اُن دنوں ہمارا مکان زیر تعمیر تھا، تبھی ہم نے ماڈل ٹائون میں کرایے کا گھر لے لیا۔ ہمارے گھر کے سامنے ہی رابعہ کا گھر تھا۔ ایک روز دروازے پر دستک ہوئی۔ دیکھا تو ایک گوری چٹی ، نازک اندام، خُوبصورت خاتون در پر موجود تھی۔ حلیے بشرے سے کسی اچھے خاندان کی لگی۔ میں اُسے سوالیہ انداز سے دیکھ رہی تھی، تبھی اس نے کہا۔ باجی میرا نام رابعہ ہے ، میں سامنے والے گھر سے آئی ہوں۔ آپ کی پڑوسن ہوں، آپ کا بہت نام سُن رکھا تھا، آج ملنے کی چاہ ہوئی تو آگئی۔ اندر آ جائو۔ میں نے کہا۔ کیا تم مجھے جانتی ہو ؟ باجی ! آپ کو کون نہیں جانتا۔ آپ کہانیاں لکھتی ہیں۔ آپ تو ہمارے شہر کا فخر ہیں۔ اب مجھے کانٹوں میں تو مت گھسیٹو۔ میں نے ہنس کر کہا۔ اچھا آئو بیٹھو۔ میں اسے ڈرائنگ روم میں لے آئی ۔ تم آئیں، مجھے بہت خوشی ہوئی۔ برابر والی پڑوسن تمہارا ذکر کر رہی تھی۔ میں نے رابعہ کو بتایا اور ملازمہ کو چائے لانے کو کہا۔ وہ بہت پیارے لہجے میں باتیں کرنے لگی۔ مجھے وہ بہت اچھی لگی۔ تین بچوں کی ماں ہوتے ہوئے بھی لڑ کی سی لگ رہی تھی۔ مجھے میری پڑوسن بتا چکی تھی کہ وہ بہت اچھے خاندان سے ہے۔ اس کی شادی امیر کبیر گھرانے میں ہوئی تھی مگر بد قسمتی سے شوہر کا حادثے میں انتقال ہو گیا اور جوانی میں بیوہ ہو گئی ہے۔ اس پس منظر کو جانتے ہوئے میں محتاط ہو کر اس کے ساتھ باتیں کرنے لگی۔ کوئی سوال کرنے سے قبل سوچتی کہ یہ دُکھی ہے، اس کے دل کو کہیں میرے کسی سوال سے ٹھیس نہ لگ جائے، بُرا نہ مان جائے- اتفاق کہیں اُس کی سوتن ہونے کی دعوے دار عورت سے بھی مل چکی تھی، جو اپنا کیس میرے خاوند کے پاس لائی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ سُسرال والے اس کو بہو تسلیم کر لیں اور اُسے احسان مرحوم کی جائیداد میں سے حصہ ملے ، تاہم اس بات کا میں نے رابعہ سے ذکر نہ کیا، وہ آز خود ہی مجھ پر اپنی کتاب زندگی کے اوراق کھولتی چلی گئی۔ میں نے پوچھا۔ رابعہ تمہارے بچے کہاں ہیں ؟ اپنے چچا کے پاس گئے ہیں۔ وہ کبھی کبھی آتا ہے ان سے ملنے اور ان کو اکثر سیر کرانے بھی لے جاتا ہے۔ اور تم رہتی کس کے ساتھ ہو ؟ تینوں بیٹوں کے ساتھ رہتی ہوں۔ وہ کبھی اپنے چچا کے ساتھ ددھیال کے گائوں چلے جاتے ہیں کبھی آجاتے ہیں۔ تو اس کا مطلب ہے تم اکیلی رہتی ہو؟ ہاں۔ تم گائوں میں کیوں نہیں رہتیں ؟ وہ چُپ ہو گئی ، پھر لمحہ بھر توقف کے بعد بولی۔ اپنے دیور کی وجہ سے، مجھے اس سے ڈر لگتا ہے، لیکن کیا کروں وہ میرے بچوں سے پیار کرتا ہے، بچے اس کے بغیر نہیں رہتے۔ اس کے بچے تقریباً میرے بچوں کے برابر تھے۔ اس کا بڑا بیٹا میرے بڑے بیٹے کی عمر کا تھا تقریباً تیرہ چودہ برس کا، دوسرا گیارہ برس اور تیسر ابیٹا، آٹھ نو سال کا ہو گا۔
چند دن گزرے تھے ، میں اپنے دونوں بچوں کو اسکول چھوڑ کر لوٹ رہی تھی کہ سامنے والے بنگلے پر نظر پڑی۔ رابعہ اپنے گیٹ پر کھڑی تھی۔ اس نے مجھے پکارا کہ میرے گھر کے سامنے سے گزر کر جارہی ہیں، دومنٹ کو ایۓ نا ! اس کی آواز میں اتنی چاہت تھی کہ میں اس کے گھر کے اندر چلی گئی۔ اس کا گھر بنگلہ نما تھا۔ چھوٹا سا مگر صاف ستھرا، زیادہ فرنیچر نہ تھا۔ اس نے میری تواضع کی اور اپنی شادی اور خاوند کے بارے بتانے لگی، اپنی منگنی اور شادی کے جوڑے دکھائے جو بہت خوبصورت اور کافی مہنگے بھی تھے۔ وہ بولی۔ میں آپ کے پاس اپنی کچھ امانتیں رکھوانا چاہتی ہوں۔ کیا اپ رکھ لیں گی؟ رابعہ میں کراچی آتی جاتی رہتی ہوں، کسی کی کوئی امانت کیسے رکھ سکتی ہوں ؟ وہ کچھ افسردہ اور خاموش ہو گئی۔ کیا تم کو اکیلے رہنے سے ڈر لگتا ہے ؟ تم میکے جا کر کیوں نہیں رہتیں ؟ میرے تین لڑکے ہیں، میکے میں کیسے رہ سکتی ہوں ؟ ویسے میں نے اپنے گھر کے چاروں طرف دیوار پر کرنٹ والے تار لگا دیئے ہیں۔ رات کو کوئی دیوار پھلانگ کر نہیں آسکتا۔ بڑی ہمت والی ہو۔ میں نے کہا۔ ہاں، مجھ کو جان کا خطرہ تو ہے ، شوہر کی بہت سی زمین اور جائیداد ہے۔ یہی چیزیں تو انسان کی دُشمن ہوتی ہیں۔ تھوڑی دیر بعد میں نے جانے کی اجازت لی کیونکہ صبح کا وقت تھا اور گھر میں کافی کام پڑا ہوا تھا۔ اس ملاقات کو بہ مشکل ہفتہ گزرا تھا کہ ایک روز شام کے وقت دروازہ بجا۔ کھولا تو رابعہ اپنے لڑکوں کے ساتھ کھڑی تھی۔ اس کے دولڑکوں کے سروں پر چوٹ لگنے سے لہو بہہ رہا تھا جو بچوں کے کپڑوں پر گرا ہوا تھا۔ بولی۔ان کے کپڑے ددھیال میں ہیں۔ آپ اپنے بیٹوں کے کپڑے دے دیں۔ ابھی بدلوائوں گی یہ رات کو لہو بھرے کپڑوں کے ساتھ کیسے سوئیں گے۔ آپ کے بیٹوں کے کپڑے ان کو پورے آجائیں گے۔ میں نے اپنے بیٹوں کے کپڑے اُسے دیئے۔ اس نے بچوں کے کپڑے تبدیل کروائے، پھر کہنے لگی۔ ان کے چاچا باہر جیپ میں بیٹھے ہیں ، وہ ان کو سیر کرانے لے جارہے تھے۔ میں بھی ساتھ چلی گئی۔ مجھے لگا کہ یہ ان کو گائوں لے جائیں گے ، زیادہ دور نہ گئے تھے کہ دیور نے جیپ کو کھمبے میں مار دیا، تبھی بچوں کو چوٹ آگئی ہے۔ میں اس عجیب داستان پر حیرت میں ڈوب گئی۔ کیا یہ حادثہ تھا؟ وہ بولی۔ ہاں حادثہ ہی تھا۔ مزید سوال کرنے کا وقت نہ تھا۔ وہ بچوں کو لے کر چلی گئی۔ اس نے مجھ سے پٹی اور دوالے کر عارضی طور پر انہیں فرسٹ ایڈ دے دی تھی۔
اس واقعے کے کافی دنوں بعد میں کراچی سے اپنے شہر جارہی تھی، راستے میں ایک اسٹیشن پر ریل رکی۔ ایک اخبار فروش کمپارٹمنٹ کے سامنے سے گزرا تو اسے روک کر اخبار خرید لیا۔ سوچا کہ اخبار کے مطالعے سے وقت اچھا گزر جائے گا، یوں بھی میری روزانہ اخبار پڑھنے کی عادت تھی۔ صفحات پلٹ رہی تھی کہ ایک دل دوز خبر پر نظریں جم گئیں۔ خبر پڑھ کر یقین نہ آیا۔ اب سفر کیا اچھا گزرنا تھا، تمام رستے مغموم رہی۔ یہ خبر رابعہ سے متعلق تھی۔ کل شام اس کے ایک سُسرالی عزیز نے گھر میں گھس کر اس کا قتل کر دیا تھا۔ میری نگاہوں میں اس کا معصوم سا چہرہ گھوم گیا۔ ایک ٹھنڈی آہ نکل گئی۔ کاش میں اس سے نہ ملی ہوتی، اس نے مجھ سے باتیں نہ کی ہو تیں۔ میں بچوں کے بارے سوچنے لگی کہ پہلے باپ اور پھر ماں بھی ان کو اکیلا چھوڑ گئی۔ ان بچوں پر اب کیا گزرے گی۔ رابعہ نے کئی بار میرے سامنے اس ڈر کا اظہار کیا تھا کہ وہ خود کو غیر محفوظ خیال کرتی ہے، بالآخر اس کا خوف درست ہی ثابت ہوا تھا۔ گھر پہنچی تو شوہر سے پہلا سوال یہی کیا۔ کیا رابعہ سے متعلق اخبار میں جو خبر شائع ہوئی ہے ، سچ ہے ؟ اعجاز بولے۔ ہاں، سچ ہے۔ تمہارے جانے کے بعد اس نے ماڈل ٹائون والا گھر چھوڑ دیا تھا اور کسی دوسرے گھر چلی گئی تھی جو ہمارے آبائی گھر سے قریب ہے۔ شاید یہ گھر اُسے غیر محفوظ لگتا تھا۔ جو دوسرا گھر اس نے کرایے پر لیا تھا، وہ چاروں طرف سے بند تھا، پھر بھی جو ہو نا تھا، ہو گیا۔ یہ وہ باتیں ہیں جو کسی کو معلوم نہیں ہوں گی لیکن باقی ساری کہانی سب شہر والوں کو معلوم ہو چکی تھی۔
پانچویں کے بعد رابعہ نے اسکول جانا چھوڑ دیا تو ایک اُستانی اس کو گھر آکر پڑھانے لگی ، تاکہ وہ میٹرک پرائیویٹ طور پر کر لے۔ گھر میں خالی بیٹھنے سے اس کا دم گھٹتا تھا، سو اس نے کتابوں ہی سے دوستی کر لی۔ ان دنوں وہ آٹھویں کا امتحان دے چکی تھی اور میٹرک کی تیاری کر رہی تھی کہ ایک دن اچانک گھر میں رونق محسوس ہوئی۔ نوکر چاکر ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ پتا چلا کہ گائوں سے چاچا، منگنی کی رسم ادا کرنے آرہے تھے۔ وہ حیران تھی کہ اگر اس کی بات احسان سے طے ہو گئی تھی تو کبھی کسی نے اس بات کا اس کے سامنے تذکرہ کیوں نہ کیا۔ احسان گائوں میں رہتا تھا اور قبائلی سردار کا بیٹا تھا۔ یہ جاگیر دار قسم کے لوگ تھے۔ وہ اکثر شہر آتا جاتا رہتا تھا لیکن رابعہ کے والد کے گھر کم ہی آتا تھا۔ اس کے چاچا کا رویہ بھی روایتی جاگیردارانہ تھا۔ سیاست میں اُلجھے رہنا، ان کو ورثہ میں ملا تھا۔ وہ قبائلی جھگڑوں اور مقدمات کی پیروی کی وجہ سے شہر آتے تھے۔ رابعہ امن اور سکون کی عادی تھی، جبکہ احسان کے بارے بہت کچھ سُن رکھا تھا۔ اس کی صورت اچھی تھی لیکن مشاغل ناپسندیدہ تھے۔ جب رابعہ نے سُنا وہ لوگ منگنی کی انگوٹھی پہنانے آرہے ہیں، تو بجھ گئی۔ اس کا جی چاہا کہ انکار کر دے لیکن ایسا نہ کر سکی،اس میں انکار کی جرات نہ تھی۔ جانتی تھی کہ اگر ایسا کیا تو اس کے والد اسے دوسری سانس لینے کی مہلت نہ دیں گے۔ احسان کے گھر والے اُسے چنری ڈال کر انگوٹھی پہنا گئے۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ باجی جب میری انگلی میں منگنی کی انگوٹھی ڈالی گئی تو میں نے اس دن کو ایسے جانا جیسے کوئی جاگتے میں خواب دیکھتا ہے۔
آہ وہ بے حد خوبصورت گڑیا سی لڑکی ، اس دن کے بعد اُس نے ہر دن کو ایک جیسا دن سمجھ لیا۔ اس نے شادی کے مسئلے پر سوچنا ہی چھوڑ دیا، کیونکہ تقدیر بنانے والے نے جو اس کی تقدیر میں لکھ دیا تھا، وہ نہیں بدل سکتی تھی ، پھر وہ دن بھی آگیا جب لڑکی کو بابل کا آنگن چھوڑ کر پیا دیس جانا ہوتا ہے۔ یک بارگی گھر میں ہلچل مچی۔ پہلی دفعہ ویرانے میں اتنی رونق رابعہ کو دیکھنے کو ملی، خوشی کا ایسا اہتمام دیکھ کر وہ بھی خوش ہونے والوں کے ساتھ مسکرا دی۔ جب اُسے سجا کر دُلہن بنایا گیا تو اس کا چہرہ ایک دمکتے چاند کے جیسا ہو گیا۔ سراپے کو حیا کے نُور سے منور کر کے انہوں نے رابعہ کو اس کے چچا کے بیٹے کے ساتھ ایک لمبی سی شاندار کار میں رخصت کر دیا۔ وہ زیورات سے لدی پھندی تھی۔ کامدانی کا دوپٹہ اتنا بھاری تھا کہ اس کا وزن نہیں اٹھا پا رہی تھی۔ اس دوپٹے کو پیچھے سے دو نوکرانیوں نے سنبھال رکھا تھا۔ اسے سجے ہوئے تخت پر بٹھا دیا گیا۔ کمرہ پھولوں کی مہک سے بھر اہوا تھا۔ جب دولہا نے اپنی دُلہن کا روپ دیکھا تو خوشی سے دیوانہ ہو گیا۔ اس نے اپنی دلہن سے پہلی رات ہی وعدہ کر لیا کہ ہر بُرائی چھوڑ کر بس اُس کا ہی ہو رہے گا۔ رابعہ اپنے جیون ساتھی کے وعدوں کو سچا جان کر مسرور ہو گئی، سارا خوف دل سے جاتا رہا۔ اب اس نے شوہر کو دل سے قبول کیا۔ احسان بھی اس کا دیوانہ تھا۔ رابعہ کے ساتھ باوفا رہنے کی پوری کوشش کی، تو رابعہ نے بھی اندھے اعتبار کی پٹی آنکھوں پر باندھ لی۔ شادی کے دو سال بعد اللہ نے اس جوڑے کو بیٹا عطا کیا۔ دونوں اولاد کی نعمت پا کر بہت خوش تھے۔ رابعہ بچے کی پرورش میں کھو گئی اور احسان … کہتے ہیں مرد کا اعتبار نہیں، جلد ہی جاگیر دار گھرانے کا بیٹا اپنی پہلی روش پر لوٹ گیا۔
رابعہ اس یقین میں سرشار تھی کہ اس کا شوہر اور کسی کا نہیں ہو سکتا لیکن یہ وقت کا فریب تھا۔ اس کو گھریلو زندگی کے جال میں جکڑنے کا ایک بہانہ تھا۔ وقت پلک جھپکتے گزرنے لگا، وہ تین بیٹوں کی ماں بن گئی۔ اس کی ممتا کو سکون ملا مگر فرائض میں اضافہ ہوتا گیا۔ وہ بچوں میں الجھ کر اپنے سراپے سے غافل رہنے لگی تو ہر دم محبت کا دم بھرنے والا شوہر بھی بےمروت اور خود غرض ہو گیا۔ وہ نئی محبت کی پرواز کے لئے پر تولنے لگا۔ یہ نئی محبت ایک نوخیز حسینہ تھی، جس کا تعلق کسی شریف خاندان سے نہ تھا۔ وہ کوٹھے کی زینت تھی جس پر احسان فدا ہو گیا تھا۔ وہ نئی بہشت کے مزے لوٹنے لگا۔ ادھر تین چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال میں رابعہ ان دنوں نڈھال اور خستہ حال تھی۔ اسے اس وقت ہمدردی اور سہارے کی ضرورت تھی اور احسان اُسے پھوہڑ اور بدسلیقہ کے القابات سے نواز نے لگا تھا۔ جب بچے چھوٹے ہوتے ہیں تو ماں کے لئے زندگی کا یہ دورانیہ بہت وقت طلب اور تھکا دینے والا ہوتا ہے۔ شوہر کی ایسے وقت بے اعتنائی سے رابعہ کو صدمہ ہوتا لیکن صبر کر جاتی۔ ایک روز اس کو شوہر کے اس بے رحمانہ رویے کا سبب معلوم ہو ہی گیا۔ اس نے احسان کے میلے کپڑے لانڈری میں بھجوانے تھے۔ کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ ایک خط برآمد ہوا۔ پڑھا تو اسے چکر آگیا یہ اس لڑکی کا محبت نامہ تھا۔ شوہر سے سوال کیا تو اس نے خط اس کے ہاتھ سے جھپٹ کر پھاڑ دیا اور شرمندہ ہونے کی بجائے اس پر ہاتھ اٹھا دیا۔ وہ رونے لگی۔ احسان نے کہا۔ اگر اس کمرے کے باہر کسی نے تمہاری سسکی سُن لی تو میں ابھی اسی وقت تم کو طلاق دے دوں گا اور بچے بھی چھین لوں گا۔ وہ بچوں کی خاطر سسک کر چپ ہو گئی کہ وہ سامنے بیٹھے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ ان دنوں اُس کا پہلوٹی کا بیٹا پانچ برس کا ہو چکا تھا اور اب اسکول جانے کے لائق تھا۔ گائوں کا اسکول اس قابل نہ تھا کہ وہ اپنے بچوں کو وہاں داخل کراتی اور احسان کو کب فرصت تھی کہ وہ شہر جا کر خود داخلہ کرواتا۔ گائوں کے اسکول کی یہ حالت تھی کہ اول تو استاد آتا نہ تھا، اگر آجاتا تو درخت کے نیچے چار پائی ڈال کر سو جاتا اور بچے اردگرد اچھل کود کر کے گھر چلے جاتے۔
رابعہ پریشان تھی کہ کیا کرے؟ تبھی ایک روز اس کے والد ملنے آگئے۔ اس نے اپنی پریشانی سے باپ کو آگاہ کیا۔ وہ بولے۔ شہر میں میرے دو مکان خالی پڑے ہیں۔ تم کو جو بہتر لگے ، میں ٹھیک کروا دیتا ہوں۔ تم بچوں کو شہر لے آئو۔ میں انہیں اسکول میں داخل کروادوں گا۔ احسان سے پوچھا تو وہ فور اراضی ہو گیا، تب رابعہ نے ضروری سامان ساتھ لیا اور اپنے والد کے ساتھ شہر چلی گئی۔ اس کے والد نے مکان میں ضرورت کی ہر شے مہیا کر دی اور ملازم بھی رکھ دیا تاکہ ان کی بیٹی کو سودا سلف کے لئے اور بچوں کو اسکول پہنچانے میں تکلیف نہ ہو۔ باپ اور بھی کئی مسائل جو رابعہ کو در پیش ہوتے حل کر دیتے تھے۔ احسان کی جب مرضی ہوتی ، آتا، دو چار دن رہتا اور چلا جاتا۔ بچوں کے اسکول جانے کے بعد رابعہ کو سکون تو ملا مگر اس کا دل اضطراب کا ایک سمندر تھا۔ اس نے کوشش کی کہ احسان اس کے ساتھ رہے مگر وہ اونچی اڑان بھرنے والا عقاب تھا۔ بھلا کیسے گھر کے پنجرے میں قید رہ سکتا تھا۔ وہ بیوی کے شہر جا رہنے سے اور بھی کھل کھیلنے لگا کہ اس کے بیوی بچوں کی دیکھ بھال کرنے کو شہر میں رابعہ کے والد اور بھائی تو موجود تھے ہی، اسے اپنے نئے عشق کے تقاضوں سے ہی فرصت نہ تھی۔ احسان مرحوم کی جائیداد سے حصہ لینے کی کوشش کرنے والی ایک لڑکی سے جو اس بازار سے تھی، اگر میں نہ ملی ہوتی تو شاید زمانے کی باتوں کا بھروسہ نہ کرتی۔ یہ ایک تیسری لڑکی تھی، جس کا دعویٰ تھا کہ اس کے ساتھ بھی احسان نے نکاح کیا تھا لیکن اس کی معاشرے میں کوئی حیثیت نہ تھی لہذا کسی نے بھی اس کو منہ نہ لگایا۔ وہ میرے پاس اس لئے آئی تھی کہ میں اس کی اور احسان کی کہانی لکھوں۔ بہر حال یہ ایک الگ داستان ہے۔ اصل قصہ تو احسان اور رابعہ کا ہے، کہ اس کے شہر میں رہنے پر بھی ، وہ اس کے پاس نہ آتا تھا۔ رابعہ کا بیٹا اب چھٹی جماعت میں پہنچ گیا تھا۔ ایک روز اسکول سے آتے ہوئے اس نے اپنے باپ کے ساتھ گاڑی میں ایک عورت کو بیٹھے دیکھا، تبھی اس نے گاڑی روکنے کے لئے ہاتھ دیا۔ احسان نے گاڑی روک لی اور بیٹے کو کار میں بٹھا لیا۔ عورت سے تعارف کروایا۔ بیٹے خرم ! ان سے ملو، یہ تمہاری دوسری آمی ہیں ، پھر وہ خرم کو گھر کے دروازے پر چھوڑ گیا۔ تب رابعہ کو علم ہوا کہ اس کے شوہر نے دوسری شادی کر لی ہے۔ وہ جس بات کو اہمیت نہ دیتی تھی اسی بات نے اس کو توڑ کر رکھ دیا۔ احسان کی جفا کاری کا اب جتنا ماتم کرتی ، کم تھا۔ وہ اپنے والد اور بھائیوں کے پاس گئی ، فریاد کی ، ہمدردی کرنے کی بجائے انہوں نے اس کی آہ وزاری کو اہمیت نہ دی، بلکہ سمجھانے لگے کہ صبر کرو۔ احسان مرد ہے اور دولت والا ہے۔ مرد دوسری شادی کر ہی لیتے ہیں۔ اس میں اس قدر واویلا کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ تم ایک خاندانی عورت ہو۔ طریقے سے رہو ، ورنہ یہ اوچھا پن تمہاری ذات کو خاندان میں بے وقعت کر دے گا۔
جب رابعہ نے اپنی اس قدر بے قدری دیکھی تو اپنے والد اور بھائیوں سے جائیداد میں سے اپنے حصے کا مطالبہ کر دیا، جس کے نتیجے میں وہ بھائیوں کی آنکھوں کا کانٹا بن گئی ، تب ماں آڑے آئی۔ شوہر کو سمجھایا کہ اپنی جائیداد میں سے نہ سہی، میرے ترکے میں سے جو میرے والد سے مجھے ملا تھا، کچھ زمین رابعہ کے نام کر دیں ، تاکہ وہ تسلی اور سکون سے جی سکے۔ یوں نانا کے ترکے سے رابعہ کو حصہ دے دیا گیا۔ باپ نے بھی سوچا کہ اگر بیٹی پر بُرا وقت آگیا تو یہ کس کا دروازہ کھٹکھٹائے گی ؟ تب انہوں نے خاصی رقم اس کے نام بینک میں جمع کروادی، گرچہ باپ کی اراضی میں سے رابعہ کا اچھا خاصا حصہ بنتا تھا لیکن بھائیوں نے روایتی رویہ اپنالیا۔ یوں بھی قبائلی رواج کے مطابق عورتوں کو وراثت میں حصہ دار نہیں مانا جاتا تھا۔ ماں باپ نے مالی طور پر اس کو مضبوط کر دیا تو اس کو سکون مل گیا۔ اب رشتہ دار بھی کم آتے تھے۔ سب کو پتا چل چکا تھا کہ احسان نے دوسری شادی کر لی ہے۔ اتنے صدمے سہنے کے بعد بھی رابعہ کا حسن باقی تھا اور رنگ روپ گلاب کے پھول کی مانند تازہ تھا۔ یہ دسمبر کا مہینہ تھا۔ سخت سردیوں کے دن تھے۔ احسان گائوں میں تھا۔ ایک روز خبر آئی کہ شہر آتے ہوئے اس کی جیپ کو حادثہ پیش آگیا ہے اور وہ موقع پر ہلاک ہو گیا ہے۔ یہ خبر سُن کر رابعہ غش کھا گئی۔ وہ جیسا بھی تھا، اس کے بچوں کا باپ اور ان کے سروں پر سائبان تھا۔ اس کے بچے بے امان ہو گئے تھے۔ احسان کے ہوتے کسی کی جرأت نہ تھی کہ رابعہ پر میلی نگا ڈالے یا اس کی جانب انگلی اٹھا سکے لیکن بیوہ ہوتے ہی صورت حال بدل گئی۔ اب اس کا گھر سے نکلنا جرم ہو گیا۔ کسی سے بات نہ کر سکتی تھی۔ بہت جلد زمانے نے احساس دلا دیا کہ احسان کے بغیر وہ ادھوری ہے۔ اس نے سسر سے پناہ کی درخواست کی۔ سسر نے اسے مایوس نہیں کیا بلکہ بچوں کے حصے کی جائیداد ، اپنی زندگی میں ہی پوتوں کے نام کر دی اور سرپرست بہو کو بنا دیا۔ احسان کے بھائیوں نے باپ کے اس اقدام کو انتہائی ناپسندیدگی سے دیکھا مگر اس بزرگ نے پروا نہ کی۔ رابعہ کے والد ، جواں سال بیٹی کو بیوگی کی چادر میں لپٹا دیکھ کر غم سے نڈھال تھے ، انہوں وہ مکان بھی رابعہ کے نام کر دیا جس میں وہ اقامت پذیر تھی۔ یہ ساری باتیں بھلا اس کے قریب ترین رشتہ داروں کو کیوں بھاتیں ! دیوروں کے ساتھ اس کے بھائی بھی کچھ برگشتہ تو تھے لیکن بہر حال، اس کے دُشمن ہر گز نہ تھے۔ بھابھیاں بھی اُس کا خیال رکھتی تھیں۔ رابعہ کے والدین ابھی زندہ تھے پھر بھی احسان کے بغیر اس کی زندگی سانپوں سے بھری کچھار جیسی ہو گئی تھی۔ خاص طور پر اس کا ایک دیور بلال، اپنے دل میں اس کے لئے کینہ رکھتا تھا۔ اس کی نظریں اس جائیداد پر تھیں جو بچوں کے نام تھی، تبھی اس نے بیوہ بھابی کے گھر آنا جانا شروع کر دیا اور مرحوم بھائی کے کم سن لڑکوں سے ایسی محبت جتلانے لگا کہ نادان بچے اپنے اس چچا کے دیوانے ہو گئے۔
بچے چاچا سے بہت مانوس ہو گئے تو رابعہ سوچنے لگی کہ چلو سسرال میں کوئی تو ہے جس کو میرے بچوں کا خیال ہے۔ وہ بچوں کو گائوں لے جاتا، رابعہ اعتراض نہ کرتی، اکثر سیر پر لے جاتا اور شاپنگ وغیرہ کرواتا۔ خرم دسویں میں تھا، جب بلال نے اُسے بے حد اہمیت دینی شروع کر دی اور رابعہ کے خلاف باتیں کر کے اس کو ماں سے بدظن کرنے لگا۔ بچہ کچے ذہن کا تھا، اس کے دل و دماغ پر منفی اثرات پڑنے لگے۔ وہ پڑھائی سے دل اُٹھا کر اپنے چچا کے ہم رکاب ، غلط راہوں پر چلنے لگا اور ناچ گانے کی محفلوں میں روپیہ اڑانے کے طریقے سیکھنے لگا۔ میٹرک بعد وہ کالج میں داخلے کے لئے لاہور چلا گیا اور ہاسٹل میں رہنے لگا۔ بلال نے بھتیجے کے ذہن میں برائی کا بیج بو دیا تھا۔ وہ برائی کو شان سمجھ کر کرنے لگا۔ معصوم لڑکا تھا اسے ابھی اچھائی اور بُرائی کی تمیز بھی نہیں آئی تھی۔ جوان لڑکے کو اگر غلط راستے پر ڈال دیا جائے تو زندگی تباہ ہو نا لازمی بات ہے۔ اسی آڑ میں بلال نے خرم سے زمین بکوانی شروع کر دی۔ اُسے نئی کار لے کر دی اور بہت سی آسائشوں کا سامان بھی مہیا کر دیا ۔رابعہ نے دیکھا کہ اس کا بچہ ہاتھوں سے نکلا جارہا ہے اور اپنے چاچا کے ہاتھوں کا کھلونا بنتا جا رہا ہے تو اس نے بلال کو روکا اور گھر آنے پر پابندی عائد کر دی۔ اس وجہ سے دیور اس کا جانی دشمن بن گیا۔ بلال نے رابعہ سے کہا اگر تم کو اپنے لڑکوں کے بگڑنے کا خطرہ ہے تو مجھ سے نکاح کر لو ورنہ یہ ذرا بڑے ہوئے تو تمہارے قابو میں نہیں آئیں گے۔ یوں بھی میں تم کو اکیلے باہر آتے جاتے برداشت نہیں کر سکتا کیونکہ تم بہر حال میرے مرحوم بھائی کی عزت ہو۔ یہ بات تو رابعہ کو اس کی ماں بھی سمجھاتی تھی کہ اکیلے رہنے سے بہتر ہے کہ تم ہمارے پاس میکے میں آکر رہو لیکن رابعہ ماں کو یہی جواب دیتی میرے لڑکے بڑے ہو رہے ہیں۔ میکے میں ان سے مسائل پیدا ہوں گے۔ بہتر ہے کہ میں ان کے ساتھ علیحدہ ہی رہوں۔
دیور نے مسلسل بھابی پر دبائو ڈالنا شروع کر دیا تھا۔ خرم بھی چاچا کا ہم نوا ہو گیا کیونکہ اس کی عیاشیاں چچا کے دم سے تھیں۔ جب رابعہ نے دیور کے ساتھ عقدِ ثانی سے منع کر دیا تو وہ دھمکانے پر اتر آیا۔ رابعہ نے دیور پر گھر کے دروازے بند کر دیئے اور اس کی شکایت سُسر سے کی۔ سسر گائوں میں رہنے کا عادی تھا۔ اس نے چند روز تو شہر آ کر بہو کے پاس قیام کیا پھر معذرت کر لی کہ میں یہاں نہیں رہ سکتا، مجھے قبائلی امور سنبھالنے ہوتے ہیں۔ تم یا تو میکے چلی جائو یا ہمارے گھر گائوں میں آ کر رہ جائو۔ یہاں رہوگی تو میرا وقتاً فوقتاً ہی آنا ہو گا۔ اب رابعہ زیادہ پریشان ہو گئی۔ سسرال اور میکے میں کوئی بھی اس کے ساتھ رہنے پر آمادہ نہ تھا۔ اور وہ اپنے اس گھر میں رہنا چاہتی تھی، جہاں رہ رہی تھی۔ تاہم وہ اب یہاں بہت خوفزدہ رہنے لگی تھی صرف بچوں کی تعلیم کی خاطر شہر میں رہتی تھی۔ سسر جلد دوبارہ آنے کا کہہ کر گائوں چلے گئے شاید بلال اسی موقع کی تاڑ میں تھا۔ باپ گھر پہنچا تو وہ شہر روانہ ہو گیا اور رابعہ کے گھر آگیا۔ رابعہ نے بیٹوں کو ہدایت کر دی تھی کہ اگر تمہارے چاچا بلال آئیں تو دروازہ مت کھولنا۔ صبح گیارہ بجے کا وقت تھا، دو بیٹے اسکول گئے ہوئے تھے جبکہ خرم گھر پر تھا۔ جب در پر دستک ہوئی، خرم نے در کھولا۔ سامنے بلال کھڑا تھا، بندوق اس کے ہاتھ میں تھی۔ بندوق دیکھ کر خرم کا ماتھا ٹھنک گیا اس نے اپنے چچا سے کہا کہ ماں گھر پر نہیں ہے۔ آئو ہم باہر چلتے ہیں۔ وہ کہاں گئی ہے ؟ آیئے تو ، باہر چلتے ہیں پھر بتاتا ہوں۔ رابعہ نے جب بیٹے کو ایسا کہتے سُنا تو اس کے کان کھڑے ہو گئے اور وہ جہاں اپنے کمرے میں کھڑی تھی وہیں بیٹھ گئی۔ اس کی چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ بلال آج نیک ارادے سے نہیں آیا ہے۔ اب آخری وقت شاید آپہنچا ہے۔ بہر حال خرم کسی طور اپنے چچا کو باہر لے جانے میں کامیاب ہو گیا۔
مغرب کے بعد بلال خرم کو گائوں چھوڑ کر واپس آگیا۔ رابعہ بیٹے کے انتظار میں پریشان تھی۔ اس نے منجھلے بیٹے وقار کو بھائی کے گھر بھیجا کہ ماموں کو جا کر بتائو ، بلال چاچا، خرم کو لے کر کہیں چلا گیا ہے ، گائوں جا کر پتا کریں۔ وقار ماموں کے گھر چلا گیا جبکہ چھوٹا ذیشان اس کے پاس تھا۔ مغرب کی اذان سے چند منٹ پہلے دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی۔ رابعہ سمجھی کہ خرم آگیا ہے۔ اس سے پہلے وہ دروازے پر جاتی ، ذیشان نے جاکر در کھول دیا۔ سامنے بلال ہاتھ میں بندوق لئے کھڑا تھا۔ اپنے چاچا کے تیور دیکھ کر لڑکا سہم گیا، بولا۔ چاچا ! ماں تو گھر میں نہیں ہے ، وہ نانی کے گھر گئیں ہے۔ بلال نے لڑکے کو ہاتھ سے ایک طرف کیا اور تیزی سے کمرے کی طرف بڑھا۔ اس کے قدموں کی آہٹ میں ایسی دھمک تھی کہ رابعہ کو یقین ہو گیا کہ موت اس کی طرف بڑھ رہی ہے۔اس نے کمرے کا دروازہ بند کرنے کی کوشش کی تو بلال نے کنڈی لگانے سے قبل ہی زور کا دھکا دے کر دروازہ کھول دیا۔ بلال کو سامنے دیکھ کر وہ خوفزدہ فرش پر بیٹھ گئی اور ہاتھ جوڑ کر بولی۔ بلال، مجھ پر ایسا ظلم مت کرو۔ مجھ کو مت مارو۔ آخر میرا قصور کیا ہے۔ کمرے میں جلتے ہوئے بلب کو بندوق سے توڑتے ہوئے بلال نے اس کی التجا کو اندھیرے میں ڈبو دیا اور کہا۔ میں نے سُنا ہے تم کسی اور سے نکاح کرنا چاہتی ہو ، تو پھر مجھ ہی سے کیوں نہیں؟ یہ بہتان ہے۔ رابعہ کے کانپتے ہوئے ہونٹ ہلے مگر بلال نے توقف نہ کیا اور تڑ تڑ گولیاں داغنا شروع کر دیں۔ ذیشان حواس باختہ ہو کر گھر سے نکلا۔ وہ چلا رہا تھا۔ چاچانے ماں کو بندوق کی گولیاں ماری ہیں، اس نے میری ماں کو مار ڈالا ہے۔ اسی وقت بلال باہر آگیا۔ اس کے ہاتھ میں بندوق تھی، اس نے جیپ اسٹارٹ کی اور اس میں بیٹھ کر چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی محلے کے چند نوجوان جو باہر کھڑے تھے ، گھر کے اندر چلے گئے۔ وہ زخمی رابعہ کو اسپتال لے جانا چاہتے تھے لیکن وہ مر چکی تھی۔ دلدوز بات یہ ہے کہ رابعہ کے قتل کے بعد وقفے وقفے سے اس کے دو بیٹے بھی خُدا کے پاس پہنچے یا پہنچا دیئے گئے۔ سُنا ہے اس کے ایک بیٹے نے تو کالج کے ہاسٹل میں خود کشی کر لی تھی، اپنی کنپٹی پر پستول مار کر۔ جس کی خبر میں نے اخبار میں پڑھی اور تصویر بھی دیکھی تھی۔ میں نے بہت سی کہانیاں لکھی ہیں مگر رابعہ کی کہانی لکھتے ہوئے جو اضطراب محسوس کیا وہ رقم نہیں کر سکتی۔