میں اس وقت کوئی نو برس کا رہا ہوں گا، جب ایک رات اعجاز چچا اپنی نئی نویلی دلہن ماہ پارہ چچی کے ساتھ پہلی بار ہمارے گھر آئے تھے۔ وہ جاڑوں کی ایک ٹھٹھرتی ہوئی رات تھی۔ حسب معمول سر شام ہی کوچہ و بازار سنسان ہو گئے تھے۔ مغرب کے بعد کھانا کھلا کر امی جان نے ہم تینوں بہن، بھائیوں کو سونے کے لئے کمرے میں بھیج دیا تھا اور خود بابو جی کے ساتھ بیٹھک میں جا بیٹھی تھیں۔ یہ تقسیم ہند سے ایک سال پہلے کا ذکر ہے۔ میرے بابوجی ریاض احمد ، سندھ کے ایک دور افتادہ اسٹیشن پر بحیثیت اسٹیشن ماسٹر تعینات تھے۔ اسٹیشن سے ملحقہ ریلوے کالونی میں ہمارا خاصا کشادہ کوارٹر تھا۔ اس اسٹیشن پر چوبیس گھنٹے میں صرف دوبار ٹرینوں کی آمدورفت ہوتی تھی۔ ایک صبح 7 بجے اور ایک رات 9 بجے … غالباً اعجاز چچا رات والی ٹرین سے ہمارے شہر پہنچے تھے۔ بابوجی کا تعلق الہ آباد کے ایک مضافاتی علاقے سے تھا، مگر جب سے انہوں نے ریلوے کی ملازمت اختیار کی تھی ، اپنے آبائی گھر میں ٹک کر رہنا نصیب نہیں ہوا تھا۔ کبھی عید تہوار یا کسی غمی خوشی میں دو چار دنوں کے لئے جاتے اور مہمانوں کی طرح ٹھہر کر واپس لوٹ آتے ۔ ملازمت میں آئے انہیں کم و بیش بارہ برس بیت چکے تھے۔ وہ سندھ اور پنجاب کے مختلف اضلاع میں چھوٹے بڑے اسٹیشنوں پر خدمات انجام دیتے رہے تھے۔ آج کل ان کی پوسٹنگ سندھ کے انتہائی دور افتادہ علاقے کے ایک چھوٹے سے شہر کے اسٹیشن پر تھی۔ اس شہر میں آئے انہیں کوئی اڑھائی برس بیت چکے تھے۔ اس دوران وہ ایک بار بھی اپنے والدین سے ملنے اپنے آبائی شہر نہیں جاسکے تھے۔ تین برس پہلے ہم سب ، ہماری اکلوتی پھوپی رخشندہ کی شادی پر گائوں گئے تھے اور وہیں پہلی بار میں نے اعجاز چچا کو دیکھا تھا۔ وہ لمبے قد اور چھریرے جسم کے ایک وجیہ اور خوبرو انسان تھے ۔ وہ مجھے بے حد اچھے لگے تھے۔ انہوں نے اپنے دائیں ہاتھ سے میرے بالوں کو بکھیرتے ہوئے پیار بھرے لہجے میں پوچھا تھا۔ کیوں … ولی کیسے ہو؟ میں اپنے بہن، بھائیوں میں سب سے بڑا تھا اسی لئے وہ ہمیشہ مجھے ولی عہد “ کہتے تھے اور ان کا ولی عہد کہنا مجھے اچھا لگتا تھا۔ دو روز قبل ایک گارڈ کے ذریعے دادا ابا کی طرف سے ایک چٹھی موصول ہوئی تھی، جس سے حالات کے بارے میں کچھ آگاہی تو ضرور ہوئی تھی، مگر یہ پتا نہیں چل سکا تھا کہ اعجاز چچا کب تک یہاں پہنچیں گے ۔ البتہ خط ملتے ہی امی جان نے ہمارے کمرے کے ساتھ والا کمرہ ان کے لئے ٹھیک کروادیا تھا، بستر پر نئی چادر بچھادی تھی اور باتھ روم میں نیا تولیہ رکھوا دیا تھا۔ دادا ابا کا خط پڑھ کر بابوجی کسی انجانی تشویش میں مبتلا ہو گئے تھے۔ امی جان بھی فکر مند نظر آرہی تھیں مگر وہ اس بات سے خوش تھیں کہ برسوں بعد ان کے گھر کوئی سسرالی رشتے دار آنے والا تھا۔میرے چھوٹے بھائی، بہن اسد اور تہمینہ سوچکے تھے۔
میں بھی سویا ہوا تھا، مگر کسی آہٹ سے میری آنکھ کھل گئی تھی۔ میں نے بستر سے اتر کر کمرے کے نیم وا دروازے کے کواڑ سے بیٹھک کی طرف جھانکا تھا۔ بیٹھک کے کونے میں تپائی پر لالٹین دھری تھی اور سامنے بید کی کرسیوں میں سے ایک پر بابوجی بیٹھے تھے۔ ان کے سامنے صوفے پر امی جان بیٹھی تھیں۔ دونوں کے چہروں پر فکر مندی اور پریشانی لرزاں تھی۔ آپ نے اسٹیشن پر تو کسی کو بتا دیا ہے نا؟ امی جان نے دھیمی آواز میں سوال کیا۔ ”ہاں! قلی دین بخش کی ڈیوٹی لگا دی ہے۔ وہ ان کے سامان سمیت انہیں بحفاظت گھر پہنچادے گا۔ “ بابو جی نے کمرے کے داخلی دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ تب ہی دروازے پر دستک ہوئی۔ شاید آ گئے …؟ بابو جی نے کہا اور کانوں کے گرد مفلر لپیٹتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ امی جان کونے میں دھری لالٹین اٹھا کر ان کے پیچھے چلی تھیں۔ میں بھی آنکھیں ملتا ہوا ان دونوں کے پیچھے آ کھڑا ہوا تھا۔ پھاٹک کھلنے کے بعد پہلے قلی دین بخش اندر داخل ہوا تھا۔ اس کے سرپر ایک درمیانے سائز کا بکس تھا۔ اس نے بابوجی کو سلام کر کے بکس فرش پر رکھتے ہوئے کہا۔ لیجئے سرکار ! ہم آپ کے مہمان لے آئے۔“ بابو جی نے پر اشتیاق نظروں سے پھاٹک کی طرف دیکھا۔ اعجاز چچا اندر داخل ہو رہے تھے۔ بابوجی تیزی سے آگے بڑھ کر گرم جوشی کے ساتھ ان سے بغل گیر ہوئے تھے۔ ان کے پیچھے سیاہ برقعے میں ملفوف چہرے پر نقاب ڈالے خاتون کھڑی تھیں۔ امی جان انہیں دیکھتے ہی تیزی سے آگے بڑھیں اور انہیں گلے سے لگا لیا۔ چلو اندر چلو ۔ “ بابو جی نے گیٹ بند کرتے ہوئے کہا اور سب لوگ برآمدے کی سیڑھیاں چڑھتے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ باہر کی نسبت کمرہ خاصا گرم تھا۔ اعجاز چچا، بابوجی کے پہلو میں صوفے پر بیٹھ چکے تھے جبکہ ماہ پارہ چچی صوفے کے دائیں جانب کھڑی تھیں۔ ارے تم بھی بیٹھو نا ! “ امی جان نے اپنائیت بھرے لہجے میں مخاطب کیا۔ اور یہ کیا. اب تک تم نے چہرے سے نقاب بھی نہیں اٹھایا ؟“ یہاں سب اپنے ہیں ۔ “ اعجازچچا نے چچی کی طرف دیکھ کر نرم لہجے میں کہا۔ ” یہاں پردے کی ضرورت نہیں، برقع اتار دو اور نہیں تو کیا امی جان چہکتی آواز میں بولیں ۔ ہم بھی تو دیکھیں اپنے اعجاز میاں کی پسند ! امی جان نے آگے بڑھ کر ان کے چہرے سے نقاب الٹ دیا۔ نقاب کے الٹتے ہی جانو کمرے میں اجالا پھیل گیا۔ بابوجی اورامی جان نے حیران نظروں سے ایک دوسرے کی جانب دیکھا، پھر ان کی متعجب اور تحسین آمیز نظریں ماہ پارہ چچی کے چہرے پر جا ٹھہری تھیں۔ میں ٹکٹکی باندھے ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ سیاہ برقعے کی اوٹ سے ان کا چہرہ بادلوں میں گھرے چاند جیسی لگ رہا تھا۔ گھنی سیاہ پلکوں سے بھی پر کشش آنکھوں سے پل بھر کو انہوں نے بابوجی اور امی جان کی طرف دیکھا اور اپنا ہاتھ صندلی پیشانی تک لے جاکر ”آداب “ کہا۔ کمرے کی ساکن فضا میں لحظہ بھر کو ان کی نقرئی آواز کا ارتعاش جاگا۔ پھر انہوں نے اپنی روشن آنکھوں کے دریچوں پر پلکوں کی چلمن گرا لی تھی۔ ان کا حسن بے مثال دیکھ کر میرے ننھے سے دل پر عجب اثر ہوا تھا۔ مجھے پہلی ہی نظر میں ان سے شدید عشق ہو گیا تھا۔ ماہ پارہ چچی جب تک بیٹھک میں موجود رہیں، میری نگاہیں ان کے حسین چہرے پر مرکوزرہیں اور جب وہ اعجاز چچا کے ساتھ اپنے کمرے میں چلی گئیں تو مجبور امجھے بھی اپنے کمرے میں جانا پڑا۔ رضائی میں میں نے آنکھیں تو بند کر لیں، مگر نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ چچی کا چاند چہرہ اور ستارہ آنکھیں میری آنکھوں میں گھوم رہی تھیں اور ان کی مترنم آواز میری سماعتوں میں گونج رہی تھی۔
میں نے بچوں کے رسالوں میں پریوں کی کئی کہانیاں پڑھی تھیں۔ ماہ پارہ چچی کو دیکھ کر میں نے سوچا کہ ہونا ہو وہ کوئی پری ہیں۔ ا ن کے بارے میں سوچتے سوچتے جانے کب مجھے نیند آگئی اور وہ میری پلکوں کی ڈولی سے اتر کر میرے سپنوں کی نگری میں چلی آئیں۔ ا گلے روز ا نہیں دیکھتے ہی میرے دل کو پکا یقین آ گیا کہ وہ پری ہیں۔ دن میں سب سے پہلے جاگ گیا تھا۔ میں دن کے اجالے میں اس چاند کے ٹکڑے یعنی ”ماہ پارہ “ کو دیکھنا چاہتا تھا – اعجاز چچا بھی کسی چاند نگر کے شہزادے سے کم نہیں تھے۔ بابوجی اکثر فخریہ کہا کرتے تھے۔ اعجاز ہم سب بھائیوں میں سب سے زیادہ خوبرو اور ذہین ہے ۔ “ بابوجی کے ان سمیت چار بھائی تھے۔ دادا ابا ایک باشعور اور روشن خیال انسان تھے اور ان کی خواہش تھی کہ ان کے بیٹے پڑھ لکھ کر اچھے مقام حاصل کریں، مگر بڑے تا یا پانچ جماعتوں سے آگے نہیں پڑھ سکے اور دادا ابا کے ساتھ زمینوں کے بکھیڑوں میں الجھ گئے۔ منجھلے تایا مڈل تک پہنچ پائے اور گائوں کے اکلوتے اسکول میں ماسٹر ہو گئے، پھر بابوجی انٹر کے بعد ریلوے میں ملازم ہوگئے۔ اعجاز چچا تینوں بھائیوں اور اکلوتی بہن رخشندہ سے چھوٹے تھے اور گائوں کے پہلے نوجوان تھے جو گریجویشن کے لئے دہلی یونیورسٹی گئے تھے۔ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں ان کا روم میٹ ایک ہندو لڑ کا شنکر تھا۔ شنکر کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ اپنی ذہانت، لیاقت اور بے حد محنت کی بنا پر یونیورسٹی تک پہنچا تھا اور اب بھی ٹیوشن کر کے گزارہ کرتا تھا۔ہاسٹل سے ذرا فاصلے پر ایک ہندو کالونی تھی ۔ دور تک حویلی نما مکانات پھیلے ہوئے تھے۔ وہیں ایک بڑے تاجر سیٹھ وینامل کے گھر شنکر اس کے چھوٹے بیٹے کرشنا کو ٹیوشن پڑھانے جاتا تھا۔ اچانک ایک دن اس کے گھر سے اطلاع آئی کہ اس کے پتا کی طبیعت سخت خراب ہے۔ اسے فوراً بلا یا گیا تھا۔ انہی دنوں کرشنا کے امتحان ہو رہے تھے۔ شنکر چھٹی نہیں کر سکتا تھا، مگر گائوں بھی جانا ضروری تھا۔ سو اس نے اعجاز چچا سے گزارش کی کہ اس کی غیر موجودگی میں وہ سیٹھ کے گھر جا کر اس کے بیٹے کرشنا کو ٹیوشن پڑھا دیں۔ مجھے جانے میں کوئی عار نہیں ۔ “ اعجاز چانے دھیمے لہجے میں کہا۔ ”مگر پہلے ان سے معلوم کر لو شاید انہیں اعتراض ہو ، ا یک مسلمان کا پڑھانا شاید وہ پسند نہ کریں۔“ بات تو ٹھیک تھی۔ ہندوئوں میں مسلمانوں کے خلاف چھوت چھات کا مرض عام تھا۔ کوئی مسلمان قریب سے گزر جاتا -اکثر ہندو نجس ہو جاتے تھے، مگر شنکر نے اس مسئلے کا یہ حل نکالا ۔ ” تم وہاں بتانا ہی نہیں کہ تم مسلمان ہو۔“ کیا مطلب؟ اعجاز چچا نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے حیرانی سے پوچھا۔ تم وہاں رشتہ کرنے تو نہیں جا رہے ۔ شنکر مسکرایا۔ ”تو پھر اپنا شجرہ نصب بتانے کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ سیٹھ جی صبح منہ اندھیرے کے گئے، رات بھیگنے کے بعد گھر لوٹتے ہیں۔ گھر میں دو چار نوکر چاکر اور ایک بے پچاری سیٹھانی جی اور کرشنا ہوتا ہے۔ جا کر خاموشی سے پڑھا کر آجایا کرنا۔ مجھے وہاں سب ماسٹر جی کہتے ہیں، تمہیں اسی نام سے پکارا جائے گا۔ نا اپنا نام بتانے کی ضرورت ہو گی، ناہی کسی کو پتا چلے گا کہ تم مسلمان ہو۔“ شنکر کی مجبوری کے پیش نظر اس کی مدد کے خیال سے اعجاز چچا نے اس کی بات مان لی اور اگلے دن سر شام سیٹھ جی کیحویلی جا پہنچے۔ شنکر نے وہاں پہلے ہی بتادیا تھا کہ اس کی غیر موجودگی میں دوسرے ماسٹر جی پڑھانے آئیں گے ۔ سونو کر نے انہیں بصد احترام دالان میں بچھے تخت پر لا بٹھایا۔ سامنے ہی ایک میز کے گرد دو کرسیاں رکھی تھیں اور میز پر کچھ کتابیں بے ترتیبی سے پڑی تھیں۔ کرشنا کہاں ہے ؟“ اعجاز میاں نے میز پر بکھری کتابوں کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا۔ بس ابھی آتے ہی ہوں گے ۔ ” نو کرنے جواب دیا۔ ٹھیک اسی لمحے کونے میں موجود لکڑی کے زینے سے ایک نو دس برس کا لڑ کا دھڑ دھڑ سیڑھیاں پھلانگتا نیچے اترا۔ اس کے پیچھے ایک پندرہ سولہ برس کی لڑکی ہاتھ میں ایک لمبی چھڑی لئے دوڑتی چلی آرہی تھی۔ اعجاز میاں یہ افرا تفری دیکھ کر اپنی جگہ سے گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ ماسٹر جی ماسٹر جی ! بچایئے ۔ “ لڑکا ان کے پیچھے جاچھپا اور لڑ کی خلاف توقع اپنے سامنے ایک حسین و جمیل اجنبی نوجوان کو دیکھ کر حیرت زدہ سی کھڑی رہ گئی۔ خود اعجاز میاں آنکھیں پھاڑے، منہ کھولے حیرت کی تصویر بنے اس حور کو تکے جارہے تھے۔ دونوں کی نگاہیں باہم متصادم تھیں اور دل ایک نئے انداز سے دھڑک رہے تھے۔ چندر مکھی ! تب ہی اندر سے کسی نے آواز دی۔ آواز پر ان دونوں کی محوریت ٹوٹ گئی۔ چندر مکھی نے چونک کر اندر کی طرف دیکھا اور آئی ماتا جی کہتی اندر چلی گئی اور اعجاز میاں اپنے سینے پر ہاتھ دھرے دھپ سے کرسی پر بیٹھ گئے۔ یہ چندر مکھی دیدی بھی نا کرشنا کے لہجے میں شکایت تھی۔ رام جانے کب ان کا بیاہ ہو گا اور کب ان سے میری جان چھوٹے گی۔“ اتنی بری تو نہیں لگتیں ۔ “ اعجاز میاں نے اندر کی طرف نگاہ کرتے ہوئے بے حدد ھیمی آواز میں کہا۔ ارے بری کہاں ! وہ تو بہت اچھی ہیں۔ کرشنا نے فوری طور پر اپنا بیان بدل لیا۔ ” مجھ سے بے حد پیار کرتی ہیں … ماتا جی کہتی ہیں چندر مکھی اپنے اکلوتے ، لاڈلے بھائی کی خاطر کچھ بھی کر سکتی ہے۔ اپنی جان دے بھی سکتی ہے اور کسی کی جان لے بھی سکتی ہے۔
اعجاز میاں نے کرشنا کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ متلاشی نگاہوں سے اس دروازے کی طرف دیکھتے رہے جہاں سے ابھی ابھی چندر مکھی اندر گئی تھی۔ چندر لکھی اور اعجاز چچا کی یہ پہلی ملاقات تھی اور پہلی ہی ملاقات میں وہ ایک دوسرے کے تیر نظر کا شکار ہو گئے تھے۔ اعجاز چچا آٹھ روز تک کرشنا کو پڑھانے سیٹھ وینامل کے گھر جاتے رہے۔ کرشنا کو انہوں نے جو پڑھایا سو پڑھایا مگر چندر مکھی سے عشق کا سبق خوب پڑھا۔ جھروکوں، چلمنوں سے تانک جھانک کے ساتھ چھپ چھپا کر ملاقاتوں کا سلسلہ بھی چل نکلا اور ان آٹھ دنوں میں آٹھ برسوں ، آٹھ صدیوں کا سفر طے ہو گیا۔ شنکر لوٹ آیا تو اعجاز چچا کا سیٹھ کے گھر جانے کا سلسلہ موقوف ہو گیا، مگر وہ عشق کی آگ جو دونوں طرف برابر لگی ہوئی تھی، بجھ نہ سکی بلکہ جدائی کے ان لمحوں نے اس آگ کو اور ہوا دی اور ایک رات چندر مکھی، کرشنا کی انگلی تھام کر اعجاز چچا سے ملنے ان کے ہاسٹل چلی آئی۔ جازی ! میں تم سے ملے بنا زندہ نہیں رہ سکتی ۔ “ وہ ان کے سینے پر سر رکھے سسک رہی تھی۔ اس سچائی سے وہ خوب واقف تھے۔ وہ خود بھی تو چندر مکھی کا چاند سا مکھڑا دیکھے بنا زندہ رہنے کا تصور بھی کر سکتے تھے۔ چندر بھی سرکاری اسکول میں آٹھویں جماعت کی طالبہ تھی۔ اس کی پھوپی زاد بہن نندنی بھی اس کے ساتھ پڑھتی تھی۔ چندر مکھی نے اسے اپنار از دار بنا کر اپنے عشق کا احوال اس سے کہہ سنایا۔ تو پاگل تو نہیں ہو گئی چندر لکھی ! نندنی نے خوف زدہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ عشق اور وہ بھی ایک مسلمان سے !“ دد عشق ذات پات ، دین دھرم کچھ نہیں دیکھتا۔ یہ تو بس ہو جاتا ہے ۔ “ چندر مکھی نے جذب کی سی کیفیت میں جواب دیا۔نندنی کی ماں نہیں تھی۔ سوتیلی ماں نندنی کے ساتھ ظلم نہ کر سکے، اسی خیال سے اس کے پتا نے دوسرا بیاہ نہیں کیا تھا۔ وہ صبح سے گھر سے نکلتے اور رات گئے گھر میں داخل ہوتے ۔ تمام دن نندنی ایک بوڑھی نوکرانی کے ساتھ گھر میں اکیلی ہی ہوتی تھی۔ نندنی کا گھر چندر مکھی اور اعجاز چچا کی ملاقاتوں کا محفوظ ٹھکانہ ثابت ہوا تھا مگر کچھ ہی عرصے بعد نندنی کا بیاہ ہو گیا اور وہ سسرال سدھار گئی اور اس طرح چندر مکھی اور اعجاز چچا کی ملاقاتوں کا یہ ٹھکا نہ ختم ہو گیا۔ ایک بار پھر فرقت کے اندھیرے ان دونوں کا مقدر بن گئے تھے ، مگر وہ دونوں محبت کی اس منزل پر پہنچ چکے تھے جہاں ایک دوسرے کو دیکھے بنا، ایک دوسرے سے ملے بنا زندہ نہیں رہ سکتے تھے۔ سو کبھی اعجاز چچا، چندر مکھی کے اسکول کے گیٹ پر جا پہنچے تو کبھی چندر مکھی، کرشنا کو ساتھ لئے کسی سہیلی کے گھر جانے کا بہانہ بنا کر ان سے ملنے ان کے ہاسٹل آجاتی تھی۔یوں ہی کئی مہینے بیت گئے۔ چندر مکھی کے سالانہ امتحان ہونے تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ امتحان مختم ہوتے ہی چندر مکھی کے گھر میں اس کے بیاہ کا ہنگامہ جاگ اٹھا۔ بچپن میں ہی اس کا لگن اس کے پتا کے دوست سیٹھ رام مراری کے بیٹے شام مراری سے ہو چکا تھا، اب فقط وداعی باقی تھی۔چندر مکھی اس رشتے سے واقف نہیں تھی۔ اب جو پتا چلا تو اس کے سر پر گویا آسمان ٹوٹ پڑا۔ اعجاز چچا خود بھی یہ داستان سن کر سن ہو گئے تھے ۔ وہ چندر مکھی کے عشق میں اتنے ڈوب چکے تھے کہ اب ابھرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ ادھر چار روز بعد چندر مکھی کی بارات آنے والی تھی، چندر مکھی کنویں میں کود کر جان دینے کو تیار تھی، مگر شام مراری کے ساتھ وداع ہونے کو تیار نہ تھی۔ گھر میں اس کے مانجھے کی تیاری ہو رہی تھی۔ تیل ، ابٹن بن رہا تھا مگر اس کی جان پر بنی تھی۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بنا ابٹن کے اس کا چہرہ زرد پڑتا جارہا تھا۔ اس کا ننھا سا چہیتا اور کسی حد تک اس کا راز دار بھائی کرشنا اس کے چہرے کے پل پل بدلتے رنگ دیکھ کر پریشان ہو رہا تھا۔ دیدی ! تم ٹھیک تو ہو ؟“ اس نے اس کے زرد چہرے کو پیار سے چھوتے ہوئے پوچھا۔ تو جانتا ہے نا کرشنا ! چندر مکھی نے پریشان نظروں سے کرشنا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ”کل دو پہر بارات آجائے گی اور شام مراری مجھے بیاہ کر لے جائے گا۔“ہاں! تو پھر کیا ہوا؟“ کرشنا نے حیرانی سے جواب دیا۔ ” سب ہی لڑکیوں کی شادی ہوتی ہے۔… نندنی دیدی بھی تو بیاہ اپنے سسرال چلی گئیں ، اب تم بھی! مگر میں شادی نہیں کرنا چاہتی۔ چندر مکھی نے تڑپتے لہجے میں کرشنا کی بات کاٹی۔ میرا مطلب ہے کہ اس مورکھ شام مراری سے- اچھا میرا ایک کام کرے گا؟ ہاں بولو دیدی ! بہن کو پریشانی اور الجھن میں دیکھ کر وہ خود بھی الجھ گیا تھا۔ تو ذرا جا کر ماسٹر جی کو بلا لا گھر کے پچھواڑے بیری کے پیڑ تلے ، میں وہیں موجود ہوں گی۔“ مگر دیدی…! اگر کسی نے دیکھ لیا تو؟ کرشنا کی دھیمی آواز میں اندیشے بول رہے تھے۔ بلا سے کوئی دیکھ لے۔“ چندر مکھی بے بسی سے رو پڑی۔ ” اچھا ہے ایک بار ہی کوئی کاٹ کے ڈال دے… یہ پل پل مرنے سے تو جان چھوٹے گی۔“ کرشنا، بہن کے رونے پر تڑپ اٹھا تھا اور چپکے سے جا کر اعجاز میاں کو گھر کے پچھواڑے بلا لا یا تھا۔ تم ماسٹر جی سے بات کر لو… میں یہاں کھڑا ہوں۔ “ اس نے چندر مکھی کے کان میں سرگوشی کی۔ کوئی آیا تو تمہیں آواز دے دوں گا۔“چندر مکھی نے ننھے سے بھائی کو ممنون نظروں سے دیکھا اور تیزی سے اس سمت بڑھ گئی جہاں اعجاز چچا اس کا انتظار کر رہے تھے۔ انہیں سامنے پاکر وہ پھوٹ پھوٹ کر رودی۔ کچھ کرو جازی … کچھ کر دور نہ ہمارے ہاتھ سے سے نکل جائے گا۔“ اعجاز چچا کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کریں تو کیا کریں۔ چندر مکھی سب کچھ چھوڑ چھاڑان کے ساتھ فرار ہونے کو تیار تھی، مگر وہ اسے اس طرح بھگا لے جانے کے لئے تیار نہ تھے۔ وہ اپنے والد کی فطرت سے واقف تھے۔ جانتے تھے وہ ان کے اس جرم کو کبھی معاف نہیں کریں گے اور اس ایک گھر کے سوا اور کوئی ٹھکانہ بھی نا تھا جہاں وہ چندر مکھی کولے جا سکتے۔ کیوں نا ہم مدراس نندنی کے گھر چلے جائیں ؟ چندر مکھی پر جوش لہجے میں بولی۔ پاگل ہوتی ہو ! اعجاز میاں سٹپٹا کر بولے ۔ وہاں جانے سے تو بہتر ہے کہ میں تمہیں اپنے گھر باجی کے پاس لے جائوں۔“دونوں کتنی ہی دیر سوچتے اور غور کرتے رہے ۔ کل اس کی بارات آنے والی تھی۔ ان کے پاس صرف آج کی رات تھی۔ آدھی رات کے بعد ملنے کا وعدہ کر کے وہ رخصت ہوئے۔ چندر مکھی کے دل کی عجب حالت تھی۔ وہ آدھی رات کو دبے پائوں جب باہر کی طرف بڑھی تھی تو کرشنا نے اس کا راستہ روک لیا۔ جا رہی ہو دیدی ! ہمیشہ کے لئے ؟ہاں میرے بھائی ! “ اس نے بے ساختہ اسے گلے سے لگا لیا۔ ”کسی کو بتا نامت !“ جان بھی لے لیں گے تو نہیں بتائوں گا ۔ اس نے پر عزم لہجے میں یقین دلایا تھا۔
اعجاز چچا چندر مکھی کو لے کر دہلی سے الہ آباد کی طرف روانہ ہو گئے۔ الہ آباد کی ٹرین میں بیٹھنے سے قبل وہ چندر مکھی کو دہلی کی جامع مسجد لے گئے۔ وہاں چندر لکھی نے بہ رضا ورغبت اسلام قبول کیا۔ امام صاحب نے ان دونوں کا نکاح پڑھایا ۔ اب چندر مکھی ، مہ پارہ تھی اور اعجاز میاں کے عقد میں تھی۔اگلی رات وہ چھپتے چھپاتے ماہ پارہ کو لئے اپنے آبائی گائوں پہنچے ۔ گھر والے انہیں یوں اچانک اور ایک برقع پوش لڑکی کے ساتھ دیکھ کر حیران رہ گئے تھے اور جب حقیقت حال کا علم ہوا تھا تو پورے گھر میں کہرام مچ گیا تھا۔ کسی پیسے والے، بارسوخ ہندو کی بیٹی کو کسی مسلمان لڑکے کا یوں بھگا لانا، کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ اس بات پر زبردست بلوہ بھی ہو سکتا تھا ، کتنی جانوں کا زیاں ہو سکتا تھا۔ اس کے علاوہ یہ فعل غیر شریفانہ تھا۔ ۔ وہ اپنے نیک اور صالح بیٹے کے بارے میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ یہ قبیح حرکت بھی کر سکتا ہے۔ مگر یہ وقت ان کی اس حرکت پر سرزنش کرنے کا نہیں تھا، بلکہ فیصلہ سنانے کا تھا۔ سو وہ دھیمی مگر غصیلی آواز میں گویا ہوئے۔ میرے گھر میں بھی بیٹی ہے۔ میں یہ کیسے برداشت کر سکتا ہوں کہ تم کسی کی بیٹی یوں بھگا لاؤ اور میں تمہیں پناہ دے دوں ۔ “ دادا ابا نے شعلہ برساتی آنکھوں سے اعجاز چچا کی طرف دیکھا۔ فورالٹے پائوں جائو اور اس لڑکی کو اس کے گھر پہنچ کر آئو میں کسی بھی قیمت پر اسے پناہ دوں گا نہ تمہیں . میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تم اتنی گری ہوئی حرکت بھی کر سکتے ہو۔“ اعجاز چچا کا جھکا ہوا سر کچھ اور جھک گیا۔ دونوں بڑے بھائی پہلے ہی سر جھکائے باپ کے پیچھے کھڑے تھے۔ ان کی والدہ اور بہن دالان کے ستون سے لگی بے آواز رو رہی تھیں۔ ملفوف چہرہ نقاب میں چھپائے سر جھکائے مجرم کی طرح کھڑی تھیں۔ گھن گرج سن کر انہوں نے زیر نقاب اعجاز چچا کے بے کس و بے بس چہرے کی طرف دیکھا۔ پھر کچھ سوچ کر پر عزم انداز میں آگے بڑھیں اور انہوں نے اپنے چہرے سے نقاب الٹ دیا۔ یہاں سے وہاں تک اجالا پھیل گیا تھا۔ ہر آنکھ حیران ہو کر پرستائش انداز میں ان کے ماہ وش چہرے پر جم گئی تھی۔ وہ باوقار اور با اعتماد انداز میں چلتی دادا ابا کے مقابل جا کھڑی ہوئی تھیں۔ کل تک میرا نام چندر مکھی تھا اور میں وینامل کی بیٹی تھی ۔ “ ان کی چاندی کی گھنٹیوں جیسی مترنم آواز ساکت و خائف فضا میں گونجی۔ پر کل رات کے بعد کلمہ پڑھ لینے کے بعد سے میرا نام ماہ پارہ ہے اور سید اعجاز احمد کی منکوحہ ہوں … میں آپ سے آپ کی بہو کی حیثیت سے نہیں ایک مسلمان لڑکی ہونے کے ناتے پناہ مانگ رہی ہوں۔ اگر آپ نے ایک مسلمان لڑکی کو زبردستی ہندو گھرانے میں بھیجنے کی کوشش کی اور اسے اس کے پتی کے گھر میں پناہ نہ ملی تو میں کسی کنویں میں کود کر جان دے دوں گی، پر واپس نہیں جائوں گی۔“ پھر وہ دادا ابا کے قدموں میں گر کر زار و قطار رونے لگیں ۔ دادا اب گم صم سے بت کی طرح کھڑے تھے۔ ان کا سارا غصہ اور جلال جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تھا۔ انہوں نے جھک کر ماہ پارہ پیچی کو اٹھایا اور اپنی پدرانہ شفقت اور محبت کی پناہ میں لے لیا۔ دہلی میں تہلکہ مچا ہوا تھا۔ چندر مکھی کے چھوٹے بھائی نے چندرمکھی اور اعجاز میاں کے عشق کی کہانی سب کو کہہ سنائی تھی اور قیاس یہی تھا کہ وہ لوگ اسے تلاش کرتے ہوئے سب سے پہلے اعجاز چچا کے گائوں پہنچیں گے ، اس لئے اسی رات دادا ابا نے اسٹیشن جاکر گارڈ کے ہاتھوں بابوجی کے نام ایک چٹھی روانہ کر دی تھی، تاکہ بابوجی حالات سے واقف ہو جائیں اور صورتحال کے مطابق انتظامات کر لیں۔ اگلے دن کے ڈھلتے ہی اعجاز چچا اور ماہ پارہ بچی کو ہمارے گھر کے لئے روانہ کر دیا گیا۔ جیسا میں نے بتایا با بوجی ان دنوں سندھ کے ایک انتہائی دور افتادہ اسٹیشن پر تعینات تھے اور وہاں بہت کم لوگوں کو بابوجی کے شہر اور پتے کے بارے میں علم تھا۔ اس حوالے سے اعجاز چا اور ماہ پارہ بچی کے لئے یہ گھر ایک محفوظ ترین پناہ گاہ ثابت ہو سکتا تھا۔ سو دو دن اورایک رات کے سفر کے بعد وہ ہمارے گھر آپہنچے تھے اور ماہ پارہ چچی کو دیکھتے ہی میں ان کے عشق میں مبتلا ہو گیا تھا۔ میرا چھوٹا بھائی اسد اور بہن تہمینہ بھی ماہ پارہ چچی کو پسند کرتے تھے ، مگر میرا حال سب سے جدا تھا۔ میں تو ان کا دیوانہ تھا۔ رات ، دن پروانے کی طرح ان کے گرد منڈلاتا رہتا تھا۔ ان دنوں میں تیسری کلاس کا طالب علم تھا۔ اسکول میں میرا دل نہ لگتا، بس دل چاہتا ہر وقت ماہ پارہ بچی کے سامنے بیٹھ کر انہیں دیکھتا رہوں۔
میری اس دیوانگی کا جلد ہی سب کو پتا چل گیا۔ ”سرمد تو تمہارا دیوانہ ہے ۔ امی جان اکثر ہنس کر یہ بات ماہ پارہ چچی کو بتائی رہتی تھیں اور یہ بات سن کر وہ بے اختیار میرا ماتھا چوم لیتی تھیں۔ اسی دوران ایک بار ان کے منہ سے نکلا تھا۔ ”یہ تو مجھے میرے کرشنا جیسا لگتا ہے۔“ کرشنا ! کون ..؟ میں نے حیرت سے پوچھا۔ مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور اپنی حسین آنکھوں میں آئےآنسوئوں کو چھپانے میں لگ گئی تھیں۔گزرتے وقت کے ساتھ میری محبت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ میں اسکول سے آنے کے بعد تمام وقت سائے کی طرح ماہ پارہ چچی کے ساتھ لگارہتا اور رات کو کھانے کے بعد جب وہ اعجاز چچا کے ساتھ اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند کر لیتیں تو وہ وقت مجھ پر بہت اذیت ناک گزرتا۔ میرا بس چلتا تو میں ماہ پارہ چچی کو ان کے کمرے میں کی کبھی نہ جانے دیتا اور اس رات اعجاز چچا اور ماہ پارہ بچی کمرے میں جا چکے تھے اور ان کے کمرے کا دروازہ بند ہو چکا تھا، تب بابوجی داخلی دروازہ کھول کر گھر میں داخل ہوئے اور انہوں نے خوشی سے لبریز آواز میں امی جان کو آواز دی تھی۔ سرمد کی ماں !ذرا باہر آکر دیکھو تو کون آیا ہے۔“ اور امی جان دوپٹے سے ہاتھ پونچھتی باورچی خانے سے نکل کر دالان کی طرف لپکیں۔ سامنے بابوجی کے ساتھ ہماری نانی اور بلو خالہ موجود تھیں۔ ہائے اللہ ! اماں جان آئی ہیں۔ امی جان خوشی سے چیختی ہوئی آگے بڑھیں اور اپنی والدہ سے لپٹ گئیں۔ بلو! کیسی ہو چندا؟ ماں سے مل لینے کے بعد وہ اپنی چھوٹی چہیتی بہن بلقیس عرف بلو خالہ کی طرف متوجہ ہوئیں اور انہیں بھی پیار سے گلے لگا لیا۔ نہ کوئی خبر نہ کوئی خط پتر . یہ اچانک کیسے آنا ہو گیا ؟ امی جان کی خوشی دیدنی تھی۔ ان کی باچھیں کھلی جارہی تھیں۔ وہ اپنی ماں اور بہن کو لئے بیٹھک میں چلی آئیں۔ تمہارے بھائی کا تبادلہ لاہور ہو گیا ہے۔ “ نانی نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے ہمارے اکلوتے ماموں کے بارے میں اطلاع دی۔ سو ہم نے سوچا لاہور جانے سے قبل ایک چکر تمہاری طرف کا لگا لیں۔“ یہ تو آپ نے بہت اچھا کیا۔ “ امی خوش ہو کر بولیں۔ اے لو! اس کمرے کا دروازہ اندر سے بند ہے۔ کوئی آیا ہوا ہے کیا؟ چند لمحوں بعد اعجاز چچا کے کمرے کے بند دروازے کی طرف دیکھ کر نانی نے پر تجسس لہجے میں سوال کیا۔ ہاں ! اعجاز میاں آئے ہوئے ہیں۔“ بابوجی اپنے کمرے میں جانے کے لئے کھڑے ہوئے تھے۔ جاتے جاتے بولے۔ کچھ دن یہیں ٹھہریں گے ۔“ نانی کے چہرے پر رونق بکھر گئی۔ اعجاز میاں آئے ہوئے ہیں۔ یونیورسٹی کی چھٹیاں ہیں کیا ؟ انہوں نے اشتیاق بھرے لہجے میں سوال کیا۔ اب یونیورسٹی کہاں …؟ بابوجی کمرے سے جاچکے تھے ، اس لئے امی جان نے دھیمی آواز اور راز دارانہ انداز میں جواب دیا۔ وہ تو یونیورسٹی چھوڑ چھاڑ کر آگئے ہیں۔“ ہیں؟ نانی حیران ہوئیں۔ کیا مطلب؟ بتاتی ہوں۔ پھر امی جان نے گول مول انداز میں کہا۔ بس وہ کچھ شادی وادی کا چکر تھا۔“ اچھا ! نانی کی دلچسپی میں اضافہ ہوا۔ اسی چکر میں تو ہم بھی آئے ہیں۔ “ نانی نے راز دارانہ انداز میں سرگوشی کی۔ دو میں نے تمہیں بلو کے لئے اپنی ساس سے بات کرنے کے لئے کہا تھا، تم نے بات کی ؟“ آپ تو بات کرنے کا کہہ رہی تھیں۔ امی جان کسمسا کر بولیں۔ ”وہ تو شادی بھی کر لائے ہیں۔ کمرے میں اپنی دلہن کے ساتھ موجود ہیں۔
نانی کی آنکھیں پھیل گئی ؟ ہمیں دو پیسے کا خط تک نہ ڈالا ۔ سمدھیانے والے ایسے گئے گزرے ہو گئے۔ امی جان نے سارا قصہ نانی کے گوش گزار کر دیا کہ کوئی شادی جیسی شادی تھوڑی ہوئی ہم تو اپنی بلو کے لئے سوچتے ہی رہ گئے ۔ “‘نانی نے کف افسوس ملتے ہوئے کہا۔ ” اور وہ دلہن بھی لے آئے ۔ خود میری بھی یہی آرزو تھی۔ امی جان نے نانی کو خوش کرنے کی خاطر معصوم صورت بنا کر کہا کہ میری بہن میرے دیور کی دلہن بنتی مگر تقدیر کو منظور نہ تھا -اگلی صبح جب ماہ پارہ چچی کمرے سے نکلیں ارے چندر مکھی تم ؟ بلو خالہ نے حیرت سے انہیں دیکھا۔ ماہ پارہ کی کزن ادھر دہلی میں بلقیس خالہ کی کلاس فیلو تھیں۔ نانی اعجاز چچا کی طرف متوجہ ہوئیں ۔ ”ادھر دلی میں ہفتوں تہلکہ مچارہا۔ کوئی مسلمان لڑکیوں کا کال پڑا تھا اس کا بھائی کرشنا مفت میں جان سے گیا۔ ادھر اس چندر لکھی کا کچھ لگتا شام مراری ننگی تلوار لئے پھر رہا ہے۔ واہ خوب ! شریف گھرانے کی ناک اونچی کی ہے تم نے ! خود اعجاز چچا پریشا ن ہو گئے – ماں بی … ! امی جان نے کن اکھیوں سے ماہ پارہ چچی کی طرف دیکھا۔ نانی کی زبانی کرشنا کی موت کی خبر سن کر ان کا چہرہ سپید پڑ گیا تھا۔ کرشنا کی موت کی خبر نے ماہ پارہ چچی کو ایک چپ لگا دی تھی۔ ادھر نانی بھی دکھی تھی کہ اعجاز احمد جیسا شاندار لڑکا ان کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ بلی دودھ پیئے نہ پیئے لڑھکا ضر ور دے کے مصداق وہ رات ، دن اسی کوشش میں لگ گئی تھیں کہ کسی طرح اعجاز چچا اور ماہ پارہ چچی کی اس شادی کو ناکام بنایا جائے۔ اور لعن طعن کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتیں۔ انہیں اس بات کا بے حد صدمہ تھا کہ اعجازہاتھ سے نکل گیا اب بلو کو اچھا لڑکا کیسے ملے گا – میری امی جان ایک اچھی فطرت کی خاتون تھیں، مگر اپنی ماں کے سکھائے میں آکر جلد ہی وہ بھی ایک روایتی قسم کی جٹھانی بن گئی تھیں اور جب موقع ملتا، بابوجی کے کان بھر تیں اور بابوجی ، اعجاز چچا پر بگڑتے ۔ ” اچھی بھلی تعلیم چھوڑ کر کیا روگ پال لیا ہے کہ چوروں کی طرح چھپے بیٹھے ہو۔ اس طرح بیٹھے بیٹھے کب تک گزارہ ہو گا ؟بابوجی کی یہ بات کہنے سے پہلے ہی اعجاز چچا کو اس بات کا احساس تھا کہ یوں بیٹھے بیٹھے زیادہ عرصے تک معاملہ نہیں چل گا۔ ویسے بھی اس واقعے کو اب کئی مہینے گزر چکے تھے ، سو اعجاز چا کچھ کام کاج کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ بھلا ادھوری تعلیم کےساتھ اب کلر کی کے علاوہ اور کیا کر سکتے ہو۔“ بابوجی افسوس سے سر ہلاتے۔ گریجویشن کر لیتے تو کہیں افسری ملتی، نانی امی جان اور بابوجی کی کہی گئی ہر بات کا غصہ اعجاز چچا، ماہ پارہ چچی پر اتارتے تھے اور وہ اپنی بڑی بڑی مخمور آنکھوں میں آنسو لئے خاموشی سے چچا کی طرف تکے جاتیں۔میری مت ماری گئی تھی جو میں تمہارے چکر میں پڑ گیا۔ اب وہ یہ بات اکثر کہنے لگے تھے۔ تعلیم مکمل کر کے ڈھنگ سے نوکری کرتا-
مقابلے کا امتحان پاس کر کے کہیں کلکٹر کمشنر لگتا۔ باپ، دادا کا نام روشن کرتا، دھوم دھام سے شادی ہوتی۔ مجھے پتا نہیں جانے کیسا عشق کا بخار چڑھ گیا تھا۔ تمہیں پچھتاتے دیکھ کر مجھے اپنی محبت پر افسوس ہوتا ہے ۔ “ ایک بار ماہ پارہ چچی نے بھیگی پلکوں سے اعجاز چچا کو دیکھتے ہوئے کہا۔ میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر تمہارے پیچھے چلی آئی۔ گھر بار، دین دھرم ، اتا پتا اور اپنا کرشنا اس غریب نے تو میری خاطر اپنی جان کا بلیدان دے دیا۔ میں اسے بچا بھی نہ سکی۔ “ماہ پارہ چچی نے آنسو بھری آنکھوں سے کہا۔ ” تم بھی تو پچھتار ہی ہو ۔ “ اعجاز چچانے اجنبی نظروں سے ان کی طرف دیکھا۔ تم ساتھ ہو تو تو کسی بات کا پچھتاوا نہیں ۔ “ انہوں نے آنسو پونچھ کر جواب دیا۔ مگر گزرتے وقت کا ہر لمحہ اعجاز چچا کی محبت کو فاصلوں میں تقسیم کرتا جار ہا تھا۔ نانی نے جانے کیا جادو کیا تھا کہ اعجاز چچا ماہ پارہ بچی کے چاند چہرے کو نظر انداز کر کے بلو خالہ کے تانے بانے میں الجھتے جارہے تھے۔ بلو خالہ فطرتاً بہت اچھی تھیں۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ اعجاز چچا، ماہ پارہ بچی کو نظر انداز کر کے ان کی جانب ملتفت ہوں ۔ شاید امی جان بھی یہ نہیں چاہتی تھیں مگر سب نانی کی چال بازیوں کے سامنے بے بس تھے اور ان تمام حالات کا حاصل یہ تھا کہ ماہ پارہ چچی کی عشق کی کشتی دن بدن طوفانوں میں گھرتی جارہی تھی۔ان کاچاند سا چہرہ رفتہ رفتہ ماند پڑنے لگا تھا ان کی ستارہ آنکھیں ہر دم آنسوئوں سے بھری رہتیں۔ مجھے کبھی نانی، کبھی اعجاز چچا اور اپنی پیاری امی جان پر غصہ آتا۔ مجھے ہر وہ شخص برا لگنے لگتا تھا جس کی وجہ سے ماہ پارہ چچی کا دل دکھتا۔ ان کی پلکوں سے ٹوٹ کر گرنے والا ہر موتی بھاری پتھر بن کر میرے دل پر گرتا اور میرے دل کا بوجھ بڑھتا ہی جاتا۔ نانی دو مہینے تک ہمارے گھر میں رہیں اور ان دو مہینوں میں اعجاز چچا اور ماہ پارہ بچی کے در میان ایسا فاصلہ پیدا کر گئیں جو دو صدیوں تک بھی نہیں پاٹا جا سکتا تھا۔ محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندراترچکا تھا۔ اب طوفان سے قبل والا سکوت طاری تھا۔ اعجاز چچا کے پچھتاوے کے نتیجے میں ماہ پارہ چچی سے بے التفاتی ، لا تعلقی اور بے رخی میں اضافہ ہوتا جارہا تھا، گرماہ پار چچی اب شاید اس ستم کی عادی ہوتی جارہی تھیں۔ ان کے وجود پر ایک عجیب سی بے حسی طاری ہو گئی تھی۔ جیسے پتھر ہو کر رہ گئی تھیں۔ ایک دن اعجاز چچا نے اعلان کیا کہ وہ اب زیادہ عرصے تک اس دور افتادہ علاقے میں چھپ کر نہیں رہ سکتے ۔ وہ واپس اپنے گھر، اپنے شہر اپنے والدین کے پاس جانا چاہتے ہیں اور اس کے لئے انہیں ماہ پارہ سے علیحد گی بھی اختیار کرنی پڑے تو وہ اس کے لئے بھی تیار تھے۔ تم تو کہتے تھے میرے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے ؟“ ماہ پارہ چی نے ان کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے سوال کیا۔ ”مجھ سے علیحدگی اختیار کر کے کیا اکیلے جی لوگے ؟“ میں نے کب کہا کہ تمہیں چھوڑ کر میں اکیلا رہوں گا۔ وہ کٹھور لہجے میں بولے۔ میں گھر جاتے ہی اماں سے کہوں گا میری شادی کر دیں .. کوئی اور نہیں تو بلقیس تو موجود ہے۔“ تم بلقیس سے دوسری شادی کروگے؟“ ماہ پارہ چچی کے لہجے میں ایک عجب کرب تھا۔ اور مجھے اور میری محبت کو بھول جائو گے ؟“ اس میں حرج ہی کیا ہے ۔ “ اعجاز چچا کے جواب پر وہ خاموش ہو گئی تھیں۔ کسی گہری سوچ میں ڈوب گئی تھیں۔ یہ نشہ اتنی جلدی اتر جائے گا، انہیں اندازہ نہ تھا۔ ابھی دن ہی کتنے گزرے تھے۔ سال بھی پورا گزر نے نہیں پایا تھا کہ علیحدگی، طلاق اور دوسری شادی کی باتیں شروع ہو گئی تھیں۔ اس شام قصبے کے ہندو مکھیا رائے چند کی بیٹی کا بیاہ تھا۔ بابوجی ، امی جان اور دونوں چھوٹے بھائی اور بہن کو لے کر شادی گھر پر ہی تھیں۔ ماہ پارہ چچی کی وجہ سے میں بھی نہیں گیا تھا- میں حسب عادت اعجاز چچا اور ماہ پارہ چچی کے آگے پیچھے گھوم رہا تھا۔ تب ہی دروازے پر دستک ہوئی تھی۔ اعجاز چانے دروازہ کھولا تو دروازے پر ایندھن کے اسٹور پر کام کرنے والا ملازم بوریاں لئے موجود تھا۔ اس زمانے میں ریل کے انجن کوئلے سے چلتے تھے۔ وہی کوئلہ گھروں کی انگیھٹیوں میں بھی جلتا تھا۔ اعجاز چچا نے ایک جانب ہو کر کوئلے کی بوریاں اندر لانے کے لئے راستہ دیا اور وہ بوری اندر چلا آیا تھا۔ باورچی خانے کے سامنے راہداری میں ایک گہری ہودی سی بنی تھی۔ کو ئلہ اسی میں بھر دیا جاتا تھا ۔ ملازم نے کوئلے کی دونوں بوریاں اوپر تلے رکھ دی تھیں۔ وہ واپسی کے لئے مڑا ہی تھا کہ ایک لمباترنگا شخص منہ پر ڈھاٹا باندھے تلوار لہراتا ہوا اندر داخل ہوا۔ چچا اعجاز دروازہ بند کرنے کے لئے ملازم کے پیچھے جارہے تھے کہ آنے والے شخص کو دیکھ کر وہ لمحہ بھر کو ٹھٹکے اور اگلے ہی لمحے وہ تیزی سے اندر کی طرف بھاگے۔
ماہ پارہ چچی ہودی کے قریب کھڑی تھیں، چچا نے انہیں اندر دھکا دیا تھا۔ میں نے کچھ کہنا چاہا مگر انہوں نے اپنا نرم ہاتھ میرے منہ پر رکھ کر مجھے کچھ کہنے سے روک دیا۔ خوف سے مجھ پر غشی سی طاری ہو گئی ۔ میں بے ہوش ہو گیا تھا۔ آنکھ کھلی تو ہو دی میں ، میں نے خود کو تنہا پایا۔ میں گھبرا کر کھڑا ہو گیا پھر بوریوں کو پکڑ کر بڑی مشکل سے باہر نکلا۔ میں نے دیکھا بوڑھا ملازم دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ اس کی بے نور آنکھیں اس بات کی غماز تھیں کہ وہ مرچکا تھا – برآمدے کی سیڑھیوں کے سامنے اجنبی تلوار اٹھائے کھڑا تھا ۔ برآمدے کی سیڑھیوںاور چچا کے درمیان ماہ پارہ چچی ڈھال بنی کھڑی تھی۔ میں کہتا ہوں چندر مکھی ! سامنے سے ہٹ جا۔“ شام مراری ! تو مجھے مار کر ہی ان تک پہنچے گا۔ “ ماہ پارہ چچی نے مضبوط لہجے میں جواب دیا۔ تب ہی میں چیختا ہوا ان سے جالپٹا۔ ٹھیک ہے تو پھر میں اس بچے کو مار دوں گا۔ “ شام مراری نے بالکل اچانک ہی میرا بازو تھام کر مجھے اپنی جانب کھینچ لیا۔ ”اب دیکھ اسے کون بچاتا ہے ؟“ نہیں شام مراری …! ماہ پارہ چچی ایک دم چیخ اٹھیں ۔ ”اسے کچھ نہ کہنا۔“ شام مراری کی آنکھوں میں طنزیہ مسکراہٹ لرزی۔ تو ٹھیک ہے … ماہ پارہ چچی نے پلٹ کر اعجاز چچا کی طرف دیکھا۔ ان کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور آنکھوں میں ایک التجا تھی۔ اعجاز چچا، ماہ پار چچی کو بہت عزیز تھے۔ ان کی خاطر انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا بلکہ اپنا بے حد پیارا، اکلوتا بھائی کرشنا بھی شمار کر دیا تھا۔ اعجاز چچا کی تمام ترکج ادائیوں اور دل آزاریوں کے باوجود وہ آج بھی انہیں بے حد پیارے تھے۔ وہ ان کے محبوب اور دوسری جانب میں تھا۔ ایک دس سالہ معصوم بچہ ! جس کی ہر سانس میں ان کی مہک رچی تھی ۔ ہر دھڑکن میں ان کا نام موجود تھا۔ عمر کی اس منزل پر اس طرح کی محبت کو کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ وہ محبت ! بس محبت تھی ۔ عشق تھا یا دیوانہ پن . جو بھی تھا مگر یہ سچ تھا میں انہیں بے پناہ چاہتا تھا اور آج مجھے پتا چلا کہ وہ بھی مجھے چاہتی تھیں۔ اگر ایسا نہ پر ہوتا تو وہ میری خاطر اعجاز چچا کے سامنے سے ہٹ نہ جاتیں۔ ماہ پارہ . اعجاز چچانے بے یقین لہجے میں گھٹی گھٹی آواز میں انہیں پکارا تھا۔ ایک بار میں تم پر اپنے کرشنا کو قربان کر چکی ہوں جازی …! ماہ پارہ چچی نے زیر لب انہیں مخاطب کیا۔ شاید وہ غلطی تھی مگر آج میں اپنی اس غلطی کو نہیں دہرائوں گی۔ میں اپنے کرشنا کو ایک بار پھر قربان نہیں کر سکتی۔“ وہ آگے بڑھیں اور شام مراری کے ہاتھ سے میرا ہاتھ چھڑا کر انہوں نے مجھے اپنے سینے میں چھپا لیا۔ انہوں نے اعجاز چچا کی خوفناک چیخ پر بھی پلٹ کر نہیں دیکھا تھا، بس مجھے سینے سے لگائے، آنکھیں بند کئے کھڑی تھیں۔ اعجاز چچا کے سینے میں پیوستہ تلوار نکال کر ماہ پارہ چچی کی طرف بڑھا۔ ”میں تجھے لینے آیا ہوں چندر مکھی !“ ماہ پارہ چچی نے دھیمے لہجے میں جواب دیا۔ میں مسلمان ہو چکی ہوں شام مراری ! میں اب تیرے کسی کام کی نہیں ہوں اور ایک مسلمان کے بچے کی ماں بننے والی ہوں۔ تو اپنا انتقام لے چکا ہے اور شاید میرا بھی … اب تو واپس لوٹ جا… اور تیرے سامنے جو یہ عورت کھڑی ہے ، اس کا نام ماہ پارہ ہے اور یہ اعجاز احمد کی بیوہ ہے…تیری چندر مکھی مر چکی ہے البتہ تیرا مجھ پر یہ بڑا احسان ہے کہ تو نے مجھے میرا کرشنا لوٹا دیا ہے ۔ “ اتنا کہہ کر ماہ پارہ چچی نے ایک بار پھر مجھے اپنی آغوش محبت میں سمیٹ لیا۔ شام مراری خالی خالی نظروں سے چند لمحوں تک انہیں دیکھتا رہا پھر اپنی تلواراٹھاۓ دروازے سے باہر نکل گیا۔