ہم گاؤں میں رہتے تھے، جبکہ ماموں شہر میں رہائش پذیر تھے۔ جب چھٹیاں ہوتیں، تو شہر کی رونقیں دیکھنے کے شوق میں ہم ماموں کے ہاں جانے کی ضد کرتے، خاص طور پر میں، کیونکہ مجھے اپنے ماموں سبحان سے بہت لگاؤ تھا۔ ہم سب ساتھ کھیل کر بڑے ہوئے تھے۔ میری پسند کا خیال رکھتے ہوئے امی نے بڑی کوششوں کے بعد ماموں کو اس بات پر راضی کر لیا کہ میرا رشتہ سبحان سے ہو جائے۔ یوں رشتہ طے پایا، اور کچھ عرصے بعد میں ان کی بہو بن کر شہر آ گئی۔
شروع میں میں بہت خوش و خرم تھی، مگر رفتہ رفتہ گھٹن کا احساس بڑھنے لگا، کیونکہ میں دیہات کی کھلی فضا اور تازہ ہوا کی عادی تھی، جہاں خالص غذا ملتی تھی۔ اسی لیے میں دیگر لڑکیوں کی نسبت زیادہ صحت مند، تر و تازہ اور خوبصورت لگتی تھی۔ جو بھی مجھے دیکھتا، بس دیکھتا ہی رہ جاتا۔شادی کے ابتدائی دنوں میں سبحان نے مجھ پر کچھ توجہ دی، لیکن جلد ہی وہ اپنی مصروفیات میں کھو گیا۔ وہ نہ مجھے وقت دیتا، نہ اہمیت۔ مجھے وہ ایک اجڈ دیہاتی لڑکی سمجھتا تھا۔ وہ بہت امیر مگر لاپروا انسان تھا۔ اس کے مشاغل کسی سے ڈھکے چھپے نہیں تھے۔ اس کے گھر والے بھی فکرمند رہتے تھے کیونکہ وہ دولت کمانے کی دھن میں جائز و ناجائز کی پروا نہیں کرتا تھا۔ جلد ہی مجھے احساس ہوگیا کہ اسے میری چاہت کی کوئی پروا نہیں۔اگر میں بیمار ہو جاتی یا کسی چیز کی ضرورت پڑتی، تو وہ بس رقم ہاتھ میں تھما دیتا اور کہتا کہ ماں کو بلا لو اور ان کے ساتھ جا کر جو لینا ہے، لے آؤ۔ امی میری مجبوریاں سمجھ کر اکثر چکر لگا لیتیں اور دو چار دن میرے پاس ٹھہر جاتیں۔ کبھی کبھی ان کے ساتھ میری چھوٹی بہن رفیعہ بھی آجاتی، تو میرا دل بہل جاتا اور میرے دن اچھے گزر جاتے۔ ورنہ میں خود کو اس گھر میں قیدی محسوس کرتی تھی۔گھر میں دو ہی کمرے تھے۔ سبحان صبح ہی چلے جاتے، اور میں تنہا دن بھر ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں آتی جاتی رہتی۔ تبھی در و دیوار مجھ پر گرتے محسوس ہوتے۔ میں سبحان سے کہتی کہ وقت پر گھر آجایا کرو، تنہائی سے دل گھبراتا ہے۔ وہ جواب دیتے کیا میں کام نہ کروں؟ تمہارا غلام بن کر رہوں؟ میں سوچتی کہ اس شخص کو میری ذرا بھی پروا نہیں، حالانکہ میں اس کا کتنا خیال رکھتی ہوں۔شوہر اور بیوی تو ایک دوسرے کے محبوب، دکھ سکھ کے ساتھی اور دوست ہوتے ہیں۔ اگر ان کے درمیان ہمدردی کا رشتہ نہ رہے تو زندگی کیسے خوشگوار گزر سکتی ہے؟ اگر مرد مطلق العنان ہو تو عورت بے چاری دب کر رہ جاتی ہے۔ وہ بھی تو انسان ہوتی ہے، اس کا دل چاہتا ہے کہ شوہر اسے تھوڑا وقت دے، کہیں لے جائے، یا کم از کم جب وہ بیمار ہو جائے تو ڈاکٹر کے پاس ہی لے جائے۔
جب میں اپنی سہیلیوں اور رشتہ دار شادی شدہ لڑکیوں کا حال دیکھتی، تو دل بہت دکھی ہو جاتا کہ ان کے شوہر ان کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ اور ایک میں ہوں، جسے میرا شوہر پوچھتا تک نہیں، حالانکہ وہ غیر نہیں، سگا ماموں زاد ہے۔ کبھی کبھی دل حد درجہ باغی ہو جاتا، تو جی چاہتا کہ گھر سے نکل بھاگوں، کہیں دور جنگل میں چلی جاؤں۔ لیکن میکے والے تو ہمیشہ یہی سبق دیتے کہ بیٹی، خاوند کا گھر ہی تمہاری عزت کی جگہ ہے۔ تم کو یہاں سے مر کر ہی نکلنا ہے۔ پھر آخر جاتی تو کہاں جاتی اور کس سے فریاد کرتی؟مجھے لگتا تھا کہ میں نفسیاتی مریض بنتی جا رہی ہوں۔ اللہ نے مجھے دو بچیاں عطا کر دیں، ورنہ شاید میں کوئی انتہائی قدم اٹھا لیتی۔ لیکن معصوم جانوں کو لے کر کہاں جاتی؟ کہیں میرے لیے کوئی جائے پناہ نہ تھی۔ گھٹن روز بروز بڑھتی جا رہی تھی، اور سبحان کا رویہ بھی روز بروز سرد ہوتا جا رہا تھا۔ وہ گھر میں ہوتے تو بھی مصروف رہتے، ضرورت پڑنے پر ہی بات کرتے، ورنہ اپنے خیالوں میں کھوئے رہتے۔سبحان کو اپنی بچیوں سے کوئی لگاؤ نہ تھا۔ وہ ان سے نہ بات کرتے، نہ پیار کرتے، نہ گود میں اٹھاتے۔ میں شکوہ کرتی کہ آپ کیسے باپ ہیں؟ آپ کو اپنی بچیوں پر کبھی پیار نہیں آتا؟ مگر اس کا کوئی جواب نہ ملتا۔ ہر شکوے کا جواب خاموشی یا ترش روئی سے دیا جاتا۔ سبحان جانے کس مٹی کے بنے ہوئے تھے۔ جیسے پتھر پر پانی پڑے تو کوئی اثر نہیں ہوتا، ویسے ہی ان پر کوئی بات اثر نہیں کرتی تھی۔میں تو بچپن سے ہی ان کی شیدائی اور مرعوب تھی۔ وہ ہر وقت میرے دل و دماغ پر چھائے رہتے تھے۔ اگر مجھے ان کی ذرا سی محبت اور توجہ مل جاتی، تو میری زندگی میں جو طوفان آیا، وہ کبھی نہ آتا۔ میں کوئی غلط عورت نہ تھی، کبھی برے یا گمراہ کن خیالات میرے دل میں نہ آئے تھے۔ ہر دم دعا کرتی کہ خدا مجھے برے راستے سے بچائے، میں کوئی غلط قدم نہ اٹھا لوں۔ مگر ذہنی تناؤ اور تنہائی نے مجھے چڑچڑا بنا دیا تھا، یہاں تک کہ میں اپنی بچیوں سے بھی الجھنے لگی۔ آخر کو میں ایک جیتا جاگتا انسان تھی، مجھے بھی محبت کی ضرورت تھی۔انہی دنوں ہمارے محلے میں نئے لوگ آکر آباد ہوئے۔ ان کی ایک بیٹی، نیلم، میری ہم عمر تھی۔ اسے طلاق ہو چکی تھی، اس لیے وہ بھی تنہائی محسوس کرتی تھی۔ کبھی کبھار وہ میرے گھر آ جاتی، لیکن سبحان نے مجھے سختی سے منع کر دیا تھا کہ محلے میں کسی کے گھر نہ جاؤں۔ زیادہ تر کرایے دار لوگ رہتے تھے، اور سبحان کو ان کی اصلیت کا علم نہیں تھا، اس لیے وہ محتاط تھا۔پھر ایک دن وہی ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ نیلم میرے گھر بریانی دینے آئی اور کہنے لگی کہ پڑوسیوں سے میل جول ہونا چاہیے، اسی لیے میں آئی ہوں۔ آپ بھی کبھی میرے گھر آئیں۔ میں نے اسے اپنی مجبوری بتا دی کہ میں کہیں نہیں جا سکتی، کیونکہ میرے شوہر نے منع کر رکھا ہے۔ البتہ، میں نے کہا کہ تم کبھی کبھار میرے پاس آجایا کرو، اس سے میری تنہائی دور ہو جائے گی۔نیلم بڑی ملنسار تھی، اور اچھی باتیں کرتی تھی۔ وہ ہفتے میں دو بار میرے پاس آنے لگی، اور اس سے میرا دل بہلنے لگا، کیونکہ مجھے بھی کوئی بات کرنے والا مل گیا تھا۔ لیکن جب نیلم نے میرے حالات دیکھے، تو آہستہ آہستہ میرے کان بھرنے لگی۔ اس نے مجھے صلاح دی کہ تم اپنے شوہر سے طلاق لے لو اور کسی ایسے شخص سے شادی کرو جو تمہیں محبت دے سکے، ورنہ یوں ہی ساری عمر گھٹ گھٹ کر مر جاؤ گی۔
تمہارا شوہر ایک بے حس انسان ہے، اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ تم زندہ رہو یا مر جاؤ۔بلاشبہ یہ نیلم ہی تھی، جس کی باتوں سے میرے اندر غلط قدم اٹھانے کی امنگ اور باطل خیالات پیدا ہوئے۔ ان دنوں مجھے بیٹھے بٹھائے چکر آتے، آنکھوں تلے اندھیرا چھا جاتا اور میں نیم جان سی ہو کر گر جاتی۔ سبحان کو بتایا تو انہوں نے حسب معمول رقم دے دی اور کہا کہ اپنی امی کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس چلی جاؤ، میرے پاس وقت نہیں ہے۔ میں والدہ کو ساتھ لے کر ڈاکٹر کے پاس گئی۔ ڈاکٹر نے تاریخ دے دی کہ اس تاریخ کو تمہیں اسپتال میں داخل ہونا ہے۔ تمہارا چھوٹا سا آپریشن ہوگا۔ یہ ضروری ہے، اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔سبحان گھر آئے، میں نے پرچی ان کو دکھائی۔ فرمایا کہ مشکل ہے، میں تمہارے ساتھ نہیں جا سکتا، والدہ کس لیے ہیں؟ مجبوراً میں مقررہ تاریخ پر اسپتال میں داخل ہو گئی اور میری بچیوں کو نسلم نے اپنے پاس رکھ لیا۔ وارڈ میں فی میل نرسوں کے ساتھ میل نرس بھی تھے۔ اس دوران ایک نوجوان بار بار میرے پاس آتا۔ اس کا نام مکرم تھا۔ وہ بہت خوش اخلاق، ہمدرد اور اچھی شکل والا تھا۔ وہ امی کو “امی جان” کہہ کر پکارتا اور کہتا کہ کسی قسم کی تکلیف یا کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتائیں، میری ڈیوٹی آپ کے ہی وارڈ میں ہے۔ یوں وہ دن میں کئی چکر لگاتا۔ اس کی کوشش ہوتی کہ جو اس کے دل میں چھپا ہوا ہے، کہہ دے، لیکن جھجکتا بھی تھا۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ مجھ سے کیا کہنا چاہتا ہے۔اس نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ صرف والدہ ہیں اور کوئی نہیں آیا؟ میں نے بتایا کہ میرے خاوند کو فرصت نہیں، دراصل ان کو میری پرواہ ہے اور نہ مجھ سے محبت۔ ان کی بلا سے میں جیوں یا مروں! دراصل میں دل جلی تھی۔ ہر کسی کے آگے دل کے پھپھولے پھوڑنے بیٹھ جاتی تھی۔ اپنا ہو یا غیر، کوئی ذرا سی ہمدردی کرتا تو میں تمام احوال اسے کہہ سناتی۔ یہ بھی نہ سوچتی تھی کہ اس سے کوئی دوسرا غلط فائدہ بھی اٹھا سکتا ہے۔آپریشن کے دن ڈاکٹر کے آنے سے پہلے مکرم نے مجھے انجکشن لگانا تھا، مگر وہ خیالات میں کھویا ہوا تھا اور سرنج اس کے ہاتھ میں تھی۔ تب نرس نے اسے خیالات سے جگایا اور کہا، “انجکشن لگا دو، سوچنے کے لیے بہت وقت ہے۔ وہ دائیں ہاتھ سے انجکشن لگا رہا تھا اور بایاں ہاتھ میرے سر پر، بالوں میں تھا۔ اس نے کہا، گنتی گنو! اور پھر میں نیند میں چلی گئی۔ جانے کیسے میرے منہ سے یہ الفاظ نکلے کہ “اگر میں مر گئی تو تم میری قبر پر فاتحہ پڑھنے ضرور آنا۔آپریشن کامیاب ہو گیا۔ میں جب ہوش میں آئی تو اس نے امی کو کہا، امی جان! دیکھئے، آپ کی بیٹی اس وقت مجھے ایسے کہہ رہی تھی۔ اس پر میں شرمندہ نہ ہوئی۔ جتنے دن میں اسپتال میں رہی، اس نے ہر طرح سے میرا خیال رکھا۔ انجکشن، دوائیں اسپتال سے لے کر دیں، اور اگر باہر سے کچھ منگوانا ہوتا، تو وہ بھی لا کر دیتا تھا۔ الغرض، جتنے دن میں اور امی اسپتال میں رہے، اس نے خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ اس کی خدمت اور حسن سلوک نے میرا دل جیت لیا ہم اسپتال سے گھر آ گئے، اسے پتا دے آئے تھے۔
ایک دن وہ پھر آیا تو امی نے اسے بٹھایا، خاطر تواضع کی۔ چھٹی کا دن تھا، سبحان بھی گھر پر تھے۔ امی نے ان سے مکرم کا تعارف کروایا اور بتایا کہ اس نے اسپتال میں ہمارا بہت خیال رکھا تھا۔ میرے خاوند نے اس وجہ سے اس کی مہمان نوازی کی۔ مکرم نے گاؤں جانا تھا، مگر رات زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ گاؤں نہیں جا سکا۔ تو میرے شوہر نے اسے بیٹھک میں ٹھہرا دیا۔یہ بتانا بھول گئی کہ سبحان رات کو جب دیر سے گھر آتے تو نیند کی دو گولیاں دودھ کے ساتھ کھا کر گہری نیند سو جاتے اور میں اپنے خیالوں میں رہتی، اس طرح صبح ہو جاتی۔ اس رات بھی سبحان بھول گئے کہ مہمان کو گھر میں ٹھہرایا ہے۔ دودھ کا آرڈر دیا اور گولیاں ہاتھ میں تھام کر میرا انتظار کرتے رہے۔ مجھ سے کہا کہ کیا مہمان نے کھانا کھا لیا ہے؟ پھر گولیاں کھاتے ہی بستر پر لمبی تان کر سو گئے۔ مجھے بڑا دکھ ہوا۔ اتنے انتظار کے بعد بھی اتنی بے رخی کہ میرا دل زخمی ہو گیا اور میں نے سوچا کہ یہ بے حس شخص جہنم میں جائے۔رات کو نیند نہ آ رہی تھی تو سوچا مہمان سے بات چیت کر لوں۔ لہٰذا دودھ کا گلاس بھرا اور مکرم جہاں سو رہا تھا، اس کمرے میں گئی۔ وہ جاگ رہا تھا۔ میں نے اصرار کر کے اسے دودھ کا گلاس دیا اور پھر اس سے باتیں کرنے بیٹھ گئی۔ جب میں نے گھڑی دیکھی تو رات کا ایک بجا تھا اور میرا شوہر غافل خراٹے لے رہا تھا۔ مکرم اور میں صبح چار بجے تک باتیں کرتے رہے۔ صبح ہو گئی، مگر ہماری باتیں ختم نہ ہوئیں۔میں نے اسے ایک ہمدرد دوست سمجھ کر سبحان کی ساری زیادتیاں رو رو کر بتائیں۔ اس نے کہا، ہاں، آج میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے، تم واقعی سچ کہہ رہی ہو۔ کوئی اس قدر غافل اور بے حس نہیں ہوتا جیسا تمہارا خاوند ہے۔ یہ واقعی تم سے محبت نہیں کرتا۔پانچ بجے اس کی بس جانی تھی، اس لیے وہ چار بجے ہی چلا گیا، پھر اس کے بعد اس نے گاؤں سے واپس آتے ہی مجھ سے رابطہ کیا۔ میں نے اسے نیلم کا فون نمبر دیا تھا۔ وہ نیلم کے ذریعے مجھ سے فون پر باتیں کرتا تھا۔ اس نے مجھے طلاق لینے پر اکسانا شروع کر دیا اور وعدہ کیا کہ اگر تم نے خاوند سے طلاق لے لی تو میں تم کو ضرور اپنا لوں گا اور ہر طرح سے خوش رکھوں گا۔میں نے حالات سے باغی ہو کر اس کا ساتھ نبھانے کا وعدہ کر لیا اور امی سے کہا کہ میں سبحان سے طلاق لے کر مکرم سے شادی کرنا چاہتی ہوں امی اور گھر والوں نے مجھے بہت سمجھایا، عزت کے واسطے دیے لیکن میں نہ مانی۔ ابو نے بچیوں کا واسطہ دیا، مگر میری ایک ہی رٹ تھی کہ بس، مجھے اب طلاق چاہیے۔ میں اس آدمی کے ساتھ اب نہیں رہوں گی، جو مجھے ایک پل کی خوشی نہیں دے سکتا۔اتفاق سے انہی دنوں سبحان پر چرس فروخت کرنے کا کیس بن گیا۔ شاید ان کا تعلق ایسے گروپ سے تھا جو ناجائز کام کر کے دولت کماتے تھے۔ سبحان کو پولیس نے گرفتار کر لیا اور وہ جیل چلے گئے۔ اب ایسے حالات ہو گئے کہ مجھے اور زیادہ اپنے شوہر کے خلاف سوچنے اور بولنے کا موقع مل گیا اور میں نے ان کے ساتھ وابستہ نہ رہنے کی قسم کھا لی۔اب تو لوگ بھی میرے ہم نوا ہو گئے کہ واقعی یہ بچاری ایک مجرم کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو اچھی بات ہے۔ وہ جیل میں تھے اور میں مکرم کے ساتھ آئندہ زندگی کے خوش آئند پروگرام بنا رہی تھی۔
یوں میں نے عدالت میں خلع کا کیس دائر کر دیا اور خلع حاصل کرکے، سبحان کے جیل سے رہا ہونے سے قبل شادی کر لی۔ مکرم نے مجھے بہت اچھی طرح رکھا، میری بچیوں کو بھی حقیقی باپ کا پیار دیا۔ وہ بچیوں کو سیر کرانے لے جاتا، حالانکہ سوتیلے باپ اتنی شفقت نہیں کرتے لیکن مسکرم کی طبیعت اور طرح کی تھی۔ سات سال ہم ساتھ رہے پھر اس کے گھر والوں نے اسے دوسری شادی کے لئے مجبور کرنا شروع کر دیا، کیونکہ اس کی خالہ زاد منگیتر اس کے انتظار میں بیٹھی تھی۔ والدین کے دباؤ سے محبور ہو کر اس نے دوسری شادی کر لی۔ یہ شادی اسے اپنے رشتہ داروں کی وجہ سے کرنی پڑی کیونکہ وہ مکرم کی جان کو آگئے تھے۔ میں یہ صدمہ نہ سہہ سکی اور اس سے طلاق کا مطالبہ کر دیا۔ اس نے مجھے بہت سمجھایا کہ دیکھو ایک بار طلاق لے چپکی ہو ، اب دوبارہ ایسا قدم مت اٹھاؤ، ورنہ دنیا معاف نہ کرے گی۔ مجھے پتا تھا کہ اس کے رشتہ دار مجھے نہ بخشیں گے ، اس لئے میں نے روپیٹ کر اس کو مجبور کر کے طلاق حاصل کرلی۔ میں نے اسے سمجھایا کہ ایسانہ ہو تمہارے خاندان والے میری اور میری بچیوں کی وجہ سے آپس میں الجھ پڑیں یا میری بچیوں سے دشمنی نکالیں۔ یوں اس کے نہ چاہنے کے باوجود میں نے طلاق لے لی۔ اب میں ادھر کی رہی نہ ادھر کی۔ چند دن میکے والوں نے رکھا، پھر مجھے ذلیل کرنے لگے۔ میرے اپنے مجھے طعنے دیتے اور بچیوں سے بھی اچھا سلوک نہ کرتے تو میں آٹھ آٹھ آنسو روتی تھی۔ یا اللہ جذباتی ہو کر یہ میں نے اپنی زندگی کے ساتھ کیا کھیل کھیلا، اس سے تو وہی تنہائی بہتر تھی۔ کم از کم کھانے پینے کی تو فکر نہ ہوتی تھی۔ مجھے نہیں پتا سبحان کب جیل سے چھوٹ کر گھر آئے ۔ شاید وہ میری خبر رکھتے تھے۔ کسی نے انہیں بتایا کہ تمہاری بچیاں ننھیال میں ہیں اور ہر کوئی ان کو دھتکار تا ہے۔ اس بات سے ان کے دل پر گہری چوٹ لگی اور وہ اپنی بچیوں کو لینے میرے والد کے پاس آئے تو میرے گھر والوں نے بچیوں کی خاطر سبحان کو واسطے دیئے کہ دوبارہ ملیحہ سے شادی کر لو۔ بہت کہنے سننے اور بچیوں سے ملنے کے بعد شفقت پدری نے جوش مارا، تو بیٹیوں کی خاطر انہوں نے مجھ سے دوبارہ نکاح کر لیا تا کہ بچیاں جواب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والی تھیں، کہیں بھٹکتی نہ پھریں، بلکہ باپ کے گھر سے رخصت ہوں۔ یوں جہاں سے چلی تھی، وہیں واپس آگئی۔ سبحان نے میری غلطی معاف کر دی لیکن ان کی عادتیں وہی ہیں، جو شروع سے تھیں۔ وہی رات دیر سے آنا اور پھر نیند کی گولیاں کھا کر سو جانا لیکن میں اب صبر و شکر سے وقت گزار رہی ہوں کیونکہ سبحان نے اتنا کچھ ہونے کے باوجود مجھے قبول کیا۔ وہ کسی بات کا طعنہ نہیں دیتے۔ خرچہ بھی پورا دیتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہی بہت ہے۔ بچیاں محفوظ ہیں اور سوکن کا عذاب بھی نہیں ہے۔ سسرال والوں کی دشمنی اور دھمکیوں سے بھی جان چھوٹ گئی۔ میری بہنوں سے درخواست ہے کہ ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھائیں ، ورنہ عزت بھی جائے گی اور گھر بھی برباد ہو گا اور سب سے زیادہ نقصان بچوں کو ہو گا، جن کا مستقبل ایسے حالات میں داؤ پر لگ جاتا ہے