Monday, April 28, 2025

Jeevan Mein Andheray Bhar Liye

میرے والد صاحب زمیندار تھے جبکہ فیض ایک کسان کا بیٹا تھا۔ ہم دونوں کی پرورش گاؤں کے کھلے ماحول میں ہوئی تھی۔ مجھے تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا جبکہ ہمارے یہاں لڑکیوں کو پڑھانے کا رواج نہیں تھا۔ میرے بھائی نے میٹرک کر کے تعلیم کو خیر باد کہہ دیا۔ ان دنوں میں آٹھویں میں پڑھ رہی تھی اور مزیدتعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی۔ امتحان قریب تھے اور میں پھپھو کے گھر پڑھنے جایا کرتی تھی ۔ راستے میں فیض کا گھر پڑتا تھا، جس کے آگے ایک میدان تھا۔ وہاں گاؤں کے لڑکے کرکٹ کھیلتے تھے۔ ایک دن میں اپنی پھپھو کے گھر سے لوٹ رہی تھی کہ فیض سامنے آگیا۔ وہ کرکٹ کھیل کر آرہاتھا مگر اس نے میری طرف توجہ نہ کی ۔
مجھ کو اس کا یہ انداز بے نیازی کھل گیا۔ میں پیدل جارہی تھی۔ راستہ تنگ سا تھا مگر اس نے ایک طرف ہوکر مجھ کو گزرنے کا موقع تک نہ دیا۔ یہ بات مجھے مزید بری لگی ۔سوچا خوبصورت ہے تو کیا ہوا۔ جانے یہ اپنے آپ کو سمجھتا کیا ہے؟ ہے تو کسان کا بیٹا، اس کی اوقات ہی کیا ہے۔ میں اس کو مزہ چکھاؤں گی۔
اگلے دن جب میں پھر اس کے گھر کے آگے سے گزری تو جان بوجھ کر سامنے آ گئی ،تب اس نے پوچھا….. آپ کیا چاہتی ہیں؟
میں نے مسکرا کر جواب دیا۔” آپ کو….. میرے اس جواب پر حیرت سے اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔ وہ بولا….. کیا کہہ رہی ہو…. میں کہاں اور تم کہاں؟ اب مجھ کو مزہ آنے لگا اس کو حیران کرنے کا۔ میں روزانہ اس کے راستے میں آ جاتی اور وہ مجھ سے دور جانے کی کوشش کرتا۔
ایک دن وہ گھر کی طرف جارہا تھا کہ میں اس کو حسب معمول راستے میں ملی، شام کا وقت تھا۔ میں ٹھہر گئی ، وہ بھی ٹھہر گیا۔سوال کیا ۔۔۔۔۔۔ یہاں کیا کر رہی ہو؟
تیرا انتظار کر رہی ہوں۔ جب یہ بات سنی تو اس نے بھی اپنے دل کی بات کہ دی…. میرادل بھی یہی کہتا ہے کہ تم اس جگہ روز مجھے ملا کرو۔ اچھا…. میں نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں پھیلا کر کہا۔ ایک ہفتہ بعد پھر اسی جگہ ٹکراؤ ہوا۔اس نے
میرا نام پوچھا۔
اوه ، دو ماہ گزر گئے ہیں، اب تم میرا نام پوچھ رہے ہو۔ بہرحال میں نے اس کو اور اس نے مجھے اپنا نام بتادیا۔
پھپھو کے گھر روز ٹیوشن پڑھنے جانا میرا معمول تھا تب ہی ایک دن جب سرراہ میں فیض سے کوئی بات کر رہی تھی ، والد صاحب نے ہمیں باتیں کرتے دیکھ لیا۔ پھر غضب تو ہونا ہی تھا۔
جب میں گھر پہنچی تو ابو سے بہت ڈانٹ پڑی کہ تم نوکر لوگوں سے بات کرتی ہو۔ تم کو پتہ ہے کہ وہ کسان ہے اور تم زمین کے مالک کی بیٹی ہو تم کو راستے میں ٹھہر کر اس سے ہم کلام ہونا زیب نہیں دیتا۔ آخرتم کیوں فیض سے بات کر رہی تھیں۔
میں کیا بتاتی کہ میں اس مغرور کے غرور کوتوڑنا چاہتی تھی اور ابوگرج رہے تھے۔ اب اگر کبھی تم نے راستے میں رک کر کسی سے بات کی تو میں تم کو پڑھائی سے اٹھا لوں گا۔ مجھ کو کونسی اس سے سچی محبت تھی۔ میں تو بس اس کی دل آزاری کرنا چاہتی تھی۔
انہی دنوں ابو نے میرا رشتہ چچا زاد فرمان سے طے کر دیا جبکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ابھی شادی ہو۔ وہ بیرون ملک پڑھائی کی غرض سے جانا چاہتا تھا۔ بہرحال منگنی ہوگئی ، تو میں نے بھی فیض کو ستانے کا خیال چھوڑ دیا۔ امتحان ہو گئے اور میں گھر بیٹھ گئی۔
ادھر فیض نے اپنے والدین سے رشتہ مانگنے کو کہا تو اس کے ابا بہت غصہ ہوۓ اور اسے گھر سے نکالنے کی دھمکی دے دی جبکہ ماں بولی۔ بیٹا ہم غریب ہیں۔ اگر تم پڑھ لکھ کرکسی قابل ہو جاؤ تو یقینا ہم اس لائق ہو جائیں گے کہ تمہارا رشتہ مانگنے کسی حیثیت والے کے گھر جائیں۔
یہ بات فیض نے گرہ میں باندھ لی اور ہر خیال چھوڑ کر پڑھائی میں لگ گیا۔ پھر اس نے انٹر بورڈ میں پوزیشن لی۔
فیض کی لگن سچی تھی ۔ وہ اعلی تعلیم حاصل کرنے لگا- ادھر میرے منگیتر نے شادی سے انکار کر دیا اور وہ بیرون ملک منگنی توڑ کر چلا گیا جس کا والد کو بہت قلق ہوا۔
وقت گزرنے لگا۔ میں نے کالج میں داخلہ لے لیا اور والد کو اب احساس ہوا کہ اپنوں میں گن نہ ہوں تو پھر اپنے بیکار ہوتے ہیں۔
ایک دن فیض جارہا تھا کہ میں نے اس کو آواز دی۔ وہ ٹھہر گیا… پوچھا کیا بات ہے…..تم نے تو مجھے بھلا ہی دیا۔
میں نے سنجیدگی سے کہا۔ یادرکھوں تو بھی کونسا تم سے مل پاؤں گی۔ اس لئے بھلا دینا ہی اچھا ہے۔
میری غربت میری وراثت ہے، میں کیسے اس سے جان چھڑا سکتا ہوں۔ بڑے دکھ سے اس نے کہا تھا۔
یہ بات نہیں ہے فیض … تم اگرکسی لائق ہو جاؤ تو پھر ابوتمہارے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے مگر تم میں وفا نہیں ہے۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے۔
وفا کا کیا ثبوت چاہئے، بولو …… اور پھر اس نے جیب سے پستول نکال لیا۔ میں نے کہا نہ ….نہ اپنی جان مت دے دینا بھلا تمہاری جان دینے سے مجھ کو کیا فائدہ ہوگا ۔ ہاں اگر تم ثبوت دینا چاہتے ہوتو اپنے ہاتھ میں گولی مارلو… تب ہی اس بے وقوف نے ایک لحہ کا بھی توقف نہ کیا اور اپنے ہاتھ میں گولی ماردی……حالانکہ میں نے تو مذاقا ایسا کہا تھا۔
میں سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ وہ ایسا کرے گا۔ میرے مذاق کو اس نے اپنے لئے آزمائش سمجھ لیا اور اس وقت کھڑے کھڑے اس کا ثبوت بھی دے دیا۔ اس کا ہاتھ لہو سے تر بتر ہو گیا اور میں کانپنے لگی۔ چاہتی تھی کہ اپنے دوپٹے سے اس کا ہاتھ لپیٹ دوں۔اس وقت آبا جان کی گاڑی ادھر سے گزری۔ انہوں نے ہمیں راستے میں کھڑے دیکھا تو طیش میں گاڑی سے اتر کر تیزی سے ہماری طرف آۓ ۔ جانے وہ کس ارادے سے آۓ تھے مگر فیض کے ہاتھ سے لہو بہتا دیکھ کر ان کے بھی اوسان خطا ہو گئے ۔انہوں نے جلدی سے اسے گاڑی میں بٹھالیا اور فورا اسپتال لے گئے جہاں ڈاکٹر نے طبی امداد دی اور اس کے بعد جب فیض کی طبیعت ٹھیک ہوگئی تو انہوں نے پوچھا کہ تم نے اپنے ہاتھ پر گولی کیوں چلائی… فیض نے جواب دیا کہ ماجدہ بی بی نے کیا، اپنے ہاتھ پر گولی مارلو، تو میں نے ان کے حکم کی تعمیل کی ۔ اس بات کا میرے والد صاحب کے دل پر بڑا گہرا اثر ہوا اور وہ سوچ میں پڑ گئے۔
سوچا کہ ایک طرف بھتیجا ہے جو میری بیٹی کوٹھکرا کر چلا گیا ہے اور دوسری طرف یہ غریب کا بیٹا ہے جس کی وفا اور خلوص نے اسے جان پر کھیل جانے کے لئے مجبور کیا ہے۔
انہوں نے فیض کا تعلیمی ریکارڈ چیک کیا تو اس سے بے حد متاثر ہوئے اور سوچا کہ کیوں نہ اس غریب کی سر پرستی کروں، اس کو پڑھنے میں مدد دوں اور پھر اس محنتی اور لائق لڑکے کو اپنی بیٹی دے دوں۔
والد صاحب کے پاس روپے پیسے کی کمی نہ تھی۔ لائق داماد کسے اچھا نہیں لگتا۔ والد صاحب نے چاچا دین احمد سے بات کی کہ میں تمہارے بیٹے کو آگے پڑھانا چاہتا ہوں ۔ داماد بنانا چاہتا ہوں تم کو منظور ہو تو منگنی کر دیں۔ میں لڑکے کو بعد میں پڑھنے کے لئے انگلینڈ بھیج دوں گا۔
اندھے کو کیا چاہئے دو آنکھیں ۔ وہ بہت خوش ہوا۔ بہر حال رشتہ طے ہو گیا۔ جب مجھے اس بات کا پتہ چلا ، میں تو چکرا کر رہ گئی کیونکہ میں فیض کے ساتھ سنجیدہ تھی ہی نہیں اور میں نے یہ بھی نہ چاہا تھا کہ میرا اس کے ساتھ رشتہ ہو، بس مذاق مذاق میں ایسی باتیں کرتی تھی۔
مجھ کو اس سے خارتھی ۔ پر خاش تھی کہ اس نے ایک بار مجھ کو راستہ نہیں دیا تھا اور میرا احترام نہ کیا تھا جبکہ وہ کسان کا بیٹا تھا اور میں زمیندار کی بیٹی تھی۔ میں مغرور تھی مگر غرور سے کام اس نے لیا تھا، تب ہی میں نے قسم کھائی تھی کہ اس کو بے عزت کر کے رہوں گی مگر تقدیر نے پھر میرے ساتھ ہی عجیب کھیل کھیلا کہ اس کی بجاۓ مجھ کو بے عزت کر ڈالا۔ میری اس کے ساتھ منگنی بےعزتی نہیں تھی تو اور کیا تھی جبکہ میں اس کو اپنے قابل نہیں سمجھتی تھی۔
یہ تو میں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا، والد صاحب اتنا بڑا فیصلہ کر لیں گے ۔ شاید ان کوغلط فہمی ہوگئی تھی کہ میں فیض کو پسند کرتی ہوں جبکہ سر راہ بات کر لینے کا مطلب ہرگز یہ نہ تھا کہ میں اس کو پسند کرتی ہوں ۔ بہر حال انہونی ہوگئی کہ ہیرے کی قدر جوہری ہی جانتا ہے۔
منگنی ہوگئی تو لوگوں کو حیرت بھی ہوئی کہ کیسے زمیندار نے اپنی بیٹی کا رشتہ ایک کسان کے بیٹے کو دے دیا۔ لوگوں میں چہ میگوئیاں ہوئیں مگر والد کے سامنے کسی کو دم مارنے کی جرات نہیں تھی۔ تاہم جب میں اسکول جاتی ، لڑکیاں مجھے عجیب نظروں سے دیکھتی تھیں ،تب مجھے بہت غصہ آتا تھا۔ اب فیض راستے میں ملتا تو بات کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا مگر میں غصے سے منہ پھیر لیتی ۔کہاں میں اس کو سبق پڑھانے چلی تھی اور کہاں تقدیر نے مجھے ہی سبق پڑھا دیا تھا۔ پہلے وہ غرور کرتا تھا، اب میں غرور سے اس کی چاہت کو ٹھوکر مار دیتی تھی اور منہ دوسری طرف کر کے چل دیتی تھی حالانکہ میری اور اس کی جان پہچان کافی عرصے سے چل رہی تھی مگر منگنی کے بعد جانے کیوں میں اس کو پسند کرتے ہوۓ بھی ناپسند کرنے لگی تھی۔
اس کی وجہ یہی احساس تھا کہ ہم برتر ہیں، یہ کم تر ہیں۔ ہمارا ان کا میل نہیں ۔ پھر میں کیوں اس کو قبول کروں کہ ہم صوفوں پر اور یہ زمین پر بیٹھنے والے لوگ ہیں۔
میری سہیلیوں نے بھی اس بیزاری کو سمجھ لیا کیونکہ اکثر وہ میرے ساتھ ہی اس میدان سے گزرتی تھیں جدھر فیض کا گھر واقع تھا۔ جب میں فیض کو دیکھ کر نفرت سے منہ دوسری جانب کر لیتی تو وہ مجھے سمجھاتیں کہ یوں نہ کیا کرو۔ یہ بات اللہ کو پسند نہیں ہے۔ دیکھو یہ کتنا اچھا،سلجھا ہوا اور لائق لڑکا ہے ۔کتنی ٹرافیاں لی ہیں اور اسکالر شپ لیا ہے۔سارے گاؤں میں تعلیمی لحاظ سے اس کا ریکارڈ شاندار ہے۔ پھر کیوں تم اس سے نفرت کرتی ہو۔ تمہارے والد نے اس لڑکے میں کوئی جوہر دیکھ کر ہی اسے تمہارے لیے منتخب کیا ہے-
میں سوچتی تھی کہ یہ کتنی عجیب بات ہے شاید کہ یہ پہلی مثال ہے جب کسی زمیندار نے کسان کے بیٹے کو اتنی اہمیت دی ہو کہ اس کو داماد بنا لیا۔ ورنہ تو اس جرم میں یہ لوگ کوڑے ہی کھاتے ہیں ۔شاید کہ زمانہ ہی بدل رہا تھا یا پھر والد کی سوچیں دوسرے لوگوں سے الگ تھیں کہ وہ کافی عرصہ بیرون ملک بھی رہے تھے۔
تنہائی میں سوچتی تو دل نرم پڑ جاتا تھا۔ آخر فیض میں کیا برائی تھی ، ٹاپ کر رہا تھا، کھیلوں میں ٹرافیاں لیتا تھا، خوبصورت تھا، سارا گاؤں اس کو اچھا کہتا تھا۔ اس کی عزت قابلیت کے باعث تھی ۔اس میں کوئی بری عادت بھی تھی۔
میری سہیلیاں اس کی تعریف کرتیں تو میرے دل میں اس کی جگہ بن جاتی۔ جب وہ مجھ سے بات کے لئے آگے قدم بڑھاتا تو میری رعونت عود کر آتی اور میں حقارت سے اس کو ٹھکرادیتی۔اس کے چچا کا گھر ہمارے گھر کے پاس تھا، اس لئے وہ اکثر ادھر آیا کرتا تھا۔ میری آنکھوں میں حقارت اور نفرت دیکھ کر بھی اس کے دل سے میری قدر کم نہ ہوئی اور وہ بدستور مجھ کو چاہت بھری نظروں سے دیکھتارہا۔
ایک دن اس نے مجھ سے کہا کہ اگر تم کہو تو میں تمہارے گھر اپنے والدین کو بھیج دوں تا کہ شادی کی بات کریں لیکن میں نے اتنا کہہ کر اس کے دل کو ٹھیس پہنچائی کہ تم واقعی پاگل ہو۔ جانے ابو نے ایسا کیوں کیا۔ جب میں تم سے لگاؤ نہیں رکھتی تو بھلا شادی کیوں کروں گی؟ میں نے ابھی شادی نہیں کرنی۔ میں پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں۔وہ میری ان باتوں کا بالکل برا نہ مناتا ، بس مسکرا دیتا تھا۔ کہتا ٹھیک ہے…… جب تم کہو گی تب ہی شادی کریں گے…… میں کہتی…. یاد رکھنا جب تک میں نہ کہوں تمہارے والدین میرے گھر شادی کی تاریخ لینے نہ آئیں ورنہ بے عزت ہو کر جائیں گے۔
یہی نہیں، میں ہمیشہ اس پر طرح طرح کے الزامات لگائی کہ وہ کسی رشتے دارلڑ کی سے ملتا تو میں موقع پا کر اس کو ذلیل کرتی ۔ شاید کہ میں چاہتی تھی کہ کسی طرح ابو اس منگنی کوتوڑ دیں اور مجھ پر حرف بھی نہ آۓ۔
ایک دفعہ نجانے وہ کس حال میں تھا کہ حسب معمول ہماری گلی سے گزرا۔ اس کے ساتھ دوست بھی تھا۔ یہ لوگ آپس میں باتیں کرتے جارہے تھے۔ میں نے سوچا شاید میرے بارے میں باتیں کر رہے ہیں۔ میں نے اس کو ذلیل کرنا شروع کر دیا لیکن آج وہ ہمیشہ کی طرح خاموش نہ رہا بلکہ غصے میں آ گیا اور مجھ کو گھورتا آگے بڑھ گیا۔ شاید کوئی نیا دوست اس کے ساتھ تھا، تب ہی وہ میری بدکلامی سے خفا ہو گیا تھا۔
میں نے دسیوں بار اس کی تذلیل کی تھی مگر وہ ہمیشہ مسکراتا ہوا گزرجاتا تھا۔ مگر آج وہ سخت برہم ہواتھا۔
ایک گھنٹے بعد وہ واپس آیا تو اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہورہا تھا۔ اس نے پاس آ کر مجھے مخاطب کیا… ماجدہ … خبردار، آج کے بعد مجھے تم یوں مخاطب نہ کرنا۔ تم نے مجھے خرید نہیں لیا ہے کہ جب چا ہوذلیل کردو۔ یہ کہ کر وہ اپنے چچا کے گھر چلا گیا اور زور سے دروازہ بند کر دیا۔
چار سال کے عرصے میں، میں نے پہلی بار ایسے الفاظ اس کے منہ سے سنے تھے۔ میرا وجود ہل گیا اور آج مجھے محسوس ہوا کہ میں نے ہمیشہ اس کے ساتھ زیادتی کی ہے حالانکہ وہ میری مرضی کے بغیر کسی سے بات تک نہ کرتا تھا۔ وہ میرا حد سے زیادہ خیال کرتا تھا اور میں اس کو سزا دے رہی تھی، اس بات کی کہ وہ کسان کا بیٹا ہے۔ وہ ہمارے برابر کا نہیں پھر بھی برابری پر آنا چاہتا ہے۔
وہ میرا حد سے زیادہ کیوں خیال کرتا تھا؟ یہی اس کا جرم تھا اور میں سمجھتی تھی وہ مجھ سے ڈرتا ہے۔ میری محبت پر اس لئے قربان ہونا چاہتا ہے کہ ہم سے کم تر ہے۔
اس نے مجھ سے بولنا چھوڑ دیا۔ میری طرف دیکھنا تو کجا اس نے راستہ ہی بدل لیا۔ وہ لاتعلق ہو گیا تو میرے دل کو ایک انجانی سی خلش ستانے لگی۔ میں پچھتانے لگی۔ غرور اور رعونت خاک میں مل گئی ….. جی چاہتا تھا کہ وہ ملے۔ اس سے بات کروں، اپنے پچھلے رویے کی معافی طلب کروں اور آئندہ اس کو ذلیل نہ کرنے کا عہد کروں ۔
میں نے دعا کی اور خدا نے میری دعا سن لی۔ ایک دن وہ سامنے آ گیا۔ میں نے بات کرنا چاہی وہ سمجھ گیا۔ خوش اسلوبی سے بولا کہ ماجدہ کبھی ایسے دوست ساتھ ہوتے ہیں جن کے سامنے عزت مطلوب ہوتی ہے، تم ہر وقت میری پگڑی نہ اچھالا کرو۔ آخر تمہارے اس رویے کی وجہ کیا ہے؟ کیا تم مجھے کوناپسند کرتی ہو؟ مجھ سے منگنی پر خوش نہیں ہو؟ اگر ایسی بات ہے تو میں تمہارے راستے سے ہٹ جاتا ہوں ، تم کسی بھی وقت میری طرف سے اس بندھن
سے آزاد ہوسکتی ہو۔
اس نے کچھ ایسے لہجے میں یہ باتیں کہیں کہ تیر کی مانند یہ بول میرے دل میں ترازو ہو گئے۔ سوچا آخر کیوں میں اس کا دل دکھاتی ہوں ۔ کیوں ستاتی ہوں۔ اس کا کیا قصور ہے۔ واقعی وہ سچ کہ رہا تھا۔ میں نے اس کی تذلیل میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی ، تاہم میں اپنے ذہن کو سمجھ نہ سکی کہ آخر ایسا میں کیوں کرتی تھی۔ وہ دور چلا جاتا تو میں بے چین ہو جاتی تھی۔ وہ پاس آتا تھا تو میرا دل بیزار ہو جاتا تھا۔اس کے لئے حقارت سے بھر جاتا تھا، گویا میں نہ اس کو چھوڑ سکتی تھی اورنہ اپنا سکتی تھی ۔ عجب احوال تھا میرا۔
اس کو برا بھلا کہ کر میں پچھتائی تو بہت مگر بس چند دن …میری رعونت اور غرور نے پھر سے دل پر قبضہ کر لیا یہ تنگ نظری حکومت کرنے گی …یہ وہ تانگ نظری تھی جو طبقاتی فرق سے جنم لیتی ہے اور نسلوں میں صدیوں تک جاری وساری رہتی ہے۔ اس دفعہ میں نے صرف اس بات پر اس سے لڑائی کر لی کہ وہ ایک دن دھوتی کرتے میں اپنے گھر کے باہر کھڑا تھا۔ میری سہیلیوں نے اس لباس میں اس کو دیکھا تو ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہونے لگیں۔ مجھے بہت برا لگا۔اب وہ کالج کا طالب علم تھا کم از کم اس کولباس تو پہننے کی تمیز آجانی چاہئے تھی-
میں پھر سے اس سے ناراض ہوگئی ۔ دل نے کہا چلو جان چھوٹی، یہ ہمارے قابل کہاں ہے جو ہمارے خاندان میں بطور داماد متعارف ہو۔ اس کو تو کپڑے پہنے کا سلیقہ بھی نہیں ہے۔ جب میں کافی دن اس کے سامنے نہ گئی بلکہ میں نے گھر سے نکلنا ہی چھوڑ دیا تو اس نے بے قرار ہو کر میری سہیلی کے ہاتھ پیغام بھیجا۔ ماجدہ سے کہو کہ کیوں خفا ہو گئی ہو، مجھ سے صلح کر لو ورنہ میں پڑھائی چھوڑ کرکھیتی باڑی شروع کر دوں گا ۔ اسے کہو کہ میرے چچا کے گھر کے سامنے آ جائے تا کہ میں اس سے بات کر سکوں ۔
ہمارے ملک کو تعلیم یافتہ سے زیادہ کھیتی باڑی کرنے والوں کی ضرورت ہے۔ ہمارا ایگری کلچرل نظام تباہ ہو گیا ہے۔ تعلیم یافتہ تو اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ملکوں کو فائدہ دینے چلے جاتے ہیں جبکہ ان پڑھ کسان یہیں رہ کر بیج بوتا اور فضل اگاتا ہے جس کو ہم کھاتے ہیں۔
میرا وہ یہ جواب سن کر پریشان ہو گیا ۔ میری سمبلی سے کہا کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کیوں ۔۔۔۔ ماجدہ ایسا کرتی ہے، وہ مجھ سے عجیب وغریب رویے رکھتی ہے۔ کیا اس کے باپ نے میرے ساتھ منگنی کر کے اسے کوئی سزادی ہے، شاید اس بات کی سزا کہ وہ اسکول سے آتے ہوۓ مجھ سے راستے میں رک کرباتیں کرتی تھی؟ ماجدہ اس منگنی سے خوش نہیں ہے، وہ پریشان لگتی ہے۔ کم از کم مجھ کو تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔۔۔۔۔ تو پھر وہ یہ منگنی تو ڑ دے نا۔
اسے کوئی نفسیاتی الجھن ہے۔ میری سہیلی نے جواب دیا۔ بہر حال دیکھو میں اس کو سمجھاؤں گی کہ تم سے اچھا رویہ رکھے یا پھر اپنے والد کو یہ رشتہ توڑنے کا کہہ دے….. اس طرح تو زندگی نہیں گزرسکتی۔ میری سہیلی نے جیسا سنا ویسا مجھے آ کر بتایا، تو میں نے اس کو ٹالنا چاہا کہ میں فیض سے نفرت نہیں کرتی مگر اس کے لائف اسٹائل سے پریشان ہوتی ہوں، ان کے گھر والے تو اجڈ گنوارہی رہیں گے۔ یہ پڑھ لکھ گیا تو کیا ہوا۔ ان کی برادری کی وجہ سے ہماری ناک کٹ جائے گی۔
تم اپنے والد سے یہ بات کہو اور ان کو بتا دو کہ ویسے ہی اس سے کلام کیا کرتی تھی اور تمہارا اس کے ساتھ پیار ومحبت کا کوئی سلسلہ نہ تھا تا کہ ان کی غلط فہمی دور ہو اور وہ اس رشتے کوختم کر دیں۔
جانے کیا بات ہے رابو کہ میں ایسا بھی نہیں کر سکتی۔ جب سوچتی ہوں کہ فیض سے کنارہ کشی اختیار کر لوں تو میرا دم گھٹنے لگتا ہے اور پھر یوں لگتا ہے جیسے میں اس کو چاہتی ہوں ، پسند کرتی ہوں مگر جب سامنے آتا ہے تو جی چاہتا ہے کہ اس سے رخ پھیرلوں، اس کو کم تر خیال کر کے اس کی تذلیل کر ڈالتی ہوں۔
رابعہ کہنے لگی۔ ماجو، تمہارا کچھ نفسیاتی مسئلہ ہے ورنہ محبت اور تزلیل ساتھ نہیں چل سکتے۔ یہ جذبے الگ الگ سمت میں سفر کرتے ہیں، اگر محبت ہے تو محبت ہے، اگر نہیں ہے تو نہیں ہے۔ یہ کیا کہ اس کے بغیر رہا نہیں جاتا اور اس کا ساتھ بھی گوارہ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔
یہ تو سمجھ میں آنی والی بات نہیں ہے بلکہ تم ایک معصوم
انسان کے جذبات سے کھیل رہی ہو۔ خدانخواستہ بھی اس کو آزمانا نہیں ورنہ اس کی جان چلی جائے گی۔
رابعہ نے سچ کہا تھا کہ اس کو آزمانا نہیں اور میں نے اس کے پیارکوآزمائش میں ڈالا ۔ میں ہمیشہ اپنی سہیلی سے کہا کرتی تھی کہ وہ تو ایسے کہتا ہی رہتا ہے، کچھ کر کے دکھاتا تو ہے نہیں ۔ انہی دنوں اس کا رزلٹ آیا، وہ شاندار کامیابی سے ہم کنار ہوا تھا۔ اس کا داخلہ شہر کے میڈیکل کالج میں ہو گیا۔
وہ بہت خوش تھا۔ ابو بھی خوش ہوۓ ، وہ چاچا دین احمد کے گھر گئے مبارکباد دینے ۔ فیض کا باپ بائیس بیگھے کا مالک تھا۔ اپنی زمین سے اتنی آمدنی تھی کہ اچھا گزارہ ہورہا تھا لیکن بیٹے کو ڈاکٹر بنانے کی خاطر وہ یہ زمین فروخت کر رہے تھے۔ والد صاحب نے کہا دین احمد یہ زمین تمہاری روزی کا ذریعہ ہے، اس کومت بیچو۔ میں تمہارے بیٹے کی پڑھائی کے اخراجات برداشت کروں گا لیکن انہوں نے اس پیش کش کو رد کر دیا۔ بولے …… میں خود بیٹے کی پڑھائی کے اخراجات برداشت کرلوں گا۔
فیض کی کامیابی کی خوشی میں والد صاحب نے نہر کے کنارے دعوت کا اہتمام کیا۔ عورتوں میں امی اور میری سہیلیاں بھی آئیں۔ فیض اور اس کے والدین کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ تب جانے کیا مجھے سوجھی کہ میں نے اپنا دوپٹہ نہر میں پھینک دیا اور شور مچانےلگی کہ میری سہیلی کو بچاؤ اس کا پاؤں پھسل گیا ہے، وہ نہر میں گرگئی ہے ۔
عورتیں ایک طرف تھیں اور مرد دوسری طرف تھے اور سب کھانا کھا رہے تھے ۔ شور سن کر مرد اٹھ کر ہماری جانب آۓ۔ سب سے آگے فیض تھا۔ میں نے پریشانی کی ایکٹنگ کرتے ہوۓ نہر کی طرف اشارہ کیا کہ میری سہیلی کو کوئی بچاۓ۔ تب ہی فیض نے آنا فانا سوچے سمجھے بغیر نہر میں چھلانگ لگادی ۔
نہر کافی گہری تھی ، اس نے سر کے بل غوطہ لگایا تو اس کا سر پتھر ایسی کسی شے سے ٹکرایا اور وہ کافی دیر تک سطح پر نہ ابھر سکا تو دوسرے لوگوں نے بھی چھلانگیں لگا دیں۔
وہ اب دو ڈوبنے والوں کو ڈھونڈ رہے تھے۔ کافی دیر بعد انہوں نے فیض کو نہر سے نکالا۔ کنارے پرلٹایا مگر وہ کافی زخمی تھا۔ البتہ میری سہیلی کا جسد نہ ملا …… ہوتا تو ملتا کیونکہ میں نے تو جھوٹا واویلا کیا تھا۔ سب سہیلیاں صحیح سلامت کنارے پر موجود تھیں۔ ابو اور کچھ دوسرے لوگ فیض کو گاڑی میں ڈال کر شہر کے اسپتال لے گئے ۔
اس کی حالت خطرے سے باہر نہ تھی، بڑی مشکل سے جان بچی مگر وہ شدید زخمی ہوا تھا۔ ایک ماہ اسپتال میں رہا۔ امی ابو با قاعدگی سے اس کو دیکھنے جاتے تھے۔ میں بھی دعائیں مانگتی تھی۔ خدا کرے وہ صحت یاب ہو جاۓ ، خود کو ہر دم کوستی تھی کہ جانے کیوں میں نے ایسی حرکت کی ۔ ایسا مذاق کر ڈالا کہ اب ہاتھ مل رہی تھی۔ یہ میں نے کیا کیا اور کیوں کیا؟
میں پہلے بتا چکی ہوں کہ فیض کے چچا کا گھر ہمارے پڑوس میں تھا اور وہ ایک مربع زمین کا مالک تھا۔ جب فیض صحت یاب ہوا۔ اس کے چچانے گھر پر دعوت کا انتظام کیا اور دعا کرائی۔ وہ اپنے چچا کے گھر آیا۔ میں تو پہلے ہی اس کے آنے کے انتظار میں بیٹھی ہوئی تھی اور جب اس نے میری چھوٹی بہن کے کہنے پر زخم دکھایا تو میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ سر کے علاوہ اس کے سینے پر گھاؤ آیا تھا۔
میں دوڑ کر وہاں سے نکلی اور اپنے گھر آ کر بہت روئی کیونکہ وہ میری حماقت کی وجہ سے زخمی ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد میں دوبارہ وہاں گئی تا کہ اس کو دیکھوں۔ اس وقت وہ لڑکیوں میں گھرا ہوا تھا، جو اس سے باتیں کر رہی تھیں ۔اس کی چاچا زاد بہنیں، دوسری کزنیں اور ان کی سہیلیاں ۔ یہ نظارہ دیکھ کر میں برداشت نہ کر سکی۔ مجھ کو اس کا لڑکیوں سے باتیں کرنا برا لگا…. اور جو ہمدردی کچھ دیر پہلے ابھری تھی ، وہ یک بارگی نفرت میں بدل گئی۔
وہی کیفیت پھر مجھ پر طاری ہوگئی کہ تنہائی میں اس کی کمی محسوس کرنا اور سامنے ہو تو غصہ میں آ جانا۔ اس کے برعکس وہ جب مجھ کو دیکھتا …… اس کے چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ۔عزت بھری نظروں سے بات کرتا۔ اس کی حالت اس مسافر کی طرح ہوتی جو پلیٹ فارم پر کھڑا گاڑی کا انتظار کرتا ہے اور گاڑی آنے پر اس میں سوار نہیں ہوتا۔ شاید جیب میں ٹکٹ نہیں ہوتا … تب ہی مسکراہٹ آمیز متلاشی نظروں سے ہر طرف دیکھتا ہے۔
میں جانتی تھی کہ اس کی منتظر اور بھی کئی لڑکیاں ہیں مگر وہ سب کو نظر انداز کر کے صرف مجھ کو تلاش کرتا۔ انہی دنوں فرحان بھی لندن سے پڑھ کر آ گیا۔ اس نے آتے ہی میرا پوچھا، پھر وہ میرے اردگرد رہنے لگا۔ اپنی ماں سے بار بار کہنے لگا، میں نے سارا لندن دیکھ ڈالا مگر اس جیسی کوئی نہیں ہے۔ میری یہی عم زاد میری منگیتر تھی اور اب یہی میری جیون ساتھی بنے گی۔
جن دنوں فرحان آیا۔ فیض اپنے میڈیکل کالج چلا گیا تھا۔ وہ پڑھائی میں مصروف تھا اور فرحان مجھ کو لبھانے میں لگا تھا کہ ماجدہ تم ہاں کر دو۔ منگنی ٹوٹ سکتی ہے۔ فیض کی اوقات ہی کیا ہے جبکہ میں تمہارا چچازاد ہوں ،تمہارامنگیتر تھا اور اب پھر سے تم کو پانے کی آرزو ہے۔ یہ کوئی دشوار بات نہیں ،بس تم ایک بار اپنے والد سے کہو کہ تم کو فیض نہیں، میں پسند ہوں اور تم مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو۔
میں نے فیض کو امتحان میں نہیں ڈالا تھا مگر فرحان نے مجھے امتحان میں ڈال دیا۔ اس نے اتنا میرا سر کھایا کہ آخر کار مجھے امی ابو سے کہنا ہی پڑا کہ مجھے فیض پسند نہیں ہے۔ جب میں نے کافی رونا دھونا ڈالا تو امی ابو کو میری خوشی کے لئے فیض سے رشتہ توڑنا ہی پڑا اور میری بات انہوں نے مان لی۔
فیض پر جو گزری وہی جانے مگر میں بھی کچھ نیم مردہ سی ہوگئی۔ فرحان کی خوشی پوری ہوگئی ،مگر میں جس خوشی کو پانا چاہتی تھی ، وہ مجھے نہ مل سکی۔ فرحان نے مجھے چند دن خوش رکھا، پھر وہ عیش کی دنیا میں کھو گیا۔ مجھ کو گھر میں ایک فالتو شے سمجھ کر رکھ گیا اور بھول گیا۔ وہ چھ ماہ ہی ٹھیک رہا اور دوبارہ لندن چلا گیا۔ کبھی لوٹ کر نہ آنے کے لئے ۔ میری زندگی ویران کرنے آیا تھا ،سوویران کر کے چلا گیا اور میں آج بھی جانے والے کے لوٹ آنے کی آس میں جی رہی ہوں۔
میری منگنی ٹوٹی تو چچا دین احمد نے اپنی زمین فروخت کر دی اور وہ شہر چلے گئے جہاں فیض پڑھ رہا تھا۔انہوں نے گاؤں سے ناتا توڑ لیا،شاید غریب کسان لوگ ہم امیروں سے ناتا توڑ کر دنیا کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہے تھے۔ فیض نے طب کی تعلیم مکمل کر لی ، اس نے بہت محنت سے پڑھا، اس کے چچانے کافی مدد کی اور وہ مزید اعلی تعلیم حاصل کرنے انگلینڈ چلا گیا۔ جب تعلیم مکمل کر کے لوٹا تواس نے اپنے چچا کی بیٹی سے شادی کر لی۔
آج وہ ایک بڑا ڈاکٹر ہے اور شہر میں نہایت خوش و خرم زندگی بسر کر رہا ہے جبکہ میں خانماں برباد گاؤں میں پڑی ہوں ۔ سچ ہے کہ جوہری ہی ہیرے کی قدر جانتا ہے۔ میری والد صاحب جوہری تھے مگر میں نہ تھی۔ تب ہی زمینداری کے غرور میں ایک کسان کے بیٹے کا رشتہ ٹھکرا کر میں نے اپنے جیون میں اندھیرے بھر لئے۔

Latest Posts

Related POSTS