یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم دو بہنیں اور دو بھائی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے بعد اپنے اپنے گھروں کے ہوچکے تھے لیکن سب سے چھوٹا بھائی کاشف والد صاحب کی اچانک وفات کی وجہ سے اپنی تعلیم مکمل نہ کرسکا۔ دوران تعلیم ہی گھر کا بوجھ اس کے کاندھوں پر آن پڑا۔ گھر کا انتظام، دکانوں کا کرایہ اور جائداد کے معاملات بھی اس کی ذمہ داری بن گئے۔ یوں وہ بی ایس سی کے آخری سال میں ہی اٹک کر رہ گیا۔
امی پر اس کی شادی آخری ذمہ داری تھی جس کو اب انہیں والد صاحب کے بغیر ہی نمٹانا تھا۔ امی نے خاندان میں اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں لیکن کوئی بھی ایسی لڑکی نظر نہ آئی جسے وہ بہو بنا کر گھر لے آتیں۔ خاندان چھوٹا سا تھا اور ہمارا حلقہ احباب بھی مختصر تھا۔
ایک محفل میں امی کی ملاقات ایک عورت سے ہوئی جو دیکھنے میں شریف نظر آتی تھی۔ باتوں باتوں میں امی نے اس سے ذکر کیا کہ آج کل اپنے چھوٹے بیٹے کے لیے بہو کی تلاش میں ہوں۔ عورت نے فوراً ہی اپنی بھانجی کا رشتہ بتلایا اور امی دوسرے روز اس کے ساتھ اس کی بھانجی کو دیکھنے چلی گئیں حالانکہ بالکل ناواقف اور غیرلوگ تھے۔ بظاہر لڑکی اچھی نظر آئی تھی سو، امی نے اُسے ایک ہی نظر میں پسند کرلیا۔ مگر ہم نہیں جانتے تھے کہ وہ دل کی روگی ہے یعنی اپنی بہن کے دیور سے محبت کرتی ہے۔ نجانے کیوں سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی والدین اس کی شادی وہاں نہیں کرنا چاہتے تھے۔ شاید دونوں خاندانوں کے بیچ انا کا مسئلہ آڑے آگیا تھا۔ کیونکہ لڑکے والے ایک ہی گھر کی دو لڑکیوں کو بہو بنانے کے دل سے خواہاں نہ تھے۔ اِدھر لڑکی والے اپنی ناک نیچی کرنا نہ چاہتے تھے، اُنہیں لڑکے والوں کی بے نیازی کَھل گئی تھی۔ تبھی یہ معاملہ آگے نہ بڑھ پایا۔
اس لڑکی کا نام عالیہ تھا۔ امی دوچار بار ان کے گھر گئیں اور پھر جلد ہی عالیہ ہماری بھابی بن کر ہمارے گھر آگئی۔
میں نے جب پہلے روز بھابی کو دیکھا تو وہ مجھے خوش نظر نہیں آئی۔ ایک روز کی دلہن کے چہرے پر اداسی اور افسردگی کے گہرے بادل دیکھ کر دل دہل کر رہ گیا۔ اوروں نے اسے میکے سے جدائی کے دکھ پر محمول کیا مگر میں نے جان لیا تھا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ میں نے دل میں دعا کی کہ خدا کرے میرے بھیا کو یہ شادی راس آجائے۔
شادی کے پندرہ روز بعد ہی کاشف بھیا نے بھابی کا آنسوئوں سے بھیگا ہوا خط پکڑ لیا جو انہوں نے اپنی بوڑھی نوکرانی کے پلو میں باندھ دیا تھا کہ بہن کے گھر جاکر اس کے دیور کو دے دینا۔ بڑھیا جب چلنے لگی تو اس کا دوپٹہ دروازے کے کنڈے میں اٹک گیا۔ بھیا نے جو پلو چھڑایا تو خط ان کی مٹھی میں آگیا۔ نجانے کیا سوچ کر خط کھول کر پڑھ لیا۔ تب وہ پریشان ہوکر گھر کے اندر آئے اور بھابی کو علیحدہ کمرے میں لے جاکر بہت دیر تک ان سے باتیں کرتے رہے۔
جب وہ باہر نکلے تو بے حد غمزدہ تھے اور بھابی کی آنکھیں بھی سوجی ہوئی تھیں۔ رورو کر ان کی آنکھیں سرخ ہوگئی تھیں۔ اس روز بھابی کو بھائی نے کہا تھا کہ اگر وہ ان کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتیں تو بے شک طلاق مانگ کر آزادی حاصل کرسکتی ہیں مگر ان کے گھر میں رہ کر چوری چوری نقب لگانا اور دوسروں کو محبت نامے بھیجنا انہیں ذرا بھی پسند نہیں۔
پھر نہ جانے کیا ہوا کہ باوجود بھیا کے آزادی دینے کے بھابی گھر سے نہیں گئیں اور نہ ہی انہوں نے طلاق مانگی۔ شاید وہ اپنے والدین سے خوف زدہ تھیں یا پتا نہیں ان میں اتنا حوصلہ ہی نہ تھا کہ معاشرے کا مقابلہ کرسکتیں۔ وہ رودھو کر چپ ہوگئیں، البتہ کاشف بھائی سے انہوں نے وعدہ کرلیا کہ وہ آئندہ ایسی حرکت نہ کریں گی اور ان کی وفادار بن کر رہیں گی۔
کاشف بھائی نے بھابی پر صرف ایک پابندی لگا دی تھی کہ اب وہ کبھی اپنی بہن کے گھر نہیں جائیں گی مگر بھابی چوری چھپے جاتی تھیں۔ اس بات کا علم مجھے بھی تھا اور امی کو بھی! مگر ہم جھگڑے کے ڈر سے خاموش رہتے تھے۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ بھابی اور بھیا میں جھگڑا ہوجائے اور اچھا بھلا گھر جہنم کدہ بن کر رہ جائے۔
ان دنوں میرا گھر امی کے گھر سے ملا ہوا تھا، صرف ایک دیوار بیچ میں تھی اسی لئے مجھے پل پل کی خبر رہتی تھی۔ امی کو یہ بات معلوم نہ تھی کہ بھابی اپنی بہن کے دیور شکور سے محبت کرتی تھی اور اس سے شادی کرنا چاہتی تھی لیکن زبردستی ان کے ماں باپ نے کاشف بھیا سے شادی کردی۔
مجھے یہ بات بھابی کی زبانی معلوم ہوئی تھی۔ اس روز وہ بہت رو رہی تھیں، میں نے رونے کا سبب پوچھا، پیار سے گلے لگا کر تسلی دی تو پھٹ پڑیں اور مجھے اصل ماجرا بتا دیا۔ اس پر میں نے انہیں دلاسہ دیا تھا۔ اپنی جیسی ایک عورت سمجھ کر ان کا دکھ درد بانٹا تھا۔ انہیں بہت سمجھایا تھا کہ اب وہ شکور کو بھول جائیں کیونکہ اس کے سوا کوئی چارا نہیں۔
میں نے کہا تھا۔ بھابی! اب آپ تقدیر کے فیصلے کو دل سے قبول کرلیجئے کہ آپ کاشف بھیا کی بیوی بن چکی ہیں۔ ماضی کا رشتہ توڑ دیجئے، یہی آپ کی تقدیر میں رقم تھا اور تقدیر کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں۔ جو لوگ ان فیصلوں کو قبول نہیں کرتے، انہیں بعد میں بھی کبھی نہ کبھی بہت زیادہ تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔
مگر بھابی نے شاید تقدیر کے اس فیصلے کو دل سے قبول نہ کرنے کی ٹھان لی تھی، تبھی تو انہوں نے کبھی بھی ماضی سے رشتہ نہ توڑا اور وہ اپنے محبوب شکور سے بدستور چوری چھپے ملتی رہیں۔
ایک بچے کی ماں ہونے کے بعد تو وہ اور بھی نڈر ہوگئی تھیں۔ بھیا سے پہلے تو ڈرتی تھیں، اب نہیں ڈرتی تھیں۔ جب بھی وہ کام پر جاتے، یہ بہانے سے چلی جاتی تھیں۔ اگر وہ اچانک واپس آجاتے اور بھابی کو گھر میں نہ پاتے تو غصہ ہوتے، چیختے چلاّتے میرے گھر آجاتے، میں انہیں سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کرتی۔ بھابی کو بھی سمجھاتی تھی کہ اس طرح نہ کیا کرو، تو وہ یہی جواب دیتی تھیں۔ میں تمہارے بھائی کی غلام تو نہیں ہوں، میں کوئی قیدی تو نہیں ہوں، آخر انسان ہوں، مجھے بھی کام ہوسکتا ہے۔ کہیں آئوں گی، نہ جائوں گی تو مر نہیں جائوں گی؟
میں ان کی مجبوری سمجھتی تھی اور بھائی کا غصہ بھی بجا تھا مگر سوائے دونوں کو علیحدہ علیحدہ سمجھانے کے اور کر بھی کیا سکتی تھی۔
اب تو بھابی جب لڑتی تھیں، طلاق کا مطالبہ کردیتی تھیں کیونکہ امی فوت ہوچکی تھیں اور بھابی کے والد کا بھی انتقال ہوچکا تھا جن کا لحاظ اور ڈر تھا۔ اب بھابی کا مقصد یہی تھا کہ کسی دن زور کی لڑائی ہو اور کاشف بھیا خود ہی تنگ آکر انہیں طلاق دے دیں لیکن کاشف بھیا کو نہ جانے کیا ہوگیا تھا، بھابی سے محبت تھی یا بیٹے کا خیال تھا کہ وہ کسی صورت بھی اب عالیہ بھابی کو چھوڑنے پر تیار نہ تھے۔
انہی دنوں میرے شوہر نے شہر سے دور ایک جدید کالونی میں کوٹھی تعمیر کرائی تھی تو ہم پرانے مکان کو بیچ کر اپنے نئے گھر میں شفٹ ہوگئے۔ اس کے بعد مجھے بھابی اور بھائی کے حالات کی کچھ خبر نہ رہی کیونکہ اب میں بھیا کے گھر سے بہت دور آگئی تھی۔
کبھی کبھار جب گھر سے فرصت ملتی تو دوچار ماہ بعد جانا ہوتا تھا، وہ بھی ایک آدھ گھنٹہ کے لیے کیونکہ بھابی عالیہ اب ہم سے بہت زیادہ اکھڑی اکھڑی رہنے لگی تھیں۔ وہ ہمارے گھر آنے پر خوش نہ ہوتی تھیں۔
میں چپ چاپ سارا تماشا دیکھنے پر مجبور تھی۔ امی حیات نہ تھیں، پھر ان کے گھر میں میری کیا اہمیت ہوتی، میں کس طرح مداخلت کرسکتی تھی۔ میں نے تو کاشف بھیا کے گھر بھی جانا چھوڑ دیا تھا، باقی سب بہنیں، بھائی دوسرے شہروں میں رہتے تھے۔ ایک میں ہی نزدیک تھی لیکن اب میں بھی کاشف بھائی سے دور ہوچکی تھی۔ وہ خود میرے گھر بہت کم آتے تھے۔ جب آتے، پہلے سے زیادہ نڈھال اور پژمردہ نظر آتے۔ گھر کی کوئی خوشی حاصل نہ تھی۔ میں بھی چاہتی تھی کہ اگر بھابی ان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتیں تو زبردستی اپنے ساتھ رکھنے کے بجائے انہیں طلاق دے دیں تو اچھا ہے، مگر میں یہ بات ان سے کہہ نہیں سکتی تھی۔ وہ مجھ سے دو سال چھوٹے تھے مگر رعب ایسا تھا جیسے بڑے بھائیوں کا ہوتا ہے۔ میری ان کے سامنے زبان نہیں کھلتی تھی، بس ان کی حالت دیکھ کر دل ہی دل میں کڑھتی رہتی تھی۔ بھیا اب مسلسل بیمار رہنے لگے تھے، پھر یہاں تک معلوم ہوا کہ وہ ایک دن کئی گھنٹے اسپتال میں بے ہوش رہے ہیں۔
بھابی کا بیان تھا کہ پان کھانے سے بے ہوش ہوگئے تھے مگر ڈاکٹر کی رپورٹ یہ تھی کہ انہیں مسلسل تھوڑا تھوڑا زہر دیا جارہا ہے جس سے آہستہ آہستہ وہ موت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مگر بھابی نے بڑی ڈھٹائی سے یہ کہہ کر سب کو خاموش کردیا کہ ظاہر ہے پان میں تمباکو زہر ہی تو ہوتا ہے۔ ہم ناچار خاموش ہورہے کہ کر بھی کیا سکتے تھے!
اس واقعے کے بعد بھیا نے گھر کھانا پینا حتیٰ کہ پان کھانا بھی چھوڑ دیا۔ اب انہیں بھی ضد ہوگئی تھی کہ چاہے جان چلی جائے مگر وہ عالیہ کو طلاق نہیں دیں گے۔ ان کی زندگی عالیہ کے پیچھے برباد ہوچکی تھی۔ وہ کہتے تھے اب اس عورت کو حق نہیں پہنچتا کہ میری زندگی برباد کرکے اپنی مرضی کی زندگی بسر کرے اور مجھ سے طلاق لے کر رنگ رلیاں منائے، میں یہ کبھی برداشت نہیں کرسکتا۔
میرے میاں نے ایک بار ہمت کرکے ان کو سمجھایا بھی تھا مگر بھیا ان سے بھی الجھ پڑے کہ اس عورت نے تمہیں رشوت دی ہے جو تم بھی اسی کی وکالت کررہے ہو۔ اس کے بعد وہ پھرکبھی اس موضوع پر بھیا کاشف سے نہیں بولے۔
بھیا کے گھر ایک لڑکا راج نامی ملازم تھا۔ ان کے تمام گھریلو کام سرانجام دیتا تھا۔ یہ لڑکا بھابی کے محلے کا تھا، بعد میں بھائی نے اسے ملازم رکھا تو گھر لے آئے۔
راج نہایت ذمہ دار اور سمجھدار نوکر تھا، اسی وجہ سے ہم سب اس سے راضی تھے۔ وہ نہایت فرماں بردار اور ٹھنڈے دل و دماغ کا تھا۔ کوئی یہ سوچ بھی نہ سکا کہ اس کو ہماری بھابی نے اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔
یہ عیدالفطر کے قریبی دنوں کا ذکر ہے جبکہ چھٹیاں تھیں اور پڑوسی بھی اپنے گائوں جا چکے تھے۔ اس روز صبح ہی بھابی اور بھائی میں تلخ کلامی ہوئی تھی اور میرے بھائی ناراض ہوکر گھر سے نکلے تھے۔ وہ تمام دن اِدھر اُدھر بھٹکتے پھرے اور شب کی تاریکی میں آکر اپنے بستر پر گر پڑے۔ نجانے رات کو کون سے پہر کسی دشمن نے ان پر ریوالور سے گولی داغی اور ان کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر ڈالا۔
پولیس بھی آئی مگر ملزم گرفتار نہ ہوسکے کیونکہ اس حادثے کو ڈکیتی ظاہر کیا گیا تھا۔
آہ…! میرے پیارے بھائی کے خون کے دھبے کوئی بھی نہ دھو سکا۔ بیڈ روم میں فوم کے
گدے پر جگہ جگہ خون کے دھبے پڑے ہوئے تھے جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ انہوں نے زندگی کے لیے کس قدر جدوجہد کی تھی۔ جس رات یہ واقعہ ہوا، اس دن بھابی شام کو ہی اپنے میکے چلی گئی تھیں۔ وہ ملازم راج کو بھی ہمراہ لے گئی تھیں جس کا بیان تھا کہ جھگڑے کے بعد وہ اتنی افسردہ تھیں کہ تمام دن روتی رہی تھیں۔ انہوں نے کچھ کھایا پیا بھی نہ تھا، تبھی راج نے منت کی تھی کہ باجی رویئے نہیں، میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں اور آپ کو میکے چھوڑ آتا ہوں، وہاں آپ کا دل بہل جائے گا۔
راج جب بھابی کو ہمراہ لے کر ان کے میکے پہنچا تو بھابی نے اسے کہا کہ آج رات تم ادھر ہی ٹھہر جائو، صبح میں تمہارے ساتھ واپس گھر چلی جائوں گی۔
راج کا بیان تھا کہ باجی کے اصرار پر میں وہاں رک گیا کیونکہ اسی محلے میں میرے والدین کا گھر تھا لہٰذا ان کے پاس جاکر سو گیا، تبھی اسی رات بھائی جان کے ساتھ ایسا اندوہناک واقعہ گزرا کہ کوئی ان کی جان بیدردی سے لے کر چلا گیا۔
گھر میں کچھ توڑ پھوڑ ہوئی تھی اور سامان بھی بکھرا ہوا ملا۔ لگتا تھا کہ کسی نے تلاشی لی ہے مگر کچھ ہاتھ نہ آیا۔ خدا جانے یہ ڈکیتی تھی کہ میرے پیارے بھائی کو کسی دشمن نے اس بہانے ٹھکانے لگا دیا تھا۔ پولیس نے ہمیں فون کرکے اطلاع دی۔
ایک محلے دار نے صبح دیکھا کہ گیٹ پورا کھلا ہوا ہے، اس نے اندر جھانکا اور آوازیں لگائیں۔ جب ہر طرف خاموشی ملی تو اس نے فون پر پولیس کو اطلاع کردی۔
پولیس نے اس واقعے میں بیوی اور ملازم کو شامل تفتیش ضرور کیا مگر پھر عدم ثبوت پر رہا کردیا۔ بھائی کی تمام کمائی بھابی نے سمیٹ لی جو بعد میں ان کی نئی زندگی کو خوشیوں سے مزین کرنے کے کام آئی۔ انہوں نے عدت کے فوراً بعد اپنے من چاہے محبوب یعنی اپنی بہن کے دیور سے شادی کرلی۔
انہوں نے تو اپنی محبت پا لی مگر ہم بہنوں سے ان کا بھائی چھن گیا۔ اللہ جانے میرے پیارے بھائی کا قاتل کون تھا اور ان کو کس کے اشارے پر قتل کیا گیا مگر جب تک ہم بہنیں زندہ ہیں، اس قاتل کو بددعا دیتی رہیں گی۔
سچ جانیے کہ ہمارا بھائی تو ایسا تھا کہ اس نے کبھی کسی کا دل نہ دکھایا تھا، پھر ان کا ایسا کون دشمن ہوسکتا تھا جس نے ان کی جان لے لی۔
کیا یہ واقعی ان کے دشمن کی کارستانی تھی یا پھر ڈکیتی تھی جبکہ ڈاکا ڈالنے والے گھر کا ایک تنکا بھی نہ اٹھا لے گئے۔ یہ وہ سوال ہے جو آج تک ہم کو پریشان رکھتا ہے۔
(ن۔ س … ملتان)