Friday, February 14, 2025

Jhanda Ki Panaah Mein

یہ چودہ اگست کا دن تھا اور میں اس دن ان کے پاس ضرور جاتی تھی۔ وہ ہمیشہ یوم آزادی کو بچوں میں مٹھائی تقسیم کیا کرتی تھیں۔ طویل عرصے سے یہ ان کا معمول تھا، بعید میں انہوں نے مٹھائی تقسیم کرنا بند کر دی تھی۔ اب وہ آزادی کے روز امی اور مجھے بلا لیتی تھیں کیونکہ یہ ان کی زندگی کا اہم ترین دن تھا۔ اس دن اُن کے ذہن میں بھی یادوں کے پٹارے کھل جاتے تھے۔ خالہ ہمارے پڑوس میں عرصہ سے تنہا رہتی آرہی تھیں، مگر اب بڑھاپے نے ان کو پچھاڑ دیا تھا۔ کوئی نہ تھا، جو بیماری میں دو گھونٹ پانی ان کے منہ میں ڈالتا۔ میں کبھی کبھی ان کی مزاج پرسی کر آتی تھی، کیونکہ پڑوسی ہونے کے ناتے ہمارا بھی کچھ فرض بنتا تھا۔ خالہ جی نے ساری زندگی محنت مزدوری میں گزاری تھی مگر اب ہاتھوں میں دم نہ رہا تھا۔ آج وہ دو وقت کی روٹی کے لئے ہمسایوں کی محتاج ہو چکی تھیں۔ اب وہ کتاب زندگی کے پھڑ پھڑاتے اوراق کو تنہا نہیں سنبھال پاتی تھیں، تبھی ہمیں آواز دے کر بلا لیتیں۔ آج جب میں گئی، تو وہ چار پائی پر ساکت لیٹی تھیں ۔ وہ پاکستان کے جھنڈے کو نکال کر چومتی تھیں اور پھر تمام دن منڈیر پر لہرانے کے بعد شام کو دوبارہ اپنے پرانے بکسے میں رکھ دیتی تھیں۔ آج بھی یہ جھنڈا انہوں نے بکسے سے نکالا ہوا تھا ، مگر یہ اُن کے اوپر دوپٹے کی طرح پڑا ہوا تھا۔ میری نظر اس پر پڑی، تو میں نے سوال کیا۔ خالہ جی! آپ چودہ اگست کو یہ جھنڈا منڈیر پر کیوں لگا دیتی ہیں ؟ نہیں پتر ! اب میں ایسا نہیں کرتی۔ بس کبھی کبھی اسے نکال کر ، اس سے آنسو پونچھ کر رکھ دیتی ہوں، لگائی نہیں۔ یہ ہوا سے پھڑ پھڑاتا ہے ، تو میرے اندر سے سانپ نکل آتے ہیں اور مجھے ڈسنے لگتے ہیں۔ پانچ سال پہلے ، آخری بار لگایا تھا۔ مرنے لگوں، تو اسے میری میت پر ڈال کر مجھے دفن کرنا۔ اپنی یادیں دوہرائیے خالہ جی! آپ کی باتیں تو تاریخ کا حصہ ہیں۔ میں چاہتی تھی کہ وہ کچھ کہیں تاکہ ان کے دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہو جائے۔

تو سنو بیٹی ! جس روز ہمارے گاؤں میں غدرمچا، میں چھت پر کھڑی یہی جھنڈا لگارہی تھی۔ شور بڑھا تو میں نے اوپر سے جھانکا۔ نیچے بھاگ دوڑ مچی ہوئی تھی، تبھی میں نے جھنڈا اتار کر اپنے سر پر ڈال لیا۔ پتا نہیں، میں نے یہ کیوں نہ سوچا کہ میرے گھر والے کہاں ہیں اور نیچے کیا ہو رہا ہے ؟ وہ وقت ہی ایسا تھا۔ گاؤں میں لوٹ مار ہو رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے کئی مکانات جلنے لگے اور میں شعلوں میں گھر گئی، تو یکلخت دوڑ کر صحن کی طرف جانے کے بجائے پچھواڑے کی طرف آ گئی۔ گاؤں میں گھروں کی دیواریں نیچی ہوتی ہیں۔ میں دیوار سے کودی اور ایک طرف دوڑ پڑی۔ راستے میں بہت سی لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ یہ اُن مسلمانوں کی تھیں، جنہوں نے کہا تھا کہ کوئی مسلمان اپنا ایمان تین رپوں میں نہیں بچے گا۔ میں جان گئی تھی کہ میرے گھر والے بھی مارے جا چکے ہیں۔ اب میرے لئے کوئی جائے پناہ نہ رہی تھی۔ گاؤں سے نکلی تھی کہ اچانک سامنے سے تین سکھ آ گئے۔ ایک نے مجھے دبوچ لیا۔ میں اکیلی اور وہ تین مرد بہت روئی،  مگر وہ شرم کی حدود سے آگے نکل گئے تھے۔ ایک نے مجھے کندھے پر اٹھایا اور چل پڑا، تبھی میں بے ہوش ہو گئی۔ آنکھ کھلی تو ایک چارپائی پر پڑی تھی اور دماغ چکر ارہا تھا۔ جسم تو ٹوٹ پھوٹ گیا تھا، لیکن یہ جھنڈا میرے پاس پڑا تھا۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا اور اٹھ کر دروازے کو ہاتھ لگایا، وہ باہر سے بند تھا۔ بہت دیر بعد ایک شخص آیا۔ اس کے ہاتھ میں دودھ کا پیالہ اور روٹی تھی۔ میں اسے دیکھ کر چیخنے لگی۔ اس نے مجھے اٹھا کر پیارسے سمجھایا کہ تم یہاں سے بھاگ نہیں سکو گی ، بہتر ہے کہ سکھ بن جاؤ۔ اسی طرح اس نے باتوں باتوں میں مجھے روٹی کھلا کر دودھ پلایا، جس سے میرے جسم کچھ جان آ گئی اور دماغ سوچنے کے قابل ہو گیا، لیکن میں نے ان کا مذہب قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد میں اُن کے ہاتھوں کھلونا بن گئی۔

انہوں نے مجھے قید کر رکھا تھا۔ وہ شراب کے نشے میں بدمست ہو کر آتے اور مجھے کہتے کہ میں ان کا دھرم اپنا لوں، تو ہی کوئی سکھ مجھ سے شادی کرے گا، ورنہ اس طرح کھلونا بنی رہوں گی، لیکن میں کہتی تھی کہ بے شک میں کسی سکھ سے شادی کر لیتی ہوں، مگر اپنا دین نہیں چھوڑوں گی۔ مجھے دن رات کا کوئی احساس نہیں تھا۔ نہ یہ علم تھا کہ کتنے دن گزر گئے ہیں۔ ان صیادوں کا کہنا تھا کہ تم گھبراؤ نہیں ، یہاں تم اکیلی نہیں ہو۔ ہم نے یہاں سے کسی مسلمان لڑکی کو جانے نہیں دیا۔ اب بہت سی لڑکیاں سکھ ہو گئی ہیں اور جنہوں نے تمہاری طرح اپنا مذہب نہیں چھوڑا، وہ کئی کئی سکھوں کی بیویاں بنی ہوئی ہیں۔ تم مان جاؤ اور کسی ایک گھر میں عزت سے رہو۔ میرا یہی جواب تھا کہ میں اپنا مذہب نہیں چھوڑوں گی ، چاہے تم لوگ مجھے قتل کر دو۔ ایک دن صرف ایک آدمی آیا۔ یہ کافی موٹا اور بھدا شخص تھا، جس کی کمر کے ساتھ     کرپان لٹک رہی تھی۔ وہ اس قدر نشے میں مست تھا کہ اس سے صحیح طرح چلا بھی نہیں جا رہا تھا۔ اس نے مجھے دیکھ کر قہقہہ لگایا اور پلنگ پر گر گیا، تبھی میں نے پک کر اس کی کرپان نکالی اور پوری قوت سے اس کے سینے میں گھونپ دی۔ وہ نشے میں تھا اور میں غصے اور بے بسی کی آگ میں جل رہی تھی۔ یہی انتقامی جذبہ میری طاقت بن گیا۔ کرپان اس کے سینے میں عین اس جگہ اتر گئی، جہاں پسلیاں تھیں۔ اس کے منہ سے ہلکی سی آواز نکلی اور وہ کرپان کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر میرے وار کے دھکے سے پیچھے ہٹا۔ میں نے کرپان کو اس کے اوپر اور زیادہ دبا دیا۔ وہ اس کے دل میں اترتی چلی گئی۔ نشے نے اس کے ہاتھ پاؤں ڈھیلے کر دیئے تھے۔ وہ ایک طرف گر پڑا تھا۔ میں نے کرپان اس کے جسم میں ہی چھوڑ دی۔ دروازے پر زنجیر لگی ہوئی تھی۔ اسے کھولا تو اپنے جھنڈے پر نگاہ پڑی ، جو اس روز میں نے دوپٹے کی طرح اوڑھ لیا تھا۔ میں نے جھک کر فرش سے جھنڈا اٹھایا اور دوپٹے کی طرح اوڑھ کر باہر آ گئی-

یہ کوئی ویران مکان تھا۔ کسی مسلمان کا رہا ہو گا۔ صحن سے نکلی تو باہر کی تازہ ہوا لگتے ہی میرا دماغ صاف ہو گیا اور میں نڈر ہو گئی۔ گویا اپنی جان کی کوئی قیمت ہی نہیں رہی تھی۔ معلوم نہیں کیا وقت ہو گا؟ گلی لیکن سنسان پڑی تھی۔ میں چلتی چلی گئی۔ مجھے نہیں معلوم تھا۔ که پاکستان کس طرف ہے ؟ سمت کا اندازہ نہیں کر سکتی تھی۔ چلتے ۔ چلتے میرے پیر تھکنے لگے تو ایک جگہ رک گئی اور اللہ سے مدد طلب کی، تو یقین ہو گیا کہ اللہ نے مجھے راستہ سمجھا دیا ہے۔ ابھی سوچ بچار کے بھنور میں تھی کہ کچھ لوگوں کی آواز میں سنائی دیں۔ میں چھپنے لگی قریبی درخت کی طرف گئی، وہاں لکڑی کی کھرلی پڑی تھی، جس کے نیچے لکڑی کے پہیے لگے تھے۔ میں اس میں لیٹ گئی۔ دو آدمی میرے قریب سے گزرے۔ وہ سکھ تھے اور لوٹ مار اور مسلمان لڑکیوں کی آبروریزی کی شرمناک باتیں کر رہے تھے۔ ڈریہ تھا کہ یہ وہی سکھ نہ ہوں جنہوں نے مجھے قبضے میں رکھا ہو ا تھا۔ جب وہ آگے چلے گئے ، تب میں کھرلی سے باہر نکلی۔ اس وقت میری کیفیت کیا تھی ، کیا بتاؤں ؟ اللہ توکل، ایک سمت کارخ کر لیا تھا۔ اس وقت دل بس یہی چاہ رہا تھا کہ اس گاؤں سے دور نکل جاؤں۔ جب خاصی فاصلہ طے کر لیا تو دوڑنے لگی۔ کھیتوں پر پاؤں دھنستے تھے۔ مکمل دوڑا نہیں جاتا تھا۔ اندھیرے میں دھان کی کھیت میں جا پھنسی اور گھٹنوں تک کیچڑ میں دھنس گئی تو   کسی طرح دقت سے نکلیتو پگڈنڈیوں پر چلنے لگی۔ ذرا آگے پہنچی تھی کہ بدبو سے دماغ پھٹنے لگا۔ ایسی بدبو کسی مردار کی ہو سکتی تھی۔ تب میں پگڈنڈی پر دوڑنے لگی۔ تھکن سے ایک جگہ ٹھوکر لگی اور میں گر گئی۔ یہاں بد بو بہت زیادہ تھی۔ اٹھنے لگی تو محسوس ہوا کہ میں کسی مرے ہوئے انسان یا مردہ جانور سے ٹھو کر کھا کر گری تھی-

جھک کر غور سے دیکھا تو ستاروں کی روشنی میں مجھے ایک لاش نظر آئی۔ ادھر اُدھر بغور دیکھا، تو اطراف میں بھی لاشیں پڑی دکھائی دیں۔ معلوم نہیں کتے تھے ، گیدڑ یا کوئی جانور ، جو ان لاشوں کو کھا رہے تھے۔ وہ اپنے کام میں اس قدر مشغول تھے کہ انہوں نے میری موجود گی کا بالکل بھی نوٹس نہیں لیا۔ کیسے بتاؤں کہ لاشوں کے درمیان میرے دل و دماغ کا کیا حال ہوا ہو گا، مگر اتنا بتانا چاہتی ہوں کہ یہ پاکستان کے نام پر قتل ہونے والے لوگوں کی لاشیں تو تھیں کہ جن کی ہڈیاں ؟ بھی اب تو ہندوستان کی مٹی میں مل گئی ہوں گی اور جو اس پاکستان کو کو دیکھ بھی نہ سکے، ، جس کی خاطر کٹ مرے تھے۔ انہیں کفن نصیب نہ ہوا اور نہ قبر اور ان کا جنازہ بھی کسی نے نہیں ….یہ کہتے ہوئے خالہ جی کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ وہ بولیں۔ بیٹی ! کیسے میں اس ملک کے لوگوں کو بتاؤں کہ جنہوں نے صداقت اور دیانت سے دوری اختیار کر لی ہے اور یہاں عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جن کو اپنے بڑوں کی قربانیاں یاد نہیں رہیں کہ اس زمین کی جڑوں میں غریب کسانوں کی ہڈیاں دفن ہیں اور تم نے اونچی اونچی عمارتیں کھڑی کر کے ان بدنصیبوں کو بھلا دیا۔ جو اپنے بچوں اور بیٹیوں کی عصمتیں قربان کر کے موت کے راستوں پر پا پیادہ چل کر یہاں تک پہنچے تھے ، ان کی زبانی ان کی داستانیں سنو، تو پتا چلے گا کہ اس ملک کے لئے مسلمانوں نے بڑی قربانیاں دی تھیں۔ آج ہمیں اس وطن کی قدر نہیں ہے۔ خالہرورہی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ پاکستان پاک ملک ہے اور میں دشمنوں کی ناپاک کی ہوئی عورت ہوں۔ اس لفظ میں جو طنز اور شکوے تھے ، اس کا زہر صرف خالہ س لٹی ہوئی عورت ہی محسوس کر سکتی تھی۔

وہ کہہ رہی تھیں کہ میں لاشوں سے ٹھوکریں کھاتی چلی تھی اور رات رات میں ہی پاکستان پہنچنا چاہتی تھی۔ اب میرے سامنے کوئی کھیتی نہ تھی۔ میں دوڑتی جارہی تھی، پھر پگڈنڈی آ گئی اور میں اس پر اپنے اللہ کو بار بار پکار رہی تھی، جس کی ذات مجھے یقین دلا رہی تھی کہ میں ٹھیک راستے پر جارہی ہوں۔ دوڑتے دوڑتے ٹانگیں اکڑنے لگیں اور پیاس سے منہ کھل گیا کہ چلنا محال ہو گیا، مگر مجھے چلنا  تھا ، سو چلتی رہی بلکہ پاؤں گھسیٹنے لگی۔ بہت دور جا کر ایک جوہڑ نظر آیا تو اس سے پانی پیا۔ وہاں سے کوئی نصف کوس گئی تھی کہ اونچی نیچی جگہ آگئی، جہاں لمبی لمبی گھاس اور جھاڑیاں تھیں۔ وہاں مجھے ایک عورت کی آواز سنائی دی۔ میں نے اس کی آہ وزاری پر سکھوں کی مکروہ ہنسی بھی سنی تھی، تبھی خوف سے ایک جھاڑی سے لگ کر بیٹھ گئی۔ وہ مجھ سے زیادہ دور نہیں تھے اور میں تھر تھر کانپ رہی تھی، تبھی عورت کی بھیانک چیخ بلند ہوئی اور پھر وہ خاموش ہو گئی۔ میں اندھیرے میں جھاڑیوں کی اوٹ میں دیکھ رہی۔ وہ لوگ اپنا کام کر کے چلے گئے تھے۔ ان کے قدموں کی آہٹ آہستہ آہستہ مجھ سے دور ہوتی گئی اور جب وہ بہت دور چلے گئے، تو میں اٹھ کر چل دی۔ عورت کی لاش میرے راستے میں پڑی تھی، مگر میں رکی نہیں، چلتی گئی۔ دل میں کہا کہ اے عورت تو خوش قسمت ہے کہ مر گئی۔ اس کے بعد میری ہمت جواب دے گئی۔ بس اتنا یاد ہے جیسے میں خواب میں چلتی رہی ہوں۔ چلتے چلتے اونگھنے لگتی اور جھٹکا سا لگتا تو بیدار ہو جاتی، پھر اسی طرح کتنی ہی دور چلتی جاتی۔ اس عورت کی لاش سے آگے مجھے بالکل یاد نہیں کہ میرے قدموں میں کھیتیاں تھیں، جھاڑیاں تھیں یا کانٹے ؟ میرا جسم ایک روبوٹ کی طرح چلتا جارہا تھا۔ بھوک، نیند اور پیاس کا کوئی احساس نہ تھا۔ ایک جگہ بیدار ہوئی تو چل نہیں پارہی تھی، بس زمین پر اوندھے منہ پڑی تھی۔ شاید چلتے چلتے گر پڑی تھی۔ اپنے جسم کا بوجھ اٹھانا محال ہو گیا۔ تب میں ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل چلنے لگی۔ رات کا اندھیرا ابھی بہت گہر ا تھا۔ تھوڑی دور جا کر میں تھک کر بیٹھ گئی، مگر موت کے خوف نے پھر چلنے پر مجبور کر دیا۔ ٹانگیں لکڑی کی ہو گئی تھیں۔ جہاں ٹانگیں شل ہو جاتیں وہاں گھٹنوں کے بل چلنے لگتی۔ مجھے یاد نہیں آرہا کہ میں نے کتنا فاصلہ طے کیا اور کس سمت کیا۔ اتنا یاد ہے کہ اب ہر قدم پر ایک لاش پڑی تھی۔ لاشیں خراب ہو رہی تھیں ، اس لئے بد بو بہت زیادہ تھی۔ میں اب کچھ بھی نہیں سوچ سکتی تھی، سوائے اس کے کہ رُکی تو سکھ اٹھا کر لے جائیں گے۔ خالہ جی ! کیا آپ کو پاکستان کی محبت چلنے پر مجبور کر رہی تھی ؟ میں نے درمیان میں سوال کر دیا۔ بیٹی، میں اس سوال کا جواب نہیں دے سکوں گی۔ بس مجھے اتنا یاد ہے کہ جب تھوڑی روشنی ہوئی تو چار پانچ سو گز دور ایک گاؤں کے کالے کالے خدوخال نظر آئے، لیکن یہاں بھی لاشیں نظر آئیں۔ بچوں، عور توں بوڑھوں اور جوانوں کی لاشوں کی حالت کیا تھی ؟ یہ بتانے کو میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ میں انہی مسخ شدہ جسموں کے درمیان سے گزرتی جارہی تھی۔ اگر کوئی مجھے دیکھتا، تو یہی کہتا کوئی بے جان لاش چل رہی ہے۔ چلتے چلتے تھکن سے جب مجھ پر غنودگی طاری ہوئی تو میں گر گئی، پھر پتا نہیں کیا ہوا۔ میں جہاں گری تھی، اچانک ہی میری آنکھ کھل گئی۔ اب سورج نکل آیا تھا۔ دھوپ کو دیکھتے ہی میں ڈر گئی کیونکہ میں چھپ نہیں سکتی تھی۔ میں سڑک کے کنارے پڑی تھی، ادھر اُدھر گاڑیاں تھیں، جن میں باوردی لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے دو میرے قریب آئے۔ مجھے سہارا دے کر پانی پلایا اور کہا کہ چلو گاڑی میں بیٹھو۔ یہاں سے پاکستان بہت قریب ہے۔ وہ مجھے لے آئے ، دو دن کیمپ میں رکھا، پھر لاہور لائے۔ میرے ساتھ سماجی کارکن خواتین تھیں۔ لاہور میں میرے بارے میں اعلانات ہوئے تو میرے ایک چچا زاد کا پتا چل گیا۔ قافلے میں وہی زندہ بچ کر آئے تھے۔ ان کا نام شفیع تھا۔ وہ مجھے لینے آئے۔ میں اُن سے لپٹ گئی اور بہت روئی۔ مجھے خوشی تھی کہ ہمارے خاندان کا کوئی ایک فرد تو زندہ ملا ہے۔ انہوں نے بھی بخوشی مجھے قبول کیا۔ شفیع اس ٹرین میں آئے تھے ، جس میں بہت زیادہ قتل و غارت گری ہوئی تھی۔ یہ خونی مناظر انہوں نے  اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے لیکن جب میں نے خود پر گزری ان کو سنائی تو وہ بھی رو پڑے تھے۔ شفیع نے ہاتھ پاؤں مار کر ایک گھر الاٹ کروا لیا، پھر مجھ سے نکاح کیا۔ ہم نے چند دن ہنسی خوشی گزارے۔ خدا نے ایک بیٹا بھی دیا، مگر بعد میں وہ فوت ہو گیا۔ ایک دن شفیع کو اطلاع ملی کہ کہ ان کی بہن اور ماں زندہ ہیں اور کسی سکھ کے گھر میں ہیں۔ وہ مجھے چھوڑ کر ان کی بازیابی کی مہم پر چلے گئے ، مگر واپس نہیں لوٹے۔ خدا جانے ان کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ بتانے والا کوئی نہیں ہے۔ ان کی اماں اور بہن، ملیں یا نہیں ؟ وہ خود بھی زندہ ہیں یا اس دنیا سے چلے گئے ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب اللہ ہی جانتا ہے ، مگر میں نے ان کے لوٹنے کی آس میں زندگی گزار دی۔ آج جوں توں زندگی کے دن پورے کر رہی ہوں۔ بیٹا زندہ ہوتا، تو شاید وفا کرتا۔ اے کاش ایک بیٹی ہی ہوتی۔ سنا ہے، بیٹے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں، مگر بیٹیاں دکھ سکھ میں ساتھ دیتی ہیں۔ خالہ جی ! مجھے اپنی بیٹی ہی سمجھو، کیوں جی چھوٹا کر رہی ہو۔ وہ بولیں۔ ہاں، تم بیٹی ہی ہو، تبھی میرے پاس آجاتی ہو ، ورنہ اتنی فرصت کسے ہے۔ خالہ کی بات کہی تھی۔ اس دن کے بعد میں ایک ماہ تک ان کے پاس نہ جا سکی۔ میرے پیپر ہو رہے تھے۔ ایک دن خالہ کی روح قفس عصری سے پرواز کر گئی۔ جب پڑوسن کھانا دینے گئی، تو وہ ان ضروریات سے بے نیاز اپنے خالق حقیقی کے پاس جا چکی تھیں۔ جب محلے والے ان کو دفنانے لگے تو مجھے خیال آیا کہ انہوں نے کہا تھا کہ اس پرچم کو میرے اوپر ڈال کر دفنانا۔ تب میں نے ان کے بکسے میں سے جھنڈا نکال کر ان کی میت پر ڈال دیا، پھر خالہ منوں مٹی میں چلی گئیں اور تاریخ کا ایک باب دفن ہو گیا۔ کاش ہم ایسے افراد کے سینے میں دفن واقعات کو سنیں، جو ابھی زندہ ہیں کیونکہ یہ تاریخ کا حصہ ہیں۔

Latest Posts

Related POSTS