میں ساتویں کلاس میں تھی۔ ہمارے ساتھ ایک لڑکی نور بھی اسکول جایا کرتی تھی۔ اسے پیار سے سب نوری بلاتے ، اس لڑکی کا باپ فوت ہو چکا تھا۔ وہ بیوہ ماں اور بوڑھی نانی کے ساتھ ایک کمرے کے کچے گھر میں رہتی تھی، جو اس کے باپ کی ملکیت تھا۔ نوری کی ماں بڑی محنتی عورت تھی۔ شوہر کے بعد سسرال والوں نے اس سے ناتانہ رکھا۔ میکے میں محتاج ماں کے سوا کوئی نہ تھا، جو نابینا تھی۔ ایک بھائی تھا، جو کمانے کی خاطر شہر چلا گیا اور وہاں شادی کر لی۔ سسرال کا سہار املا تو لوٹ کر نہ آیا۔ اب نوری کی ماں ، حاجرہ خالہ کے پاس رہ ہی کیا گیا تھا ایک بیوگی کے سوا ؟ اس نے اکیلے ہی حالات سے مقابلہ کرنے کی ٹھان لی۔ بیٹی کی خاطر دوسری شادی کا خیال دل سے نکال دیا اور نوری کے سہارے زندگی کے دن حوصلے کے ساتھ بسر کرنے لگی۔ صبح سے شام تک حاجرہ خالہ بے چاری، محلے کے گھروں میں متفرق کام کرتی، کسی کی رضائیاں اور لحاف سیتی، کسی کے گھر کا نمک مرچ چکی پر پیس دیتی اور کسی کے کپڑے لا کر دھو دیتی۔ اس طرح جو بھی اس محنت کے عیوض اجرت ملتی، خالہ اپنی بچی اور نابینا ماں کا پیٹ پال رہی تھی۔ ان لوگوں نے بے شک، اچھے دن دیکھے تھے۔ ان کا گھر بھی کھاتے پیتے خوش حال لوگوں کے محلے میں تھا۔ خالہ کا دل بھی چاہتا تھا کہ اس کی نوری اسکول جائے اور پڑھ لکھ کر زیور تعلیم سے آراستہ ہو جائے۔ وہ خود تو شادی کر کے دکھوں سے نجات نہ پاسکی تھی ، تب ہی بیٹی کو کسی قابل بنانا چاہتی تھی۔ نور بہت معصوم لڑکی تھی۔ مجھ سے ایک سال بڑی تھی۔ ہم سب ساتھ اسکول جایا کرتے تھے۔ وہ تمام رستہ ہمارے ہمراہ خاموش چلتی رہتی، کبھی کبھار گھر میرے میں بھی آجاتی تھی۔ ہمارے پڑوس میں ایک خاتون رہتی تھیں، جن کو سب عائزہ باجی بلاتے تھے۔ وہ ہم سے کافی بڑی تھیں۔ ان کے ساتھ ان کا بھائی رابیل رہتا تھا، جو انجینئر بن رہا تھا۔ پڑھائی کے سلسلے میں اکثر شہر سے باہر رہتا، البتہ باجی گھر پر ہی ہوتی تھیں۔ جب کبھی کوئی سبق مشکل لگتا ، ہم ان کے پاس چلے جاتے۔ وہ بہت قابل تھیں۔ کانونٹ کی پڑھی ہوئی تھیں۔ شفقت سے مجھے اور نوری کو سبق پڑھا دیا کرتی تھیں۔ایک بار چھٹیوں میں رابیل بھائی گھر آئے ہوئے تھے۔ نور ان کے گھر سبق کا پوچھنے چلی گئی، رابیل نے اسے دیکھا، اسے یہ لڑکی بہت پسند آئی۔ دونوں میں پہلی بار بات ہوئی، تب نوری ان کے گھر آنے جانے لگی۔ عائزہ باجی اور ان کی والدہ بھی اس کو پیار کرنے لگیں۔ وہ جاتی تو اس کی آئو بھگت کر تیں۔ اس بات سے نوری کی ماں بالکل بے خبر تھی۔ وہ یہی سمجھتی کہ نور ہمارے گھر پر ہے۔ رابیل صاحب انجینئر بن گئے تو ان کو کراچی میں ملازمت مل گئی۔ ماں سے کہا۔
سامان باندھو۔ ہم کراچی چل کر رہیں گے ، لیکن جانے سے پہلے نوری کی ماں سے رشتے کی بات طے کر لو۔ ہاں یہی بات میں بھی سوچ رہی ہوں کیونکہ لڑکی سیدھی سادی اور شریف ہے ، مجھے بھی پسند ہے۔ تو پھر بات کر لیںنا خالہ حاجرہ سے ، عائزہ نے صلاح دی۔ اس کی ماں نہیں مانے گی۔ وہ اسے کراچی نہیں بھیجے گی۔ اس کی ایک ہی بیٹی ہے اور ابھی تو وہ نوری کو پڑھانا چاہتی ہے۔ اتنی جلدی شادی پر راضی نہ ہو گی۔ رابیل ! میری بات مانو تو اس لڑکی کا خیال دل سے نکال دو۔ تم اچھی ملازمت پر ہو۔ کراچی میں کوئی اچھا رشتہ مل جائے گا۔ ماں نے سمجھایا مگر را بیل نہ مانا۔ کہنے لگا۔ ماں میں نوری سے نکاح کیے بغیر یہاں سے نہیں جائوں گا۔ اسے ساتھ لے کر ہی جائوں گا۔ یوں ان کے جانے کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ تب ہی عائزہ باجی کی امی نے خالہ حاجرہ سے رشتے کی بات کی ، جواب میں انکار ہی ملا ، حالانکہ یہ لوگ لڑکی والوں سے کہیں زیادہ صاحب حیثیت تھے۔ وہ جس بیٹی کے سہارے جی رہی تھی ، اس کو اپنے سے جدا کر کے کوسوں دور نہیں بھیجنا چاہتی تھی اور یہ بھی ایک وجہ تھی کہ عائزہ باجی لوگ یہاں کرایے دار تھے۔ را بیل خاموش ہو گیا۔ دوسرے دن شام کو ان لوگوں کو جانا تھا۔ نوری برتن دھو رہی تھی کہ ایک بچہ آیا۔ اس نے کہا۔ نور باجی آپ کو عائزہ باجی بلا رہی ہیں۔ پہلے تو وہ بہت ڈری ، اس کا دل گھبرایا۔ خالہ بولیں۔ بیٹی چلی جائو ، یہ لوگ جانے والے ہیں۔ عائزہ نے تم کو پڑھایا ہے، وہ تمہاری استاد ہیں ، ناراض ہوں گی۔ ماں کے کہنے پر وہ ان کے گھر چلی گئی۔ ابھی راستے میں تھی کہ رابیل مل گیا۔ کہنے لگا۔ جلدی کرو، سامنے جیپ کھڑی ہے ، ماں اور باجی بیٹھی تمہارا انتظار کر رہی ہیں۔ جانے سے پہلے تم سے خدا حافظ کہنا چاہتی ہیں۔ تیز قدم اٹھائو، ہمیں دیر ہو رہی ہے۔ رابیل نے کچھ اس انداز سے جلدی مچائی کی کہ وہ بے چاری بو کھلا گئی اور جلدی سے جیپ کی طرف چلی گئی۔ عائزہ باجی کہنے لگیں۔ آئو نور ، جیپ میں چڑھ آئو ، دو چار منٹ بات کر لیں۔ بھائی جیپ اسٹارٹ کریں گے تم کو تمہارے گھر کے سامنے اتاریں گے۔ اس سیدھی سادی بھولی بھالی بچی کو کب ان لوگوں کے ارادے کا علم تھا۔ وہ محبت کی ماری عائزہ باجی کا ہاتھ تھام جیپ میں چڑھ گئی۔ ادھر رابیل نے جیپ کو اسٹار کرتے ہی تیزی سے گائوں کے باہر جانے والے رستے پر ڈال دیا۔ وہ باجی سے باتوں میں مگن تھی۔ جیپ کی بڑھتی رفتار سے اسے ہوش آیا تو یہ محلے سے باہر نکل چکے تھے۔ عائزہ اور اس کی ماں جب تسلیاں دینے لگیں تو وہ رونے لگی۔ رابیل جیپ کو تیز رفتاری سے اڑائے لیے جارہا تھا اور اس کی ماں کہہ رہی تھی۔ فکر نہ کرو، ہم تمہیں کوئی تکلیف نہ دیں گے۔ تم ہمارے ساتھ کراچی میں ، شاندار بنگلے میں رہو گی۔ نکاح کے بعد ہم تمہاری ماں کو بھی لے آئیں گے ، ان کو لوگوں کے گھروں میں کام کرنے کی بھی ضرورت نہ رہے گی۔ رابیل تم سے بہت محبت کرتا ہے ، تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور تمہاری ماں ہم کو رشتہ نہیں دیتی۔ بتائو کیا کریں ؟ نوری ان کی تسلیاں سن کر چپ ہو گئی اور کیا کرتی۔ جیپ تو گائوں سے بہت آگے نکل آئی تھی۔ ان ساری باتوں کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ وہ بھی رابیل کو پسند کرنے لگی تھی۔
اس کا دل چاہتا تھا کہ اس سے بیاہ ہو جائے اور اب اس کے خواب کی تعبیر مل رہی تھی ، لیکن اچنبھے سے اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا اور اپنی ماں کی پریشانی کا سوچ کر آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے۔ تمام رستے رابیل کی ماں اور بہن اسے تسلیاں دیتے رہے۔ ادھر شام گہری ہو گئی اور نور بی بی گھر نہ لوٹی تو اس کی ماں فکر میں ڈوب گئی۔ ابھی تک اس کی بیٹی واپس کیوں نہیں آئی ؟ اس نے گلی میں جھانکا۔ وہی بچہ جو نوری کو بلانے آیا تھا، سامنے نظر آگیا۔ خالہ نے اس کو آواز دی اور نوری کے بارے میں پوچھا۔ لڑکے نے کہا۔ خالہ وہ تو ان لوگوں کی جیپ میں سوار ہو کر عائزہ باجی اور ان کی امی کے ساتھ چلی گئی ہے۔ جیپ کون چلارہا تھا ؟ نوری کی ماں نے پریشان ہو کر سوال کیا۔ رابیل بھائی چلا رہے تھے۔ یہ سنتے ہی اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ اس کا تو کوئی بھی ایسا نہ تھا، جو ان لوگوں کا پیچھا کرتا یا عدالتوں کے چکر لگاتا۔ روتی ، سر بیٹی گھر آگئی۔ اندھی ماں نے کہا۔ کیوں روتی ہو ؟ بیٹی نے بتایا۔ وہ لوگ میری نوری کو لے گئے ہیں۔ تو رونے سے کیا بنے گا ؟ محلے میں جائو اور سب کو خبر کرو، ان سے مدد کے لیے کہو۔ ماں ، تم بھی کیسی بھولی ہو۔ جب میرا شوہر مر گیا، جب گھر میں فاقے پڑے ، تب اس دنیا والوں نے کب مدد کی تھی ، جواب کریں گے۔ اری کوئی تو اللہ کا بندہ تیرے ساتھ پولیس تھانے چلا جائے گا۔ محلے والوں کو بتانا تو پڑے گا۔ ماں کوئی بھی تھانے جانا گوارا نہ کرے گا، کسی نے ترس کھا کر ساتھ دیا بھی، تو پولیس کون سامیری بچی کو واپس لا دے گی۔ اماں تم زمانے کو نہیں سمجھتیں۔ میں نے در در کی ٹھوکریں کھا کر سب سمجھ لیا ہے۔ در اصل لوگوں کے بارے ہے میں میں جوا جو اس کے مشاہدے اور تجربے نے خالہ کو سکھایا، وہی اس کی رائے تھی، تاہم وہ فرداً فردا محلے کے ہر گھر میں گئی اور ان سے جاکر اپنا دکھ کہا۔ سب ہی نے یہی جواب دیا۔ تم خود ہی تو روز نور کو ان کے گھر بھیجا کرتی تھیں پڑھائی کے بہانے ، اب روتی ہو۔ پتا نہیں تھا کہ ان کے ہاں جوان لڑکا ہے ؟ کیوں اعتبار کیا۔ تمہاری لڑکی کی بھی مرضی ہو گی۔ ہم تم کو تھانے لیے چلتے ہیں مگر سوچ لو۔ تھانے رپٹ لکھوانے جائو گی تو یاد رکھنا، پولیس خود تمہارے گلے پڑ جائے گی۔ کوئی ایسا ویسا معاملہ نہ بھی ہوا تو وہ بنادیں گے۔ ایسے سادہ بات پر تو رپٹ درج نہیں ہو سکتی، بہتر ہے ، صبر کر جائو۔ یہ تھے محلے والوں کے عذر اور تبصرے۔ مایوس ہو کر اس مظلوم نے سوچا۔ ان لوگوں سے بنتی کرنے کی بجائے اپنی مدد آپ کرنا چاہیے ، ورنہ یہ لوگ باتیں بنا بنا کر کلیجہ چھلنی کرتے رہیں گے۔ بس اس نے اپنی بوڑھی اور اندھی ماں کا بھی خیال نہ کیا۔ بیٹی کی محبت میں ساری جمع پونجی اٹھا، شہر کراچی کو روانہ ہو گئی۔ کراچی پہنچی، تو یہاں انسانوں اور گاڑیوں کا سیلاب دیکھ کر حواس باختہ ہو گئی۔ اتنے بڑے اور مشینی شہر میں تو اس کی حیثیت ایک تنکے سے بھی کم تھی، جو تند ہوا میں ادھر ادھر بھٹکتا پھرتا ہے۔ پتا نہیں یہ بے چاری پھر کہاں کھو گئی ؟ بیٹی اب اس کو بھلا کیونکر مل سکتی تھی۔ اس نے کب تک اور کہاں کہاں اس کو ڈھونڈا ہو گا۔ اتنے بڑے شہر میں بغیر کسی اتے پتے کے، کیسے کوئی کسی کو ڈھونڈ سکتا ہے ؟ ہم بھی لاہور چلے گئے۔ تقریباً چار سال بعد ہم ایک بار گائوں گئے ، تب ہمیں نوری نہایت غم زدہ اور کسمپرسی کی حالت میں مل گئی۔ وہ اپنے والد کے گھر میں رہ رہی تھی۔ اس کی اندھی نانی کو ترس کھا کر پہلے ہی کوئی رشتہ دار لے جا چکا تھا۔ نوری نے بتایا کہ کراچی جاتے ہی رابیل نے اس سے شادی کر لی تھی۔ عائزہ باجی اور اس کی امی بھی بہت چائو سے اس کو رکھتی تھیں۔
شادی کے دوماہ بعد انہوں نے گائوں کسی کو امی کی طرف بھیجا۔ ایک پڑوسی نے بتایا کہ وہ کہیں چلی گئی ہیں اور نانی کو بھی رشتہ دار لے گئے ہیں۔ انہوں نے ہی مجھے تالا کھول کر دیا اور میں اپنے مرحوم باپ کے بنائے ہوئے گھر کی چھت تلے آکر ماں کا انتظار کرنے لگی۔ کراچی میں بے شک شاندار گھر تھا، گاڑی بھی تھی، مگر دو سال بعد ہی رابیل کا جی مجھ سے اکتا گیا۔ اس نے نظریں بدل لیں تو ان کی ماں اور بہن کا رویہ بھی بدل گیا۔ اس وقت تک ہیں ایک بچی کی ماں بن چکی تھی۔ بچی کو خسرہ نکلی اور اللہ نے یہ خوشی بھی واپس لے لی۔ بیٹی کے مرتے ہی رابیل نے چھٹکارا پانے کی سوچی اور ایک روز معمولی بات کا بہانہ بنا کر طلاق دے دی اور مجھے روانہ کر دیا۔ اس کی یہ درد بھری داستان سن کر مجھے ؟ بھی رونا آ گیا، لیکن کیا کر سکتی تھی۔ ہم بھلا کہاں رابیل سے الجھنے جاتے۔ نوری کی تو قسمت میں یہی لکھا تھا کہ بیٹی بھی مر گئی اور ماں بھی اسے نہ ملی۔ ادھر وہ ماں کو یاد کر کے روتی جو اسے شہر ڈھونڈ نے گئی تھی اور ہمیشہ کے لیے کھو گئی، پھر بیٹی کو یاد کر کے تڑپتی جو اس کے پاس ہوتی تو جینے کا کوئی آسرا تو ہوتا۔ خدا کرے دنیا میں کوئی عورت بے سہارا نہ ہو۔ اس دھچکے کے بعد ، نور بی بی نے دوبارہ شادی نہ کی۔ جیسے اس کی ماں محلے والوں کے گھروں میں محنت کر کے زندگی کی رتھ کو کھینچا کرتی تھی، اس نے بھی بقیہ عمر اسی طرح محنت ، مشقت کر کے گزار دی اور وہ، جو اسے جیپ میں دھوکے سے چڑھا کر لے گئے تھے، پھر کبھی واپس نہ آئے …