چچا فیروز ہمارے پڑوس میں رہتے تھے ۔ پڑوسی ہونے کے ناتے والد صاحب ان کا خیال رکھتے ، وہ بہت غریب آدمی تھے اور محنت مزدوری کر کے اپنے کنبے کی کفالت کر رہے تھے۔ ان کی چار بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا، جس کا نام راشد تھا۔ ان دنوں ہم خانیوال میں رہتے تھے۔ یہاں والد صاحب کی کچھ زرعی اراضی تھی، جس کی دیکھ بھال اور پیداوار سے ہمارا خاندان خوش حال تھا۔ چچا فیروز ہمارے رشتہ دار نہیں تھے تاہم والد صاحب اُن سے بھائیوں جیسا تعلق رکھتے تھے، کیونکہ برسوں پرانی ہمسائیگی چلی آرہی تھی اور راشد میرے بھائی افتخار کے ساتھ کھیل کر بڑا ہوا تھا۔ دونوں کی بچپن سے دوستی تھی۔ راشد جب بھی ہمارے گھر آتا تو والدہ دیسی گھی ، شکر اور پراٹھے سے اس کی تواضع کرتیں وہ اچھی عادات کا مالک بےحد ذہین اور حساس دل رکھنے والا لڑکا تھا۔ اپنے باپ کی طرح تند مزاج نہیں تھا۔ بھائی افتخار جب اسکول جاتے راشد کا جی کرتا کہ وہ بھی اسکول جائے لیکن چچافیروز اسے پڑھانے کے حق میں نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پڑھ لکھ گیا تو مزدوری نہیں کر پائے گا اور نوکری فی زمانہ غریب کی اولاد کو ملتی نہیں، پھر کیا فائدہ اسکول بھیجنے کا ؟ وہ خود بھی پڑھے لکھے نہ تھے لیکن راشد کی ماں کو بڑا شوق تھا کہ اس کا بیٹا پڑھ جائے ، جیسے ہر ماں کا ارمان ہوتا ہے۔ دراصل راشد کا ماموں تعلیم یافتہ اور اچھے عہدے پر فائز تھا۔ سو راشد کی ماں کا آئیڈیل اس کا بھائی تھا، جس نے تعلیم کے بل بوتے پر معاشرے میں باعزت مقام حاصل کیا تھا تبھی وہ یہ چاہتی تھی کہ اس کا لخت جگر اپنے ماموں کے نقش قدم پر اپنی منزل پالے اور سارے کنبے کو غربت کے جان لیوا اندھیرے سے باہر کھینچ لے جائے۔ رضیہ سلائی کڑھائی کر کے شوہر کا معاشی سہارا بنی ہوئی تھی تاکہ وہ لڑکے کو اسکول بھیجنے پر راضی ہو جائے۔ بالآخر میرے والدین کے سمجھانے پر چچا فیروز بیٹے کو اسکول بھیجنے پر راضی ہو گئے۔ راشد نے پانچویں کا امتحان پاس کر لیا تو اس کے باپ نے اُسے پڑھائی سے ہٹالیا اور بیوی سے کہنے لگے ۔ اب تو تیرے بیٹے کو لکھنا پڑھنا آگیا ہے۔ اتنی تعلیم کافی ہے۔ یہ تیرہ برس کا ہو گیا ہے ، ابھی سے کام پر لے جائوں گا تو آگے کچھ کر پائے گا,ورنہ کام ہڈیوں میں اترے گا نہیں، مشقت سے جی چرانے لگے گا۔ شوہر کے اس فیصلے پر بیوی کا دل کٹ کر رہ گیا۔ رضیہ چاچی کسی صورت بیٹے کا مستقبل تباہ ہوتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ ایک دیہاتی عورت کے لئے شوہر کے سامنے زبان کھولنا بھی کٹھن بات تھی۔ تب وہ میرے والد کے پاس آئی۔ کہا کہ بھائی صاحب، میرے بھائی کو میری طرف سے خط لکھ دو۔ اس نے خط میں بڑی منت سماجت کی تھی کہ وہی بھانجے کو اپنے پاس بلا کر اسکول میں داخل کروا دے تاکہ وہ سنہری خواب جو اس کی آنکھیں بیٹے کے لئے دیکھنا چاہتی تھیں، ان کا اس طرح غربت کی چھری سے قتل نہ ہو۔ خط کی عبارت میں آنسوئوں کی نمی بھی گھلی ہوئی تھی۔ ابا نے رضیہ چاچی کے بھائی کو خط لکھ دیا – جو عبارت اس خاتون نے لکھوائی سب تحریر کر کے خط پوسٹ کر دیا۔ بھائی کے دل پر بہن کی التجا کا گہرا اثر ہوا وہ شخص خط ملتے ہی حیدر آباد سے خانیوال اپنے بھانجے کو لینے آگیا۔ اپنی خوشیوں میں مگن رہنے والے بھائی نے جب دُکھیاری بہن کے گھر غربت کا دردناک منظر دیکھا تو لرز کر رہ گیا۔ اسے خیال آیا کہ ایک مدت بہن کی طرف سے غافل رہ کر اس کی کتنی حق تلفی کی ہے۔ یہاں تو فاقوں کا راج تھا، پھر بہنوئی بیٹے کو کیونکر پڑھاتا؟ گھر کیا تھا، جس کی چھت گرمیوں میں دُھوپ کو نہ روک سکتی تھی اور سردیوں میں بارش کی بوچھاڑیں اپنی من مانی کرتی تھیں۔ چاروں بھانجیاں خاصی سیانی ہو چکی تھیں۔ ان کا بوجھ بھی دھرتی کا سینہ شق کرنے کو کافی تھا۔ اسے اپنی صابر اور مظلوم بہن پر بڑا ترس آیا اور بہنوئی کو قائل کرنے کی ٹھان لی۔اول تو فیروز چچا پہلے تو اپنے بیٹے کو ماموں کے ساتھ بھیجنے پر تیار نہ تھے لیکن سب گھر والوں اور کچھ رشتہ داروں کے اصرار پر بالآخر وہ راشد کو حیدر آباد بھیجنے پر راضی ہو گئے۔ راشد کو خود بھی پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا۔ اس نے پانچویں جماعت بہت اچھے نمبروں سے پاس کی تھی۔ ماموں کے ساتھ حیدر آباد آکر وہ بہت خوش تھا، جیسے سچ مچ کی جنت میں آگیا ہو ۔ میرے والد بھی ان دنوں محکمہ مال میں اچھے عہدے پر فائز تھے ، تبھی رضیہ کے بھائی بابر سے ان کی اچھی سلام دعا تھی۔ جب ابا اور اماں حیدر آباد جاتے تو بابر صاحب کے گھر ضرور جاتے تھے۔ ان لوگوں کو رضیہ چاچی کے دگرگوں حالات کا دُکھ تھا اور اب یہ ان کی مالی مدد کرنے لگے تھے۔
فیروز چچا غریب ضرور تھے مگر کبھی اپنی غربت کا ڈھنڈورا نہیں پیٹتے تھے۔ مالی مشکلات کے باوجود خاصے خود سر اور خود دار تھے۔ وہ کبھی بابر انکل کے در پر نہیں گئے نہ ہی ان سے کسی قسم کا رابطہ رکھتے تھے۔ فیروز چچا کی ایسی ہی سرشت تھی کہ وہ اپنے سے بہتر مالی پوزیشن والے رشتہ داروں سے گھلتے ملتے نہ تھے بلکہ ان کے در پر جانے میں آہانت محسوس کرتے تھے۔ راشد کی ممانی بہت اچھی خاتون تھیں۔ وہ تعلیم یافتہ تھیں، اس لئے تعلیم کی قدر جانتی تھیں، تنگ دل نہ تھیں۔ اس خاتون نے پہلے ہی دن راشد کو قبول کر لیا۔ اسے ماموں کے گھر کوئی تکلیف نہ تھی۔ممانی اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی تھیں۔ جب سے راشد ان کے گھر آیا تھا، بابر کو بیوی اس کے قدموں کو مبارک سمجھنے لگی تھی کہ بارہ سال بعد اسے اولاد کی خوشی ملنے والی تھی۔ وہ جتنا جیب خرچ چاہتا، یہ عورت اسے دے دیتی اور ماں جیسا پیار بھی دیتی۔ اس قدر چاہت اور پُر سکون ماحول نے راشد کی شخصیت پر خوشگوار اثر ڈالا اور اس کی ذہانت چمک اٹھی۔ اب وہ سکول کا سب سے اچھا طالب علم تھا۔ ہر امتحان میں پوزیشن لیتا، کھیلوں میں بھی آگے آگے رہتا تھا۔ اس کی محنت اور ذہانت سے ہر اُستاد خوش تھا۔ وہ ہر ایک کا چہیتا بن چکا تھا۔ اب وہ غربت کی ذلت میں نہیں، ایک خوشحال گھرانے میں جی رہا تھا۔ گاڑی میں اسکول آتا جاتا، نوکر اس کی خدمت پر مامور تھا۔ لہذا خود اعتمادی کی دولت سے مالا مال ہو گیا تھا۔ ہنس مکھ اور خوش مزاج تھا، صرف ایک بات تھی کہ جب بھی اسکول میں کوئی دوست راشد سے اس کے والد کے بارے سوال کرتا تو وہ اُداس ہو جاتا اور بات کو ٹال جاتا۔ یوں وقت گزرتا رہا اور اس نے آٹھویں جماعت پاس کرلی۔ افتخار بھائی نے آرٹس کے مضامین لے لئے تھے جبکہ راشد نے اپنے لئے سائنس کو چنا۔ اس دوران چند دن کی چھٹیوں پر خانیوال آیا اور جلد لوٹ گیا۔ اسے ڈر تھا کہ اس کے والد روک نہ لیں اور تعلیم کا سلسلہ ٹوٹ جائے۔ میٹرک کے امتحان میں راشد نے فرسٹ پوزیشن لی۔ اس دوران اس کی ماں بیٹے سے ملنے کئی بار حیدر آباد گئی مگر راشد ایک بار بھی گھر نہ آیا۔ چھٹیوں میں اس کے ماموں کہتے کہ اپنے بابا سے مل لو مگر وہ انکار کر دیتا اور ٹال مٹول سے کام لیتا۔ ماں صبر سے واپس لوٹ جاتی کہ اس کو تو بیٹے کی خوشی اور اس کا مستقبل عزیز تھا۔
کالج میں وہ ہاکی کا بہترین کھلاڑی منتخب ہوا تو اس کا مزاج کچھ بدل گیا۔ اب وہ بڑے بڑے امیروں کے لڑکوں سے دوستی رکھتا تھا۔ رہن سہن شکل و صورت سے وہ کسی امیر زادے سے کم نہ تھا۔ ماموں کے پاس پیسے کی کمی نہ تھی۔ وہ اس کی جیب میں رقم ڈالتے رہتے تاکہ وہ کالج میں زیادہ بااعتماد اور سوشل رہے۔ انہی دنوں میرے والد کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ افتخار کو تعلیم چھوڑ کر گھر سنبھالنا پڑ گیا۔ اس نے اپنے چچازاد کے ساتھ کاروبار میں شرکت کی اور ادھر مصروف ہو گیا کہ راشد سے بھی ملنے نہ جاسکا۔ ایک روز بھائی کو کاروبار کے سلسلے میں حیدر آباد جانا پڑا تب وہ راشد کے ماموں کے گھر گیا۔ پتا چلا کہ کالج ٹرپ پر گیا ہے۔ ایک کلاس فیلو سے بھائی نے ملاقات کی تو اس نے بتایا کہ راشد تو ایک ماہ سے کالج سے غائب ہے۔ ایک ماہ بعد کالج والوں نے اس کے ماموں سے رابطہ کیا۔ ماموں نے کہہ دیا کہ وہ بیمار ہے اور خانیوال گیا ہوا ہے لیکن قصہ کچھ اور تھا۔ دراصل یہ لڑکا راشد سے کدورت رکھتا تھا۔ قصہ یوں تھا کہ کالج کا ایک لڑکا ابرار جس کے عزیز خانیوال میں تھے اور اس کے ان عزیزوں کا گھر بھی ہمارے محلے میں تھا۔ جب یہ لڑکا عزیزوں کے وہاں آیا تو چچا فیروز اس سے جا کر ملے اور بیٹے کے بارے دریافت کیا۔ یہ بھی کہا کہ وہ چھٹیوں میں بھی گھر نہیں آیا۔ کیا بہت پڑھ رہا ہے یا پڑھائی سے پہلے ہی بڑا آدمی بن گیا ہے۔ مجھ سے تو پہلے ہی دوری رکھتا تھا۔ ماموں کے گھر جا کر ہاتھ سے ہی نکل گیا ہے۔ فیروز چچا کی ایسی باتیں سن کر اس لڑکے کو دشمنی نکالنے کا موقع ملا۔ وہ بھی ہاکی کا کھلاڑی تھا مگر اچھا نہ کھیلنے کی وجہ سے اُسے ٹیم سے الگ کر دیا گیا تھا، تب سے اس کے دل میں راشد کے لئے حسد پیدا ہو گیا تھا۔ اب جو موقع ملا تو فیروز چچا کے خوب کان بھرے کہ آپ کا لڑکا پڑھائی نہیں ، عیش کر رہا ہے۔ ماموں کا کیا ہے ، ان کا اپنا بیٹا تو ہے نہیں ، جو راشد کا جی چاہے کرے، آج کل آپ کا لڑکا کھیلوں میں اول آرہا ہے۔ بڑا اچھا کھلاڑی ہے مگر پڑھائی کا کچھ پتا نہیں ہے۔ چاچا فیروز خود پڑھے لکھے تھے نہیں، کھیل کا سُن کر بھنا گئے کہ میں یہاں اکیلا محنت مزدوری کر رہا ہوں اور وہ وہاں کھلاڑی بنا ہوا ہے۔ اگلے دن فیروز چچا حیدر آباد روانہ ہو گئے اور راشد سے کہا کہ گھر چلو، بہت کھلاڑی بن لئے اور بڑے عیش کرلئے۔ میں وہاں تنہا مزدوریاں کر رہا ہوں اور تیری بہنوں کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر میں گھلا جارہا ہوں- نہ میری ضعیفی کا خیال اور نہ عزت کا، مفت کی چپڑیاں جو مل رہی ہیں۔ بہنوئی نے بہت سمجھایا مگر وہ نہ مانا۔ جب بابر انکل نے زیادہ اصرار کیا کہ لڑکے کو پڑھائی سے مت نکالو، اسے پڑھنے دو تو چچا اور بپھر گئے کہ تم ہی ہو جو اس کو اتنے روپے جیب خرچ کے دے کر خراب کر رہے ہو۔ یہ میرے بڑھاپے کا سہارا ہے ۔ اولاد نرینہ کی اس لئے خواہش نہ کی تھی کہ یہاں پڑھنے کے بہانے کھیلے اور تم لوگ مجھے بے وقوف بناتے رہو۔ اتنی باتیں سنائیں کہ انکل بابر بھی غصے میں آگئے اور کہا کہ ٹھیک ہے، لے جائو اپنے لڑکے کو ، میں نے اس کی کمائی نہیں کھانی۔ اگر پڑھ لکھ کر کچھ بن جاتا تو تم ہی کمائی کھاتے۔ میں نے تو اپنی بہن کی خاطر اسے رکھا اور پڑھارہا تھا۔ تم کو نہیں منظور نہ سہی۔ باپ بیٹے کو زبردستی گھر لے آیا۔ یہاں مسائل بھرے گھر میں راشد سخت ناامیدی کا شکار ہو گیا۔ باپ کا ڈنڈا کہ کمائو گے تو کھاو گے ۔ میں اب مزدوری کر کے تھک گیا ہوں۔ تمہاری بہنوں کا جہیز بنانا ہے اور شادی کے اخراجات بھی پورے کرنے ہیں۔ راشد بہت آزردہ تھا۔ وہ تو دل لگا کر پڑھ رہا تھا ، اب ملازمت کے لئے دھکے کھانے پڑ گئے مگر جگہ جگہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ ملازمت نہ ملی ادھر ماموں نے ناراض ہو کر ساتھ چھوڑ دیا۔
فیروز چچا کی اکھڑ مزاجی کے باعث ان کے تعلقات دوسرے عزیزوں سے بھی اچھے نہیں تھے جو اس کی مدد کرتے۔ بہر حال انہوں نے کہیں نہ کہیں سے قرض لے کر اُس کو کریانہ کی دکان کھول دی۔ وہ تعلیم چھوڑ کر کریانہ کی دُکان پر تو بیٹھ گیا مگر بہت اداس اور بجھا بجھار بنے لگا۔ یہاں پر غربت ، مایوسی اور طعنے ملے اور وہ انجینئر بننے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ ماحول کا تضاد اور باپ کی سختی کو سہ نہ سکتا تھا۔ باپ نے دُکان کھول کر دے دی اور یہ بھی کہہ دیا کہ تم کمائو، ہم کھائیں گے۔ بہت تم نے عیش کرلئے ، ایسی پڑھائی کہ دو ٹکے کی نوکری تک نہ ملی، کس کام کی ہے۔ وہ جو غربت کے دن بھلا چکا تھا، آٹھ دس سال سکون اور آرام کے ماموں کے گھر گزار آیا تھا، جہاں غم تھا اور نہ فکرات کا جہنم تھا۔ اچانک اس افتاد سے بوکھلا گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کروں ؟ اس کے لئے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ چھوٹی سی دُکان سے کہاں گھر چلتا ہے ؟ جبکہ دکان چلانے والا بھی ایک ٹوٹے ہوئے دل کا ناتجربہ کار لڑکا ہو۔ راشد نے ماموں کو خط لکھا اور تمام حالات تحریر کر دیئے مگر بابر انکل تو چچا فیروز سے سخت نالاں تھے، لہذا انہوں نے بھانجے کو خط کا جواب نہ دیا۔ دکان میں لگا ہوا سرمایہ گھر کے راشن میں رفتہ رفتہ پورا ہوتا گیا۔ جب منافع نہ ہوا تو راشد سخت مایوسی کا شکار ہو گیا۔ باپ نے بے حد سخت سست کہا اور باور کرایا کہ ماموں کے گھر کے عیش و آرام اور کالج کے ماحول نے تم کو نکما کر دیا۔ دکان کو توڈبو بیٹھے ہو۔ قرض الگ چڑھ گیا ہے اب پھر سے نوکری ڈھونڈ و شاید کہیں چپراسی ہی لگ جائو۔ وہ بیچارہ اور درخواستیں ٹائپ کروا کر میرے والد کے پاس آیا، انہوں نے بھی کوشش کی لیکن میٹرک پاس کو اچھی نوکری کیا ملنی تھی کہ چھوٹی موٹی نوکری کے لئے بھی کئی ایسے بے روزگار نوجوانوں نے درخواستیں دے رکھی تھیں جو گریجویٹ تھے۔ راشد بے شک محنتی، باصلاحیت تھا لیکن باپ نے اپنی ناعاقبت اندیشی کے سبب اس کی ذہنی صلاحیتیں سلب کر لی تھیں۔ فیروز چاچا ان پڑھ ہی نہیں جلد باز بھی بہت تھے۔ تھوڑا سا صبر کے ساتھ انتظار کر لیتے اور راشد کو تعلیم مکمل کر لینے دیتے تو باہر نکل اُسے کسی نہ کسی جگہ نہیں تو اسی مل میں اچھی ملازمت پر لگا سکتے تھے جہاں چاچا فیروز کام کرتے تھے مگر چاچا ایسے ہٹ دھرم لوگوں کو کون سمجھا سکتا ہے۔ بے شک ان کی مالی مشکلات تھیں مگر انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ ان کے اکلوتے بیٹے کی تعلیم کا خرچہ کوئی دوسرا برداشت کر رہا ہے اور لڑکا حیدر آباد کے بہترین تعلیمی ادارے میں تعلیم پا رہا ہے۔ رہنے کھانے پینے کے علاوہ جیب خرچہ اور اچھے لباس کی سہولیات بھی ماموں نے اپنے ذمہ لے لی تھیں تب ان کو کچھ تو صبر و حوصلہ کرنا چاہئے تھا۔ ماں بچاری فریاد کرتی رہ گئی اور راشد کی تو اب یہ حالت تھی کہ جب بھی گھر میں گھستا، باپ کی تلخ باتیں پگھلے ہوئے سیسے کی طرح کانوں میں پڑتیں۔ باپ کی باتوں نے اس کے دل پر ایسے کچوکے لگا کہ کمرے میں جا کر رونے لگتا تھا۔ راشد ان دنوں بہت پریشان رہنے لگا تھا۔ راتوں کو بھی سوتا نہ تھا بلکہ روتا ہی رہتا تھا۔ اس کا غم دیکھ کر بڑی بہن بیمار رہنے لگی، دوسری کارشتہ اس لئے ٹوٹ گیا کہ بیاہنے کو جہیز نہ تھا، لیکن ان باتوں کا ذمہ دار راشد تو نہ تھا کہ ہر مصیبت اور بد قسمتی کا اسی کو ذمہ دار ٹھہرا دیا جاتا۔ سوائے میرے بھائی افتخار کے، کوئی بھی اس کی تکلیف اور ذہنی اذیت کو نہ سمجھ سکا، جو گھر آکر اپنے دوست کی پریشانی پر کڑھتا تھا۔ تنگ آکر راشد نے خواب آور گولیوں میں ساری ہمت اور تعلیم ڈبو دی۔ اس کی زندگی کے ساتھ یہ جدوجہد کی ادھوری کہانی بھی ختم ہو گئی۔ ماں اور بہنوں نے اس کے لئے جو خواب دیکھتے تھے، وہ اس کے ساتھ قبر میں دفن ہو گئے۔ باپ بھی آہیں کھینچتا مگر یہی کہتا کہ آہ تعلیم کی چاہت نے میرے بیٹے کو مجھ سے چھین لیا اور ماموں پچھتارہا تھا کہ اپنی آنا کو عزیز رکھ کر اس نے پیارا اور ذہین بھانجا کھودیا۔ کاش وہ ایسی غفلت سے کام نہ لیتا۔ میں بھی ایک دن اپنے والدین اور بھائی کے ہمراہ راشد کی قبر پر فاتحہ پڑھنے گئی تھی۔ وہ اپنی آخری آرام گاہ میں ابدی نیند سو رہا تھا۔ یہ کہانی صرف راشد کی ہی نہیں، اس جیسے کتنے ہی نوجوانوں کی ہے جو تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مستقبل کے سنہرے خوابوں کے لئے جدوجہد بھی کرتے ہیں مگر حالات انہیں کیا سے کیا بنا دیتے ہیں۔ غربت کی ڈائن ہمارے وطن کے ایسے ہزاروں نوجوانوں کے عزائم اسی طرح نکل جاتی ہے کہ ماں باپ بس آنسو ہی بہاتے رہ جاتے ہیں۔ کتنے المیے چھپا لیتی ہے یہ ہمارے خوابوں کی سرزمین…