Monday, April 28, 2025

Jahaiz Ki Lanat

عمران ہمارے ہی گاؤں کا ربنے والا تھا ۔ سیلاب سے تباہی میں اس کا گھر بار ماں باپ اور ان کا مال واسباب سبھی سیلابی ریلے کی نذر ہوگیا۔ خدا کی قدرت کہ عمران جو اس وقت باره برس کا ایک کم سن لڑکا تھا، کسی طرح امدادی کارکنوں کے ہاتھ آ گیا۔ انہوں نے اس کو کشتی میں ڈال لیا اور عمران کی جان بچ گئی ۔ جان توبچ گئی لیکن اس کا اب اس دنیا میں کوئی نہ رہا تھا۔ ان دنوں میرے شوہر اس امدادی ٹیم کے نگراں تھے جو سیلابی ریلے کے پانی میں بہتے ہوئے لوگوں کی جانیں بچانے کا کام کر رہے تھے ۔ وہ عمران کو گھر لے آئے ۔ اور مجھ سے کہا کہ اس بچے کے والدین کو سیلاب کا پانی نگل گیا ہے اور یہ  ہمارے ہی گاؤں کا بچہ ہے۔اب تم ہی اس کی دیکھ بھال کرو گی۔ یہ آج سے ہماری بھی اولاد ہے ،اس نیکی کے بدلے ہماری اولاد بھی خیر وعافیت سے رہے گی۔ میں نے عمران کی معصوم صورت پر نگاہ ڈالی تو میرا دل موم ہو گیا اور اس کی دیکھ بھال کا ذمہ لے لیا۔ وہ گاؤں کے اسکول میں چھٹی جماعت کا طالب علم تھا ۔ ہم نے اس کو ساتویں میں اسکول داخل کروادیا اور جو ماسٹر صاحب میرے بچوں کو ٹیوشن دینے آتے تھے وہی اسے بھی پڑھائی میں مدد دینے لگے۔ اس طرح اس نےمیٹرک پاس کرلیا تو سعید نے اس کو ایک ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ میں داخل کرادیا۔ جہاں سے اس نے الیکٹریشن کا دوسالہ کورس مکمل کرکے ڈپلوما حاصل کر لیا۔ میرے شوہر کو نزدیکی شہر میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت مل گئی کیونکہ وہ انجینئرنگ کی ڈگری رکھتے تھے۔ ان کو کمپنی نے اس شعبےکا انچارج بنادیا جو ملکی لیبرز کو بیرون ملک بھجواتی تھی ۔ عمران ڈپلوما حاصل کرچکا تھا۔ ہمیں اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ اس کے مستقبل کی بھی فکر تھی ۔ ہمارے بچے تو اب شہر کے کالج میں پڑھ رہے تھے لیکن عمران مزید پڑهائی تو جاری نہیں رکھ سکتا تھا ۔ میری بچیاں بڑی ہوگئی تھیں اس لئے ہم نے اسے سرونٹ کوارٹر رہنے کے لئے دے دیا ۔ عمران ایک شریف طبیعت اور سیدھا ساده نوجوان تها ،تبھی ماسٹر صاحب جو میرےبچوں اور عمران کو بھی ٹیوشن پڑھانے آیا کرتے تھے ایک روز ہمارے گھر آئے اور سعید سے کہا۔ صاحب میں ایک ریٹائرڈ اسکول ٹیچر ہوں ۔ زیادہ امیر نہیں ہوں پنشن اور ٹیوشن پر گزارہ ہے۔ میری ایک ہی بیٹی ہے جو شادی کی عمر کو پہنچ گئی ہے۔ اس کے فرض سے سبک دوش ہونا چاہتا ہوں کسی اچھے نیک لڑکے کی تلاش ہے ۔بتائیے ماسٹر صاحب اس سلسلے میں میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں۔ آپ نے جو عمران کو پالا ہے، اچھی تربیت دی اور ڈپلوما کورس بھی کرادیا ہے۔ چاہتا ہوں کہ آپ کے توسط سے اس کو داماد بنالوں تو بیٹی اپنے گھر کی ہوجائے گی۔ عمران بولے۔ ماسٹر صاحب میں اس سلسلے میں آپ کی ہر طرح سے مدد کرنے کو تیار ہوں لیکن ابھی عمران برسرروزگار نہیں ہے اور رہتا بھی ہمارے سرونٹ کوارٹر میں ہے۔ اس بات کی آپ فکر نہ کریں۔ میرا کوئی بیٹا نہیں ہے۔میں اسے گھر داماد بنالوں گا اگر وہ راضی ہوجائے تو اور جہاں تک اس کی نوکری کا مسئلہ ہے ۔۔۔ میرا دوست گورنمنٹ ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ کا پرنسپل ہے، وہاں آسامیاں نکلتی رہتی ہیں۔ میں اس کو کہہ کر اس بچے کو ٹیکنیکل ادارے میں ٹیچر لگوادوں گا ۔جب تک نوکری نہیں لگتی میرے دوست کے پاس کام سیکھنے کو آتارہے گا تو تجربہ بھی حاصل ہوجائے گا۔سعید بولے۔ماسٹر صاحب یہ نیکی کا کام ہے۔ میں خود اس بارے میں فکرمند تھا ۔ عمران کو بلاتا ہوں آپ اس سے خود بات کرلیں وہ راضی ہوجائے گا کیونکہ اس میں اسی کا فائدہ ہے۔ عمران کو میرے شوہر نے بلوایا اور ماسٹر صاحب نے اس سے بات کرکے قائل کرلیا کہ وہ ان کے ساتھ جاکر پرنسپل صاحب کے پاس انسٹیٹیوٹ میں اپنے کام سے متعلق کچھ تجربہ حاصل کرلے تو وہ اسے دوسالہ تجربے کا سرٹیفکیٹ بنوادیں گے اس طرح اسے بطور جونیئر ٹیکنیکل ٹیچر ملازمت مل سکے گی۔ عمران کو بھی ملازمت کی آرزو تھی ۔وہ ماسٹر صاحب کے ساتھ چلاگیا اور اس نے ایک اچھے پرائیوٹ ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ جاکر تهوڑے معاوضے پر اس تجرباتی ملازمت کو قبول کرلیا۔ دوسال وہاں کام کرنے کے بعد گورنمنٹ انسٹیٹیوٹ میں جونیئر ٹیچر کی اسامیاں نکل آئیں اور ماسٹر صاحب کی کوششوں سے بالآخر اس کو ملازمت مل گئی۔ ماسٹر صاحب نے اپنی بیٹی کی شادی عمران سے کردی ۔ سعید کو بھی خوشی ہوئی کہ جس لاوارث بچے کو سہارا دیا تھا ، اللہ تعالی نے اس کے راستے کھول دیئے تھے۔ روزگار کے ساتھ ساتھ اس کا گھر بس گیا اور وہ ایک خاندان کا فرد بھی بن گیا ۔ عمران کو ملازمت تو حاصل ہوگئی لیکن تنخواه کم تھی تاہم گهر ماسٹر صاحب کا تھا، لہذا ان کا اچھا گزارہ ہورہا تھا ۔ وہ کبھی کبھی ہم سے ملنے آتا، اپنی بیوی کو بھی لے آتا جو سلیقہ شعار، صابر وشاکر تھی اور اپنے شوہر کا ہر طرح سے خیال رکھتی تھی۔ اللہ تعالی نے عمران کو تین لڑکیوں سے نواز دیا۔ اب قلیل آمدنی میں گزارہ مشکل تھا لیکن سسر صاحب اس کی مدد کرتے اور وہ ان کی خدمت کرتارہا۔ جوں توں وقت گزرتا گیا یہاں تک کہ اس کی بچیاں بڑی ہوگئیں۔ ان دنوں بڑے شہروں کی طرح گاؤں میں بھی بیٹیوں کو جہیز دینے کا رواج چل نکلا۔ وہ جو پہلے اپنی بچیوں کو چاندی کے ایک آدھ زیور اور دوجورے کپڑوں میں رخصت کرتے تھے، اب ان کو جہیز کی لعنت سے پالا پڑ گیا کیونکہ طویل عرصے کی بے روزگاری کے باعث یہاں کے اکثر مردوں نے محنت مزدوری کے لئے دیگر ممالک کا رخ کرلیا تھا ۔ ریال، درہم یہاں تک کہ ڈالروں کی صورت میں آمدنی کو وہ جب پاکستانی کرنسی میں تبدیل کرتے تو ان کے گھروں میں اتنی رقم پہنچ جاتی تھی جس سے وہ اشیائے ضرورت بھی گھروں میں آنے لگیں، جن کا پہلے یہ غریب طبقہ صرف خواب دیکھ سکتا تھا ۔ ان کے گھروں میں اب ٹی وی، ریفریجریٹر اور وی سی آر پہنچ گئے تھے۔ اکثر جب دوتین سال بعد یہ گاؤں آتے تو سوٹ کیس قیمتی ملبوسات سے بھرے ہوتے ،ساتھ ہی مخملی کمبل، استریاں،پلاسٹک کے ڈنر سیٹ اور اسی طرح کے دیگر اسباب بھی لاتے جو ان کی بچیوں کے جہیز میں دینے کے لئے ہوتے تھے۔ دولت جہاں انسان کے لئے آرام لاتی ہے وہاں کچھ بے سکونی بھی لاتی ہے اور غریب آدمی کو سے بڑی بے سکونی اس وقت ہوتی ہے جب وہ نمودونمائش کے چکر میں پھنس کر لالچ کی دلدل میں گرجاتا ہے۔ دولت اگر ضرورت کے مطابق آجائے تو بہت اچھا ہے،لیکن ضرورت سے زیادہ ہوتو یہ بدعتوں کا باعث بن جاتی ہے۔ یہی حال عمران کے پرسکون گائوں کا بھی ہوا، جہاں بیٹیوں کو جہیز دینا رواج بن گیا۔ ایک کی دیکھا دیکھی اوروں نے بھی بڑھ چڑھ کر جہیز بنادیا، پھر تو لوگوں کے دلی سکون اور بے فکری کو نمودونمائش کے اس عفریت نے نگلنا شروع کردیا اور مقابلے کی بھاگ دوڑ نے وبا کی صورت اختیار کرلی۔ جس گائوں کے ماسٹر صاحب تھے، عمران کا تعلق اسی جگہ سے تھا۔ یہاں ماسٹر صاحب کے رشتے داروں کے گھر آباد تھے، جن سے ان کی نواسیوں کے رشتے ہوسکتے تھے۔ ماسٹر صاحب کے ساتھ ساتھ عمران کی ذمہ داری بھی بڑھ گئی تھی ۔ اس کی آمدنی اتنی نہیں تھی کہ گھرانے کا بوجھ اٹھانے کے ساتھ بیٹیوں کے لئے جہیز بھی بناسکتا۔ ماسٹر صاحب کا انتقال ہوگیاتو ان کی پنشن بھی بند ہوگئی۔ ایسے میں عمران کی بچیوں کے رشتے کیونکر اچھے گھرانوں میں ہوسکتے تھے کہ جن لڑکیوں کے لباس میں پیوند لگے تھے ۔ اس گھرانے کی خستہ سالی دیکھ کر کسی کھاتے پیتے گھر سے بچیوں کا رشتہ نہ آیا تو عمران کو اپنی کم مائیگی کا بے حد احساس رہنے لگا۔ تبھی ایک دن وہ شہر آ کر سعید سے ملا اور اپنی مشکلات کا تذکرہ کیا۔انہوں نے عمران کو تسلی دی اور کہا تمہیں اگر طویل چھٹی مل سکتی ہے تو لے لو۔ میں تمہارا ویزا لگوادیتا ہوں۔ میں خود سعودیہ عربیہ جارہا ہوں، تمہیں ساتھ لے جائوں گا۔ وہاں تمہارے جیسے کام کرنے والوں کی مانگ آئی ہوئی ہے۔ اگر تم کو سہولت محسوس ہوتو نوکری سے استعفی دے دینا وگرنہ واپس آجانا۔ عمران نے ان کی بات مان لی اور تین ماہ کی چھٹی لے لی۔وہ میرے شوہر کے ہمراہ سعودیہ عربیہ چلاگیا۔ وہ کمپنی کے معاہدے پر آیا تھا کام تو محنت کا تھا مگر تنخواہ اچھی تھی ۔ سال دوسال میں ہی اس کے دن پھر سکتے تھے۔ اس نے بھی لگن سے کام کیا اور تین سال تک واپس وطن نہ گیا۔ اس دوران وہ اپنی کمائی جوڑتا رہا، تاکہ بچیوں کے لئے اچھا جہیز بناسکے۔ وہ کچھ رقم خرچے کے لئے اپنی بیوی کو بھیج دیتا اور باقی رقم سے بچیوں کے لئے جہیز کا سامان خرید لیتا۔اس طرح تھوڑا تھوڑا کرکے اس نے کافی جہیز اکٹھا کرلیا اور نقد رقم بھی اتنی جمع کرلی کہ واپس گائوں جاکر تینوں لڑکیوں کو عزت سے ان کے گھروں کا کرسکے۔ ماسٹر صاحب کے عزیز واقارب کو پتاچلا کہ ان کا داماد اچھا کما رہا ہے اور ان کے گھر کے مالی حالات بھی سدھر گئے ہیں تو کچھ باعزت کھاتے پیتے گھرانوں سے رشتے آنے لگے۔ بیوی سے خطوط وکتابت جاری تھی، لہذا بيوى نے اسی طرح شوہر سے مشورے کرکے بچیوں کے رشتے طے کردئیے۔ اب وہ بہت خوش تھا۔ سعید سے فرصت میں اپنے مسئلے مسائل بتا کر کہتا کہ اس کی لڑکیوں کے رشتے بیوی نے اچھے گھرانوں میں طے کردیئے ہیں۔وہ اب جاتے ہی ان کے فرائض سے سبک دوش ہوجائے گا۔ ایک رات وہ کام سے تھکا ہارا آیا اور اپنے کرائے کی قیام گاہ میں سوگیا ۔ اس کے دوسرے دوساتھی اسی قیام گاہ کے دوسرے حصے میں وی سی آر پرفلم دیکھ رہے تھے۔ اچانک انہیں محسوس ہوا کہ جس کمرے میں عمران محوخواب ہے اس طرف آگ لگی ہوئی ہے۔ وہ جلدی سے دوڑ کرگئے اور بڑی دقت سے جان پر کھیل کر عمران کو وہاں سے نکالنے میں کامیاب ہوئے۔ خداجانے کہ آگ کیسے لگی تھی؟ شارٹ سرکٹ سے یا کسی نے سگریٹ کا جلتا ہوا ٹکڑا لاپروائی سے پھینک دیاتھا۔ بہرحال خوشی کی بات یہ تھی کہ عمران بچ گیا تھا، گرچہ وہ کافی جھلس گیا تھا اور حالت خطرے سے باہر تھی البتہ اس کا سامان جلنے سے بچ نہ پایا کیونکہ اس کے ساتھیوں کے پاس اتنا وقت نہ تھا کہ وہ اس کا سامان نکال سکتے۔وہ اپنا سامان بھی کم ہی بچا پائے کیونکہ آگ لکڑی کے کیبن نماگھر میں لگی تھی ۔ آگ تو پھر آگ ہے جب پھیلے تو کب سانس لینے کی مہلت دیتی ہے۔ لوگوں نے اپنے ضروری بیگ بچائے کہ جن میں ان کے اقامے اور پاسپورٹ وغیرہ تھے۔انہوں نے اپنی جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے عمران کا سفری بیگ بھی آگ سے نکال لیا تھا ۔جس میں اہم دستاویز تھیں تاہم اس کے باقی سامان مثلاً سوٹ کیسوں اور دیگر ڈبوں کو شعلوں کے درمیان سے کھینچ لانا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ فون پر اسی وقت سعید کو اطلاع دی گئی۔ وہ کمپنی کی گاڑی پر وہاں پہنچ گئے اور عمران کو اسپتال پہنچایا، جو دھوئیں کی وجہ سے بے بوش تھا۔اس کو آکسیجن لگائی گئی اور مناسب علاج معالجہ کی سہولت بھی مہیا کردی گئی۔ جب اسے ہوش آیا، اس نے پہلا سوال جو کیا وہ یہ تھا کہ کیا میرا ساسان بچ گیا ہے؟ چونکہ دوست اور خیر خواہ اسے اس حالت میں صدمے سے بچانا چاہ رہے تھے۔ انہوں نے یہی کہا کہ فکر مت کرو عمران ! تمہارے سامان کو بھی بچا لیاگیا ہے ۔تم ٹھیک ہوجائو گے تو سامان بھی تم کو مل جائے گا۔ تین دن بعد جب جھلسنے کی تکلیف کم ہوگئی اور وہ حواس میں آگیا، تب اس نے پھر وہی سوال کیا۔ کیا میرا سامان بچ گیا ہے؟ شاید اس کو اپنی زندگی سے زیادہ اپنی محنت سے کمائے اس سامان اور نقدی کی فکر تھی جو اس کی بیٹیوں کی شادیوں کے لئے اس کے نزدیک ایک متاع عزیز تھی۔ جب تک وہ پوری طرح ٹھیک نہ ہوا، دوست احباب اس کو تسلیاں دیتے رہے کہ فکر مت کرو تمہارا کوئی مالی نقصان نہیں ہوا ہے اور سامان بھی بہ حفاظت ہے۔ ایک ماہ بعد جب وہ صحت یاب ہوگیا تو دوست اس کو اسپتال سے گھر لائے ۔ اس وقت بھی اس کی زبان پر یہی فقرہ تھا کہ میرا سامان بچ گیا ہے نا… اب حقیقت نہیں چھپائی جاسکی تھی، لہذا سعید نے سچ بتانا ہی مناسب سمجھا۔ کہا کہ عمران بیٹا فکر مت کرو۔ تمہارا سامان جل گیا ہے لیکن ہم نے یہ طے کیا ہے کہ سب مل کر تمہارا نقصان پورا کردیں گے۔ تم پھر وه سارا سامان خرید لینا۔ کمپنی سے بھی تم کو امداد ملنے کی قوی امید ہے۔ یہ سنتے ہی اس نے حیران نظروں سے سعید اور اپنے ساتھیوں کو دیکھا اور کہا ۔اچھا تو اب تک آپ لوگ مجھے جھوٹی تسلیاں دیتے رہے … وہ میرا سامان نہیں تھا بلکہ میری بیٹیوں کے جہیز کا سامان تھا۔ٹھیک ہے یہ ساسان پھر لیا جاسکتا ہے لیکن پہلے انسان کی زندگی قیمتی ہوتی ہے۔ شکرو کہ تمہاری زندگی بچ گئی ہے۔ وہ یہ سن کر دوبارہ بیڈ پر لیٹ گیا اور بالکل خاموش ہوگیا جیسے اس کوا پنے نقصان کا سن کر سکتا ہوگیا ہو۔ دوستوں نے ہلایا جلایا ۔سعید نے ڈاکٹر کو بلایا۔ کہا کہ ان کو اپنے سامان کے جلنے کا ابھی پتا چلا ہے۔ شاید صدمے سے بے ہوش ہوگئے ہیں۔ آپ ذرا دیکھئے ان کو … ڈاکٹر نے دیکھا اور مایوسی سے بولا۔ ان کو سکتہ نہیں ہوا بلکہ ان کی روح پرواز کر گئی ہے۔ جسم کے زخم تو صحیح ہوگئے تھےلیکن روح کا زخم گہرا ہوتا ہے صاحب! یہ جسم کے زخموں سے نہیں مرے،بلکہ روح کی تکلیف سہہ نہیں سکے۔ عمران کے دوست نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا ۔ سامان کے جلنے کا سن کر صدمے سے نہیں سکا میرا یار۔ مزدور دوست کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے مگر اس کا تمام وجود آنسو بن گیا تھا۔ عمران کا ہارٹ فیل ہوگیا تھا۔ بھلا ایک غریب آدمی جو پائی پائی جوڑ کر اپنی عزت بنانا چاہے وہ اتنا نقصان کیسے برداشت کرسکتا تھا۔ عمران کی خودداری نے کسی دوست کا احسان بھی لینا گوارا نہ کیا۔ اب سب ہاتھ ملنے لگے۔ اے کاش ہم یہ بات ابھی نہ بتاتے۔ پہلے سامان خرید کر رکھ لیتے۔ کچھ اور انتظام کرلیتے۔ آہ جس شخص کو آگ ہلاک نہ کرسکی اسے بیٹیوں کے جہیز کے غم نے مار ڈالا۔ کمپنی کے مالک کو سعید نے عمران کے احوال سے آگاہ کیا۔ اس نے عمران کی میت کو وطن بھجوانے کا انتظام کردیا اور ساتھ ہی اتنی رقم کا چیک بھی اس کی بیوی کے نام دے دیا ، جس سے وہ بیوہ اپنی تینوں بچیوں کی شادیاں عزت کے ساتھ کرسکتی تھی۔ اس کی بیوہ اور بچیوں پر جو گزری سو گزر گئی مگر اس کی بیٹیوں کی شادیاں عزت سے ہوگئیں اور ان کو رواج کے مطابق اتنا جہیز دے کر ماں نے رخصت کیا کہ وہ اپنے سسرال میں شان سے سر اونچا کرکے زندگی بسر کرسکیں ۔وہ خود بچیوں کی شادی میں شامل نہ تھا مگر اس کی میت کے ساتھ اتنی رقم اس کی بیوہ کو موصول ہوگئی تھی کہ بیٹیوں کے رشتے ٹوٹنے سے بچ گئے اور باپ کے لہو سے بچیوں کے سرخ سہاگ رنگ جوڑے سنور گئے

Latest Posts

Related POSTS