Saturday, January 18, 2025

Janooni Muhabbat

میرے ماماجی بہت محنتی آدمی تھے ۔ ہمہ وقت اپنے کام سے کام رکھتے۔ تھوڑے سرمایے سے بزنس شروع کیا۔ کام کےدھنی تھے، ساری زندگی محنت کی اور برسوں کی ریاضت کے بعد بڑے تاجر بن گئے، یوں دھن دولت ان کے گھر کی باندی بن گئی۔ ماما جی کو نمائشی زندگی سے تعلق نہ تھا۔ سیر و تفریحی کے جانب بھی دھیان نہ تھا۔ ہاں، جائیداد بنانے کا شوق ضرور تھا،  نمود و نمائش اختیار کرنے کی بجائے جو روپیہ جوڑا ، اسے پلاٹ ، مکانات اور دکانیں خریدنے میں کھپا دیا۔ وہ دور دراز علاقوں میں سستے پلاٹ اور پرانی کوٹھیاں خرید لیتے تھے، جو چند برسوں بعد مہنگی ہو کر لاکھوں کا منافع دیتی تھیں ۔ خدا جانے میرے ماموں کو اس شوق سے کیا تسکین ملتی تھی ، حالانکہ اولاد میں ایک اکلوتا بیٹا تھا، جس کا نام ارمغان تھا۔ وہ نیک اطوار اور خوبصورت تھا۔ بیٹیاں اللہ نے دی نہ تھیں کہ جہیز کا تفکر ہوتا۔ جب ارمغان جوان ہوا تو سب کی نظریں اس پر لگ گئیں۔ رشتہ داروں میں ہر ایک اپنی بیٹی کا رشته ارمغان کو دینا چاہتا تھا ۔ ماں باپ بھی اسی آرزو میں جی رہے تھے کہ بیٹے کے سر پر سہرا باندھیں ۔ بچپن میں ممانی کا خیال تھا کہ اس کی شادی میری بہن سے کریں گی لیکن جب دولت  چھپڑ پھاڑ کر برسنے لگی تو ان کی نیت بدل گئی ۔ اور ان کو میری آپی سے رشتہ بے جوڑ لگنے لگا۔ انہوں نے باتوں باتوں میں میری والدہ کو باور کرا دیا کہ وہ بیٹے کا رشتہ   اپنے ہم پلہ لوگوں میں کریں گی، لہذا آپ لوگ آس میں نہ رہیں۔

ارمغان سیدھا ساده بس اللہ لوگ تھا۔ اس لڑکے نے کبھی نہ سوچا کہ خود ہی کسی لڑکی کو پسند کر لوں ، وہ تو کسی کی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھنے سے بھی لجاتا تھا۔ اس کی ماں نے بہو پسند کرنے کی مہم شروع کر دی ۔ بالآخر ان کو ایک لڑکی پسند آ گئی جس کا نام ماہ جبیں تھا۔ ممانی ہر ایک سے یہی کہتی تھیں کہ میں نے ارمغان کے لئے جو لڑکی پسند کی ہے وہ چندے آفتاب ہے۔ جوڑی کو چندے آفتاب و چندے ماہتاب ہی ہونا چاہیے ۔ ماہ جبیں اپنے نام کی طرح سچ مچ چاند کا ٹکڑا تھی ، مگر یہ چاند بے داغ نہیں تھا۔ وہ پہلے ہی کسی کی صورت آنکھوں میں بسا چکی تھی اور اس کے دل پر محبت کا داغ ثبت ہو چکا تھا۔ اس کو اپنا رشتہ ارمغان سے طے ہونے پر بہت قلق ہوا، اس طرح وہ اپنے محبوب سے بچھڑ جاتی ۔ اس نے ساحر کے ساتھ تعلیم حاصل کی تھی، گر چہ گریجویش کے بعد کالج کو خیر باد کہہ دیا تھا، مگر اس کے بعد بھی آپس میں روابط رکھے ہوئے تھے اور باقاعدگی سے ملتے رہتے تھے ۔ ماہ جبیں کے والدین آزاد خیال تھے ۔ ان کو پروا نہ تھی کہ ان کی بیٹی سہیلی کے گھر کا کہ کر کہاں جاتی ہے اور کتنی دیر میں واپس آتی ہے۔ بہر حال ، منگنی ہوگئی ۔ ماموں ممانی بہت خوش تھے تو  ارمغان بھی بہت خوش تھا کہ لڑکی کے حسن نے سحر کا کام کیا تھا۔ یہ کسے خبر تھی کہ وہ تو پہلے سے ہی عشق کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی مجبور لڑکی ہے۔ وہ ایف اے تک میرے ساتھ پڑھ چکی تھی۔ میری اس کے ساتھ دوستی تھی ، لہذا میں اس کو جانتی تھی اور میں ہی کیا ، کلاس کی سب لڑکیاں جانتی تھیں کہ وہ جب کوئی خیال دماغ میں بٹھا لیتی تو پھر اس کو نکالنا محال ہوتا تھا ، اسی لئے سب اس کو جنونی لڑکی کہا کرتی تھیں اور یہاں تو سوال دل کا تھا۔ میں سمجھ رہی تھی وہ بھی ارمغان سے شادی پر راضی نہ ہو گی،کیونکہ وہ ساحر سے وعدے کر چکی ہے۔ اس کے والدین دولت مند تھے۔ ان کو اپنی دولت و حیثیت کا بخوبی علم تھا۔ انہوں نے بیٹی کو سمجھایا کہ ارمغان کا رشتہ بہت اچھا ہے کیونکہ لڑکا نیک اطوار اور خوبصورت ہے اور سونے پر سہاگہ ، والدین کی دولت کا اکلوتا وارث ہے، لہٰذا ہمارا کہا مان لو اور اس رشتہ سے انکار مت کرو۔ والدین کے دباؤ سے بے حد پریشان بھی کیونکہ ساحر ایک اوسط گھرانے سے تھا، جہاں زندگی سفید پوشی کے کفن میں لپٹی ہوئی تھی,گر ہزاروں خواہشات کا گلا گھونٹ کر جینا پڑتا تھا۔ دوست ہونے کے ناتے ماہ جبیں  نے اپنی پریشانی مجھ سے بیان کی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ ارمغان کا رشتہ بچپن میں بھی میری آپا سے طے ہوا تھا- بہر حال، وہ مجھ پر اعتماد کرتی تھی تبھی کہا۔ شازیہ بتاؤ، میں کیا کروں؟ میں اپنے والد سے مقابلہ نہیں کر سکتی تو کیا میں ساحر کے ساتھ بھاگ جاؤں؟ ایسا مت کرنا میں نے اس کو سمجھایا۔ والدین کو دھوکا دے کر گھر سے بھاگ جانے پر جانتی ہو ، ان کو کس قدر صدمہ ہو گا ؟ انہوں نے تمہیں پالا پوسا ، تمہارے لاڈ اٹھائے ہیں۔ کیا یہ صلہ دو گی تم ان کے پیار کا ؟ جب کہ ساحر کے خاندان کے بارے تم جانتی بھی نہیں ہو۔ اس کا گھر دیکھا ہے اور نہ اس کی فیملی سے ملی ہو۔ یہ تو آنکھیں بند کر کے کنویں میں چھلانگ لگانے والی بات ہے۔ تو پھر میں کیا کروں ؟ تم ساحر سے ملتی ہونا ؟ ہاں ۔میں تو اسے ایک ایک لمحے کی رپورٹ دیتی ہوں ۔ ہم مسلسل رابطے میں ہیں ۔ کیا تم نے اسے بتایا ہے کہ تمہارا رشتہ ارمغان سے ہو رہا ہے؟ ہاں بتایا ہے۔ اس نے کیا کہا ؟ وہ خاموش رہا ، وہ کچھ نہیں کہتا ہے۔

اس بات پر میں چونک گئی۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے، جبکہ آگ دونوں طرف برابر لگی ہو۔ دل کی لگی کب کسی کو چین سے بیٹھنے دیتی ہے، پھر اتنی بڑی بات کو سن کر ساحر چپ کیوں ہے؟ حقیقت یہ تھی کہ گھر میں جو بات ہوتی یا والدین شادی کے بارے جو مشورے کرتے ، وہ ایک ایک حرف اپنے چاہنے والے کے گوش گزار کر دیتی تھی اور یہ شخص ایک لفظ نہیں کہتا ، حالانکہ جب عشق کا بھوت سوار ہو تو دماغ کے چراغ گل اور آنکھوں پر پٹی بندھ جاتی ہے۔ نو عمر لڑکیاں سچے جذبوں کے ساتھ کسی نوجوان پر بھروسہ کر لیتی ہیں۔ دوسرے معنوں میں اس کے ساتھ عشق اور وفا کا رشتہ نباہ رہی ہوتی ہیں جب کہ وہ یہ نہیں جانتیں کہ ان کا محبوب کس لائق ہے؟ کس قماش کا ہے؟ یوں وہ نادانی میں لٹ جاتی ہیں،  یا والدین کی ناموس کو خاک میں  ملا کر کسی کوٹھے کی زینت بن جاتی ہیں یا قتل ہو جاتی ہیں۔ برے عناصر کے چنگل میں پھنستی ہیں یا غلط لوگوں سے بلیک میل ہوتی رہتی ہیں۔ میں نے بہت سوچ سمجھ کر اس کو مشورہ دیا کہ    ماہ جبیں جتنی پریشان تمہیں ہے، ویسی ہی ساحر کو بھی ہونی چاہیے تھی ، مگر وہ چپ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لے رہا تم ایسا کرو، اسے کہو کہ وہ تمہارا ساتھ دے تا کہ تم ارمغان کے بجائے اس کے ساتھ شادی کر پاؤ- کیسا ساتھ؟ وہ پوچھنے لگی۔ یہ تم اس سے پوچھ لینا کہ وہ کس طرح تمہارا ساتھ دے سکتا ہے، پھر جو وہ کہے اس پر عمل کر لینا ۔ اگر اس نے گھر سے بھاگ چلنے کو کہا تب؟ جبیں اور زیادہ پریشان ہو گئی۔ ارے بھئی، پہلے اس سے بات تو کرو جب وہ کہے کہ بھاگ چلتے ہیں، تب مجھے بتانا، پھر سوچیں گے کیا کرنا ہے۔ ٹھیک ہے، تم کہتی ہو تو میں اس سے ساتھ دینے کا کہتی ہوں تم کو کہنا ہی پڑے گا نہیں کہو گی تو مسئلہ کیسے حل ہو گا۔ راہ فرار نہ پا کر اس نے ساحر سے کہا۔ ڈیڈی کسی صورت میری شادی کسی اور سے کرنے پر راضی نہیں ہوں گے۔ ان کا تو بس یہی فیصلہ ہے کہ ارمغان کو ہی داماد بنانا ہے۔ اب تم بتاؤ میں کیا کروں؟ اگر تم ساتھ دو تو میں تمہاری ہر بات ماننے کو تیار ہوں ۔ ہم گھر سے بھاگ کر کورٹ میرج کر لیتے ہیں یہی وقت ہے۔ ماہ جبیں اس کو بتا چکی تھی کہ جس لڑکے سے اس کی شادی ہو رہی ہے، وہ جائیداد کا اکلوتا وارث ہے۔ تبھی ساحر نے اس کو یہ مشورہ دیا کہ فی الحال وہ والدین کا کہنا مان لے۔ وہ بولا۔ تم ارمغان سے شادی کر لو لیکن مجھ سے رابطہ مت توڑنا ۔ اس طرح ہم ملنے کی کوئی صورت نکال لیں گئے۔ یہ جواب سن کر ماہ جبیں اور پریشان ہو گئی ۔ سوچنے لگی کہ ساحر کو یہ پتا نہیں ہے کیا کہ ایک شادی شدہ عورت کا کسی دوسرے مرد سے ملنا ملانا یا رابطہ رکھنا، اتنا آسان نہیں ہوتا، پھر بھی اس نے کتنے آرام سے یہ بات کہہ دی۔ ایک بار بھی نہیں کہا کہ شادی سے انکار کردو، یا میں اپنے گھر والوں کو رشتے کے لئے تمہارے گھر بھیجتا ہوں ۔

ماہ جبیں کے والد روشن خیال تھے۔ ممکن تھا کہ اس کے آنسو ان کا دل موم کر ہی لیتے لیکن ایسا تبھی ممکن تھا جب ساحر ایک بار رشتہ مانگنے کی ہامی تو بھرتا۔ جبیں نے مجھے بتایا کہ ساحر نے تو ٹھنڈے ٹھنڈے یہ جواب دیا ہے۔ اب کیا کروں؟ مجھے اندازہ تھا کہ ساحر ایک لالچی نوجوان ہے، جبکہ ماہ جبیں اپنے جذبے میں سچی اور کھری ہے، مگر کچی عمر میں تجربہ نہیں ہوتا۔ اس جیسی لڑکیاں نہیں جانتیں کہ زمانہ کیا ہے، دنیا کیسی ہے، لوگ کیسے ہیں؟ اور جس کو ہم دل کی گہرائیوں سے چاہتے ہیں ، وہ کیسا ہے؟ ماہ جبیں والدین کی لاڈلی ، بھولی بھالی بیٹی تھی ۔ وہ یہ کیسے اندازہ کر سکتی تھی کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ اس جیسی لڑکیوں کو کچھ پتا نہیں ہوتا ، نہ مستقبل میں پیش آنے والی سنگینوں کا احساس ہوتا ہے۔ بس عشق کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہوتا ہے، تبھی یہ لڑکیاں برباد ہو جاتی ہیں، پھر والدین یاد آتے ہیں جو سچا پیار کرتے ہیں، ہر دکھ اور غم سے بچاتے ہیں، لیکن پھر پچھتاوے کیا ہوت ، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ، پانی سر سے گزر جائے، تو پچھتاوا ہی باقی رہ جاتا ۔ ہے۔ ساحر نے اوپر نرم مزاجی کا خول چڑھایا ہوا تھا مگر وہ اندر سے سفاک دل تھا۔ اسے بخوبی اندازہ تھا کہ جبیں کا ذہن اس کی گرفت میں ہے اور وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ وہ جب چاہے گا ، اس کو اپنی طرف کھینچ لے گا۔ وہ خوش شکل مگر چالاک تھا۔ دو سال تو وہ میرا بھی کلاس فیلو رہا تھا، میں اس کے بارے کچھ نہ کچھ اندازہ لگا چکی تھی۔ وہ دوہری شخصیت کا مالک تھا۔ اس کا اصل روپ کچھ اور تھا لیکن جب کسی سے ملتا تو بناوٹی اخلاق کا لبادہ اوڑھ لیتا تھا۔ میں نے ایک دو بار ماہ جبیں کو سمجھایا مگر وہ ساحر کے سحر میں گلے گلے ڈوبی ہوئی تھی۔ وہ اس کے لئے کچھ بھی کر سکتی تھی میں نے سیکنڈ ایئر کے آخری دنوں میں اس سے کنارہ کر لیا تھا۔ جب بات کرتی ، طوطے کی طرح ساحر کی رٹ لگائے رکھتی تھی میں اس کو  جنونی لڑکی کہا کرتی تھی۔ ساحر بھی اس کی اس کمزوری سے واقف تھا۔ جب اس نے ماہ جبیں سے کہا کہ تم ارمغان سے شادی کر لو تو جبیںکو ڈھارس ہو گئی کہ بعد میں کوئی حل نکال کر وہ اسے اپنا لے گا ۔ یوں اس لڑکی نے محبوب کا کہا مان کر ارمغان سے شادی کر  لی۔ ساحر نے چونکہ اس سے وعدہ لے لیا تھا کہ شادی کے بعد وہ اس سے رابطہ برقرار رکھے گی تبھی جب اس کا شوہر گھر سے باہر جاتا، وہ فون پر ساحر سے باتیں کرتی اور اس سے ہدایات لیتی ۔ ساحر اس کو سمجھاتا کہ تم اپنے شوہر کے ساتھ اچھی طرح رہو۔ اس کے پیار کا جواب پیار سے دو۔ اس کو بالکل شک نہ ہو کہ تمہاری نیت کچھ اور کرنے کی ہے، کیونکہ تم کو اس کا اعتماد جیتنا ہے۔ جب تک اس کا اعتماد نہ جیتو گی ، ہم اپنا مقصد نہ پا سکیں گے۔ ماہ جبیں کو کیا خبر تھی کہ کھوٹ تو ساحر کی نیت میں ہے۔ اگر وہ اس کا گھر بسائے رکھنے یا اس کے ماں باپ کی عزت کی خاطر ایسی ہدایات اسے کرتا تو بالا شبہ وہ ایک عظیم اور فرشتہ صفت انسان ہوتا لیکن ایسا بالکل نہ تھا۔ ادھر بے چارہ ارمغان جو ماہ جبیں کو پا کر بہت خوش تھا ، اپنی بیوی کو ٹوٹ کر چاہنے لگا تھا۔ وہ اس کا بہت خیال رکھتا تھا۔ ماموں اور ممانی اس پر صدقے واری ہوتے ۔ مدت بعد اس گھر میں خوشی آئی تھی ، وہ سب کی چہیتی تھی۔ کچھ دنوں تک رشتہ داروں کی چہل پہل رہی اور مبارک سلامت کا سلسلہ چلتا رہا، دعوتیں ہوتی رہیں، پھر جب یہ ہنگامہ ذرا سرد ہوا تو ماہ جبیں نے ساحر سے پوچھا۔ اب مجھے کیا کرنا ہے؟ ان لوگوں نے تو مجھ سے بہت زیادہ دل لگا لیا ہے ۔ یہاں نئی زندگی شروع ہو چکی ہے اور میں اس زندگی کا حصہ بنتی جا رہی ہوں ۔ ہم کیسے ایک ہو سکیں گے؟ جتنا وقت گزرتا جائے گا اتنی دوری بڑھتی جائے گی ۔ آخر تم نے سوچا کیا ہے؟ سو چا یہ ہے کہ تم ارمغان کو رستے سے ہٹاؤ گی اور ہم پھر ایک ہو جائیں گے۔ اس سے پہلے تم پیار پیار میں ارمغان کی جائیداد اور بینک بیلنس اپنے نام کرواتی رہو۔ تمہارے سسر دل کی مریض ہیں ، اب بیمار بھی رہنے لگے ہیں۔ انہوں نے کاروبار بیٹے کو سونپ دیا ہے۔ میں اسی لئے مناسب وقت کے انتظار میں ہوں ۔

جو لوگ منفی سوچیں رکھتے ہیں، لمبی منصوبہ بندی کرتے ہیں ، وہ بڑے تحمل کے ساتھ اپنی منصوبہ بندی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کا بھی سوچتے رہتے ہیں۔ ساحر کا ذہن اسی طرح تھا اور جبیں روبوٹ کی طرح اس کے ہر حکم پر عمل کر رہی تھی۔ ہمارے ماموں ممانی زیادہ چالاک نہ تھے۔ انہیں گمان بھی نہ تھا کہ وہ جس بہو کو پھولوں کی طرح رکھتے ہیں ، اپنی بیٹی سمجھتے ہیں ، وہ کس ڈگر پر چل رہی ہے۔ انہی دنوں ماموں بیمار ہوئے اور وفات پا گئے ۔ ایک بڑا کانٹا از خود ان کے رستے سے نکل گیا اور ساری جائیداد ارمغان کے نام ہو گئی۔ اب جبیں نے کہنا شروع کیا کہ آپ جائیداد میرے نام کر دیں ۔ اگر آپ کو مجھ سے محبت ہے تو مجھے محفوظ کریں ۔ ارمغان نے کہا۔ ایک شرط پر، جونہی ہمارے گھر پہلا بچہ ہوگا، جائیداد تمہارے نام ہو جائے گی۔ جبیں جو بچے کی پیدائش کے حوالے سے احتیاطوں میں لگی تھی ، اس نے ساحر کو شوہر کی شرط بتا دی۔ ساحر نے کہا۔ کوئی بات نہیں ، اس طرح اگر تم صاحب جائیداد ہو جاتی ہو تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے، تب جبیں نے احتیاط چھوڑ دی اور ایک بیٹی کی ماں بن گئی ۔ اب اس نے شوہر کو اس کی شرط یاد دلائی۔ ارمغان تو بیوی کی محبت میں سرشار رہتا تھا۔ اس نے کہا۔ یہ بھی کوئی مسئلہ ہے میری جان، میں تمہارا ہوں تو میری ہر شے تمہاری ہی ہے۔ یوں ایک روز اس نے محبت کی سرشاری میں آدھی  جائیداد  بیوی کے نام کر دی اور کہا کہ باقی کہ باقی جائیداد، بیٹے کی پیدائش پر تحفہ دوں گا۔ ممانی نے تو پہلے ہی اپنا حصہ ارمغان کے نام کر دیا تھا۔ انہوں نے اور کسے دینا تھا۔ جب جبیں نے بیٹے کو جنم دیا تو ارمغان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ اب بھلا کون ان کی خوشگوار زندگی بارے شک کر سکتا تھا۔ ارمغان نے اپنے کل مال و متاع کا مالک بیوی کو بنا دیا۔ عورت کتنی بھی گم راہ ہو ، جب ماں بن جاتی ہے تو اپنے بچوں سے وفادار ہو جاتی ہے – اور اسی سبب شوہر کے ساتھ بھی وفا نباہ دیتی ہے مگر جیں جانے کس مٹی کی بنی تھی کہ اسے نہ تو بچوں کا خیال تھا اور نہ گے شوہر کے بے لوث پیار کا۔ اس کا دل خاوند کی چاہت پا کر بھی اس کی جانب مائل نہ ہو سکا۔ وہ اب بھی ساحر کے سحر میں گرفتار، اس کے خیالوں میں گم رہتی تھی جبکہ ایک شادی شدہ عورت کے لئے وہ غیر محرم تھا، لیکن اس نادان کے دل پر تو جیسے مہر لگ چکی تھی کہ اُسے اچھائی برائی گناہ و ثواب کسی بات  کا لحاظ ہی نہ رہا تھا۔ وہ اگر شادی کے بعد ساحر سے رشتہ توڑ کر رابطے ختم کر ڈالتی تو اپنا گھر آباد کر کے گھریلو خوشیوں سے دامن بھر لیتی اور اپنے بچوں کی محبت سے بھی لطف اندوز ہوتی مگر اس بد نصیب عورت کے لئے، خوش نصیبی، گھر کا سکون شوہر کا پیار، تمام آسائش و آرام بے معنی ہو گئے تھے۔ واقعی وہ ایسے جنونی لوگوں میں سے تھی، جن کو اخلاقی اقدار کا لحاظ نہیں رہتا۔ ممانی اب اکثر بیمار رہنے لگی تھیں۔ جبیں نے ارمغان سے کہا کہ مجھ سے تمہاری ماں کی خدمت نہیں ہوتی ، مجھے الگ گھر میں رہنا ہے۔ اپنے بچوں کو دیکھوں یا تمہاری ماں کی دیکھ بھال کروں ۔ ارمغان اپنی بوڑھی ماں سے علیحدہ نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اس بات پر آئے دن جھگڑا، فساد رہنے لگا۔ ماں تو پھر ماں ہوتی ہے۔ اس نے جب گھر میں اپنی وجہ سے کی بے سکونی دیکھی تو بیٹے کی پریشانی کا غم دل پر لے لیا۔ وہ بہو کی چخ چخ سن کر اتنی بیمار پڑیں کہ انہیں اسپتال میں داخل کرانا پڑا ۔ ساس کی غیر موجودگی میں بہو کو پوری آزادی مل گئی۔ اب منصوبے پر عمل درآمد کا وقت آ گیا تھا۔ نوکر سے کہا کہ میں اماں کو دیکھنے اسپتال جا رہی ہوں تم بھی ساتھ چلو ۔ اس نے دونوں بچوں اور آیا کو بھی ساتھ لے لیا۔ آیا سے کہا کہ اسپتال کے اندر چھوٹے سے بچوں کو نہیں لے جاسکتے تم ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی رہنا ، اور ڈرائیور سے کہا کہ تم بھی گاڑی کے پاس رہو، تاکہ بچوں کی نگرانی کر سکو۔ پھر وہ نوکر کے ہمراہ ساس کو دیکھنے ان کے روم میں چلی گئی ۔ شوہر کو چلتے وقت فون کر دیا تھا کہ آپ گھر آ جائیے ، میں اماں کو دیکھنے جا رہی ہوں ۔ ارمغان کے پاس گھر کی دوسری چابی تھی ۔ وہ فوراً گھر روانہ ہو گیا۔ گیٹ پر پہنچا، تالا کھولا اور آرام کرنے اپنے کمرے میں چلا گیا۔ رات بھر ماں کے پاس جاگتے گزارنے سے وہ بہت تھک گیا تھا۔ لیٹتے ہی نیند آ گئی۔ جیں نے گھر کی ایک چابی ساحر کو بھی دے رکھی تھی ، جو اس منصوبے میں کام آنے والی تھی۔

ایک پڑوسی نے گیٹ کھلا دیکھا تو اُسے اچنبھا ہوا کہ آج ارمغان کا گیٹ کیوں کھلا ہوا ہے؟ یہ لوگ تو چھوٹے بچوں کی وجہ سے ہمیشہ گیٹ بند رکھتے تھے۔ اس نے جھانکا تو جو گاڑی ارمغان کے استعمال میں رہتی تھی، سامنے ہی نظر آ گئی، جبکہ دوسری گاڑی اور ڈرائیور موجود نہیں تھے۔ اس نے نوکر کو آواز دی، جو ہمیشہ گیٹ پر موجود رہتا تھا، مگر آج وہ بھی موجود نہ تھا۔ اس نے بہت آوازیں دیں ، بیل دی، مگر کوئی جواب نہ ملا جیسے گھر میں کوئی موجود نہ ہو۔ راحیل ان کا پرانا پڑوسی تھا۔ جانتا تھا کہ ارمغان کی امی بیمار ہیں اور اسپتال میں داخل ہیں ۔ شاید ایمر جنسی میں یہ لوگ نکلے ہیں اور گیٹ بند کرنا بھول گئے ۔ وہ گھر کے اندر چلا گیا۔ اس نے ارمغان کو پکارا۔ اس کے کمرے کا دروازہ بھی کھلا ہوا تھا۔ اس نے کمرے کا جو نظارہ دیکھا، تو کانپ کر رہ گیا۔ کسی نے ارمغان کو گولی مار دی تھی کیونکہ وہ فرش پر اوندھے منہ پڑا ہوا تھا اور خون فرش پر بکھرا ہوا تھا۔ وہ یہ منظر دیکھ کر دہل گیا۔ یا الہی یہ کیا ماجرا ہے؟ راحیل نے فوراً پولیس کو فون کر کے واقعے کی اطلاع دی۔ پولیس نے آکر مکان کو گھیرے میں لے لیا۔ راحیل ، دو چار مرتبہ ارمغان کے ساتھ ممانی کی عیادت کے لئے جاتا رہا تھا، پولیس کے ساتھ اسپتال گیا، جہاں ماہ جبیں ، ساس کے پاس بیٹھی ہوئی تھی اور بچے ملازمہ کے ہمراہ گاڑی میں موجود تھے۔ جب راحیل نے بتایا کہ کسی نے ارمغان کو گھر کے اندر گولی مار دی ہے تو یہ سنتے ہی ممانی کا ہارٹ فیل ہو گیا اور ماہ جبیں زار و قطار رونے لگی۔ سسر تو پہلے ہی داغ مفارقت دے چکے تھے، شوہر اور ساس بھی راہی ملک عدم ہو گئے ۔ وہ رو رو کر کہتی تھی کہ اب اس کا اور اس کے بچوں کا کیا ہوگا ۔ اس کے والدین کو بھی راحیل نے اطلاع کی جو جبیں اور بچوں کو ساتھ اپنے گھر لے آئے۔ پولیس نے محلے داروں سے پوچھ گچھ کی ۔ ہر ایک نے گواہی دی کہ میاں بیوی میں آپس میں بہت پیار تھا اور حسن سلوک سے رہ رہے تھے۔ ہم نے کبھی ان کا جھگڑا نہیں سنا۔ ماہ جبین کے اخلاق کی سب نے تعریف کی اور گواہی دی کہ وہ کبھی روٹھ کر میکے نہیں جاتی تھی۔ ماہ جبیں کے والدین کی معاشرے میں کافی عزت تھی۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ ایسی حرکت کر سکتی ہے، البتہ ارمغان کے قتل کو لوگ ذاتی دشمنی کا شاخسانہ قرار دے رہے تھے، کیونکہ دو کرایہ داروں سے ان دنوں اس کا جھگڑا چل رہا تھا جو اس کی دوکانیں خالی نہیں کرتے تھے اور کرایہ بھی وقت پر ادا نہیں کرتے تھے۔ کچھ دن تفتیش ہوتی رہی پھر کیس دفتر دخل ہو گیا کہ یہ اندھا قتل تھا۔ ارمغان کے ساس سسر نے بھی توجہ سے کیس کی پیروی نہیں کی کہ ان جنجھٹوں کا وبال کون بھگتا ہے۔ میرے ابو اور ماموں کچھ دن بھاگ دوڑ کرتے رہے پھر وہ بھی تھک ہار کر بیٹھ گئے۔

ایک سال بعد ماہ جبیں کی دوسری شادی ہو گئی جس شخص سے شادی ہوئی تھی ، اس کا نام سنا تو میں دنگ رہ گئی ، پھر خود کو سمجھایا کہ اس کی کسی سے تو شادی ہونا تھی۔ اُسی سے کر لی ہے جس سے چاہت تھی ، ایسا تو ہوتا ہی ہے۔ یہ دونوں خوشگوار زندگی گزارنے لگے ۔ ماہ جبیں کو سابقہ شوہر کی جدائی کا ملال تھا یا ساحر سے شادی کر کے خوشی ہوئی ؟ یہ تو وہ جانے یا خدا، کیونکہ ضمیر تو انسان کے اندر ہوتا ہے اور قدرت غلط کاموں کی سزا بھی ضرور دیتی ہے۔ قاتل زمانے کی نظروں سے چھپ جائے تو بھی قدرت کے ہاتھوں سے نہیں بچ سکتا ۔ ماہ جبیں پر جلد ہی ساحر کی حقیقت کھل گئی۔ رفتہ رفتہ اس نے ساری دولت و جائیداد ہتھیا لی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک گھر اور دو دکانوں کے سوا جبیں کے پاس کچھ نہ بچا۔ اس عورت نے ساحر پر اندھا اعتماد کیا تھا کیونکہ محبت ہوتی ہی اندھی ہے۔ جب سب کچھ لٹ چکا ، تب عقل سے پیدل ماہ جبیں کو ہوش آیا۔ اب ساحر کا رویہ اس کے ساتھ اہانت آمیز ہو چکا تھا۔ ساحر کہتا کہ اپنے دونوں بچوں کو ماں کو دے آئے لیکن وہ اپنے معصوم بچوں کی جدائی برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ ایک دن ساحر نے ماہ جبیں کو یہ کہہ کر طلاق دے دی کہ تم ایک جنونی عورت ہو۔ تمہارا کوئی بھروسہ نہیں ، کیا خبر کل تم میرے ساتھ کیا کرو؟ کیا پتا تم مجھے زہر دے دو۔ وہ روتی بچوں کے ساتھ والدین کے گھر لوٹ آئی اور رو رو کر اپنی بپتا سنائی ۔ اس نے بتایا کہ سب کچھ ہتھیانے کے بعد ساحر اس سے وہ گھر بھی اپنے نام لکھوانا چاہتا تھا جس میں وہ رہتے تھے۔ انکار پر اس کو طلاق دے دی اور دولت سمیٹ کر بیرون ملک چلا گیا۔

یہ ہوا جنونی محبت کا انجام ! سوچتی ہوں، ماہ جبیں کے پاس کیا بچا ؟ اس نے تو خود اپنی خوشیوں کو آگ لگائی ۔ کیا اس کو محبت کہتے ہیں، سمجھ نہ پائی کہ کس نے کس سے محبت کی. ارمغان نے ماہ جبیں سے اور ماہ جبیں نے ساحر سے اور ساحر نے دولت سے ؟ ساحر کو تو دولت مل گئی مگر جبیں کو کیا ملا؟ سوائے اس کے کہ اس نے اپنے اور بچوں کے دامن میں پھولوں کی جگہ خار بھرے اور اپنے والدین کے دامن میں غم ڈال دیئے۔

Latest Posts

Related POSTS