اعظم خان کا باپ زمیندار تھا، اس لئے زمین اس کو ورثے میں ملی تھی ۔ اس نے محنت کر کے اپنی زمینوں کو بڑھایا، ساکھ اچھی تھی ، عزت میں بھی اضافہ ہوا۔ ہم اس گاؤں کے باسی تھے، لہذا ایک دوسرے کو اچھی طرح سے جانتے تھے۔
ہمارا آنا جانا چچا اعظم کے گھر تھا کیونکہ وہ میرے والد کے دیرینہ دوستوں میں سے تھے، لہذا ان کے ساتھ جب ایسا سانحہ ہوا تو جہاں تمام گاؤں والے دم بخودرہ گئے وہاں میرے والد بھی ان کے غم میں برابر کے شریک تھے۔
چاچا اعظم کے دو بچے تھے، بیٹے کا نام قاسم خان اور بیٹی کا بلند بخت تھا جو میری ہم عمر کی اور ہم نے پانچویں تک ساتھ اسکول میں تعلیم حاصل کی تھی۔
بخت کی والدہ بہت شفیق تھیں۔ مجھ سے پیار کرتی تھیں۔ کچھ دن نہ جاتی تو ملازمہ کو بھیج کربلواتیں۔ وہ ایک بڑے زمیندار کی بیٹی تھیں اور کافی جہیز لائی تھیں، لہذا سسرال میں انہوں نے بڑی عزت پائی اور دو خوشحال گھرانوں کے ایک ہو جانے سے اس خاندان کی امارت دوبالا ہوگئی ۔
قاسم خان اور بلند بخت نے گاؤں کے پرائمری اسکول میں تعلیم پائی۔ بلند بی بی نے پانچ جماعت پڑھ کر اسکول چھوڑ دیا جبکہ قاسم خان نے دسویں جماعت پاس کی تھی۔
یہاں یہ رواج تھا کہ لڑکی کی شادی جلد کر دی جاتی تھی جبکہ لڑ کے چاہتے تو کمانے کی غرض سے دوسرے صوبوں کو کوچ کر جاتے تھے ۔ اس طرح لڑکوں کی شادی میں تاخیر کو معیوب خیال نہیں کیا جاتا تھا۔
چاچا اعظم کوبھی بلند بخت کی کم سنی میں ہی اس کی شادی کی فکر ستانے لگی۔ وہ اکثر میرے والد سے اس بات کا تذکرہ کرتے رہتے تھے۔ ان کے خاندان میں کوئی موزوں رشتہ نہ تھا، کافی سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ بیٹی کو دور کے عزیزوں میں بیاہ دیا جاۓ ۔
ان کے یہ عزیز گاؤں سے سات کلومیٹر کے فاصلے پر رہتے تھے۔ ان سے پہلے صلح تھی مگر اب کچھ عرصے سے ناراضگی چلی آرہی تھی۔
چاچا اعظم نے اپنے قبیلے کے ایک شخص سے ارادہ ظاہر کیا تو نعمت اللہ خان تک بات پہنچ گئی ، ان کی طرف کے کچھ بزرگوں نے خیر سگالی کا پیغام بھیج دیا۔ چند شرائط طے ہوئیں اور پھر جرگے کی کوششوں سے بلند بی بی کا رشتہ نعمت خان کے بیٹے شرافت سے ہو گیا- یوں دیر ینہ ناراضگی ختم کر دی گئی جوکسی بھی وقت دشمنی میں بدل سکتی تھی۔
کچھ عرصہ شادی کی تیاریوں میں لگا ، پھر وہ دن آ گیا جس دن چچا اعظم کی بیٹی کی شادی تھی ، وہ خود ہمارے گھر آئے اور دعوت نامہ دے گئے ۔ ہم بھی بہت خوش تھے کہ بلند بی بی کو دلہن کے روپ میں دیکھیں گے۔
وہ میری ہم عمرتھی ،بچپن کی سہیلی تھی مجھ کو اس کی شادی کی خوشی کیوں نہ ہوتی ۔ جب میں ان کے گھر پہنچی ، بہت گہما کہی تھی ۔ بلند بات بات پر مسکراتی تھی اس کا چاند سا مکھڑا خوشی سے دمک رہا تھا۔ تب ہی میرے دل نے دعا کی ۔ خدا کرے بلند تم کو کسی کی نظر نہ لگے۔
اعظم چچا نے اپنی پسند سے داماد کو چنا تھا جبکہ بلند بی بی نے اپنے ہونے والے جیون ساتھی کو دیکھا تک نہ تھا پھر بھی وہ خوش تھی کہ اس کا دل کورے کاغذ کی طرح تھا جس پر کسی خیالی محبوب تک کی شبیہ بنی تھی اور نہ ہی کسی کا نام درج ہوا تھا۔
ایسی لڑکیاں جن کے دل میں کسی کا خیال پہلے سے موجود نہ ہو، ان کی شادیاں خوشی کا سندیسہ لاتی ہیں کیونکہ ان کا دولہا ہی ان کا محبوب ہو جاتا ہے۔ بخت بھی اپنے ان دیکھے جیون ساتھی کا خیال کر کے گھونگھٹ میں مسکرا رہی تھی ۔ میں سوچ رہی تھی کہ جانے یہ خوش قسمت ہے کہ نہیں …. مگر یہ اس وقت کتنی مطمئن ہے جبکہ اس نے اپنا دولہا دیکھا تک نہیں ہے۔
اتنے میں شور مچ گیا کہ بارات آ گئی ہے۔ میں بھی دولہا کو ایک نظر دیکھنے چھت پر گئی جہاں اور لڑکیاں بھی تھیں، وہ سب بارات کو دیکھ رہی تھیں ۔ دولہا اپنے رشتے دار نوجوانوں کے درمیان ایسے جگمگارہا تھا جیسے ستاروں کے جھرمٹ میں چاند ۔ اس کا مردانہ حسن و جمال بے مثال تھا۔ تب ہی میں نے تسلیم کیا کہ خدا کی قدرت نے ان دونوں کو بالکل ٹھیک ملایا ہے ۔ یہ ایک مثالی جوڑی کہلائے گی۔ بہرحال نکاح ہو گیا۔ بلند اور شرافت خان رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے اور پھر رخصتی کی گھڑی آگئی۔
فضا میں سرشاری تھی اور ماحول میں نغمات کی دھیمی دھیمی لے رچ بس گئی تھی۔ لڑکی والوں کے گھر میں سہیلیاں سہاگ گیت گا رہی تھیں جبکہ دولہا کے گھر کے دروازے پر خوشی کے شادیانے بج رہے تھے۔ ان کی خوشی کا عالم دیدنی تھا۔ اکلوتے بیٹے کی شادی تھی اور یہ زمیندار لوگ تھے۔ خوشی کے اظہار کے لئے فائرنگ کے علاوہ علاقائی فنکار بھی اپنے رقص و سرور اور فن موسیقی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ یوں میری دوست نہایت دھوم دھام سے بیاہ کر بائل کے گھر سے اپنے دولہا کے گھر چلی گئی ۔
بلند بی بی کو خوبرو دولہا ملا تھا۔ سسرال نے پیار دیا، یہ زندگی کسی جنت سے کم نہ تھی۔ جب وہ شادی کے بعد پہلی بار میکے آئی تو پہلے سے زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔
وقت گزرنے لگا۔ ایک سال خوش و خرم گزر گیا۔ بلند کو کوئی پریشانی تھی مگر ایک شخص جوان کے گھر میں رہتا تھا اور جس کا نام اکبر تھا اس کو بڑی پریشانی تھی ۔
اکبر خان کے بارے میں بتاتی چلوں کہ اس کی ماں جب بیوہ ہوئی تو وہ چھ ماہ کا تھا اور اس بیوہ کا نام حیات بی بی تھا جونعمت اللہ خان کی رشتے دار تھی۔ اس کے والد اور بھائیوں کو کسی دشمن نے گولیوں کا نشانہ بنایا تھا۔ انہی لوگوں نے اس کے خاوند کو بھی مار دیا تھا۔
وہ پناہ کی خاطر نعمت اللہ کے گھر آئی تو نعمت اللہ کی بیوی بیمار تھی جبکہ اشرف صرف تین ماہ کا تھا۔ بیمار ماں اپنے بیٹے کو دودھ نہ پلاسکتی تھی، ننھے بچے کو بھوک سے بلکتے دیکھ کر حیات بی بی نے اسے سینے سے لگا لیا اور یوں اکبر کے ساتھ ساتھ اشرف بھی حیات بی بی کی گود میں پرورش پانے لگا۔ اس احسان کا بدلہ اعظم خان نے یہ دیا کہ بیوہ رشتہ دار خاتون حیات بی بی اور اس کے یتیم بچے کی پرورش کا ذمہ اٹھا لیا اوراکبر کومنہ بولا بیٹا بنالیا کیونکہ وہ ان کے بیٹے کا دودھ شریک بھائی بھی تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں ایک ہی گھر میں پل کرجوان ہو گئے ۔ جب اشرف کی شادی ہوئی تو اکبر نے شادی کے انتظام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن بلند بخت کو پہلی نظر دیکھ کر ہی اس کا دل اس لڑکی پر فریفتہ ہو گیا کیونکہ اتنی حسین دلہن اس نے زندگی میں پہلی بار دیکھی تھی۔
یہ لڑکی جو اس کے خوابوں کی تعبیر ہو سکتی تھی ، اب اس کی بھابھی بن چکی تھی اور یہ ایسا مقدس رشتہ تھا کہ اس کو جھٹلایا بھی نہ جاسکتا تھا۔ پس وہ ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا۔
بلند بخت کو اس کے احساسات کا کوئی علم نہ تھا۔ وہ جیٹھ سمجھ کر اس کی تکریم کرتی تھی کیونکہ اس کو یہی بتایا گیا تھا کہ وہ شرافت کا بڑا بھائی ہے۔ تاہم اکبر پر تعلیم و تربیت نے کوئی اثر نہ کیا تھا۔ وہ اکثر بلند کو دیکھ کر دل میں کہتا تھا کہ اے کاش یہ میری بھابھی نہ ہوتی تو میں اس کو ہر قیمت پر حاصل کر لیتا۔
ایک دن کا ذکر ہے کہ بلند کا بھائی قاسم خان نالے پر نہانے لگا۔ پانی کا بہاؤ تیز تھا، وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور اس کا سر پتھر سے ٹکرا گیا۔ شدید چوٹ سے وہ بیہوش ہو گیا۔ کچھ ساتھی بھی ہمراہ نہانے گئے تھے جنہوں نے اس کو بہہ جانے سے بچا لیا اور فوری طور پر اسپتال لے گئے۔
بھائی کے مضروب ہو جانے کی خبر جب بخت کو ملی تو وہ مضطرب ہوگئی اور شرافت سے کہنے لگی خدارا مجھے میکے جانے دو، مجھے اپنے بھائی سے ملنا ہے۔ اس نے اس وقت جانے کا انتظام کیا اور بیوی کو اس کے میکے لے آیا۔ خدا کی مہربانی کہ قاسم کو ہوش آ گیا اور اس کی زندگی خطرہ سے باہر ہوگئی ، تب اشرف نے کہا کہ میں واپس جاتا ہوں تم کچھ دن میکے میں رہو اور بعد میں آجانا۔ بیمار بھائی کی خاطر بلند بخت بھی کچھ دن میکے رہنا چاہتی تھی ، لہذا اس کا خاوند اکیلے ہی لوٹ گیا۔
ایک ماہ بلند اپنے میکے رہی۔ اچانک ہی ایک ٹرک سے ویگن کا تصادم ہوا تو اشرف کو شدید چوٹ آئی کیونکہ وہ وین چلا رہا تھا۔ سسر نے اکبر کو کہا جا کر اپنی بھابھی کو لے آؤ کیونکہ میں زخمی حالت میں بیٹے کو چھوڑ کر بہوکولانے نہیں جاسکتا۔ اکبر بلند بخت کے میکے آیا اور بھابھی کو کہا۔ گھر چلنے کی تیاری کرو کیونکہ بھائی کو چوٹ آئی ہے اور والد صاحب نے مجھے تمہیں لانے بھیجا ہے۔
شوہر کے حادثے کی خبر سن کر وہ حواس باختہ ہوگئی۔ قاسم بھائی تو پہلے ہی ٹھیک نہ تھا اور اعظم خان بیٹے کی تیمار داری میں محوتھا پس اس نے ایک لمحہ بھی ضائع کرنا مناسب خیال نہ کیا۔ اپنی ماں کو کہا کہ والد صاحب آجائیں تو آپ لوگ آ جانا مگر میں اب نہیں رک سکتی کیونکہ اشرف خان کی وین کو حادثہ پیش آیا ہے۔ میں جارہی ہوں۔
سچ کہتے ہیں کہ برا انسان شیطان سے بھی بڑا بھیڑیا ہے۔ اکبر نے قاسم خان کی والدہ کے ہاتھ کی روٹی کھائی اور پھر اپنے ساتھ دو نالی بندوق لے کر ظہر کے بعد تین بجے کے قریب وہ روانہ ہو گئے ۔
راستے میں جنگل پڑتا تھا۔ یہ ان درختوں میں سے ایک بارانی نہر بھی گزرتی تھی۔ درخت اتنے گھنے تھے کہ دن کو بھی رات کا سا سماں ہوتا تھا اور خدا بہتر جانتا ہے کہ اکبر کی نیت پہلے سے خراب تھی یا اسی وقت خراب ہوگئی تھی۔
یہ بھی خدا جانتا ہے کہ وہاں کیسے بات شروع ہوئی ،مگر اکبر کی بری نیت سے بچنے کے لئے بلند بخت نے پوری کوشش کی جس قدر ہوسکتا تھا وہ بھا گی لیکن قسمت میں بدنصیبی ہی لکھی تھی۔
جب اکبر کو یقین ہو گیا کہ وہ بلند بخت کو آسانی سے گھیر نہیں سکتا تو بھاگتے بھاگتے اس نے فیصلہ تبدیل کر دیا۔ اس نے دو نالی بندوق سے بخت کے پاؤں کا نشانہ لیا اور فائر کر دیا۔ بدبختی سے اس کا نشانہ صحیح لگا اور وہ لڑکھڑاتی ہوئی پتھروں پر گر گئی اور ایک بدنیت انسان نے اپنی منشا پوری کر لی۔ پھر وہ نہر پرآ کر ہاتھ منہ دھونے بیٹھ گیا۔ اس وقت بلند بخت نے زنی پاؤں سے لڑکھڑاتے ہوۓ بندوق اٹھالی اور اکبر کے سر کا نشانہ لیا اور ایک ہی فائر سے وہ بد کردار ہلاک ہو گیا۔
بلند نے اپنے پاؤں پر اپنے سر کے دوپٹے کی پٹی باندھ لی اور بڑی مشکلوں سے عشاء کے بعد وہ واپس میکے آ گئی۔اسکے والدین کھانا کھا رہے تھے۔ جب بیٹی کو زخمی حالت میں دیکھا تو تڑپ گئے۔ پوچھا، بیٹی تیرے ساتھ کیا ہوا، کسی نے تیرا ایسا حال کیا ہے تو تو اپنے خاوند کی خاطر گئی تھی۔
بلند بخت نے رورو کر حال بتایا تو اس کا باپ غصے میں سلگ اٹھا۔ وہ اسی وقت بندوق ہاتھ میں تھام کر گھر سے نکل گیا تا کہ اپنے سمدھی کو باور کرا سکے کہ اسکی بیٹی کو لینے کے لئے تم نے کس درندے کو بھیج دیا تھا۔
ادھر بلند بی بی بھی غم سے چورھی۔ خاوند حادثے میں زخمی تھا اور اس کے باپ کے لے پالک نے اس کی روح کو مضروب کر دیا تھا۔ قاسم کی طبیعت ابھی تک درست نہ تھی اور اعظم خان اس کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ یہ وہ نامساعد حالات تھے جس نے بلند بی بی کو نڈھال کر دیا تھا۔
جب غصے میں اعظم چاچا اشرف کے گھر پہنچے تو نعمت اللہ کے گھر لوگوں کا ہجوم دیکھ کر ان کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ اشرف خان ان کا پیارا داماد حادثے سے جان بر نہ ہو سکا تھا اور وہ فوت ہو چکا تھا۔ گھر ماتم کدہ بنا تھا اور اکبر کی لاش جنگل میں پڑی تھی جس کو بلند بخت نے ہلاک کیا تھا۔ وہ کس سے احوال کرتے ، وہاں حال احوال کرنے کی گنجائش ہی کب تھی ۔ بہر حال کسی صورت بلند بخت کو یہاں لانا تھا تا کہ وہ اپنے سہاگ کا آخری دیدار کر سکے۔ وہ الٹے قدموں لوٹ آئے لیکن جب وہ گھر پہنچے تو بیٹی بھی ابدی نیند سو چکی تھی ۔ اس نے خود اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا تھا۔ وہ اپنے سہاگ سے اس قدر پیار کرتی تھی کہ خدا نے اتنی بری خبر سنانے سے پہلے ہی اس کو اٹھا لیا۔
وہ قیامت کا منظر تھا جب بلند بخت کا جنازہ اعظم چچا کے گھر سے نعمت اللہ خان کے گھر پہنچایا گیا۔ پھر دونوں میاں بیوی کے جنازے ایک ساتھ اٹھاۓ گئے اور ان دو سچے پیار کرنے والوں کو پہلو بہ پہلو قبر میں اتار دیا گیا۔ اس کے بعد اس بد بخت اکبر کو بھی دفن کر دیا گیا۔
اس حادثے نے چاچا اعظم کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ ادھر قاسم خان کی طبیعت کبھی بحال ہو جاتی اور کبھی خراب ہو جاتی تھی۔ اس دوران چچی نے سجدے سے سر نہ اٹھایا۔ وہ رورو کر اپنے بیٹے کی صحت یابی کی دعا کرتی تھیں ۔ بیٹی تو اپنے خالق سے جاملی تھی اب یہی بیٹا ان کی آخری پونجی اور امید تھا۔
خدا نے اس دکھیا کی دعا سن لی اور ان کا بیٹا رفتہ رفتہ مکمل طور پر صحت یاب ہو گیا۔ ہم سب کو قاسم بھائی کے صحت یاب ہونے کی خوشی تھی مگر جب بلند بخت یادآتی تو دل خون کے آنسوروتا تھا۔ میں سوچتی ہوں کہ کچھ لوگوں کی خوشیاں کتنی نا پائیدار ہوتی ہیں، ایسے ہی جیسے انسان کی زندگی نا پائیدار ہے کہ آج ہے، کل نہیں ہے۔ کتنے چاند سے چہرے کہ جن پر نظر نہیں ٹھہرتی۔ دیکھتے دیکھتے خاک نشین ہو جاتے ہیں۔