Wednesday, January 22, 2025

Jane Kahan Ho Tum

ماں بتاتی تھیں کہ تقسیم برصغیر کے وقت وہ اور ان کا بھائی دونوں کم سن تھے اور جو ریل گاڑی خون سے بھری لاشیں لے کر پاکستان پہنچی تھی، اس میں تمام مسافروں کو ہندوؤں اور سکھوں نے تہ تیغ کر ڈالا تھا لیکن کچھ زخمی مسافر جو لاشوں کے بیچ زندہ رہ گئے تھے وہ ان کو مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے تھے۔ انہی میں یہ دونوں کم سن بھی تھے۔ پاکستان آکر امی اور اُن کے بھائی کو کیمپ میں لایا گیا جہاں سے ایک رشتے کے ماموں ان کو اپنے گھر لے آئے۔ انہی ماموں نے میری والدہ کی شادی کم سنی میں ایک نوجوان سے کردی جو غریب ضرور تھا مگر شریف گھرانے سے تھا۔ وہ دن بھی آیا، جب ہماری ماں کے دن پھر گئے۔ ابو نے اپنا ذاتی کاروبار شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہو گیا۔ امی ابو خوشحال زندگی گزارنے لگے تو انہوں نے ماموں کو بھی مجبور کیا کہ اب تم بھی اپنا گھر بسا لو۔ وہ غربت کی وجہ سے ڈرتے تھے۔ ابو نے ڈھارس دی اور امی نے ایک اچھی لڑکی پسند کر کے اپنے بھائی کا گھر آباد کرا دیا۔ کہتے ہیں رزق عورت کے نصیب سے ہوتا ہے۔ ماموں غربت کی وجہ سے ڈر رہے تھے۔ اللہ پاک نے وسیلہ پیدا کر دیا۔ روزی اچھی لگ گئی اور ماموں کا رزق فراخ ہو گیا۔ دونوں بہن بھائی جو لاشوں کے ڈھیر سے کمسنی میں زندہ نکل آئے تھے، آج ان کی زندگی ایک طویل آزمائش کے بعد پر سکون دور میں داخل ہوگئی تھی لیکن وہ بھیانک یادیں اب بھی نیند میں ان کو ڈراتی تھیں اور سوتے ہوئے میری ماں کی چیخیں نکل جاتی تھیں۔ امی اور ماموں کے گھر نزدیک تھے۔ دونوں ایک دوسرے کے گھروں میں روز ہی آتے جاتے۔ امی کی شادی کے دو سال بعد میں نے جنم لیا تو اُدھر ممانی نے ایک خوبصورت بیٹے کو جنم دیا۔ ماموں بہت خوش تھے، کہتے تھے کہ اللہ نے مجھے بیٹا اس لیے دیا ہے کہ میں تمہاری بیٹی کا سسر بنوں اور یہ گڑیا میری کہلائے ۔ اچانک ابو اور ماموں کار کے حادثے میں ہلاک ہو گئے اور میری ماں اس دنیا میں تنہا رہ گئیں اور ممانی کا بھی سہاگ اجڑ گیا۔ عدت کے بعد ممانی بیٹے کو لے کر اپنے میکے چلی گئیں اور ماں نے میری پرورش کی خاطر محنت مزدوری شروع کر دی۔ آخر کار زندگی کی گاڑی کو دھکا لگاتے ماں بوڑھی اور میں جوان ہوگئی۔ یوں سمجھ لیں اچھے دن بہت تھوڑے اور برے دن بہت زیادہ تھے۔ امی ایک فیکٹری میں کام کرتی تھیں۔ میں نے بھی ان کے ساتھ کام پر جانا شروع کر دیا۔ نو عمر اور خوبصورت تھی، جب فیکٹری کے مالک کی مجھے پر نظر پڑی تو اس کا دل مجھ پر آ گیا۔ امی نے ایک طویل عرصہ اس فیکٹری میں کام کیا تھا، مالک کو پتا تھا کہ یہ کیسے تیوروں والی ہے، بھری جوانی میں شرافت کا دامن تھامے رکھا تھا۔ تبھی کسی کو ان پر میلی نظریں ڈالنے کی جرات نہ ہوئی تھی۔ فیکٹری کا مالک جہاندیدہ تھا۔ وہ اپنے اوپر حرف نہیں آنے دینا چاہتا تھا لہذا اس نے مجھے سے بات کرنے کی بجائے امی سے بات کی کہا کہ آپ کی شرافت سے متاثر ہوں۔ آپ سے رشتہ مانگتا ہوں آپ کی بیٹی کا کیا اپنے بیٹے کے لیے؟ نہیں اپنے لیے۔ مجھ کو معصومہ پسند آگئی ہے۔ میں اسے زندگی کی تمام سہولتیں دوں گا۔ فیکٹری کا مالک مجھ سے چھپیس برس بڑا تھا-لیکن ہماری غربت کے سامنے اتنے بڑے آدمی کا رشتہ کسی لاٹری سے کم نہ تھا۔ ماں نے چند دن سوچا اور یہ رشتہ قبول کر لیا۔ میں ان دنوں سولہ برس کی تھی۔ ڈھولک بجی اور نہ سہیلیاں آئیں، لیکن بہت زیادہ قیمتی جوڑے اور زیورات پہنا کر وہ مجھے اپنے شاندار محل جیسے گھر میں دلہن بنا کے لائے تھے جہاں نوکر چاکر میری خدمت پر مامور تھے۔ایک خواب تھا جو کھلی آنکھوں سے دیکھتی تھی۔ شادی سے خوش تھی کہ اتنی پرآسائش زندگی کے بارے میں سوچا تک نہ تھا۔ میری کوئی پسند نہ تھی ماں نے جسے پسند کیا اسی کو اپنے دل کی مسند پر سجالیا۔ شادی کے بعد تین، چار بارامی کے گھر گئی۔ وہ مجھ کو اپنے گھر میں سکھی دیکھ کر بہت خوش تھیں لیکن جب اپنی ماں کی تنہائی کا خیال آتا، میں اداس ہو جائی، تب امی کہتیں۔ شکر کر اتنا چاہنے والا شوہر تجھے ملا ہے اور صد شکر کہ میرے اللہ نے میرے دکھوں کا سایہ تجھ پر نہیں ڈالا ۔

شادی کے بعد چھ ماہ آرام و سکون سے گزر گئے، پھر میں نے محسوس کیا کہ رفیع کچھ پریشان اور اکھڑے اکھڑے رہتے ہیں۔ وہ اب گھر بھی دیر سے آنے لگے تھے، کبھی رات کو غائب ہو جاتے۔ میں نوکرانی کے ساتھ راتیں جاگ کر گزارنے لگی۔ ان کا یہ انداز سمجھ میں نہ آتا تھا۔ ان دنوں میری طبیعت خراب رہنے لگی تھی، چکر آتے اور جی متلاتا ۔ پڑوس میں لیڈی ڈاکٹر کا کلینک تھا، اس کو دکھایا تو اس نے کہا کہ مبارک ہو، تم ماں بننے والی ہو اپنے شوہر کو یہ خوشخبری سنا دو۔ رفیع آئے تو ان کا موڈ اچھا نہ تھا۔ ان کا مجھ پر کافی رعب تھا۔ ان سے ڈرتی تھی لہذا کچھ نہ بتا سکی۔ سوچا موڈ اچھا ہوگا پھر بتا دوں گی- اچانک انہوں نے کہا کہ تم پندرہ دن کے لیے میکے چلی جاؤ تمہاری ماں کی اداسی بھی دور ہو جائے گی، میں کسی کام سے لندن جا رہا ہوں۔ میں نے بیگ میں دو چار جوڑے رکھے۔ زیور ساتھ نہ لیا کیونکہ امی کا گھر محفوظ نہ تھا۔ گلے میں چین اور انگھوٹھی جو شادی کی تھی ، بس یہی زیور پہن کر نکلی۔ انہوں نے مجھے گاڑی میں بٹھایا اور امی کے گھر چھوڑ کر چلے گئے۔ ماں اور میں بہت خوش تھے۔ پندرہ دن گزرنے کا تو پتا ہی نہ چلا۔ پندرہ سے بیس دن گزر گئے۔ پھر ایک ماہ ہو گیا۔ وہ نہ آئے تو امی پریشان ہوئیں میں نے تسلی دی کہ ماں دوسرے ملک گئے ہیں، دیر سویر ہو جاتی ہے۔ امی نے کہا فیکٹری جا کر معلوم کرتی ہوں، خدا خیر کرے۔ میں نے روک دیا کہ نہیں وہاں مت جائیے وہ خفا ہوں گے، جب میری رفیع صاحب سے شادی ہو گئی اس کے بعد انہوں نے امی کو فیکٹری جانے سے روک دیا تھا۔ ایک ماہ اور گزر گیا۔ رفیع کی طرف سے کوئی رابطہ اور نہ خبر لی تو امی روک نہ سکیں۔ وہ فیکٹری چلی گئیں پتا چلا کہ فیکٹری کو بکے دو ماہ گزر چکے ہیں۔ چوکیدار نے البتہ ایک لفافہ دیا جس میں کچھ کاغذات تھے اور میرا طلاق نامہ تھا۔ رفیع صاحب مع فیملی لندن شفٹ ہو گئے تھے۔ مجھ میں یہ صدمہ سہنے کی تاب کہاں تھی ، مجھے پر تو جیسے بجلی گر گئی۔ اپنے پیروں پر کھڑی نہ رہ سکی۔ نکاح نامہ میرے شوہر کے پاس تھا اور طلاق نامہ وہ چوکیدار کو دے گئے تھے۔ رو دھو کر ہم ماں بیٹی چپ ہو گئیں ۔ سینے پر پتھر کی سل رکھ کر ماں نے خود کو حالات سے نمٹنے کے لیے تیار کر لیا۔ امی نے مکان تبدیل کر لیا اور ہم دوسری جگہ آگئے۔ یہ محلہ نسبتا اچھا تھا لوگ بھی تعلیم یافتہ تھے۔ محلے کی خواتین کپڑے سلوانے آنے لگیں۔ امی سے اچھی واقفیت ہوگئی، یہاں بھی میری خوبصورتی نے کام کیا۔ ایک خاتون نے میری والدہ کو ایک انجینئر کا رشتہ بتایا جو سعودی عربیہ میں ملازم تھے۔ انجینئر صاحب دو بہن بھائی تھے ۔ یہ نیک دل لوگ تھے۔ بات پکی ہوگئی تو ماں نے رخصتی کے لیے کچھ وقت مانگ لیا۔ رخصتی سال بعد ہونا تھی ۔ یہ سال میرے لیے خوشی اور غم دونوں کا سال تھا کیونکہ میری والدہ نے میری پہلی شادی کا نہ بتایا تھا۔ بات کچی کر کے دونوں بہن بھائی سعودی عربیہ چلے گئے اور جانے سے پہلے وہ ہمارے گھر فون لگوا گئے تا کہ بات چیت ہوتی رہے۔ خاله شبو نامی خاتون امی کی سہیلی تھیں۔ وہ امی کے ساتھ فیکٹری میں کام کرتی تھیں، ان کو ہمارے تمام حالات کا علم تھا۔ جب بچے کی پیدائش کے دن قریب آئے ۔ امی نے مجھے ان کے گھر بھجوا دیا ان کو علم تھا کہ میری شادی رفیع صاحب سے ہو گئی ہے۔ ڈھائی ماہ ہم شبو خالہ کے گھر رہے، جب ایک شب میں نے بیٹے کو جنم دیا تو امی نے اس بد نصیب بچے کو کپڑے میں لپیٹا اور علی الصباح وہ اسے ایک مسجد کی دہلیز پر رکھ آئیں۔ جب وہ میرے بچے کو لے جا رہی تھیں، میں نے بہت ان کی منت سماجت کی، پاؤں بھی پکڑے، روکا کہ ماں میرے بچے کو مجھ سے دور نہ کرو۔ اسے کیوں پھینکنے جا رہی ہو یہ کوئی ناجائز اولاد نہیں ہے۔ خدارا اس پر اور مجھ پر رحم کرو … لیکن ماں نے یہ کہہ کر میری التجا کو ٹھکرادیا کہ جس بچے کے باپ نے لوٹ کر آنا ہی نہیں ہے، اس کو لوگ تیری ناجائز اولاد ہی کہیں گے، اگر رفیع لوٹ بھی آئے تو کیا خبر وہ اس بچے کو قبول کرے یا نہ کرے۔ راشد اور اس کی بہن کو رشتہ دیتے وقت میں نے تم کو کنواری ظاہر کیا تھا۔ غلطی مجھ سے ہو چکی ہے، اب اس کو نباہنا ہوگا ورنہ وہ بھی اس بچے کو تمہاری نا جائز اولاد سمجھیں گے۔ پھر میرا بڑھاپا ہے، میں کہاں اس کو پال سکتی ہوں۔ خالہ شبو نے بھی یہی مشورہ دیا کہ اس معصوم کو مسجد کی دہلیز کے پاس رکھ آؤ۔ ایسے وقت کہ جب اللہ کے نیک اور عبادت گزار بندے وہاں فجر کی نماز کو پہنچتے ہیں۔ سو میں نے اس کو اللہ کے سپرد کیا ، وہ ہی اس کی حفاظت کرے گا۔ اماں نے بھی اس مسجد کی نشاندہی نہ کی اور میں ماں بن کر بھی خالی گود اور نامراد رہ گئی۔ ایک سال پلک جھپکتے گزر گیا۔ انجینئر صاحب اور ان کی بہن وعدے کے مطابق مجھے کو بیاہنے سعودی عربیہ سے لوٹ آئے۔ میرے خاوند فرشتہ صفت نکلے۔ انہوں نے میرے علاوہ امی جان کے ساتھ بھی حسن سلوک کی انتہا کر دی ۔ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ اتنے بڑے دکھ کے بعد اس قدر سکھ قدرت کی طرف سے مجھے مل جائے گا۔ ہمارے ہمراہ والدہ نے کئی حج اور عمرے کیے۔ یہ سعادت بھی نصیب والوں کو ملتی ہے۔ ہم دونوں اس مقدس سرزمین پر آکر بہت خوش تھے۔ لیکن امی جان خدا سے اپنے اس جرم پر توبہ و استغفار کرتی تھیں کہ ہم نے اپنی جائز اولاد کو ایک لاوارث بچے کی مانند حالات کے سپرد کر دیا تھا اور اب ہمیں خبر نہ تھی کہ اس معصوم کے ساتھ کیا گزری۔ خدا نے اس کی حفاظت کی یا وہ حالات زمانہ کے سیلاب میں خس و خاشاک کی مانند بہہ گیا۔ امی خانہ کعبہ میں جا کر دن رات روتی تھیں اور اللہ پاک سے اپنی اس خطا کی معافی مانگتی تھیں ۔ میں ہمیشہ جدائی کی آگ میں اندر اندر سلگتی ہی رہی۔ اللہ نے تین برس تک اولاد نہ دی ۔ ارشد حرم شریف میں جا کر اولاد کے لیے دعائیں کیا کرتے تھے۔ اس دوران امی جان فوت ہو گئیں۔ نند اچھی تھیں، میرا خیال رکھتی تھیں مگر ماں کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔ البتہ ارشد نے میرا بہت ساتھ دیا۔ میرے زخموں کو بھرنے میں انہوں نے بڑا کردار ادا کیا۔ اسی دوران اللہ تعالیٰ نے مجھے صاحب اولاد کیا اور ایک بیٹا عطا کیا۔ افسوس کہ وہ بچہ ابنارمل ہوا۔ اللہ کی مرضی سمجھ کر ہم نے اسے گلے سے لگالیا۔ اولاد جیسی بھی ہو، والدین اس کو پھینک نہیں سکتے ۔ دو سال بعد اللہ تعالیٰ نے ایک اور فرزند عطا کیا مگر وہ بچہ بھی نارمل نہ تھا۔ یوں میں اب دو بیٹوں کی ماں ہوں مگر دونوں بچے معذور ہیں اور میں ان کے غم میں کھلتی رہتی ہوں۔ ارشد اس حال میں بھی اللہ کا شکر ادا کرتے رہتے ہیں اور میں سوچتی ہوں شاید مجھے اپنے پہلے بچے کی بددعا لگی ہے، جس کو نہیں معلوم اس کے ماں باپ کون ہیں۔ میرا کیا قصور ہے کہ میں تب بھی مجبور تھی اور اب بھی مجبور ہوں۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ میرا بچہ زندہ ہے یا مرگیا ہے۔ کہاں ہے اور کیسا ہے۔ خدا کرے جہاں ہو، خوش ہو اور اچھے لوگوں کے پاس ہو۔ ماں باپ کو ایک نہ ایک دن اپنی اولاد سے بچھڑنا ہوتا ہے لیکن ایسے بھی کوئی ماں اپنے بچے سے نہ بچھڑے جیسے میں اس معصوم اور وہ معصوم مجھ سے بچھڑا تھا کہ میں اس کا نام تک نہ رکھ سکی تھی اب کس نام سے پکاروں؟ کاش میری ماں ایسا نہ سوچتی کہ جیسا اس نے سوچا تھا تو اللہ پاک کوئی نہ کوئی وسیلہ بنا ہی دیتا مجھ کو پھر سے آباد کرنے کا۔ ۔ کیونکہ وہ ہر بات پر قادر ہے۔ یہ تو ہم بندے ہیں جو کسی بات کو ممکن اور کسی کو ناممکن سمجھ لیتے ہیں۔

Latest Posts

Related POSTS