Friday, October 11, 2024

Jeete Ji Mar Gai

فاتح عالم اس کا نام تھا۔ نجانے والدین نے کیا سوچ کر ایسا بھاری بھر کم نام رکھا تھا۔ وہ میرے بھائی کا دوست تھا۔ علاقہ غیر سے اس کا تعلق تھا۔ وہ وہاں سے تعلیم حاصل کرنے پشاور آیا تھا۔ بھائی کے ساتھ وہ ایف ایس سی کر رہا تھا۔ اس میں ایسی صفات تھیں کہ بھائی نے اسے بھائی اور میری ماں نے بیٹا بنالیا، یوں وہ ہمارے گھر میں بھی آنے لگا۔ ہم سب اسے عالم کہہ کر بلاتے تھے، پورا نام نہیں لیتے تھے۔ آدھا نام پکارنے کے باوجود وہ ہم سے خفا نہیں ہوتا تھا۔ عالم کا تعلق ایک خوشحال خاندان سے تھا۔ اس کے دادا کا اپنا گائوں تھا جو کوہاٹ سے آگے پہاڑ کے درے کی طرف واقع تھا۔ اس گائوں میں ہی ان کا سارا قبیلہ آباد تھا۔ جن دنوں وہ میرے بھائی کے ساتھ پڑھتا تھا، ہمارے گھر ہر ویک اینڈ پر آیا کرتا تھا۔ سچ بات یہ ہے کہ وہ اپنے حسن اور وجاہت کے سبب مجھے اچھا لگتا، میراجی چاہتا کہ وہ روز ہمارے گھر آئے۔ جب وہ آتا تو اسے دیکھ کر میں بہت خوش ہوتی۔ بات بات پر کھلکھلاتی۔ میری امی نے ایک روز میری خوشی کو بھانپ لیا اور کہا۔ بیٹی ! تم ذرا اپنے آپے میں رہو اور عالم کے آنے پر اس قدر دانت نکالنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتا ہے جہاں آپس کی دشمنیاں اور خون خرابے ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے کندھوں پر ہر وقت بندوق رہتی ہے، کیا ہم ایسے خاندان میں بیٹی کے رشتے کے متحمل ہو سکتے ہیں ، جہاں سر کی قیمت بندوق کی ایک گولی سے چکائی جاتی ہے۔ میری سمجھ میں ماں کی باتیں نہیں آئیں۔ میں نے جانا وہ مجھ کو ڈرانے کے لئے ایسی باتیں کر رہی ہیں۔ ان دنوں میں میٹرک کی طالبہ تھی اور یہ عمر نصیحتوں کو پلو سے باندھنے کی نہیں ہوتی۔ اس عمر میں تو بس خواب ہی اچھے لگتے ہیں۔ وقت گزرتا رہا اور میں عالم کے سپنے دیکھتی رہی۔ وہ کیا میرے بارے میں سوچتا تھا؟ مجھے اس کا کوئی علم نہ تھا۔ وہ میرے بھائی کی دوستی کے احترام میں ہم لوگوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا۔ اتفاق سے میں یا میری بہن سامنے آجاتیں تو وہ سر جھکا کر نظریں نیچی کر لیتا۔ پھر بھی میرا جی چاہتا کہ میں اسی کی دُلہن بنوں۔ ہمارے گھرانے میں  رواج نہیں تھا لیکن سب خواتین خود کو بڑی سی چادر میں لپیٹ کر رکھتی تھیں اور بہت کم گھر سے نکلتی-

یہ ایک ناممکن سی بات تھی کہ میں عالم کی دلہن بنتی مگر خواہشات پر کسی کا بس نہیں چلتا۔ میں بھی اپنی اس خواہش کے آگے بے بس تھی۔ ایک دن سوچا، جاننا چاہئے کہ میرے بارے میں اس کی کیا رائے ہے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس سے بات کیسے کی جائے۔ بھائی سخت مزاج تو نہیں تھے لیکن ایسی کھلی چھٹی بھی نہیں تھی کہ میں از خود بیٹھک میں گھس جاتی اور عالم سے باتیں کرنے لگتی، تاہم مجھے چین نہیں تھا۔ دل پہلو میں تو تھا مگر اس کو کسی پل قرار نہ تھا۔ ایک دن سب گھر والے کسی تقریب میں گئے ہوئے تھے، میں دادی کے ساتھ گھر پر تھی۔ سردیوں کے دن تھے ۔ امی اور بابا جان مجھے دادی کی دیکھ بھال کے لئے گھر پر چھوڑ گئے تھے۔ دوپہر کے وقت بیل بجی، میں دروازے پر گئی۔ سامنے عالم کھڑا تھا۔ اس نے بھائی کا پوچھا۔ بے اختیار میرے منہ سے نکالا۔ جی ہیں اور دروازہ کھول دیا۔ وہ تیزی سے بیٹھک میں چلا گیا اور بھائی کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔ میں کچن میں گئی، جلدی جلدی چائے بنائی اور ٹرے اٹھا کر بیٹھک میں آ گئی۔ یہ پہلی بار تھا کہ میں اس کے سامنے یوں آئی تھی۔ میرے اس طرح بے دھڑک آ جانے پر وہ حیران ہو گیا۔ یقیناً سوچ رہا تھا کہ اسے کیا ہو گیا ہے ؟ اگر آذر گھر پر نہیں ہے تو اس نے در کھول کر مجھے کیوں گھر کے اندر آنے کا کہا ہے ؟ اس کی حیرانی کو نظر انداز کرتے ہوئے میں نے چائے کی ٹرے میز پر رکھ دی اور کہا۔ آذر بھائی تو گھر پر نہیں ہیں۔ وہ آمی بابا کے ہمراہ رشتہ داروں کے ہاں شادی میں گئے ہیں۔ لیکن آپ نے تو کہا کہ آذر گھر پر ہے ؟ ہاں، میں نے اسی لئے کہاتا کہ آپ جو اتنی دور سے آئے ہیں چائے پی کر جائیں۔ میر اتنا کہا تھا کہ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ اچھا تو پھر میں چلتا ہوں۔ آپ بیٹھئے ، چائے تو لیجئے۔ مجھے آپ سے ایک ضروری بات کہنی ہے۔ یہ کہہ کر میں نے چائے کی پیالی اس کے ہاتھ میں تھمادی۔ وہ مجبور صوفے پر ٹک گیا اور چائے کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ لینے لگا۔ آپ کا میرے بارے کیا خیال ہے ؟ بے دھڑک میں نے اپنا سوال داغ دیا، جو اس قدر تیکھا تھا کہ عالم کا رنگ سُرخ ہو گیا۔ اس نے پہلی بار نظر بھر کر میری جانب دیکھا اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا، میں نے عجلت میں تیر چلا دیا۔ میں آپ کو پسند کرتی ہوں اور آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ کیا ایسا ممکن ہے ؟ اس کی آنکھیں میری دیدہ دلیری پر پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ؟ وہ روہانسا ہو کر بولا۔ کیا آپ کو خبر ہے کہ کتنی بڑی بات آپ نے کہہ دی ہے؟ بات بڑی چھوٹی نہیں۔ یہ ایک سیدھی سی بات ہے۔ شادی کے لئے پوچھنا کیا کوئی بُری بات ہے ، کوئی جرم ہے ؟ کیا میں نے چوری یا ڈکیتی کی بات کی ہے ؟ وہ میرے تابڑ توڑ جملوں سے گھبر ا گیا۔ ابھی تک وہ ماتھے سے پسینہ پونچھ رہا تھا۔ پھر اس نے کامل سنجیدگی سے جواب دیا۔ دیکھو بہار بی بی ! بات یہ ہے کہ تم میرے دوست کی بہن ہو، میرے لئے قابل احترام ہو۔ تمہارے علاوہ کوئی اور لڑکی اگر مجھ سے اس قسم کی باتیں کرتی تو میں اسے سیدھے منہ جواب ہی نہ دیتا لیکن میں تمہارا دل نہیں توڑنا چاہتا۔ اب سنو کہ میری مجبوری کیا ہے ؟ میری مجبوری یہ ہے کہ میرا تعلق ایسے قبیلے سے ہے ، جہاں دشمنیاں نسل در نسل چلتی ہیں۔ ہم ہر وقت بندوق کی نالی کے سامنے رہتے ہیں۔ ایسے میں تم کو مجھ سے شادی کر کے سوائے پریشانی کیا ملے گا۔ مجھے اس کی یہ تاویل عذر  محسوس ہوئی۔ آپ سیدھی طرح بات کیوں نہیں کرتے ؟ مجھے سیدھی بات کہنی اور سننی پسند ہے۔ شادی نہیں کرنی تو نہ کیجئے، کہہ دیجئے کہ نہیں کر سکتا۔ تو سیدھی بات ہے کہ ہاں تم سے شادی نہیں کر سکتا۔ ہمارے قبیلے میں لڑکے ہوں یا لڑکیاں، باہر شادی نہیں کر سکتے۔ جب اس نے ایسا ٹکا سا جواب دیا تو میں اور بھی دُکھی ہو گئی۔ اس کے سامنے سے چائے کی ٹرے اُٹھالی اور سر جھکا کر کچن میں آبیٹھی۔ آنسو خود بخود میری آنکھوں سے گرنے لگے ، جن کو پوچھنے والا وہاں کوئی نہ تھا۔ اسی لمحے دروازہ بند ہونے کی آواز سنائی دی۔ عالم گھر سے چلا گیا تھا۔ اس بالمشافہ گفتگو کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ اس کے بعد میں نے عالم کے سپنے دیکھنے چھوڑ دیئے اور پڑھائی میں دل لگا لیا۔ البتہ اب بھی جب وہ بھائی سے ملنے آتا تو ایک خلش سی سر اٹھاتی تھی جس کو میں پہلو میں دبا لیتی تھی اور دُعا کرتی کہ خُدا کرے کہ وہ ہمارے گھر نہ آیا کرے کیونکہ میں بار بار اس کو بُھلانے کی کوشش کرتی تھی وہ کوشش رائیگاں چلی جاتی تھی۔

میری دُعار نگ لے آئی اور اس نے ہمارے گھر آنا چھوڑ دیا۔ میں حیران تھی کہ آخر ایسا ہوا تو کیوں جبکہ وہ اور بھائی ایک دوسرے کے بغیر رہتے نہ تھے۔ سوچتی تھی کہ بھائی سے پوچھوں مگر ڈرتی تھی کہ وہ کیا سوچیں گے ، لیکن ایک دن امی نے پوچھ لیا۔ آذر بیٹے ! کیا بات ہے ، بہت دنوں سے عالم نہیں آیا ؟ تب بھائی نے بتایا کہ اس کا چچا بڑا غصیلا ہے، اس کا جھگڑا اپنی برادری کے ایک تاجر سے ہوا۔ اس میں وہ تاجر قتل ہو گیا۔ اس کے بیٹوں نے عالم کے چچا پر دعویٰ کیا ہے ، جس کی وجہ سے سارا خاندان پریشان ہے۔ اس پریشانی کے سبب عالم اپنے گائوں گیا ہوا ہے اور ابھی تک نہیں لوٹا۔ کچھ دن بعد عالم آگیا، اس نے بتایا کہ چچا کو عافیت مل گئی ہے اور والد نے کچھ زمین دے کر تاجر کے ورثہ کو تاوان ادا کر دیا ہے۔ قوی امید ہے کہ راضی نامہ ہو جائے گا لیکن اس کا چچا ٹھیک آدمی نہ تھا۔ گائوں کے سبھی لوگ اس سے ناخوش تھے ، جبکہ مقتول تاجر بھی کوئی غیر نہ تھا۔ وہ عالم کے چچا اور والد کا چچا زاد تھا، جس کی زمین وہ ہڑپ کرنا چاہتا تھا، بہر حال راضی نامہ تو نہ ہوا مگر کسی طرح اس کے چچا جان کی بخشی ہو گئی۔ یہ دشمنی ابھی چل رہی تھی کہ عالم کی فیملی ایک اور دشمنی کی لپیٹ میں آگئی۔ اس کے تایا کا بیٹار راحت ، اپنے دادا کے بھانجے شفیع خان کے ساتھ پانی کے مسئلے پر جھگڑ پڑا۔ دونوں نے ایک دوسرے پر گولیاں چلا دیں۔ شفیع کے دو بھتیجے زخمی ہو گئے ان کے پائوں میں گولیاں لگیں جو بعد میں ٹھیک ہو گئے لیکن ایک معمولی لنگڑا ہو گیا، اس پر تھانے میں رپورٹ درج کرا دی کہ شفیع خان نے ہماری دکانوں کو نقصان پہنچایا ہے ، حالانکہ اس نے خود ہی اپنے گودام میں آگ لگائی تھی۔ جواب میں شفیع نے بھی دعویٰ کر دیا۔ یوں عالم کے خاندان کی اپنے قبیلے کے ایک دوسرے گھرانے سے بھی دشمنی چل پڑی – ان دنوں وہ بڑا پریشان تھا۔ اس نے میرے بھائی سے کہا کہ شاید میں کافی دن تک نہ آسکوں۔ کالج بھی چھوڑنا پڑے گا دیکھو اس دُشمنی کا کیا انجام ہوتا ہے۔ آذر بھائی نے اسے تسلی دی کہ کیوں مایوس ہوتے ہو۔ وہ بولا۔ آذر ! تعلیم کی خاطر میں بچپن سے جھگڑے پسند نہیں کرتا۔ اس جھگڑے اور لڑائی میں میرے تایا اور باباجان بھی موجود نہیں تھے۔ اس کے باوجود شفیع نے ہم پر دعویٰ کر دیا ہے۔ ستم یہ کہ ہمارے جتنے رشتہ دار گائوں میں ہیں، وہ سب اُن کی طرف ہیں اور ہمارے دشمن بن گئے ہیں۔ گائوں کے بیچوں بیچ ہمارا گھر ہے۔ اب ہمیں اپنا گائوں بھی چھوڑنا پڑے گا۔ کچھ دنوں کے بعد عالم کا خط آگیا۔ لکھا تھا کہ ہم دوسرے گائوں چلے گئے ہیں۔ اس گائوں کے آس پاس میرے چار ماموں اور چار خالائیں رہتی ہیں۔ دیکھئے یہ پریشانی کب تک رہے۔ اگلے ماہ پھر عالم کا خط آیا۔ لکھا تھا۔ پیارے دوست آذر ! ان دنوں ہم بہت پریشان ہیں ، لذا تم سے ملنے سے قاصر ہوں کیونکہ ہماری ضمانتیں نامنظور ہوگئی ہیں۔ بابا، تایا اور تایازاد بھائی تو سینٹرل جیل چلے گئے ہیں۔ میں اور ایک تایا زاد بھائی مفرور ہیں۔ ثنا اپنی سسرال اور میں ماموں کے پاس چھپا ہوا ہوں۔ ایک ماموں کے پاس چند دن رہتا ہوں اور پھر دوسرے کے پاس چلا جاتا ہوں۔اس بار تو امتحان بھی نہ دے سکوں گا۔ آپ ہی سوچیں کیا بنے گا ہمارے مستقبل کا۔ بھائی آذر نے خط پڑھ کر میز پر رکھ دیا کرتے تھے۔ جب وہ کالج جاتے ، میں عالم کا خط کھول کر پڑھ لیا کرتی تو مجھے دُکھ ہوتا۔

اب مجھے عالم کی بات سمجھ میں آرہی تھی کہ وہ کیوں کہتا تھا کہ ہماری تمہاری شادی نہیں ہو سکتی، یہ ناممکن ہے۔ واقعی جیسے اس کے حالات خاندانی دشمنی کی وجہ سے تھے۔ اس میں تو یہ ناممکن ہی تھا کہ کوئی لڑکی اس کی دلہن بن کر خوش رہتی۔ عالم کے خطوط سے حالات پتا چلتے رہتے تھے۔ اس کی ماں اور دو بہنیں تائی اور تائی کی بیٹیاں سبھی در بدر ہو گئے تھے ۔ دشمنی کے سبب وہ اپنے گائوں اپنے گھر بار بیچ کر رشتے داروں کے ہاں پناہ لینے پر مجبور تھے۔ اس کے دو چھوٹے بھائی بھی کسی خالہ کے پاس اور کبھی کسی ماموں کے پاس ہوتے تھے۔ دونوں چھوٹے بھائیوں نے بھی تعلیم چھوڑ دی تھی۔ یو نہی دو سال گزر گئے۔ اس کے ماموں اور خالائیں ان سے تنگ آچکے تھے۔ وہ اب عالم اور اس کے بھائیوں کو پناہ دینے پر تیار نہ تھے ، اس وجہ سے عالم کا دل پریشان رہنے لگا تھا۔ اس نے یہ خط تفصیل سے لکھا تھا اور جوابی خط کے لئے  پتا بھی لکھ دیا تھا۔ بھائی نے عالم کو خط لکھا کہ تم میرے پاس آ جائو۔ اللہ مالک ہے، دیکھا جائے گا۔ اگر تمہاری وجہ سے کوئی میرا دشمن بنتا ہے تو بن جائے، مگر عالم نہ آیا۔ اس کا خیال تھا کہ شہر میں جاننے والوں میں سے اگر کسی نے پولیس کو اشارہ بھی کر دیا تو وہ پکڑا جائے گا۔ ایک ماہ بعد اس نے خط لکھا کہ ابھی تک وہ اپنے دوست صابر کے پاس ہے اور اسے اس بات کا قلق ہے کہ اس کی ماں دو بار اپنے بھائی کے گھر ملنے کو آئی مگر ماموں نے اسے بتایا کہ عالم ادھر سے چلا گیا ہے، تبھی بیٹے کی جدائی کے صدمے سے وہ ذہنی توازن کھو بیٹھی ہے۔ وہ گھر سے نکل جاتی ہے ، لوگوں کو پتھر مارتی ہے اور لوگوں کے پتھر کھاتی ہے۔ وہ شاید یہ سمجھتی ہے کہ میں اس دنیا میں نہیں رہا ہوں۔ میرے جیسی قامت کے کسی نوجوان  کو دیکھتی ہے تو اس کے پیچھے بھاگتی ہے حتی کہ اس کے گھر میں داخل ہو جاتی ہیں۔ چھوٹے بھائی نے ماں کو مینٹل ہاسپٹل میں داخل کرا دیا ہے۔ ادھر ماموں کی بیوی کرنٹ لگنے سے فوت ہو گئی ہیں۔ ماموں کا گھر بھی ویران ہو گیا ہے اور ان کے چھ بچے ماں سے محروم ہو گئے ہیں۔ یہ خط پڑھ کر میں حیرت میں ڈوب گئی کہ یا اللہ یہ کیسی پریشانیاں ہیں، جو اس بے چارے کو گھیرے ہوئے ہیں۔ خُدا کی قدرت اس کے بعد والا اس کا خط خوشی سے بھرا ہوا تھا۔ لکھا تھا، مبارک ہو میرے دوست ! کہ والد صاحب تایا اور تایازاد بھائی رہا ہو گئے ہیں اور میرے چھوٹے بھائی نے کرایے کا مکان ڈھونڈ لیا ہے۔ امی کی طبیعت بھی کافی سنبھل گئی ہے۔ اب میں پنڈی جارہا ہوں ، وہاں جا کر نیا پتا لکھوں گا۔

پندرہ روز بعد عالم کا خط پنڈی سے آگیا کہ ہم سب گھر والے پنڈی آگئے ہیں۔ یہاں میں کسی کو اپنا اصل نام نہیں بتاتا۔ ایک فیکٹری میں کام شروع کر دیا ہے۔ چھوٹا بھائی بھی ملازمت کر رہا ہے۔ والد صاحب کریانہ کی دکان ڈال رہے ہیں، گرچہ اپنا گائوں چھوڑنے کا رنج ہے لیکن جب حالات درست ہو جائیں گے تو وہاں چلے جائیں گے کیونکہ اب ہمارے اچھے دن آنے والے ہیں۔ اچھے دنوں نے مگر وفا نہ کی ۔ عالم کے تایا کو رہا ہوئے چھ ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ شفیع نے اس کو گولی مار دی۔ عالم کا چھوٹا بھائی اور والد بھی بندوقوں کی زد میں آکر زخمی ہو گئے۔ صلح کے لئے ان لوگوں نے  جرگے بھیجے لیکن انہوں نے پھر بھی غلط قدم اُٹھایا۔ پھر شفیع کی طرف سے راضی نامے کی پیش کش ہوئی۔ عالم کے تایا زاد بھائی راضی ہو گئے ، ان دنوں میں ثنا گل جو مفرور تھا اس نے عافیت کی درخواست دی لیکن منظور نہ ہو سکی اور اس کے بعد والد کا قتل ہو گیا۔ تایا کے قتل کے بعد عالم بہت ہی پریشان تھا کہ پھر اس کے بھی والد کا قتل ہو گیا۔ عالم کا خط آیا کہ میں پھر راضی نامے کے لئے جارہا ہوں تا کہ اس خون خرابے کے باب کو بند کیا جا سکے۔ چھ سال سے مفرور کی زندگی گزار رہا ہوں۔ یہ بھی کوئی جینا ہے ؟ اسی لئے تایا اور باپ کے قاتلوں سے پھر بھی راضی نامہ چاہتا ہوں تا کہ مفروری کی زندگی ختم ہو تو میں بے خوف ہو کر آپ سے ملوں۔ پڑھائی کے چھٹ جانے کا بہت افسوس ہے۔ میں بہت پیچھے رہ گیا ہوں۔ ارادہ ہے کہ دوبارہ پڑھائی شروع کر کے امتحان دوں۔ میں نے کسی وقت بھی اللہ سے شکوہ نہیں کیا۔ میں اللہ تعالی کا مشکور ہوں کہ اب میرا کڑا امتحان ختم ہونے والا ہے۔ یہ آخری خط عالم کا بھائی کے پاس آیا تھا۔ خط میں پنڈی کا پتا لکھا تھا، اس لئے میں ، امی اور بھائی عالم کے گھر پشاور سے پنڈی گئے ، اس کی ماں اور بہنوں سے ملے ۔ وہ سیدھی سادی، پیار کرنے والی عور تیں تھیں۔ طویل عرصے تک یہ خاندان بکھر رہنے کے بعد اکٹھا ہوا تھا اور ان کو سکون میسر آیا تھا، پھر بھی عالم کی والدہ کے چہرے پر گزرے ہوئے کٹھن وقت کے اثرات نمایاں نظر آتے تھے۔

اُس روز چند لمحوں کے لئے عالم کو اکیلے میں مجھ سے بات کرنے کا موقعہ ملا تو اس نے پہلا سوال یہی کیا۔ کیا اب بھی آپ کو میری بات سمجھ میں آگئی یا آپ ابھی تک مجھ سے ناراض ہیں؟ میں آپ سے ناراض نہیں ہوں۔ واقعی آپ لوگوں کی زندگی بڑی کٹھن ہے ، میں نے جان لیا ہے۔ تو پھر کیا ارادہ ہے ، میر ی دُلہن بنو گی ؟ اپنی امی سے بات کروں ؟ ہر گز نہیں عالم ! میں اتنی آزمائشوں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ میں اس کو یہی جواب دینے والی تھی مگر نہ دے سکی کیونکہ اسی وقت اس کی امی اور والدہ وہاں آگئیں اور الفاظ میرے لبوں تک آکر رہ گئے۔ ہم اپنے شہر چلے آئے اور ہمارے آنے کے صرف ایک ہفتے بعد بھائی کو کسی نے خبر دی کہ عالم کو ان کے مخالف رشتہ داروں نے قتل کر دیا ہے۔ اف اس خوبصورت نوجوان نے جس کا نام فاتح عالم تھا، کس قدر مجبور اور مصیبتوں بھری زندگی گزاری، اتنی صعوبتیں برداشت کیں، چھ سال کی مفروری اور در بدر چھپتے پھرنا، پیاروں کا خون بہا، پھر بھی راضی نامے پر آمادہ ہونا، لیکن اس کے قبیلے کی روایات نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔ یہ حسین ، نیک اطوار اور صلح پسند نوجوان بالآخر اپنوں کی دشمنی کی نذر ہو گیا۔ آذر بھائی، عالم کی موت کی خبر سُن کر پھوٹ پھوٹ کے روئے تھے۔ امی اور میں بھی بہت غمزدہ اور افسردہ ہوئے۔ تب ماں نے مجھے کہا۔ اسی لئے میں نے تمہیں پہلے دن سمجھا دیا تھا اور تم کو میری بات سمجھ نہ آرہی تھی۔ اب آگئی ہے نا سمجھ ! ہاں ماں ، بہت اچھی طرح میں نے جواب دیا لیکن ان کو یہ باور نہ کرواسکی کہ پیار کی کوئی حدود نہیں ہو تیں اور یہ کہ عالم کے قتل ہو جانے کی خبر سُن کر میں جیتے جی مر گئی ہوں۔

Latest Posts

Related POSTS