جب یہ خبر ملی کہ رابعہ کے بھائی منان نے اپنی بیوی اور تین خوبصورت پھول سے بچوں کو موت کے گھاٹ اتار کر خود کشی کی کوشش کی ہے تو ہم بھی سکتے میں رہ گئے۔ منان کا گھر ہمارے پڑوس میں تھا اور وہ کافی عرصے سے کسی ذہنی پریشانی میں مبتلا تھا۔ اس نے اچھی بھلی نوکری بھی چھوڑ دی تھی اور اب ہر وقت ان کے گھر سے جھگڑنے کی آوازیں آتی رہتی تھیں۔ منان پہلے ایسا نہ تھا۔ وہ نیک ، شریف، پانچ وقت کا نمازی اور ایک نارمل شخص تھا۔ ہم لوگ ان کے گھرانے کو برسوں سے جانتے تھے کیونکہ منان کے والدین کا مکان ہمارے مکان کے دائیں طرف تھا۔ منان شادی سے پہلے والدین کے ساتھ رہتا تھا مگر شادی کے بعد ماں کے پُرزور مطالبے سے مجبور ہو کر اس نے ہمارے گھر کے بائیں جانب ایک برائے فروخت گھر خرید لیا۔ یوں ایک طرف رابعہ اور اس کے والدین اور دوسری جانب رابعہ کا بھائی منان ہمارے پڑوی ہو گئے تھے۔ رابعہ میری بچپن کی سہیلی تھی اور ہم نے ساتھ پرائمری تعلیم حاصل کی ، میٹرک بھی ساتھ کیا۔ ان کے گھر میں برسوں کا آنا جانا تھا۔ ایک دوسرے کی ہر خوشی غمی میں ہم شریک ہوتے تھے اور ہم دونوں کی دوستی کے باعث ہمارے گھرانوں میں بھی اچھے تعلقات قائم ہو گئے تھے۔ رابعہ کی والدہ اکثر ہمارے گھر آیا کرتی تھیں، وہ گھنٹوں امی کے پاس بیٹھی باتیں کرتی رہتیں۔ ایک روز رابعہ کی والدہ آئیں بتایا کہ ان کی بڑی بیٹی کی شادی ہے۔ وہ شادی کا کارڈ دینے آئی تھیں۔ اس بار وہ کافی دنوں بعد ہمارے گھر آئی تھیں اور شادی کا دعوت نامہ ساتھ لے کر آئی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ شادی جلدی میں طے ہوئی اور یہی معاملات طے کرنے کے سبب وہ مصروف تھیں لہذا ہمارے گھر بھی نہیں آپائی تھیں۔ انہوں نے معذرت کی کہ پہلے سے ہمیں اس بارے میں اطلاع نہیں دے سکیں اور پھر بہت اصرار سے شادی میں شرکت کیلئے کہا۔ ہم سب نے بڑی خوشی کا اظہار کیا ہمیں واقعی خوشی ہوئی تھی۔ امی نے کہا کہ ایسے موقعوں پر گھر میں مصروفیت بڑھ جاتی ہے لہذا معذرت کی کیا بات ہے۔ ہم شادی میں ضرور آئیں گے اور خوب تیاری کے ساتھ آئیں گے، میں نے ان سے ہنستے ہوئے کہا۔ باجی کی شادی کیلئے تو میں نئے جوڑے کے علاوہ میچنگ جیولری اور سینڈلز بھی خریدوں گی ۔ آنٹی نے میری بات سن کر ہنستے ہوئے خوشی سے مجھے گلے لگا لیا۔ ہمارے درمیان ایسی ہی محبت تھی !
شادی والے روز جب ہم لوگ وہاں پہنچے تو خوب رونق تھی۔ دلہن کے گرد حسین اور نوخیز لڑکیوں کا مجمع لگا تھا۔ وہ سہاگ کے گیت گا رہی تھیں اور ڈھولک بجا رہی تھیں۔ انہی میں سے چند اٹھ کھڑی ہوئیں اور محو رقص ہو گئیں۔ انہیں دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے پھولوں بھرے باغ میں رنگ برنگی تتلیاں محو رقص ہوں۔ میری نظر ایک لڑکی پر ٹھہر گئی جو پریوں کے اس جھرمٹ میں ناچ رہی تھی۔ وہ مجھے اچھی لگی۔ رابعہ اور اس کا بھائی منان برآمدے میں کھڑے تھے۔ میری نگاہ ادھر گئی۔ دیکھا تو منان بھی اسی پری جمال کے سحر میں کھویا ہوا تھا جو مجھے بھی اچھی لگی تھی۔ وہ ایک ٹک سدرہ کو تک رہا تھا۔ شاید سوچ رہا تھا کہ اس مہکتی کلی کونجانے کس کے دامن میں گرنا ہے۔ اسی شام رابعہ ہمارے گھر مہندی کا کھانا دینے آئی تو بتایا کہ کھانا کافی بچ گیا تھا، امی جان نے محلے میں بانٹ دیا ہے۔ میں نے سوال کیا کہ وہ لڑکی جس نے آتشی جوڑا پہن رکھا تھا، وہ کون تھی؟ دراصل ہم ان دنوں اپنے بھائی کیلئے لڑکی تلاش کر رہے تھے، اسی لئے میں نے یہ سوال کیا تھا۔ رابعہ نے جواب دیا۔ وہ لڑ کی سدرہ ہے، میری باجی کی سہیلی نجمہ کی چھوٹی بہن … بڑی خوبصورت اور من مومنی ہے۔ امی نے اسے منان کے لئے پسند کر لیا ہے کیونکہ منان بھائی اس کو ایک نظر دیکھ کر ہی لٹو ہو گئے ہیں۔ یہ کہ کر رابعہ نے بات ختم کر دی اور سدرہ کو بھابی بنانے کی آرزو میرے دل میں گھٹ کر رہ گئی۔ رابعہ نے بعد میں بتایا کہ لڑکی غریب گھرانے سے ہے اور ملازمت کرتی ہے۔ امی اس کو بہو بنانے کے حق میں نہیں ہیں لیکن منان بھائی مصر ہیں کہ اس لڑکی سے شادی کرنی ہے۔ گویا شادی کا ہنگامہ تو ختم ہو گیا مگر منان کے دل میں شورش جنوں سے ایک اور ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا۔ جب سے اس حور شمائل کو محو رقص دیکھا تھا، حواس جاتے رہے تھے، کھانا پینا حرام ہو گیا تھا۔ اس نے ماں سے صاف کہہ دیا تھا کہ شادی کرے گا تو اسی لڑکی سے ورنہ شادی ہی نہیں کرے گا۔ بیٹے کے اصرار پر خالہ عظمت ، سدرہ کی والدہ سے بات چیت طے کر آئیں ۔ ان لوگوں کیلئے یہ رشتہ کسی نعمت سے کم نہیں تھا تا ہم سدرہ اس رشتے پر راضی نہ تھی ۔ وہ نوکری کے مزے لوٹنا چاہتی تھی جبکہ خالہ نہیں چاہتی تھیں ان کی ہونے والی بہو ملازمت کرے۔ لڑکی نے شرط رکھ دی کہ شادی اسی صورت میں قبول ہے اگر سسرال والے ملازمت پراعتراض نہ کریں اور ملازمت شادی کے بعد بھی جاری رکھنے کی اجازت دیں۔ منان تو عشق میں دیوانہ ہو گیا تھا۔ والدین پر دباؤ ڈالا کہ یہ شرط منظور کر لو کیونکہ عورت کے ملازمت کرنے میں کوئی عیب نہیں ، مجھے یہ شرط منظور ہے۔ والدین ایک بار پھر بے بس ہو گئے، بیٹے کی محبت میں ہتھیار ڈالنے پڑے۔ معاملہ یہ نہ تھا۔ اصل معاملہ تو یہ تھا کہ سدرہ یہاں شادی نہ کرنا چاہتی تھی کیونکہ منان خوش شکل نہ تھا تبھی ایسی شرطیں رکھ رہی تھی کہ لڑکے والوں والوں کی طرف سے انکار ہو جائے۔ بہر حال والدین کے دباؤ سے اسے منان سے شادی کیلئے ہاں کرنی پڑی۔
سپنوں کی رات جب دولہا نے دلہن کا گھونگھٹ اٹھایا، وہ مبہوت رہ گیا۔ سہیلیوں نے سولہ سنگھار کر کے دلہن کے حسن میں چار چاند لگا دیئے تھے۔ جب اس نے اپنی شریک حیات کا التفات چاہا تو وہ روتی ہوئی مسہری سے اٹھ کھڑی ہوئی اور صوفے پر جابیٹھی۔ اس رویے پر دولہا میاں پریشان ہو گئے لیکن دلہن کو مجبور نہ کیا کہ اکثر لڑکیاں شادی کے رموز واسرار کو نہیں سمجھتیں تو خوف کھاتی ہیں۔ ولیمے کے دن شام کو دلہن نے والدین کے گھر جانے کی فرمائش کر دی۔ وہ ملنے گئی تو رات وہیں رہ گئی اور پھر ہفتہ بھر نہ لوٹی۔ تب اس کے والدین نے ڈانٹ ڈپٹ کر اسے سسرال جانے پر مجبور کیا۔ وہ مارے باندھے آتو گئی لیکن شوہر کے ساتھ ناگواری کا اظہار کرتی رہی۔ منان پریشان تھا مگر کسی سے دلہن کی شکایت نہ کرنا چاہتا تھا کہ تماشا بننے سے پہلے خود ہی صورتحال سنبھال لے۔ وقت ظالم ہے وہ کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ دلہن کو بھی دولہا کی آرزوؤں سے سمجھوتہ کرنا پڑا کیونکہ منان نے شرط عائد کردی کہ اگر تم میری نہ بنوگی تو پھر میں ملازمت کیلئے تم کو گھر سے باہر جانے کی اجازت بھی نہ دوں گا۔ تم گھر سے قدم نہ نکال سکو گی ۔ چھٹیاں ختم ہو رہی تھیں اور یہ بڑی کڑی شرط تھی ۔ ملازمت کو برقرار رکھنے کیلئے سدرہ کو ہر صورت گھر سے باہر قدم نکالنا ہی تھا۔ بہر حال کچھ عرصہ اکھڑی اکھڑی رہنے کے بعد وہ منان کے ساتھ خوش و خرم ہوگئی ۔ اس دوران تین بچے بھی یکے بعد دیگرے ہو گئے۔ سدرہ نے پھر بھی ملازمت نہ چھوڑی۔ وہ بچے ساس ، نندوں کے حوالے کر کے چلی جاتی تھی۔ یوں چھ برس بیت گئے ۔ نندوں نے اسے مجبور کیا کہ یا تو وہ ملازمت ترک کر دے یا پھر علیحدہ گھر میں رہے اور اپنے بچوں کی خود پرورش کرے۔ وہ بھی دل سے یہی چاہ رہی تھی۔ اس نے ایک بوڑھی عورت کو صبح سے شام تک بچوں کی آیا کے طور پر رکھ لیا اور خود ملازمت جاری رکھی۔ وہ صبح نو بجے جاتی تھی اور شام پانچ بجے آجاتی تھی۔ منان کی ملازمت اچھی اور معقول تنخواہ تھی۔ وہ بھی صبح کا گیا شام پانچ بجے لوٹ کر گھر آجاتا تھا۔ اس دوران بچے آیا کے ساتھ گھر پر ہوتے تھے۔ علیحدہ گھر میں رہنے کے سال بعد میاں ، بیوی میں کسی بات پر جھگڑا شدید ہونے لگا تبھی بوڑھی آیا چلی گئی اور سدرہ بچوں کو کبھی دادی کے گھر اور کبھی تالے میں بند کر کے جانے لگی۔ منان کا اصرار بڑھنے لگا کہ اب بچے اسکول جانے کے لائق ہو رہے ہیں ، سدرہ نوکری چھوڑ دے اور بچوں کی تعلیم وتربیت پر گھر میں رہ کر دھیان دے۔ یہ بات سدرہ کو منظور نہ تھی ۔ وہ ان حالات میں بھی نوکری سے چمٹی رہی۔ رفتہ رفتہ منان کے رویے میں فرق آنے لگا۔ وہ بجھا بجھا اور ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر نفسیاتی مریض لگنے لگا۔ وہ اب بچوں کو بھی پیار نہ کرتا بلکہ ان سے دور دور رہنے لگا۔ اس کا رنگ سانولا تھا اور نقوش معمولی تھے ۔ وہ بالکل بھی خوش شکل نہ تھا۔ لیکن تینوں بچے بہت خوبصورت ، سرخ و سفید تھے ۔ اب اسے وہم ہو گیا کہ بچوں کی شکلیں اس سے نہیں ملتیں اور نہ اس کے بہن، بھائیوں اور خاندان میں سے کسی بھی فرد سے ملتی ہیں۔ یہ عجیب بات تھی کہ کبھی کبھی وہ اپنے شکوک کا اظہار اپنی والدہ سے اس طرح کرنے لگا کہ اسے یہ بچے اپنے نہیں لگتے کیونکہ یہ بہت خوبصورت ہیں۔ ماں سمجھاتی ۔ بیٹا ! تم سے نہیں ملتے تو کیا ہوا، ان کی ماں تو خوبصورت ہے۔ ماں سے خوبصورتی ورثے میں ملی ہوگی ۔ اکثر ماں ، باپ بدصورت ہوتے ہیں مگر بچے خوبصورت ہوتے ہیں ۔ یہ تو اللہ کی دین ہے۔ ایک روزمنان خود ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر کے پاس چلا گیا کیونکہ وہ اپنی عجیب و غریب قسم کی سوچوں سے تنگ آ گیا تھا۔ یہ سوچیں خود بخود اس کے ذہن میں وارد ہوتی تھیں جن سے وہ سخت ذہنی اذیت میں مبتلا رہتا تھا۔ اس نے اپنے خدشات کا ڈاکٹر سے تذکرہ کیا کہ اس کے بچے اسے اپنے نہیں لگتے کیونکہ وہ بہت خوبصورت ہیں جبکہ وہ خود ایک بد شکل سا انسان ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ اس وہم کو اپنے ذہن سے نکالنے کی بہت کوشش کرتا ہے لیکن یہ جیسے اس کی سوچوں سے چمٹ کر رہ گیا ہے۔ ڈاکٹر ماہر نفسیات تھا، اس کا مسئلہ اچھی طرح سمجھ گیا تھا۔ اس نے مروجہ اصولوں کے مطابق منان کا علاج کیا اور اسے کافی سمجھایا مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی … کے مصداق سوچوں نے پھر بھی اس کا پیچھا نہ چھوڑا اور تنگ آکر اس نے علاج چھوڑ دیا-
وہ اب سدرہ سے اور زیادہ شدت سے الجھنے لگا۔ بار بار یہی مطالبہ تھا کہ نوکری چھوڑو اور گھر سے باہر قدم مت نکالو ورنہ گھرکو تالا لگا کر تم کو قید میں رکھوں گا ۔ سدرہ کافی پریشان ساس کے پاس منان کی شکایت لے کر آتی کہ اپنے بیٹے کو سمجھائیے یہ عجیب و غریب باتیں کرنے لگے ہیں۔ اگر مجھے نہیں رکھنا تو بے شک طلاق دے دیں مگر محض شکوک کی بناء پر میری زندگی کو اجیرن نہ بنائیں ۔ میری کوئی غلطی نہیں ، آپ خود چیک کر سکتی ہیں۔ سدرہ نے غلط نہیں کہا تھا، وہ فطرتا اچھی تھی لیکن اس کی ایک ضد سارے معاملات بگاڑ رہی تھی کہ ملازمت نہیں چھوڑے گی۔ اس نے نوکری چھوڑ کر مسئلے کا حل نہ نکالا اور یوں منان کی ذہنی بیماری رفتہ رفتہ بڑھتی گئی ۔ اب اس کی سوچیں کسی اور سمت میں سفر کرنے لگیں ۔ اس نے جھنجھلا کر اپنی خراب ذہنی کیفیت کے تحت اچھی بھلی ملازمت چھوڑ دی اور مسلسل بیوی کا پیچھا کرنے لگا۔ ایک دن اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی محکمے کے دفتر جانے کی بجائے دفتر کے نزدیک ایک عمارت میں چلی گئی ہے۔ اس نے چوکیدار سے پوچھا کہ کیا یہ عورت پہلے بھی اس جگہ آتی جاتی ہے اور یہاں کون رہتا ہے؟ چوکیدار نے بتایا کہ محکمہ کا بڑا افسر یہاں بیٹھتا ہے اور یہ بی بی اکثر یہاں آتی ہے اور ان صاحب کے پاس دفتر میں بیٹھی رہتی ہے۔ کبھی کبھی صاحب مجھ سے ہی ان کیلئے چائے اور کھانا وغیرہ منگواتے ہیں۔ یہ سن کر منان کا دماغ گھوم گیا۔ وہ ماں کے پاس گیا اور کہا کہ اس کا شک درست تھا۔ سدرہ بدچلن ہے۔ یہ اپنے افسر کے ساتھ اس کے فلیٹ پر تنہا ٹائم گزارتی ہے۔ ماں نے سمجھایا۔ بیٹا بغیر دیکھے بہو پر بدچلنی کا الزام لگانا درست نہیں ہے۔ ممکن ہے وہ آفس کے کام سے اپنے بڑے صاحب کے پاس جاتی ہواور یہ بھی ممکن ہے کہ بڑے صاحب کا ایک ذیلی دفتر ہو۔ یہ تاویل منان کو بہت ناگوارگزری اور وہ اپنی ماں سے بھی ناراض ہو گیا جو اس کی حمایت کرنے کی بجائے بہو کا ساتھ دے رہی تھی ۔ وہ گھر آکر اپنی سوچوں سے الجھتا رہا اور پھر کسی خطرناک ارادے میں غرق ہو گیا۔ اس کی ذہنی رواب پوری طرح بہک چکی تھی۔ اسے یقین ہو گیا تھا اس دنیا میں اس کا کوئی ہمدرد نہیں حتی کہ اس کے اپنے گھر والے اور ماں تک سدرہ ہی کی طرف دار تھی۔ جب سدرہ گھر لوٹی ، اس سے خوب جھگڑا کیا۔ جھگڑتے جھگڑتے رات بھیگ گئی۔ اس بے سکونی میں کسی نے کھانا بھی نہ کھایا۔ روتے سسکتے ، ڈرے سہمے بچے بالآخر بھوکے ہی سو گئے ۔ سدرہ نے بھی ذہنی اذیت سے فرار اختیار کرنے کی خاطر نیند کی ایک گولی کھالی تا کہ کچھ دیر تو سکون سے سو سکے۔ وہ اکثر جھگڑے کے بعد خواب آور گولی پھانک لیا کرتی تھی تا کہ ٹینشن کی کیفیت میں شب بیداری کا عذاب نہ سہنا پڑے کیونکہ صبح اٹھ کر آفس جانا ہوتا تھا۔ اس کے سوا سدرہ کو کوئی اور حل نظر نہیں آتا تھا کیونکہ منان کو سمجھانا اور قائل کرنا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔ شاید وہ قائل ، معقولیت کی باتوں سے آگے نکل چکا تھا۔ آدھی رات کے بعد جب سدرہ اور بیچے گہری نیند سور ہے تھے، اپنی سوچوں کے سلگتے الاؤ کی اذیت برداشت نہ کرتے ہوئے منان نے وہ کام کر دیا جس کا کوئی تصور بھی نہ کر سکتا تھا۔ اس نے تیز چھری سے پہلے بچوں کے باری باری گلے کاٹے ، پھر بیوی کو بھی اسی طریقے سے موت کی نیند سلانے کے بعد اپنے گلے پر چھری پھیر لی۔ تاہم وہ زندہ بچ گیا کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اسے نشانِ عبرت بنانا منظور تھا۔ صبح صبح دودھ والے نے حسب معمول دروازہ بجایا۔ کوئی در کھولنے نہ آیا۔ اس کی نظر دفعتا چوکھٹ پر گئی جہاں سے خون کی لکیریں بہہ کر باہر آ چکی تھیں۔ اس نے گھبرا کر محلے والوں کو اطلاع کی ، سارے محلے میں ایک شور مچ گیا پھر پولیس آگئی۔ دروازہ توڑ کر جب وہ اندر داخل ہوئے تو بڑا ہی بھیانک منظر تھا۔ لہو کمرے سے صحن میں بہتا ہوا بیرونی دروازے کی چوکھٹ تک آ چکا تھا۔ اس دلدوز منظر کو دیکھنے کی کسی میں تاب نہ تھی۔ بد قسمتی سے منان صرف بے ہوش ہوا تھا، اس کی شہ رگ کٹنے سے بچ گئی تھی۔ ہوش میں آنے کے بعد وہ سلاخوں کے پیچھے تھا، ڈی این اے کی رپورٹ نے یہ ثابت کر دیا کہ تینوں بچے اس کے لخت جگر ، اس کا اپنا لہو تھے اور یہ حقیقت سب ہی کیلئے اور بھی افسوسناک تھی کہ معصوم، بے گناہوں کے خون سے ان کے حقیقی والد نے ہی ہاتھ رنگ لئے تھے۔ خدا ایسے نفسیاتی مریضوں سے بچائے جو اپنا علاج کرانے کی بجائے دوسروں کی زندگی کو اپنے شک و شبہات کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ تاہم اگر ایسے لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آجائے کہ ان کے ساتھ کوئی سنگین نفسیاتی مسئلہ ہے تو سارا مسئلہ ہی حل ہو جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا مریض خود اپنا مرض نہیں پہچان سکتا۔ سو، اس قسم کی صورت حال میں گھر والوں کو کسی نہ کسی تدبیر کے ذریعے انہیں علاج کیلئے آمادہ کرنا چاہئے تا کہ وہ دوبارہ نارمل زندگی کی طرف لوٹ سکیں۔