہ سے گھر سے بھاگ چکا ہے اور اصل بات بھی یہی تھی۔ مایوسی اور دکھ ، یہ کیفیت وہ برداشت نہ کر سکی، وہ بہت حساس لڑکی تھی، صبر سے کام لینے کی بجائے اس نے زہر کھا لیا۔ جو ہونا تھا ہو گیا۔ سبھی کو زرجانہ کی جوان موت کا بہت دکھ تھا مگر سب سے زیادہ دکھ پری زاد کو ملا۔ وہ خود کو اس کی موت کا ذمہ دار سمجھتا ہے اور اپنے آپ کو مجرم گردانتا ہے۔ کسی قصور کی سزا جسمانی مل جائے تو انسان سہہ لیتا ہے لیکن روح کی سزا اور ضمیر کی سولی ایسی تکلیف دہ سزائیں ہیں کہ عمر بھر آدمی اذیت میں رہتا ہے۔ یہ ایسی سخت سزائیں ہیں جو کبھی معاف نہیں ہوتیں۔ آج بھی میرا بھائی اُداس ہے ، اس کے چہرے پر اس دن سے آج تک کبھی کسی نے مسکراہٹ نہیں دیکھی وہ مسکراتا بھی ہے تو ایسے : جیسے رورہا ہو۔ کیونکہ اس کا دل ہر وقت اندر سے روتا ہی رہتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ زرجانہ نے زندگی میں اس سے محبت کی اور پری زاد کو اس سے اس وقت محبت ہوئی جب اس نے اپنی زندگی کا دامن چھوڑ دیا اور ہمیشہ کے لئے موت کی وادی میں اتر گئی۔ اس نے مرکر میرے بھائی کو ایسی سزادی ہے کہ جب تک پری زاد زندہ رہے گا، اس سزا کو جھیلنے پر مجبور ہو گا۔

Latest Posts

Related POSTS