جب گل میرے کلینک میں آئی تو میں نے آنے کا مقصد پوچھا۔ اس نے بتایا کہ وہ امیدسے ہے او ر اسے میڈیکل سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے۔ میں نےاس سے پوچھا سرٹیفکیٹ کیوں چاہئے۔جواب میں وہ بلاجھجھک اپنی داستان سنانے لگی۔ جیسے مدت سے اسے کسی ہمدر دو غمگسار کی ضرورت تھی۔ کہنے لگی میں ایک پہاڑی علاقےکی رہنے والی ہوں۔ والد محنت مزدوری کی غرض سے کراچی آئے تھے۔ روزگار تو مل گیا لیکن رہائش نہ ملی کچھ عرصہ ایک رشتہ دار کے ٹھکانے پر رہے۔ پھر واقفیت بڑھی تو کچی بستی میں گھر بھی میسر آگیا۔ میں نے بچپن سے سن شعور تک کا فاصلہ اسی کچی بستی میں رہ کر طے کیا۔
جہاں ہم رہائش پذیر تھے، وہاں پانی کی شدید قلت تھی۔ ساری بستی کے لئے چوک پر ایک نل تھا جہاں مقررہ اوقات میں پانی آتا تھا۔ لوگ لائن لگا کر پانی بھرتے تھے۔ مرد حضرات شام کو اور عورتیں صبح کے وقت پانی بھرتی تھیں، کیونکہ صبح دم مرد مزدوری کرنے نکل جاتے تھے۔ میں بھی اور لڑکیوں کے ساتھ پانی بھرنے جاتی تھی، کبھی کبھی تو ایک کین بھرنے کی خاطر گھنٹہ بھر لائن میں کھڑے رہنا پڑتا تھا۔
ایک دن ایک لڑکا اپنی بہن کے ہمراہ آیا۔ وہ لڑکیوں سے کچھ دور کھڑا ہوگیا اور اس کی بہن ہمارے ساتھ قطار میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگی۔ اب وہ روز بہن کے ہمراہ آتا ، جب اس کی بہن پانی بھرلیتی تو وہ کین ا ٹھالیتا اور یہ اپنے گھر روانہ ہوجاتے۔ یہ ان کا روز کا معمول تھا۔ جلد ہی میں نے محسوس کیا کہ وہ نوجوان بہت غور سے مجھے دیکھتا ہے۔پہلےپہل تو اس کی یہ حرکت بری لگی ، رفتہ رفتہ مانوس ہوگئی۔ اب اس کی خوبصورت آنکھیں گھر میں بھی مجھے اپنے اطراف طواف کرتی محسوس ہونے لگیں۔ مجھے ان آنکھوں سے وحشت ہونے لگی جنہوں نے مجھے میری دنیا سے بیگانہ کردیا تھا۔ وہ بن بلائے مہمان کی طرح میرے دل و دماغ پر مسلط ہوتا جارہا تھا، تاہم اس نے اس عرصے میں ایک بار بھی مجھ سے مخاطب ہونے کی کوشش نہیں کی۔
ایک دن میں پانی بھرکر گھر لوٹ رہی تھی کہ وہ راستے میں مل گیا۔ اس نے کہا ۔ میں آپ کا گھر جانتا ہوں۔ اجازت ہو تو پانی کا کین آپ کے گھر پہنچا دوں۔ اس کی دیدہ دلیری پر حیران رہ گئی ، اب سمجھی کہ اتنی ساری لڑکیوں میں وہ صرف مجھے ہی کیوں دیکھتا تھا۔ بغیر جواب دیئے آگے بڑھ گئی، اس وقت تو اس سے پیچھا چھڑالیا لیکن، نہیں معلوم کب اس کا یہ سوال مجھ پر ایک آسیب کی طرح حاوی ہوگیا۔ یہ سوال رات بھر ذہن میں گردش کرتا رہا۔
اگلے روز جان بوجھ کر میں دیر سے گئی تاکہ لڑکیاں اور عورتیں پانی بھر کر چلی جائیں۔ اسے بھی جواب کا انتظار تھا، وہ ایک دکان کےچھپر تلے کھڑا تھا۔ جب میں پانی بھر کر گلی میں مڑی اس نے میرے ہاتھ سے بھرا ہوا کین لے لیا۔ مجھ میں ہمت نہ ہوئی کہ اسے منع کرتی، شاید اس نے اپنے شائستہ رویے سے میرے دل میں مقام بنالیا تھا۔
کیا اپنی ماں کوتمہارے گھر بھیجوں؟ اس نے سوال کیا۔ جب گھر پاس آیا میں نےکین اس سے لے لیا اور جواب دیا کہ اپنی والدہ کوہمارے گھر بھیج دو۔
دو دن بعد محب کی ماں رشتہ مانگنے آگئی۔ہم غیروں میںرشتہ نہیں کرتے۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ خالی ہاتھ جائیں گی۔ ماں نے جواب دے دیا۔ ا س کے بعد محب مجھے نظر نہ آیا۔ میں پریشان رہنے لگی ۔ نگاہیں اسے ڈھونڈتی تھیں لیکن اس کا کہیں اتا پتا نہ تھا۔
ایک دن امی کی طبیعت خراب ہوگئی تو ہم ڈاکٹر کے کلینک گئے وہاں محب نظر آگیا۔وہ بیمار لگ رہا تھا ۔ نزار و نحیف مریضوں کی قطار میں بیٹھا ہوا تھا۔ امی ڈاکٹر کےپاس گئیں تو میں پیچھے رہ گئی اور محب سے پوچھا۔ کیا ہوا ہے تمہیں؟ کیا تم نہیں جانتیں؟ اس نے افسردہ لہجے میں کہا۔ مجھے دکھ ہوا۔ اس کی دل جوئی کے لئےکہا۔ پہلی بار تو بیٹی والے ہاں نہیںکرتے، تم دوبارہ اپنی ماں کو بھیجو۔ اس کے چہرے پر رونق بکھر گئی۔ گھر آئی تو اپنی غلطی پر پشیمان تھی کہ یہ میں کیا کر آئی۔ محب سے رشتہ ناممکن ہے۔ امی نے تو مہذب لہجے میں منع کیا تھا، اگر بابا کو معلوم ہوا تو وہ کہیں ان لوگوں کی بے عزتی نہ کردیں۔ دوسرے روز اس کی ماں پھر آگئی۔ آج بابا بھی گھر پر تھے۔ انہوں نے والدہ کو زور سے ڈانٹا۔ یہ کون لوگ ہیں، آخر ہمارے دروازے پر بار بار کیوں آرہے ہیں۔
محب کی والدہ گھبرا گئیں، ماں نے اشارے سے چلے جانے کو کہا۔ اس خاتون نے اپنی سخت توہین محسوس کی، مجھے بھی ان کی بے عزتی کے احساس نے صدمہ دیا کیونکہ یہ سب میری وجہ سے ہوا تھا۔
دو روز تک اتنی گم صم رہی کہ نل والے چوک پر پانی بھرنے نہ گئی۔ بالآخر تیسرے دن ہمت کی۔ وہ وہاں چھپر تلے میرا منتظر تھا۔ پانی بھر کر جب میں گلی میں آئی تو اس نے میرے ساتھ ساتھ چلنا شروع کردیا۔ شکوہ کرنے لگا۔ گل یہ تم نے کیا کیا ، تمہیں معلوم تھا کہ تمہارےوالدین رشتے سے انکار کردیں گے پھر مجھے دوبارہ ماں کو بھیجنے کا کیوں کہا۔ اب میرا خون تمہاری گردن پر ہوگا کیونکہ میری ماں زندگی میں اتنی دکھی کبھی نہ ہوئی جتنی تمہاری وجہ سے ہے۔ میں نے اس کی افسردگی کو دیکھ کر جھوٹی تسلی دینا چاہی کہ میں تمہارا ساتھ دوں گی لیکن یہ بات کہتےہوئے دل میرا ساتھ نہ دے سکا ، جانتی تھی کہ یہ جھوٹ ہے۔
جب بیٹیاں جوان ہوجائیں اور انجانے گھر سے رشتے آنے لگیں تو ماں باپ کی نیندیںاڑ جاتی ہیں۔ میرے والدین بھی ساری رات نہ سو پاتے اور اکثر سر جوڑ کر بیٹھ جاتے۔ مجھے ان کی حالت دیکھ کر افسوس ہوتا۔ میں تو ان کی عزت پر دھبہ لگنے کا سوچ بھی نہ سکتی تھی۔
چند دنوں بعد انہوں نے کوچ کر جانے کی ٹھان لی اور اس امر کوخفیہ رکھا، لیکن مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ اپنےآبائی علاقے کس مقصد کے لئے جارے ہیں۔ گائوں آتے ہی چچازاد کے ساتھ میری شادی کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ نہیں چاہتی تھی کہ کوئی میرے والدین کی عزت کی طرف انگلی بھی اٹھائے۔ تبھی خاموش رہی اور ناخوش ہونے کے باوجود اس سولی پر لٹکنے کو تیار ہوگئی۔ میرے رشتے کے ماموں کا گھر محب کے گھر کے قریب تھا۔ اسے معلوم ہوگیا کہ ہم اپنے گائوں چلے گئے ہیں۔ مجھے توقع نہ تھی کہ وہ میرے پیچھے ہمارے گائوں تک آجائے گا۔ ایک دن بکری کا چارہ لینے وادی میں نکلی تو رستے میں وہ مل گیا۔حیرت سے میری چیخ نکل گئی،ڈر کے مارے اس سے کہا۔ محب تم فوراً یہاں سے بھاگ جائو ورنہ تمہاری موت یقینی ہے۔
میںیہاں بھاگ جانے کے لئےنہیں مرنے کے لئے آیا ہوں یا پھر تمہیںلے جانے کے لئے۔ اس نے جواب دیا۔ میں نے اس کے آگے ہاتھ جوڑے کہ ہمارے علاقے سے دور چلے جائو اور دوبارہ مت آنا لیکن وہ مضبوطی سے قدم جمائے کھڑا رہا، جیسے واقعی مرنے کا فیصلہ کرکے آیا ہو۔ کل اس درخت کےپاس ملنا۔ شام گہری ہورہی تھی۔ میں نے اچھا کہا اور اپنے گھر کی سمت دوڑنے لگی۔ مبادا کوئی مجھے محب کے ساتھ دیکھ لے اور ہماری جان چلی جائے۔
اگلے دن وہ درخت کے نیچے موجود تھا میں نے ایک بار پھر اس کی منت کی کہ وہ چلا جائے۔ اس کی یہی تکرار تھی کہ میرے ساتھ چلو ، ہم کورٹ میں شادی کرلیں گے۔ ورنہ میں یہاں تمہارے والد اور رشتے داروں کے ہاتھوں جان دے دوں گا۔ اس کے لہجے کی تپش بتارہی تھی کہ اگر میں نے اس کی بات نہ مانی تو یہ شعلے ہم دونوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے اور وہ اپنی زندگی کی متاع عزیز میری خاطر لٹا بیٹھے گا۔
آزمائش کے یہ لمحات مجھ پر کس قدر کٹھن گزرے، بتا نہیں سکتی۔ اب بھی جب اس وقت کو یاد کرتی ہوں تو کرب کی ایک لہر میرے وجود سے سنسناتی ہوئی گزر جاتی ہے۔ میں بہت خوفزدہ ہوگئی تھی اس کے جنون کو دیکھتے ہوئے میں نے ماں باپ کی محبت کو ٹھکرا دیا، جس کا مجھے عمر بھر پچھتاوا رہے گا۔ یہ میں نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن محب کی دیوانگی نے مجھے مجبور کردیا۔ گھر آکر تمام رات میں نے یوں گزاری جیسے کسی نے میرے بستر کو کانٹوں سے بھردیا ہو۔
اگل صبح پو پھٹنے سےپہلے ہم بس اڈے پر تھے۔ کراچی کی بجائے لاہور پہنچے اور کورٹ میرج کرلی۔ محب مجھے پاکر بہت خوش تھا لیکن یہ خوشی میرے لئے ایسی تھی جس کی بنیادوں میں میرے والدین کے دکھ اور بدعائیں دفن تھیں۔
بمشکل چھ ماہ ہم خفیہ طور پر محب کے ایک رشتے دار کے گھررہ سکے۔ ایک دن مجھے اور محب کو اسپتال کے احاطے میں، میرے والد کے ایک رشتے دار نے دیکھ لیا اور انہیں اطلاع کردی۔ اسی رشتے دار نے ہمارا پیچھا کرکے گھر دیکھ لیا تھا۔ پولیس کو میرے وارثوں نے اطلاع کردی اور ہمیں پولیس پکڑ کر تھانے لے آئی۔ ہم نے نکاح نامہ دکھایا اور بہت صفائی پیش کی لیکن نکاح نامےکو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ہمارے خلاف پرچہ کاٹ کر جیل بھجوادیا۔ میری ایسی حالت نہ تھی کہ جیل میں رہ سکتی ، محب کے ایک دوست نے ہماری ضمانت کروائی لیکن مجھے اب بھی کورٹ جانا ہے کیونکہ کیس ختم نہیں ہوا۔ اسی لئے سرٹیفکیٹ درکار ہے۔ میں نے سرٹیفکیٹ بنادیا اور وہ شکریہ کہہ کر چلی گئی۔
وہ تو چلی گئی لیکن مجھے سوچ کے گہرے سمندر میں ڈبو گئی کہ اس کا اور اس کے بچے کا مسقبل کیا ہوگا۔ کیونکہ اب وہ صرف اپنےہونے والے بچے کی خاطر محب کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی تھی۔ اب جب بھی فرصت میں بیٹھتی وہ میرے ذہن کے پردے پر آسماتی۔ سوچتی تھی کہ گل بہشت میری کیا لگتی تھی،وہ تو ہوا کے ایک جھونکے کی طرح آئی اور میری زندگی سے نکل گئی، تو پھر کیوں اس کی یاد میرے ذہن میںمحفوظ ہوگئی ہے۔ بار بار ایک ہی سوال پریشان کرتا تھا، اس کا اور اس کے ہونے والے بچے کا کیا بنا؟
ایک روز ایک دوست وکیل سے ملاقات ہوئی، اس کی میز پر گل بہشت کی تصویر پڑی تھی ، میں تصویر اٹھا کر غور سے دیکھنے لگی۔ تبھی وہ بولی۔ یہ میری ایک موکلہ کی تصویر ہے ، تم کیوں اتنےغور سے اسے دیکھ رہی ہو۔ میں اسے جانتی ہوں، اللہ جانے اب یہ کہاںہے اور کس حال میں ہے۔
یہ مرچکی ہے ۔ کیا… حیرت سے میرے لبوںسے نکلا۔ ہاں… یہ دیکھو اس نے دراز سے اخبار نکالا جس میں گل بہشت کے بارے میں یہ خبر موجود تھی۔ وکیل خاتو ن نے بتایا کہ اس کےوارث چاہتے تھے کہ وہ کورٹ میں بیان دےکہ محب نے اسے زبردستی اغوا کیاہے اور حبس بے جا میں رکھا ہواہے، لیکن گل اس امر پر تیار نہ ہوئی کیونکہ وہ ماں بننے والی تھی۔ اس کے وارثوں کو اس بات کا شدید رنج تھا کہ گل نے ایک بیٹے کو جنم دیا اور اس کی بریت بھی ہوگئی۔ رواجوں نے اس کو مجرم قرار دے دیا تھا لیکن قانون نے دونوں کو بری کردیا کیونکہ گل نے بیان دیا تھا کہ اس نے اپنی خوشی اور مرضی سے محب کے ساتھ نکاح کیا ہے۔ قانون کی نظر میں وہ بالغ تھی کیونکہ نکاح کے دن اس کی عمر بیس برس تھی۔
عدالت کے فیصلے پر گل کے لواحقین پیچ و تاب کھا کر رہ گئے۔ خصوصاً اس کے چچا اور منگیتر نے تہیہ کرلیا کہ گل کو سکون سے جینے نہیں دیں گے۔ پس ایک رات جبکہ گل اور محب اپنے بچے کے ہمراہ گھر میں سورہے تھے،ان لوگوں نے حملہ کردیا اور دونوں کے ساتھ ان کے معصوم بچے کو بھی ابدی نیند سلادیا کیونکہ وہ اپنے دشمن کے ساتھ اس کی نسل کو بھی ختم کردینا چاہتے تھے۔
اپنی دوست وکیل کی زبانی گل کا انجام سن کر میں کچھ دیر تک ساکت بیٹھی رہ گئی۔ سوچتی رہی کہ غیرت کے نام پر انسانیت کو شرمندہ کرنے والے یہ واقعات نجانے کب تک وقوع پذیر ہوتے رہیں گے۔ (مسز الف ۔ کراچی)