Sunday, April 20, 2025

Jaldbazi Ka Nateja

ایک روز میں پریشان بیٹھی تھی کہ میری دوست طوبی آگئی۔ کہنے لگی ۔ کیا ہوا پنکی ! تیرا منہ کیوں لٹکا ہوا ہے؟ میرا موبائل خراب ہو گیا ہے۔ وہ بولی ۔ بس اتنی سی بات ، اس میں ایسا سڑا ہوا منہ بنا کر بیٹھنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس میں اپنے نوٹس سیو کر رکھے ہیں ۔ اب پڑھائی کیسے کروں؟ نئے زمانے کی یہی تو مشکل ہے۔ جب موبائل فون نہیں آئے تھے سبھی طالب علم اپنے ہاتھ سے کاپیوں پر نوٹس لکھ کر محفوظ کر لیتے تھے ۔ اب اگر موبائل نہ چلے تو بس گئے کام سے، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہو۔ اب تم اس مسئلے کا حل بھی نکالو گی یا بھاشن دیتی رہو گی۔ مسئلہ کا حل یہی ہے کہ موبائل ٹھیک کرنے والے کی دکان پر جا کر دکھاتے ہیں کہ کیا مسئلہ ہے۔ ارے نہیں بھئی ، بھائی نے سختی سے منع کیا ہے کسی دکان والے کو نہیں دکھانا۔ وہ جب فارغ ہوں گے خود دیکھ لیں گے یا کسی اعتبار والے کو دکھا کر ٹھیک کرادیں گے۔ چلو تو پھر انتظار کر لو۔ کیسے کرلوں انتظار ! کل ٹیسٹ ہے۔ اچھا تو پھر میرے گھر چلو کوئی معمولی مسئلہ ہوگا۔ میرے بھائی کو یہ فون ٹھیک کرنا آتے ہیں۔

ہم ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے تھے، میں نے سوچا کے گھر کہ یہ ٹھیک رہے گا۔ پریشان بیٹھے رہنے سے بہتر ہے کہ اس کے بھائی کو دکھا دوں۔ شاید وہ میرا فون ٹھیک کر دیں۔ میں اس گھر چلی گئی، جو زیادہ دور نہیں تھا۔ اتفاق سے اس کا بھائی زاہد گھر پر موجود تھا۔ اس نے میرا فون دیکھا اور بولا ۔ اس میں کوئی خرابی نہیں ، بس یہ لاک ہو گیا ہے تبھی ایک منٹ میں اس نے صحیح کر دیا ۔ دراصل یہ موبائل میرے بھائی نے انہی دنوں دیا تھا۔ اس سے پہلے میرے پاس کوئی موبائل نہیں تھا، لہذا میں اس کو آپریٹ کرنے سے نا واقف تھی ۔ میں بہت خوش ہوئی کی کہ میرا مسئلہ طوبیٰ نے ایک سکینڈ میں حل کرا دیا تھا۔ میں اتنی دیر سے ٹینشن میں مبتلا رہی تھی۔ زاہد سے میری یہ پہلی ملاقات نہیں تھی ۔ جب میں ان کے گھر جاتی تو اکثر اس سے آمنا سامنا ہو رجاتا جاتا تھا۔ زاہد ہم سے بڑے ہونے کے ناتے اپنے بڑے پن میں رہتے اور میں بھی دور سے سلام کر کے آگے بڑھ جاتی ۔ پہلی بار فون کی وجہ سے ہمیں ایک دوسرے سے بات کرنے کا موقعہ ملا تھا۔ خیر، اس بات کو چند روز گزرے تھے کہ ایک دن طوبی ہمارے گھر آئی اور یونہی مذاق میں کہنے لگی کہ اگر تم میرے بھائی کو پسند کر لو اور میری بھابھی بن جاؤ تو پھر کوئی ہمیں جدا نہ کر سکے گا۔ میں طوبیٰ کا منہ تکنے لگی تو وہ بولی ۔ ایسے کیوں تک رہی ہو؟ کیا میں نے کوئی بری بات کہہ دی ہے؟ طوبی پلیز ! ایسا مذاق نہ کرو جو ہماری پیاری دوستی پر شعلہ بن کر لپک جائے۔ تم جانتی ہو، میری منگنی ہو چکی ہے اور اس منگنی میں میری اپنی پسند اور رضا کا بھی دخل ہے۔ یہ منگنی ٹوٹ بھی تو سکتی ہے؟ میرے بھیا تم کو اس قدر چاہنے لگے ہیں، تم کو یاد کر کے ٹھنڈی آہیں بھرنے لگتے ہیں۔ جب سے ان کو تمہاری منگنی کا بتایا ہے، وہ بہت افسردہ رہنے لگے ہیں۔ مجھ سے تو اپنے بھائی کی یہ حالت نہیں دیکھی جاتی۔ تم ایسی باتوں سے باز رہو۔ میں نے اس کو سمجھایا۔ تمہارا بھائی شادی شدہ ہے اور اپنی بیوی کو طلاق دے چکا ہے۔ بھلا اس کا میرا کیا جوڑ ؟ وہ جھٹ سے بولی ۔ طلاق دے چکا ہے تو کیا، ایسے تو کئی واقعات ہو جاتے ہیں۔ زاہد ا چھی شکل کا ہے، جوان ہے اور دولت مند بھی ، اس میں کوئی کمی نہیں۔ تمہیں اور کیا چاہیے؟ تبھی میں نے اس کو ڈانٹ دیا۔ تب وہ چپ ہو گئی۔ میں نے اسے یہ بھی دھمکی دی کہ اگر اس نے دوبارہ یہ بات منہ سے نکالی تو یقینا ہماری دوستی ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی تبھی وہ مجھ سے ناراض ہو گئی۔

کافی دن میں اس کے لئے اداس رہی۔ آخر وہ بچپن کی سہیلی تھی۔ ہمیں ایک دوسرے سے محبّت تھے مگر میں اس کو اپنے منگیتر پر ترجیح تو نہ دے سکتی تھی جبکہ منگنی بھی میری پسند کے لڑکے سے ہو چکی تھی۔ ایک ماہ گزر گیا۔ وہ بھی شاید میرے لئے اداس تھی۔ آخر وہ خود میرے گھر آگئی اور اپنی باتوں کے لئے معذرت کرنے لگی۔ میں نے اسے معاف کر دیا۔ ایک دن میں اس کے بلانے پر اس کے گھر چلی گئی ۔ تب اس کی امی نے باتوں باتوں میں پوچھا۔ تیری کس کے ساتھ منگنی ہوئی ہے پنکی، میری باجی کے دیور کے ساتھ۔ میں نے بتایا تو وہ بولیں۔ آج تمہاری ماں زندہ ہوتیں تو بات کرنا میرے لئے بھی آسان ہو جاتا۔ میں خاموش ہو رہی ۔ اس روز طوبی گھر پر نہ تھی۔ میں اس سے ملے بغیر ہی واپس آگئی ۔ دوسرے دن اس کی بھابھی نے ایک خط لا کر دیا۔ میں سمجھی طوبی کا ہوگا۔ چونکہ ملاقات نہ ہو سکی تھی ، اس لئے خط لکھ دیا ہو گا۔ خط دیکھا تو سکتے میں آگئی۔ یہ خط طوبی کا نہیں، اس کے بھائی زاہد کا تھا۔ لکھا تھا۔ برانه مانو تو ایک بات عرض کرنا چاہوں گا۔ میں بہت عرصے تک سے تمہیں پسند کرتا ہوں ۔ میں شریف اور عزت دار آدمی ہوں۔ اگر تم اقرار کر لو تو اپنی امی کو تمہارے گھر پیام کے لئے میں بھیج دوں؟ مجھے بہت غصہ آیا ۔ اسی وقت خط کو پھاڑ کر پھینک دیا اور سوچنے لگی کہ یہ لوگ کس قدر ڈھیٹ ہیں۔ میں اپنے منگیتر کے سوا کسی اور کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ میں نے ان کی بھانجی کے سامنے زاہد کو بہت برا بھلا کہا اور طولی سے قطع تعلق کر لیا۔ کئی دن گزر گئے، آخر ایک دن اس کی امی آگئیں ۔ باجی ان سے اخلاق سے ملیں ، عزت سے بٹھایا، چائے پلائی۔ باتوں باتوں میں بیٹے کی تعریفیں کرنے لگیں اور اشاروں کنایوں میں رشتہ مانگا۔ باجی نے صاف کہہ دیا کہ اس کی میرے دیور کے ساتھ منگنی ہو چکی ہے۔ اب کہیں اور رشتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس روز باجی ہمارے گھر ٹھہری ہوئی تھیں ۔ طوبی کی امی نے بہت ضد کی ، آخر کاران کو مایوس لوٹنا پڑا۔

چند دن گزرے ہوں گے کہ زاہد، شرجیل بھائی جان کی دکان پر آیا اور ان سے کہا کہ آپ سے ضروری بات کرنا ہے۔ وہ زاہد سے بخوبی واقف تھے، لہذا دکان بند کی اور اس کو قریبی کیفے لے گیا- چاے منگوای اور پوچھا۔ کافی دن میں اس کے لئے اداس رہی۔ آخر وہ بچپن کی سہیلی تھی۔ ہمیں ایک دوسرے سے محبّت تھے مگر میں اس کو اپنے منگیتر پر ترجیح تو نہ دے سکتی تھی جبکہ منگنی بھی میری پسند کے لڑکے سے ہو چکی تھی۔ ایک ماہ گزر گیا۔ وہ بھی شاید میرے لئے اداس تھی۔ آخر وہ خود میرے گھر آگئی اور اپنی باتوں کے لئے معذرت کرنے لگی۔ میں نے اسے معاف کر دیا۔ ایک دن میں اس کے بلانے پر اس کے گھر چلی گئی ۔ تب اس کی امی نے باتوں باتوں میں پوچھا۔ تیری کس کے ساتھ منگنی ہوئی ہے پنکی، میری باجی کے دیور کے ساتھ۔ میں نے بتایا تو وہ بولیں۔ آج تمہاری ماں زندہ ہوتیں تو بات کرنا میرے لئے بھی آسان ہو جاتا۔ میں خاموش ہو رہی ۔ اس روز طوبی گھر پر نہ تھی۔ میں اس سے ملے بغیر ہی واپس آگئی ۔ دوسرے دن اس کی بھابھی نے ایک خط لا کر دیا۔ میں سمجھی طوبی کا ہوگا۔ چونکہ ملاقات نہ ہو سکی تھی ، اس لئے خط لکھ دیا ہو گا۔ خط دیکھا تو سکتے میں آگئی۔ یہ خط طوبی کا نہیں، اس کے بھائی زاہد کا تھا۔ لکھا تھا۔ برانه مانو تو ایک بات عرض کرنا چاہوں گا۔ میں بہت عرصے تک سے تمہیں پسند کرتا ہوں ۔ میں شریف اور عزت دار آدمی ہوں۔ اگر تم اقرار کر لو تو اپنی امی کو تمہارے گھر پیام کے لئے میں بھیج دوں؟ مجھے بہت غصہ آیا ۔ اسی وقت خط کو پھاڑ کر پھینک دیا اور سوچنے لگی کہ یہ لوگ کس قدر ڈھیٹ ہیں۔ میں اپنے منگیتر کے سوا کسی اور کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ میں نے ان کی بھانجی کے سامنے زاہد کو بہت برا بھلا کہا اور طولی سے قطع تعلق کر لیا۔ کئی دن گزر گئے، آخر ایک دن اس کی امی آگئیں ۔ باجی ان سے اخلاق سے ملیں ، عزت سے بٹھایا، چائے پلائی۔ باتوں باتوں میں بیٹے کی تعریفیں کرنے لگیں اور اشاروں کنایوں میں رشتہ مانگا۔ باجی نے صاف کہہ دیا کہ اس کی میرے دیور کے ساتھ منگنی ہو چکی ہے۔ اب کہیں اور رشتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس روز باجی ہمارے گھر ٹھہری ہوئی تھیں ۔ طوبی کی امی نے بہت ضد کی ، آخر کاران کو مایوس لوٹنا پڑا۔ چند دن گزرے ہوں گے کہ زاہد، شرجیل بھائی جان کی دکان پر آیا اور ان سے کہا کہ آپ سے ضروری بات کرنا ہے۔ وہ زاہد سے بخوبی واقف تھے، لہذا دکان بند کی اور اس کو قریبی کیفے لے گیا- چاے منگوای اور پوچھا۔ آپ نے کیوں زحمت کی فرمائیے؟ میں سیدھے سادے طریقے سے مدعا بیان کر دیتا ہوں۔ میں آپ کی بہن سے رشتہ چاہتا ہوں۔ چونکہ آپ کی والدہ حیات نہیں ہیں اور آپ ہی گھر کے سربراہ ہیں تو میں نے آپ سے براہ راست بات کرنا مناسب سمجھا۔ برامت مانیے گا، جہاں لڑکیاں ہوں ، تو رشتے بھی آتے ہی ہیں۔ میری بہن کی منگنی ہو چکی ہے اور جلد شادی ہونے والی ہے، اس لئے رشتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آپ کی امی بھی یہی مدعا بیان کرنے آئی تھیں اور میری بہن ان کو بھی یہ بتا چکی ہیں۔ آپ نے خواہ مخواہ دوبارہ زحمت کی ۔ آپ کو ایسا نہی نہیں کرنا چاہیے۔ اب آئندہ ہمیں ہمیں پر پریشان نه کیجئے گا۔

بھیا کا روکھا اور سیخ جواب سن کر زاہد آپے سے باہر ہو گیا اور دھمکی آمیز لہجے میں کہا۔ دوبارہ تو آنا پڑے گا۔ آپ کو شاید سوچنے کے لئے وقت چاہیے، سوچ کر رکھیے گا۔ میں دو ہفتے بعد آؤں گا۔ میں آپ کی بہن کو پسند کرتا ہوں اور اس کا خیال دل سے نہیں نکال سکتا، ورنہ میری زندگی برباد ہو جائے گئی۔ زاہد کی ہٹ دھرمی پر بھائی کو بہت غصہ آیا۔ وہ خود پر قابونہ رکھ سکے اور آگے بڑھ کر اس کے منہ پر تھپڑ جڑ دیا۔ اس پر وہ بولا ۔ اب یا درکھنا! میں اس بے عزتی کا ضرور بدلہ لوں گا۔ بھائی نے گھر آ کر ساری بات ہمیں بتائی۔ باجی اور میں خوش ہو گئے کہ اچھا ہوا انہوں نے زاہد کو سزا دی۔ وہ تو پنجے جھاڑ کر ہمارے پیچھے پڑ گئے تھے۔ کچھ دنوں بعد میری شادی ہوگئی اور میں بیاہ کر اپنے سسرال چلی آئی یہ میرے شوہر مجھ کو بہت چاہتے تھے اور میں ان کو پا کر خوش تھی ۔ ہمارے دن سکون سے گزر رہے تھے۔ ابھی محض پانچ ماہ کا عرصہ ہوا تھا کہ ایک روز سجاد کی دکان پر ایک خط آیا، جس میں ان کو برے الفاظ . سے نوازا گیا تھا اور میرے نام سے لکھا تھا کہ میری محبوبہ کو چھوڑ دو ورنہ تم کو کہیں کا نہ چھوڑوں گا۔ یہ بھی لکھا تھا تمہاری بیوی شادی سے پہلے مجھے چاہتی تھی اور اب بھی ہم ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ سجاد کو مجھ پر بھروسہ تھا تبھی کسی بدخواہ کی شرارت سمجھ کر خط مجھے نہ دکھایا اور پھاڑ دیا۔ وہ مجھے پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے۔ کچھ دن گزرے تھے کہ ایک اور خط آگیا ، اس کے بعد تیسرا ۔ لکھا تھا کہ دو ہفتے کے اندر اندر میری محبوبہ کو طلاق دے دو ورنہ میں اسے اغوا کر کے لے جاؤں گا اور تم کو پچھتانا پڑے گا۔ میری محبوبہ نے مجبوری کے تحت تم سے نکاح کیا ہے کیونکہ اس کا بے غیرت بھائی اس پر بری نیت رکھتا تھا۔ اب میرے شوہر کے لئے یہ بات نا قابل برداشت ہوگئی ۔ وہ پریشان ہو گئے اور خط لے کر بھائی کے پاس چلے گئے۔ انہوں نے مجھ سے بھی پوچھا کہ کیا کبھی تمہار اسی سے تعلق یا واسطہ رہا؟ کیا تمہاری مجھ سے شادی کسی مجبوری کے تحت زبردستی کی گئی ہے جبکہ تم نے تو اپنی بڑی بہن سے میرے لئے پسندیدگی کا اظہار کیا تھا ۔ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ سب کیا ہے اور یہ شخص کون ہے، کیا چاہتا ہے؟ تمہیں کیسے جانتا ہے اور تم سے اس کا کیا واسطہ ہے ؟ انہوں نے یہ کہ کر مجھے خط دکھایا تھا بولے ایسے کئی سے خط آے اور میں نے پھر ڈالے کہ ان خرافات سے پریشان نہ ہو جو کیونکہ تم امید سے ہو۔ میں تم کو ایسی حالت میں ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اب تم ہی بتاؤ یہ ہے کون؟ . میں کیا بتاتی ، رونے لگی۔ کہا ۔ آپ مجھ پر یقین کریں۔ میں بے تصور ہوں یہ کسی کی سازش لگتی ہے۔ بولے۔ میں جانتا چاہتا ہوں یہ ہے کون جو تم کو جانتا ہے اور بیٹھے بٹھائے اس نے سازش سوچی ہے ۔ کچھ تو یاد کرو۔

میں جان گئی تھی کہ سوائے طوبی کے بھائی کے اور کوئی ؟ نہیں ہو سکتا ۔ میں نے ان کو بتایا۔ مجھے ہے لگتا ہے کہ یہ میری سہیلی طوبی کا بھائی ہو سکتا ہے، پھر میں نے ان کو تمام رام کہانی سنادی ۔ میں رورہی تھی۔ میں سچی تھی ، اس لئے میری باتوں میں اثر تھا۔ انہوں نے کہا۔ ٹھیک ہے، میں تم کو بے قصور مانتا ہوں مگر اس سلسلے کو بند ہونا چاہیے۔ میں اس پریشانی کو کب تک جھیلوں گا۔ ایک لمحے کو سوچوا گر کوئی لڑکی میری محبوبہ بن کر تم کو خط لکھتی تو تمہاری کیا حالت ہوگی ۔ خدا نہ کر ہے جو میں ایسی مصیبت میں گرفتار ہو جاؤں ۔ آپ میرے بھائی کو یہ خط دکھایئے ، وہی اس کا توڑ کریں گے۔ سجاد فورا ہی میرے میکے چلے گئے۔ بھائی اسی وقت دکان سے آئے تھے۔ ان کو یہ خط دکھایا۔ بس پھر کیا تھا، قیامت ہی آگئی۔ خط پڑھتے ہی میرے بھائی کا خون کھول اٹھا۔ وہ سجاد سے بولے۔ تم گھر جاؤ۔ میں اس مخط لکھنے والے شخص اور اپنی بہن کی بے گناہی سے آگاہ ہوں۔ پنکی بے قصور ہے اور یہ ہمارا خبیث محلے دار ہے۔ یہ ہمیں اس وجہ سے بلیک میل کر رہا ہے کہ میں نے اسے رشتہ نہیں دیا۔ یہ ایک شادی شدہ آدمی ہے اور بیوی کو طلاق دے چکا ہے۔ بھائی کے تیور دیکھ کر سجاد ڈر گئے۔ اندازہ کر لیا کہ وہ کوئی ہلکا قدم اٹھانے والے نہیں، بلکہ کچھ برا کرنے والے ہیں۔ تاہم وہ میرے تحفظ کے خیال سے گھر آگئے کہ میں گھر میں اکیلی تھی۔ ایک گھنٹہ گزرا تھا سجاد کو گھر آئے کہ بھابھی نے فون کیا۔ وہ رو پیٹ رہی تھیں کہ غضب ہو گیا۔ خدا جانے، سجاد کیسا خط بھائی کو پکڑا گیا ہے کہ انہوں نے ریوالور نکالا اور جا کر زاہد کا خون کر دیا، جو چوک پر کھڑا ہوا تھا۔ وہ وہیں گر کر ڈھیر ہو گیا۔ پولیس بھائی کو پکڑ کر لے گئی ہے۔ یہ سن کر میں نے اور سجاد نے دل تھام لیا، بولے۔ کاش میں خود اس آدمی سے بات کر لیتا اور بھائی شرجیل کو خط نہ دیتا۔ معلوم نہ تھا کہ وہ اسے مل کر کے اپنے لئے پھانسی کا سامان کر لیں گے۔ کچھ سانحات ایسے ہوتے ہیں جن پر کسی کا بس نہیں ہوتا اور کچھ ڈھیٹ لوگ ایسے ہوتے ہیں باوجود غلط ہونے کے اپنی ہٹ دھرمی پر اڑ بے رہتے ہیں، چاہے اپنی جان جائے یا کسی اور کی، ان کو پروا نہیں ہوتی۔ اے کاش! میں سہیلی کی باتوں میں آکر اپنا موبائل فون ٹھیک کرانے کو اس کے بھائی کے پاس نہ جاتی۔ اپنے بھائی کے آجانے کا انتظار کر لیتی۔ جلد بازی بعض اوقات بڑے المیے سے دو چار کر دیتی ہے۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ آج میں تو اپنے گھر میں خوش اور آباد ہوں لیکن میری بھابھی کا گھر اجڑ گیا ہے، ان کے چار بچے یتیم ہو گئے ہیں کہ عینی گواہوں کی شہادت کے سبب بھائی جان کو پھانسی ہو گئی ہے۔

Latest Posts

Related POSTS